عصرعاشورا کے بعد حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کا کردار
عصرعاشورا کے بعد حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کا کردار
کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کا ہو درس ملتا ہے یہاں تک کہ غیرمسلم ہندو،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندھی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کا مرہون منت سمجھتے ہیں، یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے ۔کربلا کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنےوظیفے پر عمل کیا تو وہاں آخری باری علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شیر دل بیٹیوں کی آئیں اس لئے کہ واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم علیہما السلام کی ذمہ داری تھی علی علیہ السلام کی شیردل بیٹی زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے آنکھوں سےبھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفہ میں کوتاہی نہیں کی ،اسی لئے کربلا ، کربلا کےمیدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری علیہا السلام نے ظالم کوشکست دی اور لوگوں تک اپنے خطبوں کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا قیامت تک سرخرو ہو گئی شاعرکہتا ہے:
حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب
عشق حقیقی کے یہ کردار دوافراد نے انجام دیئے ایک حسین ابن علی علیہ السلام نے دوسرے علی علیہ السلام کی بہادر بیٹی زینب کبری علیہا السلام نے اگر کربلا میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار نہیں ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔عصر عاشور جب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:{یابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللہ ِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَیہِ؟۔ (ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ (امام حسین(علیہ السلام)) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔1۔ ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاہُ وا سَیِّداہُ وا اہْلِ بَیْتاہْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّہْل} (: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)۔2حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالیں پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما!3۔ آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل سوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔عصر عاشور بڑا حساس اور نہایت سخت وقت تھا عصر عاشور کے بعد تین بنیادی ذمہ داریاں زینب سلام اللہ علیہا کے ذمے تھیں ۔
1۔وقت کے امام کی حفاظت
2۔عورتوں اور یتیم بچوں کی حفاظت اور نظارت کاروان حسینی
3۔پیغا م حسینی کو پہنچانا اور اسکی دفاع کرنا ۔
1۔امام وقت کی حفاظت:
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔جب امام حسین علیہ السلام نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیمار سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام نے بہن سے خطاب ہو کر فرمایا :بہن میرے عزیز کو سنبھالو کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے ۔حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں اور کہا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ہو جاوں میں اسے قتل ہونے نہیں دوں گی۔جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابن زیاد بس کر جتنے خون تم نے بہایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ؟خدا کی قسم میں ان کو قتل ہونے نہیں دوں گی یہاں تک تومجھے قتل نہ کرے ۔
2۔ اسیروں کی سرپرستی :
جب دشمنوں نے خیام اہل بیت علیہم السلام پر حملہ کیا یہاں تک کہ فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہا کے کانوں کے گوشوارے بھی چھین لئے گئے اور اس بچی پر خوف سے غش طاری ہوئی زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بچی کے سر کو گود میں رکھ کر ہوش میں لائی اس وقت بچی نے پوچھا کوئی چادر نہیں تا کہ سر کو چھپا لوں تو زینب سلام اللہ علیہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تیری پھوپھی کے سرپر بھی چادر نہیں رہی ہے ۔اسی طرح کوفہ و شام کے سفرمیں اسیروں کو کھانا بہت کم دیتے تھے تو زینب کبری سلام اللہ علیہا اپنے حصے کو محفوظ رکھ دیتی اور جب بچے بھوک کی شکایت کرتے تو ان کو دیتی تھیں اسی وجہ سے بعض اوقات کھڑے ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتی تھیں۔
3۔پیغام عاشورا کی تبلیغ اور دفاع:
آپ ؑمناسب مواقع پر عاشورا کے پیغام کو پہنچاتیں رہیں اور مردہ ضمیروں کو جنجوڑتی رہی اور سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں رہیں۔ اس حوالے سے آپ نے تین کام انجام دئیے:الف۔اہل بیت علیہم السلام کا تعارف ۔ب۔دشمنان اہل البیت علیہم السلام کی تذلیل ۔ج۔کوفہ والوں کی بےوفائی اور خیانتوں کی مذمت، ان تین کاموں کو آپ نے تین وسیلوں کے ذریعے انجام دئیے 1۔خطبات کے ذریعے 2۔ شک و شبھات کو رفع کرتے ہوئے 3 ۔بحث و مباحثہ کے ذریعے۔
