عزاداری کے موجودہ کیفیت کے مراسم کہاں سے شروع ھوئے
سوال کا خلاصہ
امام حسین {ع} کی عزاداری کے موجودہ کیفیت کے مراسم کہاں سے شروع ھوئے ہیں؟
سوال
ہم پیمغبر اسلام {ص} اور ائمہ اطہار {ع} کی زندگی پر جب نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں موجودہ کیفیت میں مرسوم عزاداری کی تقریبات نہ صرف نہیں ملتی ہیں، بلکہ اس قسم کے کام کی ممانعت کی گئی ہے- - - مثال کے طور پر جنگ احد میں حضرت حمزہ {ع} کے شہید ھونے اور جعفر بن ابیطالب کے شہید ھونے کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے نہ صرف اس قسم کی عزاداری کے مراسم منعقد نہیں کئے ہے، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ اس کی ممانعت بھی کی ہے - - - اور یہ مراسم کہاں سے شروع ھوئے ہیں؟
ایک مختصر
پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت حمزہ کے سوگ میں گریہ و زاری کی ہے اور اس سلسلہ میں گریہ و زاری کرنے کے لئے دوسروں کی ہمت افزائی بھی کی ہے- شیعوں کے ائمہ اطہار {ع} نے بھی کربلا کے واقعہ کو مختلف صورتوں میں زندہ رکھنے کے لئے ہمت افزائی کی ہے، مثال کے طور پر:
الف} عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنے کی ہمت افزائی-
ب} رونے اور رولانے کی ہمت افزائی-
ج} مرثیہ کہنے کے سلسلہ میں شاعروں کی ہمت افزائی-
د} امام حسین {ع} کی زیارت کرنے کی تاکید و ترغیب-
مجموعی طور پر دینی تعلیمات سے معلوم ھوتا ہے کہ جس چیز کی تاکید کی گئی ہے، وہ بنیادی طور پر عزاداری قائم کرنا ہے- لیکن عزاداری کی کیفیت کو ہر شہر اور علاقہ کے رسومات پر چھوڑا گیا ہے اور جب تک شارع مقدس کی طرف سے کسی خاص قسم کی عزاداری کی ممانعت نہیں کی گئی ھو یا کسی خاص قسم کی عزاداری قائم کرنا اسلام اور مکتب اہل بیت {ع} کی قدروں اور اصول کے منافی نہ ھو تو ہم اس قسم کی عزاداری کے جائز ھونے کے قائل ھو سکتے ہیں-
تفصیلی جوابات
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱-تمہید کے طور پر قابل بیان ہے کہ، تاریخ انسان کی برجستہ اور عظیم شخصیتوں کی یاد کو زندہ رکھنا چاہئیے اور ان کی قابل پسند صفات اور حالات کی طرف خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے، اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام {ص} اور ائمہ معصومین {ع} شہیدوں خاص کر سرور شہیدان حضرت امام حسین {ع} کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف طریقوں سے استفادہ فرماتے تھے-
اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عزاداری کی مجلسوں کا انعقاد اور شہدائے کربلا کی شجاعتوں، جاں نثاریوں اور قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے تقریروں کے جلسات منعقد کرنا، ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے معنی میں ہے اور اس طرح ان قربانیوں کی قدر دانی کے علاوہ یہ مجلسیں ،ان کے پیغام و مفاہیم کو انسانوں تک پہنچانے کے لئے درس کے کلاس ہیں-
۲-شہداپر گریہ و زاری کرنا اور ان کے لئے عزاداری کرنا-
ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں:
الف} جب حضرت حمزہ شہد کئے گئے،تو ان کی بہن، صفیہ بنت عبدالمطلب ان کو ڈھونڈنے نکلیں، انصار، ان کے اور حضرت حمزہ کے جنازہ کے درمیان حائل ھوگئے، پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا:" انھیں آزاد چھوڑ دو، صفیہ آگئیں اور حضرت حمزہ کے جنازہ کے پاس بیٹھ گئیں، چونکہ وہ بلند آواز میں رو رہی تھیں، اس لئے پیغمبر اسلام {ص} بھی رو رہے تھے اور جب وہ آہستہ رو رہی تھیں، تو پیغمبر اکرم {ص} بھی آہستہ رو رہے تھے- فاطمہ بنت محمد {ص} بھی رو رہی تھیں اور آنحضرت {ص} بھی ان کے ساتھ رو رہے تھے اور فرماتے تھے: تیری مصیبت کے برابر ہرگز مجھے کوئی بڑی مصیبت سے دوچار نہیں ھونا پڑا ہے؛ اس کے بعد جناب صفیہ اور حضرت فاطمہ {س} سے مخاطب ھوکر فرمایا: بشارت دیجئے کہ ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر حمزہ کے لئے لکھا گیا ہے کہ وہ شیر خدا اور شیر رسول خدا {ص} ہیں-[1]
ب} جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرم {ص} مدینہ کی طرف روانہ ھوئے، اس دوران آنحضرت [ص]ایک انصار کے گھر کے نزدیک سے گزرے، آپ {ص} نے سنا کہ اس گھر کے ساکن اپنے مقتولین پر گریہ و زاری کرتے تھے، آنحضرت {ص} کی آنکھیں پر نم ھوگئیں اور روتے ہو ئے فرمایا:" لیکن حمزہ پر کوئی نہیں رو رہا ہے" اور جب سعد بن معاد اور اسید بن حضیر، محلہ بنی عبداللہ شہل کی طرف لوٹے تو اپنے قبیلہ کی خواتین سے کہا:" اپنے کام کو چھوڑ دو اور جاکر پیغمبر اکرم {ص} کے چچا پر گریہ و زاری کرو"[2]-
ج} پیغمبر اسلام {ص} نے ہجرت کے آٹھویں سال، جناب جعفر بن ابیطالب، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کو لشکر کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے شام بھیج دیا، یہ لشکر شام میں بلقاء کے علاقہ میں " موتہ" نامی ایک سر زمین پر پہنچا، زید نے پرچم کو بلند کیا اور جنگ لڑی، یہاں تک کہ شہید ھوئے- اس کے بعد جعفربن ابیطالب نے پرچم کو بلند کیا، ان کے دائیں بازو کو تن سے جدا کیا گیا، پھر انھوں نے پرچم کو بائیں بازو سے بلند کیا اور شجاعت کے ساتھ لڑتے رہے، اس کے بعد ان کے بائیں بازو کو بھی تن سے جدا کیا گیا اور ان کے بدن کے دوٹکڑے ھوگئے- - - رسول خدا {ص} نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا:" علی مثل جعفر فلتبک البواکی" " جعفر جیسوں پر عورتوں کو توجہ اور گریہ و زاری کرنی چاہئیے-" جناب جعفر کی شریک حیات اسماء بنت عمیس حثعمی نے کہا:" جب میں نے رسول خدا {ص} سے جعفر کی شہادت کی خبر سنی، میں نے آواز بلند کی: " واجعفراہ؛" اور رسول خدا {ص} کی بیٹی فاطمہ {س} نے بھی میری آواز سن کر فریاد بلند کی:" وا ابن عماہ" وائے؛ میرے چچازاد بھائی؛" اس کے بعد رسول خدا {ص} اپنی عبا کو کھینچ رہے تھے اور بے اختیار آنسو بہا رہے تھے اور باہر جاکر فرماتے تھے: " علی جعفر فلتبک البواکی" " رونے والی عورتوں کو جعفر پر رونا چاہئیے-" اس کے بعد فرمایا:" یا فاطمہ اصنعی لعیال جعفر طعاما فانھم فی شغل"- " اے فاطمہ؛ جعفر کے اہل و عیال کے لئے کھانے کا اہتمام کرنا، کیونکہ وہ مصیبت میں ہیں"- اس لئے فاطمہ {س} نے تین دن تک ان کے لئے کھانے کا اہتمام کیا اور اس کے بعد بنی ہاشم میں یہ رسم جاری رہی-[3]
د} رسول خدا {ص} پرحضرت فاطمہ {س} کا گریہ کرنا-
سعید بن سلمان نے عباد بن عوام سے، اور انھوں نے ہلال بن خباب سے، انھوں نے عکرمہ سے، انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ جب سورہ نصر نازل ھوئی، پیغمبر اکرم {ص} نے حضرت فاطمہ {س} کو بلاکر فرمایا:" مجھے میرے موت کی خبر دی گئی ہے- فاطمہ {س} کہتی ہیں کہ: میں نے رویا، پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: نہ رونا، تم میرے اہل بیت {ع} میں سے پہلی شخص ھو، جو مجھ سے ملحق ھوں گی، اور میں نے ہنسا-[4]
ھ} شیعوں کے ائمہ معصومین {ع} کے توسط سے امام حسین {ع} کی عزاداری منعقد کرنے کے مختلف طریقے:
عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنا-
ائمہ اطہار {ع} نے امام حسین {ع} کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے جن طریقہ کار سے استفادہ کیا ہے، ان میں سے کربلا کی مصیبت پر عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنا، رونا، رلانا اور مناسب زمانوں میں اس حادثہ کی یاد تازہ کرنا ہے-
امام سجاد {ع} اپنی پوری امامت کے دوران عاشورا کے لئے مسلسل عزادار رہتے تھے، انھوں نے اس مصیبت کے سلسلہ میں اس قدر رویا ہے کہ انھیں " بکائین" یعنی کافی گریہ کرنے والے کا لقب دیا گیا تھا-[5]
علقمہ حضرمی نقل کرتے ہیں کہ امام باقر {ع} عاشور کے دن اپنے گھر میں امام حسین {ع} کے لئے عزاداری کی مجلس منعقد کرتے تھے اور آپ {ع} خود بھی اپنے جد امجد امام حسین {ع} پر روتے تھے- اس سلسلہ میں تقیہ سے کام نہیں لیتے تھے، اور گھر میں موجود افراد سے فرماتے تھے:" حضرت امام حسین {ع} کے لئے سوگ منائیں اور حضرت {ع} کی مصیبت پر ایک دوسرے کو تسلیت کہیں"-[6]
امام صادق {ع} نے داود زقی سے فرمایا:" میں نے جب بھی ٹھنڈا پانی پیا مجھے امام حسین {ع} کی یاد آئی"-[7]
حضرت امام رضا {ع} سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ {ع} فرماتے تھے:" جب محرم کا مہینہ پہنچتا تھا، کسی نے میرے باپ { امام کاظم {ع} کو ہنستے نہیں دیکھا ہے اور ان پر عاشور کے دن تک غم و اندوہ طاری رہتا تھا، وہ دن ان کے لئے مصیبت اور حزن کا دن ھوتا تھا اور گریہ و زاری کرتے ھوئے فرماتے تھے: آج وہ دن ہے، جب امام حسین {ع} کو شہید کیا گیا ہے"[8]
ائمہ اطہار {ع} امام حسین {ع} کے سوگ میں نہ صرف خود روتے تھے، بلکہ ہمیشہ لوگوں کو حضرت {ع} پر رونے کی ہمت افزائی فرماتے تھے- ایک روایت میں آیا ہے:" جو شخص امام حسین {ع} پر روئے، یا {حتی} ایک شخص کو رلائے، اس کا صلہ بہشت ہے اور جو بھی غم و آلام کی حالت پیدا کرے، اس کا اجر بھی بہشت ہے"-[9]
جو شعراء، کربلا کی مصیبت کو اپنے اشعار میں بیان کرتے تھے اور ان کو محفلوں میں پڑھتے تھے، ائمہ معصومین {ع} کی طرف سے ان کے حق میں لطف و مہربان کی جاتی تھی اور انھیں انعامات دئے جاتے تھے- ایسے افراد میں کمیت اسدی، دعبل خزاعی اور سید حمیری وغیرہ [10]قابل ذکر ہیں-
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ، پیغمبر اسلام {ص} اور ائمہ اطہار {ع} کی طرف سے گریہ و زاری اور عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنے کی نہ صرف ممانعت نہیں کی گئی ہے، بلکہ آنحضرت {ص} اور معصومین {ع} کی طرف سے گریہ و زاری اور عزاداری کی مذکورہ مثالوں کے پیش نظر، کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے کہ عزاداری و گریہ و زاری ، پیغمبر {ص} اور ائمہ اطہار {ع} کی سیرت رہی ہے-
۳-لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ عزاداری کی کیفیت تمام زمان و مکان میں یکسان ھو؟ اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ دینی تعلیمات سے مجموعی طور پر معلوم ھوتا ہے کہ بنیادی طور پر ہم سے گریہ و زاری اور عزاداری کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن عزاداری کی کیفیت کو ہر شہر اور علاقہ کے عرف پر چھوڑ دیا گیا ہے اور جب تک شارع مقدس، عزاداری کی کسی خاص قسم کے بارے میں ممانعت نہ کرے-[11] یا عزاداری کی کوئی خاص کیفیت اسلام اور مکتب اہل بیت {ع} کے بنیادی اصولوں اور قدروں سے منافات نہ رکھتی ھو، توہم عزاداری کی اس خاص کیفیت کے جائز ھونے کےقائل ھوسکتے ہیں-[12]
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے، ہم ذیل میں، صحیح عزاداری کے طریقہ کار کے بارے میں آیت اللہ، پروفیسر ہادوی تہرانی کے بیانات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں:
" اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ امام حسین {ع} کی عزاداری منعقد کرنا شیعوں کا ایک عظیم شعائر شمار ھوتا ہے، جس نے پوری تاریخ میں مکتب تشیع کی قدروں کی حفاظت کی ہے اور اسے نسل بہ نسل منتقل کیا ہے"-
جیسا کہ روایت میں آیا ہےکہ، امام حسین {ع} اسلام کے بقا کے عامل تھے اور بہ الفاظ دیگر نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا {ص} نے فرمایا ہے: " حسین منی و انا من حسین " کہ اس عبارت کی تفسیر میں کیا گیا ہے کہ حسین {ع} خاتم الانبیاء {ص} کے فرزند اور نواسے ہیں- اور رسول اکرم {ص} نے اگر فرمایا ہے کہ " وانا من حسین" وہ اس لئے ہے کہ مکتب اہل بیت {ع} جو اسلام کی حقیقت ہے اور حقیقی اسلام اس میں متجلی ھوا ہے، امام حسین {ع} کے ذریعہ باقی و زندہ رہا ہے- اس مکتب کی بقاء ان ہی عزاداری کی مجلسوں اور امام حسین {ع} کی طرف توجہ کرنے کے سبب سے ہے- لیکن ان مجلسوں کو منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ، جو موقع فراہم ھوتا ہے، اس سے عام طور پر امام حسین {ع} کے مکتب کی معرفت حاصل کرنے اور خاص کرامامت سے متعلق مسائل کی طرف توجہ کرنے کا استفادہ کرنا چاہئیے- قابل توجہ بات ہے کہ اس قسم کی مجالس کے ثقافتی مسائل اس طرح ھونے چاہئیے جو امام حسین {ع} کے نصب العین اور قدروں کے متناسب ھوں اور کسی صورت میں اسلامی قدروں اور معیاروں کے منافی نہیں ھونے چاہئیے -سب سے اہم مسئلہ جس کی طرف ان مجلسوں میں خاص توجہ کی جانی چاہئیے، محرمات سے پرہیز کرنا ہے- امام حسین {ع} امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی راہ پر شہید ھوئے ہیں، امر بالمعروف، یعنی لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دینا اور نہی عن المنکر، یعنی لوگوں کو برائیوں اور جن امور کی دین کی طرف سے ممانعت کی گئی ہے، سے روکنا ہے- اس بناپر امام حسین {ع} کی مجلسیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مصداق ھونی چاہئے- یعنی ان مجلسوں میں شرکت کرنے والوں کو نیکی اور خیر اور جن امور کا خداوند متعال سے امر کیا گیا ہے، کی دعوت دینی چاہئیے اور با الفاظ دیگر ان امور کی نہی کی جانی چاہئیے، جن کے بارے میں خداوند متعال نے منع کیا ہے اور اگر خدانخواستہ ان مجلسوں میں کسی قسم کا منکر متحقق ھو جائے اور یا کسی معروف کے بارے میں غفلت برتی جائے، مثال کے طور پر نماز کے بارے میں بے اعتنائی کی جائے اور دوسرے مقدسات کی طرف توجہ نہ کی جائے، تو بیشک یہ امام حسین {ع} کے نصب العین کے متناسب نہیں ہے-
اس قسم کی مجالس میں شرکت کرنے والے، ان مجلسوں کو منعقد کرنے والے اور سامعین اور خطاب کرنے والوں پر ایک مسئولیت ہے- ہم سب مسئول ہیں کہ امام حسین {ع} کے نصب العین کی حفاظت کریں اور ہر ایک کو اپنی حیثیت کے مطابق اس ذمہ داری کو نبھانا ہے، ان مجلسوں میں خطاب کرنے والوں کے مطالب ایسے ھونے چاہئیے کہ، دین کے بارے میں لوگوں کے علم و دانش میں اضافہ کرسکیں اور ان کے دینی اعتقادات قوی تر ھو جائیں- اسلام میں دینی حقائق ،قدروں اور معیاروں پر مبنی ہیں- اسلام، عقل، دانائی، معرفت اور بصیرت کا دین ہے، نہ جہل و خرافات و افسانوں کا دین- اس بنا پر ان مجلسوں میں خطاب کرنے والوں کو سامعین کے سامنے وہ معلومات پیش کرنی چاہئیے، جو اسلام ک بارے میں صحیح ھوں- اگر خدانخواستہ اسلام کے بارے میں غلط مطالب بیان کئے جائیں اور لوگوں کے سامنے غلط معلومات رکھی جائیں، تو یہ کام بذات خود ایک قسم کا منکر پھیلانے کے مترادف ھوگا اور امام حسین {ع} کے نصب العین کے خلاف ھوگا-
اگر یہ جلسات اس طرح ھوں کہ خرافات اور باطل مطالب کے ذریعہ لوگوں کے ایمان کو متزلزل کیا جائے اور ہماری مفکر اور عقلمند نسل کو اس قسم کی مجالس کے بارے میں متنفر بنائیں، تو یہ امام حسین {ع} کے نصب العین اور اسلامی قدروں کے متناسب نہیں ہے- امام حسین {ع} کی عزاداری کی مجلسیں دینی حقائق، معارف اور امام حسین {ع} سے عشق و محبت پر مبنی ھونی چاہئیے- اگر ان مجلسوں میں کوئی ذاکر امام حسین {ع} کی مصیبت بیان کرے، تو اسے لوگوں میں وہ مطالب بیان کرنے چاہئیے جو تاریخی لحاظ سے مستند اور امام حسین {ع} کی شان کے متناسب ھوں- ان کو تاریخی حقائق اور امام حسین {ع} اور ان کے خاندان، با وفا اصحاب اور اولاد کے مصائب کو مناسب اور خوبصورت انداز میں بیان کرنا چاہئیے اس سلسلہ میں یہ مطالب شعر کی زبان میں بیان کرنا زیادہ مناسب ہے- لیکن تاریخی لحاظ سے جو مطالب مستند نہ ھوں یا اسلامی مفاہیم کے متناسب نہ ھوں، انھیں امام حسین {ع} کے معارف کے عنوان سے یا امام حسین {ع} کے عشق کے عنوان سے بیان نہیں کرنا چاہئیے- اسلام میں جوعشق قابل قدر ہے، وہ عقل و خرد پر مبنی عشق ہے، جو حقیقت میں عقل کو نورانیت بخشتا ہے، دین کی معرفت حقیقت میں تجلی بخش ھونی چاہئیے اور اسے ایمان اور اعتقاد کے روپ میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئیے- نہ یہ کہ ہم لوگوں کے سامنے دین کے بارے میں، تاریخ اور عقل کے خلاف مطالب بیان کریں اور بہانہ یہ ھو کہ ہم امام حسین {ع} کے عشق و ایمان کو معاشرہ میں پھیلانا چاہتے ہیں-"
[1] -واقدى، محمد بن عمر، مغازى تاريخ جنگهاى پيامبر(ص)، ترجمه، دامغانى، محمود مهدوى، ص 209، تهران، مركز نشر دانشگاهى، طبع دوم، 1369ش.
[2] - طبرى، محمد بن جرير، تاريخ الطبري، ترجمه، پاينده، ابو القاسم، ج 3، ص 1039 و 1040، طبع پنجم، 1375 ش.
[3] - يعقوبى، احمد بن ابى يعقوب ابن واضح، تاريخ اليعقوبى، ترجمه، آيتى، محمد ابراهيم، ج 1، ص 427 و 428، انتشارات علمى و فرهنگى ، طبع ششم ، 1371ش.
[4] - واقدى، محمد بن سعد كاتب، ترجمه، مهدوى دامغانى، محمود، الطبقات الكبرى، ترجمه، ج 2، ص 188، تهران، انتشارات فرهنگ و انديشه، 1374ش؛ عز الدين على بن اثير، ترجمه، حالت، ابو القاسم و خليلى، عباس، تهران، مؤسسه مطبوعاتى علمى، 1371ش.
[5] - وسائل الشیعة، ج 2، ص 922.
[6] - وسائل الشیعة، ج 10، ص 398.
[7] - امالی صدوق، ص 142.
[8] - مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، بخش مربوط به اعمال ماه محرم.
[9] - بحارالانوار، ج 24، ص 284.
[10] -سوال:2302 (سایت: 2518).
[11] - ملاحظہ ھو:محدث نورى، مستدرك الوسائل، ج 2، ص 458 ، مؤسسه آل البيت (ع)، قم، 1408 هجرى قمرى.
[12]-اس سے متعلق عنوان: حکم قمه زدن در زمان حاضر، سؤال 728 (سایٹ: 772).