* زوال کے اسباب اور راہ نجات *
بسم الله الرحمن الرحیم
اللهم صلی محمدوآل محمد وعجل فرجهم
گرامی القدر پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وصیت کرتے ھوئے فرمایا :
"قریب ھے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے میں تم میں دو گرانقدرچیزیں چھوڑے جا رھاھوں اک خدائےبزرگ و برترکی کتاب اور دوسری میری عترت" کتابِ خدا تو ایک رسی ھےجو آسمان سےزمین تک دراز ھے اور میری عترت میرے اہلبیت ھیں. خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں جدا نہ ھوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں گے. پس دیکھو! میرے بعد تمہارا سلوک ان کے ساتھ کیسا رھتا ھے؟ اگر ان سے متمسک رھوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے"
مسلمانوں کی بدبختی اور نحوست کا آغاز اسی لمحہ ھوگیا تھا جب فرمان رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ والہ سے بے اعتنائی برتی گئی. ان کی سنی عملاً ان سنی ھوگئی مسلمانوں کا رویہ قولِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق کچھ یوں رھا :
"اِلاَاسْتَمَعُوْهُ وَهم یَلْعَبُوْنَ __ لاَهیَةً قُلُوْبُهمْ" سوائے اس کے نہیں کہ (نبی کی) بات سنتے تو ھیں مگر سننے کے بعد کھیل
کود میں اُڑا دیتے ھیں.ان کےدل (دراصل نبی سے)غافل ھیں" (الانبیاء#2/3)
اس مجرمانہ غفلت اور بےاعتنائی نے اس المناک صورتحال سے دوچار کردیا جس کا سامنا آج مجموعی طور پر پوری دنیائے اسلام کو ھے اور بدقسمتی سے سربلندی اور سرفرازی کے ضامن "قرآن اور اھلبیت علیہم السلام" لفظی محبت اور عملی نافرمانی کا شکار ھو کر رہ گئے.حالانکہ منزل انہیں ملا کرتی ھے جو نبی صلی اللہ علیہ والہ کی بات سنتے ھیں اور عمل کرتے ھیں.قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ھے :
"فَبَشِرْعِبَادِالَذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَبِعُوْنَ اَحْسَنَهُ" اےرسول(ص)خوشخبری دو! ان بندوں کوجو بات سنتے ھیں اور پھر اس کے مطابق احسن عمل کرتے ھیں"
وَاُوْلَئِكَ الَذِیْنَ هدٰهمُ الله وَاُوْلَئِكَ همْ اُوْلوْا الْبَاب" یہی لوگ ھیں جنہیں اللہ نے ھدایت دی اوریہی لوگ عقلمند ھیں"(الزمر#17/18)
آج کے اس کربناک اور شتربےمہار ماحول میں نجات کا واحد راستہ یہی ھے کہ پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ والہ کی وصیت سے عملی رشتہ استوار کیا جائے.
یعنی
حدیثِ ثقلین کو رھنما اصول کے طور پر مانا جائے اور اسی کی روشنی میں راہ عمل کا تعین کیا جائے. جس کے مطابق دو ہادی مقرر کئے گئے ہیں
1). قرآن مجید فرقان حمید
2). عترت اہلبیت علیہم السلام
* قرآن *
حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے :
"جو شخص چاھتا ھو کہ اسے نیکوں کی زندگی اور شہید کی موت نصیب ھو اس دن اسے شاندار کامیابی ملے جس دن
حسرت کے سوا کچھ نہ ملے گا اور وہ یہ چاھتاھوکہ قیامت کی گرمی کے موقع پر اسےسایہ نصیب ھوااورگمراھی کےمواقع
پرھدایت اسکےقدموں سےلپٹی ھوتواسے چاھیئےکہ قرآن مجید کادرس حاصل کرے اور اس کی تعلیم سےبہراورھو یعنی قرآن
پڑہےاورپڑھائےکیونکہ جوقرآن پڑھاتاھے وہ خداکی بارگاہ میں عزت وشرف کا مالک ھوتاھےاس لیےکہ قرآن رحمن کاکلام ھے
شیطان کےفریب سےبچنے کا حرز ھے اور میزان کےپلڑےکوبھاری کرنےکاذریعہ ھے"
*- حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہم السلام نے فرمایا :
"تم قرآن کی کہیتی بونے والے اور اسکے پیروکار بنو اور اسے پروردگار تک پہنچنے کیلئے دلیل راہ بناؤ"
عبد اور معبود کے درمیان اس عہدنامہ کو روز پڑہنے کی بجائے غلاف در غلاف لپیٹ کر طاق میں رکھ دیاگیا.شرف انسانی کی ضامن کتاب کو خوبصورت جلدوں میں بند کردیاگیا.یوں پروردگار تک پہنچانے والی کتاب ھماری معاشرتی و ثقافتی زندگی سے بےدخل ھوگئی.قبرستانوں میں مردوں کو سنانے اور بخشوانے کےلیے اس کی تلاوتوں کا رواج ھوگیا.پھر اشاعتی اداروں نے تجارتی مقاصد کےلیے اس کے جہیز ایڈیشن تیار کرلیے اور یوں یہ خدا اور بندے کے درمیاندستور و پیمان دوسری اشیاء کی طرح جہیز کی شے بن گئی
"اِنَ هذَاالقراٰن یَهدِی لِلَتِی هیَ اَقْوَمُ ........"