جب قافلہ اسراء کو فہ پہنچا تو تماشائی جمع تھے راوی نقل کرتا ہےکہ میں نے دیکھا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا اس طرح خطبے دے رہی تھی گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رہا ہے ۔آپ خطبہ دیتی جارہی تھی اور فرماتی تھیں : وائے ہو تم پر آیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شہید کیا؟کونسا عہد تم لوگوں نے توڑاا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ہو ؟کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے ؟نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے قدموں سے پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے پہاڑ ریزہ ریزی ہوجائےاور زمین بکھر جائے تمھیں جو مہلت ملی ہے اس سے مغرور نہ ہو چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نہیں انتقام کا وقت آجائے گا۔آپ ؑنے ایسا دندان شکن تاریخی خطبے دئے کہ روای کہتا ہے : لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رہے تھے گویا حشر کا سماں ہو روای کہتا ہے : ایک بوڑھا ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے یہ کہ رہا تھا آپ کے بزرگان بہترین بزرگان اور عورتیں بہترین عورتین ہیں اور جوان بہترین جوان ہیں آپ کا فضل بہت عظیم ہے ۔ اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سیدۃ زینب سلام اللہ علیہا فرماتی ہے:تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے جس نے ہمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے شرافت ووکرامت سے نوازا اور ہمیں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھا تم فاسق اور رسوا ہو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے ۔جب ابن زیاد نے پوچھا :آپ اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا ؟علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا :{ما رائیت الا جمیلا} میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا ،قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ہو گا اور کون ناکام و بد بخت۔
بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:اس دن میں زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: "خاموش ہوجاؤ”، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔4۔حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا مگر اس خطاب نے کوفہ جوش و جذبے کی کیفیت سے دوچار کردیا تھا اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علی علیہ السلام کی بیٹی کے خطبے نے کوفیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا۔5۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ مناظرہ کیا۔6۔حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہیں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔7 ۔ یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے۔8۔ اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔ آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(علیہ السلام) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا:۔ ترجمہ: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدۃ نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا۔9۔ یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی۔ اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا۔ صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ سلام اللہ علیہا ) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔ 10۔ اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:کاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا۔ ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!۔ میں خُندُف کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں۔
اچانک سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسین(علیہ السلام)) کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا۔سیدہ زینب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ {وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لہُمْ لِیَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَہْمُ عَذَابٌ مُّہِینٌ}: اورخبردار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے ۔ہم تو صرف اس لئے دےرہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔11۔12۔اس کے بعد فرمایا : ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں! اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(علیہ السلام)) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے! ۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) 13۔عنقریب تو بھی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔14۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟15۔
