امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کیا روایتوں میں امام حسین (ع) کے لئے کوئی الگ امتیاز ہے؟ کیا یہ خاص امتیاز دوسرے اماموں کے معصوم ہونے کے سازگار ہے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


سوال
عرض و تسلیمات کے بعد گزارش ہے کہ چونکہ تمام ائمہ اطہار (ع) معصوم ہیں، لیکن ان کے درمیان امام حسین (ع)دوسرے ائمہ اطہار(ع) سے برتر مقام کے مالک ہیں۔ روایات کی کثرت کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص امام حسین (ع) کے لئے حتی کہ اگر کوئی چھوٹاسا کام بھی انجام دے اسے آخرت میں عظیم اجر ملے گا۔ اصلاً امام حسین (ع) کو کیوں خداوند متعال یا حضرت زہراء (س) کا لاڈلا (دُردانہ) کہاجاتا ہے؟ شکریہ
ایک مختصر
بیشک امام حسین (ع( کو ، آپ (ع) کی نسل میں امامت، آپ (ع) کی تربت میں شفا اور آپ (ع) کی قبر کے پاس دعا قبول ہونے کے مانند امتیازات حاصل ہیں۔ اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ امام حسین (ع) کو یہ امتیازات دوسرے معصوم اماموں کے مقامات سے اختلاف کی بنیاد پر عطا کئے گئے ہوں۔ لیکن یہ کہ تمام ائمہ اطہار(ع) کے مقامات یکساں ہونے کے فرض کے باوجود ان امتیازات میں کون سے عوامل کی دخل اندازی ہے۔ اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ امام حسین (ع) کی عظمت در حقیقت تمام اہل بیت (ع) اور اماموں (ع) کی عظمت ہے اور کربلا کے بارے میں زیادہ توجہ حقیقت میں ان جامع دروس کی طرف توجہ کرنا ہے جو کربلا نے انسانوں کو فراہم کئے ہیں، اس لحاظ سے جو امام حسین (ع) کی یاد تازہ کرتا ہے، گویا اس نے تمام معصومیں (ع) کی طرف توجہ کی ہے۔
اس کے علاوہ بیشک امام حسین (ع) کوکربلا میں المناک ترین حالت میں شہید کیاگیا۔ پوری تاریخ میں جن مصائب و مشکلات سے انبیاء(ع) اور ائمہ اطہار (ع) دوچار ہوئے ہیں وہ کربلا میں ڈھائے گئے ظلم و بربریت کا صرف ایک حصہ ہیں اس المناک ترین حادچہ کے لئے بہترین عزاداری ہونی چاہئے تاکہ اس کا حق ادا ہوسکے۔ اس لحاظ سے ائمہ اطہار علیہم السلام کی پالیسی امام حسین (ع) کے لئے بہترین صورت میں عزاداری منعقد کرنا تھا۔
 
تفصیلی جوابات
سوال کرنے والے کا سوال، بذات خود کئی سوالات پر مشتمل ہے، جیسے، کیا روایتوں میں امام حسین (ع) کے لئے کوئی الگ امتیاز ہے؟ اور یا یہ کہ کیا یہ خاص امتیاز ائمہ اطہار (ع) کی عصمت کے ساتھ سازگار ہے؟
اگر چہ سوال کرنے والے کا موخر الذکر مطلب روایی سند سے عاری ہے، لیکن اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ احادیث کے بہت سے متون میں امام حسین(ع) کے لئے خاص امتیازات بیان کئے گئے ہیں اور یہ اس حالت میں ہے کہ یہ امتیازات دوسرے معصومین (ع) کے بارے میں اس صورت میں بیان نہیں کئے گئے ہیں، من جملہ:
الف) مقام امامت کا امام حسین (ع) کی نسل مین منتقل ہونا: امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : خداوند متعال نے امام حسین (ع) کی شہادت کے بدلے میں مقام امامت کو امام حسین (ع) کی ذریات میں قرار دیا ہے، آپ (ع) کی تربت میں امراض کی شفا کو قرار دیا ہے اور آپ (ع) کی قبر مبارک کے پاس دعا کا قبول ہونا قرار دیا ہے۔[1]
ب) تربت امام حسین (ع) میں شفا: گزشتہ روایت میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا کہ خداوند متعال امام حسین (ع) کے توسط سے انجام پائے گئے کارنامے کی قدر دانی کے طور پر آپ (ع) کی تربت کو امراض کے لئے شفا قرار دیا ہے۔
اس پاداش کی اہمیت اس وقت معلوم ہوتی ہے کہ جب ہم یہ جان لیں کہ اسلامی فقہ میں مٹی کھانا حرام ہے اور صرف تربت سید شہداء میں سے تھوڑی سی خاک شفا کی نیت سے کھانا اس حکم سے مستثنی ہے۔[2]
ج) امام حسین (ع) کی قبر کے پاس دعا قبول ہونا: من جملہ امتیازات میں سے ہے کہ نہ صرف امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) کی حدیث میں اس کی صراحت کی گئی ہے، بلکہ ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ امام ہادی(ع) نے بیماری کی حالت میں کسی کوامام حسین (ع) کی قبر کے پاس بھیجا تاکہ وہاں پر حضرت (ع) کی شفا یابی کے لئے دعا کرے۔ روایت کا متن حسب ذیل ہے:
" ابو ہاشم جعفری، جو امام ہادی (ع) کے صحابی ہیں، کہتے ہیں: جب امام ہادی (ع) بیمار تھے، مجھ سے فرمایا کسی کو میرے لئے حائر حسینی [3]( قبر امام حسین کے پاس) بھیجدینا تاکہ وہاں پر دعا کرے۔ ابو ہاشم نے یہ قضیہ علی بن بلال کو کہا۔ اس نے کہا: امام ہادی (ع) بذات خود حائر حسینی ہیں، یعنی صاحب احترام ہیں۔ ابو ہاشم دوبارہ امام[ع] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علی بن بلال کے ساتھ پیش آیا ماجرا امام (ع) کے لئے بیان کیا۔ حضرت (ع) نے فرمایا: رسول خدا (ص) اور ہر مومن کا احترام خانہ خدا سے زیادہ ہے، لیکن آنحضرت (ص) کعبہ کا طواف کرتے تھے اور حجر الاسود کو چومتے تھے اور خدا وند متعال نے انھیں حکم دیا کہ عرفات میں عرفہ کے دن وقوف کریں"۔[4]
د) حائر حسینی[ع] میں نماز پڑھنا: ہم جانتے ہیں کہ توضیح المسائل میں درج کئے گئے شرائط کے مطابق سفر میں نماز قصر ہے، لیکن مسافر چار جگہوں پر نماز کو تمام یا قصر پڑھ سکتا ہے، ان مین سے ایک جگہ حائر حسینی(ع) ہے۔[5] اس قسم کا حکم اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں[6] کی بناپر ہے۔ اور یہ حکم سالارشہیدان کے حرم و مرقد مطہر کی خاص اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
اس بنا پر اب اس سوال کی باری ہے کہ امام حسین(ع) کی برتری دوسرے اماموں (ع) کی عصمت کے ساتھ کیسے ساز گار ہوسکتی ہے؟
اس کے جواب میں کہنا چاہئے: اگر چہ تمام ائمہ اطہار(ع) ولایت تکوینی کے مالک ہیں اور معصوم ہیں۔ لیکن کوئی محدودیت نہیں ہے کہ ان کی عصمت و ولایت کا مقام ایک رتبہ پر نہ ہو اور علمی اصطلاح میں ثبوت کے مرحلہ میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ ولایت کا مقام تشکیک کی صورت میں ان کے لئے ثابت ہو اور ایک کا مقام عصمت دوسرے سے زیادہ ہو، لیکن اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے جو اس مسئلہ کو ثابت کرے۔ بہ الفاظ دیگر، اگر چہ بذات خود اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ ایک امام کی عصمت کا مقام دوسرے امام سے بالاتر ہو اور اسی وجہ سے اپنے لئے خصوصی امتیاز رکھتا ہو، لیکن کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ یہ ثابت کرے کہ یہ جو امتیازات ایک امام کو دئے گئے ہیں وہ دوسرے امام کو نہیں دئے گئے ہوں ، اور قطعاً یہ ان کے مقامات کے اختلاف کی بنا پر ہو، بلکہ قوی طور پر یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ ان کی ولایت و عصمت کے مقامات یکساں ہیں، لیکن ایک دوسرا عامل اقتضا کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے خداوند متعال نے مذکورہ خصوصیات امام حسین (ع) کو عطا کئے ہیں۔
لیکن ان کے مقامات کے یکساں ہونے کے فرض کے پیش نظر کن عوامل نے ان امتیازات میں مداخلت کی ہے؟ مندرجہ ذیل مطالب اس سوال کا جواب آپ کو دیں گے:
1۔ معصومیں (ع) چونکہ انسانوں کی ہدایت کے لئے مکمل نمونہ عمل ہیں، ان کو ہر حالت اور موقیعت میں لوگوں کے سامنے بہترین رفتار و روش کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تاکہ وہ عملاً سیکھ لیں کہ مختلف حالات میں کس رفتار کو انتخاب کریں۔ صلح کے زمانہ میں جنگ نہ کریں اور جنگ کے زمانہ میں صلح نہ کریں اور بہ الفاظ دیگر، باوجودیکہ تمام ائمہ اطہار[ع] اسمائے الہی کی صفات کے مکمل مظہر ہیں، خاص حالات اور زمانہ کی خصوصیات سبب ہوتی ہیں تاکہ ان کی شخصیت کا کوئی پہلو تجلی پیدا کرے اور فعلیت کے مرحلہ میں داخل ہوجائے اور وہ اسمائے الہی کے ایک اسم کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس درمیان میں امام حسین (ع) کی حیثیت اور حالت انتہائی مخصوص تھی ان حالات میں امام اسلام کو بھی نابودی سے بچا سکے اور دنیاوالوں کے لئے حقیقی اسلام کے تمام ابعاد اور ان ابعاد کا مظاہرہ کرسکے۔ یعنی کربلا کے حادثہ میں، خاص کر عاشوا کے دن ہم امام حسین (ع) اور آپ کے اصحاب کی تمام خوبیوں کے ظہورکا مشاہدہ کر رہے ہیں، جبکہ دوسرے اماموں کے لئے یہ حالات اور امکانات فراہم نہیں ہوے تاکہ اپنے فضائل کی تمام خصوصیات کو حقیقت پسندوں کے سامنے پیش کرتے۔ البتہ ان کی ذمہ داری فریضہ کے اقتصاد کے مطابق تھی، کہ ہر خاص حالت میں خاص رفتار کی ضرورت ہوتی ہے ان کی یہی ذمہ داری تھی کہ ان ہی حالات کے مطابق مناسب برتاؤ کا نمونہ عمل لوگوں کے سامنے پیش کریں، یعنی یہ محدودیت حالات کے اقتضا کے مطابق تھی کہ محدود نمونہ عمل کی رفتار کا مظاہرہ کریں۔ اس طرح امام حسین (ع) کی طرف سے جامع ترین دروس ہم تک پہنچے، اس لحاظ سے امام حسین (ع) کی عظمت تمام اہل بیت اور ائمہ (ع) کی عظمت ہے اور کربلا کی طرف زیادہ توجہ، ان جامع دروس کی طرف توجہ ہے جو کربلا نے انسانوں کے لئے پیش کئے اور مقصد یہ ہے کہ یہ دروس فراموش نہ کئے جائیں۔
اس لحاظ سے جو امام حسین (ع) کو یاد کرتا ہے، گویا وہ تمام معصومین (ع) کی طرف توجہ کرتا ہے۔
2۔ بیشک امام حسین (ع) کوکربلا میں المناک ترین حالت میں شہید کیاگیا۔ پوری تاریخ میں جن مصائب و مشکلات سے انبیاء(ع) اور ائمہ اطہار (ع) دوچار ہوئے ہیں وہ کربلا میں ڈھائے گئے ظلم و بربریت کا صرف ایک حصہ ہیں[7] پس اس المناک ترین حادثہ کے لئے بہترین عزاداری ہونی چاہئے تاکہ اس کا حق ادا ہوسکے۔ اس لحاظ سے ائمہ اطہار علیہم السلام کی پالیسی امام حسین (ع) کے لئے بہترین صورت میں عزاداری منعقد کرنا تھا۔[8]
 
[1]۔ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَوَّضَ الْحُسَيْنَ(ع) مِنْ قَتْلِهِ أَنْ جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِه...؛ مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏44، ص221.
[2]۔. توضیح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج2، ص598، مسئلۀ 2628.
[3]۔ لغت میں " حائر" اس مطمئن جگہ کو کہتے ہیں جس میں پانی جمع اور محفوظ ہوتا ہے۔ حیران کے معنی بھی آیا ہے، اس کی بنیاد "حیران" ہے۔ قدیم زمانہ میں کربلا کو " حیر " بھی کہتے تھے۔ ملا حظہ ھو:ابن منظور، لسان العرب؛ سفینة البحار، ج 1،ص 358۔ فقہی اور عبادی اصطلاح میں، حرم حسینی کے محدودہ اور اس کے اطراف کو "حائر" کہا جاتا ہے جو قبر مطہر، صحن، رواق اور میوزم وغیرہ پر مشتمل ہے خواہ قدیمی حصہ ہو یاجدید، سب کو حائر کہتے ہیں۔بعض نے حائر کے حدود کو وہی حرم کا محدودہ جانا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ تاریخی لحاظ سے حضرت سید الشہداء کے حرم کو "حائر" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ متوکل عباسی کے زمانہ میں اس کے حکم سے قبر مطہر کے آثار کو مٹانے کے لئے اور اور شیعوں کو اس سے دور رکھنے کے لئے، جو خلافت کے لئے خطرہ کا مرکز تھا، اس علاقہ میں دریا کے پانی کا رخ کیا گیا، پانی جب اس جگہ پر پہنچا تو آگے بڑھنے سے رگ گیا اور جمع ہوکر واپس لوٹا اور پانی ایک دیوار کے مانند قبر مطہر کے ارد گرد رک جاتا تھا اور قبر مطہر کا حصہ خشک تھا زرکلی،الاعلام، ج 8، ص 30، پاورقی؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 50، ص 225و ایضاً، ج 86، ص 89؛ سفینة البحار، ج 1، ص 358 ۔ ۔ ۔چونکہ پانی جمع ہونے کی جگہ کو حائر کہتے ہیں، اس لئے حضرت(ع) کی قبر کے محدودہ کو "حائر" کہنے لگے۔ ملاحظہ ھو: محدثی، جواد فرھنگ عاشورا واژہ "حائر"۔
[4]۔ گروہ حدیث پژوھشکدہ باقر العلوم(ع)، فرھنگ جامع سخنان امام ھادی (ع)، ص 475۔
[5]۔ توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج‏1، ص728، مسئلۀ 1356؛ ميلاني، سيد محمد هادي، محاضرات في فقه الإمامية، ج‏1، ص314.
[6]۔ حر عاملى، شیخ محمد بن حسن،‏ وسائل الشيعة، ج‏8، ص531؛ مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار،ج 86،ص 88؛ شيخ مفيد، المزار، ص140.
[7]۔ أَنَا ابْنُ مَنْ بَكَتْ عَلَيْهِ مَلَائِكَةُ السَّمَاءِ- أَنَا ابْنُ مَنْ نَاحَتْ عَلَيْهِ الْجِنُّ فِي الْأَرْضِ وَ الطَّيْرُ فِي الْهَوَاء...؛ مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، مؤسسة الوفاء، بيروت، لبنان‏، 1404 هـ ق،  ج‏45، ص174.
[8]۔ مزید معلومات حاصل کے لئے ملاحظہ ھو: ترخان، قاسم: نگرشی عرفانی، فلسفی و کلامی به شخصیت و قیام امام حسین (ع)، ص 105- 142.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک