دینی اور لا دینی مکاتب اور نظاموں کے درمیان کون سے امتیازات ہیں؟
سوال
میں یہ جاننا چاہتا ھوں کہ دینی اور لادینی مکاتب اور نظاموں کے درمیان کون سے معیار ایک دوسرے کے برتر یا پست تر ھونے کا سبب بنتے ہیں؟
ایک مختصر
پہلے یہ نکتہ بیان کرنا ضروری ہے کہ دین اسلام اور دوسرے تحریف نہ ھوئے آسمانی ادیان کے درمیان اصلی شباہتیں ، استقرار توحید و خدا پرستی اور خدا کے بندوں کو غیر خدا کی پرستش سے نجات دلانا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوا ہے : " ہم نے ہر امت میں ایک رسول مبعوث کیا ہے تاکہ تم لوگ خدا کی عبادت کروگےاور طاغوت سے اجتناب کرو گے-" اگر ہم اس یکساں شباہت کو مدنظر رکھیں، حتی عیسائی دین اور یہودی دین بھی حضرت عیسی {ع} اور موسی{ع} جیسے پیغمبروں کی توحیدی اور یکتا پرستی کی آواز کے مطابق اور اپنے ابتدائی الہی اصولوں کی ہر قسم کی تحریف سے دورلادینی مکاتب فکر کے مقابلے میں امتیازات کے حامل ہیں- اگر چہ ہر زمانے میں ان ادیان الہی کے پیرووں نے اپنے دین کے ابتدائی اصولوں کے بارے میں بے اعتنائی برتی ہے اور اس طرح توریت و انجیل میں تحریف کا اقدام کیا ہے اور اس طرح یہ ادیان لا دین مکتب کے مشابہ بن گئے ہیں-
دینی مکتب اور لا دینی مکتب و نظام کے درمیان سب سے اہم امتیاز، انسانی فطرت کو بیدار کرنا اور بالقوہ معنوی کمالات کو عملی جامہ پہنانا ہے جو اس میں امانت رکھے گئے ہیں- بہ الفاظ دیگر انسان کے اندر صحیح دینی بنیادوں اور قدروں کی بنیاد پر " بودن" سے " شدن" یا بالقوہ حالت سے بالفعل حالت میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے آمادگی مہیا کرنا ہے-
تفصیلی جوابات
پہلے یہ نکتہ بیان کرنا ضروری ہے کہ دین اسلام اور دوسرے تحریف نہ ھوئے آسمانی ادیان کے درمیان اصلی شباہتیں ، استقرار توحید و خدا پرستی اور خدا کے بندوں کو غیر خدا کی پرستش سے نجات دلانا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوا ہے : " ہم نے ہر امت میں ایک رسول مبعوث کیا ہے تاکہ تم لوگ خدا کی عبادت کروگےاور طاغوت سے اجتناب کرو گے[1]-" اگر ہم اس یکساں شباہت کو مدنظر رکھیں، حتی عیسائی دین اور یہودی دین بھی حضرت عیسی {ع} اور موسی{ع} جیسے پیغمبروں کی توحیدی اور یکتا پرستی کی آواز کے مطابق اور اپنے ابتدائی الہی اصولوں کے ہر قسم کی تحریف سے دورلادینی مکاتب فکر کے مقابلے میں امتیازات کے حامل ہیں- اگر چہ ہر زمانے میں ان ادیان الہی کے پیرووں نے اپنے دین کے ابتدائی اصولوں کے بارے میں بے اعتنائی برتی ہے اور اس طرح توریت و انجیل میں تحریف کا اقدام کیا ہے اور اس طرح یہ ادیان لا دین مکتب کے مشابہ بن گئے ہیں-
لیکن ادیان الہی کے درمیان، دین اسلام ایک جامع دین ہے اور اس کی تعلیمات انسان کو سعادت کے کمال تک پہنچانے کے تمام انفرادی اور سماجی امکانات کی حامل ہیں- دین اسلام کا جامع ھونا اس کے قلمرو کی وسعت کو بڑھانے کی علامت ھوگی- دین اسلام کی جامعیت، اس کے خدا کی طرف سے نازل ھونے کےہم سو ہے اور دین کے نازل ھونے کا مقصد وہی انسان کی خلقت کا مقصد ہے، کیونکہ خداوند متعال نے چونکہ انسان کو ایک مقصد کے لئے پیدا کیا ہے، اس لئے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری احکام، دستور العمل اور معارف کا بھی حامل ھونا چاہئیے- خداوند متعال نے ان پرو گراموں کو مختلف زمانوں میں انسانوں کی ضروریات اور شائستگی کےمطابق بھیجا ہے اور یہ تمام پروگرام، اسلام کے نام سے حضرت محمد مصطفی {ص} اور آپ {ص}کے جا نشینوں کے ذریعہ انسان کے لئے لائے گئے ہیں-[2]
پس، مکتب و دین اسلام ، دوسرے ادیان پر برتری اور جامعیت رکھتا ہے، لیکن، کلی طور پر دوسرے مکاتب و ادیان الہی کا لا دینی مکاتب کے ساتھ کافی فرق ہے جو کسی بھی الہی ادیان کے اصول کے پابند نہیں ہیں اور تحریف سے دوچار ہیں، جیسے لیبرلزم- ہم ذیل میں ان امتیازات اور تفاوتوں کی طرف { کلی طور پر} ایک اشارہ کرتے ہیں:
الف} مقاصد میں امتیاز و تفاوت:
جن مکاتب اور نظاموں کی زندگی کے اصول اور طریقہ کار دین پر مبنی نہیں ہیں، وہ اپنی تمام توجہ کو " دنیا" اور " انسان محوری" پر مرکوز کرتے ہیں- بہ الفاظ دیگر، ان کا بنیادی مقصد صرف معاشرہ اور انسان کی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا ھوتا ہے اور اس سے بالاتر مقصد کو مدنظر نہیں رکھتے ہیں[3]، لیکن دینی نظام کے دو مقاصد ھوتے ہیں، ان میں سے ایک اس دنیا کی سعادت حاصل کرنے کی ضرورت کو پورا کرنا اور دوسرا آخرت کی لافانی خیر و سعادت کی ضرورت کو پورا کرنا ھوتا ہے-
اسلام کے مکتب و دین کے سب سے اہم مقاصد حسب ذیل ہیں:
۱- زمین پر توحید اور خدا پرستی کو قائم کرنا اور لوگوں کو غیر خدا ک پرستش سے نجات دلانا، جس کی طرف اشارہ کیا گیا-
۲- اسلامی عدل و انصاف کے ذریعہ ایک بے مثال اور نصب العین والا معاشرہ تشکیل دینا:" ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ { آسمانی} کتاب اور میزان { حق و باطل اور عادلانہ قوانین کی شناسائی} نازل کیا ہے تا کہ لوگ عدل و انصاف کے لئے قیام کریں-[4]"
انسانی فضائل کی رشد و بالیدگی اور کمال و قرب الہی تک پہنچنے کے لئے سماجی عدل و انصاف قائم کرنے کا مسئلہ، اسلام کے اہم منصوبوں میں سے ہے- جبکہ کوئی بھی لادینی مکتب انسان کے فضائل کی رشد و بالیدگی اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کوئی پروگرام نہیں رکھتا ہے-
۳- انسان کی فطرت کو بیدار کرنا اور اس میں موجود بالقوہ معنوی کمالات کو عملی جامہ پہنانا- بہ الفاظ دیگر انسان کے اندر صحیح دینی بنیادوں اور قدروں کی بنیاد پر " بودن سے " شدن" یا بالقوہ حالات سے بالفعل حالات میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے آمادگی مہیا کرنا ہے-
ب} اچھے اور برے کو پہچاننے کے طریقہ کار اور معیاروں میں تفاوت:
لادینی نظاموں اور مکاتب کے طریقہ کار اور منصوبے اور اچھے اور برے کی تشخیص اور باید و نباید، عام طور پر دینی اور الہی قدروں اور اصول کو مد نظر رکھے بغیر انجام پائے جاتے ہیں- ان کے اعتقاد کے مطابق، عقل، وحی کی مدد کے بغیر اکیلے ہی، اچھے اور برے کا فرق سمجھ سکتی ہے- یہ نظریہ" عقل پرستی کی انتہا پسندی" کے نام سے مشہور ہے- اور ان میں سے بعض افراد نیک و بد کی تشخیص کے معیار کو صرف انسان کے جذبات و احساسات جانتے ہیں- نیک و بد کے معیار کے بارے میں کچھ اور بھی نظریات پائے جاتے ہیں-
یہ بات مسلم ہے کہ قدروں کی بے اعتنائی" مقصد، وسیلہ کی توجیہ کرنے" کا سبب بنتی ہے اور عملی میدان میں یہ اصول حاکم کی صورت اختیار کرتا ہےاور اس طرح نصب العین اور اخلاقی اصول سے چشم پوشی کی جاتی ہے-
لیکن دین اسلام ، ان معیاروں اور روشوں سے استفادہ کرنا، جو اخلاقی معیاروں اور روشوں اور انسان کی الہی کرامتوں کے ساتھ سازگار نہ ھوں اور انسان کے کمال اور ابدی سعادت کو تباہ و برباد کرتی ھوں، کی اجازت نہیں دیتا ہے-[5]
ج} انسان کی خود سازی میں اسلام کی دوہری نظر:
انسان کی خود سازی و کمال و سعادت کی راہ کے بارے میں اسلام دو پہلووں سے دیکھتا ہے اور اس راہ میں انسان کی کامیابی کو اسی پر مبنی کیا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان جسم کے علاوہ ایک برتر جان و روح کا مالک بھی ہے اور اسے صرف اپنے جسم پر ہی توجہ نہیں کرنی چاہئیے بلکہ روح سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئیے-
قرآن مجید نے، انسان کی تخلیق کےسلسلہ میں دونوں خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے:" اور انسان کی خلقت کو مٹی سے شروع کیا-[6]" اور اس کے بعد" اس کی نسل کو ایک معمولی اور پست پانی سے پیدا کیا-[7]" یہ اس کا جسمانی پہلو ہے- اس کے بعد اس کے روحانی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ارشاد فرماتا ہے:" اپنی روح اس میں پھونک دی-[8]"
روح الہی، ایک ملکوتی اور شریف عنصر ہے- اسلام کی نظر میں، بدن کے نا بود ھونے کے بعد بھی یہ ماوری عنصر باقی رہتا ہے اور انسان کے اعمال کے مطابق ایک جاودانی زندگی اور سعادت یا شقاوت ابدی کا مالک بن جاتا ہے- جب انسان شناسی الہی ظاہر ھوتی ہے تو انسان روحانی کمال اور برتر انسانی صفات حاصل کر کے آشکار ھوتا ہے-[9]
[1] . نحل، 36.
[2] مزید آگاہی کے لئے ان عناوین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے: «دلایل حقانیت اسلام»، سؤال 2941؛ «ویژگی ها و برتری اسلام بر سایر ادیان»، سؤال 12304 (سایت: 12069).
[3]ملا حظہ ھو : عنوان: «مردم و حکومت مبتنی بر ولی فقیه و وجه امتیاز آن با نظام لیبرالیسم»، سؤال 9981 (سایت: 10127).
[4] . حدید، 25.
[5] ملاحظہ ھو: عناوین:«نقش منابع دینی در اخلاق»، سؤال 4469؛ «اخلاق تکاملی و پیامدهای آن»، سؤال 563 (سایت: 616)؛ «اخلاق مبتنی بر دین»، سؤال 7078 (سایت: 7327).
[6] . سجده، 7:«وَ بَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طين».
[7] سجده، 8:«جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ ماءٍ مَهينٍ».
[8] . سجده، 9:«وَ نَفَخَ فيهِ مِنْ رُوحِه».
[9] ملاحظہ ھو: عناوین:«سعادت و كمال انسان»، سؤال 6129؛ «دين و انسان»، سؤال 9 (سایت: 1239)؛ «جاودانگى انسان و تجربه آن در دنيا»، سؤال 1808؛ «انسان و كرامت»، سؤال 1436؛ «ارتباط انسان، دین و دنیا»، سؤال 11472 (سایت: 11437).