میر حامد حسین ہندی کا مختصر تعارف
������"۔✍️ میر حامد حسین ہندی کا مختصر تعارف
سید مہدی ابو ظفر (1246-1306 ھ)، میر حامد حسین ہندی کے نام سے مشہور، تیرہویں صدی ہجری کے ہندوستان کے سادات اور شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ نے تشیع کے دفاع اور شیعوں کے خلاف لکھی گئی کئی کتابوں کے جوابات لکھے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب عبقات الانوار چند جلدوں کا مجموعہ ہے کہ جسے انہوں نے امام علی (ع) کی امامت و ولایت کے اثبات اور دفاع میں لکھا۔ مختلف علمی محافل میں آپ کی بہت توصیف بیان ہوئی ہے اور چہ بسا آپ کو شیعہ علماء میں کم نظیر جانا گیا ہے۔
میر حامد حسین موسوی کے قلمی آثار
میر حامد حسین ہندی مختلف موضوعات میں کئی تألیفات کے مالک تھے۔ آپ کی بعض کتابیں مذہب تشیع کےخلاف لکھی گئی کتابوں کے رد میں لکھی گئی ہے۔ آپ نے کلام، فقہ، سفرنامہ، شعر وغرہ میں کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی سب سے زیادہ مشہور کتاب "عبقات الانوار" ہے۔ آپ کی کتابوں فہرست درج ذیل ہے:
عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)
استقصاء الفحام: حیدر علی فیض آبادی حنفی کی کتاب منتہی الکلام کا جواب ہے۔ یہ کتاب فارسی میں ہے۔ اس میں تحریف قرآن کے بارے میں مفصل بحث کی گئی ہے۔ اہل سنت کے بعض علماء کے حالات زندگی کے علاوہ اصول دین اور فروع دین کے بعض مسائل جن میں شیعہ اور سنیوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، اس کتاب میں بحث ہوئی ہے۔ [1]
افحام اہل المین فی رد ازالۃ الغین؛ حیدر علی فیض آبادی
العشرۃ الکاملۃ، دس مشکل مسئلوں کا حل
اسفار الانوار عن حقایق افضل الاسفار، مکہ و مدینہ اور عتبات عالیات میں ائمہ اطہار کی زیارتی سفرنامہ
کشف المعضلات فی حل المشکلات
النجم الثاقب فی مسألۃ الارث
الدرر السنیۃ فی المکاتیب و المنشأت العربیۃ
الذرایع فی شرح الشرایع،
شوارق النصوص فی تکذیب فضائل اللصوص (شوارق النصوص ) یہ کتاب پانچ جلدوں میں لکھی گئی۔
زین المسائل الی تحقیق المسائل، فقہی اور متفرق مسائل میں
درۃ التحقیق
الغصب البتار فی مبحث آیت الغار[2_3]
علماء کی نگاہ میں
بہت سارے معاصر علماء نے "میر حامد حسین" کی تمجید کی ہے۔
میرزا شیرازی عبقات کی تقریظ میں لکھتے ہیں:
ذی الفضل الغزیر و القدر الخطیر و الفاضل النحریر و الفائق التحریر و الرائق التعبیر، العدیم النظیر المولوی حامد حسین۔"
آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:
میر حامد حسین عالمی پرتلاش، زمان شناس اور دین شناس عالم دین تھے۔ آپ اپنی تلاش اور علمی مقام میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ معاصرین بلکہ متاخرین میں سے بھی کوئی بھی ان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دینی اعتقادات میں تحقیق و تفحص اور سچے دین کی حفاظت اور اور اس کی دفاع میں صرف کی ہے ...."[4]
علامہ امینی نے مختلف موارد میں "میر حامد حسین" اور آپ کی کتاب "عبقات الانوار" کے بارے میں گفتگو کی ہے۔[5] الغدیر کی پہلی جلد، فصل المولفون فی حدیث الغدیر میں "عبقات الانوار" کا ذکر کرتے ہیں:
یہ سید بزرگوار اپنے والد ماجد کی طرح دشمنوں کے سر پر خدا کی ایک تیز دھار تلوار دین مبین کا محافظ اور خدا کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک ہے۔ آپ کی کتاب "عبقات الانوار" جس کی نسیم حیات بخش نے دنیا کو معطر کیا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں پھیل گیا جس نے بھی اس کتاب کو دیکھا وہ اس کے حق و حقیقت کو روشن کرنے میں اس کے معجز آسا ہونے اور کسی باطل کو اس میں راہ نہ ہونے کا اعتراف کیا۔[6]
اعیان الشیعہ آپ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
«کان من اکابر المتکلمین الباحثین عن اسرار الدیانة و الذابین عن بیضة الشریعة و حوزة الدین الحنیف علامة نحریرا ماهرا بصناعة الکلام و الجدل محیطا بالاخبار و الآثار واسع الاطلاع کثیر التتبع دائم المطالعة لم یر مثله فی صناعة الکلام و الاحاطة بالاخبار و الاثار فی عصره بل و قبل عصره بزمان طویل و بعد عصره حتی الیوم و لو قلنا انه لم ینبغ مثله فی ذلک بین الامامیة بعد عصر المفید و المرتضی لم نکن مبالغین. »[7]
کتاب ریحانۃ الادب کے مؤلف آپ کے بارے میں "صاحب عبقات الانوار" کے ذیل میں لکھتے ہیں:
«میر حامد حسین موسوی ہندی ... فقاہت کے علاوہ دیگر علوم دینیہ جیسے علم حدیث، اخبار و آثار، معرفت و احوال رجال فریقین، علم کلام، خصوصاً امامت کی بحث میں نہایت بلند علمی مقام کے مالک تھے۔ آپ کی علمی قابلیت کے مسلمان و غیر مسلم، عرب و عجم اور عامہ و خاصہ سب قائل تھے۔ اسلام ناب اور مذہب حقہ کی دفاع میں پوری زندگی صرف کی یہاں تک کہ دائیں ہاتھ نے ساتھ دینا چھوڑ دیا اور عمر کے آخری ایام میں بائیں ہاتھ کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہو گئے۔ آپ کی کتاب "عبقات" کے مطالعے سے بخوبی آشکار ہو جاتا ہے کہ صدر اسلام سے عصر حاضر تک علم کلام خصوصا "امامت" کی بحث میں انکی طرح کسی نے بھی بحث و گفتگو نہیں کی ہے.[8]
������������������ا
������✍️ کربلاء کے واقعات اور
ابن زیاد کے ہاتھوں لشکر میں اضافہ������
بعض گزارشات کے مطابق، جب عمر سعد کا لشکر کربلا کی طرف نکلا تو کوفہ کے کچھ افراد،
ابن زیادہ سے ڈر کر یا لالچ میں آ کر عمر سعد کے لشکر سے مل گئے، ابن زیاد نے لوگوں کو مسجد کوفہ میں جمع کیا اور ان کے بڑوں کو تحفے دے کر، لالچ دیا اس کے بعد ان کو عمر بن سعد کے ساتھ مل کر امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے کہا۔[9] ابن زیاد نے عمر بن حریث کو کوفہ میں اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود نے نخلیہ میں لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالا اور کوفیوں کو وہاں آنے پر مجبور کردیا۔[10] اس نے سب کوفیوں کو عمرابن سعد کے لشکر سے ملحق ہونے کو واجب قرار دیا اور سوید بن عبدالرحمن منقری کو کوفہ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ کوفہ میں تلاش کرے اگر کوئی امام حسینؑ سے جنگ کرنے سے انکار کرے اسے میرے پاس لے کر آئے۔[11]
عبیداللہ بن زیاد نے، حصین بن تمیم اور چار ہزار سپاہیوں کو حکم دیا کہ قادسیہ سے نخیلہ کی طرف آئیں۔ [12]
اس نے نخیلہ سے حصین بن نمیر، حجاز بن ابجر، شبث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن کو حکم دیا کہ عمربن سعد کے لشکر سے مل جائیں۔[13]
شمر 4000 افراد،
یزید بن رکاب کلبی 2000 افراد،
حصین بن نمیر 4000 افراد، مضایر بن رھینہ مازنی 3000 افراد اور نصر بن حربہ نے 2000 افراد [14]
کے ساتھ اس کے حکم کو عملی کیا۔
اسی طرح ابن زیاد کے حکم سے، شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، [15] محمد بن اشعث [16] اور یزید بن حارث ہر ایک ہزار سوار کے ہمراہ عمر بن سعد کے لشکر سے ملنے کے لئے کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ [17]
عبیداللہ بن زیادہ ہر روز صبح اور دوپہر کو، کوفہ سے 20 لشکر ہر لشکر میں 100 افراد، جنہیں کربلا روانہ کرتا۔ [18]
یہاں تک کہ 6 محرم کو ابن سعد کے لشکر کی تعداد تقریباً 22000 افراد تک پہنچ گئی۔ [19]
حوالہ جات
1_محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص ۳۸۱
2_السید علی المیلانی، السید حامد حسین و کتابہ العبقا: فی الذکری المئویہ لوفاتہ، تراثنا، السنۃ الاولی، رجب و شعبان و رمضان ۱۴۰۶، العدد ۴
3_مصطفی سلیمی زارع، عبقات الانوار و علامہ میر حامد حسین، مجلہ حدیث اندیشہ، شمارہ ۸و۹، پاییز ۸۸
4_آقا بزرگ تہرانی، نقباء البشر، ج۱، ص ۳۴۸-۳۵۰
5_سید جواد موسوی، بازخوانی حیات علمی علامہ میر حامد حسین ہندی کتاب الدرر السنیہ، مجلہ سفینہ، سال ہشتم، شمارہ ۲۶، بہار ۱۳۸۹
6_ عبد الحسین امینی، الغدیر، ج۱، ص ۱۵۶-۱۵۷
7_ محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص ۳۸۱
8_ مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج۲، ص۴۳۳
9_ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص89۔
10_ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178۔
11_ دیواری، الاخبار الطوال، 1368ش، صص254-255؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔
12_بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178۔
13_ دینوری، اخبار الطوال، 1368ش، ص254؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178۔
14_ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص89
15_ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص178؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، 1411ق، ج5، ص90-89۔
16_شیخ صدوق، الامالی، ص155۔
17_ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔
18_ بلاذری، انساب الاشراف، 1397ق، ج3، ص179۔
19_ ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج5، 1411ق، ص90
✍️������ ویکی شیعہ