یہ قرآن اس راستے کی طرف ھدایت کرتاھے جو سیدھااورصاف ھے" (بنی اسرائیل#9)
ظاھر ھے کہ ھدایت اسے حاصل ھوتی ھے جو اپنے آپ کو ھدایت کےلیے قرآن کے سامنے پیش کردے اور اس سے ھدایت کا طلبگار ھو.
"اِن هوَ اِلاَ ذکْرّ لِلْعَالَمِینَ لِمن شَاءَ مِنْکُم اَن یَستَقِیم"
یہ قرآن عالمین کےلیے نصیحت ھے مگر اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی راہ چلنا چاھے" (التکویر# 27/28)
"شِفَاءّ لِمَافِی الصُدُورِ وَهدًی وَرَحْمُةّ لِلْمُوْمِنِیْن" (یونس#57)
قرآن کی یہ تمام نوازشات اس کےلیے ھیں جو بطریقِ اخلاص اس کے عطاکردہ دستورالعمل کی پابندی کرے.
یہ ایسے ھی ھے جیسے مریض اپنے مرض کے سلسلہ میں کسی ماھر معالج سے رجوع کرے.معالج بھی انتہائی دقتِ نظر سے اپنے مریض کا معائینہ کرے اور مکمل معائینہ کے بعد بہترین نسخہ لکھ دے استعمال، پرھیز اور تمام احتیاطی تدابیر بھی سمجھا دے مگر مریض اس نسخے کو کسی خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر کہیں حفاظت سے رکھ دے یا تعویز کی صورت گلے میں ڈال لے تو وہ شفایاب ھو جائےگا؟ ھرگز نہیں
یا وہ روزانہ باوضو ھوکر نسخہ کی تلاوت کرے اور پھر بصد احترام اسے صندوقچی میں بند کرکے رکھ دے یہاں تک کہ وہ اسے صحیح تلفظ کے ساتھ حرف بہ حرف یاد ھوجائے تو کیا یہ مریض صحت یاب ھونا ممکن ھے؟؟ ھرگز نہیں
کوتاھی کس کی ھے؟ یقینًا مریض کی جس نے سب کچھ کیا مگر نسخہ میں درج ھدایات پر عمل کیا نہ ھی ادویات کو استعمال کیا.
قرآن کے ساتھ ھمارا رویہ اسی مریض جیسا ھے.اسی رویہ کو بدلنے کی ضرورت ھے قرآن شفابخش ھے
مگر اس کےلیے جو اس کےھدایت نامہ کے مطابق عمل کرے اوراس کے بتائے ھوئےامورسرانجام دےجن سےوہ روکے
رک جائےجووہ کھانےکوکہےصرف وھی کھائے اورجن چیزوں سےاجتناب کاکہے ان چیزوں سے پرھیز کیا جائے.
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا :"ایک وقت آئے گاجب قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پہینک کر الگ کردیں گے اور
حفظ کرنےوالےاس کی تعلیم بھلا بیٹھیں گے" (نہج البلاغہ)
اھل اسلام کا معتدبہ حصہ تو وہ ھے جس نے قرآن کے بار کو اتار پھینکا ھے.معدودے چند افراد چند افراد جو تلاوت کرتے ھیں اور قرآن کو یاد کرتے ھیں عہ بھی پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ والہ کی اک حدیث می رو سے تین قسم کے ھیں :
1). ایک وہ لوگ ھیں جو قرآن پڑھ کر اسے دنیا کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ھیں اور اپنی قرآن خوانی پر لوگوں میں فخر کرتے ھیں.
2). وہ لوگ ھیں جو قرآن پڑھ کر اس کے الفاظ و عبارات کو حفظ کرلیتے ھیں.لفظوں کی درستگی میں لگے رھتے ھیں مگر اس کے احکام سے بےخبر اور عمل سے غافل ھیں.
3). تیسرے وہ لوگ ھیں جو قرآن پڑھ کر اسے اپنے دردِدل کی دوا بناتے ھیں راتوں کو اس کےلیے جاگتے ھیں دن بھر روزہ رکھتے ھیں مسجد میں نماز کےلیے دل لگائے کھڑے رھتے ھیں قرآن کی تلاوت میں صبح سے شام اور شام سے صبح کردیتے ھیں.ایسے لوگوں کی برکت سے خداوندِعالم آفات اور بلاؤں کو اپنے بندوں سے دور رکھتا ھے اور مسلمانوں کو دشمنوں پر غالب کرتا ھے.آسمان سے باران رحمت کا نزول فرماتا ھے.خدا کی قسم ایسے قرآن پڑھنے والے کبریت احمر سے بھی کم ھیں"
ضروری ھے کہ قرآن مجید کے حق کو ادا کریں اور اپنی معاشرتی و ثقافتی زندگی کےلیے قرآن کو منشور قرار دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز کو غور سے سنیں جو ارشاد فرماتے ھیں :
"یا ایھا الناس! جب فتنے شبِ تاریک کی طرح چہا جائیں تو قرآن سے تمسک کرنا وہ حقدارِشفاعت بھی ھےاورفتنوں کاازالہ کرنے وال ابہی جواسے سامنے رکھے گا (رھنما بنائےگا)یہ اسےجنت کی طرف لے جائےگاجو اسے پس پشت ڈال دے گا اس
کا راستہ جہنم کی طرف ہوگا قرآن بہترین راستے کا بہترین راھنما ھے"
* اہلبیت علیہم السلام *
دوسری گرانقدر چیز جو رسول اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت میں چھوڑی اور اسے قرآن کا ھم پلہ قرار دیا.وہ "اھلبیت علیہم السلام" ھیں.پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اھلبیت علیہم السلام کا تعارف کرانے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھارکھی.
حضرت انس (رض) روایت کرتے ھیں کہ آیت تطہیر کے نزول کے بعد آپ (ص) نے مسلسل چھ ماہ تک معمول بنائے رکھا کہ جب بھی آپ (ص) نماز کےلیے تشریف لے جاتے تو پہلے خانہ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا پر آتے اور بآواز بلند فرماتے
"الصلوٰة الصلوٰة"
پھر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے
"اِنَمَا یُرِیْدُالله لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِجْسَ اَهلَ الْبَیْت وَ یُظَهرَکُمْ تَطْهیْرًا" اے اھلِ بیت(ع) نماز کو چلیے! بےشک اللہ تعالٰی نے ارادہ کرلیا ھے کہ رجس اور ناپاکی کو تم سے دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ھے" (الاحزاب#33(
اسی طرح بہت سارے اور مواقع پر آپ (ص) نے اھلِ بیت علیہم السلام کی شناخت عملاً اور قولاً کرادی کہ یہی قرآن کے ساتھی ھیں یہی قرآنی راھوں میں ھادی اور رھنما ھیں اوریہی دینی و دنیاوی فلاح و فوز کے ضامن ھیں. پھر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
"ستارے زمین کے باشندوں کےلیے غرقابی سے امان ھیں اور میری اھلبیت (ع) میری امت کےاختلاف کےوقت امان ھیں پس میری میری اھلبیت (ع) کی مخالفت کوئی عرب کرےگاتو وہ اس اختلاف کی وجہ سے ابلیس کی جماعت بن جائے گا"
اور یہ بھی فرمایا :
"میرےاھلبیت(ع)کی مثال تم میں بنی اسرائیل کے بابِ حطہ کی مانند ھے جو اس میں داخل ھوجائے گا اللہ تعالٰی اسے بخش دے گا"
ھائے افسوس ! کہ اِدھر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھیں بند ھوئیں، اُدھر مسلمانوں نے اھلبیت علیہم السلام سے آنکھیں پھیر لیں.اھلبیت علیہم السلام سے متعلق تمام نبوی(ص) ھدایات مسلمانوں کے ذھن سے یکسر محو ھوگئیں اور منصوبہ بندی یہ کی گئی کہ نبوت اور خلافت ایک خاندان میں اکٹھا نہ ھونے پائے حالانکہ نبوت و خلافت دونوں خدائی فضل ھیں اور اللہ جسے چاھتا ھے عطا کرتاھے.
"اَم یَحْسُدُوْنَ النَاسَ عَلٰی مَا اٰتَهمُ الله مِنْ فَضْلِه" (النساء#54)
اللہ نے اپنے فضل سے محمد وآلِ محمد علیہم السلام کو کتاب دی کتاب کا علم عطا کیا
حکمت ودانائی عطا کی اور امامت کےلیے منتخب فرمایا. تو ابو سفیانی اور ابولہبی حسد کی آگ میں جلنے لگے.تاریخ میں اس آگ کے شعلے بدر سے لیکر کربلا تک پھیلے ھوئے ھیں.
ع :
کسےخبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
وفاتِ رسول (ص) کے بعد اس آگ کا پہلا نشانہ جناب فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا کا گھر بنا.آنحضرت (ص) کے ارتحال کے بعد حالات نے جو کروٹ لی اس پر سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دانا اور زیرک صاحبزادی نے اپنے الہامی خطبہ میں یوں تبصرہ فرمایا ھے.
"جب خداوندِعالم نےپیغمبروں کی رھائش
گاہ کو اپنے پیغمبر (ص) کے لیے منتخب فرمایاتوناگہاں دلوں میں پوشیدہ کینہ اور نفاق ظاھر ھو گیا.دین کی نقاب الٹ گئی گمراہ افراد بولنےلگےگمنام افراد سربلند ھونےلگے باطل کےنعرے بلندہونےلگے
اور معاشرے میں سازشیں شروع ہوگئیں شیطان نے اپنی بھٹ سےسرباھر نکالا تم
کو اپنی طرف بلایاتو تم کواپنی دعوت اور فریب کامنتظرپایا،پھر اس نے تم کو(اپنے مفادات کےلیے) قیام کی دعوت دی تو تم
کو آمادہ پایا تمہارے دلوں میں انتقام اور غصہ کی آگ بھڑکائی تو غصہ کے آثار تمہارے چہرے سے نمایاں ھوگئے"
حالات کی اس تلخی و تندی میں اپنے بارے میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا !
"ھم نے صبر ھی کو بہتر جانا لیکن اس طرح جیسے کسی گلے پر تلوار ھو اور سینہ پر نیزہ ھو"
وہ دن اور آج کا دن کینہ و عناد کی یہ تیغِ ستم شعار اولادِ فاطمۃ زھرا سلام اللہ علیہا پر چلتی آرھی ھے.مقتل سجتے رھے اور زندان آباد ھوتے رھے یہاں تک کہ شہادت و زندان بنی فاطمۃ (س ع) کا ورثہ قرار پائے ابتری کی اس کیفیت میں اھلبیت علیہم السلام ھدایت کا فریضہ ادا کرتے تو کیسے کرتے؟؟؟؟؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ ھدایت پانے کےلیے ضروری ھے کہ انسان میں آمادگی اور احساسِ زیاں پایا جائے مگر مسلمانوں کے دلوں میں آمادگی اور احساسِ زیاں کی جگہ بغض نے لےلی.بالآخر حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلام کو کہنا پڑا
"نحن المحسودون" ھم ھیں کہ جن سے سب سے زیادہ حسد کیا گیا"
ان تمام کارستانیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسمانِ ھدایت کے درخشاں ستارے ایک ایک کرکے تہہ خاک پوشیدہ ھوگئے اور آخری ستارے کو غیبت کے پردوں نے ڈھانپ لیا. یوں کجروی اور بدعملی کے دھندلکوں نے راستے اور منزل کو غیرواضح کردیا ابن حجر لکھتا ھے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اھلبیت علیہم السلام کے بعد لوگوں کی زندگی کیسے بسر ھوگی؟؟؟آپ (ص) نے فرمایا !
"ان کی زندگی بس ایسے ھی ھوگی جیسےاس گدہےکی زندگی جس کی
ریڑھ کی ھڈی ٹوٹ چکی ھو"