امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کتاب:چھل حدیث اربعین پہلا حصہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

الارشیف IUVM | مجموعة بوسترات " ذكرى أربعينية الإمام الحسين (ع) " / 4کتاب:چھل حدیث اربعین پہلا حصہ
(زيارت اربعين  کاطریقہ ، زائر کی خصوصیات اور زیارت کی فضلیت )
تحریر:جواد محدثى
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
مقدمہ
قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله وسلم:«مَنْ حَفِظَ من اُمّتی اربعینَ حدیثاً ممّا یحْتاجُونَ الیه فی اَمرِ دینهم، بَعَثَهُ اللّهُ عزّوجلّ یومَ القیامةِ فَقیهاً عالماً» (بحار الأنوار، ج ۲، ص ۱۵۶، ح ۱۰)
میری امت میں سے جس نے چالیس احادیث حفظ کر لیں  جو اس کےدینی امور کی ضرورت  ہو، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن فقیہ اور عالم کی شکل میں مبعوث فرمائے گا۔
«زائریعنی زیارت کرنےوالے»، جو بھی ہو، زیارت جب بھی انجام پائے، قبر یں اور مزارات جہاں کہیں بھی ہو، جس سر زمین پر بھی ہو،
یہ انسان کے اندر روحانیت اور معنویت کی نشوونما کا مرکز ہےنیز انسانوں میں الہی اقدار کو مضبوط کرنے کا ایک میدان رزم ہے۔
چاہے وہ «خانه خدا یعنی بیت اللہ» کی زیارت ہو،
یا خواہ وہ روضہ ومرقد «رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم »،کی زیارت ہو، یا اولياء دين اور بزرگان دین کی قبور اور«جنت البقیع»میں مدفون  مظلوموں  کی قبروں کی زیارت ہو، جنگ احد کے شہداء کا مدفن ہو یا  مکہ کے قبرستان ابوطالب میں آرام کی نیند سونے والوں کی قبروں کی زیارت ہو، یا پوری دنیا کے مختلف شہروں اور زیارت گاہوں دور و نزدیک میں مدفون  حضرات کے قبور کی زیارت ہو!
یہ سب انسان کے قلب و روح کو روشن کرنےاور امید بخشنے کے واسطے ہیں، یہاں تک کہ مؤمنین اور صالحین کی قبروں کی زیارت بھی انسان کو آخرت کی یاد  اورصلاح و اچھے امور اور کمال حسنہ کی یاد دہانی اور دلوں میں یاد الٰہی کو بیدار کرتی ہے۔
اسلامی اور مذہبی مقدس مقامات کی زیارت اور وہاں پر جانا لوگوں کے  پروردگار عالم کے نزدیک آنے کا سبب ہیں جہاں سے انسان «خضوع» اور"تسلیم"  سکون و آرامش کی کیفیت پیدا کرتا ہے، یہ مقدس مقامات انسان کےروح کو پاکیزگی سے بھر دیتے ہیں، انسان کے قلب ودل کو خلوص ، الفت  ومحبت اور عشق الہی کی امید سے بھر دیتے ہیں،
معصومين عليهم السلام کےمقدس  مزارات پر حاضری، انسان کےلئے تزکیہ نفس اور روح کی پاکیزگی  کےراہ میں پہلا قدم ہے۔ یہ آپس کی زیارت اور ملاقاتیں  انسان کی«قرب معنوى»کا پیش خیمہ ہیں جس سےعظیم لوگوں اور کمال پرستوں کے ساتھ ہم آہنگی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
لیکن ۔۔۔کون سی زيارت؟
آگاهانه و معرفت کے ساتھ؟ يا تقليدى و ظاہری شكل کی زیارت؟!...
یاد رکھنا! زیارت فقط ایک تکراری عمل اور بے روح عمل  کا نام نہیں ہے۔
زائر کو چاہیے  کہ وہ فقط عالیشان عمارتوں  اور ان کے در و دیوار،ظاہری شکل و صورت ، روشنی، عظیم ہالز، شیشےکی مانند ٹائلنگ، کاشی کاری  اور شیشے کے کام کو دیکھنےسے وہ معصومین کی عظمت و معنویت اور روحانیت سے بے خبر اور غافل نہ ہو۔
زیارت گاہیں پاک وپاکیزہ ماحول فراہم کرتے ہیں اورلوگوں کو دیانت و صداقت اور کمال معنوی کی یاد دہانی ، برائیوں  ، صفات رذائل سے دور رہنے اور اعمال حسنہ ،نیکیوں اور صفات حسنہ میں اضافہ کا درس دیتے ہیں۔
 ان نورانی قبروں اور مبارک قبروں کی برکتوں میں حاجیوں کا اتنا ہی حصہ ہوگا۔
جتنی مقدار  میں ميزانِ خداشناسى، معرفتِ خدا،  پيغمبرشناسى، امام شناسى اور «معرفت ولىّ معصوم و معرفتِ معصومین علیہم السلام » زیادہ ہوگی، اتنا ہی  ان نورانی  اور مبارک ضریح   سےخوش نصیب زائرین کرام  کے معنوی برکات میں بھی   اضافہ ہوتا رہےگا
زیارت ایک قسم کا "آئینہ" زائر جس کے سامنے حاضر ہو کر اپنی زیارت کو  اس" میزان اورپیمانہ"پر  پَرَکْھتا ہے۔
زیارت اپنے آپ کو خصوصا اپنےنفس کو ناپنے کی" کسو ٹی " پر ڈالنا اور خدا کے مقرر کردہ حقیقی انسان کامل  ائمہ  طاہرین اور اولیاء الہی علیہم السلام  جو اصلی  ملاک و معیار "آئیڈیل" اور "ماڈل" ہیں پس زائر کو چاہیے کہ  اپنے آپ کو ان شخصیات و ہستیوں اور حقیقی انسانِ کامل حضرات کے ساتھ موازنہ کرنا اور اپنے آپ کو ناپ کر ان کے راستوں پرچلنا اور عملی اقدام کرناچاہیے۔
نیکیوں کے آئینے کے سامنے کھڑے ہونے سے انسان کو اپنی"خرابیاں" خود بخود ظاہر ہو جاتی ہیں اور کمال کے آئینے کے سامنے کھڑے ہونے سےسامنےاپنے "نقص و عیب اور صفات رذائل" ظاہر ہو جاتے ہیں۔
ایک زائر ، جب وہ حجت الہی، امامِ معصوم ، اور ایک آئیڈیل شہید کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، اور وہ «شناخت» اور«بصيرت» کے ساتھ مذہبی پیشواؤں اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی روضوں پر حاضر ہوتا ہے اور حقِ معرفت«عارفا بحقّه» ،سچائی" کی شرط کے ساتھ زیارت کرے
ان مذہبی پیشواؤں میں صفات کمالیہ اور خوبیاں سمٹ گئی ہیں اورزائر حضرات کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ مذہبی پیشوا،اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی عظمت کو سمجھنا ان ہستیوں کو خدا کے نور کا مظہر، رب کے فضل و کرم  کا سرچشمہ اور اخلاص، ایمان اورعبودیت کے اعلی مظہر کے ہیں اورمعرفت کے ساتھ لازمی ہے کہ انسانِ زائر اپنے اندر موجودخامیوں کا ادراک   کرے ، کمزوریوں اور صفات رذائل کے خاتمے کے لئے عملی اقدام اٹھائیں۔
زیارت، زائر کو نفس کی  پاکیزگی  اور آلودگیوں سے آشنا کرتی ہے۔
 زیارت، ان کی روحانیت ومعنویت کو اس کی مادیت اور دنیا داری سے روشناس کراتی ہے۔
زیارت گاہ!یہ وہ جگہ ہے جہاں  سے"زائر" "خود شناسی" اور خود کی اصلاح «خودسازى» دوبارہ شروع کرتا ہے،
زیارت گاہ !ایک درس گاہ ہےجس میں زائر ایک طالب علم کی مانندہوتا ہے، گویا اس  مکتب واسکول کے اساتذہ خود «اولياءالہی»،  جس کی کلاس: " زیارت گاہ"!
امید ہے کہ ہمیں علم و محبت اور معرفت کے سائے میں زیارت گاہ  اور مقدس روضوں کی زیارت نصیب  فرمائے۔
جواد محدثى

 

 

 

 


چالیس نورانی احادیث
۱- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: زيارَةُ قَبْرِ رَسُولِ اللّهِ وَ زيارَةُ قُبُورِالشُّهَداءِ وَ زيارَةُ قَبْرِالْحُسَيْنِ تَعْدِلُ حِجَّةً مَبْرُورَةً مَعَ رَسُولِ اللّهِ. (وسائل الشيعه، ج10، ص 278)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہرکی زیارت کرنا ، شہداء کے قبورکی زیارت کرنا، اور امام حسين عليه السلام کی قبر مطہرکی زیارت کرنا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قبول شدہ حج انجام دینے کے برابر  ہےیعنی ثواب میں برابر ہے

۲- قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله وسلم: مَـنْ اَتـانى زائِـرا كُنْتُ شَفيعَهُ يَوْمَ الْقيامَةِ.
(وسائل الشيعه، ج 10، ص 261)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو میری زيارت کے لئے آئے گا، قیامت کے دن میں(رسول خدا ،ص) اس کی شفیع (سفارش اور شفاعت کرنےوالا)ہوں گا۔

۳- قالَ رَسُول اللّه صلي الله عليه و آله وسلم : مَنْ سَلَّمَ عَلَىَّ مِنْ عِنْدِ قَبْرى سَمِعْتُهُ وَ مَنْ سَلَّمَ عَلَىَّ مِنْ بَعيدٍ بُلِّغْـتُهُ. (بحارالانوار، ج 97، ص 183)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری قبر مطہرکے پاس آکر مجھے سلام کرے گا میں اسے سنوں گا اور جو مجھ پر دور سے سلام کرے گا  میں اسے پہنچا دونگا۔

۴- قالَ رَسُولُ اللّه صلي الله عليه و آله: مَنْ زارَنى اَوْ زارَ اَحَـدا مِنْ ذُرِّيَّـتى، زُرْتُهُ يَوْمَ الْقيامَةِ فَاَنْقَذْتُهُ مِنْ اَهْوالِها (بحارالأنوار، ج 97، ص 123)
رسول خدا صلي الله عليه و آله  وسلم نے فرمایا:جو بھی میری ،یا میری اولاد (اہل بیت علیہم السلام)میں سے کسی کی زیارت کرے گا، میں رسول خدا، ص)قیامت کے دن اس  شخص کی زیارت کو آؤں گا اور اسے قیامت کے دن کی ہولناکیوں سے نجات دلاؤں گا

۵- قالَ البـاقِرُ عليه السلام: اِنَّما اُمِرَ النّاسُ اَنْ يَـأْتُوا هـذِهِ الأحْـجارَ فَيَطُوفُوا بِها ثُمَّ يَأتُونا فَيُخْبِرُونا بِوِلايَتِهِمْ وَيَعْرِضُـوا عَلَيْنا نَصْـرَهُمْ. (وسائل الشيعه، ج 10، ص 252)
امام محمدباقر عليه السلام نے فرمایا: بتحقیق لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان پتھروں (خانہ کعبہ کی طرف اشارہ فرمایا)کے پاس آکراس کا طواف کریں، پھر ہمارے (اہل بیت  ع کے)پاس آئیں اور ہمیں ان کی ولایت اور وابستگی سے آگاہ کریں اور انکی مدد کریں

۶- قالَ الصّـادق عليه السلام: اِذا حَجَّ اَحَدُكُمْ فَلْيَخْتِمْ بِزِيارَتِنا، لِأَنَّ ذلِكَ مِنْ تَمامِ الحَـجِّ
(وسائل الشيعه،ج10، ص254)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی حجّ کے لئے جائے تو اسے(حج کو) ہماری زیارت کے ساتھ اختتام کیا کرو، کیونکہ یہ (ہماری زیارت کرنا) حجّ کی تکمیل کی نشانیوں میں سے ہے۔


۷- قالَ الصّـادق عليه السلام:عاشَتْ فاطِمَةُ بَعْدَ رَسُولِ اللّه(ص)خَمْسَةً وَسَبْعينَ يَوْما لَمْ تُرَ كاشِرَةً وَلاضاحِكَةً، تَأتى قُبُورَالشُّهَداءِ فى كُلِّ جُمْعَةٍ مَرَّتَيْنِ: اَلأثْنَيْنِ وَالْخَـميسَ(وسائل الشيعه، ج10، ص 279)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: حضرت زهرا عليهاالسلام ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پچھتر دن اس دنیا میں  زندہ رہیں۔مگر  اس کم مدّت میں انہیں کبھی بھی  خوش اور مسکراتی ہوئی نہیں دیکھا گیا۔ چنانچہ آپ علیہا السلام ہفتے میں دو دن (پیر اور جمعرات) شہداء کی قبروں پر (زیارت کیلئے)جایا کرتی تھیں۔

۸- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: مَـنْ زارَنـا فى مَـماتِنـا فَكَأَ نَّما زارَنا فى حَياتِنـا۔
(بحارالأنوار، ج 97، ص 124)
حضرت امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جو شخص ہماری شہادت کے بعد ہماری زیات کرے، تو ایسا ہے کہ گویا اس نے ہماری حیات میں ہماری زیارت کی ہو۔

۹- عَنِ الصّـادقِ عليه السلام فى قَولِهِ تَعالى: «خُذُوا زينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ» قـالَ: اَلْغُـسْلُ عِنْدَ لِقاءِ كُلِّ اِمامٍ (بحارالأنوار، ج 97، ص 132)
 امام صادق عليه السلام نے آیت  «خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ» ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو" (مسجدوں میں عبادت کرتے وقت اپنی زینت مانند خشبو وغیرہ اپنے ساتھ لے جایا کرو) کے بارے میں
  آپ علیہ السلام نے فرمایا: مقصود یہ ہے کہ  ہر امام کی زیارت اور ملاقات کے دوران غسل ( کرنا)ہے۔

۱۰- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: مَـنْ زارَ واحِـدا مِـنّـا كانَ كَمَنْ زارَ الْحُسَيْنَ عليه السلام۔
(بحارالأنوار، ج 97، ص 118)
امام جعفر صادق عليه السلام علیہ السلام نے فرمایا: جس نے بھی ہم (چودہ معصومین علیہم السلام) میں سے کسی کی بھی زیارت کریں وہ ایسے ہے جیسےکہ اس نے سید الشہداء حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہو۔

۱۱- قالَ الرّضا عليه السلام: اِنَّ لِكُلِّ اِمامٍ عَهْدا فى عُنُقِ اَوْليائِهِ وَ شيعَتِهِ و اِنَّ مِنْ تَمامِ الْوَفاء بِالْعَهْدِ زِيارَةُ قُبُورِهِم (من لايحضره الفقيه، ج2، ص577)
حضرت امام رضا عليه السلام نے فرمایا: بتحقیق ہر امام کے لئے ایک عہد و پیمان ہوتا ہے جو  اس کے اولیاء و دوستوں، شیعوں اور پیروکاروں کے کندھوں پر فرض ہوتا ہے اور اس عهد و پيمان کی مکمل وفاداری کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ائمہ طاہرین علیہم السلام  کی قبروں کی زیارت کرنا ہے۔

 

 

 

 

۱۲-قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله لِلْحُسَيْنِ عليه السلام: اَخْبَرَنى جِبْرِئيلُ اَنَّكُمْ قَتْلى وَ مَصارِعُكُمْ شَتّى. فَقالَ عليه السلام لَهُ صلي الله عليه و آله: يا اَبَهْ فَما لِمَنْ يَزُورُ قُبُورَنا عَلى تَشَتُّتِها؟
قالَ صلي الله عليه و آله: يا بُنَىَّ اُولئِكَ طَوائِفُ مِنْ اُمَّتى يَزُورُونَكُمْ يَلْتَمِسُونَ بِذلِكَ الْبَرَكَةَ وَ حَقيقٌ عَلَىَّ اَنْ آتِيَهُمْ يَوْمَ القيامَةِ فَاُخَلِّصَهُمْ مِنْ اَهْوالِ السّاعَةِ…(وسائل الشيعه، ج 10، ص 259)
(حضرت علی عليه السلام سے روایت ہے کہ: ایک مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زار و قطار رو رہے تھے)توامام حسين عليه السلام نے فرمایا: ابا جان آپ کیوں رو رہے ہیں؟
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسين عليه السلام سےفرمایا: جبرئيل علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ تم قتل کیے جاؤ گےجبکہ تمہاری قبریں بکھری ہوئی ہونگی۔
توامام حسین علیہ السلام نے پوچھا: ابا جان! تو  اس وقت ہماری قبروں کی پراكندگى کی  صورت میں زیارت کرنے والے کوکیا پاداشت اور ثواب  ملےگا؟
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: بیٹا! یہ میری امّت کی ایک گروہ ہے جوتمہاری زیارت کرتے ہیں اور اس زیارت سےفیضِ برکت کے طلب گار رہتے ہیں۔ تو اس وقت میرے اوپر فرض ہے کہ میں قیامت کے دن ان کے پاس جاؤں اور انہیں قیامت کے خوف و ہولناکیوں سے بچاؤں اور نجات دلاؤں۔

۱۳- قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله: يا اَبَـا الْحَسَنِ! اِنَّ اللّهَ تَعالى جَعَلَ قَبْرَكَ وَقَبْرَ وُلْدِكَ بِقاعا مِنْ بِقاعِ الْجَنَّةِ وَ عَرْصَةً مِنْ عَرَصـاتِها وَ اِنَّ اللّهَ جَعَلَ قُلُوبَ نُجَباءَ مِنْ خَـلْقِهِ وَ صَـفْوَةً مِنْ عِبـادِهِ تَحِـنُّ اِلَيْكُمْ وَ تَحْتَمِلُ الْمَذَلَّةَ وَ الْأَذى فَيُعَـمِّرُونَ قُبُورَكُمْ وَ يُكْـثِرُونَ زيـارَتَها(بحارالانوار، ج 97، ص 121)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اميرالمؤمنين (علیہ السلام)کو مخاطب کر کے فرمایا: اے ابا الحسن! پروردگار عالم نےتمہاری اور  تمہاری  اولادؤں کی قبر وں کو جنت کے  بُقعوں میں سے ایک بُقعه (قرار دیا ہے) اور اس کی چوکھٹوں کو آستانه قرار دیاہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اپنےبرگزیدہ بندوں کے دلوں میں تمہاری محبت و رغبت بخشی ہے جوتمہاری  زیارت کے راستے میں ذلت  و اذيّت اور رسوائی کو برداشت کرتے ہیں۔ اس حد تک تکلیف برداشت کرتے ہیں یہاں تک کہ  وہ  اپنی جان تک قربان کر کےبھی تمہاری قبروں کو آباد کرتےہیں اور بہت سارے لوگ (مؤمنین و مؤمنات) تمہارے قبر کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔
("بُقعه"غالبا ائمہ طاہرین علیہم السلام اور مذہبی بزرگوں کی قبور وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ مختلف اسلامی ادوار اور زمینوں میں لفظ مقبرہ ، مقدس مقام کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے)

 

 


۱۴- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: مَنْ زارَ جَدّى عارِفا بِحَـقِّهِ كَتَبَ اللّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حِجَّةً مَقْبُولَةً و عُمْرَةً مَبْرُورَةً، وَاللّهِ يَابْنَ مارِدٍ ما تَطْعَمُ النّارُ قَدَما تَغَبَّرَتْ فى زيارَةِ اَميرِالْمؤمِنينَ ماشِيا كانَ اَوْ راكِبا، يَاابْنَ ماردٍ! اُكْتُبْ هذَاالْحَديثَ بِماءِالذَّهَبِ۔ (وسائل الشيعه، ج 10، ص 294)
امام صادق علیہ السلام(ابن  مارِد نے اپنے جد امجد  امیر المؤمنین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں سؤال کے جواب میں) فرماتے ہیں: جو شخص بھی میرے جد امجد کی  حقِ معرفت کے ساتھ زیارت کرے ، پروردگار عالم اس کے ہر قدم کے عوض اور بدلے میں اس شخص کو ایک حج اور عمرہ مقبول کے برابر ثواب لکھا جائےگا۔
اےابن  مارِد!  خدا کی قسم ! (قیامت کے دن)آگ اس قدم کو کبھی نہیں جلائے گی جو امیر المؤمنین کی زیارت (سوار یا پیدل) کے راستے میں خاک و غبار آلود ہو جائے۔
اےابن  مارِد!  اس حدیث کو سونے کے پانی اورسنہری حروف سے لکھ لیں!

۱۵- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: اِذا اَرَدْتَ الْحُسَيْنَ فَزُرْهُ وَ اَنْتَ حَزينٌ مَكْرُوبٌ شُعـْثا غُبْرا جائِعا عَـطْشانا۔ ( وسائل الشيعه، ج 10، ص 414 )
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جب تم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہو تو غمگین اور افسردہ حالت، پریشان اور غبار آلود، بھوکے اور پیاسے ان کی زیارت کیا کرو۔


۱۶- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: ... ما كانَ مِنْ هذا اَشَدَّ فَالثَّوابُ فيهِ عَلى قَدْرِ الْخَوْفِ، وَ مَنْ خافَ فى اِتْيانِهِ آمَنَ اللّهُ رَوْعَتَهُ يَوْمَ يَقُومُ النّاسُ لِرَبِّ الْعالَمينَ۔ (وسائل الشيعه، ج 10، ص 357)
امام صادق عليه السلام (نے اپنے ایک صحابی «محمد بن مسلم» سے جو خوف اور اندیشے کے ساتھ اباعبداللّه الحسين عليه السلام کی قبر کی زیارت کے لئے جا رہے تھے )
فرمایا: (اےمحمد بن مسلم!جان لو)یہ زیارت جتنی ہی مشکل اور خطرناک ہو اسی حساب سے اس زیارت کا ثواب و پاداشت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور جو شخص بھی امام کی زیارت کے راستے میں ڈر و خوف اور ہراس کی حالت میں سفر کرے تو پروردگار عالم  اسے قیامت کے دن کی خوف  و ہراس سے محفوظ رکھے گا اس وقت جب کہ وہاں تمام لوگ پروردگار کے حضور حاضر  کھڑےہوں گے۔

۱۷-  قالَ البـاقِرُ عليه السلام: مُرُوا شيعَتَنا بِزِيارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلىٍّ، عليهماالسلام فَاِنَّ اِتْيانَهُ مُفْتَرَضٌ عَلى كُلِّ مُؤمِنٍ يُقِرُّ لِلْحُسَيْنِ عليه السلام بِالِأمامَةِ مِنَ اللّهِ. ( بحار الأنوار، ج 98، ص 1، 3 و 4 )
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ہمارے شیعوں کو حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کا حکم دو اور عادت ڈالو، اس لئےکیونکہ ان کی قبراطہر کی زیارت ہر اس مؤمن شخص پر واجب ہے جو  پروردگار عالم کی طرف سےمنصوب ِامامت کے معتقد ہے اور ایمان رکھتا ہے۔

 


۱۸- قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله: سَتُدْفَنُ بَضْعَةٌ مِنّى بِاَرْضِ خُراسانَ لا يَزُورُها مُؤمِنٌ اِلاّ اَوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ وَ حَرَّمَ جَسَدَهُ عَلَى النّارِ۔ (من لا يحضره الفقيه، ج 2، ص 585)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میرے جسم کا ایک حصہ  یا ٹکرا سرزمین خراسان میں دفن ہو گا۔ کوئی مؤمن نہیں جو اس کی زیارت کر سکے جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کو واجب قرار نہ دے اور اس کے جسم کو دوزخ وجہنم کی آگ کے لئے حرام قرار نہ دے۔

۱۹- قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله:۔۔۔ مَنْ زارَهُ فَقَدْ زارَنى وَ مَنْ زارَنى فَكَأَنَّما زارَاللّهَ وَ حَقٌّ عَلَى اللّهِ اَنْ لا يُعَذِّبَهُ بِالنّارِ. (وسائل الشيعه، ج 10، ص 352)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے( ابن عبّاس سے امام حسین عليه السلام کی شہادت اور آپ علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے) فرمایا: جس نے اس(حسین ابن علی) کی زیارت کی  گویااس نے میری زیارت کی ہے اور جس نے میری زیارت کی ،گویا  اس نے خدا کی زیارت کی ہے اور جوبھی خدا کی زیارت کرےگا تو پرودگار عالم پر لازم ہے کہ  اس زائر کو دوزخ و  جہنم کی آگ اور عذاب  سے محفوظ رکھیں(یعنی وہ زائر جہنم کی آگ سے محفوظ رہےگا)۔

۲۰- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: مَنْ كانَ مُعْسِرا فَلَمْ يَتَهَيَّأْ لَهُ حَجَّةُ الاِسْلامِ فَلْيَأْتِ قَبْرَ الْحُسـينِ عليه السلام فَلْيُعَـرِّفْ عِنْدَهُ. (وسائل الشيعه، ج10، ص360)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جو کوئی تنگدستی اور محتاج مند ہونے کی وجہ سےفریضہ حج  کی انجام دہی سے قاصر ہو تو  اسے چاہیے کہ قبر امام حسين عليه السلام کی زیارت کےلئے آیا کرے اور وہاں عرفہ گزارے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک