امام علی نقی علیہ السلام کی رہبری کرنے کا انداز
امام علی نقی علیہ السلام کی رہبری کرنے کا انداز
مقالہ از:عبدالکریم پاک نیا
ترجمہ:اسدرضاچانڈیو
تصحیح:حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی
پیشکش:امام حسین فاؤنڈیشن قم
مقدمہ:
امام علی نقی علیہ السلام نے ۱۵ ذی الحج سن ۲۱۲ ہجری کو مدینہ کے اطراف میں موجود (صریا)(۱)نامی ایک محلہ میں ولادت پائی۔ ان کے والد گرامی امامت کے نویں تاجدار امام محمد تقی علیہ السلام ، اور والدہ ماجدہ محترمہ سمانہ خاتون ہیں۔جوکہ ایک متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں۔
وہ سن ۲۲۰ہجری میں، ۸ سال کی چھوٹی عمر میں، اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد، امامت پر فائز ہوئے۔
امام علی نقی علیہ السلام اپنے ۳۳ سالہ امامت کے دور میں چند عباسی خلیفوں کے ہم عصر رہے ۔ جو ترتیب کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں:
1 - معتصم، برادر مامون (217 - 227)
2 - واثق، پسر معتصم (227 - 232)
3 - متوکل، برادر واثق (232 - 248)
4 - منتصر، پسر متوکل (6 ماه)
5 - مستعين، منتصر کے چچا کا بیٹا (248 - 252)
6 - معتز، متوکل کا دوسرا بیٹا (252 - 255)
امام علی نقی علیہ السلام ،اس آخری خلیفہ کے دور میں، اس کے کارندوں کے ہاتھوں، ملے ہوئے زہر سے منزل شہادت پر فائز ہوئے ۔
امام سامرا میں، اپنے گھر میں مدفون ہیں۔
امام کی میلاد کی مناسبت سے ہم ان کے رہبری کے انداز پرایک نظر ڈالتے ہیں۔ خصوصا ان ۶ سفاک خلفاء کے مقابل امام کی پالیسی کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امام نے کس حکیمانہ انداز میں فکر اور تدبیر کے ذریعہ ، افکار شیعہ کو منور کیا اور داخلی سازشوں کا بہتریں انداز میں مقابلہ کیا!
امام علی نقی علیہ السلام کے دفاع کے طریقہ پر اجمالی نظر
۱۔ حکومتی کارندوں میں اثر رسوخ
علمی کمالات ، حکیمانہ طریقہ کار اور معنوی شخصیت کے طفیل امام ، اپنے دور میں موجود حکومت کے کارندوں میں ایک خاص محبوب شخصیت کے عنوان سے پہچانے گئے۔ جیسے اسحاق ابن ابراہیم طاہری جو کہ بغداد کا گورنر تھا اس کے سامنے جب ہرثمہ نے امام کو پیش کیا تو اس نے کہا: تم متوکل کو جانتے ہو؟(کتنا ظالم اور خبیث انسان ہے) اگر اسے امام کے قتل پر ابھارا جائے تو وہ امام کے قتل سے دریغ نہ کرے گا پھر قیامت کے دن، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنا دشمن پاو گے۔ اور اس نے کہا: اللہ کی قسم! نیکی سے سوا میں نے اس سے کچھ نہیں دیکھا!(۲)
وصیف ترکی جو کہ ترکی امیروں میں سے تھا اور حکومت میں اثر و رسوخ رکھتاتھا اس نے سامرا میں ہرثمہ ، کو دھمکی دی کہ اگر امام کا ایک بال بھی بھیگا ہوا تو وہ اسے زندہ نہ چھوڑے گا!
امام علی نقی علیہ السلام نہ صر ف حکومتی کارندوںمیں محبوب شخصیت تھے بلکہ دربار میں کام کرنے والے بہت سارے اشخاص اور کارمند امام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔امام کے دربار میں داخل ہوتے وقت، دربار کے کارمند ، خادم اور غلام عجیب انداز میں امام کا استقبال کرتے تھے۔ وہ استقبال اس قدر والہانہ تھا کہ بعض درباری اسے پسند نہ کرتے تھے اور حسد کی نظر سے دیکھتے تھے!
حکومت کے کارندوں میں امام کی محبوبیت کے عوامل اور اسباب
الف) مشکلات کا حل
متوکل، جو ایک خود پسند اور ظالم عباسی خلیفہ تھا اس کے جسم پر ایک پھوڑا ہوا جس کی تکلیف سے وہ تڑپتا رہتا تھا یہان تک کہ وہ بستر مرگ تک پہنچ گیا۔ کسی حکیم کی کوئی دوائی کام نہ آئی!کسی حکیم میں جرات نہ تھی کہ اس پھوڑے کا آپریشن کر سکے اوراس کے جسم میں چاقو لگائے! یہانتک کہ خلیفہ متوکل کی ماں نذر کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اس نے نذر کی کہ بیٹے کی صحتیابی کی صورت میں بہت زیادہ مال امام علی نقی علیہ السلام کے خدمت میں پہنچائے گی۔
دربار کے وزیر ، فتح ابن خاقان نے خلیفہ متوکل کو مشورہ دیا کہ اگر کسی کو امام کے پاس بھیجیں اور ان سے اس بیماری کا علاج طلب کریں تو شاید امام اس بیماری کا علاج بتائیں! اور اس علاج اور دوائی سے تم ٹھیک ہو جاو
خلیفہ متوکل نے کہا: کسی کو بھیجو۔ خلیفہ متوکل کے قاصد امام کی طرف بارگاہ میں پہنچے۔ اور اس پیغام کو لائے : بھیڑ کی مینگنی کو گلاب کے پانی کے ساتھ ملاکر اس پھوڑے پر لگاو! جو لوگ اس وقت خلیفہ متوکل کے ساتھ تھے وہ ہنسنے لگے۔ لیکن وزیر دربار فتح ابن خاقان نے کہا: کوئی بات نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہمیں تجربہ کرنا چاہئے!اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے اس علاج سے خلیفہ کو ضرور شفا ہوگی!
امام کی بتائی ہوئی مقدار میں وہ چیزیں لائی گئیں اور اس پھوڑے پر باندھی گئیں۔ اس علاج سے پھوڑے کا منہ کھل گیا اور جو کچھ اس کے اندر تھا باہر آگیا!
خلیفہ کی ماں، اپنے بیٹے کی صحتیابی پر بہت خوشحال ہوئی ۔ اور ۱۰ ہزار دینار پر مہر لگا کر امام کی خدمت میں بھیجے۔ اور اس طرح خلیفہ متوکل نے موت سے نجات پائی۔(۳)
ب)علم اور دانش
یحیی ابن ہرثمہ کہتا ہے: بہارکے موسم میں ایک دن آسمان صاف تھا اور سورج چمک رہا تھا۔ امام بارش والا لباس پہنے ہوئے اپنے گھر کے دروازہ سے نمودار ہوئے۔ مجھے اور سارے کارندوں کو اس وقت تعجب ہوا جب صحرا کے بیچ میں اچانک بارش ہو گئی۔ اس بارش اور اس کی مصیبت سے امام کے علاوہ کوئی بچ نہیں پایا!
امام نے میری طرف رخ کیا اور کہا:مجھے پتا ہے تمہیں بارش کا علم نہ تھا۔ لیکن ایسا بھی نہیں جیسے تم نے گمان کیا اس طرح نہیں(یعنی یہ علم امامت کی بنیاد پر نہیں)بلکہ میں نے صحرا میں زندگی گذاری ہے اور صحرا کی ہوا کے انداز کو جانتا ہوں۔ میں نے اس خوشبو سے بارش کا اندازہ لگا لیا اور اس بارش کیلئے پہلےسے آمادہ ہو گیا!(۴)
ان علمی واقعات اورحکیمانہ فکر کے سبب لوگوں کو حضرت کے بے پایاں علم کا اندازہ ہوا!
امام علی نقی علیہ السلام کی ہمیشہ سے یہ سوچ تھی کہ اس طرح عباسی خلفاء کے دور سے مثبت فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالی کے خالص دین کی دعوت دیں تاکہ فائدہ اٹھانے والے فائدہ اٹھا سکیں!اور یہ کام بہت بڑی تدبیر اور حکیمانہ دانش اور راہ خدا میں استقامت سے ممکن اور میسر ہوا۔
ج) رحمدلی اور کریمانہ سلوک
ابو عبد اللہ محمد ابن قاسم بطحائی خاندان ابو طالب میں سے تھا، لیکن بنی عباس کا پیروکار تھا۔ ایک دن اس نے خلیفہ متوکل کے سامنے چغلی کھائی۔ اور کہا: امام کے گھر میں بہت سار سازو سامان اور اسلحہ ہے۔ خلیفہ متوکل نے سعید حاجب کو حکم دیا: رات میں امام کے گھر پر چھاپا مارو، اور سارے مال اور اسباب پرقنضہ کر کے دربار میں لاو!
ابراہیم ابن محمد اس واقعہ کو سعید حاجب سے نقل کرتے ہوئے اسطرح بیان کرتا ہے:میں رات کو امام کے گھر پہنچا۔ میرے پاس سیڑھی تھی، جس کے ذریعہ میں امام کے گھر کی چھت پر پہنچا۔ بہت اندھیرا تھا مجھے پتانہیں چلا کہ میں کسےا صحن تک پہنچا۔ ناگہاں میں نے سنا امام نے اندر سے مجھے آواز دی: يا سعيد مکانک حتى ياتوک بشمعة; اے سعید! وہیں ٹھرو! تاکہ تمہارے لئے شمعدان لائیں!
