امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ولایت تشریعی

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

معنای ولایت تشریعی

 

ولایت تکوینی اد لنک پر ملاحظہ کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=1556

 

ولایت تشریعی دینی امور میں تشریع یا قانون بنانے کو کہا جاتا ہے۔

ولایت تشریعی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہؐ اور ائمہؑ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے خود شرعی احکام اور قوانین وضع کریں۔ البتہ اس مسئلے میں شیعہ علما کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے: بعض اس کو مانتے ہیں جبکہ بعض اس کا انکار کرتے ہیں اور تشریع کا حق صرف اللہ تعالی کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں۔

ولایت تشریعی کے ایک اور معنی بھی ہیں اور اسے تمام شیعہ علما مانتے ہیں۔ وہ معنی یہ ہیں کہ رسول اللہؐ اور ائمہؑ انسانوں کی جان اور مال پر اختیار رکھتے ہیں اور انکے فرامین کی اطاعت کرنا سب پر فرض ہے۔

حدیث کی کتابوں میں ولایت تشریعی کا پہلا معنی یعنی «دینی امور کا رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کو تفویض کرنا» ذکر ہوا ہے۔

ولایت تشریعی کے دو معنی
شیعہ ادبیات میں ولایت تشریعی کے دو معنی ہیں: پہلا معنی یہ کہ وہ انسان کی جان اور مال پر شرعی حق رکھتے ہیں۔ ولایت تشریعی جب اس معنی میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے لئے استعمال ہوتی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کی جان اور مال پر مکمل اختیار رکھتے ہیں اور ان میں تصرف کرسکتے ہیں؛ مثلا وہ لوگوں کے مال کو بیچ سکتے ہیں اور لوگوں پر ان کی اطاعت فرض ہے۔[1]

ولایت تشریعی کا دوسرا معنی دینی امور میں قانون بنانے کا حق ہے؛ یعنی عبادی، معیشتی، سیاسی اور حقوقی احکام کی تشریع کرنا[2]دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ دینی معاملات سے متعلق کسی بھی موضوع کے بارے میں شرعی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو یعنی یہ کہہ سکیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام.[3] ولایت تشریعی کے یہ معنی «اللہ کی طرف سے رسول اللہؐ اور ائمہؑ کو تفویض کرنا» کے عنوان سے ذکر ہوا ہے.[4]

ولایت تشریعی میں اصل بحث
شیعہ علما ولایت تشریعی کے پہلے معنی کو رسول اللہؐ اور ائمہؑ کے بارے میں مانتے ہیں؛ یعنی سب اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کو لوگوں کی جان اور مال پر اختیار حاصل ہے اور لوگوں کے دینی اور دنیوی معاملات ان کی سرپرستی میں انجام پاتے ہیں۔ لوگوں پر ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ [5]

البتہ ولایت تشریعی کے دوسرے معنی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے؛ یعنی کیا خدا کے علاوہ پیغمبرؐ اور ائمہؑ کو دینی امور تشریع کا حق ہے یا نہیں؟۔ بعبارت دیگر کیا اللہ تعالی نے پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کو دینی امور میں قانون بنانے کا حق دیا ہے یا نہیں؟ اور انہیں یہ اختیار «تفویض» کیا ہے یا نہیں؟۔[6]

تفویض کے معنی میں ولایت تشریعی کے حامی اور مخالف علما
جعفر سبحانی اور صافی گلپایگانی جیسے بعض علما کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی انسان کو شرعی قانون بنانے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ حق اللہ تعالے کے ساتھ خاص ہے اور اللہ نے اس حق کو کلی طور پر کسی کو بھی تفویض نہیں کیا ہے؛[7] بعض روایتوں کےمطابق صرف چند مخصوص موارد میں اللہ نے رسول اللہؐ کو تشریع کی اجازت دی ہے ہم صرف انہی موارد میں رسول خداؐ کی ولایت تشریعی کو مانتے ہیں۔[8] مثال کے طور پر کسی روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے یومیہ نماز کو دو رکعت کی صورت میں واجب کیا ہے؛ لیکن پیغمبر نے ظہر، عصر اور عشا کی نماز میں دو رکعت اور مغرب کی نماز میں ایک رکعت کا اضافہ کیا جسے اللہ تعالی نے منظور فرمایا۔[9]

ان علما کے مقابلے میں غروی اصفہانی، سید جعفر مرتضی عاملی اور حسینی تہرانی جیسے علما اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ دینی تمام امور میں ولایت تشریعی رکھتے ہیں۔[10]

مخالفین کے دلائل
پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کو اللہ کی طرف سے شرعی امور تفویض ہونے کے مخالفین نے درج ذیل دلائل پیش کئے ہیں:

«إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّـہ؛ حکم کرنا اللہ سے مخصوص ہے»[11]
«جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے»[12]
«پس ان کے درمیان جس طرح اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح حکم کرو۔»[13]
امام باقرؑ: «حکم کی دو قسمیں ہیں: اللہ کا حکم اور اہل جاہلیت کا حکم۔»[14][15]
حامیوں کے دلائل
ولایت تشریعی کے موافق اور حامیوں نے بعض ایسی احادیث سے استناد کیا ہے جن میں دینی امور پیغمبراکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کو تفویض ہونے کی بات آئی ہے۔ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ یہ روایات بکثرت اور متواتر ہیں۔[16] ان میں سے بعض روایات درج ذیل ہیں:

امام صادقؑ: «اللہ تعالی نے اپنے رسول کی تربیت اپنی محبت سے کی اور پھر فرمایا: «تم خُلق عظیم پر فائز ہو» اور پھر انہیں تفویض کیا۔۔۔ اور فرمایا: «جو بھی رسول کی اطاعت کرے گویا اس نے مجھ اللہ کی اطاعت کی ہے۔» رسول اللہ نے علی کو تفویض کی اور انہیں امین قرار دیا۔۔۔ ہم تم اور اللہ کے مابین واسطہ ہیں۔ اللہ نے کسی کو بھی ہمارے امر کی مخالفت میں خیر اور اچھائی قرار نہیں دیا ہے۔»[17]
امام صادقؑ: «اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کی تربیت کی اور اچھی تربیت کی اور جب ادب میں ان کو کمال تک پہنچایا تو فرمایا: «یقینا تم خُلق عظیم کے پیکر ہو۔» پھر دین اور امت کے امور ان کے سپرد کیے تاکہ وہ بندوں کےمعاملات کا انتظام و انصرام کرسکے...»[18][19]
تفویض کا مسئلہ احادیث کے مآخذ میں
بعض حدیث کی کتابوں کا کچھ حصہ، رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کو دین کے امور تفویض ہونے کے بارے میں مختص ہے۔ ان میں کلینی کی کتاب کافی میں «امر دین کا رسول اللہ اور ائمہؑ کو تفویض ہونا» کے باب میں دس احادیث نقل ہوئی ہیں۔[20] اسی طرح صَفّار کی کتاب بصائرالدرجات میں دو باب اس مسئلے سے مختص ہیں۔[21]

بعض علما کا کہنا ہے کہ دینی امور کا رسول اللہؐ اور ائمہؑ کو تفویض ہونے سے مراد ولایت تشریعی، یعنی دینی احکام میں تشریع کا حق رکھنا مراد ہے؛[22] لیکن ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بنیادی طور پر اللہ احکام کی تشریع کرتا ہے اور وحی کے ذریعے اسے پیغمبر تک پہنچاتا ہے؛ لیکن بعض احکام کے مصادیق کا تعین پیغمبر اکرمؐ کے ذمے رکھا گیا ہے اور وہ عمل بھی الہام کے ذریعے انجام پاتاہے۔[23]

---

حوالہ جات

  1.  حسینی میلانی، الولایۃ التشریعیہ، 1432ھ، ص49.
  2.  صافی گلپایگانی، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص97.
  3.  سبحانی، ولایت تشریعى و تکوینی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص19.
  4.  ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص348؛عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63.
  5.  حسین میلانی، الولایۃ التشریعیہ، 1432ھ، ص49؛ صافی گلپایگانی، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص105-107.
  6.  ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص348؛ سبحانی، مفاہیم‌القرآن، 1421ھ، ج1، ص610؛ صافی گلپایگانی، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص99، 101؛ غروی اصفہانی، حاشیۃ کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63
  7.  سبحانی، مفاہیم‌القرآن، 1421ھ، ج1، ص610؛ صافی گلپایگانی، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص99، 101.
  8.  سبحانی، ولایت تشریعى و تکوینی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص20-21؛ صافی گلپایگانی، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص101-102.
  9.  سبحانی، ولایت تشریعى و تکوینی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص21.
  10.  غروی اصفہانی، حاشیۃ کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63؛ حسینی تہرانی، امام‌شناسی، ج5، 1418ھ، ص114، 179.
  11.  سورہ یوسف، آیہ 40، 67؛ سورہ انعام، آیہ 57.
  12.  سورہ مائدہ، آیہ 44.
  13.  سورہ مائدہ، آیہ 48.
  14.  کلینی، کافی، 1407ھ، ج6، ص407.
  15.  سبحانی، مفاہیم‌القرآن، 1421ھ، ج1، ص606-612.
  16.  عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص61.
  17.  کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص265.
  18.  کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص266.
  19.  عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص62.
  20.  کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص265-268.
  21.  صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص378، 383.
  22.  عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63.
  23.  مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص348.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک