امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمیٰ کے بعد کے واقعات
امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمیٰ کے بعد کے واقعات
شہادت حسینیؑ کے بعد غضب الہیٰ کے آثار:
اخبار سے واضح ہوتا ہے کہ حجت خدا کی مظلومانہ شہادت کے بعد کائنات میں طلاطم پیدا ہوگیا اور انقلاب عالم عذاب الہیٰ کے آثار نمایاں ہونے لگے سیاہ آندھیاں چلنے لگیں زمین میں زلزلہ آگیا آسمان سے خون کی بارش ہوئی بجلیاں کڑکنے لگیں دن کے وقت تارے دکھائی دینے لگے اور فضا میں تاریکی چھا گئی کافی وقت تک یہی کیفیت رہی۔
مندرجہ ذیل علامات کا تذکرہ بردران اسلامی کی کتب میں موجود ہے تین دن تک دنیا تاریک ہوگئی سخت اندھیرا چھا گیا یہاں تک کہ لوگوں نے سمجھا قیامت چھا گئی دن دہاڑے تارے نمودار ہونے لگے سورج کو گہن لگ گیا آسمان سے خون برسا اور اس کا اثر دیواروں اور کپڑوں پر مدت تک باقی رہا دوسرے دن جب مٹکے اور گھڑے دیکھے گئے تو خون سے پر تھے اور جب کوئی پتھر ڈھیلا زمین سے اٹھایا جاتا تو اس کے نیچے سے ابلتا ہوا خون نکلتا۔
کئی آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت سے پہلے آسمان پر سرخی نہ تھی اس کا سلسلہ شہادت امام کے بعد شروع ہوا ۔
غیبۃ الطالبین میں ہے کہ
ھبط علی قبر الحسین بن علی علیھما السلام لما اصین سبعون الف ملک یبکون علیہ الی یوم القیامۃ
جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو نازل کیا جو مام مظلوم پر قیامت تک گریہ و بکا کرتے رہیں گے۔
جناب ام سلمہ اور ابن عباس نے روز عاشوراء رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ سر اور ریش مبارک میں خاک تھی اور دست مبارک میں ایک شیشی تھی جس میں سید الشہداء اور ان کے اعز و اقرباء کا مقدس خون تھا انہوں نے پریشانی کی وجہ وجہ دریافت کی تو فرمایا میں ابھی ابھی حسین کی قتل گاہ سے آرہا ہوں۔
اسی طرح ناسخ میں ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد قوم اشقیاء نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ہاتف غیبی کی آواز آئی
قتل واللہ الامام ابن الامام و اخو الامام وابو الائمۃ الحسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام ولنعم ما قیل
و یکبرون بان قتلت وانما قتلوا بک التکبیر والتھلیلا
لاش مبارک کو لوٹنا:
انسان نما درندوں نے صرف شہادت امام پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ جسد اطہر کے ساتھ جو تار تار شدہ لباس تھا وہ بھی لوٹ لیا چناچہ قمیص قمیص اسحاق بن الحیواۃ حضرمی نے اتاری، شلوار بحر بن کعب تمیمی نے، عمامہ خنس بن مرثد نے ، نعلین اسود بن خالد نے ، اور انگوٹھی بجدل بن سلیم کلبی نے اتاری جس کے ساتھ ملعون آقائے نامدار کی انگشت مبارک بھی قلم کر گیا اور چادر یمانی قیس بن اشعث اور زرہ عمر بن سعد نے حاصل کی ۔
یہ تمام کے تمام مختلف آفات و بلیات میں مبتلا ہوکر واصل جہنم ہوئے۔
لاش مقدس کو گھوڑوں کے سموں تلے پامال کرنا:
اس واقعہ ہائلہ کی اجمالی کیفیت جو کتب میں مذکور ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد عمر بن سعد نے اپنی سپاہ کو خطاب کرکےکہا
من ینتدب للحسین و یوطئہ فرسہ؟
تم میں سے کون حسینؑ کی لاش کو پامال سم اسپاں کرے گا؟
اس اعلان کے بعد دس شقی ترین انسان آگے بڑھے جن کے نام یہ ہیں
اسحاق بن حیوہ، اخنس بن مرثد، حکم بن طفیل، عمر بن صبیح صیداوی، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خثیمہ جعفی، داحظ بن ناعم، صالح بن وہب الجعفی، ہانی بن ثبیت حضرمی اسید بن مالک لعنھم اللہ جمیعا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ کہ
فدا الحسین علیہ السلام بحوافر خیولھم حتی وضوا صدرہ وظھرہ
ان ملاعین نے امام حسین علیہ السلام کی لاش کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے اس طرح پامال کیا کہ سینے کی ہڈیاں پشت کی ہڈیوں کے ساتھ مل کر ریزہ ریزہ ہوگئی ۔ اور ابن زیاد بد نہاد لے دربار میں اپنے اس سیاہ کارنامے کو فخریہ انداز میں اس طرح بیان کیا
نحن رضضنا الصد ر بعد الظھر بکل یعیوب شدید الاسر
ابو عمر زاہد کا بیان ہے کہ
فنظرنا الی ھولاء العشرۃ جدنا ھم جمیعا اولادزنا
ہم نے جب ان دس افراد کے نسبی حالات و کوائف کا جائزہ لیا تو سب کے سب ولد الزنا معلوم ہوئے۔
امام علیہ السلام کا خیام کی طرف لوٹنا:
اخبار وآثار سے آشکار ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام کے گھوڑے نے سر و گردن کو امام کے خون سے رنگین کیا اور پریشان حال دوڑتا اور ہنہناتا ہوا خیام کی طرف آیا جب حرم رسول نے گھوڑے کی آواز سنی تو خیمے کے در پر آگئیں دیکھا کہ رہوار بلا سوار ہے یقین ہوگیا کہ امام شہید ہوگئے ہیں بیبیوں نے گریہ و بکا کیا اور جناب ام کلثوم نے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ بین کیا :
وا محمداہ ھذا الحسین بالعراء قد سلب العمامۃ والرداء
ہائے نانا! یہ حسین ہیں جو لق و دق صحرا میں پڑے ہیں اور حالت یہ ہے کہ سر سے عمامہ اور کاندھوں سے ردا چھین لی گئی ہے۔
بعض کتب میں ہے کہ امام کی شہادت کے بعد گھوڑے کو پکڑنے کی کوشش کی گئی مگر گھوڑا پیشانی کو خون امام سے رنگین کرکے دوڑتا اور ہنہناتا ہوا خیام گاہ حسینی کی طرف آگیا اور وہاں زور زور سے سر مارنا شروع کر دیا جس سےگھوڑے کی موت واقع ہوگئی۔
یا اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ گھوڑے نے خود کو دریائے فرات میں ڈال کر امام سے عہد وفاداری کا حق اداکیا۔
بعض کتابوں میں ایک عجیب و غریب واقعہ نقل ہوا ہے کہ جب امام زمین پر تشریف لائے تو گھوڑے نے اپنے عظیم سوار کی حفاظت اس طرح کی کہ فوج اشقیاء کے سواروں میں اسے پہلے کسی سوار پر حملہ کرکے نیچے گرادیتا اور پھر اپنی ٹاپوں سے روند ڈالتا ۔
شہادت امام کے بعد مذکورہ بالا کیفیت کے ساتھ گھوڑا کا خیام کی طرف آنا جناب سید مرتضیٰ علم الہدیؒ کی انشاء کردہ زیارت امام میں وارد ہے:
فلما رائن جوادک مخزیا و سرجک علیہ ملویا برزن من الخدور ناشرات الشعور علی الخدود لاطمات الوجوہ سافرات وبالعویل واعیات و بعد العز من مذللات
جب مخدرات ؑسنت نے تیرے رہوار کو اس طرح پریشان حال دیکھا کہ زین ایک طرف سرکی ہوئی ہے ۔ تو بیبیاں کھلے بالوں ، منہ پر طمانچے مارتی ہوئیں خیام سے باہر نکل آئیں اور جگر خراش بین کرنے لگیں۔
اور جناب سکینہ بنت حسین علیہما السلام نے یہ بین کیا
واقتیلاہ وا ابتاہ وا حسناہ وا حسیناہ۔ وا غربتاہ وبعد سفراہ و اطول کربتاہ۔ ھذا الحسین بالعراء مسلوب العمامۃ والرداء
(استفادہ از : سعادت الدارین )