کچھ دیر نہ گذری تھی کہ شمعدان کے ساتھ آتے دکھائی دیے۔اور میری، گھر کے صحن کی طرف رہنمائی کی۔امام نے عبا اوڑھ رکھی تھی اور کمرے میں ایک مصلی بچھا ہوا تھا جس پر امام قبلہ رخ بیٹھے تھے۔اور امام نے مجھ سے کہا: یہ کمرے ہیں جاو دیکھو!میں نے سارے کمرے چھان مارے لیکن مجھے کوئی مشکوک چیز نظر نہیں آئی۔صرف ایک پیلا بستہ نظر آیا جس پر خلیفہ متوکل کی ماں کی مہر لگی ہوئی تھی۔ کچھ اور بستے بھی نظر آئے جس پر ایسی ہی مہر تھی۔امام نے کہا : یہ ہے میرا مصلی! میں نے مصلی کو اٹھایا تو ایک تلوار تھی جس پر غلاف نہ تھا۔ میں اس تلوار اور ان بستوں کے ساتھ امام کو لےکر خلیفہ متوکل کی دربار میں آیا۔خلیفہ متوکل نے جب اپنی ماں کی مہر کو دیکھا تواپنی ماں کو بلایا۔اس کی ماں آئی تو اس نے اس مہر کے بارے میں اس سے سوال کیا؟ تو اس کی ماں نے جواب میں کہا:میں نے تیری بیماری دیکھ کہ نذر کی تھی کہ اگر تو صحتیاب ہو گیا تومیں ۱۰ ہزار دینار امام کی خدمت میں پیش کروں گی۔یہ وہ دینار ہیں اور تم دیکھ رہے ہو کہ امام نے اس مہر کو نہیں توڑا اور بستہ نہیں کھولا!
خلیفہ متوکل نے آخری بستہ کھولا تو اس میں ایک ہزار چار سودینارموجود تھے۔ اس وقت خلیفہ متوکل نے حکم دیا کہ ان تمام دیناروں کو بستوں میں بند کرو اور ان تمام بستوں کو امام کی تلوار کےساتھ امام کے حوالہ کرو!
میں نے وہ بستے اور تلوار، امام کو لوٹا دیے۔ مجھے امام کے سامنے جاتے ہوئے شرم آ رہی تھی۔ اس وجہ سے میں نے امام سے عرض کی:مولا مجھے معاف کریں میں آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر میں داخل ہوا لیکن میں کیا کرتا میں سپاہی تھا اور مجھے حکم دیا گیا تھا۔ امام نے فرمایا: «و سيعلم الذين ظلموا اى منقلب ينقلبون »; (5)
اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔
امام علی نقی علیہ السلام کے ساتھ،خلیفہ متوکل کی رفتار ، ظاہر میں محترمانہ تھی لیکن وہ مسلسل ، امام کو اپنی نظروں میں رکھے ہوئے تھا۔ اور امام کے جاہ و حشم اور عزت کو برداشت نہ کر پا رہا تھا!
وہ کبھی امام کی قیدکا تو کبھی امام کے گھر کی تلاشی کا فرمان دیتا تھا۔ اور جھوٹے بہانے اور تہمتیں لگا کر لوگوں کے سامنے امام کی عزت کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔جیسے خلیفہ متوکل نے امام کی مرضی کے بغیر اسے سامرا بلوایا۔ پہلے تو اس کا ارادہ یہ تھا لوگوں کے سامنے امام کی عزت کو کم کیا جائے! اس وجہ سے امام کو یہ بتائے بغیر کہ اسے کس نے بلوایا ہے ایک جگہ پر ٹہرایا گیا جس کا نام «خان الصعاليک » تھا اور وہان صرف فقیر اور بھیک مانگنے والے لوگ جمع ہوتے تھے۔امام کا ایک چاہنے والا جس کا نام صالح ابن سعید تھا ۔اس نے امام کو ایسی جگہ پایا تو اس نے امام سے عرض کی:مولا میں آپ پر قربان! وہ لوگوں کے سامنے آپ کی عزت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے آپ کو ایسی ناپسند جگہ رکھا ہے۔
امام علی نقی علیہ السلام نے مسکرا کےسعید ابن صالح کو ایک طرف متوجہ کیا۔ جب صالح ابن سعید نے وہاں دیکھا تواعجاز امامت کے ساتھ اس نے جنت کے باغوں اور محلوں کا مشاہدہ کیا۔ اور اس وقت امام نے فرمایا: حيث کنا فهذا لنا يا ابن سعيد لسنا فى خان الصعاليک; (7) اے ابن سعید!ہم جہاں بھی رہیں یہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہم ان میں رہتے ہیں خان الصعاليک میں نہیں!
اس طرح امام، ایک کے بعد ایک خلیفہ متوکل کی تمام سازشوں کو ناکام بناتے گئے۔اور امام علی نقی علیہ السلام کی زندگی کا جو دن گذرتا تھا وہ لوگوں کی نظر میں امام کے جاہ و جلال اور عزت میں اضافہ کا سبب بنتا تھا۔اور امام کے ملکوتی اور معنوی مقامات لوگوں کے سامنے آتے تھے۔اس نورانی تجلی کی وجہ سے عام لوگ تو اپنی جگہ حکومت کے کارندے بھی امام کو محبوب رکھنے لگے اور اس محبوبیت میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ خلیفہ متوکل امام کے مبارک وجود کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے امام کے قتل کا ارادہ کیا۔(۸)
۲۔ علمی سوالات کے جواب
امام علی نقی علیہ السلام کا اسلامی معاشرہ کی رہبری کا ایک اور طریقہ، علمی اور شرعی سوالات کے جوابات تھا۔ ہم ان میں سے دو مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف) خلیفہ متوکل کے دور حکومت میں،
ایک مسیحی نے مسلمان عورت سے زنا کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی کلمہ شہادتین کو اپنی زبان پر جاری کیا اور مسلمان ہو گیا۔ اسے قید کر کے خلیفہ متوکل عباسی کے سامنے لایا گیا۔ اس دور کے دانشمندوں میں سے مشہور دانشمند، جس کا نام یحیی ابن اکثم تھا۔ اس نے اس معاملہ میں قضاوت کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ اس کے اسلام نے اس کے گناہ کو ختم کر دیا ہے اور اب اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ کچھ قاضیوں کا کہنا تھا اس پر تین بار حد جاری کی جائے۔ اور کچھ اور قاضیوں نے کسی اور حکم کا اظہار کیا۔
بہرحال خلیفہ متوکل اس مسئلہ میں بہت حیران اور پریشان ہو گیا۔ اس نے مجبورا حقیقی حکم کو جاننے کیلئے امام علی نقی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ امام نے پورا واقعہ جاننے کے بعد فرمایا: يضرب حتى يموت; اسے اتنا مارا جائے کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے!
یحیی ابن اکثم اور دوسرے قاضییوں نے اس حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: اے امیر! ایسا کوئی حکم قرآن اور حدیث میں وجود نہیں رکھتا۔ امام سے اس حکم کی دلیل طلب کریں۔ جب خلیفہ متوکل نے امام سے اس حکم کی سند طلب کی تو امام نے سورہ غافر کی چند آیایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «بسم الله الرحمن الرحيم، «فلما راوا باسنا قالوا آمنا بالله وحده و کفرنا بما کنا به مشرکين فلم يک ينفعهم ايمانهم لما راو باسنا سنت الله التى قد خلت فى عباده و خسر هنالک الکافرون »; (9)
پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررہے ہیں۔
تو عذاب کے دیکھنے کے بعد کوئی ایمان کام آنے والا نہیں تھا کہ یہ اللہ کا مستقل طریقہ ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں گِزر چکا اَہے اور اسی وقت کافر خسارہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
خلیفہ متوکل کو امام کا جواب پسند آیااور اس نے حکم دیا کہ اس مسیحی، فاسق مرد کو اس قدر کوڑے مارو کہ مر جائے(۱۰)
ب) ابو عبداللہ زیادی نقل کرتا ہے:
جب خلیفہ متوکل کو زہر دیا گیا تو اس نے نذر کی اگر اللہ تعالی نے میری جان مجھے بخشی تو میں مال کثیر صدقہ میں دوں گا! اور جب خلیفہ کو نجات مل گئی تو اس نے اپنی نذر کے متعلق فقہاء سے سوال کیا۔ انہوں نے کثیر مال کے مصداق میں بہت اختلاف کیا۔حسن جوکہ متوکل کے بہت قریب تھا۔ اس نے متوکل سے کہا: اگر میں اس سوال کا درست جواب لے آوں تو کیا جزا دو گے؟ متوکل نے کہا: اگر جواب درست نکلا تو ۱۰ ہزار درہم دوں گا اور اگر جواب غلط نکلا تو ۱۰۰ تازیانے ! حسن نے جواب دیا: مجھے قبول ہے۔ اس نے کثیر مال کے متعلق امام سے سوال کیا۔ امام نے اس کے جواب میں فرمایا: يتصدق بثمانين درهما; ۸۰درہم صدقہ کرو! متوکل نے کہا: اس حکم کی کیا دلیل ہے؟حسن دوبارہ امام کے پاس آیا اور اس حکم کی دلیل پوچھی۔ امام نے جواب میں فرمایا: کیونکہ اللہ تعالی نے کثیر موارد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت کی جو کہ ۸۰ موارد ہیں۔ لقد نصرکم الله فى مواطن کثيرة; (11)
بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے
حسن یہ جواب سن کر متوکل کے پاس آیا اور اسے امام کے جواب سے آگاہ کیا۔ متوکل اس قرآنی دلیل سے بہت خوش ہوا اور اس نے اسے ۱۰ ہزار درہم عطا کئے۔(۱۲)
۳۔در پردہ پوشیدہ جنگ کی قیادت
امام علی نقی علیہ السلام کی سیرت میں اور رہبری میں ، ظالم اور جابر حکومت سے در پردہ پوشیدہ جنگ کی قیادت بھی شامل ہے۔ امام اس کام کو مخفیانہ انجام دیتے تھے۔ چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
الف) محمد ابن داود قمی اور محمد طلحی نقل کرتے ہیں:
قم اور اس کے اطراف سے جمع ہونے والی وجوہات شرعیہ جس میں نذر ، ہدیہ،جواہرات اور صدقات شامل ہوتے تھے ،وہ ہم امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچاتے تھے۔ایک مرتبہ ہم راستہ میں تھے کہ امام کی طرف سے ایک قاصد نےہمیں خبر دی کہ لوٹ جاؤ!کیونکہ اس مال کو پہنچانے کا یہ وقت مناسب نہیں! ہم لوٹ آئے اور جو کچھ تھا اس کو سنبھال کر رکھا۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ بعد امام نےایک اونٹ بھیجا اور حکم دیا: اس مال کو اس اونٹ پر باندھ دو اور ساربان کے بغیر اس اونٹ کو واپس میری طرف روانہ کرو! ہم نے اس مال کو امام کے حکم کے مطابق اسی طرح باندھ کر روانہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب امام کی زیارت نصیب ہوئی تو امام نے فرمایا: جو مال تم لوگوں نے بھیجا تھا اسے دیکھو! ہم نے دیکھا کہ وہ تمام مال امام کے گھر میں محفوظ تھا۔(۱۳)
ب) محمد ابن شرف نقل کرتا ہے:
میں امام علی نقی علیہ السلام کے ساتھ مدینہ میں سفر کر رہا تھا۔ امام نے مجھ سے پوچھا: تم شرف کے بیٹے ہو؟میں نے عرض کی: ہاں مولا۔ میں نے امام سے کچھ پوچھنا چاہا کہ امام نے مجھ سے سوال میں سبقت کرتے ہوئے کہا: نحن على قارعة الطريق و ليس هذا موضع المسالة; ہم مدینہ کی شاہراہ پر سفر کر رہے ہیں اور یہ مکان اس سوال کیلئے مناسب نہیں(۱۴)
اس طرح کے دوسرے بہت سارے واقعات حکومتی کارندوں کی آنکھوں سے دور،امام کی ان پوشیدہ سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۴۔ انحرافی افکار اور عقیدوں سے مقابلہ
غلات کا سامنا:
امام علی نقی علیہ السلام کے زمانہ میں چند افراد’’ غلات ‘‘کے نام سے مشہور تھے جو ائمہ معصومین علیہم السلام کے متعلق افراط سے کام لیتے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کو حد الوہیت سے ملاتے تھے۔اور لوگوں کو اس باطل عقیدہ سے گمراہ کرتے تھے۔
امامت کے دسویں تاجدار امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے حکیمانہ کلام اور مدبرانہ رفتار سےائمہ معصومین علیہم السلام کے متعلق افراط اور تفریط کی حد کو مشخص فرمایا۔ انہوں نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے حقیقی دوستوں کو ان باطل اور جھوٹے عقیدوں سے جہاں تک ممکن تھا دور رکھا۔ اور کج فکر افراد،باطل عقیدہ کے حامی، جیسے على بن حسکه قمى، قاسم يقطينى، حسن بن محمد باباى قمى، محمد بن نصير و فارس بن حاتم قزوينى او ر... سے امام مختلف انداز سے نمٹتے تھے:
الف)کلام اور خطوں کے ذریعہ:
باطل اور انحرافی عقیدوں کے متعلق ،امام کے ماننے والوں میں سے ایک نے امام کو خط لکھا اور علی ابن حسکہ کے عقیدہ کا حال بیان کرتے ہوئے اس طرح لکھا: مولا میں آپ پر قربان! علی ابن حسکہ کا عقیدہ ہے کہ آپ اس کے ولی اور قدیم خدا ہو! وہ خود کو آپ کی طرف سے لوگوں میں معین نبی سمجھتا ہے اور آپ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ امام نے اس خط کے جواب میں ارشاد فرمایا:علی ابن حسکہ نے جھوٹ بولا ہے۔ میں اسے اپنے دوستوں میں شمار نہیں کرتا۔۔۔!
اللہ تعالی کی قسم! اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان سے پہلے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں کو، توحید،نماز، زکات، حج اور ولایت کے علاوہ کوئی فرمان نہیں دیا۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین بھی خدا کے بندے ہیں اور اس سے شرک نہیں کرتے۔ ہم اللہ تعالی کی اطاعت کی صورت میں اس کی رحمت کے حقدار قرار پاتے ہیں اور اس کی نافرمانی کی صورت میں عتاب اور عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہم پر اور تمام مخلوقات پر اتمام حجت کی ہے۔ جو افراد ایسی بری باتیں زبان پر جاری کرتے ہیں میں ان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ ان پر اللہ تعالی کی لعنت ہو۔ تم لوگ بھی ان سے بیزاری کا اظہار کرو!ان کی تکذیب کرو! اگر ایسے افراد میں سے کوئی تمہارے ہاتھ لگ جائے تو اس کا سر پتھر سے پھوڑو!(۱۵)
ب) عملی اقدام:
فارس ابن حاتم قزوینی پہلے تو امام علی نقی علیہ السلام کے دوستوں میں سے تھا۔ اور امام کا نمائندہ تھا۔لیکن بعد میں اس نے دین سے اور عقیدہ امامت سے منہ موڑ لیا۔ اور کفر آمیز عقیدوں کا موجد بن گیا اور لوگوں کو ان باطل افکار کی طرف گمراہ کرنا شروع کیا۔اس نےامام کے مرضی کے بغیر لوگوں سے وجوہات شرعیہ وصول کرکےاپنی مرضی پر دین کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ کیونکہ وہ لوگوں میں امام کا نمائندہ مشہور تھا۔ اس کے انحراف اور گمراہ ہونے کا ایک سبب دنیا اور مال پرستی تھا جس نے اسے صراط مستقیم اور حق کے راستے سے ہٹا دیا اوراسے امامت سے دور کردیا اور باطل کی طرف کھینچ لیا اورگمراہ کردیا۔
فارس ابن حاتم، باطل کے راستہ پر اتنا آگے چلا گیا، اور اس نے لوگوں کو اتنا منحرف کیا اور ان میں اتنا فتنہ اور فساد برپا کیا ، اتنا افراط کیا کہ امام علی نقی علیہ السلام کی طرف سے اس کے کفر اور ارتداد کا حکم ان الفاظ میں آیا: هذا فارس - لعنه الله - يعمل من قبلى فتانا داعيا الى البدعة، و دمه هدر لکل من قتله، فمن هذا الذى يريحنى منه يقتله و انا ضامن له على الله الجنة; (16)
یہ فارس۔ اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو۔خود کو میرا نمائندہ سمجھتا ہےحالانکہ وہ مسلمانوں میں بدعت ، تفرقہ،فتنہ اور فساد برپا کرنے والا ہے۔ اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے ۔ وہ واجب القتل ہے۔جو بھی اسے قتل کرے گا اور لوگوں کو اس کے شر سے نجات دے گا اس کی جنت کا میں ضامن ہوں۔
کچھ مدت گذرنے کے بعد بھی جب کسی نے اس نیک کام کو انجام نہ دیاتو امام نے اپنے شیعہ، چاہنے والوں میں سے اعتماد اور یقین والے،شجاع ترین انسان کو، جس کا نام جنید تھا، اس کام کا حکم دیتے ہوئے کہا: مناسب موقع دیکھ کر اس ذمیداری کو انجام دو!
صوفیت سے مقابلہ
محمد ابن ابی خطاب نقل کرتا ہے:میں امام علی نقی علیہ السلام کے چند دوستوں کے ساتھ مسجد النبی میں امام کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں صوفیوں کی جماعت مسجد النبی میں وارد ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کے گردحلقہ بناکر ’’لااله الا الله‘‘کے ذکر میں مشغول ہو گئے۔ امام نے ہماری طرف رخ کر کے ارشاد فرمایا: لاتلتفتوا الى هؤلاء الخداعين، فانهم خلفاء الشياطين و مخربوا قواعد الدين يتزهدون لراحة الاجسام و يتهجدون لتعبيد الانعام;
ان ریاکار، دھوکہ بازوں پر توجہ نہ دو! یہ شیطان کے چیلے ہیں۔یہ دین کے قوانین کو خراب کرنے والے ہیں۔ یہ دنیا کی آسائش حاصل کرنے کیلئے زہد کا ڈھونگ رچانے والے ہیں۔ اچھی اور مزیدار غذائیں کھانے کی لالچ میں راتوں کو جاگنے والے ہیں۔
اس کے بعد امام نے فرمایا: فمن ذهب الى زيارة احد منهم حيا و ميتا فکانما ذهب الى زيارة الشيطان و عبدة الاوثان ...;
جو بھی ان میں سے کسی کی ملاقات یا زیارت کو ان کی زندگی میں یا مرنے کے بعد گیا وہ اس طرح ہے جیسے وہ شیطان کی ملاقات کو گیا اور بت پرستوں سے ملاقات کرنے گیا۔
جب امام کا کلام یہاں تک پہنچا۔ تو امام سے ایک شیعہ نے عرض کی:مولا اگر چہ وہ امامت کو مانے اور آپ کے حق کا اعتراف کریں؟
امام نے جلالت سے اسے دیکھا اور فرمایا: اس باطل تصور کو چھوڑ دو! جو ہماری امامت کو مانے گا وہ ہماری مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہ اٹھائے گا! کیاتمہیں پتا نہیں کہ پست ترین گروہ صوفی ہیں۔ امام نے اس کے بعد فرمایا: والصوفية کلهم من مخالفينا، و طريقتهم مغايرة لطريقتنا، و ان هم الا نصارى و مجوس هذه الامة اولئک الذين يجهدون فى اطفاء نور الله والله يتم نوره و لو کره الکافرون;
سارے کے سارے صوفی ہمارے مخالف ہیں۔ ان کا راستہ ہم سے جدا ہے۔ وہ اس امت کے نصاری اور مجوسی ہیں۔ یہ وہی ہیں جو اللہ کے نور کو خاموش کرنا چاہتے ہیں جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا اگرچہ کافروں کو کتنا ہی گراں کہوں نہ لگے (۱۸)
واقفیہ سے مقابلہ
ان منحرف گروہوں میں سے ایک گروہ جس نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے راستہ کو روکا اور مزاحمت کی ’’واقفیہ‘‘ ہے۔
واقفیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام زندہ ہیں اور آخری امام مہدی ، موعود ہیں۔
امام علی نقی علیہ السلام نے ان کے مقابلہ میں قطعی موقف اختیار فرمایا اور ان سے مقابلہ کیا۔ایک دن امام کے شیعوں میں سے کسی نے امام کو خط لکھ کر پوچھا:مولا میں آپ پر قربان! آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں کیا نماز کے قنوت میں ان پر لعنت کرنی چاہئے؟ امام نے جواب میں لکھا: نعم، اقنت عليهم فى صلاتک; جی ہاں! نماز کے قنوت میں ان پر لعنت کرنی چاہئے۔(۱۹)
امامت اور غدیر کی ثقافت کو زندہ کرنا
امام علی نقی علیہ السلام کی سیرت میں سے ایک، اس تاریک اور ظلم اور جفا سے پر ماحول کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے فضائل کے بیان سے نورانی بنانا ہے۔
جب خلیفہ معتصم عباسی نے عید غدیر کے دن امام کو بلایا۔ امام نے اس حساس ماحول میں، امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت کی تلاوت کے ذریعہ ہر فضیلت اور کمال کے مالک امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل کودوبارہ اپنے نورانی کلام سے لوگوں کےاذہان میں زندہ کیا۔ یہ زیارت ، امامت کی ثقافت غدیر کی عکاس ہے۔ اور امام نے اس زیارت میں امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کو محور قرار دیا ہے اور غدیر کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی تمام آیتوں کو جیسے آیہ ولایت، آیہ شراء، آیہ بلاغ، آیہ جہاد ۔۔۔ کو امام علی نقی علیہ السلام نے زیارت میں جمع کیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ زور اس زیارت میں غدیر پر دیا گیا ہے۔ اس زیارت کے ایک جملہ میں امام علی نقی علیہ السلام اپنے دادا، امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اشهد يا اميرالمؤمنين ان الشاک فيک ما آمن بالرسول الامين و ان العادل بک غيرک عائد عن الدين القويم الذى ارتضاه لنا رب العالمين و اکمله بولايتک يوم الغدير و اشهد انک المعنى بقول العزيز الرحيم و ان هذا صراطى مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوالسبل; (20)
اے امیر المومنین! میں گوائی دیتا ہوں کہ جو آپ میں شک کرتا ہے ، در حقیقت وہ رسول امین پر ایمان نہیں رکھتا۔جو آپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف چلا گیا وہ اس دین سے منحرف ہو گیا جس کو کائنات کے پروردگار نے ہمارے لئے چن لیا تھا اور اس دین کو غدیر کے دن آپ کی ولایت اور امامت سے کامل کیا تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ و ان هذا صراطى مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوالسبل; اس آیت سے مراد آپ ہی ہیں۔
زیارت جامعہ،منشور امامت
امام علی نقی علیہ السلام نے زیارت غدیر کے علاوہ ، مقام امامت سمجھانے کیلئے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزلت کو مشخص کرنے کیلئے، اورقیامت تک معرفت کا سمندر نشانی کے طور پر چھوڑنے کیلئے ،زیارت جامعہ کبیرہ ارشاد فرمائی۔ جو کہ امام شناسی کا مکمل نصاب ہے اسے معارف اہلبیت علیہم السلام کے پیاسوں کے حوالہ کیا۔
علامہ مجلسی کے بقول زیارت جامعہ، سند کے لحاظ سے صحیح ترین زیارت ہے ، اور لفظ کے لحاظ سے فصیح ترین زیارت ہے ، معنی کے لحاظ سے موثر ترین زیارت ہے اور اس زیارت کی شان بہت بلند ہے۔(۲۱)
۶۔ فرصت سے فائدہ اٹھانا
جب بد خواہوں نے خلیفہ متوکل کے پاس امام علی نقی علیہ السلام کی بدگوئی شروع کی۔ اور کہا: ان کے گھر میں اسلحہ ہے اورتمام شیعوں سے رابطہ کے خط اور خطوط موجود ہیں۔وہ تیری کرسی حاصل کرنا چاہتا ہے اورقیام کا ارادہ رکھتا ہے۔
خلیفہ متوکل نے ایک گروہ کو امام کے گھر بھیجا۔ انہوں نے رات کو امام کے گھر چھاپا مارا۔ لیکن گھر میں کوئی مشکوک چیز نہ ملی۔ انہوں نے دیکھا کہ امام تنہا ایک کمرہ میں عبا اوڑھے دروازہ بند کر کے مصلی پر قبلہ رخ عبادت اور تلاوت کرنے میں مشغول ہیں۔
امام کو اس حال میں گرفتار کیا گیا اور خلیفہ متوکل کی دربار میں لایا گیا۔سپاہیوں نے خلیفہ متوکل کو بتایا کہ امام کے گھر میں کوئی مشکوک چیز نہیں تھی اور امام کو مصلی عبادت سے گرفتار کیا گیا ہے۔ جب خلیفہ متوکل کی نظر امام پر پڑی تو وہ امام کی ہیبت اور جلالت کی وجہ سے بے اختیار اپنے تخت سے کھڑا ہو گیا اور اس نے چاہا کہ امام کو اپنے پاس تخت پر بٹھائے اور گستاخی کرتے ہوئے ہاتھ میں موجود شراب کا جام امام کو پیش کیا۔
امام نے کہا؛: میرے گوشت اور خون میں اس چیز کی آمیزش نہیں۔ مجھے اس چیز سے معاف رکھو!
متوکل نے کہا: چلو معاف کیا کوئی شعر سناو! امام نے فرمایا: میں شعر بہت کم پڑہتا ہوں۔ متوکل نے کہا: شعر تو ضرور سنانا پڑے گا!
امام علی نقی علیہ السلام نے اس کا اصرار دیکھ کر چند اشعار تلاوت فرمائے جس کااثر اس قدر اہل دربار پر ہوا کہ وہ محفل عیش سے سوگ اور عزا میں تبدیل ہو گئ وہ جام زمیں پہ پھینک کر رونے لگے۔ امام نے یہ اشعار پڑھے:
باتوا على قلل الاجبال تحرسهم
غلب الرجال فلم تنفعهم القلل
واستنزلوا بعد عز عن معاقلهم
واسکنوا حفرا يا بئس ما نزلوا
ناداهم صارخ من بعد دفنهم
اين الاساور و التيجان والحلل
اين الوجوه التى کانت منعمة
من دونها تضرب الاستار والکلل
فافصح القبر عنهم حين سائلهم
تلک الوجوه عليها الدود يقتتل
قد طال ما اکلوا دهرا و ما شربوا
واصبحوا بعد طول الاکل قد اکلوا; (22)
(مغرور اور مقتدر بادشاہوں اور حاکموں نے)کوہسار کی چوٹیوں پر دن اور راتیں بسر کی۔
اس حالت میں کہ طاقتور فوج ان کی حفاظت میں تھی۔
لیکن وہ کوہسار ان کو موت کے چنگل سے نہ بچا سکے!
وہ کچھ مدت کے بعد اس جائے امن اور عزت سےزمیں کے اندر لائے گئے۔
ایک ناپسندیدہ مقام ایک گودال میں ان کو جگہ دی گئی۔
جب وہ لوگ خاک میں دفن ہوگئے۔
تو کسی فریاد کرنے والے نے صدا دی:
کہاں ہیں وہ تاج ، دست بند اور گراں قیمت ،فاخرہ لباس؟
کہاں ہیں وہ نازو نعمت سے پلے ہوئے چہرے جن کے احترام میں قیمتی پردے لٹکائے جاتے تھے؟
ان کی بجائے قبر نے جواب دیا:
ان کے چہرے کیڑوں نے پہچان کے قابل نہیں چھوڑے!
انہوں نے بڑا ٹائم دنیا میں کھایا پیا۔
لیکن زیادہ کھانے پینے کے بعد وہ خود خوراک بن گئے!
حوالہ جات :
1) ’’صریا‘‘ مدینہ سے تین میل فاصلہ پر ایک گاون جس کا سنگ بنیاد امام موسی کاظم علیہ السلام نے رکھا!
2) انوار البھیہ، ص 449 و 450.
3) بحارالانوار، ج 50، ص 198.
4) انوار البھیہ، ص 288 و 289.
5) الشعرا/ 227.
6) بحارالانوار، ج 50، ص 199 و 200.
7) بحارالانوار، ج 50، ص 132 و 133.
8) اوپر والا حوالہ ، ص 194 و 195.
9) غافر/ 84 و 85.
10) وسائل الشیعہ، ج 28، ص 141.
11) توبہ/ 25.
12) بحارالانوار، ج 50، ص 162 و 163.
13) اوپر والا حوالہ ، ج 50، ص 185.
14) بحارالانوار، ج 50، ص 176.
15) اوپر والا حوالہ ، ج 25، ص 317; رجال کشی، ص 518.
16) معجم رجال الحدیث، ج 14، ص 259.
17) اوپر والا حوالہ ، 260; بحارالانوار، ج 50، ص 205.
18) سفینة البحار، ج 2، ص 58 و طبع جدید، ج 5، ص 199 و 200.
19) بحارالانوار، ج 82، ص 203; رجال کشی، ص 391.
20) ہدیة الزائرین، ص 176.
21) اوپر والا حوالہ، ج 99، ص 144.
22) اوپر والا حوالہ ، ج 50، ص 211 و 212.