امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شھادت امیرالمؤمنین_علی_بن_ابی_طالب_علیھماالسلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

**~** #ذکر_اھلبیت_النبوۃ **~**
"( #بسلسلہ_شھادت
#امیرالمؤمنین_علی_بن_ابی_طالب_علیھماالسلام )"
؛؛؛؛؛
** #فضائل_ومناقب **
قرآن کے ظاہر و باطن ، تنزیل و تاویل کی شناخت میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام سب سے زیادہ آگاہ تھے نیز ابن عباس اور مجاہد جیسے بڑے مفسر قرآن حضرت علی علیہ السلام کے مکتب کے ہی پروردہ تھے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن تدوین کرنے والی شخصیت حضرت علی علیہ السلام ہی تھے۔اہل بیت اطہار علیھم السلام اور اصحاب رضوان علیھم میں سے کوئی شخص شرف و فضیلت میں انکی ہمسری نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن پاک کی 300 ایسی آیات ہیں جن میں انکی ذات گرامی کی طرف اشارہ ہواہے۔
خطیب بغدادی اسماعیل بن جعفر سے اورابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ300 آیات حضرت علی علیہ السلام کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔(01)
ابن حجر ہیتمی (02) اور شبلنجی (03) نے ابن عساکر اور ابن عباس سے 300 آیات کی حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہونے کی تائید کی ہے۔
ان آیات میں سے تبلیغ، اکمال، مودت، مباہلہ،شب ہجرت آیت اشترائے نفس ، آیت نجوا، سورہ ہل اتی اور آیت اولو الامر خاص طور پر قابل ذکر ہیں. نیز شیعہ مفسرین ، شیعہ متکلمین اور بعض اہل سنت مفسرین کی تصریح کے مطابق (تحریم، آیت 4) میں صالح المؤمنین سے مراد حضرت علی ہیں نیز (حاقہ، آیت 12) میں اذن واعیہ، (بینہ، 7) خیر البریہ میں یہی مراد ہیں۔ بعض شیعہ و سنی علما نے حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے بارے میں نازل ہونے والی آیات پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں جیسے تأویل الآیات الظاہرة فی فضائل العترة الطاہرة، اثر سید شرف الدین استرآبادی، شواہد التنزیل، ینابیع المودة ہیں.(04)
حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک ترین ، ہمدم اور ہمسخن ساتھی تھے نیز کاتب وحی ، ناظر وحی و محافظ وحی اور مفسر قرآن بھی تھے۔حضرت خود اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ کوئی ایسی آیات نہیں جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ کب اور کیسے نازل ہوئی دن کو نازل ہوئی یا رات کو نازل ہوئی ، دشت میں یا پہاڑ پر نازل ہوئی۔(05) عیون اخبار الرضا میں ا امام رضا علیہ السلام امام حسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن کے بارے میں جو چاہو مجھ سے پوچھو یہانتک کہ میں ہر آیت کے کے متعلق تمہیں بتاؤں گا کہ یہ آیت کس کے بارے میں اور کہاں اور کس وقت نازل ہوئی ہے۔(06)
جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ بہت سی آیات حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور مناقب میں نازل ہوئیں یہانتک ک ابن عباس نے ان آیات کی تعداد 300 تک بیان کی ہے (07) یہاں ہم بعض آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
؛؛؛؛؛
*_ #آیت_مباہلہ
فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ
وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّہِ عَلَى
الْكَاذِبِينَ"
تو کہہ دیجیےکہ آؤ! ہم بلالیں اپنےبیٹوں کواور
تمہارےبیٹوں کو اوراپنی عورتوں کو اورتمہاری
عورتوں کواور اپنےنفسوں کواورتمہارے نفسوں
کو پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں
جھوٹوں پر" (08)
سنہ 10 ہجری کو روز مباہلہ طے یہ پایا تھا کہ مسلمان اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خداؐ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین صلوات اللہ علیھم کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی۔ (09)
؛؛؛؛
*_ #آیت_تطہیر
"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ ُ لِيُذْہ ِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَہلَ الْبَيْتِ
وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْراً"
"اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر پلیدی
کودور رکھے اے اہل بیت! اللہ تمہیں پاک رکھےجو پاک رکھنے کا حق ہے" (10)
شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ زوجۂ رسولؐ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہ .ص. کے علاوہ ، علی ، فاطمہ اور حسنین صلوات اللہ علیھم بھی موجود تھے۔ یہ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خدا ۔ص۔ نے اس چادر کساء کو جس پر آپ بیٹھے تھے ـ اٹھا کر اصحاب کساء یعنی اپنے آپ ، علی ، فاطمہ اور حسنین صلوات اللہ علیھم کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کرنے لگے: "خداوندا! میرے اہل بیت یہ چار افراد ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ" (11)
؛؛؛؛؛
*_ #آیت_مودّت
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ" (12)
کہئے کہ میں تم سے صاحبان قرابت کی محبت
کےسوااس رسالت پرکوئی معاوضہ نہیں مانگتا"
ابن عباس کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ۔ص۔ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: "علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین صلوات اللہ علیھم اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔ (13)
؛؛؛؛؛
*_ #مسلمِ_اول
حضرت علی علیہ السلام کا مسلم اول ہونا مشہور ہے بلکہ یہ روایت تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ علیؑ اولین مسلمان تھے۔ (14) چنانچہ رسول خدا ۔ص۔ کہتے ہیں: "سب سے پہلا فرد جو تم میں سے روز قیامت حوض کوثر پر مجھ سے آملے گا وہ اسلام میں سب پر سبقت لینے والے علی ۔ع. ہیں"۔ (15) نیز رسول اللہ ۔ص۔ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "کیا آپ نہیں چاہتی کہ میں تمہیں ایسے فرد سے بیاہ دوں جو میری امت میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا ہے اور ان میں دانا ترین ، عالم ترین اور سب سے زيادہ صابر و بردبار ہے"۔ (16)
؛؛؛؛؛
*_ #شب_ہجرت (لیلۃ المبیت)
قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرؐ نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ (17)
دارالندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خدا ۔ص۔ کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل ۔ع۔ نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپ ۔ص۔ کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ ۔ص۔ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: "آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں"۔ پیغمبرؐ نے علی ۔ع۔ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آپ کی خوابگاہ میں آپ کے بستر پر آرام کریں" (18)
آیت اور اس کا شان نزول
"وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ
وَاللّہُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ"
اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی
کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہےاور اللہ بندوں
پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔ (19)
مفسرین کے مطابق یہ آیت کریمہ لیلۃ المبیت سے تعلق رکھتی ہے اور علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ (20)
؛؛؛؛؛
*_ #رسول_خدا_ص_کے_ساتھ_مؤاخات
رسول خدا ۔ص۔ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علی ۔ع۔ سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علی ۔ع۔ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔ (21)
؛؛؛؛
*_ #ردّالشمس
یہ سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے جب رسول خدا ۔ص۔ اور علی ۔ع۔ نے نماز ظہر ادا کی اور رسول خدا ۔ص۔ نے علی ۔ع۔ کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علی ۔ع۔ نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علی ۔ع۔ واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبر ۔ص۔ نے اپنا سر علی ۔ع۔ کی گود میں رکھا اور سوگئے یہاں تک سورج غروب ہوگیا۔ جب رسول خدا ۔ص۔ جاگے تو بارگاہ الہی میں دعا کی: "خدایا! تیرے بندے علی ۔ع۔ نے اپنے آپ کو تیرے رسول ۔ص۔ کے لئے وقف کیا سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے" پس علی ۔ع۔ اٹھے وضو تازہ کیا اور نماز عصر ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہوگیا۔ (22)
؛؛؛؛
*_ #سورہ_برائت_کاابلاغ
سورہ توبہ کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور توحید کا عقیدہ قبول کریں جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہئے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔ یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ پیغمبر ۔ص۔ حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ اللہ کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو رسول اللہ ۔ص۔ خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے جو آپ ۔ص۔ سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا" (23) حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے علی علیہ السلام کو بلوایا اور حکم دیا کہ مکہ تشریف لے جائیں اور عید الاضحیٰ کے دن مِنیٰ کے مقام پر سورہ برائت کو مشرکین تک پہنچا دیں۔ (24)
؛؛؛؛؛
*_ #حدیث_حق
پیغمبر ۔ص۔ نے فرمایا:
"عَلىٌّ مَعَ الحقِّ والحقُّ مَعَ عَلىٍّ"
على ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور حق
ہمیشہ علی کے ساتھ ہے" (25)
؛؛؛؛؛
*_ #سد_الابواب (دروازوں کا بند کرنا)
صدر اسلام میں مسجد النبی کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرم ۔ص۔ نے حضرت علی ۔ع۔ کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو رسول خدا ۔ص۔ نے فرمایا:
"مجھے علی ۔ع۔ کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔ (26)
؛؛؛؛؛
** #علمی_خدمات **
ساتویں صدی ہجری کے بڑے سنی عالم ابن ابی الحدید (586-656ق) نے نہج البلاغہ پر اپنی مفصل شرح کے دیباچے میں لکھا:
"میں کیا کہوں اس مرد کے بارے میں جس کے دشمن اس کی فضیلت کے قائل تھے اور نہ تو اس کے فضائل کو چھپا سکے اور نہ ہی ان کا انکار کرسکے۔ سب جانتے ہیں کہ بنو امیہ نے عالم اسلام کے مغرب اور مشرق پر قابو پا لیا اور اس خاندان نے اپنی پوری قوت سے ـ تمام تر مکاریوں اور حیلہ بازیوں کے ذریعے علی کی عظمت کا نور بجھانے کی کوشش کی اور ان کی مذمت و ملامت میں بےشمار حدیثیں بھی گھڑ لیں اور تمام منابر پر ان کو لعن کا نشانہ بنایا اور ان کے حامیوں اور مداحوں کو نہ صرف منع کیا اور ستایا بلکہ جیلخانوں میں بند کیا اور قتل کیا۔ امویوں نے حتی کہ عوام کو اپنے بچوں پر علی (علیہ السلام) کا نام رکھنے تک سے منع کیا۔ لیکن ان ساری رکاوٹوں کا کوئی اثر نہ تھا سوائے اس کہ اس کا نام بلندیوں کو سر کرتا رہا اور برتر و بالاتر ہوجائے۔ وہ اس مُشک کی مانند ہے کہ جسے جس قدر چھپایاجائے فضا کو اتنا ہی زیادہ معطر بنا دیتا ہے" (27)
ابن ابی الحدید نے مزید لکھا ہے:
"کیا کہوں اس فرد کے بارے میں جو ہر فضیلت اور انسان کی ہر امتیازی عظمت کا سرمنشأ اور سرچشمہ ہے اور ہر فرقہ اور ہر گروپ اس کو ہی اپنا سرچشمہ اور سر آغاز سمجھتا ہے اور اس سے منسوب ہوکر فخر کرتا ہے کیونکہ وہ تمام انسانی امتیازات و خصوصیات کا سرچشمہ ہے اور اس میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور اس معرکے میں پیشرو وہی ہے" (28)
؛؛؛؛؛
*_ #علم_کلام
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: اشرف علوم علم کلام یعنی علم الٰہیات اور صفاتِ باری تعالی کی شناخت کی تفصیل کا بیان علی ۔ع۔ سے شروع ہوا اور اس فنّ کے تمام اہل نظر اور استدلال آپ ہی کے شاگرد تھے۔ اہل توحید اور عدل معتزلہ آپ ہی کے شاگرد اور اصحاب ہیں کیونکہ ان کے تفکر کا بانی واصل بن عطاء ابو ہاشم عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کا شاگرد ہے اور ابو ہاشم اپنے باپ محمد حنفیہ کا شاگرد ہے اور محمد اپنے والد ماجد امام علی علیہ السلام کے شاگرد ہیں۔ (29)
اشاعرہ کا سلسلہ بھی آپ ہی تک پہنچتا ہے اور اس فرقے کا بانی ابوالحسن علی بن (اسمعیل بن) ابی بشر اشعری ہے جو ابوعلی الجبائی کا شاگرد اور جو در حقیقت معتزلہ کے اساتذہ میں سے ہے۔ پس اشاعرہ کا سلسلہ بھی معتزلہ کے استاد تک پہنچتا ہے اور ان کے استاد امام علی علیہ السلام ہیں۔ (30) امامیہ اور زیدیہ کا امام علی علیہ السلام سے انتساب مسلّم اور واضح ہے جس کے لئے وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ (31)
؛؛؛؛؛
*_ #علم_فقہ
ابن ابی الحدید(586-656ق) کہتے ہیں: "امام علی علیہ السلام علم فقہ کی جڑ اور بنیاد ہیں اور عالم اسلام میں ہر فقیہ آپ کے خوانِ نعمت کے ٹکڑے چننے والے ہیں۔ شیعہ فقہ کا آپ سے استناد واضح ہے اور اس کے لئے کسی بیان کی ضرورت نہيں ہے۔ ابوحنیفہ کے اصحاب جن میں ابو یوسف ، محمد وغیرہ شامل ہیں نے فقہ ابو حنیفہ سے لی ہے۔ احمد بن حنبل شافعی کا شاگرد تھا اور شافعی نے اپنی فقہ ابو حنیفہ سے اخذ کی ہے اور ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا شاگرد ہے امام صادق علیہ السلام اپنے والد امام باقر علیہ السلام کے شاگرد اور وہ اپنے والد کے شاگرد ہیں اور یہ سلسلہ بھی بالآخر امام علی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔
مالک بن انس نے علم فقہ ربیعۃ الرأی سے اخذ کیا ہے اور وہ عکرمہ کا شاگرد ہے اور عکرمہ عبداللہ بن عباس کا اور ابن عباس علی ۔ع۔ کے شاگرد ہیں۔ چونکہ شافعی مالک کا شاگرد ہے اسی لئے اس کی فقہ کو بھی امام علیؑ سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ یوں اہل سنت کے فقہائے اربعہ امام علی علیہ السلام سے منسوب ہیں۔
فقہائے صحابہ یعنی عمر بن خطاب اور عبداللہ بن عباس دونوں نے اپنا علم امام علی علیہ السلام سے اخذ کیا ہے۔ ابن عباس کی شاگردی واضح ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ عمر نے بہت سے مشکل مسائل میں امام علی علیہ السلام سے رجوع کیا ہے اور کئی مرتبہ "
لولا علي لهلك عمر"
اگر علی ۔ع۔ نہ ہوتے تو عمر نابود ہوجاتا"
کہا اور
"خدا نہ کرے کہ مجھے کوئی مشکل
پیش آئے اور ابوالحسن (علیؑ) میرے
ساتھ نہ ہوں"
کہا نیز عمر کہا کرتے تھے کہ
"جب تک علیؑ مسجد میں حاضر ہوں کسی
کو فتوی دینے کا حق نہيں ہے"
اس حوالے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی فقہ کا سرچشمہ علی بن ابی طالبؑ علیھماالسلام ہیں۔
شیعہ اور سنی نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ۔ص۔ نے فرمایا:
"اقضاكم علي"
"علي ۔ع۔ تم میں سے سب سے زیادہ بہتر
فیصلے کرنے والے ہیں"
اور چونکہ قضاء یا لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کا علم، فقہ کا جزء ہے لہذا اس لحاظ سے بھی علیؑ دیگر صحابہ سے بڑے فقیہ ہیں۔ (32)
؛؛؛؛؛
*_ #علم_تفسیر
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: "علی علیہ السلام علم تفسیر کے بانی ہیں اور جو بھی تفاسیر سے رجوع کرے اس حقیقت کو بڑے وضوح کے ساتھ پا لیتا ہے، خواہ وہ آیات کریمہ جن کی تفسیر براہ راست آپ سے نقل ہوئی ہے خواہ وہ آیات جن کی تفسیر ابن عباس سے منقول ہے کیونکہ ابن عباس نے بھی علم تفسیر آپ ہی سے اخذ کیا ہے۔ کسی نے ابن عباس سے دریافت کیا: "آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب علیھماالسلام کے علم سے آپ کے علم کی نسبت کیا ہے؟" تو انھوں نے کہا: "وہی نسبت جو بارش کے ایک قطرے کو بحر بےکراں سے سے ہے" (33)
؛؛؛؛؛
*_ #علم_طریقت
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: علم طریقت و حقیقت اور احوال تصوف سے وابستہ افراد بھی اپنی سند امام علی علیہ السلام تک پہنچاتے ہیں اور خرقہ جو آج تک صوفیہ کا شعار ہے، اس امر کا ثبوت ہے۔ (34)
؛؛؛؛؛
*_ #عربی_ادب
محمد بن اسحاق کا کہنا ہے اکثر علما کے نزدیک علم نحو ابو الاسود دوئلی نے وضع کیا اور ابو الاسود دوئلی نے اس علم کو حضرت علی سے حاصل کیا۔ (35) ابن ابی الحدید کہتے ہیں: سب جانتے ہیں کہ امام علی ۔ع۔ ہی علم نحو اور ادبیات عرب کے بانی اور تخلیق کار ہیں۔ آپ نے ابوالاسود دُئَلی کو اس علم کے قواعد کلیہ کی تعلیم دی۔ آپ نے جو قواعد ابوالاسود کو سکھائے ان میں بعض یہ ہیں: کلمہ کی تین قسمیں ہیں: اسم و فعل و حرف، اسم یا معرفہ ہے یا نکرہ، اور وجوہ اعراب کو رفع، نصب، جرّ اور جزم میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ (36)
؛؛؛؛؛
*_ #فصاحت_وبلاغت
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے امام علی علیہ السلام فصحا کے امام و پیشوا اور بلغا کے سید و سردار ہیں اور جیسا کہ آپ کے کلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ دون كلام الخالق وفوق كلام المخلوق یعنی (علی ۔ع۔ کا کلام) کلام خالق کے نیچے اور کلام مخلوق سے برتر و بالاتر ہے" اور اس دعوے کا واضح ترین ثبوت نہج البلاغہ ہے۔ عبدالحمید بن یحیی نے کہا ہے کہ اس نے آپ کے خطبات میں سے ستر خطبے ازبر کر لئے ہیں اور اس کے ادبی ابال کا آغاز یہيں سے ہوا ہے۔ ابن نباتہ نے کہا کہ "میں نے ان خطابات سے ایک خزانہ ازبر کیا کہ اس میں جس قدر بھی اٹھاؤں، کم نہيں ہوتا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں نے علی ابن ابیطالب علیھماالسلام کے مواعظ کی سو فصلیں حفظ کرلیں" (37)
؛؛؛؛؛
** #اخلاقی_خصوصیات **
*_ #سخاوت_وفیاضی
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ روزہ رکھتے تو اپنا افطار محتاجوں کو دے دیتے۔ آیت کریمہ:
"وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہِ مِسْكِيناً
وَيَتِيماً وَأَسِيراً"
"اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اسکی محبت
کے ساتھ ساتھ غریب محتاج اور یتیم
اور جنگ کے قیدی کو" (38)
آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کسی دن علی ۔ع۔ کے پاس صرف چار درہم ہوتے تو ایک درہم رات کو ، ایک دن کو اور تیسرا درہم خفیہ طور پر اور ایک اعلانیہ بطور صدقہ عطا کرتے تھے اور آیت کریمہ:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَھُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّھَارِ سِرّاً
وَعَلاَنِيَةً فَلَھُم أَجْرُھُمْ عِندَ رَبِّھِمْ وَلاَخَوْفٌ
عَلَيْھِم وَلاَھُمْ يَحْزَنُونَ"
"وہ جو اپنے اموال رات اور دن میں ، خفیہ
اور اعلانیہ خیرات میں دیتے ہیں، ان کیلئے
انکا اجر ہےان کے پروردگارکےیہاں اورانہیں
کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ افسوس ہوگا"(39)
مروی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مدینہ کے یہودیوں کے نخلستان کی آبیاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے ہاتھوں پر گٹھے پڑے گئے تھے اور اجرت لے کر صدقہ دیا کرتے تھے اور خود بھوکے رہتے تھے۔ مروی ہے کہ آپ نے کبھی بھی کسی سائل کو "نہ" نہیں کہا۔
ایک دفعہ محفن بن ابی محفن معاویہ کے پاس پہنچا۔ معاویہ نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟ تو اس نے معاویہ کی چاپلوسی کی غرض سے کہا: میں بخیل ترین شخص (یعنی علی ۔ع۔)کے ہاں سے آرہا ہوں. معاویہ نے کہا: وائے ہو تم پر! تو کس طرح ایسی بات ایسے فرد کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک گودام بھوسے کا بھرا ہوا ہو اور ایک سونے کا تو وہ سونے کا گودام بھوسے کے گودام سے پہلے محتاجوں پر خرچ کرے گا؟ (40)
؛؛؛؛؛
*_ #عفو_وحلم
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: امام علی علیہ السلام حلم و درگذر اور مجرموں سے چشم پوشی کے حوالے سے سب سے زیادہ صاحب حلم و بخشش تھے، چنانچہ واقعۂ جمل اس مدعا کی بہترین دلیل ہے۔ جب آپ نے اپنے معاند ترین دشمن مروان بن حکم پر قابو پالیا تو اس کو رہا کردیا اور اس کے عظیم جرم سے چشم پوشی کی۔ عبداللہ بن زبیر اعلانیہ امام کی بدگوئی کرتا تھا اور جب عبداللہ عائشہ کے سپاہ کے ہمراہ بصرہ آیا تو اس نے خطبہ دیا اور خطبے کے دوران جو بھی وہ کہہ سکا کہہ گیا حتی کہ اس نے کہا: "اب لوگوں میں ادنی ترین اور پست ترین انسان علی بن ابی طالب (علیھما السلام) تمہارے شہر میں آرہا ہے" لیکن جب علی ۔ع۔ نے اس پر قابو پایا تو اسے چھوڑ دیا اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ "ایسے جاؤ کہ میں پھر کہیں تجھے نہ دیکھوں" نیز جنگ جمل کے بعد آپ نے مکہ معظمہ میں اپنے دشمن سعید بن عاص پر قابو پالیا لیکن اس سے نظریں موڑ لیں اور اس سے کچھ بھی نہ کہا۔
جنگ جمل کے بعد عائشہ کے ساتھ آپ کا برتاؤ مشہور ہے۔ جب جنگ جمل میں سپاہ عائشہ کو ہار ہوئی اور آپ فاتح ہوئے تو ان کی تکریم کی اور جب عائشہ نے مدینہ واپس جانا چاہا تو آپ نے قبیلہ عبد قیس کی مردانہ لباس میں ملبوس اور تلواروں سے لیس بیس خواتین کو ان کے ہمراہ روانہ کیا۔ عائشہ سفر کے دوران مسلسل اعتراض کرتی رہی اور علی ۔ع۔ کو برا بھلا کہتی رہیں کہ "آپ نے اپنے اصحاب میں سے مردوں کو میرے ساتھ بھجوایا ہے اور میری حرمت شکنی کی ہے" لیکن جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو خواتین نے عائشہ سے کہا: دیکھو ہم سب عورتیں ہیں اور ہم ہی سفر میں تمہارے ساتھ تھیں"۔
بصریوں نے عائشہ کا ساتھ دیا تھا اور علی ۔ع۔ کے خلاف لڑے تھے اور آپ کے کئی ساتھیوں کو قتل کیا تھا لیکن جنگ کے بعد آپ نے سب کو معاف کیا اور اپنی سپاہ کو ہدایت کی کہ انہیں نہ چھیڑیں اور اعلان کیا کہ جو بھی ہتھیار زمین پر رکھے وہ آزاد ہے۔ آپ نے ان میں سے نہ کسی کو قیدی بنایا اور نہ ان کے اموال کو بطور غنیمت اخذ کیا۔ اور آپ نے وہی کیا جو رسول خداؐ نے فتح مکہ کے بعد مکیوں کے ساتھ کیا تھا۔
صفین کے مقام پر معاویہ کی سپاہ نے امام کے لشکر کا پانی بند کیا اور شریعۂ فرات اور آپ کے لشکر کے درمیان حائل ہوا اور لشکر معاویہ کے سالار کہتے تھے کہ: ہمیں علی ۔ع۔ کے لشکر کو پیاس کی حالت میں تہہ تیغ کرنا پڑے گا جیسا کہ انھوں نے عثمان کو پیاسا قتل کیا تھا!۔ اس کے بعد علی ۔ع۔ کی سپاہ نے لڑ کر دریا اور پانی کو ان سے واپس لے لیا۔ یہاں امام کی سپاہ میں بھی بعض لوگوں نے تجویز دی کہ "بہتر ہے کہ ہم پانی کا ایک قطرہ بھی سپاہ معاویہ تک نہ پہنچنے دیں تاکہ جنگ کی مشقت برداشت کئے بغیر، وہ پیاس کی شدت سے مر جائیں۔ امام نے فرمایا: ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔ دریا کے ایک حصے سے انہيں پانی اٹھانے دو۔ (41)
؛؛؛؛؛
*_ #نفاست_وخوش_طبعی
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: امام علی علیہ السلام ہشاشت اور نفاست و خوش طبیعی کے لحاظ سے ضرب المثل تھے۔ چنانچہ آپ کے دشمن اس صفت کو آپ کے لئے عیب قرار دیتے تھے۔ صعصعہ بن صوحان اور دیگر اصحاب نے آپ کے بارے میں کہا: "علی ۔ع۔ ہمارے درمیان ہم جیسے ایک تھے اور اپنے لئے کسی امتیازی حیثیت کے قائل نہيں تھے لیکن اپنی منکسرالمزاجی اور ملنساری میں اس قدر صاحب رعب و ہیبت تھے کہ ہم آپ کے حضور شمشیر بدست شخص کے سامنے ہاتھ پاؤں بندھے قیدیوں کی مانند تھے۔ (42)
؛؛؛؛؛
*_ #جہاد_فی_سبیل_اللہ
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: دوست اور دشمن کا اقرار ہے کہ آپ مجاہدین کے آقا اور سید و سرور ہیں اور کوئی بھی آپ کے مقابلے میں اس عنوان کا لائق نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ اسلام کی دشوار ترین اور شدیدترین جنگ، جنگ بدر تھی۔ جس میں ستر مشرکین ہلاک ہوئے اور 35 سے زائد علی ۔ع۔ کے ہاتھوں مارے گئے اور نصف کے قریب مشرکوں کو دوسرے مسلمانوں نے فرشتوں کی مدد سے ہلاک کر ڈالا۔ احد ، احزاب (یا خندق) ، خیبر ، حنین اور دوسرے غزوات میں آپ کا کردار تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے جس کو بیان کی ضرورت نہيں ہے اور واضح اور بدیہی امور کی شناخت کی مانند ہے بالکل اسی طرح، جس طرح کہ ہم مکہ اور مصر وغیرہ کے بارے میں جانتے ہیں۔ (43)
؛؛؛؛؛
*_ #شجاعت
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: آپ میدان شجاعت کے وہ یکہ تاز ہیں جنہوں نے گذرنے والوں کو بھلوا دیا اور آنے والوں کو اپنے وجود میں فنا کیا۔ جنگوں میں علیؑ کا کردار کچھ اس طرح سے تاریخ میں جانا پہچانا ہے کہ لوگ قیامت تک اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ مرد دلاور جو کبھی فرار نہیں ہوئے اور دشمن کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوئے اور کسی سے دست بگریباں نہيں ہوئے جس کو آپ نے ملک عدم کی طرف روانہ نہ کیا ہو اور کبھی ایسا وار نہ کیا کہ دوسرے وار کی ضرورت پڑے اور جب آپ نے معاویہ کو جنگ کے لئے بلایا اور فرمایا کہ آؤ دو بدو لڑتے ہيں تا کہ ہم میں سے ایک مارا جائے اور مسلمانوں کو آسودگی نصیب ہو۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا: علی ۔ع۔ نے تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے ۔ معاویہ نے کہا: جب سے تو میرے ساتھ ہے تو نے کبھی میرے ساتھ ایسی چال نہيں چلی ہے۔ تو مجھے ایسے فرد سے جنگ کا حکم دیتا ہے جس کے چنگل سے آج تک کوئی زندہ نکل سکا ہے؟ میرا خیال ہے کہ تو میرے بعد حکومت شام پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ (44)
ملت عرب ہمیشہ اس بات پر فخر کرتی رہی ہے کہ "میں فلاں جنگ میں علی ۔ع۔ کے سامنے گیا تھا"، یا "میرا فلاں عزیز جنگ میں علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے"۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ معاویہ اپنے بستر پر سویا ہوا تھا، اچانک آنکھیں کھولیں تو عبداللہ بن زبیر کو اپنے قریب دیکھا۔ اور عبداللہ بن زییر نے مذاق کے انداز میں کہا: یاامیرالمؤمنین! ہم آپس میں کشتی نہ لڑیں؟ معاویہ نے کہا: ارے اے عبداللہ! دیکھ رہاں ہوں کہ دلیری اور جوانمردی کی بات کررہے ہو!۔ عبداللہ نے کہا: کیا تم میری شجاعت کے منکر ہو؟ میں وہ ہوں جو علی ۔ع۔ کے مقابلے کے لئے نکلا اور ان کے خلاف جنگ میں شریک ہوا۔ معاویہ نےکہا: ہرگز ایسا نہ تھا اور تم ایک لمحہ علی ۔ع۔ کے سامنے ڈٹ جاتے تو وہ تمہیں اور تمہارے باپ کو اپنے بائیں ہاتھ سے ہلاک کردیتے اور ان کا دایاں ہاتھ بدستور فارغ اور جنگ کا منتظر رہتا۔ (45)
؛؛؛؛؛
*_ #عبادت
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: علی علیہ السلام لوگوں میں عابد ترین تھے اور سب سے زیادہ نماز قائم کرتے اور روزہ رکھتے تھے۔ لوگوں نے نماز تہجد ، اوراد و اذکار اور مستحب نمازوں کی پابندی آپ سے سیکھی۔ اور کیا سمجھتے ہو اس مرد کو جو مستحب نمازوں اور نوافل کے تحفظ کے اس قدر پابند تھے کہ جنگ صفین میں لیلۃ الہریر نامی رات کو دو صفوں کے درمیان ایک بچھونا آپ کے لئے بچھایا گیا تھا اور تیر دائیں اور بائیں طرف سے کانوں کے ساتھ سرسراہٹ کے ساتھ گذرتے تھے اور آپ کسی خوف و خطر کے بغیر نماز میں مصروف تھے۔ آپ کی پیشانی کثرت سجود کی وجہ سے اونٹ کی گھٹنے کی مانند تھی جو بھی آپ کی دعاؤں اور مناجاتوں کا بغور جائزہ لے اور خداوند سبحان کی تعظیم اور بزرگی اور اس کی ہیبت کے سامنے خضوع و خاکساری اور اس کی عزت کے سامنے خشوع کو دیکھے وہ آپ کے کلام میں چھپے ہوئے خلوص کا اندازہ لگا سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ یہ کلام کس طرح کے دل سے جاری ہوا ہے اور کس زبان پر جاری ہوا ہے۔ (46)
؛؛؛؛؛
*_ #زہد
علی علیہ السلام زاہدوں کے سردار تھے اور جو بھی اس راہ پر گامزن ہنا چاہتا علی ۔ع۔ کو مدنظر رکھتا۔ علی ۔ع۔ نے کبھی کھانے سے اپنا پیٹ نہيں بھرا ، آپ کا کھانا سخت ترین اور آپ کا لباس نہایت کھردرا ہوتا تھا۔ عبداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں: میں عید کے دن علی ۔ع۔ سے ملا تو میں نے ایک سر بمہر تھیلا آپ کے قریب دیکھا آپ نے اس کو کھولا تو میں نے دیکھا کہ چوکر بھرے جو کے آٹے سے تیار کردہ روٹی کے ٹکڑے ہیں۔ آپ نے کھانا شروع کیا۔ میں نے کہا: یا امیرالمؤمنین! آپ نے اس تھیلے کو سربمہر کیوں کیا ہے؟ فرمایا: مجھے خوف ہوتا ہے کہ میرے بچے کہیں ان ٹکڑوں کو چربی یا روغن زیتون لگا دیں۔ آپ کا لباس کبھی کھجوروں کے ریشوں اور کبھی کھال کا پیوند لگا ہوتا تھا۔ آپ کے جوتے ہمیشہ کھجور کے ریشوں سے بنے ہوتے تھے۔ آپ کا لباس نہایت کھردرے ٹاٹ کا بنا ہوتا تھا۔ آپ کا نان اور سالن اگر تھا تو سرکہ یا نمک تھا اور اگر اس سے آگے بڑھ جاتا تو زمین کے بعض گیاہ کھالیتے تھے اور اگر اس سے بھی آگے بڑھ جاتا تو تھوڑا سا اونٹنی کا دودھ ہوتا تھا۔ گوشت نہيں کھاتے تھے مگر بہت کم اور فرمایا کرتے تھے کہ پیٹ کو جانوروں کا قبرستان نہ بناؤ۔ اس کے باوجود لوگوں میں سب سے زيادہ طاقتور تھے اور بھوک آپ کی طاقت میں کمی کا سبب نہیں بنتی تھی۔ آپ نے دنیا کو ترک کردیا تھا جبکہ ما سوائے شام کے، پوری اسلامی سرزمین سے دولت آپ کی طرف جاری و ساری تھی لیکن آپ پوری دولت لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔ (47)