مجلس یزید میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا منطقی اور نہایت بلیغ اور معقول خطبہ اگرچہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوا تاہم دربار یزید میں اس کے فوری اثرات بھی دیدنی تھے؛ حاضرین بہت زیادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا۔16۔یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے۔ گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ "ان سب کو یہیں قتل کردو” لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ "ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو”۔17۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نیز امام سجادعلیہ السلام کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛۔18۔ لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد یعنی ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا۔19۔بہرحال یزید نے مجبوری میں اہل بیت(علیہم السلام) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی۔ آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(علیہم السلام) کے ہاں حاضر ہوئیں۔ وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں۔20-21۔ مختصرایہ وہ خطبات تھے جن کے ذریعے زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قصر دشمن میں ہی دشمن کو شکست دی۔ثانی زہراءسلام اللہ علیہا کے خطبات کا اثر اتنا جلدی ہوا کہ یزید نے شام میں مجلس برپا کرنے کی اجازت دے دی۔ بنابرین خواتین کی اسیری اور ثانی زہرا ءسلام اللہ علیہا کے خطبات نے حادثہ کربلا میں روح پھونک دی اور بنی امیہ کے مظالم اور امام حسین علیہ السلام کی فدا کاری کو واضح کر دیا اور اگر یہ اسیری نہ ہوتی تو آل محمد کے دشمن کربلا کے مظالم پر پردہ ڈال کر لوگوں کو اس سے بے خبر رکھتے ۔غرض یہ وحشتناک ظلم و ستم اور عظیم فدا کاری تاریخ کے صفحات سے مٹ جاتی لیکن ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے ہمیشہ کے لئے صفحہ قرطاس پر اسے ثبت کر دیا ،یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کی اسیری اسلام کی نئی حیات کی ضامن بنی۔زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نے ایسا کردار اداکیا کہ عام انسانوں کے لئے کبھی بھی ایسا کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ بھی ایسے کھٹن مواقع میں جب عزیز ترین افراد کو آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور تمام جہات سے لوگ آپ کو اذیتیں پہنچا رہے ہو،انہیں حالات میں آپ نے دلیری و شجاعت کے ساتھ اس کردار کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جس کردار کو عام انسان نہیں اپنا سکتے اور اس کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہیں اسی لئے شاعر کہتاہے :
کربلا در کربلا می مانند اگر زینب نبود
نینوا در نینوا می مانند اگر زینب نبود
اگر زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں توکربلا،کربلا کے ریگستان میں ہی دفن ہو جاتا ،یہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کا کردار تھا کہ کربلا کو رہتی دنیا تک زندہ کر دیا اور ظلم اور ظالم کومختصر عرصے میں ہی شکست دی اور دنیا کو ان فاسق و فاجر افراد کا اصلی چہرہ دکھا دیا ۔
حوالہ جات:
1۔ سیدبن طاووس وہی ماخذ، ص 159و161 / سید عبدالرزاق موسوی، مقتل مقرم، ترجمہ عزیز الہی کرمانی، ص 192.
2۔ علینقی فیض الاسلام، ، ص 185.
3۔ احمد صادقی اردستانی، ص 246۔
4۔ا بومخنف، وہی ماخذ، ص 299و 300/ شیخ مفید، الارشاد، قم، المؤتمر للشیخ مفید، 1413، ص 353 / محمّدباقر مجلسی، ج 45، ص 117۔
5۔ ابن طیفور، بلاغات النساء ،ص23؛ أحمد زکی صفوت، جمہرۃ خطب العرب فی عصور العربیہ الزاہرۃ، ج 2 ص 126-129، عمر رضا ککحالہ، اعلام النساء ج 2 ص 95-97۔
6۔ اجوبۃ المسائل الدینیہ المجلد الثالث عشر، رجب 1389 – الجزء 8. معنی عسلان الفلوات صص 262 تا 264۔
7۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج45 ص135۔ السیدۃ مریم نورالدین فضل الله، المرأۃ فی ظلّ الاسلام ج1 ص305 259۔
8۔ سید عبدالکریم هاشمی نژاد، ، ص 330۔
9۔ محمّد محمّدی اشتہاردی، ، ص 248.
10۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج45 ص132۔
11۔ حسن الہی، ، ص 208۔
12۔ محمد باقر مجلسی، وہی ماخذ، ص133۔
13۔ ابومخنف، ، ص 306و307/ سیدبن طاووس، ، ص 213۔
14۔ (بحوالہ الزرکلی، الاعلام، ج3 ص823)۔
15۔ آل عمران (3) آیت 178۔
16۔ مجلسی، وہی ماخذ ص133۔
17۔ آل عمران (3) آیت 169 ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔
18۔ کہف ،آیت 50۔
19۔ مریم ، 75 ۔
20۔ محمّدباقر مجلسی،، ج 45، ص 135 / سیدبن طاووس، ص 221.
21۔ شیخ مفید، الارشاد،ص358/حسن الہی، ص 244۔
مولانا
کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کا ہو درس ملتا ہے یہاں تک کہ غیرمسلم ہندو،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندھی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کا مرہون منت سمجھتے ہیں، یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے ۔کربلا کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنےوظیفے پر عمل کیا تو وہاں آخری باری علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شیر دل بیٹیوں کی آئیں اس لئے کہ واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم علیہما السلام کی ذمہ داری تھی علی علیہ السلام کی شیردل بیٹی زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے آنکھوں سےبھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفہ میں کوتاہی نہیں کی ،اسی لئے کربلا ، کربلا کےمیدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری علیہا السلام نے ظالم کوشکست دی اور لوگوں تک اپنے خطبوں کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا قیامت تک سرخرو ہو گئی شاعرکہتا ہے:
حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب
عشق حقیقی کے یہ کردار دوافراد نے انجام دیئے ایک حسین ابن علی علیہ السلام نے دوسرے علی علیہ السلام کی بہادر بیٹی زینب کبری علیہا السلام نے اگر کربلا میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار نہیں ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔عصر عاشور جب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:{یابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللہ ِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَیہِ؟۔ (ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ (امام حسین(علیہ السلام)) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔1۔ ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاہُ وا سَیِّداہُ وا اہْلِ بَیْتاہْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّہْل} (: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)۔2حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالیں پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما!3۔ آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل سوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔عصر عاشور بڑا حساس اور نہایت سخت وقت تھا عصر عاشور کے بعد تین بنیادی ذمہ داریاں زینب سلام اللہ علیہا کے ذمے تھیں ۔
1۔وقت کے امام کی حفاظت
2۔عورتوں اور یتیم بچوں کی حفاظت اور نظارت کاروان حسینی
3۔پیغا م حسینی کو پہنچانا اور اسکی دفاع کرنا ۔
1۔امام وقت کی حفاظت:
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔جب امام حسین علیہ السلام نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیمار سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام نے بہن سے خطاب ہو کر فرمایا :بہن میرے عزیز کو سنبھالو کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے ۔حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں اور کہا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ہو جاوں میں اسے قتل ہونے نہیں دوں گی۔جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابن زیاد بس کر جتنے خون تم نے بہایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ؟خدا کی قسم میں ان کو قتل ہونے نہیں دوں گی یہاں تک تومجھے قتل نہ کرے ۔
2۔ اسیروں کی سرپرستی :
جب دشمنوں نے خیام اہل بیت علیہم السلام پر حملہ کیا یہاں تک کہ فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہا کے کانوں کے گوشوارے بھی چھین لئے گئے اور اس بچی پر خوف سے غش طاری ہوئی زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بچی کے سر کو گود میں رکھ کر ہوش میں لائی اس وقت بچی نے پوچھا کوئی چادر نہیں تا کہ سر کو چھپا لوں تو زینب سلام اللہ علیہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تیری پھوپھی کے سرپر بھی چادر نہیں رہی ہے ۔اسی طرح کوفہ و شام کے سفرمیں اسیروں کو کھانا بہت کم دیتے تھے تو زینب کبری سلام اللہ علیہا اپنے حصے کو محفوظ رکھ دیتی اور جب بچے بھوک کی شکایت کرتے تو ان کو دیتی تھیں اسی وجہ سے بعض اوقات کھڑے ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتی تھیں۔
3۔پیغام عاشورا کی تبلیغ اور دفاع:
آپ ؑمناسب مواقع پر عاشورا کے پیغام کو پہنچاتیں رہیں اور مردہ ضمیروں کو جنجوڑتی رہی اور سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں رہیں۔ اس حوالے سے آپ نے تین کام انجام دئیے:الف۔اہل بیت علیہم السلام کا تعارف ۔ب۔دشمنان اہل البیت علیہم السلام کی تذلیل ۔ج۔کوفہ والوں کی بےوفائی اور خیانتوں کی مذمت، ان تین کاموں کو آپ نے تین وسیلوں کے ذریعے انجام دئیے 1۔خطبات کے ذریعے 2۔ شک و شبھات کو رفع کرتے ہوئے 3 ۔بحث و مباحثہ کے ذریعے۔
جب قافلہ اسراء کو فہ پہنچا تو تماشائی جمع تھے راوی نقل کرتا ہےکہ میں نے دیکھا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا اس طرح خطبے دے رہی تھی گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رہا ہے ۔آپ خطبہ دیتی جارہی تھی اور فرماتی تھیں : وائے ہو تم پر آیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شہید کیا؟کونسا عہد تم لوگوں نے توڑاا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ہو ؟کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے ؟نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے قدموں سے پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے پہاڑ ریزہ ریزی ہوجائےاور زمین بکھر جائے تمھیں جو مہلت ملی ہے اس سے مغرور نہ ہو چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نہیں انتقام کا وقت آجائے گا۔آپ ؑنے ایسا دندان شکن تاریخی خطبے دئے کہ روای کہتا ہے : لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رہے تھے گویا حشر کا سماں ہو روای کہتا ہے : ایک بوڑھا ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے یہ کہ رہا تھا آپ کے بزرگان بہترین بزرگان اور عورتیں بہترین عورتین ہیں اور جوان بہترین جوان ہیں آپ کا فضل بہت عظیم ہے ۔ اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سیدۃ زینب سلام اللہ علیہا فرماتی ہے:تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے جس نے ہمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے شرافت ووکرامت سے نوازا اور ہمیں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھا تم فاسق اور رسوا ہو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے ۔جب ابن زیاد نے پوچھا :آپ اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا ؟علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا :{ما رائیت الا جمیلا} میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا ،قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ہو گا اور کون ناکام و بد بخت۔
بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:اس دن میں زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: "خاموش ہوجاؤ”، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔4۔حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا مگر اس خطاب نے کوفہ جوش و جذبے کی کیفیت سے دوچار کردیا تھا اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علی علیہ السلام کی بیٹی کے خطبے نے کوفیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا۔5۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ مناظرہ کیا۔6۔حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہیں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔7 ۔ یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے۔8۔ اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔ آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(علیہ السلام) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا:۔ ترجمہ: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدۃ نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا۔9۔ یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی۔ اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا۔ صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ سلام اللہ علیہا ) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔ 10۔ اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:کاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا۔ ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!۔ میں خُندُف کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں۔
اچانک سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسین(علیہ السلام)) کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا۔سیدہ زینب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ {وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لہُمْ لِیَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَہْمُ عَذَابٌ مُّہِینٌ}: اورخبردار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے ۔ہم تو صرف اس لئے دےرہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔11۔12۔اس کے بعد فرمایا : ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں! اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(علیہ السلام)) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے! ۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) 13۔عنقریب تو بھی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔14۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟15۔
مجلس یزید میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا منطقی اور نہایت بلیغ اور معقول خطبہ اگرچہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوا تاہم دربار یزید میں اس کے فوری اثرات بھی دیدنی تھے؛ حاضرین بہت زیادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا۔16۔یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے۔ گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ "ان سب کو یہیں قتل کردو” لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ "ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو”۔17۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نیز امام سجادعلیہ السلام کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛۔18۔ لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد یعنی ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا۔19۔بہرحال یزید نے مجبوری میں اہل بیت(علیہم السلام) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی۔ آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(علیہم السلام) کے ہاں حاضر ہوئیں۔ وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں۔20-21۔ مختصرایہ وہ خطبات تھے جن کے ذریعے زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قصر دشمن میں ہی دشمن کو شکست دی۔ثانی زہراءسلام اللہ علیہا کے خطبات کا اثر اتنا جلدی ہوا کہ یزید نے شام میں مجلس برپا کرنے کی اجازت دے دی۔ بنابرین خواتین کی اسیری اور ثانی زہرا ءسلام اللہ علیہا کے خطبات نے حادثہ کربلا میں روح پھونک دی اور بنی امیہ کے مظالم اور امام حسین علیہ السلام کی فدا کاری کو واضح کر دیا اور اگر یہ اسیری نہ ہوتی تو آل محمد کے دشمن کربلا کے مظالم پر پردہ ڈال کر لوگوں کو اس سے بے خبر رکھتے ۔غرض یہ وحشتناک ظلم و ستم اور عظیم فدا کاری تاریخ کے صفحات سے مٹ جاتی لیکن ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے ہمیشہ کے لئے صفحہ قرطاس پر اسے ثبت کر دیا ،یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کی اسیری اسلام کی نئی حیات کی ضامن بنی۔زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نے ایسا کردار اداکیا کہ عام انسانوں کے لئے کبھی بھی ایسا کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ بھی ایسے کھٹن مواقع میں جب عزیز ترین افراد کو آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور تمام جہات سے لوگ آپ کو اذیتیں پہنچا رہے ہو،انہیں حالات میں آپ نے دلیری و شجاعت کے ساتھ اس کردار کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جس کردار کو عام انسان نہیں اپنا سکتے اور اس کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہیں اسی لئے شاعر کہتاہے :
کربلا در کربلا می مانند اگر زینب نبود
نینوا در نینوا می مانند اگر زینب نبود
اگر زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں توکربلا،کربلا کے ریگستان میں ہی دفن ہو جاتا ،یہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کا کردار تھا کہ کربلا کو رہتی دنیا تک زندہ کر دیا اور ظلم اور ظالم کومختصر عرصے میں ہی شکست دی اور دنیا کو ان فاسق و فاجر افراد کا اصلی چہرہ دکھا دیا ۔
حوالہ جات:
1۔ سیدبن طاووس وہی ماخذ، ص 159و161 / سید عبدالرزاق موسوی، مقتل مقرم، ترجمہ عزیز الہی کرمانی، ص 192.
2۔ علینقی فیض الاسلام، ، ص 185.
3۔ احمد صادقی اردستانی، ص 246۔
4۔ا بومخنف، وہی ماخذ، ص 299و 300/ شیخ مفید، الارشاد، قم، المؤتمر للشیخ مفید، 1413، ص 353 / محمّدباقر مجلسی، ج 45، ص 117۔
5۔ ابن طیفور، بلاغات النساء ،ص23؛ أحمد زکی صفوت، جمہرۃ خطب العرب فی عصور العربیہ الزاہرۃ، ج 2 ص 126-129، عمر رضا ککحالہ، اعلام النساء ج 2 ص 95-97۔
6۔ اجوبۃ المسائل الدینیہ المجلد الثالث عشر، رجب 1389 – الجزء 8. معنی عسلان الفلوات صص 262 تا 264۔
7۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج45 ص135۔ السیدۃ مریم نورالدین فضل الله، المرأۃ فی ظلّ الاسلام ج1 ص305 259۔
8۔ سید عبدالکریم هاشمی نژاد، ، ص 330۔
9۔ محمّد محمّدی اشتہاردی، ، ص 248.
10۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج45 ص132۔
11۔ حسن الہی، ، ص 208۔
12۔ محمد باقر مجلسی، وہی ماخذ، ص133۔
13۔ ابومخنف، ، ص 306و307/ سیدبن طاووس، ، ص 213۔
14۔ (بحوالہ الزرکلی، الاعلام، ج3 ص823)۔
15۔ آل عمران (3) آیت 178۔
16۔ مجلسی، وہی ماخذ ص133۔
17۔ آل عمران (3) آیت 169 ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔
18۔ کہف ،آیت 50۔
19۔ مریم ، 75 ۔
20۔ محمّدباقر مجلسی،، ج 45، ص 135 / سیدبن طاووس، ص 221.
21۔ شیخ مفید، الارشاد،ص358/حسن الہی، ص 244۔