امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اقسام حدیث

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

حدیث دارای چه تقسیماتی است؟

اقسام حدیث، علوم حدیث میں مختلف زمرہ بندیوں کی غرض سے تقسیمات ہوئی ہیں جو سند یا متن کی بہتر فہم و ادراک کے لئے بروئے کار لائی جاتی ہیں۔

یہ زمرہ بندیاں کچھ یوں ہیں:

    سند کے راویوں کی تعداد کے لحاظ سے: خبر واحد، خبر مُسْتَفیض اور خبر متواتر؛
    سند کے معتبر ہونے کے لحاظ سے: حدیث صحیح اور اس کی اقسام (جیسے: صحیحِ مضاف، متفق علیہ، اعلی، اوسط اور ادنی)، حسن، موثوق، قوی، ضعیف اور اس کی اقسام (جیسے: مُدْرَج، مشترک، مُصَحَّف، مؤتلف اور مختلف)؛
    اتصال سند یا قطع سند کے لحاظ سے: مُسنَد، مُتَّصِل، مَرفوع، موقوف، مَقطوع، مُرْسَل، مُنْقَطِع، مُعْضَل یا مشکل، مُضْمَر، مُعَلَّق، مُعَنْعَن اور مُهْمَل؛
    متن کے لحاظ سے: نَصّ، ظاہر، مُؤَوَّل، مُطلَق و مُقَیَّد، عام و خاص، مُجْمَل و مُبَیَّن، مُکاتَب و مکاتِبہ، مشہور، متروک، مطروح، حدیث قدسی، شاذ، مقلوب، متشابہ،
    روایت پر عمل کے لحاظ سے: حجت و لاحجت، مقبول، ناسخ و منسوخ۔

روات کی تعداد کے لحاظ سے: متواتر اور واحد

 

خبر متواتر

خبر متواتر وہ روایت ہے جس کے ہر طبقے راوی متعدد (تین سے زیادہ) ہوں، یہاں تک کہ خبر کو وضع یا جعل کرنے یا جھوٹی خبر گھڑنے کے لئے سازباز کا امکان ہی ہو۔ اسی بنا پر ہمیں یقین ہے کہ یہ حدیث معصوم سے صادر ہوئی ہے اور ایسی حدیث فقہ میں بھی اور عقائد میں بھی معتبر ہے۔

اگر کسی روایت میں مندرجہ بالا خصوصیت نہ ہو تو وہ خبر واحد ہے۔ اگر خبر واحد کے ہر طبقے میں راویوں کی تعداد کم از کم تین ہو تو وہ خبر مستفیض کہلاتی ہے۔
سند ہونے کے لحاظ سے

خبر مُسنَد، وہ روایت ہے جس کی سند ہو اور اس کی سند میں زمانۂ معصوم سے لے کر معتبر و مشہور کتب میں مکتوب ہونے کے زمانے تک کے تمام راویوں کے نام مذکور ہوں۔ کتب اربعہ کی طرح کی مشہور کتب حدیث کی اصلیت اور کھرا پن تاریخی اور کتابیاتی لحاظ سے مکمل طور پر قابل اثبات ہے۔

خبر مرسل وہ حدیث ہے جس کی کوئی سند نہیں ہے یا اس کی سند میں راویوں کے نام مذکور نہیں ہیں۔


خبر مُسند کی اقسام
مُعَنْعَن

مُعَنْعَن وہ حدیث ہے جس کی سند میں فلان عن فلان... جیسی عبارت موجود ہو اور اس کے آغاز میں "حدثنا" یا "اخبرنا" جیسے الفاظ آئے ہوں۔
عالی اور نازل

عالی وہ حدیث یا خبر ہے جو دوسری حدیثوں کی نسبت کمتر واسطوں سے موصول ہوئی ہو اور اس کا راوی کم تر واسطوں سے حدیث کو معصوم سے نقل کرچکا ہو۔

نازل، ایسی حدیث ہے جو عالی کے برعکس، بیش تر واسطوں سے نقل ہوئی ہے۔


مُضْمَر

مُضْمَر وہ روایت ہے جس میں معصوم کا نام مُضْمَر ہو اور مذکور نہ ہو؛ جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ "سألتہُ علیا السلام...."، جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ راوی نے اس کو معصوم سے نقل کیا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس معصوم کا نام کیا تھا؟


مُعَلَّق

مُعَلَّق وہ حدیث ہے جس کو محدث ایک مقام پر پوری سند کے ساتھ نقل کرتا ہے اور دوسرے مقام پر اس حدیث کا ایک حصہ نقل کرتا ہے اور اس کی سند کو حذف کردیتا ہے اور درحقیقت سند کی حقیقت کو ابتدائی نقل (یا روایت) پر معلق کردیتا ہے [کہ گویا سند کے لئے پہلے مقام و موقع کا حوالہ دیتا ہے]۔
حدیث مُرسَل کی قسمیں
مَرفوع

مرفوع وہ حدیث ہے جس کے بعض راویوں کے نام سند کی ابتداء میں ذکر ہوئے ہوں اور آخری راوی نے معصوم تک کے باقی راویوں کے نام ذکر کئے بغیر حدیث نقل کی ہو: جیسے: " "رفعہُ إلی المعصوم" [=راوی نے اس کو معصوم تک اٹھایا ہے یا اس کی نسبت معصوم کو دی ہے]۔
موقوف

موقوف کی دو اصطلاحیں ہیں:

الف: وہ خبر جس کا سلسلۂ سند معصوم تک پہنچے لیکن معصوم کا نام مذکور نہ ہو اور مشہور یہی ہو کہ اس خبر کا راوی غیر معصوم سے حدیث نقل نہیں کرتا۔

ب: وہ روایت جس کی سند رسول اللہ(ص) کے صحابی یا امام(ع) کے مصاحب تک پہنچتی ہے۔ روایت موقوفہ صحابہ کے اعتبار کے ناطے اہل سنت کے ہاں حجت ہے لیکن شیعہ محدثین اس کو صرف اس وقت حجت سمجھتے ہیں کہ قرائن اور شواہد کے ذریعے ثابت ہوجائے کہ وہ معصوم سے ہی نقل ہوئی ہے۔


مقطوع

مقطوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کا سلسلۂ سند تابعین میں سے کسی فرد تک پہنچتی ہے۔ یہ اصطلاح زيادہ تر اہل سنت کے ہاں رائج ہے۔ حدیث مقطوع موقوف کی طرح سند متصل ہونے کے باوجود شیعہ محدثین کے ہاں حجت نہیں ہے۔ حدیث مقطوع در حقیقت حدیث موقوف ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ راوی کسی تابعی سے یا تابعی کی طرح دوسرے اشخاص ـ یعنی اصحاب ائمہ کے مصاحبین یا تابعین ـ سے روایت کرتا ہے اور صحابی سے روایت نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اقوال و افعال کا معصوم سے عدم انتساب زیادہ واضح ہے اور اس کی حالت خبر موقوف سے زیادہ کمزور ہے۔
سند کے اعتبار کے لحاظ سے

شیعہ علماء نے اسلام کی ابتدائی صدیوں میں روایات و احادیث کو صحیح اور غیر صحیح کے زمروں میں تقسیم کیا تھا اور صحیح حدیث کے لئے شرائط متعین کی تھیں؛ بطور مثال: اس روایت کو صحیح سمجھا جاتا تھا جو معتبر (ّثقہ) راویوں نے نقل کی ہوئی، ہوتی تھی یا جب حدیث کے متن یا حاشیے میں متعلقہ قرائن [اور شواہد] موجود ہوتے تھے جن سے انہیں اطمینان حاصل ہوجاتا تھا کہ وہ معصوم سے نقل ہوئی ہے۔ جبکہ اہل سنت کے محدثین بہت پہلے سے حدیث کو تین اقسام میں تقسیم کرتے تھے: صحیح و حَسَن و ضعیف.

بعد کی صدیوں میں سید بن طاؤس کے زمانے (664 ہجری) سے اس زمرہ بندی میں چوتھی تقسیم بنام "موثّق"[1]۔[2] امامیہ کے درمیان بھی رائج ہوئی اور شہید ثانی اور شیخ بہائی نے ایک پانچویں قسم کا بھی اضافہ کیا اور وہ "حدیث قوی" ہے۔ رائج تقسیم بندی یا زمرہ بندی کے لحاظ سے ان اصطلاحات کے معانی حسب ذیل ہیں:
 

 حدیث صحیح

حدیث صحیح وہ خبر یا حدیث ہے جس کا سلسلۂ سند ثقہ (اور قابل اعتماد) اور شیعہ مذہب کے تابع راویوں کے ذریعے [[معصوم تک پہنچتا ہو۔


حدیث مُوَثَّق

حدیث موثق وہ خبر ہے جس کی سند کامل ہو اور اس کے سلسلۂ سند میں مذکورہ تمام افراد کی وثاقت (اور اعتبار) پر شیعہ کتب رجال [3] میں تصریح ہوئی ہو (اور ان کی وثاقت کی توثیق ہوئی ہو)، اگرچہ حدیث کے اس سلسلے میں بعض افراد غیر امامی بھی ہیں جیسے: علی بن فضال اور ابان بن عثمان۔

کبھی حدیث موثق کو حدیث قوی بھی کہا جاتا ہے۔

وہ الفاظ جو راوی راوی کی توثیق پر دلالت کرتے ہیں: ثقّہ، عین، وجه، مشکور، شیخ الطائفہ، حجت۔


حدیث حَسَن

حدیث حسن وہ خبر ہے جس کی سند متصل ہو اور تمام راوی امامیہ مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور ممدوح ہوں۔ (الفاظ جو مدح کی دلیل ہیں: مُتقن، حافظ، ضابط، مشکور، زاهد، قَریب الامر وغیرہ)

حدیث حسن (یا روایت حسن) اس لئے حسن کہلاتی ہے کہ ہم اس کی اسناد کے سلسلے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔

"حَسَن کالصحیح"، (حسن ہے صحیح کی مانند) وہ روایت ہے جس کے راویوں کی اس حد تک مدح ہوئی ہے جو ان کی وثاقت کی توثیق کے قریب ہو یا راوی اصحاب اجماع میں سے ہو۔

"حَسَنُ الاسناد"، وہ روایت ہے جس کی سند حسن ہو، لیکن روایت کا شُذوذ[4] یا علت۔[5] کی وجہ سے، حسن نہ ہو۔

اہل سنت کی اصطلاح کے مطابق "حسن" وہ مُسند ہے جس کے راوی درجۂ وثاقت پر ہوں یا حدیث مرسل ہے جس کا مُرْسِل ثقہ ہو، لیکن اس کو بہرحال شذوذ اور علت سے خالی ہونا چاہئے۔[6]
حدیث قوی

حدیث قوی امامیہ کے نزدیک وہ حدیث ہے جس کے تمام رجال راوی امامی ہوں (اور اہل سنت کی رائے کے مطابق وہ روایت ہے جس کے تمام راوی عادل اور منضبط ہوں) لیکن سند کے بعض راویوں کے بارے میں کوئی مدح یا ذمّ منقول نہ ہو۔


حدیث ضعیف

یہ وہ روایت ہے جس میں "صحیح، حسن، موثّق اور قوی" جیسی قسموں میں سے کسی ایک کی شروط مجتمع نہ ہوں، ضعیف کہلاتی ہے۔ یعنی اگر (سند کے ایک طبقے کا راوی ایک ہی ہو) اور حتی ایک راوی اطمینان بخش اوصاف و حالات کو کھو دے تو وہ روایت ضعیف ہوگی۔[7] کبھی ضعیف کا اطلاق مجروح روایت[8] پر بھی ہوتا ہے۔

اہل سنت کے ہاں حدیث ضعیف وہ ہے جو صحیح اور حسن نہ ہو۔

 

حدیث ضعیف کی اقسام:


مجہول

وہ حدیث ہے جس کا ایک راوی یا اس کے چند راوی، غیر معروف اور انجانے ہوں یا رجالی مآخذ (جو راویوں کا تعارف کراتے ہیں) میں ان کے بارے میں ایسا اظہار خیال نہ ہوا جو اس کی وثاقت اور عدالت پر دلالت کرے۔


مُہمَل

یہ "حدیث مجہول" کی ایک قسم ہے یعنی وہ خبر جس کے راویوں میں کم از کم راوی ناشناختہ اور مجہول ہو اور کتب رجال میں مذکور نہ ہو۔


موضوع

وہ جعلی حدیث جو راوی نے جھوٹ بول کر معصوم سے منسوب کی ہو۔


مشترک

وہ حدیث جس کا ایک راوی، یا کئی راوی ثقہ اور ضعیف کے درمیان مشترک ہوں اور ہمارے پاس کوئی دلیل نہ ہو کہ اس سے مراد ضعیف شخص ہے یا موثق؛ اس قسم کی احادیث استنباط کے عمل کے دوران معتبر نہیں ہیں۔
شاذّ

وہ حدیث جس کے راوی پر اس کی پوری عمر میں حافظے کی کمزوری کا الزام ہو۔


مُختلِط

وہ حدیث ہے جس کے راوی پر عمر کے ایک حصے میں یا پھر سن رسیدگی میں حافظے کی کمزوری کا الزام ہو۔


مُنکَر

یہ وہ حدیث ہے جس کا ایک راوی نقل روایت میں کثرت خطا کا ملزم ہو۔


متروک

وہ حدیث ہے جس کا ایک راوی جھوٹ بولنے یا بدعت گذاری کا ملزم ہو چاہے اس نے روایت جھوٹ کی بنیاد پر نقل کی ہو خراہ اس نے ایسا نہ کیا ہو۔


مطروح

وہ حدیث جس کا مضمون قطعی (یقینی) دلیل سے متصادم ہو اور اس کے بارے میں کسی قسم کی تاویل ممکن نہ ہو۔


مُعَلَّل

وہ حدیث ہے جس کی سند یا متن میں شکوک و شبہات ہوں جن کی وجہ سے حدیث کی صحت مشکوک ہوجائے۔


مُضطَرِب

وہ حدیث ہے جو دو شکلوں میں نقل ہوئی ہو؛ مثلا: ایک روایت میں راوی نے واسطے کے ساتھ اور دوسری روایت میں بلاواسطہ کسی سے حدیث نقل کی ہو۔ اس اضطراب کو "سند میں اضطراب" کہا جاتا ہے۔ کبھی اضطراب حدیث کے متن میں ہوتا ہے اور وہ یوں کہ راوی حدیث کو دو مختلف صورتوں میں اور دو معانی کے ساتھ نقل کرچکا ہو اس قسم کی حدیث کو "مختلف النسخہ" بھی کہا جاتا ہے۔


مَقلوب

وہ حدیث ہے جس کی سند یا متن میں "قلب" (رد و بدل اور جابجا ہونا) انجام پایا ہے۔ "سند میں قلب" کی ایک مثال یہ ہے کہ "محمد بن الحسین کو حسین بن محمد" کی صورت میں ذکر کیا گیا ہو اور معلوم نہ ہو کہ کونسی عبارت صحیح ہے۔ "متن میں قلب" سے مراد یہ ہے کہ دو متون میں الفاظ جابجا نقل ہوئے ہوں۔


مُصَحَّف

وہ خبر ہے جس کے متن کی عبارت یا سند میں بعض نقاط جابجا ہوئے ہوں لیکن اس جابجائی اور ردو بدل سے حدیث کو کوئی نقصان نہ پہنچا ہو؛ اس طرح کا رد و بدل تصحیف، شیرازہ بندیوں اور نسخہ برداریوں اور تالیف کی وجہ سے معرض وجود میں آتا ہے۔ جیسا کہ راوی کا نام "ابن مراجم" ہو لیکن بعض مکتوبات میں اس کا نام "ابن مزاحم" درج ہوا ہو؛ اس طرح کی روایات اگر رجال اور درایہ کے مطابق قبولیت کی شرائط کی حامل ہوں، تو اس سے استفادہ کیا جائے گا ورنہ استنباط کے مقام پر اس سے استناد نہیں کیا جاسکتا۔[9]


مؤتلف و مختلف

وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی ایسے شخص کا نام نقل ہوا جو دو صورتوں میں پڑھا جاسکتا ہو، لیکن کتابت میں ایک جیسا لکھا جاتا ہو۔ یہ قسم در حقیقت مُصحف کی ایک قسم ہے۔


مُدَلَّس

وہ خبر ہے جس کی سند میں پایا جانے والا عیب چھپانے کی کوشش کی گئی ہے کچھ یوں کہ وہ حدیث مقبول نظر آئے۔


مُدْرَج

مدرج وہ حدیث ہے جس کے بارے میں احتمال دیا جاتا ہے کہ راوی نے کچھ اپنی طرف سے اس میں بڑھوتری کی ہو؛ یوں کہ معلوم نہ ہو کہ وہ عبارت کلام معصوم ہے یا روای کا کلام ہے۔[10]۔[11]


مُعضَل یا مشکل

معضل یا مشکل دو معانی میں استعمال ہوا ہے:

    یا وہ حدیث جس کے معنی کا ادراک دشوار ہے؛


    یا وہ حدیث جس کے سلسلۂ سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی حذف ہوئے ہیں۔[12]

 

حدیث ضعیف قدما اور متاخرین کی نظر میں

جاننا چاہئے کہ بہت سی احادیث جو متاخرین (ساتویں صدی ہجری کے بعد کے علماء) کی اصطلاح میں ضعیف سمجھی جاتی ہیں قدمائے امامیہ کے ہاں صحیح سمجھی جاتی تھیں کیونکہ قدما کے نزدیک صحت (صحیح ہونے) کا معیار یہ تھا کہ یقین کیا جاسکے کہ حدیث معصوم سے صادر ہوئی ہے اور اگرچہ بعض روایات کی سند مخدوش ہیں لیکن متنی یا خارجی قرائن و شواہد کی رو سے اطمینان حاصل ہوجاتا تھا کہ یہ روایات معصوم سے صادر ہوئی ہیں؛ کیونکہ قدما ایسے زمانے میں جیتے تھے جو معصومین کے زمانے سے قریب تر تھا اور اصحاب ائمہ کی کتب حدیث بھی آسانی سے ان کی دسترس میں تھیں اور بعض قرائن و شواہد ان کے پاس موجود تھے جن کے بدولت وہ کسی روایت کے معصوم سے صادر ہونے کے سلسلے میں اطمینان حاصل کرتے تھے لیکن یہ شواہد و قرائن متاخرہ صدیوں کے علماء کی دسترس میں قرار نہیں پائیں۔

ہر چند کہ ایک حدیث سند کے لحاظ سے درست ہو لیکن اس سے قدما کی روگردانی، اس کے ضعف کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔
متن کے لحاظ سے تقسیم


نَصّ

وہ روایت جس کے متن کے معنی ایک سے زيادہ نہ ہوں۔


ظاہر

وہ روایت جس کے متن کے معنی میں مختلف احتمالات دیئے جاتے ہیں لیکن ایک معنی زیادہ محتمل ہو جو درحقیقت کہنے والے کا مطمع نظر ہے۔


مُؤَوَّل

یہ وہ روایت ہے جس کے متن کے معنی میں مختلف احتمالات دیئے جاتے ہیں لیکن ایک معنی زیادہ محتمل ہے لیکن قرائن و شواہد کی روشنی میں ایسے معنی مراد ہیں جو ظاہری معنی سے مختلف ہیں۔


متشابہ یا مُجْمَل

مشابہ یا مجمل وہ روایات ہے جس متن کے معنی میں مختلف احتمالات دیئے جاتے ہیں لیکن کسی معنی کو دوسرے پر ترجیح و تقدم دینا ممکن نہیں ہے چنانچہ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ بولنے والے کا مقصود کیا ہے۔[13]۔[14]۔[15]


مشہور

مشہور وہ حدیث ہے جو محدثین کے ہاں رائج، مشہور اور جانی پہچانی ہو جیسے "إنَّمَا الاَعمَالُ بِالنِّياتِ" (اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے)۔


شاذ و نادر

وہ خبر جس کا مضمون حدیث مشہور کے خلاف ہو۔


مُکاتَب

مکاتب وہ حدیث ہے جس کو راویوں کے آخری طبقے کا راوی معصوم کی تحریر دیکھ کر نقل کرے؛ خواہ معصوم نے اس کو ابتدائی طور پر تحریر فرمایا ہو خواہ کسی سوال کے جواب میں مرقوم فرمایا ہو۔ بعض علماء کی رائے کے مطابق حدیث مکاتب کو معصوم(ع) کے خط شریف سے مرقوم ہونا چاہئے۔[16]۔[17]
 

حدیث قدسی

وہ روایت جس کا مضمون معصوم پر وحی کے ذریعے نازل ہوتا ہے اور معصوم ان معانی کو بیان کرنے کے لئے الفاظ قرار دیتا ہے؛ اور یہ قرآن کی مانند نہیں ہے جس کا لفظ بھی خدا کی جانب سے رسول اللہ(ص) پر نازل ہوتا ہے اور اس کے معانی بھی اللہ کی جانب سے وحی کے ذریعے نبی(ص) پر اتارے جاتے ہیں۔
روایت پر عمل کے لحاظ سے تقسیم

 حدیث کی حجیت

دینی اعتقادات میں یقین لازم اور ضروری ہے چنانچہ جب تک روایات کے مجموعے سے کسی موضوع پر یقین حاصل نہ ہوا ہو وہ روایت اعتقادات کا معیار اور پیمانہ نہیں ہوسکتا؛ لیکن فقہی فروع کے حصے میں ـ آیات قرآن اور ہمیں موصول ہونے والی قطعی سنت کے پیش نظر ـ خبر واحد پر عمل کرنا لازم ہے بشرطیکہ کہ حجیت کی شرائط کی حامل ہو؛ اور فقہاء ان روایات کی بنیاد پر فتوی دیتے ہیں۔ یعنی آیات و روایات اور معصومین کے اصحاب کی روش کو مد نظر رکھ کر ہم اس یقین تک پہنچے ہیں کہ فروع دین میں ہمارا فرض ان روایات کے مضمون پر عمل کرنا ہے جن کی سند صحت کے معیاروں کے مطابق ہو یا معصوم سے اس کے صدور پر ہمیں یقین حاصل ہوچکا ہو۔

ممکن ہے کہ ایک حدیث (گرچہ سند کے لحاظ سے صحیح ہو) لیکن مضمونِ قرآن یا سنت قطعیہ یا اجماع کے ساتھ مغایرت کی وجہ سے یا اس کے مضمون سے علماء کی اکثریت کی روگردانی کی بنا پر، یا سند اور متن کے لحاظ سے زيادہ قوی حدیث کے ساتھ اس کے تضاد کے بموجب، ٹھکرا دی جائے۔


مقبولہ

مقبول یا مقبولہ وہ حدیث ہے جو سند کے لحاظ سے صحیح شمار نہ کی جاتی ہو لیکن قرائن اور شواہد کی بنا پر، علماء نے اس کے مضمون کو قبول کیا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتے آئے ہیں۔


ناسخ و منسوخ

حدیث منسوخ وہ ہے جس میں مندرجہ حکم ناسخ حدیث کے ذریعے اٹھایا منسوخ ہوا ہے۔

----

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

 

  1.  قاسمی، محمد جمال الدین، قواعد التحدیث، ص79۔
  2.  سیوطی، جلال الدین، تدریب الراوی، ص14. بحوالہ شیخ بہائی، مشرق الشمسین۔
  3.  (شیعہ کتب میں وثاقت کی تائید و توثیق کی) یہ اس لحاظ سے ہے کہ بعض (شیعہ) راویوں کی وثاقت پر اہل سنت کی کتب حدیث میں تصریح ہوئی ہے لیکن چونکہ وہ تمام صحابہ کو عادل سمجھتے ہیں ـ نیز دیگر مسائل کی بنا پر ـ یہ توثیق امامیہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔
  4.  شذوذ ثقہ راوی کی کی طرف سے ثقہ راوی کی مخالفت کو کہتے ہیں، یا یہ کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ معتبر راوی یا اپنے برابر کے متعدد ثقہ راویوں کی مخالفت کرے۔
  5.  علت اس پوشیدہ سبب کو کہتے ہیں جو بظاہر بلاعیب حدیث میں موجود ہو۔
  6.  قواعد التحدیث، ص102۔
  7.  وصول الاخیار، ص80۔
  8.  مجروح روایت وہ ہے جس کی راوی کے قول و فعل پر اعتماد نہ کیا جاسکے اور اس کے بارے میں جرح سے متعلق الفاظ استعمال ہوئے ہوں۔
  9.  اصول الحدیث و احکامه، ص77۔
  10.  طریحی، فخرالدین، جامع المقال، ص4۔
  11.  شانه چی، درایة الحدیث، ص63۔
  12.  اصول الحدیث و احکامه، ص96۔
  13.  سبحانی، اصول الحدیث و احکامه،ص81۔
  14.  سبحانی، وہی ماخذ ،ص92۔
  15.  مدیر شانه چی، درایة الحدیث، ص73۔
  16.  سبحانی، اصول الحدیث و احکامه، ص92۔
  17.  مدیر شانه چی، درایة الحدیث، ص64۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک