سورۃ البقرۃ آیات 1 - ۲ کی مختصر شرح

سورۃ البقرۃ آیات 1 - 2
 
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ


یہ قرآن مجید کا سب سے بڑا سورہ ہے، جس میں اسلامی تعلیمات کا معتدبہ حصہ موجود ہے۔ مثلاً تحویل قبلہ، حج، صوم اور جہاد جیسی اہم تعلیمات کے علاوہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل آیۃ الکرسی بھی اس میں شامل ہے ۔

عربی میں بقرۃ گائے کو کہتے ہیں۔ اس سورہ میں گائے سے مربوط ایک اہم واقعہ بیان ہوا ہے۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اسے سورۂ بقرہ کہا گیا ہے۔

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف لام میم۔

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔

تشریح کلمات
ذٰلِکَ:

اشارئہ بعید کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خواہ وہ چیز بلحاظ مکان بعید ہو یا بلحاظ مرتبہ و مقام بلند و بالا ہو۔

الْكِتٰبُ:

(ک ت ب) سے قِتَال کے وزن پر مصدر ہے اور اسم مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کتاب سے مکتوب مراد ہے۔ نیز یہ مادہ جمع کے معنی میں بھی ہے۔ چنانچہ ایسے اوراق کا مجموعہ کتاب کہلاتا ہے، جن پر کچھ لکھا ہوا ہو۔

کبھی یہ دستور اور حکم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے:

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۔ {۵ مائدہ :۴۵}

اور ہم نے توریت میں ان پر (یہ قانون ) لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ہے۔

چنانچہ قرآن، صحیفوں اور نوشتہ جات کا مجموعہ ہونے کے اعتبار سے بھی اور دستور و احکام کے اعتبار سے بھی کتاب ہے۔

فرض اور واجب قرار دینے کے لیے بھی کتب استعمال ہوتا ہے:

کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ۔۔۔ { ۶ انعام: ۵۴}

تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ۔۔۔۔ {۲ بقرہ : ۱۸۳}

تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔

رَیۡبَ:

(ر ی ب) شبہ ، بدگمانی اور عدم اعتماد۔ یہ لفظ شک کا مترادف نہیں ہے ، جیساکہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔

ہُدًی:

(ھ د ی) ہدایت یعنی مہر و محبت کے ساتھ رہنمائی کرنا۔ اسی لیے بلامعاوضہ دی جانے والی چیزہدیہ کہلاتی ہے۔

متقین:

(و ق ی) صاحبان تقویٰ، متقی کی جمع ہے۔ تقویٰ، وقایۃ سے ماخوذہے، جس کا لفظی معنی ہے، ہر اس چیز سے نفس کو بچانا جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ انسان خود کوخطرات سے اس وقت بچاتا ہے جب اسے ان سے خوف لاحق ہوتا ہے۔ اسی لیے تقویٰ کا معنی ڈر اور خوف بھی بیان کیا جاتاہے۔ کیونکہ تقویٰ کا سبب خوف ہوتا ہے اور مسبب کا نام لے کر سبب کو مراد لینا عام طور پر رائج ہے۔ یعنی تقویٰ سے خوف مراد لیا جاتاہے۔ جیسے اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ۔۔۔ {۳ آل عمران : ۱۰۲} اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے۔

تفسیرآیات
الٓـمّٓ: انہیں ’’مقطعات قرآنیہ‘‘ کہتے ہیں، جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ درست رائے یہ ہے کہ یہ صرف افتتاحیہ حروف ہی نہیں بلکہ ان میں وہ اسرار و رموز پنہاں ہیں جو خدا اور اس کے حبیب(ص) کے درمیان مخصوص ہیں اور خداوند عالم نے کسی مصلحت کے پیش نظر انہیں صرف اپنے رسول (ص) تک محدود رکھا ہے۔

زاں گونہ پیامھا کہ او پنہاں داد

یک ذرہ بصد ہزار جان نتواں داد

مذکورہ نظریے کی دلیل یہ ہے کہ ان مقطعات میں سے بعض مستقل آیت ہیں، جیسے کٓہٰیٰعٓصٓ ، الٓـمّٓ، الٓـمّٓصٓ وغیرہ اور بعض مستقل آیت نہیں ہیں، جیسے الٓرٰ اور الٓـمّٓرٰ وغیرہ اور مستقل آیت ہونا یا نہ ہونا آیت کے مضمون سے مربوط ہوتا ہے۔ لہٰذا حروف مقطعات اپنی جگہ مضمون ہیں۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی دعاؤں میں فرماتے تھے: یا کٓہٰیٰعٓصٓ ۔ {مستدرک الوسائل ۱۱ : ۱۰۵} ظاہر ہے ان حروف مقطعات کو ندا کا متعلق بنانے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ حروف اپنی جگہ ایک مضمون ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں: یَا اَرَحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ یَا غِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ وغیرہ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

الم رَمْزٌ و اشارۃ بینہ و بین حبیبہ محمد (ص) اراد ان لا یطلع علیہ سواھما۔ { سعد السعود ص ۲۱۷}

الف لام میم اللہ اور اس کے حبیب(ص) کے درمیان ایک ایسا رمز اور اشارہ ہے جس پر صرف اللہ اور رسول (ص) آگاہ ہو سکتے ہیں۔

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ: لفظ کتاب کے اطلاق اور دیگر قرآنی آیات و تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن صرف زبانی یادداشتوں اور روایت شدہ باتوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ کتابی شکل میں مرتب شدہ ایک آسمانی صحیفہ ہے جو ابتدائے نزول سے ہی بطور کتاب نازل ہوا اور رسول خدا (ص) اس بات پر مامور تھے کہ وحی قرآنی کے نازل ہوتے ہی کسی کاتب وحی کے ذریعے اسے ضبط تحریر میں لائیں ۔

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۵﴾ {۲۵ فرقان: ۵}

اور کہتے ہیں:(یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوا رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ: اس کتاب میں شبہ اور بدگمانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جملے سے شبہ اور بدگمانی کے وجود کی نفی نہیں ہوئی، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآن ایسے حقائق کا مجموعہ ہے، جنہیں مکمل طور پر سمجھنے کی صورت میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی شبہات سے دوچارہوتا ہے تو اس کا سبب شک و شبہ کرنے والے کی نادانی، کج فہمی اور کوتاہ بینی کے علاوہ کچھ نہیں۔ چنانچہ جونہی یہ نقائص دور ہوں گے، شبہات بھی یکسر ختم ہو جائیں گے۔

قرآنی تعلیمات میں شبہات پیدا ہونے کے ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں۔ مثلاً بطلیموسی فلکیات پر خط بطلان کھینچنے اور زمین کی جگہ سورج کو مرکز نظام ثابت کرنے پر قرآن کے خلاف بدگمانی کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا کہ قرآن سورج کو متحرک کہتا ہے: وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ۔۔۔ {۳۶ یٰس: ۳۸ ’’ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے۔۔۔۔} جب کہ جدید انکشافات سے ثابت ہو چکا ہے کہ سورج اس نظام کا مرکز اور ساکن ہے۔ بعد میں جب یہ ثابت ہو گیا کہ سورج بھی اپنے سیاروں سمیت ہمیشہ حرکت میں ہے تو وہ بدگمانی اس غلط فہمی کے ازالے سے ختم ہوگئی۔

بنا برایں اگر کسی کے ذہن میں کوئی بدگمانی پیدا ہوتی ہے تویہ قرآن کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ قرآن سے ہٹ کر دوسرے خارجی عوامل کی وجہ سے ہو گی۔ خود قرآن میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔

ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ: یہ قرآن صاحبان تقویٰ کے لیے ہدایت ہے۔ اَلتَّقْوٰی جَعْلُ النَّفْسِ فِیْ وَقَایَۃِ مِمَّا یُخَافُ۔ { مفردات راغب اصفہانی ۔ مادہ وقی} یعنی تقویٰ اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کا نام ہے۔ جو شخص بیمار ی کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رہنا چاہے، وہی دوا اور علاج سے بہرہ مند ہو سکتا ہے۔ چنانچہ متقی وہی ہو گا جو ہلاکت ابدی سے بچنے کی کوشش کرے۔ ایسا شخص ہی قرآن سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ رہنمائی صرف اسے فائدہ دے سکتی ہے، جو عازم راہ ہو۔ جو شخص کہیں جانا ہی نہیں چاہتا، اسے رہنمائی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ لہٰذا عازم راہ کو متقی کہتے ہیں۔ یعنی راہ نجات کا راہرو اور اسی قسم کے افراد قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن مجید نے متقین کی پانچ صفات بیان کی ہیں جو بعد کی آیات میں مذکو ر ہیں۔

اہم نکات
۱۔ اشارہ بعید ذٰلِکَ سے ظا ہر ہوتا ہے کہ قرآن اس بلند مقام پر ہے جہاں شبہے کی رسا ئی ممکن نہیں۔

۲۔ قرآنی ہدایت اہل تقویٰ اور سالکان راہ نجات کے پاک دلوں میں ہی اتر سکتی ہے۔ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۔

۳۔ ہادی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو۔

۴۔ تقویٰ جتنا زیادہ ہو گا اسی قدر بہتر ہدایت حا صل ہو سکے گی۔

تحقیق مزید
بحار الانوار ۲: ۱۶۔۱۷:۲۱۸۔ ۸۸:۹۔ کمال الدین ۲:۶۴۰۔ معانی الاخبار ص ۲۲ مناقب شہر آشوب ۶ : ۱۳۷

الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 217