**
_____________________________________________
حوالہ جات
01)_ تاریخ بغداد، ج6، ص221؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2 ، ص1486
02)_ صواعق المحرقہ، ص761؛ بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص 1486
03)_ نور الابصار، ص73؛ بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2 ، ص1486
04)_ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1486
05)_ سیوطی، الاتقان، چاپ دارالکتب العلمیہ، ج2 ص412 بحولاۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2 ص1486
06)_ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1486
07)_ گنجی شافعی، ص 231؛ ہیثمی، ص 76؛ قندوزی، ص 126
08)_ سورہ آل عمران 61 ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی
09)_ سیوطی، الدر المنثور، ذیل آیہ 61؛ زمخشری، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طباطبایی، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران
10)_ احزاب33
11)_ ابن بابویہ، ج2، ص403؛ سید قطب، ج6، ص586؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ج 8، ص 559
12)_ سورہ شوری (42) آیت 23۔ 3
13)_ مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233
14)_ امینی، ج 3، ص 191-213
15)_ حاکم نیشابوری، ج‏3، ص‏136
16)_ احمد حنبل، ج 5، ص 26
17)_ ابن ہشام، ج 1، ص 480
18)_ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72؛ مجلسی، ج 19، 59
19)_ سورہ بقرہ (2) آیت 207، ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی
20)_ فخر رازی، ج 5، 223؛ حاکم حسکانی، ج 1، 96؛ علی بن ابراہیم، ص 61؛ طباطبائی، ج 2، ص 150
21)_ ابن عبدالبر، الاستیعاب، بحوالہ محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1418ق۔/1998م۔، ج 2، ص 27
22)_ امینی، ج 3، ص 140؛ شوشتری، احقاق الحق،ج 5،ص 522
23)_ ابن ہشام، ج‏4، ص 545۔
24)_ طبری، ج 6، جزء 10؛ ابن ہشام ، ج 4، ص 188ـ190
25)_ بحرانی، باب 360
26)_ متقی ہندی، ج 6، ص 155
27)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 16-17
28)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17
29)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17
30)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17
31)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17
32)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 18۔ "اقضاكم علي" علی تم میں سے بڑے قاضی اور فیصلہ کرنے والے ہیں۔
33)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 19
34)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 19
35)_ ابن ندیم،الفہرست ص62
36)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 20۔
37)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 24
38)_ سورہ انسان #76 آیت ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی
39)_ سورہ بقرہ #174 ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی
40)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 22-21
41)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 24-22
42)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 25
43)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 24
44)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 20
45)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21-20
46)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 27
47)_ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 26
**
_____________________________________________
**
محتاج دُعا
(مون کاظمی)
*
**

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک