امام زین العابدین عليه السلام کے چالیس احادیث

فرارو | پیام تسلیت شهادت امام سجاد (ع)؛ اس ام اس تسلیت شهادت امام زین  العابدین (ع)

امام زین العابدین عليه السلام کے چالیس گوہربار، نورانی احادیث-1-

بہ قلم: محمود مهدى ‏پور

مترجم: یوسف حسین عاقلی پاروی

---

تقویٰ  کی تشخیص کا معیار

حديث -۱-قالَ السَّجادُ عليه السلام:لايَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ تَقْوى وَكَيْفَ يَقـِلُّ مايُتقَبَّلُ [تحف العقول،ص 318]

امام سجاد عليه السلام فرمایا: جو کام تقویٰ کے ساتھ ہو وہ چھوٹا اور کم وزن نہیں ہوتا،اور کیسے ہوسکتا ہے کہ جو کام خدا کو منظور ہو، اس ذات الہی کے پاس مقبول اور عظیم ہو،  وہ کیسےچھوٹا کیسے ہوگا؟

گناه سے خوشحالی

حديث- ۲-وَ قالَ السَّجادُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: لاَ تَمْنَعْ مِنْ تَرْكِ اَلْقَبِيحِ وَ إِنْ كُنْتَ قَدْ عُرِفْتَ بِهِ، وَ لاَ تَزْهَدْ فِي مُرَاجَعَةِ اَلْجَهْلِ وَ إِنْ كُنْتَ قَدْ شُهِرْتَ بِتَرْكِهِ وَ إِيَّاكَ وَ اَلاِبْتِهَاجَ بِالذَّنْبِ فَإِنَّ اَلاِبْتِهَاجَ بِهِ أَعْظَمُ مِنْ رُكُوبِهِ [نزهة الناظر، ج،۱،ص،۹۲- كشف الغمه، ج 2، ص 108]

امام سجاد عليه السلام فرمایا: برائی اور قبیح کام کو چھوڑنےسے ہیز نہ کرو، اگرچہ تم اس کےذریعے پہچانا جاتا  ہو اور جہالت  اور گمراہی کی طرف مراجعہ کرنے سے پرہیز کرو، خواہ تم اس کے ترک کرنے اور چھوڑنے سےمشہورہو۔ جو گناہ تم سے سرزد ہوئی ہو اس پر خوش مت مناؤ، کیونکہ گناہ پر خوشی کا اظہارکرنا، اس "گناہ" کے ارتکاب سے بڑھ کر ہے۔

پيغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌و‌آله وسلم کی شہرت

حديث-۳- وَ قالَ السَّجادُ عليه السلام: ما اَكَلْتُ بِقِرابَتى بِرَسُولِ اللّهِ شَيْئا قَطُّ

[كشف الغمه،ج2،ص93- مناقب آل أبي طالب، ص 161، ج 4، عن تاريخ النسوي]

امام سجاد عليه السلام نےفرمایا: میں نے اپنےآپ کو پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی(خاندان کی) طرف انتساب اور منسوب ہونے کی بناء پر کبھی کچھ تناول نہیں کیا، میں نے اس معزز اور بزرگوار،  آدمی کی عزت و آبرو کو اپنےذاتی مفادکے لئے کبھی استعمال نہیں کیا۔

  خدا سے درخواست

حديث-۴-وَ قالَ الاْمامُ السَّجادُ عليه السلام:۔۔۔وَيْحَكَ اَفى حَرَمِ اللّهِ اَسْأَلُ غَيْرَاللّهِ عَزَّوَجَلَّ؟!!

اِنّى آنِفُ اَنْ اَسْأَلَ الدُّنْيا خالِقَها، فَكَيْفَ اَسْأَلُها مَخْلُوقا مِثْلى؟! [بحارالانوار، ج46، ص 64]

کسی شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے عرض کیا: اب جبکہ ولید بن عبد الملک  مكّہ مکرمہ  میں موجود ہے، تو آپ ان کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ وہ، جوچیزیں اوقاف اور صدقات ِعلی بن ابی طالب علیہ السلام میں موجود ہیں ان کے بارے میں آپ کی توليّت  کو قبول کرے اورحمایت کرے ۔

تواس وقت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: فقیراور بےچارہ!

 کیا میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں  بیٹھ کر غیر خدا سے کچھ مانگوں؟!!

(یاد رکھنا میں سید الساجدین)اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میں خالق کائنات سےاس (ناچیز)دنیا کو مانگنا پسند نہیں کرتاہوں ، تو  میں اپنے جیسے(اس بےچارہ ) مخلوق سے کیسے(اپنی حاجت) مانگ سکتا ہوں۔

موت کی تیاری

حديث-۵-وَ قالَ الاْمامُ زَيْنُ العابِدينَ عليه السلام: اِنَّـما الاْسْتِـعْدادُ لْلِمَوْتِ تَجنُّبُ الْحرامِ وَبَذْلُ النَّدى فى الْخَيْرِ. [بحارالانوار، ج 46، ص 66]

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: بے شک موت کےلئے تیار رہنا حرام سے دوری کا موجب اور بذل و بخشش  اورسخاوت کرنا اچھا  اور کارِخیرکا باعث ہے۔

حورالعين سے خواستگارى

حديث-۶- عَنْ اَبى عَبْداللّه: قالَ: اِنَّ عَلَّى بَنُ الْحُسينِ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْهِما اِسْتَقْبَلَهُ مَـوْلىً لَهُ فى لَيْـلَةٍ بارِدَةٍ وَعَلَيْهِ جُبـَّةُ ومُطْرَفُ خَزٍّ وَعَمامَةُ خَزٍّ وَهُوَ مُتَغَلِّفٌ بالْغالِيَةِ۔ فَقالَ لَهُ جُـعِلْتُ فَداكَ فى مِثْلِ هذه الساعَةِ عَلى هذهِ الْهَيْئَة اِلى اَيْنَ؟ قـالَ: فَـقالَ: اِلى مَسْـجِدِ جَدّى رَسُـولِ اللّهِ صلي الله عليه وآله اَخْطُبُ الْحُورَ العينَ اِلَى اللّهِ عَزَّوَجَلّ. [بحارالانوار، ج46، ص59]

امام صادق عليه السلام سےنقل ہے کہ: عَلَّى بَنُ الْحُسينِ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْهِما:چوتھے امام کےخادموں میں سے ایک نے آپ علیہ السلام کو ایک ایسی رات دیکھا وہ ، بہت ٹھنڈ رات  تھی اورآپ علیہ السلام کے جسم اطہر پر(خَزَّ و عمّامه خزّ)کھال کے کپڑے، کھال کا کوٹ اور ایک "مہنگی" کھال کی پگڑی پہنے جوانتہائی خوشبو دار تھی۔

اس  غلام نے حضرت  امام سجاد علیہ السلام سےعرض کیامولامیری جان آپ پر قربان!: رات کےتاریکی اور  اس مخصوص لباس میں کہاں  تشریف لےجا رہے ہیں؟

امام صادق عليه السلام نے اس طرح فرمایاکہ: امام سجاد عليه السلام نے یوں جواب دیا: میں اپنے جدِّ امجدّ مسجد  کی عظیم الشان مسجد (مسجد نبوی)میں جا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ  سےحورالعين کی خواستگارى کی تجویز پیش کروں!

تین چیزوں سے بچو

حديث-۷-وَ قالَ الاْمامُ السَّجادُ عليه السلام: اِيّـاكُمْ وَصَحْـبَةَ الْعاصـينَ وَمَعُونَهَ الظالِمينَ وَمجاوِرَة الْفاسقينَ اِحْذَروُا فِتْنَتَهُمْ وَتَباعِدُوا مِنْ ساحَتِهِمْ. [الروضة من الكافى، ص 16]

امام سجاد عليه السلام نےفرمایا: خبردار! گنہگاروں کے ساتھ بیٹھنے ، ہمنشنى،   ظالموں کی اعانت و مدد کرنے اورفاسقین و  بدکاروں کے پڑوسی سےاجتناب کرنا،اپنے آپ کو ان کے فتنوں سے بچاؤ   اور ان کے علاقوں سے دوررکھنا۔

قيامت کی حساب و کتاب

حديث-۸-وَ قالَ الاْمامُ السَّجادُ عليه السلام: اِعْـلَمُوا عِبـادَ اللّهِ اَنَّ اَهْـلَ الشِّرْكِ لايُنْصَبُ لَهُمْ اَلمَوازينَ وَلايُنْشَرُ لَهُم الدَّواوينَ وَاِنمّا يُحْشَرُونَ اِلى جَهَنـَّمَ زُمَرا وَاِنمّا نَصْبُ الْمَوازينَ وَنَشْرُ الدَواوينَ لاَهِـلِ الاِسْلامِ. [الروضه من الكافى، ص 75]

امام سجاد عليه السلام نےفرمایا:اللہ کے بندو! جان لو ،کہ! اہل ِمشرک  کے نامہ اعمال کےلئےکوئی میزان برقرارنہیں ہے نیز مشرکوں کے لئے عدالت نامہ نہیں کھولےگا ، وہ  سب اجتماعی طور پر جهنّم میں ڈالے جائیں گے۔ بےشک ان کےلئے میزان  اور پیمانہ نصب ہے اور دفتر اعمال کھولنا،  اهل اسلام اور مسلمانوں کےساتھ مخصوص ہے۔

قرآن کے ساتھ انس

حديث-۹-وَ عَنِ الاْمامُ السَّجادُ عليه السلام كانَ يَقُول: لَوْماتَ مَنْ بَيْنِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرآنُ مَعى۔

[الانوار البهيّه، الشيخ عباس القمى ص94، منشورات الشريف الرضى قم. اصول كافى، ج 2، ص 602]

امام سجاد عليه السلام نےفرمایا: اگر مشرق اور مغرب کے درمیان رہنے والے سب مر جائیں،لیکن  جب تک قرآن میرے ساتھ ہے، مجھے تنہا محسوس نہیں ہوتی۔

ماں کی احترام کا خیال

حديث-۱۰-قَيلَ «للسَّجاد» عليه السلام: اِنَّـكَ اَبَـرُّ الناسِ وَلاتَاكُلُ مَعَ اُمِّـكَ فى قَصْـعَةٍ وَهِىَ تُـريدُ ذالِكَ. قالَ: اَكْرَهُ اَنْ تَسْبِقَ يَدِىَ اِلى ما سَبَقَتْ اِلَيْهِ عَيْنُها فَـاَكُونَ عاقَّـا لَهـا. [الانوار البهية، ص،100]

کسی نےامام سجاد عليه السلام سے عرض کیا: (یابن رسول اللہ!)نےشک آپ ،لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والے ہیں ،اور آپ  کیوں  اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ ایک ہی پیالے اور کٹورا میں تناول کیوں نہیں کرتے! اور جبکہ آپ کی  والدہ محترمہ  تو ایسا چاہتی ہے۔

امام سجاد عليه السلام فرمایا: مجھے ڈر لگتاہے کہ میرا ہاتھ ایسی چیز کی طرف نہ لپکے جس میری والدہ کی نظر مبارک نہ لگی ہو۔اور میں اس طرح والدہ محترمہ کے حق کا احترام نہیں کرپاؤں سکوں گا۔