امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اہل بیت پیامبر سے مراد کون ؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

دینی پیشوائی اور امت کی رہبری کے مسئلہ میں اہل بیت سے مراد آنحضرت کے خاندان میں سے وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد لوگوں کا دینی پیشوا اور امام تھے.
اس مطلب پر دو دلیلیں  :

الف:  حدیث ثقلین :

اهل بیت پیامبر کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایکحدیث، حدیث الثقلین کے نام سے مشہور ہے اور سبھی معتبر منابع حدیث بمع صحاح ستہ میں یه حدیث متفق علیہ اورقابل وثوق حدیث کے طور پر مذکور ہے  یه حدیث کئی طریقوں سے نقل ہوئی ہے - صحیح ترمذی میں ہے کہ زید بن ارقم نے روایت کیا کہ ؛ ترجمہ؛ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک چیز اللہ کتاب ہے جو اسکی رسی کی مانند آسمان تا زمین ممدود ہے  اور دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں، اور دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتّی کہ حوض کوثر پر مجھ سے آن ملیں گے،  اب میں دیکھتا ہوں کہ کہ (بھلا) تم ان کے بارے میں میری وصیت پر  کیسے عمل  کرو گے
اس حدیث میں موجود  دو  نکتے :


الف : اسحدیث میں لفظ ’’عترتی اهل بیتی‘‘ اسماوصل ہوا ہے،عترت کا لفظ کسی صورت میں بھی ازواج کو شامل نہیں کرسکتا ، اسی لئے  بعض لوگ اس[عترتي أهل بيتي] والی حدیث کو ذکر  کرسے کتراتے ہیں.


ب : حدیث کا مفہوم اور معنی  خود اس بات پر شاہد ہے کہ  اہل بیت پیامبر سے مراد وہی لوگ ہیں کہ آنحضرت نے اس حدیث  میں جنکی اطاعت کا حکم دیا اور انہیں اپنے بعد  امت کے لئے دینی پیشوا  کے طور  پر   متعارف فرمایا اور  آنحضرت نے   اس مسئلہ کو امت کی دینی پیشوائی کے مسئلہ کے ساتھ جوڑنے کے ذریعہ   ہر  قسم کی غلط تفسیر  کرنے والوں کے آگے بند  باندھ  دیے ، اسی لئے اہل بیت سے  وہی لوگ مراد ہیں  جو دین کی حفاظت اور دین کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار اور اہل ہوں .لہذا  رسول  پاک کے گھر والوں  میں  اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے،اہل بیت پیامبر  (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں.انکی پیروی اور اطاعت  امت پر واجب ہے۔
اس بنا پر   ان احادیث  کااصلی مفھوم اور مقصود کے مطابق احادیث  کے مصداق پیدا کرنے کی  بجاے صرف  لغت یا دوسرے استعمالات  کے اعتبار سے اس لفظ کی تفسیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اس جہت  سے   صرف لغوی اور عام استعمالات کی بنا  پر ازواج  کے اس میں شامل ہونے یا نہ ہونے سے بحث یہاں معنی  نہیں رکھتی ۔

ب:  آیہ تطہیر   اور اسکا شان نزول :

{إِنَّمَايُرِيدُاللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا } [الأحزاب: 33]
اس آيه شریفه کے شان نزول کے سلسلے میں  نقل هوا ہے کہرسول گرامي«ص»نے حضرت علي، حضرت فاطمه، حضرت حسن و حسين«ع»کو یمنی چادر میں جمع کرنے کے بعد دعا کی: ”خداوندا! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔« اللهم هؤلاء أهل بيتي »(2)
ام سلمہکہتی ہے کہ میں نے آنحضرت سے سوال کیا ؛یا رسول اللہ! کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں؟“پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے  ام سلمہ! تم  ازواج میں شامل ہواور یہ نہیں فرمایا ؛ تم میری اہل بیت میں سے ہو“(3)
ایک اور نقل کے مطابق  ام سلمہ کہتی ہے’’میں نے جب چادر  اٹھائی  تاکہ میں بھی اس میں داخل ہو جاؤں  تو  آپ نے چادر کو میرے ہاتھ سے کھنچک کر فرمایا ؛ تم خیر پر ہو(4)
اسی لئے  جناب ام سلمه کہا کرتی تھی؛اگر آپ میرے سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیتے تو یہ میرے لئے  زمین پر موجود تمام چیزوں سے اہم تھا (5) -جیساکہ  پیغمبر اسلام (ص)نے کئی دوسرے مقامات پر بھی  اس آیت کامصداق  انہیں لوگوں کو  بیان فرمایا ہے۔
مثلا : اس آیہ ٴشریفہکےنازلہونےکے بعد بعض روایات کے مطابق ۹ مہینے تک نماز صبح کے وقت پیغمبر اکرم (ص) جب در ِفاطمہ زہرا سے گزرتے توآیہتطہیر کی تلاوت  کرتے ہوئےفرمایا کرتے تھے: اے اہل بیت نماز کا وقت ہے(6)
چنانچہ نجران کے عیسایوں کے ساتھ مباہلہ کے  وقت بھی آنحضرتانہی ہستیوں  کو لے کر میدان میں گئے اور  آیہ تطہیر کی تلاوت کرتے ہویے فرمایا «اللهم هولاء اهل بيتي(7)
لہذا اگرچہ اہل بیت کا معنی،ٰ لغت کے حوالے سے وسیع اور عام ہے،لیکن قرآن مجید کی جو آیات اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرتی  ہیں خصوصاآیہ تطہیرکا  مصداق صرف اہل بیت اطہار ہیں، ازواج اس میں شامل نہیں، اسآیت کےشان نزول میں نقل شدہ احادیث  اور  پیغمبر  اکرم کا اس سلسلے  میں  خصوصی اہتمام  اس مطلب  پر روشن گواہ ہیں   کہ  آنحضرت (ص)  یہ بات بالکل واضح کرناچاہتے تھے کہ ”اہل بیت پیامبر“ سے مراد  کون لوگ ہیں ، تاکہ کسی کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے،
لیکن واقعاً تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ قرآن اور سنت کے مطابق عقیدہ بنانے کی بجاے ،قرآن اور حدیث کی تفسیر اپنے عقائد کے ذریعہ سے کرنے اور  اپنے عقیدہ کو قرآن اور سنت کی تفسیر کے لئے میزان قراردینے کی کوشش کرتےہیں ، جب خود رسول خدا فرمارہے ہیں  کہ میری اہل بیت صرف یہی لوگ { حضرت علی ، فاطمہ حسن اور حسین }ہیں اور  ازوج کا  اہل بیت  میں ہونے سے انکار فرمایا  اور ازواج یہ تمنا کرتی تھیں کہ  ای کاش پیغمبر ہاں کہہ دیتے، تو پھر  اہل بیت پیامبر  کے مصداق کے بارے  میں پیغمبر کیتفسیر  اور بیان کے خلاف کسی کو بھیبات کرنے کا حق نہیں ہے ، آپ  سے بڑھ کر کوئی دین  سے آشنا اور  قرآن کی تفسیر کرنے والا نہیں ہوسکتا ، خدا نے تفسیر کی ذمہ داری آپ کے  ذمہ قرار دیا ہے(8)لہذا شیعہ بھی رسول پاک کی تفسیر کے مطابق ازواج کو اہل بیت کا مصداق  نہیں سمجھتے اور  انکا یہ   عقیدہ قرآن  و سنت کے مطابق ہے ؛
لہذا امت کی پیشوائی کے مسئلہ میں حدیث ثقلیں  وغیرہ  کے  حوالےسے  بحث  کو   لغوی  اور دوسرے استعمالات کو معیار  قرار دے کر اہلبیت کے مصداق  کا تعین درست نہیں  کیونکہیہ در واقع پیغمبر اسلام کے  مقام کو  قرآن اور دینی معارف کے بیان  میں اہمیت نہ دینا  اوراحادیث میں موجود مفھوم اور مطالب سے بے توجہی کا نتیجہ ہے .
ان تمام تر حقائق کے باوجود جو لوگ یہ کہتے ہیں  کہ اہل بیت سے مراد ازواج بھی ہیں اور جو فضیلتیں اہل بیت کے لئے ثابت ہیں اس میں ازواج بھی شامل ہیں، اس قسم کی باتیں در حقیقت   اہل بیت کےمقام کو گھٹانے اور اہل بیت کو اپنے واقعی مقام سے دور رکھ کر ان پر ظلم کرنے والوں  سے دفاع کی کوششوں کا نتیجہ ہے   کیونکہ رسول گرامی کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے نہ صرف  اہل بیت کی پیروی  اور اطاعت نہ کی بلکہ اہل بیت کو اپنا تابع بنانے کے لئے ان کے ساتھ سختی کی۔ جناب فاطمہ  کے گھر پر حملہ کیا اور آپ ناراضگی کی  حالت میں دنیا سے چلی گئیں حتی کہ  ایسے افراد کو اپنے نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی،  بعض نے  امام علی  کے خلاف جنگ اور آپ پر سب و شتم کو رواج دیا ؛ امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا اور اس پر خوشیاں منائی ،  امام حسین  اور  انکے ساتھ خاندان پیامبر  کے مردوں کو قتل کر کے  بچوں اور عورتوں کو اسیر بنا کر  درباروں اور بازاروں میں پھرایا ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ  بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ کسی نے اہل بیت کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا ، یہ لوگ ایک طرف تو   خاندان پیامبر کے دشمنوں سے دفاع کرتے ہیں،  دوسری طرف  سے اہل بیت کے دوست اور  انکے پیروکار ہونے کادعویبھی کرتے ہیں اور  شیعہ  جو ہر دور میں اہل بیت  سے دفاع ، انسے اظہار عقیدت اور  انکے دشمنوں سے نفرت کی وجہ سے ، انکے دشمنوں کے ظلم کی چکیوں میں پیستے آیئے  ہیں ، انہیںاہل بیت  کی نسبت سے جھوٹا اور فریب کارقراردیتے ہیں ۔
لیکن جس طرح  شیعوں سے بڑھ  کر  کوئی اور  اہل بیت سے دوستی  کا دعوی نہیں کرسکتے  ،خاص کر وہ لوگ  جو اہل بیت کے دشمنوں  سے دفاع    کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں   اسی طرح شیعوں سے بڑھ کر کوئی  انکی پیروی کا دعوی بھی نہیں کرسکتے  ، کیونکہ    اہل بیت کی تعلیمات سے انکی اہم تریں کتابیں تقریبا  خالی ہے  مثال کے طور پر صحیح بخاری کی جو  شیعہ مخالفوں کی اہم تریں کتاب ہے اس میں  پیغمبر کے سب اہم شاگرد  اور تربیت یافتہ شخصیت یعنی حضرت علی سے  ٍصرف  ۲۹ ،احادیث نقل ہوئی  ہے(9)  لیکن  ابوهریره که دو سال بھیپیغمبر کے ساتھنہ رہا، ان سے 446 روایت نقل ہوئی  ہے(10) ، اسی طرح  بخاری نے  حضرت فاطمة زهراء که جو مکتب وحی کے تربیت شدہ ہیں انسے صرف 4 روایتکی ہے،  فرزند پیغمبر امام حسن مجتبیسے کوئی  روایت بھی نقل نہیں کی ہے اور امام حسین سے صرف ایک روایت نقل كي ہے (11)لیکن  جناب عایشه سے 228 اور عبدالله بن عمر سے 300 روایت نقل کی ہے.(12) جبکہ شیعوں کے پاس نهج‌البلاغه  کہ جوامام علی  کے کلمات کا مجموعہ ہے صرف اس  میں 239 خطبے، 79  خطوط و 480 مختصر کلمات موجود ہیں اسی طرح شیعوں کی چہار معتبر کتابوں میں سے صرف   ایک ہی میں  ۱۶۰۰۰ ، احادیث اہل بیت سے  نقل ہوئی ہیں، لہذا یہ  خود اس بات پر دلیل ہے کہ اہل بیت کی پیروی  کا نہ پہلے والے لوگ دعوی کر سکتے ہیں نہ موجودہ لوگ،  عجیب بات یہ ہے  کہ نہ اپنی کتابوں میں اہل بیت کی تعلیمات  موجود ہے  نہ  شیعوں کے پاس موجود انکی تعلیمات کو قبول کرتے ہیں   اسکے باوجود یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم ہی اہل بیت کے دوست اور پیروکار ہیں   ۔
خدا ہم سب کو اہل بیت کے واقعی مقام کی معرفت ، انسے محبت اور انکی پیروی کی توفیق دے۔
۔آمین یا رب العالمین ۔۔

 

-------
(1) -  سنن الترمذي - ج5 ص663- -كنز العمال - ج1 ص 173-،الأحكام الشرعية الكبرى- ج4 ص460- الصواعق المحرقة - ج2 ص 438-تفسير ابن كثير - ج12 ص 273- اسی طرح اور بھی بہت سی اہم کتابوں میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے مثلا صحيح مسلم - ج 7  ص 122- مسند أحمد بن حنبل –ج 4 ص 366 -  جامع الأصول في أحاديث الرسول - ج9ص158 المعجمالكبير -ج 3  ص۶۶ مصنف ابن أبي شيبة - ج11 ص452
(2) - ، الجامع لأحكام القرآن - ج14 ص 183 - ، تفسير ابن كثير  ج ،3 ص 585 ، روح المعاني  ج،22 ص 14- فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل   ج2 ص 459 - ، المعجم الكبير  ج3 ص53- ، سنن الترمذي، ج5 ص 351 ، مسند أبي يعلى  ج12 ص 451 -، مصنف ابن أبي شيبة - ج6 ص 370
(3) ۔انك من أزواج النبي وما قال : انك من أهل البي  - ،شرح مشكل الآثار -ج2 ص239- شواهد التنزيل ، ج2 ص 124- نظمدررالسمطين–ج 1 ص 231-
(4) - وقال انك على خير،-{الكشف والبيان –ج 8 ص 39  فضائلالصحابةلأحمدبنحنبل،ج3 ص 7-مسند أحمد –ج 6 ص 323
(5) : فلوکان قال نعم، کان احب الي مما تطلع عليه الشمس وتغرب-  شواهد التنزيل. ج ۲ ص ۹۲-
(6)  ۔ الدر المنثور - ج6 ص 605 - تفسير ابن كثير - ج6 ص 411 - سنن الترمذي –ج 5ص 352    
(7) - صحيح مسلم - ج4 ص 1870 - سنن الترمذي - ج5 ص 225 - تفسير کشاف ،ج١، ص۳٦۹ – ۳٦۸، ،تفسير کبير، ج۳، ص۴۷ – ۴۲.
(8) -{ َو أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَينَِّ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيهِْمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ(النحل-4}
(9) - ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص287
(10) - سیری در صحیحین، ص133
(11) - همان
(12) - فصلنامه علمی، علوم حدیث  ،شماره۴۷  ، ص1۵۰-۷۸

فہرست منابع

                   قرآن مجید .
1)    1972 الطبراني، سليمان بن أحمد ، المعجم الكبير، مكتبة العلوم والحكم ، الموصل،الطبعة الثانية ، 1983م
2)    ابن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (م235 ھ)، مصنف ابن أبي شيبة،مكتبة الرشد،الرياض، 1409ھ
3)    ابن الجوزي، عبد الرحمن بن علي (م597هـ)،تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، شركة دار الأرقم ، بيروت 1997م
4)    إبن حجر الهيثمي، أحمد بن محمد، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال ، مؤسسة الرسالة، بيروت ، 1997م
5)      ابن حنبل، أحمد بن حنبل (م 241هـ،) ، فضائل الصحابة، مؤسسة الرسالة ، بيروت، 1983م
6)      ابن حنبل، احمد بن حنبل،مسند أحمد بن حنبل- عالم الكتب،بيروت، 1998 م
7)      ابن کثیر، إسماعيل بن عمر (م، 774هـ)، تفسير القرآن العظيم ،دار الفكر، 1994م
8)    أبوالسعاداتالمباركبنمحمدالجزري (م 606هـ) جامع الأصول في أحاديث الرسول، مكتبة الحلواني،
9)    أبو عيسىترمذي،محمد بن عيسى(م 279هـ)،سنن الترمذي ، دار إحياء التراث ، بيروت، بی تا
10)    الإشبيلي، أبو محمد عبد الحق(م581هـ)،الأحكام الشرعية الكبرى، مكتبةالرشد، الرياض،2001م -
11)    الألوسي، شهاب الدين السيد محمود،(م1270هـ) روح المعاني،دارإحياء التراث العربي،بیروت ،١۹۹۹م
12)    الثعلبي أحمد بن محمد ،الكشف والبيان ، دار إحياء التراث العربي، بيروت،لبنان ، 2002 م
13)    حاكم حسكانى، عبيد الله بن عبد الله(م ،49) شواهد التنزيل، مؤسسه چاپ و نشر، 1411 ھ
14)    الزرندي الحنفي، محمد بن يوسف (م750هـ)،نظم درر السمطين بی جا ،بی تا،
15)    الزمخشري، محمود بن عمر(م538ه)الكشاف عن حقائق التنزيل،دار إحياء التراث العربي، بيروت بي تا
16)    السيوطي عبد الرحمن بن أبي بكر ،الدر المنثور، دار الفكر ، بيروت ، 1993م
17)    الطحاوي، أبو جعفر أحمد بن محمد (م 321هـ)، شرح مشكل الآثار، مؤسسة الرسالة،، 1494 م
18)    فصلنامه علمی، علوم حدیث  ،شماره۴۷  ، انتشارات دارالحديث، ، قم  ١۳۸۷
19)    قرطبي ،محمد بن أحمد(م 671 هـ) ، الجامع لأحكام القرآن، دار عالم الكتب، الرياض، 2003 م
20)    القشيري ، مسلم بن الحجاج (م 261هـ) ،صحيح مسلم، دار إحياء التراث العربي ، بيروت ،بی تا
21)    متقي الهندي، علي بن حسام الدين (م 975ھ)كنزالعمالفيسننالأقوالوالأفعال، مؤسسة الرسالةبی جا 1981م–
22)    الموصلي،أحمدبنعليأبويعلى(م307ه)ـ،مسندأبييعلى،دارالمأمونللتراث–دمشق،1984
23)    نجمی، محمد صادق ، سیری در صحیحین ، دفتر انتشارات ،١۳۸۳ش

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک