سورہ حجرات آیت 6 سے آیت 10 تک کی مختصر تفسیر
سورہ حجرات آیت 6
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۶﴾
۶۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی: نبیؐ مومنین کی جانوں پر خود مؤمنین سے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہیں۔ چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا تسلسل ہے لہٰذا نبیؐ کو مومنین پر ہر اعتبار سے ولایت و حاکمیت حاصل ہے۔ ایسی حاکمیت جو مومنین کی خود مختاری کے منافی نہ ہو:
لاَ تَکُنْ عَبْدَ غَیْرِکَ وَ قَدْ جَعَلَکَ اللہُ حُرّاً۔ ( نہج البلاغۃ : ۳۱ وصیت نامہ برائے امام حسن علیہ السلام۔ مستدرک الوسائل ۷: ۲۳۱)
دوسروں کے غلام نہ بن جاؤ جب اللہ نے تمہیں آزاد بنایا ہے۔
ایسی حاکمیت جو مومن کو عزت و سرفرازی دے:
وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔۔۔۔ (۶۳ منافقون: ۸)
عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے۔
چونکہ اس ہستی کو حاکمیت کا حق دیا جا رہا ہے جو رحمۃ للعالمین ہے اور مومنوں پر تو حضوصی طور پر شفیق و مہربان ہے۔
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (۹توبۃ: ۱۲۸)
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
اس ہستی کی اطاعت اور اس کے حکم کے نفاذ سے مومن ہر قید و بند سے آزاد ہو جاتا ہے:
وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۷)
اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت مطلقہ ہے اور مومن کے تمام جوانب پر محیط ہے۔ مومن کی اپنی جان سے رسول کی جان عزیز ہے۔ حدیث ہے:
و الذی نفسی بیدہ لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ و مالہ و ولدہ و الناس اجمعین۔۔۔۔ ( بحار الانوار ۲: ۱۸۲)
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نزدیک میں، اس کی جان و مال و اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان مؤمن کی اپنی جان سے اولیٰ ہے کا مطلب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو مؤمن پر فرض ہے کہ وہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش مؤمن کی خواہش پر مقدم ہے کہ مؤمن کی کسی چیز کی خواہش ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس کے خلاف ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش مقدم ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کھانا کھا رہا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بلائیں تو اس پر واجب ہے کہ کھانا ترک کر کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ کے بلانے پر کھانا ترک نہ کرنے والے کو یہ بددعا ملی:
لا اشبع اللہ بطنہ۔ (بحار الانوار ۲۲: ۲۴۸)
اللہ اسے شکم سیری نصیب نہ کرے۔
کسی معاملے میں خواہ دینی ہو یا دنیوی، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ خود مومن کے اپنے فیصلے پر مقدم ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا (۳۳ احزاب: ۳۶)
اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملہ کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔
جنہیں اللہ کی طرف سے حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ مؤمنین کی مصلحت اور مفاد کے مطابق حکومت کرتے ہیں۔ وہ اپنی حاکمیت کے ذریعے مؤمنین کی عزت، آزادی اور مفادات کو تحفظ دیتے ہیں جب کہ جنہیں اللہ کی طرف سے یہ حق حاصل نہیں ہے وہ اپنی خواہش، اپنے مفادات کے مطابق حکومت کرتے ہیں۔
حضرت ابی، عبداللّٰہ بن مسعود اور ابن عباس کے نزدیک و ھو اَب لہم کی عبارت آیت کا حصہ ہے اور حضرت ابی کے مصحف میں یہ جملہ ثبت تھا۔ ( مجمع البیان۔ روح المعانی )
۲۔ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ: اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ ازواج نبی مومنوں کی مائیں صرف اس لحاظ سے ہیں کہ مومنین پر ان کا احترام واجب ہے اور ان کے ساتھ نکاح کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح اپنی حقیقی ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے:
وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ۔۔ (۳۳ احزاب: ۵۳)
اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔
باقی احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ سب مومنین ان کے لیے نامحرم ہیں۔ ان پر سب مومنین سے پردہ کرنا واجب تھا۔ ان ازواج کی صاحبزادیاں مومنین کے لیے مادری بہنیں نہیں ہیں کہ ان سے نکاح حرام ہو جائے۔ ان کے بھائی بہن مومنین کے خالہ اور ماموں نہیں ہیں کہ کوئی شخص خال المومنین بن جائے اور کوئی خاتون اخت المومنین بن جائے۔ اس طرح ماں ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ مومنین کی وارث بن جائیں یا مومنین ان کے وارث بن جائیں۔
مولانا مودودی نے اس آیت کے ذیل میں طبرسی کی ایک روایت اصل کتاب کی طرف رجوع کیے بغیر نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
یا ابالحسن ان ھذا الشرف باق ما دمنا علی طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ فایتھن عصت اللّٰہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلقھا من الازواج و اسقطھا من شرف امھات المومنین ۔ (اصل عبارت مادمن ہے۔ جب تک ازواج اللہ کی اطاعت پر قائم ہیں۔ انہوں نے یہ عبارت روح المعانی سے لی ہو گی چونکہ اس میں اس غلطی کے ساتھ یہ عبارت موجود ہے۔)
اے ابوالحسن! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دیجیو اور اس کو امہات المومنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو۔
۳۔ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ: ہجرت کے بعد مدینہ میں اسلامی معاشرہ تشکیل دینے والے مہاجرین و انصار تھے۔ مہاجرین اپنے گھر کاروبار اور رشتہ داروں سے دور زندگی گزار رہے تھے اس لیے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرت اور مواخاۃ کے ذریعے ایک وقتی قانون نافذ فرمایا جس کے تحت مہاجرین و انصار مواخاۃ کے ذریعے ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ اس آیت کے ذریعے مواخاۃ کے ذریعے توارث کا قانون منسوخ ہو گیا اور بتایا گیا کہ آیندہ خونی رشتہ داری میں اقربیت کی بنیاد پر وراثت تقسیم ہو گی۔
وراثت اس آیت کی صراحت کی بنا پر رشتہ داری کی بنیاد پر تقسیم ہو گی اور رشتہ داری میں سب سے زیادہ قریب ترین اولاد اور والدین ہیں جو وراثت کی تقسیم میں موجود طبقات میں طبقہ اولیٰ میں آتے ہیں۔ لہٰذا باپ اور اس کی اولاد اس آیت کے مصداق اول ہیں۔
چنانچہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے وارث ہونے پر اس آیت سے استدلال فرمایا۔میراث رسولؐ کے بارے میں تفصیل کے ملاحظہ ہو سورہ نمل آیت ۱۶۔ سورہ مریم آیت ۶۔
۴۔ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا: اپنے دوستوں پر احسان سے مراد وصیت ہے۔ وصیت کی صورت میں ارحام یعنی رشتہ داری کے بغیر حصہ دار بن جاتے ہیں۔ وصیت کی صورت میں وصیت کرنے والے کے اموال میں سے صرف ایک تہائی میں وصیت نافذ ہے۔
۵۔ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا: وراثت کا یہ قانون اس کتاب میں درج ہے جس میں اللہ کے تمام اٹل فیصلے لکھ ہوئے ہیں۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہو سکتی ہے اور قرآن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے وارثت کے اس حکم کو بیان کرنے میں ایک خاص اہمیت کا اظہار فرمایا۔ ایک مرتبہ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ فرما کر یہ حکم کتاب اللہ میں اور دوسری بار کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا یہ حکم کتاب میں درج ہے فرما کر مزید تاکید فرمائی۔
اہم نکات
۱۔ کسی کو ماں، بہن اور بیٹا کہنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔
۲۔ نبی کا حکم خود مومن کے اپنے ارادے سے زیادہ نافذ ہے: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی۔۔۔۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 15
آیات 7 - 8
وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾
۷۔اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔
لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾
۸۔ تاکہ سچ کہنے والوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور کفار کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ: انبیاء علیہم السلام سے جو عہد و میثاق لیا گیا ہے وہ ان کی نبوت کے منصب سے متعلق ہے۔ لہٰذا یہ عہد و میثاق تبلیغ رسالت اور لوگوں کو توحید کی طرف دعوت اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کے بارے میں ہو سکتا ہے۔
بعض مفسرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس میثاق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر اپنی امتوں کو دے دیں۔
۲۔ وَ مِنۡکَ: اور آپ ؐسے بھی۔ خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس بات کی طرف اشارے کے لیے ہو سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے جو عہد و میثاق لیا ہے ان میں آپؐ سے جو عہد لیا گیا ہے وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور سب سے قدیم ترین اور اولین عہد ہے۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے۔ ابن عباس راوی ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ میثاق کب لیا گیا تھا؟ جواب میں فرمایا:
وآدم بین الروح والجسد۔۔۔۔ ( روح المعانی ذیل آیہ)
جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھا۔
۳۔ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ: ان اولوالعزم پیغمبران کو خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا چونکہ جو انبیاء علیہم السلام صاحبان شریعت ہیں ان کی مسؤلیت زیادہ اور سنگین تھی۔
۴۔ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا: یہ غلیظ، پختہ اور سخت میثاق بظاہر اوالوالعزم انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا۔ یہ ان عہد و میثاق کے علاوہ کوئی اضافی عہد تھا جو صرف ان بزرگ انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا ہے۔
۵۔ لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ: انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد و میثاق اس لیے لیا گیا تاکہ قیامت کے دن جب ان سے سوال ہو گا تو ان کی سچائی ظاہر ہو۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:
یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ۔۔۔۔ (۵ مائدۃ: ۱۰۹)
(اس دن کا خوف کرو) جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا: (امتوں کی طرف سے) تمہیں کیا جواب ملا؟
دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے: قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام سے سوال و جواب میں انبیاءعلیہم السلام کی دعوت کی سچائی ظاہر ہو جائے گی اور اس دعوت کی سچائی کے نتیجے میں مومن کو ثواب اور منکر کو عذاب دینا لازم آئے گا۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 18
آیت 9
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾
۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر بھیجے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
تفسیر آیات
یہ آیت اور اس کے بعد چند آیات جنگ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں کے بارے میں نازل ہوئیں۔
جنگ احزاب کا واقعہ اس طرح پیش آیا:
احد کی جنگ کے بعد قریش نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا آمنا سامنا ہو گا۔ اسلامی لشکر نے مقررہ تاریخ کو بدر میں آٹھ دن ابوسفیان اور اس کے لشکر کا انتظار کیا مگر وہ بدر میں آنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اس سے پہلے یہود کے قبیلہ بنی نضیر کی سازش فاش ہو گئی تھی جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی تدبیر سوچی تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دس دن کے اندر مدینہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ بنی نضیر نے حکم ماننے سے انکار کیا۔ چنانچہ دس دن ختم ہونے پر بنی نضیر کا محاصرہ کیا گیا۔ چند دنوں میں وہ مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور یہود مدینہ سے نکل کر خیبر، شام و دیگر علاقوں میں منتشر ہو گئے۔
اس طرح حضورؐ نے بنی غطفان کی سازش ناکام بنا دی۔ وہ مدینے پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان پر مسلمانوں کی طرف سے اچانک حملہ ہوتا ہے اور وہ منتشر ہو جاتے ہیں۔
جنگ احزاب: ان حالات میں مدینہ کے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے عرب قبائل اور یہود نے مل کر ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ چنانچہ سنہ ۵ ھ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے آ گئے۔ ان میں مدینہ سے جلا وطن ہونے والے بنی نضیر اور بنی قینقاع کے یہودی اور غطفان، بنو سلیم، فزارہ، مرہ، اشجع، سعد اور اسد وغیرہ کے قبائل اور قریش کا ایک بڑا لشکر شامل تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل از وقت اس خطرناک حملے کا علم ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورے پر شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی اور شہر کو محفوظ کر لیا گیا۔ خندق کھودنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے عام مسلمانوں کی طرح حصہ لیا۔
اہل عرب اس طریق دفاع سے ناآشنا تھے اس لیے ان کی جنگی حکمت عملی میں اس کا کوئی حل معلوم نہ تھا۔ لہٰذا طویل اقامت کے لیے وہ تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔ اس نئی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی ان کے پاس صرف ایک صورت رہتی تھی۔ وہ یہ کہ مدینہ میں آباد بنی قریظہ کے یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ توڑنے پر آمادہ کیاجائے چونکہ اسی معاہدے کی وجہ سے اس یہودی علاقے میں مسلمانوں نے کوئی دفاعی انتظام نہیں کیا تھا۔ دشمن نے اس علاقے سے فائدہ اٹھانے کو ہی غنیمت سمجھا۔ چنانچہ بنی نضیر کا وفد بنی قریظہ کے ہاں گیا اور انہیں عہد توڑنے پر آمادہ کیا جس سے مسلمانوں میں نہایت بے چینی پیدا ہو گئی۔ جسے قرآن نے ان لفظوں کے ساتھ ذکر کیا ہے:
وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا (۳۳ سورہ احزاب۔۱۰)
اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔
شہر کا وہ علاقہ بھی غیر محفوظ ہو گیا جہاں دفاع کا کوئی انتظام نہ تھا۔ چنانچہ بعض منافقین نے تو یہ کہنا شروع کیا محمد قیصر و کسریٰ کی فتح کی نوید سناتے ہیں، ادھر ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے۔ کچھ لوگوں نے خندق سے نکل جانے کی اجازت مانگنا شروع کی۔
ادھر محاصرے کو ۲۵ دن سے زیادہ ہو چکے تھے۔ دوسری طرف حملہ آوروں اور بنی قریظہ میں پھوٹ بھی پڑ چکی تھی جس سے حملہ آوروں کے حوصلے پست ہو گئے تھے۔ زمانہ بھی سردی کا تھا۔ اسی اثناء میں عربوں میں مشہور بہادروں نے انفرادی طورپر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک تنگ جگہ سے خندق پار کر کے مبارزہ طلبی کی۔ ان میں سب سے مشہور شخص عمرو بن عبدود تھا جس نے بلند آواز سے پکارا: ہے کوئی میرے مقابلے میں آنے والا؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی: یا رسول اللہؐ میں اس کے مقابلے کے لیے حاضر ہوں۔ فرمایا: یہ عمرو ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ جب کوئی جواب نہ آیا تو اس نے تمسخر کے طور پر کہا: تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تمہارا یہ زعم ہے کہ تم میں سے جو مارا جائے گا وہ جنت جائے گا؟ تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی: میں حاضر ہوں یا رسول اللہ!۔ پھر عمرو بن عبدود نے تیسری مرتبہ پکارا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: میں حاضر ہوں یارسول اللہ! فرمایا: یہ عمرو ہے۔ عرض کیا: پھر بھی حاضر ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔
حاکم حسکانی کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ذات الفصول نامی زرہ پہنائی، اپنی تلوار ذوالفقار عنایت کی اور اپنا عمامہ جو عمامۂ سحاب مشہور تھا پہنایا۔ پھر فرمایا: آگے بڑھو۔ پھر فرمایا:
برز الایمان کلہ الی الکفر کلہ ۔ ( عوالی اللالی ۴: ۸۸۔ شرح نہج البلاغۃ ۱۳: ۲۶۱۔ اس میں الکفر کی جگہ الشرک آیا ہے)
کل کا کل ایمان، کل کے کل کفر کے مقابلے میں نکلا ہے۔
علی علیہ السلام کو دیکھ کر عمرو نے کہا تم کون ہو؟ فرمایا: میں علی ہوں۔ کہا: میں تمہارا خون بہانا نہیں چاہتا۔ فرمایا: مگر میں تمہارا خون بہانا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر وہ غصے میں آتا ہے اور گھوڑے سے اتر کر حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی ڈھال کو آگے کیا۔ اس کی تلوار ڈھال میں پھنس گئی اور حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر زخم آیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس پرحملہ کیا۔ وہ زمین پر گر پڑا اور گرد و غبار اُٹھا۔ اس میں سے حضرت علی علیہ السلام کی تکبیر کی آواز سنائی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی نے اسے قتل کر دیا اور فرمایا:
لضربۃ علی خیر من عبادۃ الثقلین ۔ ( بحارالانوار ۱: ۳۹)
علی کی ایک ضربت جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔
ایک رات کڑک اور چمک کے ساتھ شدید آندھی آئی جس سے دشمن کے خیمے اکھڑ گئے۔ دشمن اس صورت حال کا مقابلہ نہ کر سکے اور راتوں رات میدان چھوڑ کر چلے گئے۔ صبح کو مسلمانوں نے دیکھا کہ دشمن نے راہ فرار اختیار کر لی ہے اور میدان دشمن سے خالی ہو گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
و لا یغزوننا بعد الیوم و نحن نغزوہم ان شاء اللہ ۔ (شرح نہج البلاغۃ ۱۹:۶۲)
آج کے بعد وہ ہم پر حملہ نہیں کر سکیں گے۔ انشاء اللہ ہم ان پر حملہ کریں گے۔
۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ: اہل ایمان کو خندق کی جنگ میں اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت کا ذکر ہے۔ اس نعمت سے مراد امن کی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دشمن کے حملے سے محفوظ رکھا۔
۲۔ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ: ان لشکروں کی طرف اشارہ ہے جو اس جنگ میں شرکت کر رہے تھے۔ عام طور پر جنگ میں دونوں طرف ایک لشکر ہوتا ہے خواہ ایک طرف کا لشکر دوسری طرف کے لشکر سے بڑا یا چھوٹا ہو۔ جیسے جنگ بدر میں دو ہی لشکروں کا مقابلہ تھا لیکن اس جنگ میں اسلام کے صرف ایک لشکر کے مقابلے میں دشمن کے متعدد لشکر صف آرا تھے۔
i۔ بنی نصیر اور بنی قینقاع کے یہود کا لشکر۔
ii۔ غطفان کے قبائل کا لشکر۔
iii۔ قریش مکہ کا لشکر۔
ان تمام لشکروں میں بارہ ہزار افراد شریک تھے۔
۳۔ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا: دشمن پر یکایک ایک شدید آندھی بھیجی جس کے زور سے ان کے خیمے اکھڑ گئے، ان میں شدید اضطراب پیدا ہوا اور راتوں رات وہ میدان چھوڑ کر چلے گئے۔
۴۔ وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا: ایسا لشکر بھیجا جو ظاہری دید میں نہ آتا تھا لیکن یہ طاقت ایک نہیں کئی لشکروں کا کام کر رہی تھی۔ ان لشکروں سے مراد فرشتے بھی ہو سکتے ہیں چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ہی کے ذریعے داخلی طاقت فراہم فرماتا ہے۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 20
آیت 10
اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا﴿۱۰﴾
۱۰۔ جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔
تفسیر آیات
۱۔ اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ: مدینہ کے مشرقی علاقے سے آنے والے لوگ ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے غطفان کے قبائل اور یہود کے لشکر ہوں۔
۲۔ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ: نچلی طرف سے آنے والے لشکروں سے مراد قریش اور ان سے ملحق ہونے والے دوسرے لشکر ہو سکتے ہیں۔
۳۔ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ: لشکروں نے مدینے کا مختلف سمتوں سے اس طرح محاصرہ کیا تھا کہ حملے کی صورت میں بچنے کی کوئی ظاہری امید نظر نہیں آتی تھی۔ واحد دفاعی ذریعہ خندق تھا۔ یہ بھی بنی قریظہ کے یہود کی عہد شکنی کے بعد غیر مؤثر نظر آتا تھا۔ ان حالات میں کچھ لوگوں کی آنکھیں پتھرا گئیں اور دل، کلیجے منہ کو آ گئے۔
زَاغَتِ: زیغ کے معنی کجی کے ہیں۔ یعنی آنکھیں حقائق کا درست مشاہدہ کرنے سے قاصر ہو گئی تھیں۔
۴۔ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا: اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ منافقین اور کمزور ایمان والے اسلام کی حقانیت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے کہ اب جاہلیت لوٹ آنے والی ہے وغیرہ وغیرہ۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 23