امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ہم شیعیان اہل بیت جعفری کیونکر ہوئے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ہم شیعیان اہل بیت جعفری کیونکر ہوئے؟
کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کو یہ سوال پیش نہ آیا ہو کہ ہم شیعیان اہل بیت کو جعفری کیوں کہا جاتا ہے؟ امام صادق (علیہ السلام) ہمارے چھٹے امام ہیں تو پھر ہمارے مذہب کو بارہ ائمہ طاہرین کے درمیان امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے کیوں نسبت دی جاتی ہے؟ ہمارے مذہب کو علوی، حسنی، حسینی، سجادی یا باقری یا کاظمی اور رضوی کیوں نہیں کہا جاتا؟ ان سوالات کا مختصر جواب ملاحظہ ہو:
ـ ابنا ـ کے مطابق، اہل علم و دانش کے درمیان نظریہ سازی اور علمی و ثقافتی میدان میں آراء و نظریات کا تقابل ہمیشہ بہترین افکار کے احیاء اور ابقاء کا سبب رہا ہے۔ ہر نظریہ صرف اس وقت سابقہ نظریئے کا متبادل بن سکتا ہے جب وہ بنی نوع انسان کو بہتر تعلیمات کا تحفہ پیش کرسکے ورنہ تو اس کا خیرمقدم نہیں ہوگا۔ عظیم فکری مکاتب کو ان خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے تا کہ انسانوں کے دلوں میں جڑ پکڑ سکیں۔

جاہلی عرب معاشرے کی نسبت مکتب اسلام کی کامیابیوں کا راز بھی یہی ہے کہ جاہلی دور کا معاشرہ جن چیزوں سے وابستہ ہوچکا تھا اور جاہلی معاشرے کے افراد جن اصولوں کو فردی اور معاشرتی رویوں کی بنیاد قرار دے چکے تھے، اسلام نے معاشرے کو ان سے کہیں بہتر اصول عطا کئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی دعوت کے دوران ماضی کی پسندیدہ روایتوں کو قبول فرماتے اور غلط اصولوں اور اقدار کی نفی کرتے تھے اور ساتھ ہی متبادل اصولوں کو بھی متعارف کراتے تھے تاکہ آپ کے پیروکاروں کو کسی قسم کا خلا محسوس نہ ہو۔

 شاید تاریخ کے کئی مصلحین کی فردی اور معاشرتی ناکامیوں کا راز یہی تھا کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ مثال کے طور پر ایران کی معاصر تاریخ میں بپا ہونے والے آئینی انقلاب اور اسلامی انقلاب میں علمائے اعلام کا کردار بنیادی تھا لیکن آئینی انقلاب میں علماء اپنا کردار آخر تک ادا نہیں کرسکے جبکہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے پہلوی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

سبب، وہی شہنشاہیت کا متبادل تھا جو امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کے پاس تھا اور آئینی انقلاب میں شریک علماء کے پاس متبادل نہیں تھا۔ یہی ہے ہر سیاسی، فکری اور اصلاحی تحریک کا انجام؛ جو صرف سابقہ اقدار کی تبدیلی تو چاہے مگر اس کے پاس کوئی متبادل نہ ہو؛ اور اگر متبادل ہو تو یقیناً ایسی تحریک انجام بخیر ہوگی۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے شیعہ تحریک کے ارتقائی سفر میں دوسرا قدم اٹھایا تھا۔ آپ کا زمانہ وہ تھا جب لوگ سابقہ ائمہ (علیہم السلام) کی کوششوں کے نتیجے میں سرکاری مکاتب کی عدم صحت سے واقف ہوچکے تھے اور اس مکتب سے مشتق ہونے والے افکار اور ان پر استوار سیاسی تحریکوں کی حقیقت کا ادراک کرچکے تھے اور اب انہیں اہل بیت (علیہم السلام) کے متبادل منصوبے کا انتظار تھا اور امام صادق (علیہ السلام) وہی امام معصوم ہیں جنہیں ایک منفرد تاریخی موقع ملا اور عین موقع پر "تشیّع کا متبادل منصوبہ" امت کے سامنے رکھا اور بعد کے ائمہ (علیہم السلام) نے اس کے بعض پہلؤوں کی تشریح فرمائی۔

امام صادق (علیہ السلام) کا دور امامت 114ھ سے 148ھ تک رہا۔ (1) یہ دور تاریخ اسلام کا نہایت بحرانی دور تھا؛ اس عرصے میں 100 سالہ اموی سلطنت زوال پذیر ہورہی تھی اور 500 سالہ عباسی سلطنت کا آغاز ہورہا تھا۔ نئے حکمرانوں کی زیادہ تر قوت اپنے اندرونی مخالفین کی سرکوبی پر صرف ہورہی تھی۔ مثال کے طور پر سنہ 132ھ میں عباسی سلطنت کا باضابطہ آغاز ہؤا لیکن سنہ 137ھ تک عباسی حکمران اپنے ہی سپہ سالار ابو مسلم خراسانی کی ہیبت سے مرعوب تھے۔ اور جب تک کہ انھوں نے مکر و فریب کے ذریعے اس کو ٹھکانے نہیں لگایا عباسی قبیلے کو چین نہ آسکا۔ (2) اور امام صادق (علیہ السلام) نے اسی صورت حال سے پیدا ہونے والی حالات میں نظام تشیّع کی فکری بنیادیں استوار کردیں اور متبادل شیعہ نظریہ امت کے سامنے رکھا۔

اس سے تقریباً 113 سال قبل آپ کے جد امجد (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک انتہائی دن کو، اپنے آخری حج سے واپسی کے وقت، غدیر خم کی تپتی ہوئی زمین پر، اللہ کے حکم سے اپنی جانشینی کا عہدہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے سپرد کیا۔ اور شیعہ و سنی مآخذ کے مطابق لوگوں سے اس سلسلے میں بیعت لی۔ (3) لیکن کچھ صحابہ نے اللہ کے فرمان اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اعلان کو اپنی کچھ وجوہات کی بنا پر تسلیم نہیں کیا؛ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد ان حضرات نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اجلاس منعقد کرکے امت کو نئے راستے پر گامزن کردیا۔ کچھ مہاجر صحابی، آپس میں بھی اختلاف سے دوچار ہونے کے باوجود کچھ انصاری صحابیوں کے مد مقابل پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قرابت داری کو دستاویز بنا کر خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے؛ (4) اور اسے انصار کا حق نہيں سمجھتے تھے۔ اور اس کے باوجود، کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) قرابت کے لحاظ سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سب سے زیادہ حقیقی قرابتدار تھے، ان حضرات نے اپنی قریشیت کو قرابت داری کا عنوان دیا اور اس حقیقی قرابت کا انکار کرتے ہوئے قبل از اسلام کی قبائلیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بہانہ بطور دستاویز پیش کیا کہ "عرب بنی ہاشم کو حد سے زیادہ رعایتیں دینے کو تیار نہیں ہے، اور چونکہ اس سے قبل نبوت بنی ہاشم کو ملی تھی (5) لہٰذا خلافت قریش کی دوسری شاخوں کو سونپ دینا چاہئے"؛ اور یوں وہ اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔ (6)

غدیر میں ابلاغ کردہ آسمانی انتظام کے مقابلے میں اس زمینی تدبیر کے ساتھ ہی امت مسلمہ میں سیاسی اقتدار کا الٰہی سلسلہ بدل کر زمینی بن گیا اور سال و ماہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اس تدبیر کے نتائج اور ثمرات بھی ظاہر ہوتے رہے؛ یہاں تک کہ سنہ 35ھ میں ـ جب خلافت کو زمینی عہدہ بنانے کے رجحان کے نتیجے میں کچھ انحرافات ظاہر ہونے لگے تھے اور امت مسلمہ ان انحرافات کو دیکھ رہی تھی جن کی وجہ سے ایک بغاوت کی کیفیت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں سقیفہ کے متعارف کردہ قاعدے کی اساس پر بننے والے تیسرے خلیفۂ مسلمین کو قتل کر دیا گیا۔ (7)

ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی تین جنگوں (8) سے معلوم ہؤا کہ امت اسلامیہ کو کتنے گہرے بحران کا سامنا تھا! ایسا بحران جو خلافت کے انحراف اور خلافت کی ملوکیت میں تبدیلی کا باعث بنا اور قبیلۂ بنی امیہ ـ جو مسلمانوں کے درمیان اپنی منزلت کھو چکا تھا ـ اور مسلمانوں کے درمیان "طلقاء" (یعنی فتح مکہ کے دوران رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے آزاد کردگان) کے نام سے مشہور تھا، (9) سیاسی موقع پرستی کا سہارا لے کر برسر اقتدار آیا اور اپنی 90 سالہ ملوکیت کی بنیاد رکھی۔ امویوں کی عرب نسل پرستی پر مبنی شہنشاہیت کی وجہ سے عالم اسلام میں بھی انہیں وقتاً فوقتاً شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور تاریخی تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق اس خاندان کے زوال کے اسباب میں اس کی عرب نسل پرستی بھی بہت اہم تھی۔ (10)

اموی ابتدائے اسلام سے اپنے ناقابل فخر ماضی کی بنا پر، خاندان رسالت، بنی ہاشم اور علویوں کو اپنا سب سے بڑا اور سنجیدہ رقیب سمجھتے تھے اور ان کی قدر گھٹانے اور کردار کشی کے لئے ہر قسم کے حربے بروئے کار لاتے تھے۔ انہوں نے اسی سلسلے میں حدیث ساز افراد بھرتی کئے اور بے شمار احادیث وضع کرائیں تاکہ بنی ہاشم کے تابناک ماضی کو مکدر اور تاریک بنا کر پیش کرسکیں؛ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا تعلق اسی خاندان سے تھا اور اسلام کی عظمت اور سربلندی کے لئے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے بھی اس خاندان کی عالمی شہرت میں چار چاند لگ چکے تھے۔

حدیث ساز تنخواہ خواروں نے ابتداء میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی مذمت میں حدیثیں وضع کیں، (11) اور دوسرے مرحلے میں انہوں نے خلفائے ثلاثہ اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے باہمی اختلاف کو سامنے رکھ کر تمام تر اخلاقی محاسن کو آپ کے مخالفین سے نسبت دی اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے فضائل میں واردہ احادیث کے مقابلے میں احادیث گڑھ کر آپ کے مخالفین کے کھاتے میں ڈال دیں۔ (12) تاکہ جن جن فضیلتوں کی بنا پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) دوسروں سے ممتاز تھے، وہ فضیلتیں بالکل معمولی اور عام سی نظر آئیں اور آخرکار امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کر بھی صرف ایک عامی صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرح متعارف کرایا جاسکے، نہ یہ کہ ان سے افضل و برتر ہوں اور خلیفہ کے عنوان سے بھی دوسرے خلفاء کی طرح نظر آئیں اور کچھ اس طرح سے جتایا جائے کہ آپ حتی کہ "چالاکانہ سیاست" ـ جو کہ مکاری، حیلہ گری اور دھوکے اور فریب سے عبارت تھی ـ کا ادراک بھی نہیں رکھتے ہیں! (13)

امویوں نے یہیں توقف نہیں کیا بلکہ فرمان عام جاری کیا کہ ائمۂ جمعہ و جماعت اور اہلیان محراب و منبر خطبوں کے ضمن میں اور ہر نماز کے بعد (معاذ اللہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اس بھائی پر سبّ و لعن کریں اور آپ سے بیزاری کا اظہار کریں (14) اور یہ حکم عمر بن عبدالعزیز کی مختصر مدت حکمرانی (سنہ 99 تا 101ھ) تک نافذ رہا۔ (15)

یہ امر قابل توجہ ہے کہ ایمان ابو طالب (علیہ السلام)، ـ جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے والد ماجد اور محسن رسالت و اسلام ہیں ـ کا مسئلہ اسی دور میں اٹھایا گیا اور بعد میں یہی مسئلہ شیعہ اور سنی کے درمیان اہم اختلافی موضوع بن گیا اور فریقین نے اس کے بارے میں متعدد کتابیں تألیف کیں۔ (16) یہ مسئلہ اسی لئے اٹھایا گیا کہ ابوسفیان فتح مکہ تک کافر تھا اور اس نے فتح مکہ کے بعد بہ امر مجبوری اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور اب باپ کے کرتوت چھپانے کے لئے معاویہ نے یہ ہتھکنڈہ استعمال کیا تھا۔ یہاں تک کہ امویوں نے اصحاب کے حوالے سے روایات کڑھ کر حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کو بہتان کا نشانہ بنایا، اور ایک محقق کے مطابق، اگر حضرت ابو طالب (علیہ السلام) امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کے والد نہ ہوتے تو ہرگز ہرگز اس یلغار کا نشانہ نہ بنتے۔ (17) علاوہ ازیں، سماجی میدان میں، امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے بہت سارے محبین کو انتہائی سطحی سے گمان کی بنا پر گرفتار اور قتل کیا جاتا تھا۔ (18) اور پھر امام حسن (علیہ السلام) کی جبری صلح کے بعد بھی معاویہ نے علویوں اور شیعیان اہل بیت کو سیاسی اور سماجی میدان سے حذف کرکے رکھ دیا۔ (19) بہرحال امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام)، امام معصوم تھے چنانچہ آپ نے اپنی کیاست سے صلح نامے میں ایسے نکات مندرج کئے تھے جن کی روشنی میں معاویہ کا اصل چہرہ معاشرے کے سامنے بے نقاب کیا جا سکتا تھا۔

ان نکات میں "شیعیان امیرالمؤمنین کی ایذا رسانی کی ممانعت"، اور "اپنے بعد جانشین کا عدم تعین" بھی شامل ہیں؛ یہ وہ دو اہم نکات تھے جنہیں معاویہ نے اعلانیہ طور پر پامال کیا اور یوں معاویہ کی حقیقت امت مسلمہ پر عیاں ہوئی۔

بطور مثال، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے نامی گرامی صحابی "حجر بن عدی" کو معاویہ کے حکم پر گرفتار کرکے شہید کیا گیا تو عالم اسلام میں معاویہ کے خلاف، مخالفت اور احتجاج کی لہر دوڑ گئی؛ اور امام حسین (علیہ السلام) نے بھی معاویہ کے ارسال کردہ خط کا تند اور تلخ جواب دیا۔ (20)

پھر جب معاویہ نے کچھ صحابیوں اور صحابیات کو قتل کرکے اپنے فاسق و فاجر بیٹے یزید [بن معاویہ] کو جانشین بنایا تو مسلمانوں نے وسیع پیمانے پر منفی رد عمل ظاہر کیا، لیکن معاویہ نے - عالم اسلام میں اور امت مسلمہ میں امام حسین (علیہ السلام) جیسی شخصیت کے ہوتے ہوئے - قتل اور دھونس دھمکی اور شمشیر و سناں کے ذریعے یزید کے لئے بیعت لی۔ (21) معاویہ نے یزید کو امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ رواداری کی ترغیب دلائی۔ (22) لیکن جیسا کہ تاریخ جانتی ہے، یزید نے باپ کی یہ بات نہیں مانی۔

یہ سنہ 60ھ کا زمانہ تھا؛ معاویہ کی سلطنت کے آخر میں اور اس کے بعد بھی یہ تصور پیدا ہؤا تھا کہ گویا شیعہ امامت ناپید ہونے جا رہی ہے۔ امام حسین (علیہ السلام) کو ایسی صورت حال کا سامنا تھا کہ ایک طرف سے جزیرہ نمائے عرب سے باہر مسلمانوں کی فتوحات کا دور دورہ تھا اور اندرونی سطح پر ان فتوحات کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی تھی (23) اور دوسری طرف سے نیا "خلیفہ!" یزید بن معاویہ سماجی سطح پر غیر مقبول تھا اور بہت سے مسلمان اور صحابہ و تابعین اس کی دینداری کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ابو ایوب انصاری جیسے صحابہ اس کی قیادت میں کفار کے خلاف مسلمانوں کی جنگ میں شرکت کو اپنا فریضہ نہیں سمجھتے تھے اور انھوں نے کفار کے خلاف ایک جنگ کے دوران سنا کہ مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار یزید ہے تو جنگ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ (24)

امام حسین (علیہ السلام) ان حالات کا پورا ادراک رکھتے تھے اور اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ "خلافت بنی امیہ کے ہاتھوں میں ملوکیت (اور سلطنت) میں تبدیل ہوئی ہے اور وہ اپنی حکومت کو قانونی صورت دینے کے لئے ہر اوزار اور ہر وسیلے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، حتیٰ کہ دین اسلام کو بھی اپنے مقصد کے لئے اوزار بنائے ہوئے ہیں"۔ چنانچہ آپ پیغمبر خدا اور اسلامی حکومت کے بانی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرزند کی حیثیت سے، اپنی ذاتی شرعی اور قانونی حیثیت کی رو سے، امویوں کی خودساختہ قانونی حیثیت کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے اور اصلاح امت کی تحریک کا آغاز کیا، اور یہی آن جناب کا اصل مقصد تھا۔ (25)

آمام حسین (علیہ السلام) لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے اپنی نسبت و قرابت کی یاد دہانی کرا سکتے تھے اور اس نسبت و قرابت اور اسلام و امت میں اپنی حیثیت اور اپنے خاندان کے کردار سے استناد کر سکتے تھے جیسا کہ یزید کی طرف سے بیعت کی درخواست آنے پر آپ نے فرمایا:

"مِثْلِي لَا يُبَايِعُ مِثْلَهُ؛ مجھ جیسا (نسبی شرافت کا مالک اور اسلام میں بنیادی کردار کا حامل شخص)  یزید جیسے شخص کے ہاتھ پر ہرگز بیعت نہیں کرے گا"۔ (26) اور یوں آپ نے ایک ابدی ضابطہ دیا جو ایک کسوٹی کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور ہر شخص اپنے آپ کو اس پر پرکھ کر دیکھ سکتا ہے کہ "حسین جیسا ہے یا پھر یزید جیسا"۔

امام حسین (علیہ السلام) کی تحریک اور شہادت کا اہم ترین نتیجہ یہ رہا کہ عوام کے درمیان امویوں کی سماجی آبرو اور جعلی دینی تصویر، مکمل طور پر مٹ گئی۔

امام حسین (علیہ السلام) نے امت مسلمہ کو بتا دیا کہ بنی امیہ کے دینداری کے دعوے جھوٹے ہیں، یہاں تک کہ وہ آیت تطہیر، (27) آیت مباہلہ، (28) اور آیت مودت (29) کے مصداق اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و و آلہ) کی دسوں حدیثوں کی گواہی کے مطابق بے شمار فضائل کے مالک ریحانۃ الرسول (30) امام حسین (علیہ السلام) کو قتل کرکے خاندان رسالت کو اسیر کر سکتے ہیں! (31)

امام نے ایک بڑا "نہیں" کہہ دیا اور امویوں کی جڑوں میں موجودہ منافقت کو بے نقاب کرکے رکھ دیا اور مسلمانوں پر واضح کیا کہ وہ واحد شیئے جس کے بارے میں اموی - حتیٰ کہ - سوچتے بھی نہیں ہیں، وہ اللہ کا دین ہے؛ اور وہ اسلام کے مسلّمہ احکام اور تعلیمات کو تحفظ اقتدار کی خاطر پاؤں تلے روندنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہ رویہ خاندان رسالت کے ساتھ امویوں کے برتاؤ سے بطور اتمّ ثابت ہوتا ہے۔ (32) اور ریاکاری اور منافقت کے نقاب میں چھپا ہؤا یہ اموی چہرہ مدینہ کے عوام کے قتل عام اور ان کی نوامیس نیز حرم نبوی کی توہین اور بیت اللہ الحرام اور خانۂ کعبہ کے انہدام کے ساتھ مکمل طور پر بے نقاب ہو گیا۔ (33) امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کے اثرات اتنی تیزی سے نمودار ہوئے کہ سنہ 64ھ میں یزید بن معاویہ کی ناگہانی ہلاکت کے بعد اس کے بیٹے معاویہ بن یزید نے صرف 40 دن تک حکومت کی اور دمشق کے منبر پر بیٹھ کر اعلان کیا کہ "میرا باپ بھی غاصب تھا اور دادا بھی، اور میں حکومت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں"۔ (34) یوں سفیانی امویوں کا تاج و تخت مروانی امویوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور مروان بن حکم نے [آٹھ مہینوں تک] اقتدار سنبھالے رکھا۔ (35)

لیکن یہ ابھی ابتدائی نتائج تھے اور مسلمان آہستہ آہستہ جان گئے کہ امویوں نے ان کو کس حال میں رکھا ہے اور خود کیا کرتے رہے ہیں! چنانچہ انقلابات اور بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہؤا۔ سنہ 65ھ اور سنہ 66ھ میں توابین نے امام حسین (علیہ السلام) کے خون کا بدلہ لینے کے لئے امویوں کے خلاف قیام کیا (36) اور سنہ 67ھ میں مختار بن ابی عبیدہ ثقفی نے قیام کیا، عراق پر اموی حکمرانی کا خاتمہ کیا اور امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب و انصار کے قاتلوں سے قصاص لیا۔ (37) نیز خوارج کے دو دھڑوں نے بھی حالات کا فائدہ لے کر، عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں خروج کیا اور ان کی بغاوت کی وجہ سے، حالات کا رخ آل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حق میں ہو گیا۔ (38)

یہ صورت حال جاری رہی، یہاں تک کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) پر سبّ و لعن کی مشرکانہ اور کافرانہ روایت - جس کی بنیاد معاویہ بن ابی سفیان نے رکھی تھی - کی منسوخی کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور بنی امیہ کے واحد نیک بادشاہ عمر بن عبدالعزیز نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں ایک حکم نامے کے ذریعے سب و شتم امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ممنوع قرار دیا؛ اور فدک کی جاگیر جناب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وارثوں کے سپرد کر دی۔ (39)

بنی امیہ کی حکمرانی کا سورج ڈوبنے لگا اور عباسیوں نے قیام کا آغاز کیا تو واضح ہؤا کہ امام حسین (علیہ السلام) کے خونی قیام کے نتائج آنا شروع ہوئے ہیں اور اقتدار کی رسہ کشی کے لئے میدان میں اترنے والی دو جماعتوں [اموی اور عباسی] کے درمیان چپقلش نے حالات سازگار کر لئے ہیں جن سے بہترین فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین (علیہ السلام) کے بعد ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خاندان ـ بنی ہاشم پر کیا گذری؟:

بنی ہاشم کے درمیان اختلاف ـ شاید ـ امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد سے شروع ہؤا تھا؛ جب کچھ لوگ "کیسانیہ" کے عنوان سے محمد بن حنفیہ (فرزند امیر المؤمنین) کی امامت کے قائل ہوئے۔ جو امام زین العابدین (علیہ السلام) کے چچا اور عمر کے لحاظ سے آپ سے بڑے تھے۔ وہ ایک علوی عالم اور عوام کے درمیان مقبول اور قابل احترام تھے۔ (40) مختار کہتے تھے کہ انھوں نے محمد حنفیہ کی اجازت سے قیام کیا ہے۔ محمد (41) حنفیہ سنہ 81ھ میں وفات پا گئے۔ (42) اور کچھ لوگ ان کے بیٹے ابو ہاشم کی طرف گئے اور ان کی امامت کے قائل ہوئے۔ ابو ہاشم سنہ 99ھ تک زندہ رہے اور بنی عباس کی جعل کردہ روایت کے مطابق، چونکہ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی چنانچہ انھوں نے امامت کا عہدہ محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کے سپرد کیا! (43) اور یوں [عباسیوں کے بقول] امامت بنی ہاشم سے بنی عباس کو منتقل ہوئی۔ (44)

عباسیوں نے "اَلرّضا مِنْ آلِ مُحمّدٍ" کا ریاکارانہ نعرہ لگا کر اپنی دعوت کو وسعت دی اور وہ "ابراہیم امام" کے حکم پر اپنی تحریک کے زعیم کا نام صیغہ راز میں رکھتے تھے۔ (45) عباسیوں نے "آل محمد" کا عنوان ـ جو درحقیقت علویوں کے لئے مختص تھا ـ اپنے مفاد کے لئے مؤثر انداز سے استعمال کیا۔ ابراہیم امام کے جائزے کے مطابق، ایرانی اقوام بھی امویوں کے خلاف قیام میں ان کا ساتھ دینے کے لئے آمادگی رکھتی تھیں، کیونکہ عباسی آل محمد کا نعرہ لگا رہے تھے اور ایرانی اہل بیت (علیہم السلام) کے شیدائی تھے۔ (46) حقیقت یہ ہے کہ عباسیوں نے ایک متوازی تحریک کا آغاز کرکے مسلمانوں کو ورغلایا تھا۔ کچھ بزرگان جو آل محمد کے نام پر شروع کی جانے والی عباسی تحریک کا ساتھ دے رہے تھے، بشمول ابو سلمہ خلال، عباسی فریب سے آگاہ ہوئے؛ وہ صرف علوی خلافت کے حامی تھے، چنانچہ عباسیوں نے انہیں قتل کر دیا۔ (47)

اس سے پہلے امویوں کے زمانے میں زید بن علی بن الحسین (علیہ السلام) نے اموی خلافت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور احناف کے امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کابلی نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی "عزیمت بدر" سے تشبیہ دی (48) ـ تو بعض روایات کے مطابق ـ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ان کی تحریک کی مخالفت کی؛ (49) اور یہ امکانی مخالفت بھی شاید اس وقت کے غیر موزون حالات کا زائیدہ تھی؛ اور اتفاق سے عباسیوں نے اس قیام سے زبردست فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ وہ اس سے قبل زید کی تحریک کے خلاف تھے۔ یہاں تک کہ ابراہیم امام نے خراسان میں شہید یحییٰ بن زید کے مزار کو اپنے اثر و رسوخ کا مرکز قرار دیا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یحییٰ بھی عباسیوں کی خفیہ ترغیب پر والد کے خون کا بدلہ لینے کے لئے خراسان چلے گئے ہوں۔ اس امکان کو کسی طور پر بھی نظر سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ کیونکہ سنہ 126ھ میں، خراسان میں یحییٰ بن زید کی شہادت عباسیوں کی بغاوت اور امویوں کی شکست میں بہت مؤثر رہی ہے۔ (50)

عباسی بر سر اقتدار آئے تو امت مسلمہ کو نئے حالات کا سامنا کرنا پڑا؛ 90 سالہ اموی سلطنت کی عمارت ڈھیر ہو گئی اور اس خالص ملوکیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہؤا ـ جو 500 سال تک جاری رہا ـ وہی ملوکیت جس کی بنیاد معاویہ بن ابی سفیان نے رکھی تھی۔ تاہم عباسیوں کا متوازی کردار بہت اہم تھا؛ وہ خاص تاریخی حالات میں، مقدس اسلامی مفاہیم بالخصوص "خاندان رسالت" کے عنوان سے ناجائز فائدہ اٹھا کر، برسراقتدار آئے تھے۔

بنی عباس ان حالات میں فطری طور پر علویوں کے بڑے اور اہم نمائندے کی طرف سے کسی غیر سنحیدہ رد عمل کی توقع رکھتے تھے؛ جیسا کہ تاریخ نے، سنہ 145ھ میں محمد نفس زکیہ کی تحریک میں دیکھا اور منصور دوانیقی نے اس غیر سنجیدہ اور جذباتی اقدام سے بنی عباس کے حق میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام)، جو انتہائی غور کے ساتھ سماجی حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے، اپنے زمانے کے سیاسی ماحول کو اعلانیہ سیاسی تحریک کے لئے مناسب نہیں گردانتے تھے۔ اسلامی معاشرہ اس دور میں، فکری ڈھانچے کے فقدان سے دوچار تھا؛ ورنہ تو یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ ابو مسلم خراسانی جیسے لوگ کسی بھی لحاظ سے امام کی برابری نہیں کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اہل بیت (علیہ السلام) کے نام پر لوگوں سے بیعت لی۔

ابو مسلم خراسانی نے اہل بیت (علیہم السلام) کا نام لے کر قیام کیا تھا لیکن اپنی تحریک کے راستے میں اہل بیت (علیہم السلام) کے احکامات کو ملحوظ نہیں رکھتا تھا۔ وہ اہل بیت (علیہم السلام) کے نام کے نعرے لگاتا تھا اور کہتا تھا کہ "میں اہل بیت (علیہم السلام) کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں"۔ (51)

ابو مسلم نے بنی امیہ اور بنی مروان کے خلاف علم بغاوت اٹھایا تھا۔ اس نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور کروایا لیکن نتیجہ بنی عباس کی حکمرانی کی صورت میں برآمد ہؤا، اور بنی عباس نے امویوں سے بھی بڑھ کر اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے ساتھ ظلم و جبر روا رکھا؛ اور اپنے محسن ابو مسلم خراسانی کو بھی قتل کر دیا۔

ابو مسلم نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے نام خط لکھا اور کہا: "ہم آپ کے لئے طاقت فراہم کر رہے ہیں: "إِنِّي دَعَوْتُ النَّاسَ إلى مُوَالاةِ أَهْلَ الْبَيتِ فَإِنْ رَغِبْتَ فِيهِ فَأنا أُبَايِعْكَ؛ یقیناً میں نے لوگوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف بلایا، اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ساتھ بیعت کرتا ہوں"۔ (52)

امام صادق (علیہ السلام) نے مختصر مگر بہت گہرا جواب دیا اور فرمایا: "مَا اَنْتَ مِنْ رِجَالِي وَلَا الزَّمَانُ زَمَاني؛ نہ تم میرے آدمی ہو اور نہ ہی وقت میرا وقت ہے"۔ (53)

جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم "کسی بھی  روش سے فراہم کردہ طاقت و اقتدار" کو قبول نہیں کرتے اور ہر وسیلے سے حاصل ہونے والے اقتدار کو جائز نہیں سمھجتے۔ دوسرے لفظوں میں "نیک مقصد غلط ذرائع سے حاصل کرنا، جائز نہیں ہے"۔

ابو مسلم خراسانی کے خط پر امام کا رد عمل ان حقائق کا ثبوت ہے۔ بہرحال یہ واضح ہے کہ اسلامی معاشرے کو فکری خلا کا سامنا تھا، تو سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں انہیں کیا کرنا چاہئے؟

آپ کے جد امجد امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی عظیم قربانی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ خاندان رسالت کی طرف مبذول کرا دی تھی اور امام صادق (علیہ السلام) کے زمانے میں ایسی حکومت بر سر اقتدار آئی تھی جو "الرضا من آل محمد" کا نعرہ تو لگا رہی تھی لیکن حصول اقتدار کے فوراً بعد حقیقی آل محمد کو منظر سے ہٹا لیا تھا اور "لوگوں نے بھی اس صورت حال کو قبول کر لیا تھا"؛ وہی سلوک جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے دن پیش آیا، اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کاغذ و دوات منگوانے پر آپ پر بہتان لگایا گیا اور حاضر مسلمان خاموش رہ گئے اور پھر یہ رویہ "ذو القربیٰ" کی یکے بعد دیگرے شہادتوں کی صورت میں رونما ہوتا رہا، بیت فاطمہ (سلام اللہ علیہ السلام) سے مسجد کوفہ تک، جوانان جنت کے سرداروں اور ان کے بعد آنے والے آئمہ کی شہادت پر منتج ہؤا؛ حکومتیں قتل کرتی رہیں اور عوام خاموش ہوتے رہے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سمیت خاندان رسالت کو ایک بار پھر اسی غیر تحریری قاعدے کے مطابق، ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا اور عوام نے بھی یہ سب قبول کر لیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں یک عجیب تغیر اور تَلَوُّن اور رنگ برنگی کی مسلسل کیفیت کے اسباب کیا ہو سکتے تھے؟

اس اندھیری صورت حال میں ـ جن میں اہل سنت کے مذاہب یکے بعد دیگرے منظر عام پر آ رہے تھے ـ کون سی چیز مذہب تشیّع کو کو مستحکم اور استوار رکھ سکتی تھی؟ کون سی چیز معاشرے کی تہذیب و ثقافت میں رسوخ کرکے اسے دگرگوں کر سکتی تھی؟

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ـ جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا گیا ـ ایک مکتب کی تشکیل، جس کا پہلا قدم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دعوت ذوالعشیرہ کے دن (54) اٹھایا تھا، کا دوسرا قدم امام صادق (علیہ السلام) نے اٹھایا۔ گویا وہ لوگ جو قیام امام حسین (علیہ السلام) اور واقعۂ عاشورا کے اس خاندان کے شیدائی بن گئے تھے، آ کر پوچھتے تھے کہ "اگر اموی بھی نہیں، عباسی بھی نہیں، تو پھر کون؟ اور آپ کے ہاں اسلام کی تفسیر کیا ہے؟ اور آپ کا متبادل منصوبہ کیا ہے؟

شیعہ جعفری کیوں ہیں؟

اس زمانے میں اللہ (یا الوہیت کے تصور)، اللہ کے ساتھ لوگوں کے رابطے، اسلام کے مطلوبہ فرد (اسلامی انسان) کی جامع تشریح و تفسیر، امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی اہم ترین اندیشوں میں شامل تھی؛ معقول اور منطقی عقائد، اخلاقِ حسنہ اور فردی اور اجتماعی احکام و ہدایات (فقہ) وہ اہم ترین مسائل تھے جن میں امام صادق (علیہ السلام) نے دینی افکار کو واضح کیا، اور یوں تشیّع کو ـ بطور مذہب، اور بعنوان "خالص محمد اسلامِ" ـ تشخص ملا اور ہمارا مذہب امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے نام سے مزین ہو کر "مذہبِ جعفری" کہلایا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد، دوسرے خلیفہ کے دور میں، حدیث لکھنے اور نقل کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور حدیث دشمنی کا یہ سلسلہ پوری ایک صدی تک جاری رہا؛ یہاں تک کہ پانچویں امام حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کے زمانے ـ اور اموی حکمران عمر بن عبدالعزیز کے دور ـ میں حدیث کی کتابت پر لگی پابندی کا خاتمہ ہؤا اور چونکہ یہ دور اموی بادشاہت کی کمزوری کا دور تھا اور بادشاہوں کی سیاسی زندگی ایک سال یا چند مہینوں تک پہنچ چکی تھی اور محلاتی تنازعوں میں زبردست اضآفہ ہؤا تھا جو بالآخر اموی-عباسی تنازعے پر منتج ہؤا ـ امام محمد باقر (علیہ السلام) اور آپ کے شاگردوں کے لئے مناسب ماحول فراہم ہؤا، اور آن جناب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اہل بیت (علیہم السلام) سے منقولہ احادیث کو جمع کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور چونکہ اموی اور عباسی تنازعہ امام صادق (علیہ السلام) کے دور میں پورے عروج پر تھا چنانچہ نقل حدیث کا سلسلہ بھی آپ کے زمانے میں عروج کو پہنچا۔ یعنی امام صادق (علیہ السلام) کے دور امامت (سنہ 114ھ - 148ھ) میں تشیّع کی فکری اساس ـ جس کا سنگ بنیاد عصر رسالت میں رکھا گیا تھا اور امیرالمؤمنین، حسنین کریمین اور امام سجاد (علیہم السلام) نے اس کو اپنے زمانوں کے تقاضوں کے مطابق، محفوظ رکھا تھا، ـ کو استحکام ملا۔

اسلامی معاشرے میں عظیم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور سلطنت امویوں سے عباسیوں کو منتقل ہوئی؛ چنانچہ امام صادق (علیہ السلام) نے معاشرے کی ضروریات اور سماجی ماحول کی آمادگی کی رو سے، اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی علمی و ثقافتی تحریک کو جاری رکھا اور عظیم حوزہ علمیۂ [اور دینی مدرسے] کی بنیاد رکھی۔ آپ نے نقلی اور عقلی علوم کے مختلف شعبوں میں ہشام بن حَکَم، محمد بن مسلم، جابر بن حیان سمیت بے شمار عظیم شاگردوں کو تعلیم و تربیت دی اور یہ امر شیعیان آل رسول (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کی اعتقادی بنیادوں کے استحکام اور اس کے فروغ کا سبب بنا۔

چنانچہ اس دور میں اہل تشیّع کا اصل سہارا امام صادق (علیہ السلام) تھے اور شیعہ زیادہ تر روایات و احادیث کو آپ ہی سے اخذ کرتے تھے۔ (55) اور اسی دور میں شیعہ کو تشخص ملا اور مذہب تشیّع باضابطہ طور پر امام جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) کے نام مبارک سے مزیّن ہؤا۔

واضح رہے کہ اسی دور میں اہل سنت کے مذاہب بھی تشکیل پا رہے تھے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ مکتب کا سنگ بنیاد رکھنے میں دوسرا قدم امام صادق (علیہ السلام) نے اٹھایا؛ جبکہ اس مکتب کی تأسیس کا پہلا قدم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اٹھایا تھا ـ اور بعد کے ائمہ (علیہم السلام) نے اس کی پاسداری کی تھی؛ ـ اور امام صادق (علیہ السلام) نے شیعہ فقہ اور عقائد کو فروغ دیا چنانچہ یہ مکتب "جعفری" کہلایا۔

امام صادق (علیہ السلام) کا دور تشیّع کی تحریک اور مکتب کے لئے ایک تاریخی موڑ بھی تھا اور ایک انتہائی حساس دور بھی؛ کیونکہ مختلف مکاتب اور فرقے اسی دور میں تشکیل کے مراحل سے گذر رہے تھے؛ ایک طرف سے اہل سنت کے فقہی مذاہب اور مرجئہ، قدریہ وغیرہ جیسے اعتقادی فرقے، نیز کیسانیہ جیسے ذیلی شیعہ جماعتیں یا تو تشکیل پا رہی تھیں یا پھر تشکیل پا چکی تھیں اور سرگرم عمل تھیں۔ لہٰذا شیعہ تشخص کو واضح کرنے کے لئے، امام صادق (علیہ السلام) کے مکتب کے تربیت یافتگان، اسی نام و عنوان سے مشہور ہوئے، کیونکہ عنوان "شیعہ" کا مفہوم آپ کے دور میں وسیع تر تھا۔

چنانچہ امام صادق (علیہ السلام) نے ـ اپنے دور میں شاگردوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، انہیں مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا، اور اپنے شاگردوں کے توسط سے ـ شیعہ فقہ و عقائد کی تالیف و تصنیف، تبلیغ اور نشر و اشاعت کا انتظام کیا، اور یوں تشیّع کو اپنے ہم عصر فرقوں سے ممتاز بنایا؛ شریعت اسلام اور دین محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہم عصر مذہب تشیّع کو فکری استحکام بخشا؛ اور آپ کے شاگرد "شیعہ امامیہ" اور "شیعہ جعفری" کے نام سے مشہور ہوئے، اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو مذہب جعفری کے رئیس اور بانی کا عنوان دیا گیا؛ اور آپ نے شیعہ امامیہ کی فقہ کو مربوط و مستحکم بنایا۔ (56) دوسرے لفظوں میں، اہل بیت (علیہم السلام) کا مذہب "مذہب جعفری" کے نام سے مشہور ہؤا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی-ابنا-
حوالہ جات:
*۔ قرآن کریم
1- علامہ محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج47، ص6۔
2- الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج6، ص123؛ منشورات مکتبۃ اورمیۃ۔  
3- علامہ عبدالحسین امینی، الغدیر، ج1، ص152 تا 158، طبع دارالکتب العربی لبنان۔  
4- الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج2، ص455۔
5۔ عجب ہے کہ اسلام قبائلیت پرستی کے خاتمے کے لئے آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے 23 سال تک دوران جاہلیت کی قبائلیت پرستی کے خاتمے کی کوشش کی لیکن صورت حال یہ ہوئی کہ آپ کی شہادت کے فورا بعد ارباب حل و عقد کہلوانے والے قبائلیت میں یہاں تک آگے بڑھ گئے کہ دو مہینے قبل کے واقعے اور غدیر خم کے مقام پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی جانشینی کے اعلان اور ان کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو نظر انداز کرکے، نہ صرف ولایت کو ایک دنیاوی عہدے کے درجے تک گرایا بلکہ نبوت کو بھی زمینی موضوع قرار دیا اور ان کے اس موقف سے لگتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حتی نبوت بھی ان ہی حضرات سے اخذ کی تھی ۔۔۔ معاذاللہ
6- رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ص30۔  
7- الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج3، ص399۔  
8- الطبری، وہی ماخذ۔
9- الطبری، وہی ماخذ، ج2، ص520؛ ج3، صفحہ 1 تا 10۔  
10- ڈآکٹر سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، مطبوعہ "نشر دانشگاہی" سنہ 1374 ہجری شمسی، ص200۔  
11- جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ص90-89۔
12- جعفریان، وہی ماخذ، ص92-91۔  
13- امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نہج البلاغہ، خطبہ 118۔  خطبہ نمبر 200 میں آپ نے اس بھونڈے الزام کا جواب دیا اور فرمایا: "وَاللَّهِ مَا مُعَاوِيَةُ بِأَدْهَى مِنِّي وَلَكِنَّهُ يَغْدِرُ وَيَفْجُرُ وَلَوْ لَا كَرَاهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَى النَّاسِ وَلَكِنْ كُلُّ غُدَرَةٍ فُجَرَةٌ وَكُلُّ فُجَرَةٍ كُفَرَةٌ وَلِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يُعْرَفُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّهِ مَا أُسْتَغْفَلُ بِالْمَكِيدَةِ وَلَا أُسْتَغْمَزُ بِالشَّدِيدَةِ؛ خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ چالاک اور زیرک نہیں ہے، لیکن معاویہ غدار اور گناہ پیشہ ہے، اور اگر غداری اور مکاری ناپسندیدہ نہ ہوتی، تو میں زیرک ترین شخص ہوتا، لیکن ہر غدار گاہ ہے، ہر گناہ کفر و انکار ہے، اور روز قیامت مکر برتنے والے ہر غدار کے ہاتھ میں ایک جھنڈا ہوگا، جس کے ذریعے لوگ اسے پہچانیں گے؛ خدا کی قسم! میں کسی کا دھوکہ نہیں کھاتا اور اگر سخت گیری سے عاجز نہیں آتا"۔
14- علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 44، ص 125۔
15- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبّۃ اللہ المعتزلی، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج4، ص56۔  
16- کتاب "ایمان ابو طالب" کی مانند، جس پر علامہ عبدالحسین امینی نے اپنی کتاب الغدیر کی پہلی جلد ص23-24 میں روشنی ڈالی ہے۔
17- علامہ امینی، الغدیر، ج1 تا 10؛ الغدیر کی موضوعاتی فہرست کے صفحہ 48 پر اس سلسلے کے تمام دعؤوں اور جوابات کے تفصیلی حوالہ جات بیان ہوئے ہیں۔
18- ابو الفرج اصفہانی، على بن الحسين، الاغانی، ج16، ص2667۔
19 الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص30، سنہ 40 ہجری کے واقعات؛  شیخ محمد بن محمد مفید، اَلْإرْشاد فی مَعْرفۃِّ حُجَجِ اللہِ عَلَی الْعِباد، ص170۔
20- البلاذری، أحمد بن يحيى، انساب الاشراف، ج2، ص744، ح303۔
21۔ ابن قتیبہ الدینوری، عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ج1، ص175؛ ابن اعثم الکوفی، أحمد، الفتوح، ج4، ص226-225۔  
22- جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ص127۔  
23- الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، سنہ 50ھ سے سنہ 60ھ تک کے واقعات۔  
24- ابن سعدث الطبقات الکبریٰ، ج3، ص485، مطبوعہ دار صادر بیروت۔
25- استاد شہید علامہ مطہری، مرتضیٰ، حماسۂ حسینی، ج3، ص380، مطبوعہ انتشارات صدرا - قم۔  
26- سید بن طاؤس، سید علی بن موسی بن جعفر، اللہوف على قتلى الطفوف، ص23۔
27۔ "اِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهیرًا؛ اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو (اہل بیت رسول کہ تمہیں پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔ (سورہ احزاب آیت 33)
28۔ "فَقُل تَعالَوا نَدعُ أَبناءَنا وَأَبناءَكُم وَنِساءَنا وَنِساءَكُم وَأَنفُسَنا وَأَنفُسَكُم ثُمَّ نَبتَهِل فَنَجعَل لَعنَتَ اللَّهِ عَلَى الكاذِبينَ؛ تو [اے میرے رسول!] کہہ دیجئے [ان عیسائیوں سے] کہ آؤ! ہم بلا لیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے نفسوں [جانوں] کو اور تمہارے نفسوں کو۔ پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر"۔ (سورہ آل عمران، آیت 61)
29۔ "قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی؛ [اے میرے رسول!] کہہ دیجئے [ان مسلمانوں سے] کہ میں تم سے اس [رسالت و نبوت] پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا [میرے اہل خانہ اور] قرابت داروں کی محبت کے"۔ (سورہ شوریٰ، آیت 23)
30۔ عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "إِنَّ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا؛ یقیناً حسن اور حسین دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں"۔ (الترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الکبیر (سنن الترمذی)، دارالغرب الاسلامی، بیروت ـ 1998ع‍، ج6، ص119)۔
31- الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص257-301۔
32- الطبری، وہی ماخذ، ص 368-370۔
33- الطبری، وہی ماخذ، ص 426۔
34- الطبری، وہی ماخذ، همان، ص 487۔
35۔ خلیفہ بن خیاط الاخباری العصفری، التاریخ (یا تاریخ خلیفہ بن خیاط)، ج1، ص320؛ الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج5، ص499؛ المسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، ج3، ص281۔
36- وہی ماخذ، ص 579۔
37- ابن اثیر، علی بن محمد الجزری، الکامل فی التاریخ، ج2، ص225؛ الیعقوبی، احمد بن اسحاق، التاریخ، (یا تاریخ یعقوبی)، ج2، ص305۔
38- جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ص260۔
39- ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج6، ص95؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج5، ص221۔
40- جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ص266-265۔
41- الیعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 250 248؛ انساب الاشراف، ج 4، ص 18۔
42- ایلٹن ڈانیل (Elton L. Daniel فارسی ترجمہ: مسعود رجب نیا)، تاریخ سیاسی و اجتماعی خراسان در زمان حکومت عباسیان (The Political and Social History of Khurasan under Abbasid Rule)، ص28۔
43- ایلٹن ڈانیل، وہی ماخذ، ص46۔
44- وہی ماخذ، ص115-114۔
45۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص80؛ الیعقوبی، التاریخ، ج2، ص297؛ المسعودی، التنبیہ و الإشراف، ص292-293۔
46- شخصیت و قیام زید بن علی، رضوی اردکانی، ص 489-504، مطبوعہ انتشارات علمی فرہنگی۔
47- ڈانیل ایلٹن، تاریخ سیاسی و اجتماعی خراسان در زمان حکومت عباسیان، ص38۔
48- الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 4، حوادث سال 145۔
49۔ ابن بزازی، مناقب ابی حنیفه، ج2، ص15؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص141۔
50- علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 47، ص 200۔
51۔ جعفر مرتضی العاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للإمام الرضا (علیہ السلام)، ص29-43۔
52۔ وہی ماخذ، ص41۔
53۔ وہی ماخذ۔
54۔ ارشاد ہؤا: " وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ؛ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا دیجئے"۔ (سورہ شعراء، ایت 214۔ دعوت ذوالعشیرہ کی تفصیل کے لئے دیکھئے: الطبری، تاریخ الامم والملوک، ج2، ص279۔
55۔ رسول جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص325ـ335۔
56۔ خواجویان، محمد کاظم، تاریخ تشیع، ص78۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تحریر میں ڈاکٹر محمد باغستانی کی تحریر "مذہب شيعہ چرا مذہب جعفری نامیدہ شد (شیعہ مذہب، مذہب جعفری کیوں کہلایا)؟" سے استفادہ کیا گیا ہے۔
ترجمہ و اضافات: فرحت حسین مہدوی

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک