امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

احادیث مہدویت-۲

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


بہ قلم: محمود شريفى
مترجم: یوسف حسین عاقلی پاروی

عاقبت منكر ِمهدى عليه‌السلام
حديث-۲۰ وَ عَنْهُ عليه السلام:۔۔۔فَاعْلَمْ أنَّهُ لَيْسَ بَيْنَ اللّه ُعَزَّوَجَلَّ وَ بَيْنَ اَحَدٍ قَرابَةٌ، وَمَنْ أنْكَرَنى فَلَيْسَ مِنّى وَسَبيلُهُ سَبيلَ ابْنِ نُوحٍ. [كمال الدين و تمام النعمة 2: 484]
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے رقعہ(نامہ،تحریر)میں اس طرح آیاہے:۔۔۔ لوگو جان لو! پروردگار عالم اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی قرابت یا رشتہ داری نہیں ہے۔(یاد رکھنا!)جو بھی ہمارا انکار اور ہمیں  جھٹلایا وہ ہم میں سے نہیں اور اس کا راستہ حضرت نوح (علیہ السلام)کے (ناخلف)بیٹے کے مانندہے۔
زمان  ِ فَرَجِ
حديث-۲۱ وَ فى تَوقيعِهِ عليه السلام:۔۔۔وَ أمّا ظُهُورُ الْفَرَجِ فَإنَّهُ اِلىَ اللّهِ وَ كَـذِبَ الْوَقـّاتـُونَ. [بحارالانوار 53: 181]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا:۔۔۔لیکن ہمارےظهور  میں (فرج اور انتظار کرنےوالا، تعجیل ) پروردگار ی مصلحت میں ہےاو رجو بھی ہمارے ظہور کےوقت کا تعين كرتا ہے وہ جھوٹا، دروغ گو ہوگا۔
اذن خدا
حديث-۲۲ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَ إذا أذِنَ اللّه ُ لَنا فى الْقَوْلِ ظَهَرَ الْحَقُّ وَ اضْمَحَلَّ الْباطِلُ وَانْحَسَرَ عَنْكُمْ وَ اِلىَ اللّهِ أرْغَبُ فى الْكِفايَةِ وَ جَميلِ الصُّنْعِ وَ الْوِلايَةِ… [بحارالانوار 53: 196]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا:۔۔۔ اور جب  اللہ تعالی،ہمیں سخن کی اجازت دی جائے گی تو اس وقت حق واضح اور روشن ہوگا جبکہ باطل، اضمحلال، ٹوٹ پھوٹ اور نابودی کا شکار ہوجائے گا۔
پروردگارعالم  سے دعا گو ہوں !کہ وہ اس مهـمّ  کام کو احسن طریقے اوربہترین انداز اور کفایت شعاری کی حد تک اور ہمارے ولايت کے ساتھ انجام کو پہنچے۔۔۔
زمان ظهور
حديث- ۲۳ وَ عَنْهُ عليه السلام: فَقَدْ وَقَعَتْ الغَيْبَةُ الثانِيَةُ فَلا ظُهُورَ إلاّ بَعْدَ إذْنِ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ وَ ذلِكَ بَعْدَ طُولِ الْأمَدِ وَ قَسْوَةِ الْقُلُوبِ، وَ امْتِلاءِ الْأرْضِ جَوْراً. [كمال الدين و تمام النعمة 516: 44]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا:۔۔۔ جب دوسری غيبت(کبری) واقع ہوئی اس غیبت کبری کے بعد کوئی اور ظہور نہیں ہوگا، مگر یہ کہ اذن خدا اور  حکم الہی کے۔یاد رکھنا یہ اس وقت ہوگا جب   ایک طویل مدت گزرچکا ہوگا اور لوگوں کے قلوب ،سختي، دشواري سے  پُر ہوچکے ہونگے ، اور زمین ، ظلم و ستم سے بھر جائیں گے۔
غيبت کے راز
حديث-۲۴ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَ اَمّا عِلَّةُ ما وَقَعَ مِنَ الْغَيْبَةِ فَاِنَّ اللّه ِ عَزَّوَجَلَّ يَقُولُ: يا اَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لاتَسْألُوا عَنْ أشْـياءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ. [مائده:۱۰۱]
إنَّهُ لَمْ يَكُنْ اَحَـدٌ مِنْ آبائي إلاّ وَ قَـدْ وَقَعَـتْ فى عُنُقِهِ بَيْـعَةٌ لِطاغِيَةِ زَمـانِهِ وَ إنّى أخْـرُجُ حينَ أخْرُجُ وَ لا بَيْعَةَ لِأحَـدٍ مِنَ الطَّواغِيتِ فِى عُنَقى. [كمال الدين و تمام النعمة 485: 4]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا:۔۔۔ لیکن علّت غيبت کے مورد کےبارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں ۔ کیونکہ ہمارے آباء و  اجداد میں سے کوئی ایسا نہیں گزرے ہیں مگر یہ کہ ان کے اپنے زمانے کے طاغوط اور  ظالموں میں سے کوئی تعهد یا زبردستی (ظاہری)بیعت نہ لی گئی ہو لیکن جب میری ظہور ہوگا تو مجھ پر کسی ظالم کا کوئی تعهد یا زبردستی (ظاہری)بیعت نہیں  ہوگی(یعنی مجھ پر کسی کا تقیہ فرض نہیں)۔
توفيق ِديدار
حديث ۲۵ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَ لَوْ اَنَّ أشياعَنا وَ فَقَّهُمُ اللّه ُ لِطاعَتِهِ، عَلى اجْتِماعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فى الْوَفاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ، لَما تأخَرَّ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقائنا، وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمْ السَّعادَةُ بِمُشاهِدَتِنا، عَلى حقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِها مِنْهُمْ بِنا، فَما يَحْبِسُنا عَنْهُمْ إلاّ ما يَتَّصِلُ بِنا مِمّا نُكْرِهُهُ. [بحارالانوار 53: 177]
حضرت امام مہدی علیہ السلام سےنقل ہےشيخ مفيد نےفرمایا: اگر پروردگار عالمین، ہمارے شیعوں کو اپنی اطاعت کی توفیق اور  کامیابی نصیب کرے کہ وہ اپنے دلوں اور  اپنے اوپر فرض، عہد و وفاء کی پاسداری میں متحد ہو جائیں۔تو  ہرگز ہماری  ملاقات کی سعادت میں تأخير نہیں ہوگی۔ بلکہ ہماری  ديدار و زیارت کی سعادت ہماری مکمل  شناخت  و معرفت اور صداقت اور دیانت کے ساتھ جلد ہی مل جاتی، سوائے ان افراد کے جوناشائستہ اور غیرمعقول اعمال کی وجہ سے اپنے آپ کودور یا ہم سے نفرت کرے۔
غیبت کےدوران وظیفہ
حديث-۲۶ وَ عَنْهُ عليه السلام:۔۔۔فَاغْلُقُوا أبْوابَ السُؤالِ عَمّا لا يَعْنيكُمْ وَ لا تَتَكَلَّـفُوا عِلْمَ ما قَـدْ كَـفَيتُمْ وَ أكْثِرُوا الدُّعاءَ بِتَعْجيلِ الْفَرَجِ فَإنَّ ذلِكَ فَرَجَكُمْ. [بحارالانوار 53: 181]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نےفرمایا: ان چیزوں کے بارے میں سوالات کے دروازے بند کر دیں جو تمہارے فائدے کے نہیں ،اوروہ باتیں جو غیر ضروری ہیں ان کوبھی جاننے کے لئے اپنے آپ کو پریشانی ارو زحمت میں نہ ڈالیں۔ اور زیادہ سے زایدہ ہماری جلد ظہور اور تعجیل فَرَجِ کی دعاء کرنا کیونکہ اسی میں تمہاری کامیابی ہے۔
خاتم الاوصياء
حديث-۲۷ وَ عَنْهُ عليه السلام: أنـَا خـاتَمُ الاَوْصِـياءِ وَ بى يَدْفَعُ اللّه ُالبَلاءَ عَنْ أهْلى وَ شيعَتى. [بحارالانوار 52: 30]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نےفرمایا: میں خاتَمُ الاَوْصِاءہوں۔ اورمیرے وسیلے اورذریعے سے ہی میرے اہل بیت اورمیرے شیعوں سے مصیبتوں کو دور کرے گا۔
فصل ِسوم: بيت ُالمال
حكمتِ خمس
حديث-۲۸ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَ أمّا أمْوالُكُمْ فَلانَقْبَلُها اِلاّ لِتَطْهُرُوا فَمَنْ شاءَ فَلْيَصِلْ وَ مَنْ شاءَ فَلْيَقْطَعْ فَمـا اتـانَا اللّه ُخيْرْ مِمّـا اتـاكُمْ. [بحارالانوار 53: 180]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نےفرمایا: لیکن ہم تمہارے اموال کو فقط  اس لئے قبول کرتے ہیں کہ تم پاک و پاکیزہ ہو جائیں۔ پس جو اپنے آپ  اپنے کو پاک ومنزہ کرنا چاہے پس جو اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ کرناچاہے وہ ہمارے ساتھ ملحق ہوجائے اور جو ہم سے دور ہونا چاہے وہ ہم سے اپنا رابطہ منقطع کردیں  ۔ پس جو کچھ پروردگار عالم نے ہمیں عطاء کیاہواہے وہ اس سے بہتر اور اعلیٰ ہے جو اس ذات نے تمہیں دیا  ہواہے۔
مال ِحرام
حديث- ۲۹ وَ عَنْهُ عليه السلام:۔۔۔وَ أَمّـا ما وَصَلْتَنا بِهِ فَـلا قَبُـولَ عِنْدَنـا إلاّ ما طابَ وَ طَهُرَ وَ ثَمَنُ الْمُغَنِّيَةِ حَرامٌ. [معجم احاديث المهدى عليه السلام، ج 4، ص 294]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اسحاق بن يعقوب کے جواب میں اس طرح مرقوم ہے: (اے اسحاق بن يعقوب!)لیکن جو تمہاری طرف سے پہنچا ہے وہ  ہمارے ہاں قابل قبول نہیں۔ جب تک کہ وہ پاك و پاكيزه نہ کیا گیا ہو، اور (یاد رکھنا!) گلوکارہ(مُغَنِّيَہ) کی  آواز کی اجرت اورتنخواہ(پیسہ) حرام  ہے ۔
خمس کو حلال سمجھنا
حديث-۳۰ وَ عَنْهُ عليه السلام: بِسْمِ اللّه ِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ لَعْنَةُ اللّهِ وَ الْمَلائِكَةِ وَالنّاسِ أجْمَعينَ عَلى مَنِ اسْتَحَّلَ مِنْ أمْوالِنا دِرْهَماً. [بحارالانوار 53: 183]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا:بنام خدائے رحمن رحیم (جو  بخشنے والا اور مهربان ہے)کے نام پر، جو ہمارے اموال (خمس وذکات وغیرہ) میں سے ایک درہم بھی حلال سمجھے،اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور پوری کائنات کے لوگوں کی لعنت ہو۔
تصرفِ خمس
حديث-۳۱ وَ عَنْهُ عليه السلام:۔۔۔ وَ أمّا ما سَئلْتَ عَنْهُ مِنْ أمْرِ مَنْ يَسْتَحِلُّ ما فى يَدِهِ مِنْ أمْوالِنا أوْ يَتَصَرَّفَ فيهِ تَصَرُّفُهُ فى مالِهِ مِنْ غَيْرِ أمْرِنا فَمَنْ فَعَلَ ذلِكَ فَهُوَ مَلْعُونٌ وَ نَحْنُ خُصَماؤهُ يَوْمَ الْقيامَةِ. [كمال الدين و تمام النعمة 520: 49]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے محمد بن جعفر اسدى سے خطاب کر کے فرمایا : لیکن تم  نے چیزاور مورد کے بارے میں پوچھا  ہےکہ جس کے ہاتھ میں ہمارےاموال(خمس وذکات وغیرہ) ہیں اور ہماری اجازت اور حکم کے بغیر حلال سمجھ کر ان اموال میں تصرف کرتا ہے۔(یاد رکھنا!) جو ایسا کرے گا وہ ملعون ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے دشمن ہوں گے۔
خمس کا کھانا
حديث-۳۲ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَمَنْ أكَلَ مِنْ أمْوالِنا شَيْئاً فَإنَّما يَأكُلُ فى بَطنِهِ ناراً وَ سَيَـصْلى سَعـيراً. [بحارالانوار 53: 183]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا : جو شخص ہمارے اموال(خمس وذکات وغیرہ)میں سےمعولی چیز بھی کھائے،تو ایسا ہے  جیسےاپنے پیٹ کو آگ پر کرہا ہو، اور عنقریب،دوزخ  اور جہنم میں پہنچ جائے گا۔
حرام خورى
حديث-۳۳ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَأمّـا الْمُتَلَبـَّسُونَ بِأمْـوالِنـا فَمَنِ اسْتَحَلَّ شَيْئاً مِنْها فَأكَلَهُ فَـإنـَّما يَـأكُلُ النّـيرانَ. [بحارالانوار 53: 181]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا : ۔۔۔لیکن جنہوں نے ہمارے اموال(خمس وذکات وغیرہ)چھین لی ہیں اس کے بعد کسی بھی چیز کو حلال سمجھ کر کھا لیں تو گویا  اس نے آگ کھا لی۔
فصل چهارم: حق کی فتح اورباطل کی نابودى
حديث-۳۴ وَ عَنْهُ عليه السلام:وَالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعالَمينَ حَمْداً لا شَريكَ لَهُ عـَلى إحْسانِهِ إلَيْنا وَ فـَضْلِهِ عـَلَيْنا، أبَى اللّه ُعَزَّوَجَلَّ لِلْحَقِّ إلاّ إتْماماً وَ لِلْباطِلِ إلاّ زَهُوقاً. [بحارالانوار 53: 193]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا :حمد وستايش اور تمام تعریفیں مخصوص ہے اس ذات پاک و منزہ کے لئے،جو تمام جہانوں کا رب ہے اورجس کی کوئی شریک نہیں۔ اور ہمارے لئےاس ذات گرامی کی احسان ہےجبکہ ہم پر اس ذات الہی کی فضل و مہربانی  ہے، خداواندعالم کو حق کے لئے استقامت اور کمال کے سوا کوئی چیز پسند نہیں ،اور باطل کی ہلاکت  اور نابودى کے سوا کچھ بھی مقدر نہیں کیا ہے۔
آزادی کی تلاش
حديث-۳۵ وَ عَنْهُ عليه السلام: وَ أنـَا أعُـوذُ بِاللّهِ مِنَ الْعـَمى بَعْدَ الْجَـلاء، وَمِنَ الضَّلالَةِ بَعْدَ الهُدى وَ مِنْ مُوبِقاتِ الْأعْمالِ، وَ مُرْديـاتِ الْفِـتَنِ فَإنـَّهُ عَـزَّ وَجَـلَّ يَقُـولُ: الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ. [بحارالانوار 53: 190]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا : میں اندھے پن سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہدایت کے بعد گمراہ ہونے سےاور ان اعمال اور ان  چيزوں كی نابودى کا  موجب یاباعث بننے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ، نیز ان تمام تباہ کن آزمائشوں اور امتحانات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ اسی لئے پروردگار عالم فرماتے ہیں: کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
نماز اور شيطان
حديث- ۳۶ وَ عَنْهُ عليه السلام:... فَما أرْغَمُ أنْفُ الشَيْطانَ بِشَىءٍ مِثْلَ الصَّلاةِ، فَصَـلِّها وَ أرْغَـمْ أنْـفَ الشَّـيْطانَ. [بحارالانوار 53: 182]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا : ۔۔۔ایک شخص کے سؤال کے جواب  میں جس نے طلوع  اور غروبِ آفتاب کی نماز کے بارے میں پوچھا  تھا:شیطان کی ناک   زمین پرنماز کے علاوہ کسی چیز سے نہیں رگڑی جا سکتی، اس لئے نماز کو قائم کرو تاکہ شیطان ِملعون کی ناک کو زمین پر رگڑیں۔
باغ سے گزرنے والوں کا حق
حديث- ۳۷ وَ عَنْهُ عليه السلام:۔۔۔وَ أمّا ما سَألْتَ عَنْهُ مِنَ الثِّمارِ مِنْ أمْوالِنا يَمُرُّ بِهِ الْمارُّ فَيَتَناوَلُ مِنْهُ وَ يَأكُلُ هَلْ يَحِلُّ لَهُ ذلِكَ؟ فَإنَّهُ يَحِلُّ لَهُ أكْلُهُ، وَ يَحْرُمُ عَلَيْهِ حَمْلُهُ. [بحارالانوار 53: 183]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا :۔۔۔لیکن تم نے جوسئوال  کیاہے  کہ ہماری جائیدادیا باغات سے گزرتے ہیں اور اس  کےمیؤوں اور پھلوں کو لے کر کھاتا ہے (راستے سے گزرنےوالوں کا حق) کیا یہ  اس کےلئےحلال ہے یا نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا کھانا اس شخص کے لئے حلال ہے لیکن اپنے ساتھ لیجانا یاچھینا حرام ہے۔
وقف کے استعمال کی شرط
حديث-۳۸ وَ عَنْهُ عليه السلام:۔۔۔وَ أمّا ما سَئَلْتَ عَنْهُ مِنْ اَمْرِ الْوَقْفِ عَلى ناحِيَتِنا وَ مـا يَجْـعَلُ لَنا ثُمَّ يَحْـتاجُ اِلَيْهِ صـاحِبُهُ، فَكُلُّ ما لَمْ يُسَلِّمْ فَصاحِبُهُ فيهِ بِالْخِيارِ، وَ كُلَّـما سَـلَّمَ فَلاخيارَ لِصـاحِبِهِ فيهِ، إحْتاجَ اَوْ لَمْ يَحْتَجْ، إفْتَقَر إلَيْهِ أوِاسْتَغْنى عَنْهُ. [بحارالانوار 53: 182]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا : :۔۔۔لیکن تم نے ہم سے وقف کے بارے میں سئوال  پوچھا ہےکہ جو مالک ہمارے لئے قرار دیتاہےلیکن بعد میں پھر اسے اس(وقف شدہ چیز)کی ضرورت  پڑھتی ہے(تو اس کا کیا حکم ہے)؟
 اس سؤال  کا جواب یہ ہے کہ ہروہ  چیز جو ابھی تک تحویل میں نہیں لی ہو، تو وہ مالک، مختار اور اس  کا حق ہے ، اور ہروہ چیز،جو ابھی تک دوسرے کی تحویل  میں دی ہواس پر، اس کا کوئی حق نہیں ہے، چاہے اس شخص کو اس چیز کی ضرورت  یا نیازمندہو یا نہ ہو۔
منتخب نزول
حديث-۳۹ وَ عَنْهُ عليه السلام: أنَـا بَقِيـَّةٌ مِنْ آدَمَ وَ ذَخـيرَةٌ مِنْ نُـوحٍ وَمُصْطفى مِنْ إبراهيمَ وَصَفْوَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه و آله. [غيبت نعمانى: 281، ح 67]
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا : :۔۔۔ میں آدم کا  باقی ماندہ اور بقیہ، نوح کا ذخیرہ، ابراہیم کا برگزیدہ اور چنا ہوا، اور محمدصلي الله عليه و آله وسلم کا بهترين و خالص ترين ، منتخب شدہ ہوں۔
هر سال حجّ پرمشرفیاب
حديث-۴۰ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمانَ الْعَمْرى رَضِىَ اللّه ُ عَنْهُ قالَ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَاللّهِ إنَّ صاحِبَ هذَاالْأمْرِ لَيَحْضُرَالْمَوْسِمَ كُلَّ سَنَةٍ، فَيَرى النّاسَ وَ يَعْرِفُهُمْ وَ يَرَوْنَهُ وَ لايَعْرِفُونَهُ [كمال الدين و تمام النعمة 440: 8]
۔۔۔ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمانَ الْعَمْرى [نائب امام عجل اللہ تعالی فرجہ] سے منقول ہے انہوں نے کہا:میں نےحضرت امام مہدی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : بخدا قسم !صاحب الامر و الزمان ہر سال مراسمِ حج (کی تقریب یا پروگرام)میں حاضر اور شریک ہوتے ہیں ،اورآپ(عج) لوگوں کو دیکھتےہیں جانتےاور پہچانتے بھی ہیں ۔ مگرلوگ( انہیں فقط اپنی ظاہرہ نگاہوں سے)دیکھتے  توہیں لیکن ان کی شناخت نہیں اور انہیں جانتے نہیں ہیں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک