جہاد و صبر زینب بنت علی سلام اللہ علیھا
جہاد و صبر زینب بنت علی سلام اللہ علیھا
کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود
تحریر: جاوید عباس رضوی
اسلامی سال کے دوسرے مہینے (صفرالمظفر) کے یہ ایام اہل بیت (ع) کی اسارت اور مظلومیت کے ایام ہیں، اربعین امام حسین (ع) کے موقعہ پر عزاداران سید الشہداء کی آنکھیں پرنم ہیں، یہی وہ دن ہیں کہ جب حضرت سید الشہداء امام حسین (ع) کے بچے اور بیبیاں کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام بطور قیدی کے پھرائی گئیں، ماہ صفر کے یہ ایام، عشرہ محرم کے ایام سے بھی زیادہ غمناک ہیں کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی بیٹیوں کو قیدی بنا کر انکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر انہیں عام لوگوں کی نظروں کے سامنے شہر بہ شہر پھرایا گیا یعنی دراصل اہل بیت رسول (ص) کی بےحرمتی اور اسارت کی بات ہے کہ اگر مرد مومن پوری عمر بھی اس مصیبت پر آںسو بہائے تو کم ہے، حضرت امام حسین (ع) کے مقدس قیام میں انکی بہن حضرت جناب زینب (س) کا کردار دلیرانی، شجاعانہ اور انتہائی صابرانہ ہے جس کی مثال دنیا کے کسی واقعہ، کسی سانحہ اور کسی تاریخ میں نہیں ملتی، حضرت زینب (ع) کے بارے میں یہ شعر مناسب نظر آتا ہے کہ ’’کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود‘‘ یعنی عاشورا کے بعد اگر حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی تدبیر اور قربانیاں نہ ہوتیں تو واقعہ کربلا، کربلا میں ہی دفن ہو کر رہ جاتا اور بنی امیہ کی پروپیگنڈا مشینری واقعہ کربلا کو تحریفات سے دوچار کرکے حضرت امام حسین (ع) کی عظیم قربانی کو بےمقصد اور سرکشی کا نام دیکر اسے ختم کر دیتی اور اسکے اثرات کو اسلامی معاشرہ پر نافذ نہیں ہونے دیتے۔
یہ حضرت زینب (س) تھیں کہ جس نے واقعہ عاشورا کی تبیین کر دی اور میدان کربلا میں یزیدی لشکر کے جرائم کو برملا کرکے بنی امیہ کے منافقانہ، مشرکانہ اور سفاکانہ چہرہ کو بےنقاب کرکے غافل و لاتعلق لوگوں پر واضح کر دیا کہ جو حاکم اہل بیت رسول (ص) کی حرمت و عزت کا لحاظ نہ کرے اس کی حکومت میں عام لوگوں کی عزت و حرمت کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے، اگر حضرت زینب (س) سفر اسارت میں کربلا میں انجام شدہ یزیدی نظام کو برملا نہ کرتی تو یزیدی حکومت مسلمانوں کو اول تو اس واقعہ سے بےخبر رکھتی اور اگر ایسا نہیں کرسکتی تھی تو اس واقعہ کی تحریف کرکے اپنے جرائم کو جرات فراہم کرکے حضرت سید الشہداء کے قیام کے اثرات کو ختم کرکے اس عظیم قربانی کو رائیگان کر دیتی۔
واقعہ کربلا کے طرفین کو پہچنوانا حضرت زینب (س) کے لئے بڑا امتحان تھا کہ جس میں وہ کامیاب ہوئیں البتہ یہ مقصد انکے صبر و شجاعت سے حاصل ہو سکا ایسا صبر کہ جو صرف اہل بیت اطہار (ع) سے ہی ممکن ہے، ایسا عظیم صبر کہ جس پر ملائکہ بھی متعجب ہیں، حضرت زینب (س) عاشورا سے پہلے، روز عاشورا اور عاشورا کے بعد جن حالات اور مصائب کا سامنا کررہی ہیں، حقیقی طور پر یہ ایسے مصائب ہیں کہ کسی بھی شخص کو مضطرب اور اسکے ارادے کو ختم کر سکتے ہیں لیکن خاندان اہل بیت کے افراد کا معنوی مقام ہی منفرد و الگ ہے ایسا مقام کہ جہاں یہ مسائل اور مصائب ہی احساس حقارت و احساس پستی کرتے ہیں۔
حضرت زینب (س) دین اسلام کی خاطر یہ تمام مصیبتیں برداشت کرتی ہیں اور اپنے اختیار اور انتخاب سے یہ جہاد کی اس کٹھن راہ پر قدم رکھتی ہیں، لہٰذا حضرت زینب (س) مجاہد ہیں مبارز ہیں نہ کہ مضطر و مجبور، وہ شروع سے ہی اس راہ پر چلنے کے لئے تیار تھیں وہ جب اپنے بھائی کے ہمراہ کربلا کی طرف چل رہی تھیں اسی وقت انہیں مطلع کیا گیا تھا کہ قافلہ حسینی موت و شہادت کی جانب بڑھ رہا ہے لہذا روز عاشورا کی مصیبت یا اسارت ان کے لئے کوئی ناگہانی واقعات نہیں تھے بلکہ یہ ایک باضابطہ پروگرام تھا اور اس پروگرام کو سرانجام پہنچانے کے لئے اپنے بھائی حضرت امام حسین (ع) کی طرح زینب بھی پوری طرح آمادہ تھیں اسی لئے جناب زینب (س) کا جہاد، ایک انفرادی اور ممتاز جہاد ہے، وہ اپنے مظلوم بھائی پر رو بھی رہی ہیں اور دشمن کو للکار بھی رہی ہیں، یعنی انکے جہاد میں لطف و مہربانی کا عنصر بھی ملتا ہے اور شجاعت و غیرت کا عنصر بھی عیاں ہے کہ جناب زینب (س) ہرحال میں اپنے معبود سے راضی ہیں وہ ایسی اعلیٰ مرتبت قافلہ سالار ہیں کہ دین کی راہ میں اس عظیم قربانی کو عمل قلیل کا نام دیتی ہیں وہ ایسی مدیر و سفیر ہیں کہ انکے قافلے میں ان کے ہمراہ چلنے والے معصوم بچے، آہ یا اف تک نہیں کہتے تاکہ انکا اجر کم نہ ہو جائے اور دشمن کی ہمت بڑھ نہ جائے، آگاہ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت زینب (س) کی سربراہی والا یہ قافلہ ہی بنی امیہ کے ظالمانہ اقتدار کی نابودی کا سبب بنا اور تا ابد انہیں لعنت و ملامت سے دوچار کر دیا ہے۔
حضرت زینب سلام اللہ کے خطبات سے چند اقتباس:
حضرت زینب سلام اللہ عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں یوں گویا ہوئیں، خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول (ص) کے ذریعہ ہمیں عزت بخشی اور گناہ سے دور رکھا، رسوا تو صرف فاسق ہوتے ہیں، جھوٹ تو صرف (تجھ جیسے ابن زیاد کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنی دلیری کا یوں مظاہرہ کیا) بدکار بولتے ہیں، الحمدللہ کہ ہم بدکار نہیں ہیں۔
جناب زینب (س) بازار کوفہ میں کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے:
اے مکار، غدار، خائن کوفیو! خدا کبھی تمہارے آنسوؤں کو خشک نہ کرے، تمہاری قسمت میں سوائے خدا کی ناراضگی اور عذاب دوزخ کے سوا کچھ نہیں، رؤو اور خوب رؤو چونکہ تمہارے نصیب میں صرف رونا ہی لکھا ہے، ذلت و خواری تمہارا مقدر بن چکی ہے، تم نے کام ہی ایسا کیا ہے کہ قریب ہے آسمان زمین پر آ جائے، زمین پھٹ جائے، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اگر خدا کا عذاب ابھی تم پر نہیں آیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم محفوظ ہو، خدا عذاب کو (ہمیشہ) فورا نہیں بھیجتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مظلوموں کو انصاف نہ دلائے۔
خطبہ حضرت زینب (س) دربار یزید میں:
خدا نے سچ فرمایا کہ جن لوگوں نے برے اور گھناؤنے کام کئے ان کی سزا ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے الٰہی آیات کی تکذیب کی، اور اس کا مذاق اڑایا، اے یزید کیا تو الٰہی فرمان کو بھول گیا (کہ خدا نے فرمایا) کافر خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، اگر ہم نے مہلت دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان کی بھلائی چاہتے ہیں؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے اس لئے انہیں مہلت دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کر سکیں (اور آخر کار) سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوں (اور ان کی بخشش کا کوئی راستہ نہ رہ جائے) اے اس آدمی کے بیٹے، جسے میرے جد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسیر کرنے کے بعد آزاد کر دیا، کیا یہی عدل و انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو پس پردہ بٹھائے اور رسول کی بیٹیوں کو اسیر کر کے دیار بہ دیار پھرائے۔
یزید تیری حیثیت میری نگاہ میں نہایت پست و حقیر ہے اور میں بےپناہ تیری ملامت کرتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل اور خوار سمجھتی ہوں، یزید تمہیں ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ تمہاری حشمت و جلالت اور حکومت سے میں مرعوب ہو جاؤں گی، کتنی عجیب بات ہے کہ لشکر خدا طلقاء (آزاد کردہ غلام اور غلام زادوں) اور لشکر شیطان کے ہاتھوں تہ تیغ کر دیا جائے، اور ہمارے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر لے، خدا اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں کرتا، ہم تو بس اسی سے شکوہ کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں، لہذٰا جو فریب و حیلہ چاہے کر لے اور جتنی طاقت ہے آزما لے اور کوشش کر کے دیکھ لے، خدا کی قسم ہمیں اور ہماری یادوں کو (مومنین کے دل سے) نہ مٹا سکے گا، اور ہمارے (گھر میں) نزول وحی کو کبھی جھٹلا نہ سکے گا، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے بزرگوں کو سعادت و مغفرت کے ساتھ اس دنیا سے اٹھایا اور ان کے بعد والوں کو مقام شہادت اور حجت پر فائز کیا۔
آج بھی شرف انسانیت بچانے کے لئے جناب زینب (س) کی ضرورت ہے، کمال انسانیت حاصل کرنے کے لئے سیرت زینب (س) کو اپنانے کی ضرورت ہے، شجاعانہ و دلیرانہ زندگی گذارنے کے لئے بی بی زینب (س) کی شجاعانہ حیات کو جاننے و سمجھنے کی ضرورت ہے، جہاد و صبر جناب زینب (س) کو اپنانے کی ضرورت ہے، اگر جناب زینب نہ ہوتی تو ہمارے درمیان کربلا نہ ہوتی، اور اگر کربلا نہ ہوتی تو شرف انسانیت کا تصور نہ ہوتا، ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب کچھ رہین زینب ہے، تمام انسانیت مدیون جناب زینب (س) ہے، اگر زینب نہ ہوتی تو نظامِ دینِ قدرت نہ ہوتا، حقیقی دین کا فقدان ہوتا، اسلام ناب کا تصور نہ ہوتا۔
صبر را مفہوم و معنا زینب است
کعبہ غم ہای دنیا زینب است
چون حسین است آفتاب شہر
عشق ماہتاب عالم آرا زینب است