گھروں میں داخل ہونے کا طریقہ

سورہ نور : آیات 27 -سے 30 تک ۔۔۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَا حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اگر تم اس گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو بغیر اجازت کے اس میں داخل نہ ہونا اور اگر تم سے لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو لوٹ جاؤ، اسی میں تمہاری پاکیزگی ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔

تفسیر آیات
۱۔ لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا: گھر انسان کے لیے امن و سکون اور رازداری کی جگہ ہے۔ گھر انسان کے وقار، ناموس اور عزت و آبرو کے تحفظ کی جگہ ہے۔ پھر گھر کی چار دیواری کے اندر انسان تمام تکلفات سے آزاد زندگی گزارتا ہے۔ افراد خاندان میں بعض بے تکلفیوں اور کبھی بعض خامیوں کے لیے گھر ایک پردہ ہے۔ اس پردے کا احترام انسانی عزت و وقار کا احترام ہے۔ بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونا احترام آدمیت کے خلاف ہے۔

۲۔ غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ: اپنے گھروں کے علاوہ۔ اس میں اپنے گھر کے علاوہ سب کے گھر شامل ہیں، خواہ اس کے قریبی ترین رشتہ دار کیوں نہ ہوں۔ جیسے ماں باپ، بیٹا، بیٹی اور بھائی۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے۔ (الکافی ۵: ۵۲۸)

اس طرح ایک شخص نے رسول اللہؐ سے سوال کیا: کیا میں اپنی ماں کے گھر بلا اجازت داخل ہو سکتا ہوں جب کہ ان کی خدمت کے لیے صرف میں ہوں؟ فرمایا:

اَ یَسُرُّکَ اَنْ تَرَاھَا عُرْیَانَۃٍ ۔

کیا تو اپنی ماں کو عریاں دیکھنا پسند کرے گا؟

کہا: نہیں۔

فرمایا:

فَاسْتَاذِنْ عَلَیْھَا ۔ (مستدرک الوسائل ۱۴: ۲۸۲)

اجازت لیا کرو۔

۳۔ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا: جب تک اُنس پیدا نہ کرو۔ یعنی گھر والے باہر سے آنے والے سے غیرمانوس نہ ہوں۔ گھر میں دفعتاً داخل نہ ہوںجب تک اجازت کے ساتھ گھر والوں میں آنے والے کو قبول کرنے کے لیے آمادگی نہ ہو۔ آیت میں حتی تستاءذنوا جب تک اجازت نہ لو، نہیں فرمایا۔ اذن لینے اور اُنس لینے میں فرق یہ ہے: اذن تو انسان ناگواری کی حالت میں دیتا ہے کہ کوئی بے وقت آیا ہے تو دروازے سے واپس کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا لیکن اُنس تو اس حالت کو کہتے ہیں جس میں گھروالوں میں پوری آمادگی پائی جاتی ہے کہ آنے والے کا استقبال کریں۔

۴۔ وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا: جب تک گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ پہلے مانوس، پھر سلام، پھر داخل ہونا۔ یہ ہیں آداب اور تہذیب اسلامی کہ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو سلام کر کے داخل ہونا چاہیے۔ دوسری جگہ فرمایا:

فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ ۔ (۲۴ نور:۶۱)

جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو۔

۵۔ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ: یہ آداب، یہ تہذیب خود تمہارے لیے بہتر ہے جس سے تمہارا پردہ اور تمہارے راز محفوظ رہتے ہیں اور تمہاری گھر کی چاردیواری کی آزادی بھی متاثر نہیں ہوتی۔

۶۔ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا: گھر میں کسی ایسے فرد کو نہ پاؤ جو تمہیں اجازت دے سکے تو گھر میں داخل نہ ہوں۔جیسے اگر کوئی بچہ ہو یا کوئی اور فرد جو اجازت دینے کا مجاز نہیں ہے۔

۷۔ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا: اگر اجازت دینے سے معذرت کریں تو گھر والوں کا عذر قبول کرو۔ صریح لفظوں میں معذرت کریں یا قرائن سے سمجھ جائیں کہ اجازت دینا نہیں چاہتے ایسی صورت میں واپس جانا چاہیے کیونکہ انسان کبھی کسی مجبوری میں ہوتے ہیں یا ایسی حالت میں ہوتے ہیں جو گھر کا راز ہے۔ عذر قبول کرنا خود اپنی جگہ بزرگواری کی علامت ہے:

شر الناس من لا یقبل العذر ۔۔۔۔ ( غرر الحکم الفصل السادس حول الاعتذارص ۴۴۷)

لوگوں میں بدتر شخص وہ ہے جو عذر کو قبول نہیں کرتا۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ  449

 

آیت 29
 
لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ مَسۡکُوۡنَۃٍ فِیۡہَا مَتَاعٌ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا تَکۡتُمُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ البتہ ایسے گھروں میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں کوئی رہائش پذیر نہ ہو اور ان میں تمہارا کوئی سامان ہو اور اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

تفسیر آیات
ایسی عمارتوں میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو برائے رہائش نہیں ہیں، جو کہ محل راز نہیں ہیں۔ جیسے ہوٹل، مارکیٹ، دوکانیں، مسافر خانے وغیرہ۔

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے :

قال: ھِیَ الْحَمَّامَاتُ وَالْخَانَاتُ ۔ (الوسائل الشیعۃ ۲۰:۲۱۹)

اس سے مراد عمومی حمام اور مسافر خانے ہیں۔

اہم نکات
۱۔ گھر کی چار دیواری کا تحفظ و احترام آدمیت کا تحفظ ہے۔

۲۔ گھر والوں کا عذر قبول کرنا چاہیے۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 451
آیت 30
 
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ آپ مومن مردوں سے کہدیجئے: وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں، یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے، اللہ کو ان کے اعمال کا یقینا خوب علم ہے۔

تشریح کلمات
یَغُضُّوۡا:

( غ ض ض ) غض کے معنی کمی کرنے کے ہیں خواہ نظر کی صورت میں ہو یا کسی برتن میں سے کچھ کم کرنے کی صورت میں ہو۔

تفسیر آیات
۱۔ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ: نگاہوں کو نیچے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نامحرم عورت کا سامنا ہوتا ہے تو اس کے محاسن پر نگاہ جمانے کے لیے نگاہ اوپر کی طرف اٹھانا پڑتی ہے۔ نگاہ نیچے رکھنے کی صورت میں نگاہ زمین کی طرف ہو گی۔ عورت کے محاسن پر نظر نہیں جمے گی۔

۲۔ مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ: میں من تبعیضی ہونے کی صورت میں معنی یہ بنیں گے: اپنی نگاہوں کو (قدرے) نیچے رکھو جس سے نامحرم پر نظر نہ پڑے۔

مرد اور عورت کے درمیان فطرتاً ایک کشش ہوتی ہے جو نوع انسانی کی بقا کے لیے ضروری ہے اور خطرناک بھی۔ اسلام نے فطری اور قانون کے پرامن دائرے میں رہتے ہوئے اس خواہش کو پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور نصف دین اسی میں قرار دیا ہے جب کہ اس سے پھیلنے والی خرابیوں کی راہ روکنے کی بھی چارہ جوئی کی ہے۔ چنانچہ جہاں قدرتاً یہ خواہش انسان میں رکھی ہے وہاں قانوناً اسے لگام دی ہے۔ فطرت اور شریعت دونوں کے امتزاج سے نسل انسانی کو جہاں بقا مل جاتی ہے وہاں نسلی اختلاط اور بے عفتی سے تحفظ مل جاتا ہے۔ یہ لگام نگاہ سے شروع ہوتی ہے کیونکہ فساد کی ابتدا بھی نگاہ سے ہوتی ہے۔ ایک نگاہ، ایک تبسم، پھر باہمی گفتگو، پھر بے تکلفی پھر۔۔۔۔

۳۔ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ: اس جگہ روایات کے مطابق شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد نظروں کی حفاظت ہے۔

کل ایۃ فی القران فی حفظ الفروج فہی من الزنا الاھذہ الآیۃ فہی من النظر ۔ (المیزان)

قرآن کی ہر آیت میں حفظ الفروج سے مراد زنا ہے صرف اس آیت میں نگاہ مراد ہے۔

النَّظْرَۃُ سَہْمٌ مِنْ سِہَامِ اِبْلِیسَ مَسْمُومٌ مَنْ تَرَکَھَا لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ لَا لِغَیْرِہِ اَعْقَبَہُ اللّٰہُ اِیمَانًا یَجِدُ طَعْمَہُ ۔ (الفقیہ ۴:۱۸)

نگاہ، ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو اسے برائے خدا ترک کر دے تو اس کے بعد اللہ اسے ایسے ایمان سے نوازے گا جس کا ذائقہ وہ محسوس کرے گا۔

دوسری روایت میں آیا ہے:

وَکَمْ مَنْ نَظْرَۃٍ اَوْرَثَتْ حَسْرَۃً طَوِیلَۃً ۔ (الوسائل ۲۰: ۱۹۰)

کتنی نگاہیں ایسی ہیں جو طویل حسرت کا باعث بنی ہیں۔

اہم نکات
۱۔ خواہشات کو پہلے قدم پر روکنا مؤثر اور آسان ہے۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 452