کتاب: چهل حديث « کربلا » پہلا حصہ

بالصور.. حرم مقام الإمام الحسين (ع) في كربلاء المقدسة يكتظ بالزائرين ليلة  الاربعين – موقع قناة المنار – لبنان

کتاب: چهل حديث « کربلا » پہلا حصہ
ترجمہ(فارسی)محمد صحتى سردرودى  -  

ترجمہ(اردو):یوسف حسین عاقلی
مقدمه:
حديث كربلا، حرّيّت، آزادی اورحماسه وافکار کی گفتگو ہے اور اس کے روایت، عروج کی داستان ہے اور اس کا نغمہ ہمیشہ سرخ، حيات بخش اور یہ کاروان  ہمیشہ رواں دواں ہے۔
ہماری ایک کتاب «سيماى كربلا، حريم حرّيّت» میں کربلا اور عاشورا کے لازوال واقعہ اور حماسہ کے بارے میں کچھ باتیں تحریر ہے اور ہم نے اس کتاب میں متعدد احادیث بھی شامل کی ہیں -البتہ مختصر وضاحت اور شرح کے ساتھ۔
پس اس تمہید میں طوالت کی ضرورت نہیں ہے، چند نکات کا ذکر کرنا کافی ہے جو اس مجموعہ کی بہتر تفہیم کے لئے کارآمدثابت ہو:
۱ ـ کربلا کے بارے میں روایات بالخصوص آستان قدس حسینی علیہ السلام کی زیارت کا تذکرہ بہت  سارے منابع میں کثرت سے ملتا ہے، مگر  احادیث کی اس مختصر مجموعہ میں سینکڑوں احادیث میں سے فقط چالیس احادیث وہ بھی پروردگار عالم کے منتخب اور برگزیدہ افراد کے نورانی کلمات  کوچالیس کی عدد کے ساتھ منحصر کرنا " سمندر کو کوزے میں بندکردینے" کے مترادف ہے
یہ مختصر مجموعہ کوزہ اور کلام معصوم سمندر ہے۔
۲ ـیہ  احادیث مستند کتابوں سے نقل کی گئی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کتاب" کامل الزیارات" میں مل سکتی ہیں، یہ کتاب شیعہ علماء کی رائے میں معتبر اورمحکم ہے۔
۳ ـ احادیث کے انتخاب میں متعدد نکات کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ خاص کر اس نکتہ پر خصوصی توجہ کی کوشش کی کہ  جہاں تک ممکن ہو، ایسی حدیث بیان کی جائے جن کے الفاظ کم اور مستند ہو، لیکن معانی سے بھرپور ہو، تاکہ ہر ایک کے لئےذہن نشین اور اسے حفظ کرنا آسان اور ممکن ہو۔
۴ ـ پیشگی معزرت خواہی کے ساتھ کہ تراجم ناکافی تھے چونکہ جولطف بےنظیر و بے مثال،سخن و کلام معصومین علیہ السلام میں ہے وہ تراجم میں قلمبند نظر ناممکن ہےالبتہ اپنے بساط کے مطابق سعی و تلاش کی ہے مگر ناکافی ہے البتہ امیدضرور ہے کہ پرودرگارعالم حضرت حق کی بارگاہ میں قبول ومنظور قرار پائے۔
قـم ـ ۱۰/۸/۱۳۷۳--- ۱۶ صفر المظفر ۱۴۴۵ھ
فصل اوّل
فضيلت كربلا
خالص رازداری
1- عَنِ النَّبِىِّ صلي الله عليه و آله قـالَ:... وَ هِىَ أَطْهَرُ بُقاعِ اْلأَرْضِ وَ أَعْظَمُها حُرْمَةً وَ إِنَّها لَمِنْ بَطْـحاءِ الْجَنَّـةِ. [بحارالانوار، ج،98، ص،115 نيز كامل الزيارات، ص264]
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ایک طویل حدیث  ضمن میں فرماتے ہیں: کربلا روئے زمین پر سب سے پاکیزہ زمین کا  ایک ٹکرا ہے اورجس کی تعظیم اس لحاظ سے سب سے زیادہ ہے چونکہ حقیقت یہ ہے کہ کربلا جنت کی کشادہ  جگہوںمیں سے ایک ہے۔
سرزمين نجات
۲-قـالَ رَسُولُ اللّه ِ صلي الله عليه و آله وسلم : يُقْبَرُ اِبنْى بِأَرْضٍ يُقالُ لَها كَرْبَلا هِىَ الْبُقْعَةُ الَّتى كانَتْ فيها قُبَّهُ اْلأَسْلامِ الَّتى عَلَيْهَا الْمؤمِنينَ الَّذينَ امَنوُا مَعَ نُوحٍ فِى الطُّوفانِ.
[كامل الزيارات، ص269، باب88، ح8]
رسول اللہ صلي الله عليه و آله وسلم نے فرمایا: میرے فرزند (حسین) کو ایسی سرزمین میں دفن کیا جائے گاجیسے کربلاء کہاجاتا ہے، یہ ایک ایسی ممتازسرزمین ہے جو ہمیشہ سے اسلام کا گنبد اور قلعہ رہا ہے،چنانچہ پروردگار عالم نےحضرت نوح علیہ السلام کے یاران اور مؤمن ساتھیوں کو طوفان سے نجات دی تھی
 وہاں کے طوفان سے نوح کے وفادار ساتھی۔
مسـلخ عشــق

  ۳-قـالَ أميرُالمُؤمِنينَ عَلِىٌّ عليه السلام: هـذا ... مَصارِعُ عُشّـاقٍ شُـهَداءِ لايَسْبِقُهُمْ مَنْ كانَ قَبْلَهُمْ وَ لايَلْحَقُهُمْ مَنْ كانَ بَعْدَهُمْ. [تهذيب، ج6، ص73 و بحار، ج98، ص116]
حضرت أميرُالمُؤمِنين علی  عليه السلام (ایک مرتبہ کربلا سے گزر رہے تھےلیکن جب وہاں پہنچے تو آپ علیہ السلام گر پڑے اور )فرمایا:
یہ سرزمین عاشقوں اور پہلوانوں کی قربان گاہ اور شہداء کا مشہد ہے، یہ ایسےشہداء ہیں جن کے مقابلے میں نہ ماضی کے شہداء اور نہ مستقبل کے شہداء ان کے مقام کوپاسکتے ہے اور نہ ہی  اس عالی مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ .
ستاره سرخ محشر
۴-قـالَ عَـلِىُّ بنُ الحُسَينِ عليهماالسلام: تَزْهَرُ أَرْضُ كَرْبَلا يَوْمَ الْقيامَةِ كَالْكَوْكَبِ الدُّرّىّ وَتُنادِى أَنَا أَرْضُ الْمُقَدَّسَةُ الطَّيّبَةُ الْمُبارَكَةُ الَّتى تَضَمَّنَتْ سَيِّدَالشَّهَداءِ وَ سَيِّدَ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ.
[ادب الطف، ج1، ص236، به نقل از كامل الزيارات، ص268]
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: کربلا کی سرزمین قیامت کے دن موتی کے ستارے کی طرح چمکے گی اور پکارے گی کہ میں خدا کی مقدّس  وپاک سرزمین ہوں، میں وہ سرزمین ہوں جس میں جوانان ِبہشت  کا سردار اور سَيّدالشَّهداء کیحکمران ہے۔
عطـر عشــق
۵- قـالَ عَـلِىٌّ عليه السلام: وَاها لَكِ أَيَّتُهَا التُّرْبَةُ لَيَحْشُـرُنَّ مِنْـكَ قَـوْمٌ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرحِسابٍ. [شرح نهج البلاغه، ج4، ص169]
امیر المومنین علیہ السلام (جب جنگ صفین کے وقت سرزمین کربلا  سے گزر ہوا تو آپ علیہ السلام نے نماز اداء کی اورمٹھی ہاتھوں میں اٹھا کر خوشبو سنگھی اس کےبعدمٹی سے مخاطب ہو کر) فرمایا:اے تربت(مٹی) کتنی خوشبودارہو! قیامت کے دن تم میں سے ایک قوم اٹھے گی جو بغیر کسی حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے۔
كربلا و بيت‌المقدس
۶- قـالَ أَبُوعَـبدِاللّه عليه السلام: أَلْغاضِرِيَّةُ مِنْ تُرْبَةِ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ.
[كامل الزيارات، ص269، باب88، ح7]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کربلا  کی تربت اور مٹی بيت المقدّس کی مٹی سے ہے
فرات و كربلا
۷- قـالَ أَبُوعَـبدِاللّه عليه السلام: إِنَّ أَرْضَ كَرْبَلا وَ ماءُ الْفُراتِ أَوَّلُ أَرْضٍ وَ اَوَّلُ ماءٍ قَدَّسَ اللّه ُ تَبارَكَ وَ تَعالى… [بحارالانوار، ج98، ص109 و نيز كامل الزيارات، ص269]
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: «سرزمينِ كربلا» اور «آبِ فرات»،  وہ پہلی سرزمین اور پہلا پانی تھا جسے خداوند متعال نےتقدس و شرافت اور عزت سے نوازا۔
راہِ بهشت
۸-قـالَ أَبُوعَـبدِاللّه عليه السلام: مَوْضِـعُ قَبْرِالْحُسَـيْنِ عليه السلام قُرْعَـةٌ مِنْ تُرَعِ الْجَـنَّةِ.
[كامل الزيارات، ص271، باب89، ح1]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی قبر کی جگہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔
كربلا، كعبه انبياء

۹- قـالَ أَبُوعَـبدِاللّه عليه السلام: لَيْسَ نَبِىٌّ فِى السَّمواتِ وَاْلأرْضِ، إِلاّ يَسْـأَلوُنَ اللّهَ تَبارَكَ وَ تَعـالى أَنْ يُؤْذَنَ لَهُمْ فِى زِيارَةِ الْحُسَيْنِ عليه السلام، فَـفَـوْجٌ يَنْـزِلُ وَ فَـوْجٌ يَعْـرِجُ.
[مستدرك الوسائل، ج10، ص224؛ به نقل از كامل الزيارات، ص111]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: آسمانوں اور زمین میں کوئی انبیاء نہیں ہیں جب تک کہ وہ خداوندمتعال انہیں زيارت امام حسين عليه السلام کی اجازت ورخصت نہ دیں، اور زیارت سے مُشرّف یاب نہ  ہوئےہوں یہ اس طرح انجام پاتا ہے کہ ایک گروہ کربلا میں اترتا ہے تو دوسرا گروہ وہاں سےعرج اور اوپر آسمانوں کی طرف جاتا ہے۔
كربلا، مطاف فرشتگان
۱۰- قـالَ أَبُوعَـبدِاللّه عليه السلام: لَيْسَ مِنْ مَلَكٍ فِى السَّمواتِ وَاْلأَرْضِ الاّ يَسْـأَلوُنَ اللّه َ تَبـارَكَ وَ تَعـالى أَنْ يُؤْذَنَ لَهُمْ فِى زِيارَةِ الحُسَيْنِ عليه السلام، فَـفَـوْجٌ يَنْـزِلُ وَ فَـوْجٌ يَـعْـرِجُ. [مستدرك الوسائل، ج10، ص244؛ به نقل از كامل الزيارات ص114]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: آسمانوں اور زمین میں کوئی فرشتہ نہیں ہے جب تک کہ پروردگار ان کو زيارت امام حسين عليه السلام کی اجازت نہ دیں، اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل نہ  ہوئےہوں یہ اس طرح انجام پاتا ہے کہ ہمیشہ فرشتوں کا ایک گروہ کربلا میں اترتا ہے تو دوسرا گروہ وہاں سےعرج اور اوپر آسمانوں کی طرف جاتا ہے۔
كربلا، حرم امن
۱۱- قـالَ أَبُوعَـبدِاللّه عليه السلام: اِنَّ اللّهَ اتَّخَذَ كَرْبَلا حَرَما آمِنا مُبارَكا قَبْـلَ أَنْ يَتـَّخِذَ مَكَّـةَ حَـرَما. [كامل الزيارات، ص267 بحار، ج98، ص110]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بے شک خدا نے مكّه مکرمہ کو حرم بنانے سے پہلے کربلا کو امن و محفوظ اور بابرکت حرم قرار دیا۔
مسلسل زیارت
۱۲- قـالَ الصّـادِقُ عليه السلام: زُورُوا كَرْبَـلا وَ لا تَقْطَـعُوهُ فَإِنَّ خَيْرَ أَوْلادِ اْلأَنْبياءِ ضَمِنَتْهُ…
[كامل الزيارات، ص269]
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: (اےمحبین!)کربلا کی زیارت  کیاکرو اور اس سلسلے کو جاری و ساری رکھو کیونکہ  سرزمین ِکربلا نے انبیاءالہی کی بہترین اولاد کو اپنے آغوش  میں لیا ہواہے۔
بارگاه مبارك
۱۳- قـالَ الصّـادِقُ عليه السلام: «شاطِىءُ الْوادِى اْلأيْمَنِ» الذَّى ذَكَرَهُ اللّهُ فِى الْقُرآنِ،[ قرآن، سوره قصص، آيه30] هُوَ الْفُراتُ وَ «الْبُقْعَةُ الْمُبارَكَةُ» هِىَ كَرْبَلا. [بحارالانوار، ج57، ص203؛ به نقل از تهذيب]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «وادی ایمان کا ساحل» جس کا ذکر پروردگار عالم نے قرآن میں کیا ہے [قرآن مجيد، سوره قصص، آيه30] سے مراد " فرات "ہے اور  «الْبُقْعَةُ الْمُبارَكَةُ» یعنی(«بارگاه بابركت») سے مراد "کربلاء" ہے۔