سورہ تغابن کی مختصر تفسیر

مدرس: غلام قاسم تسنیمی

امام حسین علیہ السلام فاؤنڈیشن، شعبہ قم المقدسہ

مومنین کرام!

ماہ مبارک رمضان کی مناسبت سےامام حسین علیہ السلام فاؤنڈیشن، شعبہ قم المقدسہ کی جانب سے انٹرنیٹ پر قم المقدسہ سےبراہ راست درس تفسیر قرآن کااہتمام کیاگیاہے،اورہماراموضوع،سورہ تغابن کی تفسیرہے۔

آ پ جانتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان ایک فرصت ہوتی ہے،اللہ کےکتاب قرآن کوپڑہنے،سننے اورسمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی۔

ماہ مبارک رمضان ہےہی قرآن کامہینہ، عبادات کامہینہ،راز ونیازکامہینہ، پروردگارسےلولگانے، پروردگارسے مناجات کرنے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا مہینہ ۔

ویسے تو قرآن مجید پورا سال پڑہنے کی تاکید کی گئی ہے، روزانہ کم از کم پچاس آیات کی تلاوت کرنے کی تاکید کی گئی ہے، فرمایا گیا ہے جو چاہتا ہے کہ غافلین میں شمار نہ ہو اسے چاہیے کہ روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔ مخلوق کو چاہیے کہ روزانہ اپنے دل کو، اپنی روح کو، اپنے قلب کو منور کریں خالق کائنات کے کلام کی تلاوت سے۔ اپنے رب کے کلام کو پڑھ، سمجھ، اور اس پر عمل کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو آباد کریں ۔

فضائل تلاوت قرآن

کس قدر سعادت کا مقام ہے کہ انسان قرآن کے کلمات اپنی زبان پر جاری کرے اوراس میں غوروفکر کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی زبان قدرت پر جاری فرمایا۔ ارشاد الٰہی ہے:

فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ

لہٰذا تم آسانی سے جتنا قرآن پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ (۷۳ مزمل: ۲۰)

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا 

اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجئے۔ (حوالہ سابق: ۴)

نیز فرمایا:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللَّهِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوة وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰ همْ سِرًّا وَّعَلَانِيَة يَّرْجُوْنَ تِجَارَة لَّنْ تَـبُوْرَ لِيُوَفِّيَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِه۔۔۔

بے شک جولوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتےہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اورہم نےجورزق انہیں دیاہے اس میں سےپوشیدہ اورعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کےساتھ امیدلگائےہوئے ہیں جس میں ہرگزخسارہ نہ ہوگا تاکہ اللہ ان کا پورا اجر انہیں دےبلکہ اپنےفضل سےمزیدبھی عطا فرمائے۔

(۳۵ فاطر:۲۹۔ ۳۰)

رسول کریم (ص)سے روایت ہے:

یااباذر علیک بتلاوة القرآن و ذکر اللّٰه کثیراً فانه ذکر لک فی السماء و نور لک فی الارض۔ 

اے ابوذر! تم قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کثرت سے کیا کرو کیونکہ یہ تمہارے لیے آسمان میں شہرت اور زمین میں نورانیت کا باعث ہے۔( بحار الانوار ۸۹: ۱۹۸)

حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

من قرأ عشر آیات فی لیلة لم یکتب من الغافلین،ومن قرأ خمسین آیة کتب من الذاکرین،ومن قرأ مأة آیة کتب من القانتین، ومن قرأ مأتی آیةکتب من الخاشعین، ومن قرأ ثلثمأةآیة کتب من الفائزین، ومن قرأ خمسمأة آیة کتب من المجت هدین، ومن قرأ الف آیة کتب له قنطار من تبر۔ ( اصول الکافی۲:۶۱۲)

جو ایک رات میں دس آیات کی تلاوت کرے اسے غافلین میں شمار نہیں کیا جائے گا اور جو پچاس آیات کی تلاوت کرے اسے ذکر خدا میں مشغول رہنے والوں میں شمار کیا جائے گا اور جو ایک سو آیات کی تلاوت کرے اسے عبادت گزاروں میں شمار کیاجائے گا، جو تین سو آیات کی تلاوت کرے اسے کامیاب لوگوں میں شمار کیا جائے گا اور جو پانچ سو آیات کی تلاوت کرے اسے(راہ خدا میں)جہاد کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا اور جو ایک ہزار آیات کی تلاوت کرے گا وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دیا ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی ہے کہ آپ (ع)نے اپنے جد سے روایت کی ہے:

علیکم بتلاوة القرآن فان درجات الجنة علی عدد آیات القرآن فاذا کان یوم القیامة یقال لقاری القرآن: اقرأ و ارق فکلما قرأ آیة رقی درجة۔ 

(الامالی للصدوق ص ۳۵۹)

تم قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو، چونکہ جنت کے درجات قرآنی آیات کی تعداد کے برابر ہیں، جب قیامت کا دن ہوگا قرآن کی تلاوت کرنےوالےسےکہاجائے گا: پڑھ اور اپنے درجات میں اضافہ کرتا جا۔ پس جب وہ ایک آیت پڑھتا ہے تو ایک درجہ بلند ہوتا ہے۔

روایت ہےکہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سےسوال کیاگیا کہ کون ساعمل بہترین ہے؟آپ(ع)نے فرمایا:

الحال المرتحل قلت وماالحال المرتحل؟ قال فتح القران و ختمه کلما جاء باوله ارتحل فی آخره۔

(اصول الکافی ۲: ۶۰۵)

بہترین عمل حال مرتحل ہے۔ میں نے عرض کی: حال مرتحل کیا چیزہے؟ فرمایا: قرآن کا کھولنا اورختم کرنا۔ جب بھی قرآن کی ابتدا پرآیا، آخر کی طرف روانہ ہوا۔

امام جعفرصادق علیہ السلام سےمروی ہے:

و البیت الذی یقرأ فیه القران و یذکر اللّٰه عزوجل فیه تکثر برکته و تحضره الملائکة و تهجره الشیاطین و یضیٔ لاهل السماء کما یضیٔ الکوکب الدری لاهل الارض و البیت الذی لا یقرأ فیه القران و لا یذکر اللّٰه فیه تقلّ برکته و تهجره الملائکة و تحضره الشیاطین۔

جس گھرمیں قرآن کی تلاوت اورذکرخداہوتاہےاس میں وافربرکتیں ہوتی ہیں،فرشتے حاضرہوتےہیں اورشیاطین بھاگ جاتےہیں۔آسمان والوں کےلیےیہ گھراس طرح چمکتاہےجیسےزمین والوں کےلیےدرخشندہ ستارےاورجس گھرمیں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اوراللہ کاذکرنہیں ہوتا،اس گھرکی برکت کم ہوجاتی ہےاوروہاں سے فرشتے بھاگ جاتے ہیں اور شیطانوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ( حوالہ سابق ۲: ۴۹۸)

ماہ رمضان میں تلاوت کی فضیلت

لیکن خاص طورپرماہ مبارک رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے،جیساکہ آپ سنتےرہتےہیں،روایت منقول ہےرسول اکرم ﷺاورمختلف آئمہ علیہم السلام سےکہ جوبھی ماہ مبارک رمضان میں، قرآن مجیدکی ایک آیت کی تلاوت کرےگاخالق کائنات اسےدوسرےمہینوں میں ختم قرآن کرنےکاثواب عطا کرےگا۔یعنی ایک آیت برابرہوجاتی ہےکل قرآن کے۔ایک آیت کی تلاوت کاثواب خالق کائنات اتنا بڑہا دیتاہے،فرمایا کہ ختم قرآن کا ثواب ملتا ہے۔

ظاہرہے کہ خاص طور پر اس لئے کیونکہ ماہ مبارک رمضان میں قرآن نازل ہوا ہے، یہ قرآن کا مہینہ ہے، یہ قرآن کی بہار کا مہینہ ہے، یہ بندے کو خدا سے ملانے کا مہینہ ہے، مخلوق کو خالق کی بارگاہ تک پہنچانے کا مہینہ ہے۔

سورہ تغابن کو کیوں انتخاب کیا؟

جس سورہ مبارکہ کو اس درس کیلئے موضوع بنایا ہے، وہ سورہ مبارکہ تغابن ہے۔ کیونکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہم مشہور و معروف سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں، انہیں سنتے ہیں، انہیں پڑہتے ہیں، موضوع گفتگو بناتے ہیں، لیکن قرآن مجید کی کچھ ایسی سورتیں بھی ہیں جن کا ہم نے توجہ سے نام بھی نہیں سنا ہوتا۔ ہمیں ان کے نام کی معنی کا بھی پتا نہیں ہوتا ، اس لئے ہم نے سورہ تغابن کا انتخاب کیا ہے، انشاء اللہ دس دن سورہ تغابن کی تفسیر، آپ کی خدمت میں پیش کر سکیں گے، آج کیونکہ پہلا درس ہے، اس لئے خاص طور پر اس سورہ کے بارے میں کچھ اجمالی معلومات پیش خدمت ہے۔

سورہ تغابن مکی یا مدنی

سورہ تغابن کےمکی اورمدنی ہونےمیں اختلاف پایا جاتاہے،کیا یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا یا مدینے میں؟مشہور قول یہ ہےکہ یہ سورہ مدنی ہے،مدینےمیں نازل ہواہے۔لیکن بعض مفسرین اسےمکی سورہ کہتےہیں۔اورکچھ کا یہ کہناہےکہ آخری تین آیات مدنی ہیں،بقیہ پوراسورہ مکی ہے۔تومکی اورمدنی ہونےکےلحاظ سےمجموعا تین قول پائےجاتے ہیں۔

مشہورقول یہی ہےکہ یہ پوراسورہ مدنی ہے،دوسراقول یہ ہےکہ پورا سورہ مکی ہے،تیسراقول یہ ہےکہ آخری تین آیات مدنی ہیں اسکےعلاوہ باقی سورہ مکی ہے۔مکی اورمدنی کےحوالےسےآپ جانتےہیں کہ قرآن مجید کی اکثرسورتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں، ہجرت سےپہلے۔جبکہ کچھ سورتیں ہجرت کےبعدنازل ہوئی ہیں، ہجرت سےقبل نازل ہونےوالی سورتوں کومکی جبکہ بعد میں نازل ہونےوالی سورتوں کومدنی کہا جاتا ہے۔

مکی سورتوں میں عام طور پر اہل کتاب کو مخاطب قرار دیا گیا ہے،عقیدوں کی باتیں ہیں، عقلی اورمنطقی مباحث ہیں، توحید اور معاد کی گفتگو ہے، جبکہ مدنی سورتوں میں احکام، فقہی مسائل، اخلاق اورسماجی اوراجتماعی مباحث ہیں، اگرچہ گاہے بگاہےعقائد کی گفتگو کی گئی ہے۔لیکن عام طور پرتعلیمات اسلامی ہیں۔ کیونکہ مخاطب عام طور پر مسلمان ہیں، اس وقت مسلمانوں کا ایک اپنا معاشرہ تشکیل پا چکا تھا۔ ان کی اپنی ایک حکومت تھی، جسکےسربراہ خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔اس اجتماع کی رہنمائی اورہدایت کیلئے احکام،اوراخلاق اوراجتماعی قوانین کی ضرورت تھی، جو مدنی آیات میں نازل ہوئے۔

مکی اورمدنی سورتوں کی اپنی اپنی نشانیاں ہیں جوبہرحال مفصل اورطولانی کتابوں میں مذکور ہیں۔

۱۱۴ سورتوں میں سے ۸۶ سورتیں مکی ہیں، جبکہ بقیہ ۲۸ سورتیں مدنی ہیں، ان ۲۸ مدنی سورتوں کی تربیب کے مطابق تئیسواں سورہ، ترتیب نزول کے مطابق ۲۳ سورہ ، سورہ تغابن ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ تقریبا آخری سورتوں میں سے ہے۔ جبکہ موجودہ فعلی ترتیب کے مطابق سورہ تغابن کا نمبر ۶۴ ہے۔

اس سورہ کا نام تغابن کیوں؟

اس سورہ کا نام تغابن ہے، تغابن، غبن کے مادہ سے لیا گیا ہے، غبن کا مفاعلہ ہے تغابن۔ ایک خسارہ اٹھانے والا ہوتاہےجسےمغبون کہاجاتاہے، جبکہ ایک خسارہ پہنچانے والا ہوتا ہے، جسےغابن کہاجاتاہے۔ یہ سورہ اسی مادہ سے لیا گیا ہے،تغابن یعنی ہاراورجیت۔ معاملہ میں کبھی ہار ہوتی ہےاورکبھی جیت۔ جوہارجائے وہ مغبون ہوتا ہے، جو جیت جائے وہ غابن ہوتا ہے۔

اس کی مناسبت یہ ہے جیسا کہ روایت میں بھی وارد ہوا ہے، خالق کائنات نے جس بھی انسان کو پیدا کیا ہے، اس کے لئے جنت میں بھی ایک جگہ مقرر کی ہے، جہنم میں بھی ایک جگہ مقرر کی ہے۔ اگر یہ بندہ اور فرد، ایمان لے آئے، عمل صالح انجام دے، مومن بن جائے، اطاعت گذار بن جائے تو اس کا جنت میں یہ درجا ہوگا۔ اگر یہی شخص کفر کرے، خالق کائنات کا انکار کرے، اللہ کے احکام کی نافرمانی کرے، خلاف ورزی کرے، تو جہنم میں اس کا یہ مقام ہوگا۔ اب دو فرد کا مثال لیں، دونوں کی جنت میں ایک جگہ ہے، اور جہنم میں بھی ایک جگہ ہے۔ ان میں سے جو شخص کفر کو چھوڑ کر ایمان کو اپنا لے آئے، نافرمانی کو چھوڑ کو خدا کی اطاعت کرنے لگے، تو خداوند متعال اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر کوئی نافرمانی لگے تو اسے جہنم میں جگہ ملتی ہے۔

(مجمع البیان)

کیونکہ یہ ہار اور جیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، کچھ افراد ایمان قبول کر کے خود کو بہشتی بنا لیتے ہیں، جبکہ کچھ ایمان نہیں لے آتے، خدا کی نافرمانی کرتے ہیں، وہ خود کوجہنم کا حقدار بناتے ہیں اور دوزخی بن جاتے ہیں۔ اگر یہی فرد ایمان لے آتا تو اس کی جگہ جنت ہوتی، لیکن ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا رہا ہے ، اس کی جگہ پر دوسرا فرد جو ایمان لے آیا ہے وہ جنت میں جائے گا۔ وہ جیت گیا یہ ہار گیا۔ اس نے خسارہ اٹھا لیا، اس نے خسارہ پہنچایا ہے، یہ تغابن ہے۔ ہار اور جیت ہے۔ ایمان اور کفر کے مقابلہ میں کوئی جیت جاتا ہے اورکوئی ہار جاتا ہے۔

اور کیونکہ قیامت کا ایک نام تغابن ہے، جو کہ اسی سورہ میں بھی آیا ہے، اسی سے اس سورہ کا نام تغابن رکھا گیا ہے، جیت اور ہار۔ یعنی یہ زندگی مقابلہ، امتحان کا میدان ہے، کون جیت کر بہشی بنتا ہے، کون ہار جاتا ہے دوزخی بنتا ہے۔

سورہ کے مضامین

مضامین کے حوالہ سے دیکھنا چاہیں کہ اس سورہ میں کونسے مضامین ہیں۔ تو اس سورہ کو مضامین کے لحاظ سے چند اہم حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

سورہ کا پہلا اور ابتدائی حصہ، خالق کائنات اللہ عز وجل کی توحید اور صفات کے بارے میں گفتگو کرتا ہے۔ خدا کی تسبیح، خداوند متعال کی صفات کمالیہ، ثبوتیہ، جمالیہ اور جلالیہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔

اس کے بعد دوسرے حصہ میں انسانوں کو خبردار یا گیا ہے، انسانوں کو متوجہ اور ہوشیار کر گیا ہے، خداوند متعال انسانوں کو غفلت سے بیدار کر رہا ہے، وہ اس طرح کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے، تمہارے افعال کو دیکھ رہا ہے، تمہاری حرکات و سکنات سب اس کی نظروں کے سامنے ہیں، کیونکہ خدا دیکھ رہا ہے، اس لے ہوشیار رہنا چاہیے۔ آج کی دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں لکھا ہوا ہو کہ کیمرہ کی آنکھ آپ کودیکھ رہی ہےتو ہم ہوشیارہو جاتے ہیں، جبکہ ہروقت خدا ہمیں دیکھ رہاہے،علم الہی میں لحظہ بلحظہ ہمارے اعمال وافعال درج ہو رہےہیں۔اس آیت میں متوجہ کیاجارہاہے کہ خدا دیکھ رہاہے، اسکے دیکھنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں نہیں بن سکتی، کوئی چیزحجاب نہیں بن سکتی، آپ کیمرہ کودھوکادےسکتےہیں لیکن خداکودھوکانہیں دیاجس سکتا۔علم الہی میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اورفیصلہ کرنےوالابھی وہی ہوگا۔جوابھی گواہ ہے،جوشاہدہےاوردیکھ رہاہے۔

 اسلئے امام علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ ڈرو ڈرو اس بات سے کیونکہ جو شاہد ہے وہی حاکم ہے، جو دیکھ رہا ہے فیصلہ بھی اس نے کرنا ہے،

(نہج البلاغہ حکمت ۳۲۴)

دنیوی عدالتوں میں یہ ہوتا ہے، کہ فیصلہ کوئی کرتا ہے، گواہی کوئی دیتا ہے، گواہ جھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن بارگاہ الہی میں، عدالت خداوندی میں شاہد بھی وہی ہے، حاکم بھی وہی ہے۔ گواہ بھی وہی ہے، فیصلہ کرنے والا بھی وہی ہے۔ انسان کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ خبردار، اس غفلت سے بیدا ہو جائو، کہیں یہ غفلت تمہیں تباہ اور برباد نہ کر دے۔

اس سورہ کا تیسرا حصہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کے حوالے سے ہے۔ ایمان لانے والوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی۔ یعنی در حقیقت نبوت کی بنیاد مضبوط کی جا رہی ہے۔ نبوت کا مقام بتایا جا رہاہے کہ نبی ایک عام انسان نہیں ہے۔ خدا کا نمایندہ ہے، خدا کا بھیجا ہوا ہے، لہذا تمہیں اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔ حکم پروردگار یہی ہے۔

جبکہ آخری حصہ میں راہ خدا میں انفاق کی تشویق کی گئی ہے، ترغیب دلائی جا رہی ہے، راہ خدا میں انفاق کے فضائل بیان کئے گئے ہیں کہ اس کا کتنا ثواب ہے، اس کی کتنی فضیلت ہے، مومنین کو تشویق دلائی جا رہی ہے۔ اور مومنین کو خبردار کیا جا رہا ہے اپنی اولاد کے بارے میں، ازواج کے بارے میں۔ ایسے نہ ہو کہ گھروالوں کی محبت میں خدا کی محبت سے غافل ہو جائو۔ کہیں یہ نہ ہو کہ اولاد کی محبت اور ناز اور نخرے تمہیں خدا سے دور کر دیں، اولاد کی محبت میں حدود الہی کو پامال کرنے لگ جائو، اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے لگ جائو۔ نہیں حد میں رہنا چاہیے، یہ اولاد یہ ازواج، خدا کی ہی عطا کردہ ہیں، امتحان ہیں، آزمایش ہیں، یہ اگر خدا کی نافرمانی کرنے لگیں اور خدا کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ پر جانے لگیں تو کہیں ان کی محبت میں ہم بھی خدا سے دور نہ ہوجائیں۔

یہ اس سورہ کا اجمالی خاکہ ہے۔

تلاوت کی فضیلت

 اس سورہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کی تلاوت کا بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔

جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ بیان فرماتے ہیں: کہ جو بھی سوره تغابن کی تلاوت کرے گا وہ اچانک، حادثاتی اتفاقاتی موت سے محفوظ رہے گا۔

(مجمع البیان، ج۱۰، ص۲۷)

اس سے اتفاقی موت کو ٹال دیا جائے گا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان متوجہ نہیں ہوتا، اچانک کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے جو انسان کی موت سبب بنتا ہے، اب نہ اس نے توبہ کی، نہ اس نے اپنے گناہوں کا کفارہ دیا، نہ کوئی وصیت کی، نہ کوئی بات کی۔ اچانک چل بسا۔ بارگاہ الہی میں حساب دینے کیلئے حاضر ہونا ہے، اور کوئی تیاری نہیں کی۔ لیکن رسول اکرم ﷺ سے منقول حدیث کے مطابق جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرتا رہے گا وہ اتفاقی اور حادثاتی موت سے بچ جاتا ہے، یعنی وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کر سکتا ہے، اسے توفیق ہوگی کہ وہ موت کی تیاری کرلے۔ یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔

دوسری جگہ پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ارشاد فرماتے ہیں: جو بھی فریضہ نماز میں اس سورہ کی تلاوت کرے گا، یعنی سورہ تغابن کی تلاوت کرے گا، یہ سورہ قیامت کے دن اس کی شفاعت کرے گی، کانت شفیعہ لہ، یہ سورہ تغابن اس کی شفاعت کرے گی، اس کے ساتھ جائے گی، اس کے ساتھ رہے گی ، گواہی دے گی اس کے حق میں۔ اور خدا اس کی گواہی کو قبول بھی فرمائے گا، اس کی گواہی مقبول ہوگی، اس مقبول گواہی کی بنیاد پر خدا اس کی شفاعت قبول کرے گا اور اس کو بہشت میں داخل کرے گا۔

(ثواب الاعمال، ص ۱۱۸)

ظاہر ہے یہ تمام فضیلتیں اس شخص کو ہی میسر ہوں گی، جو سوچ کر،سمجھ کر، تدبر کے ساتھ، تعقل کے ساتھ، تفکر کے ساتھ، ان آیات کی تلاوت کرےگا، اور ان آیات کو اپنی زندگی پر نافذ کرے گا، جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص آتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے تعلیم دیں، آپ اس کو ایک سورہ کی تعلیم دیتے ہیں، جس کی آیات یہ بھی ہیں کہ جو بھی ذرہ برابرنیک عمل کرے گا وہ اس کو پائے گا، دیکھے گا۔اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا، گناہ کرے گا تو بھی اس کو پائےگا، یعنی ذرہ برابر کسی کی نیکی ضائع نہیں ہوگی، ذرہ برابر گناہ بھی حساب کے بغیر نہیں رہے گا۔ وہ اسی ایک سورہ کی تعلیم لے کر پلٹنے لگا، بعض اصحاب نے کہا کہ کیسا آدمی ہے، علم لینے آئے تھا، بس ایک سورہ سنی اور جا رہا ہے، آپ نے فرمایا کہ رجع فقیھا ، یہ فقیہ بن کر واپس جارہا ہے،

( تفسیرنمونہ ج:۲۷ ، ص: ۲۳۲)

یعنی اس نے اس سورہ کے مفاہیم کو اپنے ذہن میں بٹھا لیا ہے، انہیں ذہن نشین کر لیا ہے، اس نے یہ جان لیا ہے کہ ذرے ذرے کا حساب و کتاب دینا ہے، اب غفلت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

جب ذرہ ذرہ کا حساب ہونا ہو تو انسان کو غافل نہیں ہونا چاہیے۔ جب غفلت نہیں کرے گا تو اچانک موت کا شکار نہیں ہوگا: کیونکہ وہ ہر دن کو یہی سمجھ کر گذارے گا شاید یہ دن میری زندگی کا آخری دن ہو، شاید آج کسی گلی میں میری زندگی کی شام ہو جائے۔ جب یہ غافل نہیں ہوگا تو غفلت کی موت سے بچ جائے گا۔

اہم نکتہ

اور ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کیونکہ اس سورہ کی ابتدا ہوتی ہے، تسبیح کے مادہ سے۔ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے، اور قرآن مجید کی ایسی پانچ سورتیں ہیں، جن کو مسبحات کہا جاتا ہے، جن کی ابتدا تسبیح سے ہو رہی ہے، ان کے بارے میں خاص روایت ہے کہ جو بھی روزانہ رات کو مسبحات کی تلاوت کرے گا، تو وہ اس وقت تک نہیں مرے گا، جب تک اپنے زمانہ کے امام کو دیکھ نہ لے ۔ وہ اپنے زمانہ کے امام کو درک کرے گا۔ اور اگر اس کو موت آبھی جائے تو اس کو خالق کائنات جوار آئمہ علیہم السلام میں اور جوار نبیصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جگہ عطا فرمائے گا۔ اس سے بڑہ کر کوئی فضیلت کیا ہو سکتی ہے، کہ یا اپنے امام زمانہ کو پالے گا یا جوار آئمہ میں اس کو جگہ ملے گی۔

(مفاتیح الجنان)

پانچ سورتیں جن کی تسبیح کے مادہ سے ابتدا ہوتی ہے، وہ یہ ہیں تغابن، جمعہ، حشر، صف اور حدید۔

دعاہےکہ خداوندمتعال ہمارےقلوب کونورقرآن سےمنورفرمائے،اورہمیں ان آیات کی تلاوت، اس میں تدبراورتفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تفسیرسورةُ التّغَابُن آیت ۱ اور۲

پہلی آیت میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‌

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ‌ءٍ قَدِيرٌ

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں بادشاہی اسی کی ہے اور ثنا بھی اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

اس آیہ مبارکہ میں خالق کائنات نےکائنات کی ہر چیز کی تسبیح کو بیان فرمایا ہے، یسبح للہ، تسبیح کرتی ہے، یعنی زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ خالق کائنات کی تسبیح کررہاہے، خالق کائنات کو نواقص، عیوب اورصفات سلبیہ سےمنزہ قراردےرہاہے۔ چاہےوہ آسمان کی چیزیں ہوں یا زمین کی۔ہرچیزجس جگہ پربھی ہو، جہاں پر بھی ہو، وہاں خدا کی تسبیح کر رہی ہے۔

کائنات اورمخلوقات کاتسبیح کرنا، قرآن مجیدبہت ساری آیات میں بیان ہوا ہے۔

سورہ حدید کی ابتدا میں ارشاد ہوتا ہے:

سَبَّحَ لِلهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والاہے۔

 سورہ جمعہ کی ابتدا اس طرح ہوئی ہے:

يُسَـبِّحُ لِله مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِـيْمِ

۱۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اس اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو بادشاہ نہایت پاکیزہ، بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

 سورہ حشر کی پہلی آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ:

سَبَّحَ لِله مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَهوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ

۱۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ہر شے نے اللہ کی تسبیح کی ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

 بہرحال ان کے علاوہ بھی بہت ساری آیات میں خالق خائنات نے کائنات کی تسبیح کو بیان کیا ہے، ہر چیز تسبیح کر رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے ہر چیز تسبیح کیسے کر رہی ہے، کس طرح تسبیح کر رہی ہے؟

اس تسبیح سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات شعور رکھتی ہے، ذرہ ذرہ احساس رکھتا ہے، یہ تسبیح شعور اور احساس کی بنیاد پر ہے، علم و آگاہی کی بنیاد پر ہے، لاشعوری کی بنیاد پر نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تسبیح تو کر رہی ہے لیکن اپنی تسبیح سے واقف نہیں ہے، بلکہ علم اور معرفت کی بنیاد پر تسبیح کر رہی ہیں، اور اپنی تسبیح کو جانتی بھی ہیں، ہر چیز اپنی تسبیح کو جانتی بھی ہے، کیا کہہ کر رہی ہوں، کیا کر رہی ہوں، کس کی تسبیح کر رہی ہوں، کیوں کر رہی ہوں، یہ بہت ہی اہم حقیقت ہے، جس کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے۔

دوسری جگہ پر خالق کائنات ارشاد فرما رہے ہیں کہ:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الله يُسَبِّحُ لَه مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰفّٰتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَه وَتَسْبِيْحَه وَالله عَلِيْمٌ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ۔ (سورت نور،آیه : ۴۱)

کیاآپ نہیں دیکھتےکہ جو مخلوقات آسمانوں اورزمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اورپرپھیلائے ہوئے پرندے بھی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ کو ان کے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ اپنی نماز اورتسبیح سے واقف ہے، آگاہی رکھتاہے، اسی علم و آگاہی کی بنیاد پرخدا کی تسبیح کر رہا ہے۔کبھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں،یہ جمادات اور یہ نباتات کچھ نہیں جانتے، انہیں شعورنہیں ہے، لیکن قرآن کی منطق کچھ اورہے، قرآن یہ فرما رہاہے کہ ہرچیزشعوررکھتی ہے،ہرچیز احساس رکھتی ہے، ہرچیزاپنے خالق کوپہچانتی ہے،ہرچیز خالق کےبنانےہوئےاصولوں کےمطابق زندگی بسرکررہی ہے،جوخدانےاسکو راستہ بتایاہے، اسی راستے پرگامزن ہے، جیسا خداچاہتاہے،ہرچیزویساہی کررہی ہے۔

ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ:

تُـسَبِّحُ لَه ُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِه وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهوْنَ تَسْبِيْحَهمْ اِنَّه كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا۔ (اسراء:۴۴)

ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، اللہ یقینا نہایت بردبار، معاف کرنے والاہے۔

خدا ہمیں ارشاد فرماتا ہے کہ تم نہیں سمجھتے۔ تم نہیں جانتے، تمہیں ادراک نہیں ہے، کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نباتات اور جمادات ساکت اور خاموش ہیں، یہ بے شعور ہیں،یہ کچھ نہیں سمجھتے یہ کچھ جانتے یہ کچھ نہیں کہتے۔ خدا فرما رہا ہے کہ ہر چیز شعور اور احساس رکھتی ہے، اپنے خالق کو پہچانتی ہے، اور خدا کی تسبیح کر رہی ہے، ہر ایک کو پتا ہے کہ اس کی نماز کیا ہے، ہر ایک کو پتا ہے کہ اس کی تسبیح کیا ہے۔

لیکن اے انسان! تم نہیں سمجھ پاتے۔ یعنی ہمارے خیالات کے بلکل برعکس ہے، کہ ہم نہیں سمجھ پاتے۔ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم سمجھتے ہیں اور یہ شعور نہیں رکھتے۔ خدا فرما رہا ہے یہ سب شعور رکھتے ہیں، یہ سب تسبیح کر رہے ہیں، تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔

 لہذا یہاں پر بعض مفسرین نےجو کہا ہے کہ تسبیح سےمراد تسبیح حالی ہے۔ یعنی ہر چیز کا حال ایسا ہے۔ حالت ایسی ہے، کیفیت ایسی ہے کہ وہ خدا کی تسبیح کر رہی ہے، کیونکہ خدا نے اس کو پیدا کیا ہے، کیونکہ خدا نے اس کو وجود دیا ہے، کیونکہ خدا نے اس کے وجود کی بقا کے اسباب پیدا کیے ہیں، لہذا وہ خدا کی تسبیح کر رہی ہے، اپنی بے زبانی سے۔ اپنی حالت سے، اپنی کیفیت سے۔

جبکہ ایسا نہیں ہے، خدا فرما رہا ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ شاید ان کی تسبیح بھی ویسے ہی ہو جیسے ہماری ہے۔

رسول اکرم ﷺ کا ایک معجزہ جو منقول ہے اور بہت مشہور ہے۔ کفار نے کہا کہ اگر آپ ان کنکریوں کو، ان پتھریوں کو، کلمہ پڑہائیں یہ آپ کے ہاتھ پر آکر تسبیح خدا بیان کریں، خداوند متعال کی توحید کی گواہی دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ رسول کائنات ﷺ نے کچھ کنکریوں کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا، وہ آپ ﷺ کے ہاتھوں پر آئیں اور گواہی دینے لگیں۔بعض کج فہم یا نا فہم اور کم علم حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیسا معجزہ ہے، کیونکہ کائنات کی توہرچیز خدا کی تسبیح کررہی ہے، اس میں رسول اکرم ﷺ کا کیسا معجزہ ہے، ہر چیز خدا کو ایک مانتی ہے، خدا کی توحید بیان کر رہی ہے، اس میں رسول کا کونسا معجزہ ہے؟

رسول کائنات ﷺ کا یہاں پر معجزہ یہ تھا کہ کفار کو یہ تسبیح سنوائی۔ کیونکہ ہم یا کفار ہر چیز اور کنکریوں کی تسبیح نہیں سن پاتے، رسول اللہ کا معجزہ یہ تھا یہ نہ سننے کو سننے میں تبدیل کر دیا، تم درک نہیں رکھتے تھے، شعور نہیں رکھتے تھے، سن نہیں پاتے تھے، رسول اکرم ﷺ نے یہ معجزہ دکھایا کہ کنکریوں کی تسبیح ان کو سنوادی۔ ان کی سماعت گذار کی، گوش گذار کی۔ یہ معجزہ تھا۔ وگرنہ کائنات کی ذرہ ذرہ چیز تسبیح کر رہی ہے خدا کی۔

اچھا اس مطلب کو مختلف عبارات سے بیان کیا گیا ہے، یہاں پر بیان ہوا کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے۔ جبکہ دوسری جگہ پر خداوند متعال یہ ارشاد فرماتا ہے کہ ہر چیز سجدہ کر رہی ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الله َ يَسْجُدُ لَه مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُّهِنِ اللهُ فَمَا لَه مِنْ مُّكْرِمٍ اِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآء

 کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے نیز سورج، چاند، ستارے،پہاڑ ، درخت، جانور اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ جن پر عذاب حتمی ہو گیاہے اور جسے اللہ خوار کرے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں، یقینا اللہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔

(سورت حج، آیہ ۱۸)

ہر چیز کی اپنی نماز ہے، ہر چیز کی اپنی تسبیح ہے، وہ تسبیح کر رہی ہے، سجدہ کر رہی ہے، سر تسلیم خم ہے، جو پروگرام، جو ٹائیم ٹیبل، جو دستور، جو فرمان خدا نے انہیں دیا ہے، اسی کے مطابق عمل کر رہی ہے۔

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِيْ لَهَا اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ

۴۰۔ نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پرسبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔

(سورہ یاسین:۴۰)

سورج، چاند کو نہیں پہنچ پاتا، ہر ایک کا اپنا مدار گردش ہے، ہر ایک اپنے محور اور مدار میں گردش کر رہا ہے۔ نہ یہ اس کو ڈسٹرب کرتا ہے نہ ہی وہ اس میں خلل ڈالتا ہے۔ ہر چیز اپنے اپنے مقصد کی طرف گامزن ہے، ہر چیز اوامر الہی، اور حکم خداوندی کو اجرا کر ہی ہے، حکم خداوندی پر عمل کر رہی ہے۔

اس میں بہت اہم پیغام ہے، ہم غافل انسانوں کیلئےوہ اہم پیغام یہ ہےکہ دیکھو کائنات کاذرہ ذرہ خداکی تسبیح کر رہا ہے، اللہ کی تقدیس کررہاہے، حکم الہی کےمطابق زندگی بسرکررہا ہے، جو لائین خدا نے اس کےلئے معین کی ہے، اسی پر ان کاسفر جاری ہے۔ اے انسان تو ناشکری کیوں کر رہا ہے؟ تو نے اپنے رب کو کیوں بھلا دیا ہے، تو اس کی نافرمانی کیوں کر رہا ہے، تو اس کی معصیت کیوں کر رہا ہے، پوری کی پوری کائنات خدا کی تسبیح کر رہی ہے، اسی کی اطاعت کر رہی ہے، تو ایک نافرمانی کیوں کر رہا ہے۔

یہ انسان اگر نافرمانی کرتا ہے تو جیسا کہ آیات اور روایات میں وارد ہوا ہے، جانور بلکہ ان سے بھی پست ہو جاتا ہے، کیوں کہ جانوراپنے معین اورمقررشدہ اصولوں پرگامزن ہیں، وہ حکم خداوندی کی تعمیل کر رہے ہیں، دستور خداوندی کو اجرا کر رہے ہیں، اسی پر عمل کر رہے ہیں، انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو کبھی خدا کی نافرمانی کرتا ہے۔

خدا کی تسبیح اس بنیاد پر ہے کہ خدا خالق ہے ان کا، خدا نے ان کو وجود دیا ہے، اور وجود کی بقا کے اسباب بھی فراہم کیے ہیں، اسی لئے ارشاد ہو رہا ہے کہ:

له الملک

بادشاہی خدا کی ہے۔ سلطنت خدا کی ہے، حکومت خدا کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس نے خلق کرنے کے بعدمخلوق کو چھوڑ دیا ہے، خلق کرنے کے بعد وہ مخلوق سے غافل ہو گیا ہے، خلق کرنے کے بعد ان کی ضروریات اور احتیاجات سے اس نے چشم پوشی کر لی ہے۔نہیں! نہیں! وہ لمحہ بلمحہ ان کی دادرسی کر رہا ہے، فریاد رسی کر رہا ہے، ان کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ اسی لئے تو کائنات کی ہر چیز اسی کی تسبیح کر رہی ہے، اسی کی بادشاہی ہے، کیونکہ پیدا کرنےوالا وہی ہے۔کوئی اسکا شریک نہیں ہے، اس نےخلق کرنےکے بعد ان چیزوں کےانتظامات کسی اورکےسپردنہیں کئےہیں، کسی اورکےحوالےنہیں کئے، کسی کوتفویض نہیں کئے۔ ایسانہیں جیساکچھ افرادعقیدہ رکھتے ہیں کہ خدانےکائنات کوپیداکرنےکےبعد، انہیں خود ان کےحوالہ کردیا ہے۔ نہیں ایسانہیں۔بلکہ وہ کائنات کی تدبیرکررہاہے۔لمحہ بلمحہ تمام مخلوقات کی تمام احتیاجات کوبرطرف کررہاہے، ان کی ضروریات کی اشیا انہیں فراہم کر رہا ہے۔ اسی کی بادشاہی ہے۔ خالق وہی ہے مالک وہی ہے، کوئی اس کا شریک نہیں ہے، اس نے انتظامات کسی کے سپرد نہیں کئے۔

وله الحمد

حمد و ثنا بھی اسی کی ہے۔

تعریف اگر ہو سکتی ہے تو خدا کی ہونی چاہیے، تمام کمالات کا مالک وہی ہے۔ ایسی ذات جسے کبھی زوال نہیں آئے گا، اس کی صفات کو بھی زوال نہیں آ سکتا۔ تعریف کے اگر کوئی لائق ہے تو وہ خدا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جسے خدا نے کچھ عنایت کیا ہے، خدا نے کچھ مرحمت کیا ہے، حمد اس کے لئے ہے۔ بادشاہی اس دنیا میں بھی خدا کی ہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہے کہ انسان اشیاء مادی پر بھروسہ کرنے لگتا ہے، ان کو مددگار سمجھتا ہے، لہذا اس دنیا میں کبھی کبھی انسان حکم خدا کو، یا حکومت الہی کو، خدا کی بادشاہت کو سمجھ نہیں پاتا۔کبھی ضرورت میں گرفتار ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ فلاں مدد کرے گا، یہ میرے پاس ہے، رشتہ داروں پر بھروسہ کرتا ہے، دولت پر بھروسہ کرتا ہے، عہدہ اور منصب پر اعتماد کرتا ہے، لیکن قیامت کے دن جب یہ سب اسباب ختم ہو جائیں گے، نسب نہیں رہے گا، رشتہ ختم ہو جائیں گے، عہدے ختم ہو جائیں گے، انسان تنہا اپنے اعمال کےساتھ آئےگا، پھرخدا سوال کرےگا کہ:

يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ لَا يَخْـفٰى عَلَي اللهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

اس دن وہ سب(قبروں سے)نکل پڑیں گے،اللہ سےانکی کوئی چیزپوشیدہ نہ رہےگی،(اس روز پوچھا جائے گا)آج کس کی بادشاہت ہے؟(جواب ملےگا) خدائے واحد، قہار کی ۔

(سوره غافر، آیہ: ۱۶)

آج کس کی بادشاہی ہے، آج کس کی حکومت ہے، تو سب یکجا اور یکزبان ہو کر کہیں گے کہ للہ الواحد القہار

خدا کی حکومت ہے۔ یہاں بھی حکومت اللہ کی ہے، لیکن انسان یہاں اسباب کو کافی سمجھتے ہیں، خدا کی حکومت کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ خدا اس آیہ میں اپنی حکومت کو بیان کر رہا ہے کہ حکومت اسی کی ہے، سب کچھ اسی کا ہے۔

وهو علی کل شی قدیر

وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اس کو صرف ارادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،

اِنَّمَا اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَه كُنْ فَيَكُوْنُ

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔(سورہ یاسین، آیہ:۸۲)

وہ کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے ، کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے، بلکہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں، صرف ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز ہوجاتی ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، انسان اسباب کا محتاج ہوتا ہے، انسان کو وسائل کی ضرورت پڑتی ہے، خدا ایسا قادر ہے کہ وہ اسباب کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اسباب اس کے محتاج ہیں۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ کائنات کی تسیح خدا کی حکومت، خدا کی حمد، خدا کی قدرت یہ صرف اسی لئے کہ اگلی آیات میں خالق کائنات جب معاد اور قیامت کی بات کرے گا، انسانوں کو دوبارہ اٹھانے کا تذکرہ کرے گا، پھر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ جو خدا انسان کو پہلی بار بنا سکتا ہے، پھلی بار زندگی دے سکتا ہے تو اس کو دوبارہ اٹھانے میں دشواری کیا ہے۔ اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ انسان کو دوبارہ اٹھائے۔ نہیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ لہذا جو یہ سمھتے ہیں کہ معاد اور قیامت ممکن نہیں، خالق کائنات ان کے اس توہم کو ختم کرنے کیلئے پہلے اپنی قدرت کو بیان کر رہا ہے۔ جس نے پوری کائنات کو پید اکیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہو رہا ہے کہ:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

اےلوگو!اپنے پروردگارکی عبادت کروجس نےتمہیں اورتم سےپہلےوالےلوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم(خطرات سے)بچاؤ کرو۔

(سوره بقره، آیہ ۲۱)

انسان تو نہیں تھا، معدوم تھا، خدانےتمہیں وجود بخشا ہے۔ پہلی بار وجود دینا مشکل ہے یا وبارہ اٹھانا مشکل ہے، اسیلئے فرمایا: اللہ نےہی تمہیں خلق کیا ہے۔ تم مخلوق ہو، جب تم مخلوق ہو تو تمہیں خالق کی اطاعت کرنی چاہیے۔ تم آزاد مطلق نہیں ہو۔تم اپنی مرضی کےمختار نہیں ہو کہ جیسے چاہو کرتے رہو، بلکہ تمہارا کوئی خالق اورمالک ہے، اسلئے تمہیں خالق کی اطاعت کرنی چاہیے۔تمہاری نظرخالق کی رضا پرہونی چاہیے کہ خدامجھ سےکیاچاہتاہے۔خدا کی قدرت ہے کہ انسان کوپیدا کیاہے، خالق کائنات کی قدرت کی ایک تجلی ہے انسان کی تخلیق۔ اورلطف کیاہےخالق کائنات نے۔ کیا احسان اورفضل کیاہےانسان پر۔ خلق کرنےپرکہتاہےکہ :

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَ مِنْكُمْ مُؤْمِنٌ وَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ۔

کائنات کو پیدا کرنا ایک طرف ہے،

هو الذی خلقکم

انسان تمہیں پیدا کرنا ایک طرف ہے، تم قدرت الہی کے شاہکار ہو۔ خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تم خاص ہو۔ تمہیں خالق کائنات نے ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے انسان کو پیدا کرنے پر ارشاد فرمایا کہ

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًاثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ

۱۴۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے.

(سوره مومنون، آیہ ۱۴)

انسان قدرت الہی کا شاہکار ہے۔

اس بنیاد پر اے انسان تمہیں تو اطاعت گذارہونا چاہیے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ

فمنکم کافر و منکم مومن

کچھ ایمان لانے والے ہیں، کچھ کفر کرنے والے ہیں، یہ کفرتخلیق کا نتیجہ نہیں ہے، خالق نے ایسا پیدا نہیں کیا کہ کسی کومومن اور کسی کو کافرپیدا کیا ہو، اس نےخلق کیاہے، جو چیز صلاحیت رکھتی تھی پیدا ہونے کی، خدانےاس کو وجود عطا کیاہے، انسان کو پیدا کیا ہے، کائنات کو وجود عطا کیاہے، اس کی طرف سے کوئی بخل نہیں ہے،وہ رحمان علی الاطلاق ہے، سب پررحم کرنےوالا ہے، سب کو روزی فراہم کرتاہے،جو اسکو مانتا ہے اس کوبھی روزی دیتاہے، جونہیں مانتا ہے اس کو بھی رزق دیتاہے۔ البتہ مومن کیلئے خصوصی رزق ہے، مومن کیلئے مخصوص ہدایت ہے، مومن کیلئےمخصوص انعامات ہیں، لیکن اس کی رحمانیت عام ہے۔

ایک حد تک رحمت سب کیلئےہے۔ہاں پھرجو ایسے اعمال انجام دےجن کوخدا چاہتاہے توپھرخدا اسکو اپنی مخصوص رحمت سےنوازتاہے۔تخلیق کا نتیجہ کفراورایمان نہیں ہے، بلکہ تمہارےاختیار کانتیجہ ہے، خدانےانسان کو بنانے کےبعد اس کو اختیار عطا فرمایا، پھرانسان نےاپنے اختیار کا غلط استفادہ کیااپنی آزادی کاغلط فائدہ اٹھایاتوکافرہو گیا۔ خدا کو فراموش کردیا، خدا کا انکارکرنے لگا۔ خالق کوجھٹلایا۔ کچھ ایسےتھےجومومن بنے۔ انسان خودمختارہے۔ خداوندمتعال نے انسان کو ہدایت کا راستہ دکھا دیا ہے،

اِنَّا هدَيْنٰه ُالسَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا

ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔

(سوره انسان، آیہ:۳)

اب یہ انسان پر ہے کہ وہ چاہے تو شکر گذار بن جائے اور اگر چاہے تو کفر کرنے لگے۔

لیکن خدا نے تمہیں چھوڑ نہیں دیا،

 والله بما تعلمون بصیر

جو کچھ تم عمل کرتے ہے اسے خدا خوب جانتا ہے،

خدا اچھی طرح دیکھ رہا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو، خدا کی نظر ہے تمہارے اعمال پر، پیدا کرنے کے بعد خدا نے چھوڑ نہیں دیا، نظارت رکھی ہوئی ہے، خدا دیکھ رہا ہے، جانتا ہے، علم رکھتا ہے، ہمارے بارے میں، کون ایمان لا رہا ہے، کون کفر کر رہا ہے ، کون زبانی طور پر مومن بن گیا ہے، لیکن عملی طور پر ابھی تک خدا کا تصور اس کے دل میں داخل نہیں ہوا۔ واقعا اگر کوئی دل سے خدا کے وجود کا قائل ہو تو کبھی نافرمانی کرے ہی نہیں۔ جو دل سے قبول کر لے، جس کو یقین ہو کہ خدا دیکھ رہا ہے وہ کیسے گناہ کرسکتا ہے؟۔ ہم میں سے کتنے ایسے انسان ہیں، جو دوسرے انسان کو دیکھتا دیکھ کر گناہ نہیں کرتے، انسان تو پھر بھی بڑی بات ہے، کچھ لوگ کسی جانور کو بھی دیکھتا دیکھ کر گناہ نہیں کرتے ان سے بھی حیاکرتے ہیں لیکن خدا سے حیا نہیں کرتے۔

انسان کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اعمال پر غور و فکر کرے، دقت کرے، اس نے اپنے ہر عمل کاحساب و کتاب دینا ہے۔

آیت: ۳ اور ۴

مومنین کرام آج آیت ۳ اور ۴ کی مختصر تفسیر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

تیسری آیت میں ارشاد ہو رہا ہے:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَ صَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ

اس نے آسمانوں اورزمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس نےتمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور اسی کی طرف پلٹنا ہے۔

اس آیہ مبارکہ میں سب سے پہلے خالق کائنات اپنی تخلیق اور قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے زمین اور آسمان کو برحق پیدا کیا ہے۔ یہ آسمان اور یہ زمین، خالق کائنات کی تخلیق ہیں، خدا کی قدرت کی نشانیاں ہیں، خدا کی قدرت کی تجلی ہیں، دوسری جگہ پر خالق کائنات آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے بارے میں ارشاد فرما رہا ہے کہ:

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَه ُمَا بَاطِلًاذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ

اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، یہ کفار کا گمان ہے، ایسے کافروں کے لیے آتش جہنم کی تباہی ہے۔(سوره ص، آیہ:۲۷)

جب ایک انسان کوئی عمل انجام دیتا ہے تو کیونکہ انسان عقل رکھتا ہے، احساس رکھتا ہے، شعور رکھتا ہے، بغیر مقصد کے کوئی کام نہیں کرتا، تو خدا تو حکیم علی الاطلاق ہے، وہ حکمت والی ذات اور حکیمانہ ذات بغیر مقصد کے آسمان اور زمین کو کیوں کر پیدا کرے گی۔ یقینا زمین و آسمان کی خلقت میں مقصد ہے۔

خود زمین و آسمان کی تخلیق، اللہ کی قدرت، اللہ کی صفات اور اللہ کی توحید کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ یعنی انسان اگر کائنات پر غور و فکر کرے تو یہ غور و فکر کرنا، اسے خدا کی طرف لے جائے گا، مخلوق میں غور و فکر انسان کو خالق کی طرف لے جائے گا۔ اور انسان اس کائنات کی عظمت کو درک کر سکے گا، اور وہ یہ اندازہ لگاسکے گا کہ مخلوق اگر اتنی عظیم ہے تو وہ خالق کتنا عظیم ہوگا، جو اس کا پیدا کرنے والا ہے۔ بنانے والا ہے۔ یعنی کائنات نشانی ہے، واسطہ ہے، خدا تک پہنچنے کیلئے۔ یہ ایک ذریعہ ہے ۔ جبکہ خدا تک پہنچنے کیلئے کئی وسائط ہیں، سب سے بہترین وسیلہ اور واسطہ انسان کی اپنی ذات ہے، انسان اگر اپنی ذات پر غور و فکر کرے، تو اس کا اپنی ذات پر غور و فکر کرنا ہی، اسے خدا کی طرف لے جاتا ہے۔ بہرحال قرآن مجید نے جگہ جگہ پر اپنی آیات میں دعوت دی ہے کہ زمین و آسمان پر غور و فکر کرو۔ ہم زمین و آسمان میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ تمہارے اندر بھی خدا کی کئی نشانیاں ہیں۔

سَنُرِيْهمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْ اَنْفُسِهمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهمْ اَنَّه ُ الْحَقُّ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّه عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهيْدٌ

ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے پروردگار کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟

(سوره فصلت، آیہ:۵۳)

یعنی کائنات میں بھی نشانیاں ہیں اور تمہاری ذات کے اندر بھی نشانیاں ہیں، یہ سب نشانیاں یہی بتا رہی ہیں کہ خدا کو پہنچانو۔ جتنا انسان کا علم کا بڑہ رہا ہے، علم ترقی کر رہا ہے ، ویسے خدا کی عظمت روز بروز رشن تر ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ہم خدا کو اپنے علم کے دائرے کے مطابق پہنچان سکتے ہیں، جتنا ہمارا علم بڑہے گا اتنا ہی خدا کی عظمت واضح ہوتی جائے گی۔ خدا کی توحید روشن ہوتی جائے گی۔

کائنات کی ہر چیز اپنی جگہ پرخدا کی ایک نشانی ہے، قدرت کی ایک تجلی ہے۔اتنی بڑی وسیع کائنات،یہ زمین کا فرش، یہ آسمان کاشامیانہ،یہ چاند،سورج، ستاروں جیسےچراغ، یہ ہریالی، یہ سبزی، یہ پانی کابہنا،یہ ہوائوں کا چلنا، یہ پرندوں کا اڑنا، یہ سب نشانیاں ہیں قدرت خداوند متعال کی۔

خالق کائنات مومنین کی ایک صفت یہ بیان فرما رہا ہے کہ وہ خدا کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ الله قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَه ٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

جو اٹھتے بیٹھتے اوراپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

(سوره آل عمران، آیہ:۱۹۱)

ہر ایک چیز اپنے کمال تک پہنچنے کیئلے خلق ہوئی ہے، ان کا کمال یہ ہے کہ انسان کے کام آئے، اور انسان کا کمال یہ ہے کہ خدا کی عبادت کرے۔

ضرورت خدا کو نہیں تھی کائنات بنانے کی، اس نے اپنی ضرورت کو برطرف کرنے کیلئے یا محتاجی کو ختم کرنے کیلئے یا اپنی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے، کائنات کو نہیں بنایا۔ اللہ الصمد، وہ تو بے نیاز ہے، اپنی نیاز کیلئے اس نے کائنات کو نہیں بنایا۔ اپنی فیاضی دکھانے کیلئے، اپنی سخاوت اور جود، اپنا کرم دکھانے کیلئے کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اس کا کوئی ہدف اس کیلئے نہیں ہے۔ یعنی اس کام میں اگر غرض ہے، اگر فعل کی کوئی غرض ہوتی ہے تو وہ فاعل کیلئے نہیں ہے، فعل میں ضرور غرض ہے لیکن وہ غرض اور فائدہ انسان کو فائدہ دینا ہے۔

خدا نے کائنات کو بنایا ہے اور کتنا خوبصورت بنایا ہے، دعوت دی ہے کہ جائو کائنات میں غور و فکر کرو، یہ دنیا گھوم کر دیکھو، کہیں بھی تمہیں تخلیق رحمان میں کوئی عیب نظر نہیں آئے گا۔ خدا کی تخلیق بے عیب ہے۔ جو چیز بہترین سے بہترین طور پر پیدا ہو سکتی تھی، جس طرح بہتر سے بہتر ہو سکتی تھی خدا نے اس کو ویسا ہی بنایا ہے۔

خدا چاہے تو ایک ہاتھی کو مچھر میں بند کر سکتا ہے، بلکہ مچھر کو اضافی خصوصیات بھی دی ہیں، یہ خدا کی قدرت ہے۔ جو چیز جس طرح ممکن تھی، اس کو ویسا ہی بنایا ہے، اس کو اس کے ممکنہ احسن طریقہ سے بنایا ہے۔ اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے خالق کائنات یہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ خدا تک پہنچو۔ یہ ہم عوام کیلئے ہے۔ عام انسان ان نشانیوں کے ذریعہ سے، مخلوقات کے ذریعہ سے خدا تک پہنچتے ہیں، خدا کا علم حاصل کرتے ہیں اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں۔ خداوند متعال اس معاشرے کو، ان افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ:

اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ۔ (سورو غاشيه، آیه:۱۷)

کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیداکیے گئے ہیں؟

اس معاشرے اور ان افراد کی علمی سطح یہ تھی کہ ایک اونٹ کو قدرت کا شاہکار مانتے تھے، اور کیوں کر نہ مانتے جبکہ صحرا میں خدا کی بڑی نعمت اونٹ ہے ، اس میں خدا نے کیا کیا نشانیاں رکھیں ہیں، صحرا والوں کیلئے یہ اونٹ بہت بڑی نعمت ہے، بار اٹھانے کے کام آسکتا ہے، سواری کے کام آسکتا ہے، اسے جلدی بھوک اور پیاس جلدی نہیں لگتی، کئی دن چل سکتا ہے، ریت پر آسانی سے چل سکتا ہے، اس کا گوشت کھانے کے قابل ہے، اس کا دودہ انسان کے کام آتا ہے، یہاں تک کہ اس کا پیشاب بھی انسان کیلئے مفید ہے۔ اب ایسی نعمت، خدا ان کو اس نعمت کی طرف متوجہ کرکے ارشاد فرما رہا ہے کہ کیا وہ نہیں دیکھتے کس طرح خدا نے اونٹ کو پیدا کیا ہے، یہ خدا کی قدرت کی نشانی ہے، ان کا علم اتنا تھا تو خدا نے ان کیلئے اونٹ کی مثال دی ہے۔

اگر انسان کا علم وسیع ہو تو روایات میں وارد ہوا ہے، خالق کائنات نے آخری زمانہ کے لوگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ آیات نازل فرمائی ہیں، توحید کے وہ دقیق نقطے جو پہلے انسان نہیں سمجھ سکتے تھے، خدا نے کچھ آیات میں ایسے نقاط رکھے ہیں کہ آنے والے انسان ان آیات کو پڑہ کر خدا کی عظمت کا اندازہ لگائیں اور خدا کی معرفت حاصل کریں، اور پھر خدا کو مان کر اس کی اطاعت کریں۔

کائنات میں کوئی عیب اور نقص نہیں۔ جو چیز جس طرح بہتر سے بہتر طور پر ہوسکتی تھی خدا نے اس کو ویسا ہی بنایا ہے، ہر چیز اپنی جگہ پر لاجواب ہے۔ لیکن جو کائنات کے اندر نظم پایا جاتا ہے، یعنی ایک تو بنانا کمال کا ہے، دوسرا ان کو نظم دینا کمال ہے، کائنات کی ہر چیز اپنی اپنی مناسب جگہ پر ہے، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے، یہ زمین، یہ سیارے، کتنے لاکھوں سالوں سے، بلکہ کروڑوں سال سے یہ نظام حرکت میں ہے، لیکن کبھی اس میں ذرہ برابر کوئی خلل نہیں آیا۔ ان میں کوئی تصادم یا ٹکراء نہیں ہوا۔ یہ درہم برہم نہیں ہوا۔ کوئی نقصان نہیں کیا، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، کسی کو تلف نہیں کیا۔

واقعا انسان کیسا عجوبہ ہے۔

خالق کی تخلیق کو تو چھوڑیں، اس کانظم ہی اس کی توحید کی بہترین دلیل ہے، کتنا بہترین نظم پایا جاتاہے کائنات میں، اسکے ذریعہ سےخدا کو پہچانو۔ یہ خدا کی عظیم قدرت کی نشانی ہے، اورپھرانسان ایک شاہکار ہے۔

خداوندمتعال خاص طور پرانسان کی تصویر کشی کی بات کررہاہے، کہ کائنات کی تخلیق ایک طرف،

خلق السموات و الارض

ایک طرف، اور

(صورکم)

 تمہاری شکل بنانا ایک طرف۔ انسان کوکیاہی بنایاہےخدانے۔کیا قدو قامت عطا کی ہے، کیا متناسب اعضا دیئے ہیں، کتنے بہترین اندام دیئے ہیں، ایک ایک عضوا اپنی اپنی جگہ پر کتنا مناسب ہے۔صورت، چہرادیکھیے اپنی جگہ پر، اورجو بہترین اعضا ہیں وہ چہرےمیں رکھ دئے۔جسمانی طور انسان مختصر ہے،کئی جانور انسان سےبڑےہیں، بھاری ہیں، بلندہیں، چارٹانگوں پرچلنےوالےبلکہ کئی کئی پائوں والے، لیکن خدا نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ کائنات کی بہترین شکل اسے دی ہے، متناسب اعضا دئے ہیں۔ انسان اگر اپنی ظاہری شکل و صورت پر ہی غور و فکر کرنے لگے تو اس کی عقل حیران ہو جاتی ہے، دنگ رہ جاتی ہے، قدرت الہی کو دکھ کر۔

یہ آنکھیں، کتنی کمال کی ہیں، کیسے دیکھتی ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کان، آواز کیسے سنتے ہیں؟زبان کیسے بولتی ہے؟ حرکت کرتی ہے تو الفاظ کیسے ادا ہوتے ہیں؟ وہ الفاظ انسان کی سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں؟ واقعا انسان کیسا عجوبہ ہے۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ حکمت 8 میں فرماتے ہیں کہ تعجب کرنا ہے تو اس انسان پر تعجب کریں۔ قدرت خداوندی کا شاہکار دیکھنا ہے تو انسان کو دیکھو۔ ینظر بشحم، یہ چربی سے دیکھتا ہے، یہ آنکھ چربی کی ہے۔ آپ آگ کے نزدیک جائیں تو آنکھوں میں پانی آجاتا ہے، جلن محسوس ہوتی ہے۔ اس چربی سے خداوند متعال نے انسان کو دیکھنے کی قوت عطا کی ہے وہ اس سے دیکھ رہا ہے۔ سبحان اللہ!

و یتکلم بلحم؛

گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے۔ ایک سوراخ سے سنتا ہے، یسمع بعظم، ایک ہڈی کے سوراخ سے سنتا ہے۔ اس ہڈی کے سوراخ میں سننے کی صلاحیت ہے۔ کیسا بنایا ہے۔ آنکوں کو اوپر رکھا ہے، ہاتھ پائوں مناسب مناسب جگہ پر ہیں، انگلیان بنائیں تو پانچھ، چھوٹی بڑی کس ترتیب سے، کوئی چیز اٹھانا، کوئی کام کرنا، کتنا آسان ہے انسان کیلئے، یہ انگھوٹا نہ ہوتا تو کتنے کام انسان کر نہیں سکتا تھا۔

اللہ نے تمہاتی تصویر بنائے ہے، تمہاری شکل بنائی فاحسن صورکم تو پھر بہترین بنائی ہے۔

کبھی فرمایا کہ: انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، تمہاری ظاہری تخلیق بھی بہترین ہے، اور تمہاری باطنی تخلیق بھی بہترین ہے، ایک جسم دیا ہے اس کے اندر جو احساسات رکھے ہیں، جو جذبات رکھے ہیں، کتنے بہترین ہیں، آج تک مکمل طور پر خود انسان اپنے آپ کو پہچان نہیں پایا، یہ لمحوں میں بدلتے فیصلے، یہ کیا ہے؟ کبھی کبھی ان کے ذریعہ سے خدا کو پہچانا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ مولا علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ عرفت اللہ بفسخ العزائم؛ میں مضبوط ارادہ کرتا ہوں اور وہ ٹوٹ جاتا ہے، کوئی قدرت ایسی ہے جس کا ارادہ میرے ارادہ پر غالب ہے ، وہ خدا ہے۔ ان کے ذریعہ سے بھی خالق کو پہچانا جا سکتا ہے۔

 (نہج البلاغہ کلمات قصار :۲۵۰ )

اس خدا نے بہترین شکل اور صورت دی ہے، اچھا ظاہر اور باطن دیا ہے۔ اورپھرانسان کو کیا احتراعطا م کیا ہے، کیا کرامت عطا کی۔

 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰ هُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰ هُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا

اوربتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔

(سوره اسرا، آیہ: ۷۰ )

ہم نے بنی آدم کو خاص احترام عطا کیا ہے۔شریعت انسان کیلئے بنائی ہے، اوراس میں عزت انسانی کےکیا بہترین قوانین بنائے ہیں۔اورآجکل دنیاکےقوانین میں جوایک اہم چیزنظر آتی ہے، وہ ہتک عزت ہے۔ہتک حرمت۔ سوال یہ ہےکہ انسان نےعزت کا کیامعیاررکھاہے، جبکہ خدانےانسان کو کیا عزت عطا فرمائی ہے اوراس کیلئےکیاقوانین مقررکیےہیں، فرمایا غیبت کرناحرام ہے، اس سے کسی کا احترام پامال ہوتاہے، دنیا کے کسی بھی قانون میں ایسا نہیں ہے۔ تہمت لگانا حرام ہے۔ اور کیسے قوانین رکھے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ انسان کا احترام ہے۔ انسان کو بہترین بنایا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ یہ انسان بہترین رہے، ویسا رہے جو اس کے شایان شان ہے۔ لہذا بہت ساری چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے تا کہ انسانی احترام محفوظ رہے۔ یہ خدا کا بنایا ہوا قانون ہے۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ تمہارا مبدا خدا ہے، تمہاری ابتدا خدا سے ہے، تمہاری بازگشت بھی اسی کی طرف ہے جیسا کہ فرمایا:

و الیہ المصیر، تمہارا پلٹنابھی اسی کی طرف ہے۔ معاد اور قیامت یہی ہے۔ اس کی طرف سے آئے ہو اسی کی طرف پلٹ جائوگے۔ انسان کی پوری زندگی کا خلاصہ یہ ہے:

انا لله و انا الیه راجعون۔

مبدا وہی ہے معاد بھی وہی ہے۔ ابتدا وہیں سے ہے انتہا بھی اسی پر ہے۔ وہاں سے آئے ہیں اس میں فنا ہونا ہے۔ یہ قرآن کے حقائق ہیں۔ان حقائق سے انسان کو چاہیے کہ اپنے خدا کو پہچانے اور ایمان لے آئے۔

پھر چوتھی آیت میں خالق کائنات نے اپنے علم کو بیان فرمایا ہے۔ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ:

يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ وَاللهُ عَلِيْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ

 آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کو جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ان سب کو بھی اللہ جانتا ہے اور جو کچھ سینوں میں ہے اسے بھی اللہ خوب جانتا ہے۔

وہ کائنات کو بھی جانتا ہے، جو کچھ انسان انجام دیتا ہے اسے بھی جانتا ہے، وہ انسان کے افعال و اعمال کو بھی جانتا ہے۔ بلکہ انسان کی نیت، عقیدہ، انسان کے سینے میں چھپے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو خالق ہے، وہ ہر چیز کو جانے گا۔ جو کچھ اس نے بنایا ہے اس کو بہتر جانتا ہے۔ انسان جو چیز بناتا ہے اسے بہتر جانتا ہے، خدا نے کائنات کو بنایا ہے تو خدا کائنات کو بہتر جانتا ہے۔ اور بغیر واسطہ کے جانتا ہے۔

فلسفہ میں علم کو تقسیم کرتے ہیں کہ علم کبھی علم حضوری ہوتا ہے اور کبھی علم حصولی ہوتا ہے۔ علم حضوری یہ ہے کہ بغیر واسطہ کے علم ہو۔ علم حصولی یہ ہے کہ واسطہ سے علم ہو۔ انسان کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کا علم انسان کو حاصل ہوجا تا ہے، کچھ محسوس کیا یہ علم ہے۔ حواس خمسہ کے ذریعہ سے انسان کو علم حاصل ہوتا ہے، سوچ اور سمجھ سے انسان کو علم حاصل ہوتا ہے، لیکن خدا کا علم حضوری ہے یعنی بغیر واسطہ سے ہے۔ سب چیزیں اس کے سامنے موجود ہیں، ظاہر ہیں۔ اسے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علم میں کوئی حجاب یا رکاوٹ نہیں ہے۔ زمان یا مکان یا کوئی بھی حائل اس کیلئے رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ یہ چیزیں ہمارے لئے رکاوٹ ہیں، خدا کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ آسمانوں، زمیں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان کو بہتر جانتا ہے۔ اس کا علم حضوری ہے۔

خدا نہ صرف کائنات کو بہتر طور پر جانتا ہے، بلکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو، ان سب کو بھی خدا بہتر جانتا ہے۔ یعنی خدا کیلئے مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، اس کے سامنے کوئی حجاب یا رکاوٹ نہیں ہے۔ ہر چیز اس کے سامنے ہے۔ ایک انسان دوسرے انسانوں سے چھپا سکتا ہے لیکن خدا سے کوئی چیز نہیں چھپا سکتا ہے۔ اس سے انسان کو اپنے اعمال کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے، کہ کسی نے تم پر نظر رکھی ہوئی ہے، کوئی تمہیں دیکھ رہا ہے، اس سے کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکتی۔

خدا کائنات کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے اور انسان کے افعال اور اعمال کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے، چاہے چھپائے جائیں، یا ظاہر کیے جائیں۔ نہ صرف افعال بلکہ نیتوں اور خیالات کے بارے میں بھی خدا علم رکھتا ہے۔ یعنی تم اپنے بارے میں اتنا کچھ نہیں جانتے جتنا خدا تمہارے بارے میں جانتا ہے۔ کیوں نہ جانے؟ جبکہ وہ خالق ہے، وہ مالک ہے، وہ ہمارے قریب ہے، بلکہ اقرب ہے۔ سب سے زیادہ قریب ہے۔ بلکہ اقرب الیہ من حبل الورید؛ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اس سے بڑہ کر قرب کا کیا تصور کیا جاسکتا ہے۔ خدا اس سے بھی زیادہ قریب ہے۔ انسان اور اس کے قلب کے درمیاں خدا حائل بن سکتا ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ؛ جو خود کو پہچان لے گا وہ خدا کو پہچان لے گا ، معرفت نفس سے معرفت خدا ملے گی۔ اور خدا فراموشی یعنی خود فراموشی۔ اس نقطہ کی طرف عام طور پر انسان کی توجہ نہیں ہوتی۔ ہم دنیا کی نعمتوں میں اتنا مست ہوجاتے ہیں کہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے جبکہ جس کے پاس خدا نہیں ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اس نے اپنی حقیقت کو فراموش کر دیا ہے۔

خداوندمتعال دعوت دے رہا ہے کہ اپنے افعال، اعمال اور نیات پر توجہ رکھو۔ اس لیے روایات میں ملتا ہے کہ:

 نیة المومن خیر من عمله،

(شرح أصول الكافي للمولي محمد صالح المازندراني ج 8 ص 266)

 نیت عمل سے بہتر ہے۔ کیونکہ نیت میں ریاکاری یا دوسرے عیوب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالی کا کرم دیکھیے کہ نیکی کی نیت پر ثواب دیتا ہے۔ لیکن گناہ کی نیت پر گناہ نہیں لکھتا۔

بھرحال ان دو آیتوں میں خالق کائنات نے اپنی قدرت اور علم کو بیان فرمایا ہے۔

دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں ان نورانی آیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تفسیر ۵ اور۶

مومنین کرام سورہ مبارکہ تغابن کی تفسیر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج آیت نمبر ۵ اور ۶ کی تفسیر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے سعادت حاصل کریں گے۔

پانچھویں آیت میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ:

أَ لَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبرنہیں پہنچی جو پہلےکافرہوگئےتھے پھر انہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا تھا؟ اور ان کےلیے دردناک عذاب ہے۔

جیسا کہ آیہ کریمہ کے ترجمہ سے واضح ہے کہ خاص طور پر مشرکین کو خطاب ہو رہا ہے، جو اس وقت مکہ اور مدینہ میں تھے، خداوند متعال ان سے خطاب فرما رہا ہے کہ کیا تم تک ان لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں، جنہوں نے تم سے پہلے کفر کیا تھا، یعنی خداوند متعال اقوام گذشتہ جنہوں نے کفر کیا، جنہوں نے اللہ کو نہیں مانا، اللہ کے انبیاءعلیہم السلام کا انکار کیا، ان کی تکذیب کی، انہیں جھٹلایا، ان کی سرگذشت، ان کے واقعات، ان کے اعمال کےنتائج کی طرف انہیں متوجہ کر رہا ہے۔

دیکھیے بنیادی طور پر قرآن کتاب ہدایت ہے، قرآن ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے، البتہ قرآن مجید نے ہدایت کیلئے مختلف اسلوب اپنائے ہیں۔ کبھی عقل کو مخاطب قرار دیا ہے، یہ بات کیا تمہیں سمجھ میں نہیں آتی؟ کبھی احساسات کو ابھارا ہے؛کبھی گذشتہ اقوام کی تاریخ کوبیان کیاہے۔تربیت کیلئےیہ ایک اہم نکتہ ہے کہ گذشتہ اقوام اورماضی میں بسنے والے افراد کی تاریخ کو پڑھا جائے، انہوں نے کیا کیا، ان کے ساتھ کیا ہوا، ان کا سرانجام اور نتیجہ کیا ہوا؟یہاں خالق کائنات موجودہ لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے، ان افراد کو متوجہ کرنے کیلئے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے، گذشتہ اقوام کی مثال بیان فرما رہا ہے۔ خاص طور پر وہ اہل کتاب جو وہاں پر تھے، یا وہ مشرکین جو اس وقت موجود تھے، اور ان کا سفر ہوتا تھا ان سرزمینوں کی طرف، جو ویران اور برباد پڑی ہوئیں تھیں۔ انسان جب زمین پر سفر کرنے نکلتا ہے، اور پھر ایسی اقوام کی سرزمین پر پہنچتا ہےجن پر عذاب الہی آیا تھا، وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ کون تھے، انہوں نے کیا کیا، ان کے ساتھ کیا ہوا، ان کے اعمال کا نتیجہ کیا نکلا۔ یہاں خداوند متعال اسی بات کو واضح فرما رہا ہے کہ کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر ہوگئے تھے، کفر کی وجہ سے ان کا نتیجہ کیا ہوا؟ ان کا سرانجام کیا ہوا؟ پھر تم جو عقلمند ہو، ان کے علائقوں سے گذرتے ہو، ان کی سرزمین کو دیکھتے ہو، وہاں عذاب کے آثار کو دیکھ چکے ہو، پھر تم کیوں متوجہ نہیں ہوتے؟! کیوں گذشتہ اقوام کی داستانوں سے عبرت نہیں لیتے؟ عقلمند انسان وہ ہے جو دوسروں کی تجربیات سے فائدہ اٹھائے، انہوں نے کفر کیا، انہوں نے گناہ کیے، انواع و اقسان کے گناہ کیے۔ انبیاء کو جھٹلایا، خدا کا انکار کیا، ان کا نتیجہ کا کیا نکلا، ان کی سرزمینیں تمہارے سامنے ہیں کس طرح کھنڈر اور ویران بن چکی ہیں، یہ سب ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ تم ہوش کے ناخن لو، متوجہ ہوجائو، عقل کا استعمال کرو، سوچو،سمجھو، کیوں کہ دین فطرت کے مطابق ہے۔

رسول کائنات ﷺ کے پاس کوئی آیا، آکر سوال کیا کہ آپ کا کیا کہنا ہے؟ کیا فرماتے ہیں، آپ کا مدعی کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔ ناحق قتل نہ کرو، ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ یہ سب فطری باتیں ہیں۔ دین فطرت کے مطابق ہے۔ لیکن جس طرح انسان اپنی فطرت کو بھول جاتا ہے، جس طرح خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہوئے انسان بہت ساری فطری چیزوں کو بھلا دیتا ہے، اسی طرح خدا کو بھلا دیتا ہے۔ پھر دین کو جھٹلاتا ہے، تو خداوند متعال انہیں بیدار کرنے کیلئے نمونے اورمثالیں بیان فرما رہاہے، ان داستانوں کو دیکھو۔ ان داستانوں کو قرآن میں ذکر کرنے کا فلسفہ یہی ہے کہ ان کی داستانوں سےعبرت لو۔ ظاہرہے کہ یہ سب خدا کی مخلوق تھے، خدا کو ویسے ہی پیارےتھے، جیسےتم پیارےہو۔خدا کو اپنی مخلوق سے بہت پیار ہے۔خدا اپنی مخلوقات کو بہت چاہتا ہے۔اسی پیار اور محبت میں، اسی لطف اور کرم میں، اسی فضل اور احسان میں تو خداوندمتعال نے کائنات کو بنایا ہے، ہرممکن چیز کو وجود بخشاہے، اور وجود کی بقا کے اسباب پیدا کیے ہیں، ہر ایک کو وہ سب کچھ دےرہا ہےجو اس کی ضرورت ہے۔ انسان چاہے خدا کومانے یا نہ مانے، خدا نے اس کو وجود عطا کیا ہے، اور اس وجود کی بقا کے اسباب پیدا کئے ہیں، نہ صرف مادی وسائل اورضرورت کی چیزیں بلکہ ہدایت کے اسباب اور عوامل پیدا کئے ہیں۔

قرآن کا یہ پیغام ہمیشہ کیلئے ہے، ہر دور کے انسان کے کیلئے ہے، صرف اس دور کے مشرکوں کیلئے نہیں تھا، تمام بشریت کیلئے قرآن کا یہی پیغام ہے کہ گذشتہ اقوام کی سرگذشت اور داستانوں سے عبرت لو۔ ان اعمال کو تکرار نہ کرو جن کی وجہ سے وہ عذاب کے حقدار بن گئے، وہ اعمال اگر تم سے بھی سرزد ہوں گے تو تم بھی عذاب کے حقدار بنو گے۔ کیوں کہ خدا اور مخلوق کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ وہ بھی مخلوق تھے، اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب کے حقدار بنے۔ تم بھی مخلوق ہو اگر ویسے ہی اعمال انجام دوگے تو تمہارا بھی وہی نتیجہ ہوگا۔ اگر ناشکری کرتے ہوئے، احسان فراموشی کرتے ہوئے، خدا کو جھٹلائوگے، اس کا انکار کروگے، خالق کے بھیجے ہوئے انبیاء اور رسولوں کا انکار کروگے، یا ان کی تکذیب کروگے، خلاف فطرت اعمال انجام دوگے، تو تم پر بھی وہی عذاب آئے گا جو گذشتہ اقوام پر آچکا ہے۔ سب عمل کی بات ہے۔

انہوں نے اپنے اعمال کے نتیجہ دیکھا، وبال کہتے ہیں اس کام کو جس میں ضرر کا اندیشہ ہو اور وہ ضرر آپہنچے تو اسے وبال کہتے ہیں۔ آج بھی گذشتہ اقوام کے آثار موجود ہیں۔ وہ جو اپنے آپ کو بادشاہوں کا بادشاہ کہلاتے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ ان کی نشانیاں موجود ہیں، آج بھی اگرکوئی عبرت کی آنکھ سےدیکھنا چاہےتوبہت ساری عبرتیں ہیں۔ لیکن انسان کی ایک کمزوری اورنادانی یہی ہے کہ جب تک اپنےسرپر نہیں آتی، جب تک وہ خود تجربہ نہیں کرتا، جب تک وہ خود اس مرحلہ سے نہیں گذرتا، عبرت نہیں لیتا۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آتے ہیں، پیغام پہنچاتے ہیں، لیکن کتنی اقوام نے عذاب کو دیکھے بغیر ایمان کو قبول کیا، بہت ہی کم ایسی اقوام تھیں۔ اب یہاں پر مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہمیں نظر آتا ہے، جس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ

ما اکثر العبر و اقل الاعتبار؛ (نهج البلاغه حکمت: ۲۸۹ )

عبرتیں کتنی زیادہ ہیں لیکن عبرت لینے والے کتنے کم ہیں۔

انسان دوسروں کی تاریخ سے درس نہیں لیتا، دوسروں کے واقعات سے عبرت نہیں لیتا، خود تاریخ دہرانا چاہتا ہے، وہ خود تجربہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا۔

نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کی نصیحت ملتی ہے،جو مولا نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو کی ہے۔، اس میں مولا فرماتے ہیں اے میرے بیٹے! اگرچہ میں نے عمر بہت کم پائی ہے، لیکن میں نے گذشتہ اقوام کی تاریخ میں بہت فکر کی ہے، میری نصیحتیں چند سالوں کی زندگی کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ سیکڑوں سالوں کی انسانی زندگی کا نتیجہ ہے۔

(نہج البلاغہ، مکتوب: ۳۱ )

قرآن مجید سورہ تغابن کی اس پانچویں آیت میں یہی پیغام دے رہا ہے کہ گذشتہ اقوام کی سرگذشت اور نتائج سے عبرت لو۔ درس حاصل کرو۔ کیوں ان پر عذاب آیا؟

چھٹی آیت میں خداوند متعال اسی بات کو مزید واضح فرما رہا ہے۔ ارشاد خداوندی ہو رہا ہے کہ:

ذٰلِكَ بِاَنَّه كَانَتْ تَّاْتِيْهمْ رُسُلُهمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْا اَبَشَرٌ يَّهدُوْنَنَافَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى الله وَالله ُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ

یہ اس لیے ہے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آتے تھے تو یہ کہتے تھے: کیا بشر ہماری ہدایت کرتے ہیں؟ لہٰذا انہوں نے کفر اختیار کیا اور منہ پھیر لیا، پھر اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہو گیا اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

اللہ نے اپنے انبیاء کو واضح اور آشکار دلائل کے ساتھ بھیجا، وہ انسانوں کو معجزات دکھلاتے تھے، ان کو غیب کی خبریں دیتے تھے، لیکن ان کا ذہن صرف اس بات پر اٹک گیا تھا، وہ یہ کہتے تھے کہ: کیا انسان ہماری ہدایت کریں گے؟یہ مشرکین کا عقیدہ ہے، وہ یہ سمجھتے تھے، ان کا نظریہ یہ تھا کہ ہم انسان ہیں تو ہماری ہدایت کیلئے انسان نہیں آئینگے۔ بلکہ ملائکہ کو آنا چاہیے۔ یعنی انسان کو اللہ کے نمایندہ ہونے اور اللہ کے نبی ہونے کے عنوان سے قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بشر ہدایت کر سکے۔ کوئی بشر اللہ کا نمایندہ بن سکے۔ ان کے عقیدہ میں انسان خدا کی طرف سے ہدایت کیلئے نہیں نبی نہیں سکتا۔ بھلا ایک ہم جیسا انسان جو بازاروں میں چلتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، ہماری طرح سے زندگی گذارتا ہے، یہ ہماری ہدایت کیسے کر سکتا ہے؟انہوں نے اس بنیاد پر انکار کیا ۔ حالانکہ انبیاء واضح معجزات لے کر آئے تھے۔ جبکہ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک اتمام حجت نہ کر لے۔

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا

اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

(سوره اسرا، آیہ:۱۷ )

ان کےساتھ بھی یہی ہوا۔ انبیاء آئے، رسول آئے، واضح اور آشکار دلائل اورمعجزات کے ساتھ، انکے ہرسوال کا جواب دیا ، انکی ہربات کو پورا کرکے دکھایا۔ ان کاہربہانہ پورا کیا۔ لیکن پھر بھی وہ ایمان نہیں لے کر آئے۔

انبیاء کی تکذیب کا ایک اہم سبب یہی تھا۔ وہ خود برتر بینی میں مبتلا تھے، وہ خود کو برتر سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ ہم جیسا انسان ہماری ہدایت کیلئے ہمارا ہادی بن کر نہیں آسکتا۔ ہماری ہدایت کیلئے کوئی فرشتہ یا ملائکہ آنے چاہیں۔حالانکہ یہ ایک بہانا تھا، اگر خدا ملائکہ کو بھی بھیجتا تو بھی اس کو جھٹلاتے اور کوئی اور بہانا بناتے۔

انبیاء سے مطالبہ کرتے تھے کہ فلاں معجزہ دکھائیے تو ایمان قبول کر لیں گے۔ جب انبیاء ان کی بات کو پورا کر دیتے تو کہتے کہ ہم تو آپ کو ایک کو ایک معمولی جادوگر سمجھتے تھے آپ تو بہت بڑے جادوگر ہیں۔ کبھی ذات، کبھی نسل، کبھی رنگ، کبھی زبان اور کبھی علائقہ، مختلف بہانوں سے صرف یہ چاہتے تھے کہ انبیاء کی بات نہ مانیں۔ ان کی بات مانیں گے تو ہمارا مفت میں بنایا ہوا غرور، تکبر ہماری سرداری، ہمارے عہدے، ہمارے منصب، ہماری بے جا نام و نمود یہ سب ختم ہو جائے گی۔

آج بھی بہت سارے لوگ حق کا پیغام نہیں مانتے۔ ان کے پاس کوئی حق کا پیغام لیکر جائے تو کہتے ہیں میرے پاس بہت بڑا عہدہ ہے یہ غریب مجھے سمجھانے آیا ہے۔ فرعون نے یہی کہایہ دو چرواہے، یہ موسی اور ہارون مجھے سمجھانے آئے ہیں، اپنی سلطنت اور حکومت پر غرور کر رہا تھا، یہ نیچ لوگ مجھے سمجھانے آئے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی۔ جھوٹے بہانے بنانے لگے۔ ہرکوئی سمجھ سکتا ہے، اپنے عقل اور فطرت کے مطابق کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت سچی تھی، انہوں نے اپنے کردار سے ثابت کیا تھا۔

یہی سبب تھا کہ رسول اکرم ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا کی جاتی۔ تاکہ لوگ ان کا کردار دیکھ لیں، اعلان نبوت سے پہلے سب گواہی دیتے ہیں کہ آپ صادق اور امین ہیں۔ کردار سے ثابت کر چکے تھے۔ لیکن جب نبوت کا اعلان فرماتے ہیں تو بے جا بہانوں سے آپ کی تکذیب کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے قوموں پر عذاب آتا ہے کہ وہ بے جا حق کی تکذیب کرتے ہیں۔

قرآن فرما رہا ہے کہ جب ان کے پاس رسل آئے تو بہانا یہ بنایا کہ انسان ہمیں کیسے ہدایت کریں گے۔ عجیب بات ہے کہ مشرک اگر نہ مانیں تو سچے نبی کو بھی نہیں مانتے۔ لیکن ماننے پر آئیں تو بتوں کو بھی ماننے لگتے ہیں، بتوں کو سجدہ کرنے لگتے ہیں ۔ یعنی وہ انسان کو نمائندہ خدا نہیں مانتے، لیکن بتوں کو واسطہ اور وسیلا مان لیتے ہیں۔

کفار بے جا بہانوں سے انبیاء کا انکار کرتے تھے، یہ غریب ہیں، یہ چرواہے ہیں، اس کا قبیلہ کمزور ہے، یہ تو پست قبیلہ سے ہیں، اور کبھی ان کے ماننے والوں میں غلطیاں نکال کر انبیاء کو نہیں ماننتے تھے۔ ہم آپ کو مانیں گے تو ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ ان کو نکال دیں تو ہم آپ کو مانیں گے۔ فضول اور بے جا بہانوں کی بنیاد پر انبیاء کی تکذیب کی گئی۔

پھر انہوں نے انبیا سے منہ موڑ لیا، سوچا ہی نہیں کہ ان کا پیغام کیا ہے۔ ان کے پیغام پر غور و فکر ہی نہیں کیا۔ ان کی لائی ہوئی باتوں پر غور و فکر کرنے پر تیار ہی نہیں تھے۔ جب انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا۔ تو اللہ بھی ان کی ہدایت سے لاپرواہ ہوگیا۔ یعنی بنیادی طور پر خدا جب کسی کو کوئی نعمت دیتا ہے تو اس سے چھینتا نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ اس نعمت کو اپنے ہاتھوں سے ضایع کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، خدا نے ان کو وجود عطا فرمایا، ان کو ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا فرمائیں لیکن انہوں نے جھٹلایا، خود پر خدا کی نعمتوں کے دروازے بند کر دیا۔ پھر اللہ بھی ان سے لاپرواہ ہوگیا، اور فرمایا: اگر تمہیں میری نعمتوں کی ضرورت نہیں ہے تو میں اپنی نعمت واپس لے لیتا ہوں۔

اس لئے فرمایا کہ:

 و الله غنی حمید

وہ کسی کامحتاج نہیں ہے۔وہ یہ نہ سمجھیں کہ اگرہم ایمان لےآئیں گےتواسکی ربوبیت میں اضافہ ہوگا، یا انکے کفرسےاسکی ربوبیت میں کمی آجائےگی۔نہیں!نہیں!وہ اتنابےنیازہےکہ اگرتمام مخلوقات اسکاانکارکریں توبھی اسکی ربوبیت میں ذرہ برابرکمی نہ ہوگی۔خدا انکا محتاج نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کے محتاج ہیں۔خدا اگرہدایت کےاسباب مہیاکرتاہےتویہ اسکافضل ہے،محتاجی نہیں ہے،یہ ہدایت کےمحتاج ہیں۔اللہ بہت بڑابےنیازہے،کسی کامحتاج نہیں ہے، اوروہ قابل ستایش ہے۔سب کمالات اس میں پائےجاتےہیں، تعریف کےقابل اگرکوئی ہےتو وہی ہے۔حمدوثنا کےاگرکوئی لائق ہےتو وہی ہے۔

ان آیات میں آج کے انسان کیلئے بھی بہت سارے پیغامات ہیں، بے جا بنیادوں پر فخر نہ کریں، فضول چیزوں کو بہانا بنا کر حق کے پیغام سے روگردانی نہ کریں۔ خدا کو مانیں، اور انبیاء کی دعوت حق پر لبیک کہیں۔ اور اپنی دنیا و آخرت کو آباد کریں۔

دعا ہے کہ خداوندمتعال ہمیں قرآن مجید کی نورانی تعلیمات پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تفسیر ۷ اور ۸

محترم مومنین کرام!

سورہ تغابن کی تفسیر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ آج ۷ اور ۸ آیت کی تفسیر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرینگے۔

ساتویں آیت میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ:

زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِكَ عَلَي الله ِ يَسِيْرٌ

کفارکو یہ گمان ہے کہ وہ ہرگز(دوبارہ)اٹھائےنہیں جائیں گے، کہدیجیے:

ہاں!میرےپروردگارکی قسم!تم ضروراٹھائےجاؤگےپھرتمہیں(اسکےبارےمیں)ضروربتایا جائےگاجوکچھ تم کرتےرہے ہو اور یہ بات اللہ کےلیےنہایت آسان ہے۔

کفارکا گمان یہ ہے کہ قیامت نہیں ہوگی۔ خداوند متعال اپنے رسول ﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ کہہ دیجیے کہ مجھے پروردگار کی قسم! تمہیں ضرور دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ پھر تمہیں ضرور خبر دی جائے گی تمہارے اعمال کی۔ جو کچھ تم نے کیا تھا اس کا تمہیں نتیجہ دیا جائے گا، تمہیں نامہ اعمال دیا جائے گا۔ اور یہ تو اللہ کیلئے بہت ہی آسان ہے۔

آپ نے ملاحظہ کیا کہ پہلی آیتوں میں خالق کائنات نے تخلیق کائنات کا ذکر کیا، خلق السمسوات و الارض بالحق؛ خداوند متعال نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، تخلیق کا کوئی مقصد اور ہدف بھی ہوگا۔ یہ کائنات بغیر مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ جب ہم یہ مان لیں کہ اس کائنات کا بنانے والا خدا ہے، وہ حکیم ذات ہے، تو یقینا اس نے کوئی مقصد سامنے رکھا ہے، اس مقصد کی تکمیل کیلئے دوبارہ انسان کو اٹھایا جائے گا، حساب و کتاب لیا جائے گا، ہر ایک کو اس کا نامہ اعمال دے کر، اس کے اعمال کا نتیجہ دکھایا جائے گا اور نتیجہ دیا جائے گا۔

یہ دین کا سب سے بڑا اہم فائدہ یہی ہے کہ دین انسان کو عزت عطا کرتا ہے، شرف عطا کرتا ہے، انسان کے بنیادی سوالوں کا جواب دیتا ہے، کچھ بنیادی سوال ہیں جو ہر انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔ میں کہاں سے آیا ہوں؟ میں نے کہاں جانا ہے؟ اور میں وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟ یہ بنیادی سوال ہیں جو ہر ایک کے ذہن میں آتے ہیں۔ ایک دیندار انسان دین کی تعلیمات کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب آسانی سے ڈہونڈ لیتا ہے۔ دین اسے بتاتا ہے کہ خالق کائنات جیسی قادر مطلق ہستی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تم خدا کی طرف سے آئے ہو۔ تمہاری کوئی ابتدا ہے اور ایک نقطہ آغاز ہے جو کہ خدا ہے۔ تمہیں خدا کی طرف پلٹنا ہے، اسی کی طرف لوٹ جانا ہے۔ قیامت ہونی ہے، دوبارہ تمہیں اٹھایا جائے گا۔ یعنی مبدا بھی معین ہے، نقطہ آغاز بھی معین ہے اور نقطہ انجام بھی معین ہے۔ کیسے وہاں تک پہنچنا ہے؟ اس کیلئے خداوند متعال نے ہدایت کا سلسلہ شروع کیا ہے اور انبیاء علیہم السلام اس کی ہدایت کیلئے آئے ہیں۔ خداوند متعال نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے تا کہ انسان اس کے ذریعہ سے ہدایت پا سکے۔ یہ مکمل پروگرام ہے۔ دین نے کتنی آسانی سے جواب دے دیا، دین نے بتایا کہ تم کوئی عام مخلوق نہیں ہو، احسن الخالقین نے تمہیں احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، تمہیں بہترین صورت عطا کی ہے، تمہیں اپنا نمائندہ بنایا ہے، تم خدا کے نمایندہ ہو، خدا کی زمین پر۔ کتنا بڑا شرف ہے انسان کیلئے۔

یہی سوال آپ لا دین افراد سے پوچیں کہ بھائی کائنات کیسے پیدا ہوئی ہے، وہ مادی تحلیل کرینگے، کہینگے کہ گیس تھا، ایک دھماکا ہوا، پھر کائنات وجود میں آئی، پھر وجود میں تکامل کا سفر شروع ہوا، ایک سے دوسرا موجود وجود میں آتا چلا گیا۔ ان میں بہتری آتی چلی گئی، یہاں تک کہ انسان نے وجود پایا۔ پھر ایک دن یہ سب کچھ ختم ہے۔ یعنی نہ پیدا ہونے کا کوئی مقصد ہے، نہ انجام کا کائی مقصد ہے۔ بے مقصد پیدا ہوئے، بے مقصد زندگی گذاری اور ایک دن چلے گئے۔ کیا واقعا اس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اگر آپ دین کو زندگی سے نکال دیں تو زندگی کا کائی مقصد بچتا ہی نہیں ہے۔ ان افراد کےپاس ان بنیادی سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ وہ کہاں سے آئے ہیں، کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے؟ جبکہ قرآن مجید اور دین کے پاس ان سب بنیادی سوالوں کے جواب موجود ہیں۔

اس لئے فرمایا کہ: یہ کفار کا گمان ہے، گمان اس خیال کو کہتے ہیں جس کے باطل ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ یہ بات یقینا جھوٹی ہے، ناحق ہے، باطل ہے۔ ان کا گمان ہے کہ کوئی قیامت نہیں ہے، کوئی حساب و کتاب نہیں ہے۔خداوندمتعال نے کتنی تاکید کے ساتھ انکو جواب دیا، ایک توپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی جواب دیا، یعنی وہ اس لائق نہیں ہے کہ خدا ان سے خطاب کر سکے۔ اس لیے فرمایا کہ اے رسول! آپ انہیں کہہ دیجئے۔ خدا ان کو خطاب کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ ضرور اٹھائے جائوگے۔ میرے رب کی قسم! کیوں اٹھایا جائے گا؟ تاکہ تمہیں تمہارا نامہ اعمال دیا جائے، تمہیں تمارے اعمال کی خبر دی جائے کہ تم نے کیا کیا۔

یہاں پر رب کی قسم کھائی گئی ہے، میرے پروردگار کی قسم۔ یعنی یہ قیامت کیلئے دوبارہ اٹھانا، یہ قیامت کو پروگرام میں شامل کرنا، انسانوں کی تربیت کیلئے ہے، اور رب کا کام ہے۔ اگر حساب و کتاب نہ ہو، کوئی جزا نہ ہو، کوئی سزا نہ ہو تو یہ تخلیق بیکار ہو جائے گی۔ تربیت کا تقاضہ یہی ہے کہ جزا اور سزا ہونی چاہیے۔ ان کو پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ تشویق اور تنبیہ ہونی چاہیے، شوق دلانا ، خوشخبری دینا، بشارت دینا اور عذاب سے ڈرانا ، یہ چیزیں اس لیے ہیں کہ انسان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ جب انسان غافل ہو جائے تو اسے عذاب سے ڈرایا جائے، اور اگر کبھی مایوس ہوجائے تو اسے جزا کی خوشبری دے کر اعمال کیلئے تیار کیا جائے۔ یہ رب کا کلمہ بتا رہا ہے کہ قیامت کے بغیر تربیت ممکن ہی نہیں ہے۔ جزا اور سزا کے بغیر انسان کی تربیت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے قیامت ہے، تمہیں ضرور دوبارہ اٹھایا جائے گا، اور تمہیں تمہارے اعمال کا نتیجہ دیا جائے گا۔

اور یہ تو اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔ جس خدا نے پہلی بار انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے کچھ بنا دیا۔ اس خدا کیلئے اسی انسان کو مٹی سے دوبارہ اٹھانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ یہ اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔ ہمارے لیے بہت مشکل ہے، کیونکہ ہم اسباب اور وسائل کے محتاج ہیں۔ اگر اسباب آسان ہوں تو وہ کام ہمیں آسان لگتا ہے، اور اگر اسباب مشکل ہوں تو وہ کام ہمیں مشکل اور محال لگتا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ کن فیکون کا مالک ہے، اس نے فقط ارادہ کرنا ہے ہونے کا تو وہ چیز ہوجائے گی۔ خدا کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

بہرحال کائنات کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے، اس مقصد کی تکمیل کیلئے قیامت کو رکھا گیا ہے، کیونکہ اس دنیا میں مکمل طور پر جزا اور سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس دنیا میں اتنی وسعت نہیں ہے۔ اگر ایک انسان بہت بڑا ظالم ہو، جس نے خدا نخواستہ کسی جگہ پر کوئی بڑا دھمکایا کیا ہو، سیکڑوں انسانوں کو قتل کیا ہو، ان کو زندگی سے محروم کردیا ہو۔ اس دنیا میں اس کو کیا سزا دی جاسکتا ہے۔ ایک پھانسی یا ایک بار موت۔ کیا یہ اس کے اعمال کی سزا ہے واقعا؟ اس دنیا میں کامل طور پر نہ جزا دی جاسکتی اور نہ ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس لئے خالق کائنات نے ایک اور جہان کو بنایا ہے جو ہمیشہ کیلئے ہے۔ جس میں نیک انسانوں کو ہمیشہ کیلئے نعمتوںمیں جگہ دی جائے گی، بہشت بریں میں، فردوس میں۔ اور ظالموں کیلئے، بدکاروں کیلئے، مشرکوں کیلئے انبیا کے جھٹلانے والوں کیلئے۔ انسانوں کی تذلیل کرنے والوں کیلئے، انسانوں کو غلام بنانے والوں کیلئے، انسانوں کی زندگی کو جہنم بنانے والوں کیلئے دائمی اور ہمیشہ والی جہنم ہے۔

تخلیق کا تکملہ ہے، اس حساب و کتاب کے بغیر، اس تخلیق کا مقصد مکمل نہیں ہوتا۔

آٹھویں آیت میں خالق کائنات اس کا نتیجہ بیان کر رہا ہے کہ جب قیامت ہے، حساب و کتاب ہے، تمہیں دوبارہ اٹھنا ہے، تو اب تمہارا پروگرام کیا ہونا چاہیے؟ قیامت کے کونسے اصول ہیں جن کی مراعات سے ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس آیت میں کامیابی کے اصول بیان کئے جا رہے ہیں:

فَاٰمِنُوْا بِالله وَ رَسُوْلِه وَالنُّوْرِ الَّذِيْ اَنْزَلْنَا وَالله ُبِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ

لہٰذا اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پرجو ہم نے نازل کیا ہے ایمان لےآؤ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔

یہ آیت اصول بیان فرما رہی ہے کہ قیامت کی تیاری کرنی ہے تو اس کا قاعدہ اور قانون یہ ہے کہ پہلے تم ایمان لے آئو اللہ پر، کیونکہ اللہ ہی ہے جو روز جزا کا مالک ہے:

مالک یوم الدین؛

قیامت میں کامیابی چاہتے ہو تو قیامت کے مالک پر ایمان لے آئو۔ تمہیں وہاں تک پہنچانے والا، قیامت میں کامیابی دلانے والا اللہ کا رسول ہے۔ یہ رسول ہے جو خدا کا ٓئین لے کر آیا ہے۔ جو ہمیں بتائیں گے کہ اس راستہ کے قانون کونسے ہیں؟وہی اس مقصد میں کامیابی کے اصول بتائیں گے۔ جن پر چلتے ہوئے ہم قیامت کے دن کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اس نور پر بھی ایمان لے آئو جو ہم نے نازل کیا ہے۔ یہ لب و لہجہ

والنور الذی انزلنا؛

 عام طور پر قرآن مجید کیلئے ہی استعمال ہوا ہے، یعنی ایمان لے آئو اللہ پر، اس کے رسول پر، اور آسمانی آئین و قانون کی کتاب قرآن پر۔ رسول چلے گئے، آئین دے کے گئے، قانون دے کر گئے ہیں، قرآن وہی آئین و قانون ہے۔ یہ تمہیں ایسے قوانین بتائے گا، زندگی کا طریقہ بتائے گا جس پر تم عمل کرتے ہوئے قیامت میں کامیاب ہوسکتے ہو۔ جیسا کہ متعدد مقامات پر ارشاد ہوا ہے کہ:

مثال کے طور پر سور قدر ارشاد ہوتا ہے کہ:

انا انزلناه فی لیلة القدر (سورة القدر، آيه1)

بیشک ہم نے قرآن مجید کو نازل کیا ہے شب قدر میں۔

یہ تعبیر عام طور پر قرآن مجید کیلئے استعمال ہوئی ہے۔ کہیں پر انزلنا، اور کہیں پر نزلنا۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَه لَحٰفِظُوْنَ

اس ذ کر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

(سوره حجر، آیہ :۹ )

جو چیز اللہ کی حفاظت کے حصار میں وہاں پر باطل کا، پر مارنا ناممکن ہوتا ہے۔

اس بنیاد پر نور سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ کا کلام ہے، رسول اللہ کی رسالت کا زندہ و جاوید معجزہ ہے۔

بقیہ انبیاء علیہم السلام کا معجزہ موقت تھا، مختصر وقت کیلئے تھا، محدود مدت تک کیلئے تھا، آخری نبی کو خداوند متعال نے وہ معجزہ دیا ہے جو قیامت تک باقی رہے گاجس طرح رسول اکرم کی رسالت اور شریعت باقی رہے گی۔ آج اگر کسی کو شک ہے تو آئے قرآن پڑہ کر دیکھے، اس کا جواب لائے، اس پر اعتراض کر کے دکھائے۔ کوئی نہیں کر سکا، اور نہ ہی کرسکتا ہے۔

تو قیامت میں کامیابی کے اصول یہی ہیں، اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان اور قرآن پر ایمان۔ یہ نور ہے، یہ زندگی کو نورانی بنانے کیلئے آیا ہے، یہ انسان کو کفر، شرک اور نفاق کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور ہدایت کے نور کی طرف لے آتا ہے۔ یہ تاریکیوں کو مٹانے کیلئے آیا ہے، روشنی پھیلانے کیلئے آیا ہے، یہ علم و ایمان کی روشنی لے کر آیا ہے۔ اللہ تک پہنچانے کے قوانین یہی قرآن بیان فرمائے گا۔

اس پر ایمان لے آئو، اور یہ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہے ، اللہ خوب اس سے واقف ہے، اللہ آگاہ ہے، علم الہی کو یاد رکھو۔ جو شخص اللہ کے علم پر یقین رکھتا ہے، واقعا دل سے اس کو مانتا ہے، وہ اپنے مکمل وجود سے اللہ کو حاضروناظر کوسمجھتاہے ، وہ کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کرے گا، کیونکہ گناہ کے وقت اس کو یہ احساس ہوگا کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اس کو گناہوں سے بچائے گا اور نیکیوں کی رغبت دلائے گا، نتیجہ میں وہ قیامت کے دن نجات پائے گا اور دائمی نعمتیں حاصل کر پائے گا۔

اگرچہ بعض روایات میں اس نور سے مراد آئمہ علیہم السلام مراد لئے گئے ہیں، اس نور پر ایمان لے آئو یعنی آئمہ پر ایمان لے آئو۔ یہ نور اللہ نے نازل کیا ہے تا کہ رسول کی رسالت کی تصدیق کر سکیں، رسول کی مدد کر سکیں۔ کئی روایات میں یہ فرمایا گیا ہے۔

امام محمد باقر علیہم السلام کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

هم الذین ینورون قلوب المومنین (اصول کافي، ج1)

اس نور سے وہ امام مراد ہیں جو مومنین کے قلوب کو نورانی بناتے ہیں۔ جو قرآن مجسم ہیں، جو چلتے پھرتے قرآن ہیں، جنہوں نے قرآن مجید پر عمل کر کے دکھایا ہے۔ یہ قرآن اگر قرآن صامت ہے تو وہ قرآن ناطق ہیں۔ وہ عملی قرآن ہیں۔ وہ قرآن کی انسانی صورت ہیں۔ یہ لفظی صورت ہے۔

قیامت کے دن ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

اس میں ایک احتمال یہ ہےجس امام پروہ ایمان لےآیا تھا، جس کی اس نے بیعت کی تھی، جس کی وہ اطاعت کرتا تھا، جس کی وہ پیروی کرتا تھا، جس کےبتائے ہوئے قوانین اور اصولوں کے مطابق زندگی گذارتا تھا۔

دعا ہے کہ خداوندمتعال قرآن مجید کی نورانی آیات پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔

آیت ۹

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَ مَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحاً يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَ يُدْخِلْهُ

جس روز اللہ اجتماع کے دن تمہیں اکٹھا کر دے گا تو وہ فائدے خسارے کا دن ہو گا اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے اللہ اس کے گناہوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ابد تک رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

جس دن اللہ اجتماع کے روز تم سب کو اکھٹا کرے گا، جس دن خالق کائنات تم سب کو جمع کرے گا، وہی دن یوم التغابن ہے، یعنی خسارے اور فائدے کے آشکار ہونے کا دن ہے۔ نقصان اور فائدہ کے ظاہر ہونے کا دن ہے۔ جو اللہ پر ایمان لے آئے گا اور عمل صالح کرے گا، خالق کائنات اس کے گناہوں کو اس سے دور کرے گا، اور اسے داخل کرے گا ان باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس آیہ مبارکہ میں، جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا کہ خالق کائنات قیامت کے دن انسانوں کو دوبارہ اٹھانے اور ان کو جمع کرنے کی بات کررہے ہیں، کیونکہ اس سے پہلی آیت میں خالق کائنات نےیہ بیان کیا تھا کہ یہ کفار گمان کرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ یعنی کفار کاگمان یہ ہے کہ قیامت نہیں ہوگی۔ نویں آیت میں خداوندمتعال ارشادفرمارہےہیں کہ قیامت ہوگی، خدا تمہیں اٹھائے گا، اور اس دن اٹھائے گا جس دن تمام انسانوں کو اٹھائے گا۔ یعنی وہ دن اجتماع کا دن ہوگا۔ اولین اور آخرین تمام انسانوں کو خداوندمتعال دوبارہ اٹھا کر زندہ کرے گا اور انہیں جمع کرے گا۔ اس آیہ مجیدہ میں قیامت کے دو دن ذکر ہوئے ہیں، ایک دن کیلئے فرمایا،

لیوم الجمع؛

وہ اجتماع کا دن ہے۔ یعنی خالق کائنات ایک ہی دن میں اولین و آخرین پہلے انسان سے لے کر آخری انسان تک ، سب کو ایک دن اکھٹا کرے گا، ایک ہی دن اٹھائے گا، جمع کرے گا۔ وہ اجتماع کا دن ہوگا۔ ہم کہتے ہیں اتنا بڑا اجتماع کیسے ہو سکتا ہے؟ اولین اور آخرین تمام انسان ایک جگہ جمع ہوں، یہ خالق کائنات کیلئے کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ کیونکہ اگرہم کہیں کہ مشکل ہے تو ہم اپنے اسباب اور وسائل کو دیکھتے ہیں، اپنی توانائی اور قدرت کو دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ بہت مشکل بلکہ محال لگتا ہے۔ جبکہ خدا کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ وہ سب کو ایک دن اٹھائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ قسطوں میں اٹھایا جائے۔ ہمارے ہاں کوئی بھی بڑا کام ہو تو تاریخیں لگائی جاتی ہیں، کہ فلان تاریخ میں اس علائقہ والے اور پھر فلاں تاریخ فلاں علائقہ والے یعنی ہر ایک علائقہ کیلئے تاریخ مقرر کی جاتی ہے یا افراد کو نمبر دئے جاتے ہیں۔ یہ محدودیت ہمارے ہاں ہے۔ خدا کیلئے کوئی محدودیت نہیں ہے۔ وہ سب انسانوں کو ایک ہی دن جمع کرے گا۔

اس طرح کے سولات آئمہ علیہم السلام کئے گئے ہیں۔ امام علی علیہ السلام سےسوال کیا گیا کہ ایک ہی دن میں خدا سب کو کیسے جمع کرے گا، ایک ہی دن میں کیسے حساب و کتاب لے گا؟ تو امام علی علیہ السلام جواب میں ارشاد فرمایا: جیسے خداوندمتعال سب کو ایک ساتھ روزی دے رہا ہے۔

 سئل [ع ]: کيف يحاسب الله الخلق علی کثرتهم ؟ فقال[ع ]: کما يرزقهم علی کثرتهم (نهج البلاغه، حکمت 300)

تمام انسانوں کو ایک ساتھ رزق دے رہا ہے۔ ہر ایک کی روزی اس تک پہنچ رہی ہے۔ جس طرح روزی پہنچا رہا ہے، جس طرح موت آتی ہے، اسی طرح خدا کیلئے حساب و کتاب لینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ سب کا حساب و کتاب ہوگا، سب کو ایک ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس بنا پر قیامت اجتماع کا دن ہے۔ قیامت کا دوسرا نام، یوم التغابن ہے، جس کی وجہ سے اس سورہ کا نام بھی تغابن رکھا گیا ہے۔

ارشاد ہو رہا ہے کہ

 ذالک یوم التغابن،

قیامت کا دن ہی تغابن کا دن ہے۔ خسارہ اور فائدہ کے آشکار ہونے کا دن ہے۔ اس دن پتا چلے گا کہ کس نے زندگی کی معاملے میں فائدہ اٹھایا اور کس کا نقصان ہوا، کس نے اپنا نقصان کیا۔ خالق کائنات نے انسان کو زندگی دی، اور زندگی گذارنی کی تمام لازمی چیزیں دی ہیں، پھر خدا فرما رہا ہے کہ آئو میرے ساتھ معاملہ کرو:

اِنَّ الله َ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّة يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الله فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِوَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِه مِنَ اللهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِه وَذٰلِكَ هُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ

یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔

(سورہ توبہ، آیہ:۱۱۱ )

یعنی معاملہ کیاہےخداوندمتعال نے، میں نےتمہیں دیاہے، اب یہ تمہاراہوا۔ اب آئو اورمیرےساتھ معاملہ کرو۔ جوخداکےساتھ معاملہ کرے، یعنی اپنےنفس، اپنی جان کوجنت کےبدلےمیں بیچے، رضائےخداکوخریدلےاس نےفائدہ کاسوداکیاہے۔اسےمعاملہ میں فائدہ ہوا۔جیساکہ روایت ہےکہ یہ آیت امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْـتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ

اورانسانوں میں کوئی ایسا بھی ہےجو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتاہے اوراللہ بندوں پربہت مہربان ہے۔

(سورہ بقرہ، آیہ:۲۰۷ )

یہ معاملہ فائدہ کامعاملہ ہے۔ اور امام علی علیہ السلام ارشادفرماتےہیں:

اِنَّهُ لَيسَ لاَنفُسِكُم ثَمَنٌ اِلاّ الجَنَّةُ فَلا تَبيعوها اِلاّ بِها؛

نهج البلاغه(صبحی صالح) ص 556 ، ح 456 - بحارالأنوار(ط-بیروت) ج 75 ، ص 13 ، ح 71

دیکھو تمہاری جان کی قیمت جنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اگر جنت کے بدلے میں اپنے نفس کو بیچو تو فائدے کا معاملہ ہے، اگر اس سے کم پر بیچو تو نقصان کا معاملہ ہے۔

جبکہ یہی حدیث دوسرے آئمہ سے بھی منقول ہے

ہر گھڑی خدا خرید رہا ہے، ہر لمحہ خدا خرید رہا ہے، ہمارے توانائیوں کو، ہماری فکر کو، ہمارے اعمال کو، ہماری نیات کو سب کو وہ خرید رہا ہے۔ وہ ہر چیز کا خریدار ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ آیات الہی بیچ کر ثمن قلیل لیتے ہیں، تھوڑی سی قیمت لے کر آیات الہی کو بیچتے ہیں۔ جیسے علماء سوء۔ کچھ اپنی جان بیچ کر گمراہی خرید لیتے ہیں، ہدایت کے بدلے میں گمراہی لیتے ہیں۔ یہ نقصان و خسارہ کا معاملہ ہے۔ اس دن پتا چلے گا کہ کس کا فائدہ ہوا ہے اور کس کا نقصان ہوا ہے۔ جب نامہ اعمال دئے جائیں گے، نتیجہ اور رزلٹ آئےگا کہ زندگی کے امتحان میں کس کے کتنے نمبر آئے ہیں۔ اگر کوئی پاس ہو گیا یعنی جیت گیا، وہ قبول ہوگیا، اور فائدہ میں رہا۔ لیکن جس کے نمبر کم ہوئے، جو جہنم کا حقدار بنا، جو دوزخ کی آگ کا حقدار بنا، اس کا نقصان ہوا۔

خدا ہم سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ زندگی دے کر ہم سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ تغابن کی ایک معنی یہ کی گئی ہے کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا، یہ چاہتا ہے کہ اسے غبن اور نقصان ہو۔ یعنی کم قیمت دوں جبکہ مال زیادہ لوں، دوسرا چاہتا ہے کہ مال زیادہ لوں سامان کم دوں۔ یہ تغابن کا معاملہ ہے یعنی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ایسا ہوتا ہے۔

قیامت کو تغابن کیوں کہا؟

کون کس کو نقصان پہنچا رہا ہے، مختلف تفاسیر کی گئی ہیں اس حوالے سے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ گمراہ کرنے والے اور گمراہ ہونے والے ہیں گمراہ کرنے والے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، گمراہ ہونے والوں کو۔ جبکہ گمراہ ہونے والے نقصان پہنچانا چاہتے تھے گمراہ کرنے والوں کو۔ یہ ایک احتمال ہے۔ لیکن یہ مناسب نہیں ہے، کیونکہ قیامت میں سب نے اٹھنا ہے اور قیامت سب کیلئے یوم التغابن ہے۔ ایک تفسیر یہ کی گئی ہے جو جنتی بن جائے گا اس نے نقصان پہنچایا ہے، جہنمی بننے والے کو۔ جبکہ جہنمی بننے والے نے خسارہ اٹھا لیا۔ کیونکہ جب بھی کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو خداوند متعال اس کے لئے ایک جگہ جنت میں بناتا ہے اور ایک جگہ جہنم میں بناتا ہے۔ اگر وہ ایمان کے آیا تو اسے جنت والی جگہ ملے گی لیکن اگر کافر بنا تو وہ جہنم والی جگہ ملے گی۔ اب اگر دو میں سے ایک مومن بنا اسے وہ جنتی جگہ ملتی ہے، جو کافر بنتا ہے وہ اس جہنمی جگہ میں جائے گا، یعنی اس نے خسارہ پہنچایا اس نے خسارہ اٹھایا۔

ایک تفسیر یہ ہے اس دن سب خسارہ میں ہونگے، ہر ایک حسرت کھائے گا، ہر کوئی پشیمان ہوگا۔ کیسے؟ کیوں کر؟ کہتے ہیں جو بھی جہنم میں جائے گا، خالق کائنات اسے جنت والی وہ جگہ دکھائے گا کہ اگر تو ایمان لے آتا اور عمل صالح کرتا تو تیری جنت میں یہ جگہ ملتی۔ جب اسے جنت والی جگہ دکھائی جائے گی تو وہ پشیمان ہوگا۔ اور کہے گا کہ کاش میں ایمان لے آتا اور یہ جگہ مجھے ملتا۔

اور اسی طرح مومن کو وہ جگہ دکھائی جائے گی جو اسےبہتر عمل کرنے کی صورت میں ملتی۔ اس وقت مومن بھی پشیمان ہوگا اور کہے گا کیوں میں نے اپنی زندگی سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ میں تو اس سے بڑا درجہ اور مقام حاصل کرسکتا تھا، لیکن میں نے نہیں کیا۔ یعنی دونوں حسرت کھائیں گے۔ جس کو کچھ نہیں ملا وہ بھی حسرت کھائے گا جس کو کچھ ملے گا وہ بھی حسرت کھائے گا کہ اس سے بہتر کیوں حاصل نہیں کیا۔ وہ خسارہ کے دن ہے۔

یہ کلی نتیجہ بتانے کے بعد، خالق کائنات تفصیل بنان فرما رہے ہیں کہ مومنین کا نتیجہ کیا ہوگا، کفار کا نتیجہ کیا ہوگا۔ ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لے آئے اللہ پر اور عمل صالح کرنے لگ جائے تو خداوند متعال اس کے گناہوں کو اس سے دور کردیتا ہے۔ اس کے گناہوں کو چھپا کر، پوشیدہ کر کے بخش دیتا ہے۔ مٹا کر ختم کردیتا ہے۔ خالق کائنات کا ایک لطف اور کرم یہ ہے کہ وہ غفار بھی ہے، تواب بھی ہے، رحیم کریم بھی ہے۔گناہوں کوبخش دیتا ہے۔ اس دنیا میں گناہوں کو چھپا دیتا ہے، پھر مٹا دیتا ہے، ختم کردیتا ہے۔ اہل ایمان سےبھی کبھی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، کبھی نادانی کی وجہ سے، جہالت کی وجہ سے، یا کچھ دوسرے اسباب کی وجہ سے۔ گناہ ہو جائے تو رکنا نہیں ہے، خدا نے اس کیلئے توبہ کا دروازا کھولا ہے، اگر کوئی توبہ کرے تو خدا بخش دیتا ہے۔

رسول اکرم ص ارشاد فرماتے ہیں کہ

التائب من الذنب کمن لا ذنب له ؛

جو گناہ سے توبہ کرتا ہے وہ ایسا بن جاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔

(سفینة البحار، ج ۱، ص ۱۲۷، مادہ توبہ)

خدا اس کے گناہوں کو ایسے بخش دیتا ہے گویا اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔ خداوند متعال ہر جگہ سے وہ گناہ مٹا دیتا ہے، انسان کے اپنے اعضا و جوارح کو یاد نہیں رہتا، خدا ان سے فراموش کروا دیتا ہے، فرشتوں کو یاد نہیں رہتا، زمیں اور مکان سے وہ گناہ بھلوا دیتا ہے۔ پہلے خدا گناہ کو مٹا دیتا ہے، بخش دیتا ہے، پھر مومن کو جنت میں جگہ دیتا ہے۔

یہاں پردواہم چیزیں ہیں ایک ایمان اوردوسراعمل صالح۔ ایک ہےاپنےعقیدہ کودرست کرنا، دوسرااپنےکردارکودرست کرنا۔ہمارےفکربھی درست ہواورعمل بھی درست ہو۔جہاں بھی قرآن مجیدنےایمان کی بات کی ہےوہاں ایمان کےساتھ عمل صالح کوبھی بیان فرمایاہے۔قرآن یہ چاہتاہےکہ ایمان اورعمل صالح ایک ساتھ ہوں، یہ دونوں ایک دوسرےکیلئےلازم ملزوم ہیں۔ذہن سوچتاہے،نظریہ دیتاہےجبکہ اعضاءوجوارح اسےعملی جامہ پہناتےہیں۔اس سےکردار بنتاہےعمل سےپتاچلتاہےکہ کس کانظریہ کیاہے۔کس کاایمان کتناپختاہے۔ایمان اورعمل صالح ایک دوسرےپراثرکرتے ہیں، ایمان مضبوط ہو تو عمل بھی اچھا ہوتا ہے، اچھا عمل ، فکر کو درست سمت دیتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایک مزدور آٹھ گھنٹے دھوپ میں کام کرتا ہے، لیکن جب اسے کہا جائے کہ چلیں مسجد میں چند منٹ نماز پڑھتے ہیں، کبھی کسی کو یہ سخت لگتا ہے۔

 کیاہوا؟عقیدہ کمزورہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ دھوپ میں کام کرنےکی تنخواہ مل رہی ہے،لیکن نمازکی جزاشایدملے یانہیں، یاکل ملےگی اورکل کس نےدیکھاہے۔پتاچلا اسکاعقیدہ کمزورہے۔اگر عقیدہ پختہ ہوتا تو وہ بہانے نہ بناتا۔

قرآن فرما رہا ہے کہ بہشت اسےملےگی جوعقیدہ کےساتھ عمل کرےگا، اورعمل کے ساتھ صحیح عقیدہ رکھتا ہوگا۔ دونوں کاصحیح ہونا ضروی ہے۔

ایسی جنتوں اورباغوں میں خداوندمتعال جگہ دےگا کہ جن کے نیچےنہریں بہہ رہی ہونگی۔ جنت کی خداوندمتعال نےمختلف صفات بیان کی ہیں، وہاں نہریں ہوں گی، دودھ کی نہریں، شہدکی نہریں۔بہت ساری نعمات کاتذکرہ ہے،حوروغلمان کاذکرہے،لیکن سب سےاہم خداکی رضاہے۔یہی انسان کیلئےسب سےبڑاسرمایہ ہے، یہ سب سےبہتر چیزہےجوانسان کوجنت میں میسرہوگی۔اوردلچسپ بات یہ ہے کہ انسان اس جنت میں ہمیشہ رہےگا، اگرچہ یہ مطلب خالدین سے واضح ہوتا ہے لیکن خداوندمتعال ابدا سے اس کی تاکید ہے۔

ذالک الفوز العظیم

اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔دائمی اور ابدی جنت اورنعمتیں بہت بڑی کامیابی ہے، اس سے بڑہ کرکامیابی کیا ہوسکتی ہےکہ مخلوق سے خالق راضی ہو جائے۔ خدا راضی ہو کریہ نعمتیں عطا فرما رہا ہے واقعا یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔کیونکہ دنیا کی کامیابی محدود ہوتی ہے،موقت ہوتی ہے، آنےجانےوالی ہوتی ہے،لیکن آخرت کی کامیابی ہمیشہ کیلئے ہے، دائمی ہے۔ اس لئے وہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ جنت والوں کا تذکرہ ہے۔

دسویں آیت میں خالق کائنات کفار کا تذکرہ کر رہا ہے، ان کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا اُولٰىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِيْنَ فِيْه وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ

جولوگ کافرہوگئےاورانہوں نےہماری آیات کی تکذیب کی وہی اہل جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گےاوروہ بدترین ٹھکانا ہے۔

جنہوں نے کفر کیا، ان کا نظریہ وعقیدہ یہ تھاکہ خداہےہی نہیں، خداکاانکارکرتےتھے، انہوں نے آیات الہی کی تکذیب کی، ان کا عمل ناشکری اور نافرمانی والا تھا، یعنی جو عقیدہ میں کفر کرے گا، عمل میں اس کا اثر یہ ہوگا کہ اس کا عمل برا ہوگا۔یعنی جو عملی ناشکری کریں گے وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے،اور جہنم بڑا عذاب ہے، بہت برا ٹھکانہ ہے۔ پینے کیلئے بدبودار پانی اور پیپ، اور پھر جلانے والے آگ، جو صرف جلد کو ہی نہیں بلکہ ہڈیوں کو بھی جلا دے گی، پتھروں کو بھی پگھلا دے گی۔ یہ جلد تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، ایک ہی لمحہ میں جل جائے گی۔ وہاں ہو کوئی موت کی تمنا کرے گا لیکن موت آئے گی نہیں۔

خدا فرمائے گا کہ چکھو عذاب، یہ تمہارے اعمال ہی کا نتیجہ ہے، یہ تمہارے کردار کا بدلہ ہے۔ یہ تمہارا کیا دھرا ہے، یہ تم نے ہی کیا ہے، سزا انسان اپنے لئے خود معین و مقرر کرتا ہے۔ اس میں خدا کا کچھ بھی نہیں ہے۔

کفر کا نتیجہ جہنم

 البتہ یہاں پر وہ تاکید نہیں ہے، جو مومنین کیلئے جنت کی تھی، یہاں ابدا نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی کے گناہ زیادہ نہ ہوں بلکہ قابل بخشش ہوں، اور خدا بخش دے۔ بہرحال خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ رحمت کی ہی بنیاد پر خداوند متعال نے دنیا کو پیدا کیا ہے، اس لئے جہنم اور عذاب کی اتنی تاکید نہیں ہے، ہو سکتا ہے خدا بخش دے، ہو سکتا ہے کچھ عرصے کے بعد وہ بخشش کا حقدار بن جائے، ہو سکتا ہے لاکھوں سال بعد اسے جنت میں بھیج دیا ہے۔ فقط بہت بڑے فاسق، ظالم، مشرک اور خود کو خدا کہلانے والے ہی جہنم میں رہیں، وہ کسی بھی صورت میں قابل بخشش نہیں ہیں۔

مجموعی طور میں ان دو آیتوں میں قیامت کا ذکر ہوا، اورمومنین اورکفارکا نتیجہ بیان ہوا ہے۔وہاں کوئی بھی خداپر اعتراض نہیں کرسکتا۔ خدا نے پہلےسے ہی سب کچھ بتا دیا ہے، نیک عمل اور اچھا نتیجہ کامیابی کی ضمانت ہیں، اوربرےاعمال کا نتیجہ برا اور جہنم کا عذاب ہے۔ اب انسان کی مرضی ہے کہ کس راستے پر چلتا ہے، جس بھی راستے پر چلے گا اس کا نتیجہ اسے ملے گا۔ لہذا قیامت کے دن کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔

کسی نے امام علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ خدا نے یہ دنیا کیوں بنائی ہے، انسان کو یہاں کیوں بھیجا ہے، جو انسان جنت کا حقدار ہوتا، اسے ڈاریک جنت بھیج دیتا، اور جو جہنم کا حقدار ہوتا اسے جہنم میں بھیج دیتا۔ مولا نے فرمایا: خدا نے اس دنیا میں اس لئے بھیجا کہ انسان اس دنیا میں آکر ایسے اعمال انجام دے جن کی بنیاد پر وہ جنت یا جہنم کا حقدار بن سکے، تا کہ کل قیامت کے دن کوئی یہ اعتراض نہ کر سکے کہ اگر مجھے دنیا میں بھیجا جاتا تو میں کیا سے کیا کر دیتا۔ اس لئے پہلے ہی دنیا میں بھیجا ہے تا کہ وہ اپنے اعمال سے اپنی منزل کا تعین کرے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ وہ کس منزل کا تعین کرتا ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ ایسے اعمال کرے جس کی وجہ سے جنت کا حقدار بنے جہاں دودہ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یا جہنم کا حقدار بنے۔

( نہج البلاغہ، کلمات قصار، جملہ 93)

دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں سعادت کو سمجھنے اور اسے اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

آیت ۱۱، ۱۲، ۱۳

مومنین کرام!

 سورہ تغابن کی تفسیر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ آیت کی تفسیر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

یارہویں آیت میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ:

مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ مَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْ‌ءٍ عَلِيمٌ

مصائب میں سے کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نازل نہیں ہوتی اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔

یعنی خالق کائنات کی اجازت کے بغیر کوئی مصیبت نہیں پہنچتی۔ اور جو اللہ پر ایمان لے آئےگا اللہ اس کے دل کو ہدایت دے گا، اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

یہ اس آیہ مجیدہ کاآسان اورسلیس ترجمہ تھا۔ایک بہت ہی اہم مسئلےکویہاں بیان کیاجارہاہےکہ کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگراللہ کی اجازت سے۔یعنی جتنی بھی مشکلات اورمصیبتیں ہیں وہ اللہ کی اجازت سےہیں۔بدونظرمیں یعنی ابتدائی مرحلے میں جیسے ہی ہم اس مطلب کودیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کچھ اعتراضات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا مصیبتیں اللہ کی اجازت سے آتی ہیں، یا یہ مصیبتیں جو مومنین اور مسلمانوں پر آ رہی ہیں، کیا یہ سب اللہ کی اجات سےہیں؟ کیا اللہ یہی چاہتا ہے؟یہ اہم نقطہ ہے،جواس آیت میں ذکرہوا ہے،جسکوسمجھنے کی ضرورت ہے، کہ کیا واقعا مصیبتیں اورمشکلات خدا کی طرف سےہیں یا ہمارےاپنےطرف سےہیں؟

سب سے پہلے مفسرین نے جس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کفار مسلمانوں پر اعتراض کرتے تھے، کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو اے مسلمانو کہ خدا تم سے راضی ہے، تمہارے دین سے راضی ہے، تمارا دین خدا کا پسندیدہ دین ہے، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تم خوشحالی کی زندگی بسر کرتے، تمہاری زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہوتی، تمہارے ہاں کوئی مشکل نہ ہوتی، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صدر اسلام کےمسلمانوں کی زندگی کافی مشکلات سے بھری ہوئی تھی۔ کیوں؟

یہاں اسی چیز کو خالق کائنات بیان کر رہا ہے، جو مصیبت پہنچتی ہے وہ خدا کی اجازت سے پہنچتی ہے۔ مصیبت اس ناگوار حادثے کو کہتے ہیں، جو نامطلوب ہو، پسندیدہ نہ ہو، اور جس میں ضرر اور نقصان کا اندیشہ ہو، نقصان پہنچے۔ اسے مصیبت کہتے ہیں۔

خالق کائنات نے اس دنیا کا سسٹم، اور نظام سبب اور مسبب یعنی علت اور معلول کی بنیاد پر ایجاد کیا ہے۔ ہر چیز کیلئے خالق کائنات نے کوئی سبب بنایا ہے۔ ہرسبب کا کوئی مسبب ہے، ہر علت کاکوئی معلول ہے۔ جب وہ علت وہ مکمل ہوجاتی ہےتواسکےبعدمعلول کو آنا ہی آنا ہے، معلول وجودمیں آجاتاہے۔معلول تب وجودمیں آئےگاجب اسکی علت تامہ وجود میں آچکی ہوگی۔ یعنی علت تامہ اورمعلول کےدرمیان میں کوئی چیزرکاوٹ نہیں بنتی۔ خالق کائنات نےنظام ایسابنایاہے۔انسانوں کی زندگی کومنظم بنانےکیلئےمرتب کرنےکیلئے،کائنات کاسسٹم چلانے کیلئے خدا نے اسباب اور مسببات کا قانون بنایا ہے، یہ سبب ہے وہ مسبب ہے، مثلا ایک چھری کو دیکھ ہیں، چھری کا کام ہے کاٹنا۔ چھری کاٹے گی۔ اب چھری کا کاٹنا کیا غلط بات ہے؟ کوئی بھی نہیں کہے گا کہ غلط بات ہے۔ دوسری طرف انسان کا جسم نرم ہے۔ کیا انسان کے جسم کا نرم ہونا غلط ہے؟ نہیں! غلط نہیں ہے۔ یہ انسان اس نرمی کی وجہ سے آسانی سے حرکت کرسکتا ہے، اور جتنی بھی اس کے اندر حکمتیں ہیں۔ اب اگر یہی چھری کسی صحیح جگہ پر چلے اور کاٹے تو لوگ کہیں گے کہ فائدہ کی بات ہے، لیکن اگر چھری انسانی جسم پر چلے، ایسے انسان کے جسم پر چلائی جائے جس کے اوپر نہیں چلائی جانی تھی، تو دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو چھری کاٹے ہی نہیں، اگر یہ چھری کاٹے گی نہیں تو یہ سبب اور مسبب کہاں جائے گا۔ انسان کا اختیار اور ارادہ کہاں جائے گا۔ جبکہ انسان کا کمال اس میں ہے کہ انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے کمال تک پہنچے۔ لہذا چھری کاٹے گی۔ ایک مومن کے گلے کو کوئی کاٹنا چاہے، ناجائز طریقہ سے چھری چلائے تو چھری اپنا کام کرے گی۔ اس میں چھری کا کوئی قصور نہیں ہے، نہ ہی گوشت کا کوئی قصور ہے کہ وہ کیوں چھری کا اثر قبول کر رہا ہے۔ یہ تکوینی قانون ہے۔ لیکن خدا کا تشریعی حکم یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرو۔ یہ کائنات اسباب اور مسببات پر چل رہی ہے، لیکن شرعی حکم یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرو۔ اب جو ظلم کر رہا ہے وہ اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ جس نے ناحق کسی کو مارا، ناجائز کام کیا، خدا یہ فرماتا ہے کہ جو ایک انسان کو مارتا ہے اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ جو ایک آدمی کو زندگی دیتا ہے گویا اس نے بشریت کو زندگی دی۔

بہرحال یہ اسباب اور مسببات، انسان کے تکامل کیلئے ہیں، نظام اور سسٹم کو منظم چلانے کیلئے ہیں، یہ اللہ کی اجازت سے ہو رہا ہے، اب کوئی اپنے اختیار کا غلط فائدہ اٹھائے تو اس نے غلط ہے، اس کا اعتراض خدا پر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ جو ناجائز استعمال کرتا ہے اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔ عجیب بات ہے جب کوئی بھی نیا دین آتا ہے، کوئی نئی تحریک چلائی جاتی ہے، اس میں طبیعی طور پر مشکلات آتی ہیں، رکاوٹیں آتی ہیں، ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، ان کو دور ہٹانا پڑتا ہے، صبر اور حوصلہ سے کام کرنا پڑتا ہے، تب جاکر وہ تحریک کامیبا ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ پھیلی جاتی ہے۔ ان مشکلات میں موئی مضایقہ نہیں ہے، یہ تکامل کا ذریعہ ہیں، یہ آزمائش اور امتحان کا وسیلہ ہیں۔ ہر کسی کو خدا نے اختیار دیا ہے، اس اسباب اور مسببات کی بنیاد پر انجام دے۔ اس اسباب اور مسببات کی دنیا میں جو سبب غالب آجائے اس کا مسبب وجود میں آئے گا۔ اس تضاد اور تقابل کی دنیا میں مشکلات طبیعی بات ہے۔ یہ تکامل کی دنیا ہے جس کیلئے مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن خدا کسی کے اجر کو ضایع نہیں کرتا۔ جو ناحق قتل ہوا ہے، اسے اس کا درجہ دیا جائے گا، اتنا خدا عطا فرمائے گا وہ راضی ہوجائے گا، کوئی مصیبت آتی ہے، کوئی مشکل آتی ہے، جس میں انسان کا اپنا عمل دخل نہ ہو تو خداوند متعال اس کا اجر دیتا ہے۔

امام علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ بیماری میں کوئی اجر و ثواب نہیں ہے، لیکن بیماری گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے، ختم کردیتی ہے،

فَإِنَّ الْمَرَضَ لَا أَجْرَ فِيهِ وَ لَكِنَّهُ يَحُطُّ السَّيِّئَاتِ وَ يَحُتُّهَا حَتَّ الْأَوْرَاقِ

(نهج البلاغه، حکمت 40)

یہ مشکل اور تکلیف کی وجہ سے خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ اب کیا نقصان ہوا؟ اسی طرح دسری مشکلات جو انسان کی اپنی پیدا کردہ نہ ہوں بلکہ انسان کیلئے امتحان ہوں تو خداوند متعال اجر و ثواب کے ذریعہ سے ان کا تدارک کرتا ہے اور جبران کرتا ہے۔ بغیر ثواب کے تکلیف برداشت نہیں کرے گا، خداوند متعال اس کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا وہ تکلیف کو بھلا دے گا اور راضی ہوگا۔ یہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا۔ یہ انسان ہیں جو ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، یہ انسان کے اختیار کا لازمہ ہے۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ جو بھی ظلم کرنا چاہے خداوند متعال اس کو مشلول کرلے، اس چھری سے کاٹنے کی صلاحیت چھین لے۔ جبکہ انسان نے اپنے اختیار اور ارادہ سے کام کرنا ہے اسی ذریعہ سے ہی وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ لہذا یہ اسباب اور مسببات کی دنیا ہے، اور یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔

البتہ یہ بات مخفی نہ رہے کہ خدا سبب ساز بھی ہے اور سبب سوز بھی ہے۔ سبب کو اثر دینے والا بھی خدا ہے اور اس سبب سے اثر کو چھیننا بھی چاہے تو اس کا ارادہ ان سب چیزوں پر غالب ہے، وہ چھین بھی سکتا ہے۔ یہ آگ جلاتی ہے لیکن جہاںخدا چاہے تو یہی آگ گلزار بن جائی گی۔ یہ پانی انسان کو غرق کر دیتا ہے، اس کی جان چین لیتا ہے، لیکن جہاں خدا چاہے وہ انسان پانی میں بھی زندہ رہتا ہے۔ یعنی سبب کو سبب بنانے والا بھی خدا ہے اور سبب سے سببیت چھین بھی سکتا ہے، نظام احسن کیلئے سببیت بنائی ہے خدا نے، یہ سببیت خدا پر غالب نہیں ہے۔ اس بنیاد پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ خدا کی اجازت سے آتی ہے، یہ اسباب اپنی اپنی جگہ پر اثر کر رہے ہیں، لیکن اگر انسان ان کا غلط فائدہ اٹھائے گا تو اس کو اس کا حساب و کتاب دینا پڑے گا۔

وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ يَہْدِ قَلْبَہٗ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ

اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔

اسے مشکلات میں صبر اور حوصلہ دے گا، یہ مشکلات یہ مصیبتیں نظام احسن کا ایک حصہ ہیں، کائنات کا ایک حصہ ہیں، ان سے گذر کے انسان نے کمال تک پہنچنا ہے، اپنی منزل کو حاصل کرنا ہے۔ لیکن خدا مومنین کی یہی مدد کرتا ہے کہ انہیں حوصلہ دیتا ہے۔

حق اور باطل کی جنگ میں آپ دیکھیں تو اللہ کی کتنی نشانیاں ہیں، کبھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مثلا کربلا میں امام حسین علیہ السلام اگر حق پر تھے تو خدا نے ان کی مدد کیوں نہیں کی؟ جواب یہ ہے کہ خدا مدد کی ہے، البتہ مدد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، کبھی ظاہری مدد ہوتی ہے، جیسے ظاہری غلبہ۔ لیکن کبھی باطنی مدد بھی ہوتی ہے جیسے خدا کسی کو حوصلہ دے، مدد یہ بھی ہے کہ خدا کسی کو خلوص دے، مدد یہ بھی کہ خدا کسی کی روح میں سکون ڈال دے۔ کیا یہ مدد نہ تھی کہ قتل ہونے والے پرسکون تھے، ان کی دل میں کوئی پریشانی نہیں تھی وہ مشتاق تھے، ہنسی مذاق کر رہے تھے شب عاشور، کہ ہم شہادت سے بلکل قریب ہیں۔لیکن وہاں مارنےوالےپریشان تھے، یہ اللہ کی مدد ہی تو تھی۔خداکبھی ایسے مدد کرتا ہے۔ دل کو ہدایت دیتا ہے، دل کو سکون عطا کرتا ہے۔ دل میں یقین ڈال دیتا ہےکہ یہ کام خدا کیلئے ہے اور خدا دیکھ رہا ہے۔

مقتل کا ایک عجیب جملہ ہے، جو امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے، فرمایا: ھون بی ما نزل علی انی بعین اللہ؛ جو چیز میری مصیبت کو آسان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ خدا دیکھ رہا ہے۔ میں یہ سب کچھ خدا کیلئے کر رہا ہوں۔ جب یہ معرفت آجاتی ہے تو پھر کوئی پریشانی نہیں رہتی۔ حوصلہ کا ملنا، صبر کا ملنا، صبر کی توفیق کا ہونا، خلوص کا ہونا، یہ سب خدا کی مدد ہے۔ کامیابی اور فتح تو ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، کربلا میں کامیابی امام حسین عیلہ السلام کو ہی ہوئی۔ ہاں اس بات کو سمجھنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ باطل یہ غلط گمان کرتا ہے کہ ہم نے یہ کر دیا ہے، ہم کامیاب ہو گئے ہیں، لیکن وقت گذرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ باطل گمان تھا جبکہ کامیابی حق کی ہوئی ہے۔ آج یزید کا نام و نشان نہیں رہا، یزید باطل کی نشانی بن گیا ہے،حسین ابن علی علیہ السلام آج بھی آزاد انسانوں کے ضمیروں میں زندہ ہیں، آج بھی دلوں پر، انصاف پر، انسانی اقدار پر حکومت حسین بن علی علیہ السلام کی ہے۔ جو اللہ پر ایمان لے آئے اللہ اس کی دل کو ہدایت عطا کفرتا ہے، اسے صبر اور حوصلہ عطا کرتا ہے، خدا اس کے اعمال کو قبول کرتا ہے، یہ مومنین پر اللہ کی خصوصی عنایت ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔یعنی کبھی کبھی جو ہمیں نظر آتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، ظالم کو کیوں لمبی رسی دی گئی ہے، ظالم کو کیوں موقعہ دیا جا رہا ہے، جلدی میں اس سے بدلہ کیوں نہیں لیا جاتا۔ حالانکہ یہ ہماری خام خیالی ہے، اللہ خوب دیکھ رہا ہے، اللہ نے ہر چیز کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، ایسا نہیں ہے کہ خدا نہیں جانتا، اس لئے کہا جاتا ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ہے، مختلف حکمتوں کی وجہ سے خدا جلد سزا نہیں دیتا۔ لیکن کوئی بھی خدا کی دسترسی سے دور نہیں ہے۔ ہر ایک نے اپنے اعمال کی جزا اور سزا دیکھنی ہے، اللہ مناسب وقت پر جزا اور سزا دیتا ہے۔ اگر اس دنیا میں نہ دے تو آخرت تو خدا نے بنائی ہی حساب و کتاب کیلئے ہے، وہاں پر تو اپنی مصیبتوں کی جزا دیکھ کر انسان کہیں گے کہ اور زیادہ مصیبتیں ہماری زندگی میں آتیں۔ یعنی کبھی ہم جلدبازی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، یہ کیوں ہو رہا ہے، لیکن جب ان کا حقیقی اور اصلی روپ سامنے آئےگا اور جو جزا خدا نے ان کیلئے رکھی ہوئی ہے، جو ثواب عطا فرمائے گا تو انسان تمنا کرے گا کہ کاش اور زیادہ مصیبتیں آتیں اور یہاں ہمیں اور زیادہ جزا ملتی۔

امام علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ مصیبتیں مومن کیلئے امتحان ہیں، جبکہ ظالم کیلئے سزا اور کفارہ ہے۔ لیکن انبیا اور اولیاء کیلئے درجہ ہیں۔ یہ درجات بڑہانے کا وسیلہ ہیں۔ کبھی عرفانی نگاھ سے بھی ان مسائل کو دیکھا جائے گا۔

( تفسیر نمونہ، ج۷، ص۱۱۶ )

 امام محمدباقرعلیہ السلام سےمنقول ہے کہ خدا جب کبھی کسی بندےسےمحبت کرتاہےتواسےمشکلات میں گرفتارکردیتا ہے۔

(اصول کافی(ط-الاسلامیہ)، ج۲ ، ص ۲۵۳ (باب شدة ابلاء المومن حدیث ۷)

تا کہ یہ میرا بندہ مجھ سے اور قریب ہو سکے۔ مشکلات کا فلسفہ یہی ہے۔ امتحان، آزمائش اور بیدار کرنے اور غرور و تکبر کو ختم کرنے کیلئے ہیں۔ یہ کبھی سزا ہیں، اور اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں، ہمارا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے، جن کی ہمیں سزا ملتی ہے۔ یہ مصیبتوں کے حوالے خالق کائنات نے یہاں گفتگو کی، اور کفار کے سوال کا جواب دیا کہ تم نے خوش نہیں ہونا چاہیے یہ مشکلات تکامل کا سبب ہیں، یہ مومنین پر آنے والی مشکلات نظام احسن کا ایک حصہ ہیں، اور خدا انہیں آزما رہا ہے۔ ان کی تحریک آہستہ آہستہ بڑہتی چلی جائے گی اور ان کے صبر سے یہ پروگرام اور آگے بڑے گا۔ پھر سب نے دیکھا کہ کس اس مقدس تحریک نے پہلے مرحلہ میں جزیرہ العرب اور پھر پوری دنیا کو اپنے دامن میں لے لیا۔ اور یہ حق کی آواز پوری دنیا تک پہنچ چکی گئی ہے۔ یہ سب تکالیف کو برداشت کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔

۱۲ آیت میں ارشاد ہو رہا ہے:

وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ

اوراللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم نے منہ پھیر لیا تو ہمارے رسول کے ذمے تو فقط صاف پیغام پہنچا دینا ہے۔

رسول کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے، کیونکہ اس کا حکم بھی خود خدا نے دیا ہے، خالق کائنات نے قرآن کی صورت میں اصول اورمجموعی اورکلیات کو بیان کیاہے، جن کی جزئیات، تفسیر اورمصادیق کا بیان رسول کی زبانی ہوگا، جو رسول کہینگے وہ خدا کا فرمان ہوگا۔ اگر کوئی رسول کے حکم سے روگردانی کرتا ہے تووہ اپنا نقصان کرتا ہے، اس سے اللہ یا رسول کا نقصان نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے

فان تولیتم ۔۔۔

رسول کی ذمہ داری بلاغ مبین، واضح اور روشن پیغام دینا اور حجت کو تمام کرنا ہے۔ اللہ نے رسول کو بھیجا ہے کہ تاکہ ہر ایک تک پیغام پہنچ چائے گا، اور کل کوئی یہ اعتراض نہ کر سکے کہ اگر ہمارے پاس رسول آتے تو ہم بھی ہدایت یافتہ ہوتے، اور ہم ایسے اعمال کرتے کہ جنت میں اپنا لئے بڑا مقام بناتے۔ خدا اتمام حجت کر رہا ہے انبیا، اولیا اور آئمہ کے ذریعہ۔اب اگر تم روگردانی کرتے تو اس سے اللہ اور رسول کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، تمہارا اپنا نقصان ہے، رسول کی ذمہ دای پیغام پہنچانا ہے، اس نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا۔ اب تم جانو اور تمہارا خدا۔ اب تمہارے اعمال ہونگے اور تم۔ تم نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، خدا تم سے حساب و کتاب لے گا۔

۱۳ آیت میں خالق کائنات ارشاد فرما رہے ہیں کہ:

اللَّهُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

اللہ (ہی معبودبرحق ہے)اسکےسواکوئی معبود نہیں ہےاورمومنین کو اللہ ہی پرتوکل کرناچاہیے۔

یہ آیت گذشتہ آیت کاسبب بیان کررہےہے، اس کی علت کی بیان کررہی ہے، اسکےفلسفہ کوواضح کررہی ہےکہ اطاعت کیوں کریں؟ بندگی کیوں کریں؟بے چوں وچراتسلیم کیوں ہوں؟ کیوں کہ اسکےعلاوہ کوئی معبودنہیں ہے۔ اطاعت اگر کرنی ہے کائنات میں تواللہ کےسوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی اطاعت کی جا سکتی ہو۔ معبود برحق، جسکےسامنے پیشانی کوجھکنا چاہیے، اورجس کے سامنےپیشانی کا جھکنا عزت، سربلندی اور افتخار ہے مخلوق کیلئے، وہ خدا کی بارگاہ ہے۔ یعنی یہ عبادت، یہ اطاعت، یہ بندگی، نہ کسی لالچ میں کرو، نہ کسی خوف میں، اس لیے کرو کہ وہ معبود برحق ہے، لائق عبادت ہے۔

اس لئے آئمہ علیہم السلام کو دیکھیں، خاص طور پر امام علی علیہ السلام کو دیکھیں، آپ فرماتے ہیں کہ خدایا میں تیری عبادت جنت کی لالچ میں نہیں کر رہا ہوں، جہنم کے خوف میں نہیں کر رہا ہوں، بلکہ اس لئے کر رہا ہوں کہ تو لائق عبادت ہے۔ جنت کی لالچ میں عبادت کرنا تاجروں کا کام ہے، یہ تجارت ہے۔ فائدہ کے حصول کیلئے ہے۔ جہنم کے خوف سے بندگی کرنا یہ غلاموں کی عبادت ہے۔ خوف کی وجہ ہے، سزا سے بچنے کیلئے۔ آزاد انسانوں کی عبادت اس لئے ہے کہ وہ لائق عبادت ہے، اس کے علاوہ کوئی ایسی ذات نہیں جس کے سامنے پیشانی کو جھکایا جائے۔

(منازل الآخرۃ: ۳۱)

اوراسی پربھروسہ کرناچاہیے،وہ کبھی کسی کوتنہانہیں چھوڑتا۔انسان کبھی نادانی اورمختلف عوامل کی وجہ سےظاہری اسباب کوکافی سمجھتاہے،وہ سمجھتاہےکہ یہ پیسہ،عہدہ، شہرت،وغیرہ کام آئیں گے،ان سےکام چل جائےگا،لیکن ان چیزوں میں وہ صلاحیت نہیں ہے،اللہ پربھروسہ کروتمہیں کبھی بھی نہیں چھوڑےگا۔ہوسکتاہےدوسرےچھوڑ جائیں لیکن حق والےکوکبھی خدا تنہا نہیں چھوڑتا۔ کچھ ایساکیا کہ حق والوں کی منزلت عیاں ہوتی چلی گئی، جنہوں نے مظالم کیے، ان ظالموں کو پشیمان ہونا پڑا۔

دعاہےکہ خداوندمتعال ہمیں قرآن مجید کی نورانی آیات پرعمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔

۱۴ اور۱۵

مومنین کرام تفسیر سورہ تغابن کے ساتھ آپ کی خدمت میں ہیں، آج آیت نمبر ۱۴ اور ۱۵کی تفسیر آپ کی خدمت میں پیش کرنی ہے۔

ارشاد رب العزت ہو رہا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَ أَوْلاَدِكُمْ عَدُوّاً لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَ إِنْ تَعْفُوا وَ تَصْفَحُوا وَ تَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

اےایمان والو!تمہاری ازواج اورتمہاری اولادمیں سےبعض یقیناتمہارےدشمن ہیں لہٰذا ان سے بچتےرہواوراگرتم معاف کرو اور درگزر کرو اوربخش دو تو اللہ بڑا بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے۔

شان نزول

اس آیہ مبارکہ کےشان نزول میں امام محمدباقرعلیہ السلام کی ایک روایت ہےکہ جب مکہ میں مسلمانوں کیلئےحالات تنگ سےتنگ اورمشکل سےمشکل کردئیےگئےتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانہیں وہاں سےہجرت کرنےکاحکم دیا، فرمایا کہ یہاں سےہجرت کرو۔اوربعدمیں خودرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےبھی وہاں سےہجرت کی۔ظاہرہےکہ وطن سےہجرت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا،لوگوں کی اپنےوطن سےوابستگی ہوتی ہے، دل لگی ہوتی ہے، خاص طور پر بچوں اور خواتین کی تو بہت ہی گہری وابستگی ہوتی ہے۔ جب کچھ اہل ایمان نے وہاں سے ہجرت کرنے کی بات کی، تو ان کی بیویوں اور اولاد نے کہا کہ ہمیں یہاں چھوڑ کر آپ کہاں جائیں گے، یہاں ہمارا بچپنہ گذارا ہے، یہاں جوانی گذری کی، یہاں پوری زندگی بسر کی ہے، ہم تو یہاں سے نہیں جائیں گے آپ بھی نہ جائیں، اور کچھ تو ایسے تھے کہ ان کی وجہ سے نہ گئے، یہ آیت اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے، اے ایمان لانے لائو تمہاری ازواج اور الاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں، تمہارے خیر خواہ نہیں ہے، تمہاری بھلائی نہیں چاہتے، اب ظاہر ہے کہ ایمان کا تقاضہ یہ تھا کہ اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے، وہاں سے ہجرت کی جائے، اور ایک ایسی سرزمین پر رہائش اختیار کی جائے جہاں آسانی اور آزادی سے اپنے دینی کام انجام دینا ممکن ہوں۔ لیکن کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں یا دلی لگائو یا مادی اسباب اورعوامل کی بنیادپروہاں سےہجرت کونےکوتیارنہیں تھے، وہاں سےجانانہیں چاہ رہےتھے، بلکہ دوسروں کوبھی جانےنہیں دےرہےتھے، یہ انکےحق میں برائی ہوئی، یہ خیرخواہی نہیں ہےبلکہ بدخواہی ہے۔کچھ لوگ گھروالوں کےکہنےمیں آکرنہیں گئے۔

 کچھ ایسے تھے جو زیادہ ایمان رکھتے تھے ، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ تمہیں نہیں چلنا تو نہ چلو، میں اپنے ایمان کے تقاضہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے، اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت کروں گا، اور خبردار میرے پیچھے آئے تو میں تمہیں قبول نہیں کروں گا۔ اگر چلناہے تو میرے ساتھ چلو۔ تو اس دوسری صورت کیلئے آیت کا دوسرا حصہ نازل ہوا ہے۔ اگر بعد میں وہ آ جائیں تو تم ان سے دشمنی نہ کرنا، بلکہ ان کو معاف کر دو، ان سے درگذر کر دو، ان کو بخش دو۔

رشتوں کی اہمیت

 بنیادی طور پر یہ رشتے انسان کی بھلائی کیلئے ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایک اکیلا انسان اس دنیا میں زندگی بسر نہیں کر سکتا، خالق کائنات نے اس کی بقا کے اسباب کے طور پر اسے رشتہ عطا کیے ہیں، یہ رشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں، اور ضرورت کے وقت اس کے کام ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وہ بہت سارے فوائد جو رشتوں میں پائے جاتے ہیں، یہ رشتے انسان کی بنیادی ضرورت میں شامل ہیں۔

قرٓن مجید نے ان کی بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ اپنے رشتوں کا خیال رکھو، رشتوں میں دوریاں پیدا ہونے نہ دو، رشتوں میں جدائی پیدا ہونے نہ دو۔

ایک عجیب آیت ہے کہ جس میں تقوا کے ساتھ رشتوں میں اصلاح کا حکم دیا گیا ہے،

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَ أَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (انفال1)

پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اورباہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگرتم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

یعنی رشتوں میں رنجشیں، دوریاں اور جدایاں نہ ہوں۔ لاتعقی اور عاق کرنے کا تصور بھی نہیں ہونا چاہیے۔ دین رشتوں کو خدا کی نعمت جانتا ہے۔ لیکن جہاں بات یہ ہو کہ یآدمی یا اپنی اولاد اور بیویوں کی بات مانے یا پھر خدا کی بات مانے، لیکن جب رشتہ دار خدا کے سامنے اور مقابلے میں کھڑے ہو جائیں، اور کہیں یا خدا کا حکم مانو یا ہماری مانو۔ یہاں وہ جگہ ہے جہاں دین یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتوں کو چھوڑو، اور خدا کا حق سب پر مقدم ہے، خدا کا رشتہ، عبودیت اور بندگی کا رشتہ، خالق اور مخلوق کا رشتہ سب سے بڑہ کر ہے، بہتر ہے ، برتر ہے۔ اب یہاں کسی کی بات نہیں ماننی۔

مثلا ماں باپ کیلئے قرآن مجید نے کتنی تاکید ہے، فرمایا ہے کہ ان کو اف تک نہ کہو، ان کے بہت سارے حق ہیں، جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے، یعنی بہت زیادہ فضیلت بیان کی ہے۔ لیکن اگر یہی ماں باپ خدا کے مقابل آ کھڑے ہوں اور کہیں کہ یا خدا کی مانو یا ہماری مانو۔

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے کہ

وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفاً وَ اتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿لقمان :۱۵﴾

اور اگر وہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک قرار دے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ ماننا، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا اور اس کی راہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے، پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔

اگر والدین کوشش کریں کہ تمہیں مشرک بنائیں تو ان کی اطاعت نہ کرو۔ اب یہاں ان کا حکم نہیں چلے گا، ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ رشتہ توڑ دو، رشتہ ختم کردو۔ نہیں! پھر بھی ان کے ساتھ نیکی کا سلوک کرتے رہو۔ یعنی وہ اپنی بات کریں، تم اپنی بات کرو۔ میں تمہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا اور خدا کا حکم بھی نہیں ٹال سکتا۔ میں نے خدا کی بھی ماننی ہے اور تمہارا بھی خیال رکھنا ہے۔ جس خدا پر میں ایمان لے آیا ہوں وہی تاکید کررہا ہے کہ اپنے والدین کا خیال رکھو، رشتوں کا پاس رکھو۔ لہذا اگر یہ تمہیں نیکی سے روکیں، اور کہیں کہ نیکی نہ کرو، اور برائی کی طرف رغبت دلائیں۔

 مثلا کافی بیویوں کی فرمایشات ہوتی ہیں کہ ان کے پاس کیا کیا ہے جبکہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ یعنی شوہروں کو مسلسل بھڑکاتی ہیں، اتنا پریشان کرتی ہیں کہ شوہر حرام کے راستہ پر چلنے لگے۔ یہ دشمنی ہوئی، یہ بد خواہی ہوئی۔ شوہر کو رشوت لینے، ناجائز کمائی کی طرف راغب کرنے اور گناہوں کے راستہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ جبکہ شوہر کو اس کی جزا اور سزا ملنی ہے۔

قرآن مجید اسی حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ کہیں اولاد اور بیویاں یا ان کی محبت تمہیں خدا سے دور نہ کر دے۔ خدا تمہیں تاکید کرتا ہے کہ ان کا خیال رکھو، لیکن جہاں پر یہ خدا کے مقابل آ کھڑے ہوں تو وہاں خدا کی بات مانو۔ البتہ پھر بھی ان سے نیکی کرتے رہو۔ یہ آسمانی دین کی اعلی اور نورانی تعلیمات ہیں۔ انسانی اقدار کی اہمیت یہاں سے واضح ہوتی ہے، اقدار کی اصلی اہمیت دین نے بیان کی ہے۔

جب کچھ اہل ایمان نے اپنے گھر والوں کو دھمکی دی کہ اگر میرے بعد آئے تو میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے، قرآن مجید انہیں فرما رہا ہے کہ اگر تم معاف کر دو، درگذر کر دو، بخش دو تو خدا غفور اور رحیم ہے۔ یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تمہیں بخش دے تو تمہیں چاہیے کہ تم دوسروں کو بخش دو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آسمان والا ہم پر رحم فرمائے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ زمیں والوں پر رحم کریں۔

حدیث میں وارد ہوا ہے کہ

ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء(روایت ترمذی:1847)

زمین والوں پر تم رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

اگرہم چاہتے ہیں کہ خداہمارےبڑےبڑےگناہ بخش دےتو ہمیں چاہیےکہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بخش دیں،کبھی کسی کی چھوٹی غلطی کی وجہ سےرشتہ غلط ختم کردیےجاتےہیں۔آنےوالی نسل کو وصیت کی جاتے ہے کہ فلاں سے آنا جانا نہ رکھنا۔ یہ سراسر غلط ہے۔دین ایسا نہیں چاہتا۔ اگر رشتہ دار نیکیوں میں رکاوٹ ڈالیں، اور برائیوں پر بھڑکائیں تو ان سے ہوشیار رہو۔

البتہ کچھ رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں جو نیکیوں پر مدد کرتے ہیں، کچھ بیویاں ایسی ہوتی ہیں کہ شوہروں کو نیکیوں کی دعوت دیتی ہیں، شوہروں کو نیکی کی حفاظت کا درس دیتی ہیں۔ دوسروں کے خیال رکھنے کی تاکید کرتی ہیں، آیت میں من کا لفظ اسی معنی کو واضح کر رہا ہے۔ کہ کچھ دشمن ہیں۔

امام علی علیہ السلام کی جب شادی ہوئی تو رخصتی کے بعد، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سے سوال کرتے ہیں کہ اے علی! تم نے اپنی بیوی کو کیسا پایا؟ تمہیں فاطمہ کیسی لگیں؟ تو عرض کیا کہ :

نعم العون علی عباده اللَّه؛(المناقب ابن شهرآشوب 3 : 356)

 بندگی خدا کیلئے بہترین مددگار ہے۔

یعنی کچھ ایسی بیویاں بھی ہوتی ہیں جو اطاعت خداوندی میں اپنے شوہروں کی مددگار ہوتی ہیں۔ نیکیوں کے رستے پر چلنے کیلئے ان کی حمایت کرتی ہیں، ان کی سپورٹ کرتی ہیں، ان کا ساتھ دیتی ہیں۔بیوی کی وفاداری کا پتا تو چلتا ہی مشکلات میں ہے، بہرحال کچھ ایسی اولاد اور بیویاں ہوتی ہیں کہ دشمنی کرتی ہیں، ان کیلئے حکم یہ ہے کہ معاف کر دو، معاف کرنا یعنی سزا نہ دینا؛ کیوں کہ جرم کی سزا دی جاتی ہے،حکم یہ ہے کہ سزا نہ دو، نہ فقط یہ کہ سزا نہ دو، بلکہ دل میں نفرت اور کدورت بھی نہ رکھو۔ سرزنش بھی نہ کرو، مطلب یہ ہے کہ عملی اور قولی یا کسی بھی لحاظ سے ان کو سزا نہ دو، ان کو محسوس بھی نہ ہونے دو، اس بات کو دفن کر دو۔ بلکل ختم کر دو۔ گویا کہ ایسا ہوا ہی نہیں ہے، جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہمیں بخش دے تو ہمیں بھی دوسروں کو بخش دینا پڑے گا۔

تم ایسا کروگےتو خدا غفور رحیم ہے، پھر خدا تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ تمہیں معاف کر دے گا، گناہوں کو ختم کر دے گا۔

۱۵ ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہے کہ:

إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَ أَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَ اللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿15﴾

بیشک تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں، اور اللہ کے ہاں اجرعظیم ہے۔

یہ اولاد یہ مال اللہ کی نعمتیں ہیں، البتہ ان کے ذریعہ سے اللہ آزماتا ہے، نہ صرف یہ چیزیں بلکہ دنیا کی تمام چیزیں امتحان ہیں، مال کا ملنا بھی امتحان ہے اور نہ ملنا بھی امتحان ہے۔کبھی خدا کسی کو زیادہ مال دےکر آزماتا ہے کہ میں نے اسے عطا کیا ہےتو کیا میرےحکم پر خرچ کرتا ہے یا نہیں؟ مال میں آزمائش کا پہلو یہی ہے۔ لیکن انسان کا مزاج ایسا ہے کہ مال اگر زیادہ آجائے تو وہ سرکشی کرنے لگتا ہے، اس حقیقت کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے:

كَلاَّ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (علق:۶-۷)

جب انسان خود کو بے نیاز دیکھتا ہے تو وہ سرکش بن جاتا ہے، طغیانی کرنے لگتا ہے، نافرمانی کرنے لگتا ہے۔ کبھی خدا کم دے کر آزماتا ہے، کسی کو کم دیا ہے تا کہ اس کی آزمائش کرے کہ کیا وہ صبر کرتا ہے، کم ملنے کے با وجود استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے؟ خدا کو ہی خدا مانتا ہے؟ خدا کی مانتا ہے؟ اگر وہ صبر کرتا ہے تو وہ اپنے امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

لیکن کچھ لوگ منحرف ہوجاتےہیں، وہ اصلاخداکا انکارکرنے لگتےہیں، کہنے لگتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا تو میرے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔جبکہ خداکسی کو چھوڑتا نہیں ہے، لیکن آزماتا ہے، تاکہ انسان کی صلاحیتیں نکھر جائیں، اس کے ثواب میں اضافہ ہو، اس کے معنوی درجات بڑہ جائیں۔

انسان کی زندگی میں مال کا بہت زیادہ عمل دخل ہے، انسان مال کو بہت زیادہ چاہتا ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

وَ تُحِبُّونَ المَالَ حُبّاً جَمّاً (فجر:20)

اور تم مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو۔

وَ إِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (عاديات:۸)

اور وہ مال سے محبت کرنے میں سخت ہے۔

جبکہ مال صرف اورصرف وسیلہ ہے،زندگی کوعزت سےبسرکرنا کاذریعہ ہے۔اجتماعی زندگی کومنظم کرنےکاذریعہ ہے۔اسکواتنی ہی اہمیت دینی چاہیےجتنی اہمیت کا وہ مستحق ہے۔

لیکن اگرانسان مال کواصلی مقصدبنالےتوپھرمشکلات کاسلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اورپھریہ مال آزمائش کاوسیلہ بن جاتاہے۔اگرانسان مال کواچھےاورجائزوسیلوں سے دریافت کرے اور نیک کاموں میں استعمال کرے تو وہ کامیاب ہوا، وگرنہ وہ ناکام ہوا۔

لیکن مجموعی طور پراسلام مال کامخالف نہیں ہے، اولاد کامخالف نہیں ہے،اسلیےجب امام علی علیہ السلام نے یہ سنا کہ کوئی یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدایا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ امام نے فرمایا یہ کیسی دعا ہے؟ فتنہ تو ہی ہے، آزمائش تو ہونی ہی ہے، ان سے پرہیز کی دعا نہ کرو، ان سے بچنے کی دعا نہ کرو۔ دعا یہ کرو کہ امتحان میں ناکامی نہ ہو۔ فتنہ سے بچنے کی نہیں بلکہ مضلات الفتن سے بچنے کی دعا کرو۔ فتنہ کی وجہ سے گمراہ ہونے سے بچنے کی دعا کرو۔ یہ دنیا ہے ہی آزمائش اور امتحان کی دنیا.

( وسائل الشيعة، (4/1169)

امتحان کیلئے رب کا فرمان ہے کہ

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‌ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ (بقره:155)

اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔

رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلی وسلم جمعہ کاخطبہ دےرہےتھے کہ امام حسن وحسین مسجدمیں وارد ہوتے ہیں لیکن کپڑوں میں پائوں پھسنے کی وجہ سےانکےقدم لڑکھڑاتےہیں نزدیک تھاوہ گرجائیں، آپنےخطبہ چھوڑا، انکو آگوش میں لیا، اور فرمایا کہ واقعا اولاد فتنہ ہے۔

اولادکےنازونخرےاٹھانےچاہیے،ان سےمحبت بھی کرنی چاہیے،لیکن انکی وجہ سےخدا کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے، اولاد کی محبت اگرانسان کوخدا کی نافرمانی کی طرف لےجائے،تواس محبت کوقابوکرنا چاہیے۔لیکن کوئی یہ نہ کہےکہ اگرزوجہ اور اولاد امتحان ہیں تومیں شادی ہی نہیں کرتا،اسلام ایسا نہیں چاہتا، انسان کےتسلسل اورنسل بڑہانے کا فطری طریقہ یہی ہے، اسلام نے شادی اور اولاد کی تربیت کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی ہے۔ یہ انسان کے تکامل کا سبب ہیں۔

پھرفرمایاجارہاہےکہ کہیں انکی محبت میں حدسےبڑھ نہ جائو، خداکےہاں اجرعظیم ہے،جہاں مال اوراولادخداسےدوری کا سبب بنیں، تو مال اور اولاد کو ترجیح نہ دو، بلکہ حکم خدا کو ترجیح دو، حکم الہی کو مانو کہ خدا کے ہاں اجر عظیم ہے، یہ مال اور اولاد تمہیں کیا دے سکتا ہے، جہاں یہ کام نہ آئیں تو وہاں خدا کام آتا ہے۔ مرنے کے بعد مال، زیادہ سے زیادہ کفن دلا سکتی ہے، اولاد قبر تک پہنچا سکتی ہیں، لیکن خدا کی رحمت ہمیشہ کام آتی ہے، مرنے کے بعد خدا کی جنت اور دائمی نعمتیں ہیں۔

دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں دنیا کے تمام امتحانوں میں سرخرو فرمائے۔

آیات: ۱۶، ۱۷، ۱۸

آج آیت نمبر ۱۶، ۱۷ اور ۱۸ کی تفسیرآپ کی خدمت میں پیش کرنی ہے،اور آج ہمارےسلسلہ دروس کا آخری درس ہے۔

۱۶ آیت میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ :

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا وَ أَنْفِقُوا خَيْراً لِأَنْفُسِكُمْ وَ مَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿16﴾

پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو اورسنو اور اطاعت کرو اور(راہ خدا میں)خرچ کرو تو (یہ تمہاری) اپنی بھلائی کےلیےہے اورجو لوگ اپنے نفس کےبخل سےمحفوظ رہ جائیں تو وہی کامیاب لوگ ہیں۔

تقوا کی حد

سب سے پہلے اس آیت مجیدہ میں تقوا کی بات کی جا رہی ہے، خداسےڈرنا، تقوا اختیار کرنا، پرہریزگاری اختیار کرنا، گناہوں سے دوری اختیار کرنا، یہ تمام چیزیں معنویات میں ایک بنیادی چیز ہوتی ہیں۔ یہاں خاص طور پر تاکید کی جارہی ہےکہ جہاں تک ہوسکے خدا سے ڈرو۔ جس جس جگہ پر تمہارے لئے ڈرنا ممکن ہو، تقوا اختیار کرنا ممکن ہو، وہاں اختیار کرو۔ یعنی کوئی حد نہیں ہے، آخری درجہ تک پہنچنے کی بات کی جا رہی ہے، جہاں تک ممکن ہو، جہاں تک ہو سکے، جتنا ہو سکے۔ اس لئے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ نہ صرف واجبات الہی کو انجام دینے میں خدا سے ڈرو اور واجبات کو انجام دو، محرمات الہی سے بچنے کیلئے خدا سے ڈرو، یعنی حرام کام انجاد نہ دو۔ بلکہ جتنا ممکن ہو شبہات سے بھی بچو۔

کچھ چیزیں مشکوک ہوتی ہیں، شاید یہ بھی حرام ہے، اس شاید کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے اس کام کو چھوڑ دو۔ یقینی طور پر حرام چیزوں کو تو چھوڑنا ہی ہے، لیکن اگر کسی چیز میں شک ہو تو اس سے بھی پرہیز کرو۔ جو شبہات سے پرہیز کرے گا، وہ محرمات سے بھی بچ پائے گا۔ بلکہ بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ بعض حلال چیزوں سے بھی بچو، حلال میں بھی خیال رکھو۔

امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے کہ دنیا واقعا عجیب ہے کہ اس کے حرام میں عذاب ہے اور حلال میں بھی حساب و کتاب ہے۔

(نهج البلاغه، خطبه ی 82)

ایسا نہیں ہے کہ ہر جائز کیا جائے، انجام دیا ہے، بلکہ حلال میں بھی حساب و کتاب ہے۔ حلال میں بھی احتیاط اور پرہیز کرنی چاہیے۔ظاہر ہے کہ اگر ہم کوشش کریں کہ حلال چیزوں میں بھی احتیاط کریں تو شیطان کو موقعہ نہیں ملے گا کہ وہ ہمیں حرام میں مبتلا کرے۔

شیطان کے گمراہ کرنے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو درجہ بدرجہ گمراہ کرتا ہے، ایک انسان حرام کاموں سے بچتا ہے تو شیطان اسے فورا حرام کی ترغیب نہیں دیتا ، اسے جائز کاموں میں آہستہ آہستہ سست کرتا ہے، پھر کہتا ہے کہ یہ تو حرام نہیں ہے، شبہات اور مشکوک چیزوں میں کہتا ہے کہ یہ حرام تھوڑی ہیں، ان کو تو انجام دیا جا سکتا ہے، آہستہ آہستہ انسان کو ان چیزوں میں مبتلا کرتا ہے پھر گناہ کو بھی ہلکا بنا کر پیش کرتا ہے۔ لہذا شیطان کے گمراہ کرنے کا دروازا ہی بند کردو۔ جتنا ہو سکے خدا سے ڈرو۔ حلال میں بھی پرہیز کرو تا کہ شیطان کو تمہیں حرام میں مبتلا کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے، اور شیطان تمہیں حرام کی طرف راغب کرنے کی جرات ہی نہ کرے۔ یہ آیت در حقیقت تقوا اور پرہیزگاری کیلئے تاکید ہے۔

علم کی اہمیت

اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ واسمعوا، اورسنو، یعنی رسول اکرم کی تبلیغ سنو۔ ان کے اوامر اور نواہی کو سنو، ان کے پیغام کو سنو، اور پھر اطاعت کرو۔ اس حکم کو مان لو، یہ تمہارے لئے لازمی ہے، یعنی پہلے تو سننا ہے، ظاہر ہے کہ ہمارے پاس احکام کیسے پہنچیں گے، رسول اکرم کی زبانی پہنچیں گے، لہذا ان کے پیغام کو سنو۔ علم، تقوا کا مقدمہ ہے ۔ تقوا کا مطلب واجبات کو انجام دینا، محرمات سے پچنا، یعنی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے، حکم الہی کو انجام دینا ہے، یہ تب ممکن ہوگا جب ہمیں پتا تو چلے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے، واجبات کونسے ہیں؟ محرمات کونسے ہیں؟ کس کو انجام دینا ہے؟ کس کام سے بچنا ہے؟ یہ تب ممکن ہو سکے گا جب علم ہو، اور صدر اسلام میں علم کا طریقہ یہ تھا کہ رسول کی زبانی سنا جائے۔ اس وقت رسول کی زبانی سننا علم تھا، آج احادیث کو پڑہنا۔لہذا علم حاصل کرو۔ تقوا تب ممکن ہو سکے گا جب علم ہوگا۔ پہلے علم حاصل کرو پھر اس پر عمل کرو۔ حاصل کردہ علم پر عمل کرنے سے علم میں برکت آتی ہے، اس کے علم میں اضافہ ہوگا۔

اس لئے کئی روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ علم حاصل کرو جہاں سے بھی ملے، علم حاصل کرو جس سے بھی ملے، علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے اسے حاصل کرو۔ یہ تاکیدات اس لئے ہیں کہ علم کے ذریعہ سے عمل ممکن ہو سکتا ہے۔ علم کے بغیر عمل کرنے والا اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے، فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، ترقی سے زیادہ تنزلی کا شکار ہوتا ہے۔ اس لئے پہلے علم۔

اگرچہ رسول کی باتیں سننا، اور اس پر عمل کرنا تقوا کا ایک مصداق اور نمونہ ہے، لیکن خاص تاکید کی گئی ہے، کیونکہ بہت ہی اہم ہے۔

انفاق کا بیان

اسکےبعدحکم ہورہاہےکہ راہ خدامیں خرچ کرو۔انفاق یعنی خرچ کرنا۔جس کام میں خداکی رضاہو،اس کیلئےخرچ کرو۔ راہ خداکادائرہ بہت ہی وسیع ہے۔ہروہ کام جس میں خدا کی رضایت ہو۔کسی کی مالی مددکرنا، کسی کی پریشانی کو دورکرنا،معاشرےکی عمومی ضروریات کوپوراکرنا، پل کوبنانا، ہسپتال بنانا، یتیم خانہ بنانا، کسی مستحق کو تعلیم دلانا، یہ سب راہ خدا ہیں۔ خرچ کر کے یہ نہ سمجھو کہ کم ہو جائے گا، یا ختم ہو جائے گا۔ نہیں! خدا فرما رہا ہے کہ خرچ کرنے سے تمہیں نقصان نہیں ہوگا، کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بلکہ اس میں تمہاری بھلائی ہے، تمہارا فائدہ ہے، تمہاری تربیت ہے، اس سے معنوی درجات طے ہوں گے، خدا تمہارے مال میں برکت دے گا، اس سے تمہیں سکون ملے گا، یہ چیزیں دنیا سے نہیں ملتیں۔ دولت میں ویسے سکون نہیں ہے،سکون تب ہے جب راہ خدا میں خرچ کی جائے۔ حکم خدا کے مطابق استعمال کی جائے تو سکون ملتا ہے، وگرنہ جتنی دولت بڑہتی جاتی ہے انسان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ راہ خدا میں خرچ کرنے میں تمہارا فائدہ ہے کہ تمہیں سکون ملے گا، یہ ضایع نہیں ہو رہا بلکہ محفوظ ہو رہا ہے۔

اس کے بعد دولت کے منفی پہلو کی مذمت کر رہا ہے اور فرما رہا ہے کہ کامیاب وہ ہے جو بخل سے بچ جائے۔

وَ مَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

جس میں بخل جیسی مذموم صفت نہ ہو وہی لوگ کامیاب ہیں۔

فطری طور پر انسان میں مال کی بہت زیادہ محبت پائی جاتی ہے، جیسا کہ قرآن میں بھی ارشاد ہوا ہے

وَ إِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (عاديات:8)

اور وہ مال سے محبت کرنے میں سخت ہے۔

کنجوسی، دوسروں کا حق کھانا، حق غصب کرنا، حق ادا نہ کرنا، خدا کا حق ادا نہ کرنا، کبھی مال کی وجہ سے جھگڑے، خونریزی، قتل وغیرہ یہ سب مال کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ مال کا مذموم پہلو ہے۔

مومن کےاندربخل نہیں ہوتا، وہ بخل کو جڑسےہی ختم دیتاہے۔اصلا انسان بخل کیوں کرتا ہے؟ خدا پر بھروسہ نہ کرنے کی وجہ سے، گمان کرتا ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کروں گاتو یہ ختم ہو جائے گا، وہ نہیں سمجھتا کہ جس خدانے آج دیا ہے وہ کل بھی دے گا، جس خدا نے پیدا کیا ہے، بچبن میں دیا ہے، کیا وہ اب نہیں دے گا؟ لیکن انسان لالچ کی وجہ سےبخل کرتا ہے، مال میں سے لوگوں اور خداکے حقوق ادا نہیں کرتا۔

کامیابی کیلئے اس مذموم صفت کو اپنے آپ سے دور کرنا ہوگا، اس کو نفس سے نکالنا ہوگا، جو نکال پائے وہ کامیاب ہے۔ اس لئے تمام نیکیوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے،

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَ مَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَ هُمْ لاَ يُظْلَمُونَ (انعام:160)

جو(اللہ کے پاس)ایک نیکی لےکر آئے گا اسے دس گنا (اجر)ملےگا اورجو برائی لےکرآئے گا اسے صرف اسی برائی جتنا بدلہ دیا جائے گا اور ان پرظلم نہیں کیاجائے گا۔

لیکن انفاق ایک ایسی نیکی ہے جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے، اس کا بہت زیادہ ثواب بتایا گیا ہے۔ گئی گنا زیادہ، کتنے گنا؟ کیا ہم تصور کر سکتے ہیں، ہماری دنیوی تجارت میں کتنا فائدہ ہوتا ہے؟ ہمارے کاروبار میں دس فیصد یا زیادہ سے زیادہ بیس فیصد فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا فرما رہا ہے کہ انفاق میں بہت زیادہ فائدہ ہے۔

ارشاد رب العزت ہے کہ:

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (بقره:261)

جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سےہربالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کےعمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔

ایک بویا گیاتھا، سات ٹہنیاں نکلیں، ہر ایک ٹہنی میں سو، ایک کا بدلہ سات سو! اس سے بڑہ کر کوئی منفعت بخش کاروبار یامعاملہ کیاہوسکتا ہے؟نہیں ہو سکتا؟اتنی بڑی فضیلت اسلئے بتائی گئی ہےکہ بخل جیسی مذموم صفت انسان کو انفاق کرنے نہیں دیتی، اس فضیلت کو سن کر اس مذموم صفت کو اپنے اندر سے نکال دے۔

الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَ اللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَ فَضْلاً وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (بقرہ:268)

شیطان تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتاہے اوراللہ بڑا صاحب وسعت، دانا ہے۔

جس کا جتنا خلوص ہوگا اس کو اتنا زیادہ اجر ملے گا۔ ثواب کی حد معین نہیں ہے۔ جو اپنی ضرورت کو چھوڑ کر دوسروں کا خیال کرے اس کو ایثار کہتے ہیں، قرآن ان کی فضیلت اس طرح بیان کرتا ہے:

وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (حشر:9)

اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں۔

وہ دوسروں کی ضرویات کو خود پر ترجیح دیتے ہیں، اب ان کی فضیلت اتنی بڑہ جاتی ہے کہ خداوند متعال ان کی تعریف کیلئے آیات کو نازل کرتا ہے، جو کی روٹی کی کیا قیمت ہے؟ لیکن جس خلوص کے ساتھ دی گئیں، جس ایثار کے تحت دی گئیں، خالق کائنات نے سورہ دہر نازل فرمائی۔

ان کی توصیف اس طرح بیان کی:

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَ لاَ شُكُوراً (انسان: 9)

ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضاء)کےلیےکھلارہےہیں،ہم تم سےنہ توکوئی معاوضہ چاہتےہیں اورنہ ہی شکرگزاری۔

آجکل ایک بیماری آ ہے کہ ایک روپیہ دیا جاتا ہے تو سو تصویریں بنائی جاتی ہیں، اور ان کو شائع کیا جاتا ہے، یہ افسوس کی بات ہے، صرف تصویر بنانے میں شاید حرج نہ ہو، لیکن ان کی نمائش بہت مذموم چیز ہے۔ آئمہ علیہم السلام جب انفاق کرتے تھے تو خود کو ظاہر نہیں کرتے تھے، رات کو چہرہ کو چھپا کر جاتے تھے، کسی کو پتا نہ چلے کہ دینے والا کون ہے۔ یہاں تک کے گھر کے اندر بھی کسی کو دینا ہوتا تو دروازے سے ہاتھ نکال کر دیتے تھے تا کہ اس کے چہرے پر نظر نہ پڑے، لیتے وقت وہ شرمندگی محسوس کرے تو وہ ہمیں نظر نہ آئے، یہ شرمندگی دیکھ کر دینے والے کے اندر غرور و تکبر پیدا ہو سکتا ہے، جیسا کہ دنیا والے کرتے ہیں۔ انسان یہ نہ سمجھے کہ میں دے رہا ہوں، جبکہ ہر انسان خود محتاج ہے، یہ مال خدا کا ہے، ہمارے پاس امانت ہے، اس کے حکم کے مطابق ہمیں خرچ کرنا ہے۔

۱۷ آیت میں خالق کائنات خاص طور پر ارشاد فرما رہاہے کہ:

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَ لَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ (حديد:11)

کون ہےجو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اس کے لیے اسے کئی گنا کر دے؟ اور اس کے لیے پسندیدہ اجرہے۔

وہ کتنا کریم ہے؟ یہ وجود اس نے دیا، وجود کی بقا کے اسباب اس نے دئے، یہ سب نعمتیں اس کی ہیں، یہ مال بھی اس نے دیا ہے، دینے کے بعد کہتا ہے کہ یہ تمہارا ہوا، اب مجھے قرض دو، قرض تو وہ دیتا ہے جس کی اپنی ملکیت ہو، یہ سب دینے کے بعد فرماتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہارا ہوا، اب مجھے قرض دو۔ لیکن یہ قرض اس لئے نہیں مانگا کہ اب اس کے پاس کچھ نہیں رہا، ناداری اور مفلسی کی وجہ نہیں مانگا، اس کے ہاں کوئی کمی نہیں ہے، وہ محتاجی کی وجہ سے نہیں مانگ رہا ہے، یہ بھی اس کا لطف و کرم ہے اس لئے مانگ رہا ہے تا کہ بڑہا کر دے، اس کے بدلے ثواب اور جزا دے، اور اخروی نعمتیں عطا کرے۔ یہ اس کا ایک اور احسان ہے۔

اسی لئے امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ: خدا نے ناداری کی وجہ سے قرض نہیں مانگا، آزمائش اور امتحان کیلئے مانگا ہے، خدا چاہتا ہے کہ تمہیں بڑہا کر دے، اس میں برکت عطا فرمائے۔ اگر خدا نے مدد مانگی ہے تو کمزوری کی وجہ سے نہیں مانگی ہے، بلکہ جو خدا کی مدد کرتا ہے اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے، تو خدا اس کے درجات بلند کرتا ہے۔ (خطبہ۱۸)

وہ اپنے بندوں کیلئے کتنا کریم ہے، کل قیامت کے دن خدا کچھ لوگوں سے کہے گا کہ میں تمہارے پاس سوالی بن کر آیا تھا، تم نے نہیں دیا۔ بندے تعجب سے پوچھیں گے: خدایا! تو تو محتاج نہیں ہے، تو تو سوال سے بے نیاز ہے، تو ہمارے ہاں کب آیا مانگنے کیلئے؟ فرمائے گا: وہ فلاں دن میرا فلاں بندہ تم سے مچھ مانگنے نہیں آیا تھا؟!وہ آیا تھا، اگر تو اسے دے دیتا تو گویا مجھے دے دیتا۔

اس لئے حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ : الخلق عیال اللہ،؛مخلوق، خدا کی عیال ہے۔(بحار الانوار، ج۱، ص۳۳۹)

ان کو دینا، خدا کو دینا ہے۔ ان کو دینا، خود کو دینا ہے۔ اپنے لئے ذخیرہ کرنا ہے۔ وہ ہمارے لئے محفوظ ہو رہا ہے۔ قیامت کے دن وہ بڑھ کرہمیں واپس ملے گا۔

یغفر کم

نہ صرف انفاق سے مال میں برکت ہوتی ہے، بلکہ اس سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، اس سے گناہ ختم ہو جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذٰلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ(هود:114)

 گناہوں کو ختم کرنے کا ایک عمل، نیکیوں کو انجام دینا ہے، یہ نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔

والله شکور

خدا قدرشناس ہے، تمہاری نیکیوں کو، تمہارے انفاق کو ضایع نہیں ہونےدےگا، یہ نہ سمجھو کہ ختم ہوگیا۔ جو تمارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا، جو خدا کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔ جو خدا کیلئے دیا جا رہا ہے وہ بقا حاصل کر رہا ہے۔ وہ جاویدان بن رہا ہے۔ اسے ابدیت مل رہی ہے۔ ختم وہ ہوگا جو ہمارے پاس ہے۔ اس لئے منقول ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےایک بار قربانی کی، اورحکم دیا اس کا گوشت تقسیم کردو۔کچھ دیرکےبعدپوچھا، کتنا دیا اور کتنا باقی بچاہے۔جواب دیا گیا کہ اتنا باقی بچا ہے اور اتنا دے دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو اللہ کے نام پر دیا ہے وہ بچ گیا ہے، جو ہمارے پاس وہ ختم ہو گیا ہے۔ جو چیز خدا کے نام پردی جائی وہ بچ جاتی ہے۔ہم بھی ختم ہوجائیں گےاورہماری چیزیں بھی ختم ہوجائیں گی۔خدا کی ذات بھی باقی رہے گی اور جو چیز اس کی ہوگی وہ بھی بچ جائے گی۔

 وہ شکور ہے، وہ انفاق کے مال کو ضایع ہونے نہیں دیتا۔ اگر دو گے تو وہ قدردان ہے۔ اس کی حفاظت کرے گا، بلکہ بڑہا کر دے گا۔ ایسے روز عطا کرے گا جس دن کوئی کام نہیں دے گا۔

وہ حلیم ہے، گناہوں کی سزا میں جلدی نہیں کرتا۔ جلدی وہ کرے جس کو خطرہ ہو کہ شاید مجرم فرار کر جائے، شاید میری دسترسی سے نکل جائے، میں ایسے دوبارہ حاصل نہ کر پائوں۔ خدا حلیم ہے، وہ بردبار ہے، اسے پتا ہے کہ میری حکومت سے کوئی بھی فرار نہیں کر سکتا۔ کوئی مجھ سے بڑہ کر طاقت والا نہیں ہے۔ کوئی کتنا بڑا ظالم ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی خدا کے پاس لوٹ کر آئے گا، وہ خدا کی گرفت سے فرار نہیں کوسکتا، خدا کی قدرت سے باہر نہیں نکل سکتا۔

دعائے کمیل میں ہم پڑہتے ہیں کہ:

 لا یمکن الفرار من حکومتک۔

یہ دنیامیں ہوتاہے کہ ایک آدمی ایک ملک میں جرم کرکے دوسرےملک فرارکرجا تاہے، تو اسکوسزا نہیں ملتی، کیونکہ دوسرےملک میں انکا قانون نہیں چلتا۔لیکن خدا کی حکومت ہر جگہ ہے۔ اسلئے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ظالم کو لمبی رسی دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ظلم کرے تاکہ بہت بڑی سزا کا حقداربنے۔

اس لئے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ جن کو ہم نے مہلت دی ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مہلت ان کیئلے بہترہے، نہیں نہیں یہ مہلت اسلئے دی گئی ہے تا کہ ان کو سخت سزا ملے۔ آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

عَالِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿18﴾

وہ غیب و شہود کو جاننے والاہے۔وہ عالم ہےہرچیز کا۔بڑا غالب آنےولاہے۔ بڑی حکمت والا ہے۔

اس کا اس مورد سے تعلق یہ ہے کہ یہاں انفاق کی بات ہو رہی تھی، وہ عالم الغیب و الشہادہ ہے، یعنی اس خرچ کرنے کے بارے میں تمہاری غیب کی باتیں بھی جانتا ہے اور تمہاری ظاہر کی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ جس نیت سے خرچ کر رہے ہو، جس وجہ سے خرچ کر رہے ہو، خدا اس کو بھی جانتا ہے۔ کیا نام نمود کیلئے خرچ کر رہے ہو، کس کو جتانے کیلئے، کسی کو دکھانے کیلئے، یا خدا کیلئے خرچ کر رہے ہو۔ ہر نیت کو خدا جانتا ہے، چھپی ہوئی نیت کو بھی خدا جانتا ہے جو دوسروں سے چھپی ہوئی ہے، غیب و شہود کو جاننے والا وہی ہے۔ کس نیت سے کام کیا جا رہا ہے وہ جانتا ہے۔ اس نیت کے مطابق جزا دیتا ہے۔ ثواب ملتا ہی نیت کے مطابق ہے۔ کسی کی نیت اگر ریاکاری ہو تو اس کی جزا خدا نہیں دے گا، فرمائے گا جس کیلئے تم نے عمل کیا تھا، جا کر اس سے جزا لے لو۔ میں تو اس کو دوں گا جو عمل میرے لئے انجام دے گا۔ کس نیت سے کام کیا جا رہا ہے، یہ بہت اہم ہے۔

خدا مقدار کو دیکھ رہا ہے، تمہارے ظاہری عمل کو بھی دیکھ رہا ہے، جانتا ہے، اس لئے نیکیوں میں ریاکاری نہیں ہونی چاہیے، عبادات میں نام و نمود یا نمائش نہیں ہونی چاہیے۔ خدا تمہاری نیات اور اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ وہ بڑا غالب آنے والا ہے، تمہیں اجر دے گا، انفاق کا بدلہ دے گا، اس کے ہاں کمی نہیں ہے، اس کا خزانہ ختم ہونے والا نہیں ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی خدا سے مانگ رہا ہے تو خدا کس کس کو دے گا، وہ ہر ایک دے گا، نہ صرف ضرورت کے مطابق دے گا، بلکہ ضرورت سے بڑہا کر دے گا۔

دعائے جوشن کبیر میں پڑہتے ہیں کہ:

یا من لا تزیدہ کثرہ العطا الا جودا و کرما

اے وہ ذات جس کی سخاوت سے اس کے خزانوں میں کمی نہیں آتی۔ بلکہ اس کے خزانے بڑہتے چلے جاتی ہیں، اس کی کرمنوازی سے سخاوت میں اضافہ ہوتا ہے، کوئی کمی نہیں آتی۔ اس لئے ہمیں بھی حکم دیا گیا ہے کہ دعا میں کنجوسی نہ کرو، صرف اپنے لئے نہ مانگو۔ یہ نہ سمجھو کہ خدا اگر تمہیں دے گا تو دوسروں کو کیا دے گا، یا اگر خدا نے دوسروں کو دے دیا تو تمہیں کیا دے گا۔ نہیں، ایسا نہ سمجھو، کنجوسی نہ کرو، خدا کے ہاں کوئی کمی نہیں آتی۔ سب کو دے گا بلکہ دوسروں سے زیادہ تمہیں دے گا، یعنی جو دوسروں کیلئے مانگتا ہے خدا مانگنے والے کو زیادہ دیتا ہے۔

وہ حکیم ہے، اسکےتمام کام حکمت کے مطابق ہیں۔یہ پورا نظام حکمت کے مطابق ہے،حکمت کےمطابق جزا اورسزا دیتاہے۔گناہوں پرسزا دینا خلاف حکمت نہیں ہے، یہ ظلم نہیں ہے۔ نیکیوں کی جزا دینا بلکہ بڑہا کردینا، حکمت کے مطابق ہے۔

بہرحال خالق کائنات ہمیں قرآن کی نورانی آیات پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔خدا کا احسان ہےکہ ہمیں توفیق ہوئی کہ سورہ تغابن کی مختصرطور پر ہی صحیح، تفسیر آپکی خدمت میں عرض کرسکے۔ دعاہےکہ خالق کائنات اس کو ہماری آخرت کاذخیرہ قراردےاوراس پرعمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمه اللَّهُ و برکاته۔