سپار_12 سورة_ھود
سپارہ_12#سورة_ھود*
✨✨✨ ✨ ✨✨ ✨.
۱۱۲جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ (اللہ کی طرف) پلٹ آئے ہیں ثابت قدم رہیں اور (حد سے) تجاوز بھی نہ کریں، اللہ تمہارے اعمال کو یقینا خوب دیکھنے والا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ فَاستَقِم کَمَا اُمِرتَ:
جس عظیم انقلاب کا حضورؐ نے بیڑا اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ ایک نہایت سنگین ذمے داری ہے اور ایسی قوم کے درمیان اس دعوت کو رواج دینا ہے جو ہر اعتبار سے پسماندہ اور تمام انسانی و اخلاقی قدروں سے نا آشنا ہے۔ دوسری طرف اس عظیم انقلاب کے لیے کوئی مادی طاقت و حمایت بھی نہیں ہے۔ خود انقلاب کا داعی یتیمانہ زندگی گزار چکا ہے۔ ایسے حالات میں ایک انقلاب کے لیے سوچنا اور ابتدائی قدم اٹھانا قدرے آسان ہوا کرتا ہے لیکن بعد میں جب جاں فرسا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو قدم لرزتے ہیں اور ہمت جواب دے جاتی ہے۔ خصوصاً جب لوگوں کے عقائد و مقدسات کو مسترد کرنا ہو تو ایک لامتناہی نفرت و حقارت کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انقلاب اسلامی کے ابتدائی مراحل میں مشکلات و مصائب میں گھرے ہوئے تھے لیکن بعد میں حالات قدرے سازگار ہوگئے اور اسلامی تحریک کو کامیابیاں حاصل ہو گئیں۔ ایسے حالات میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ اب شاید فتح و ظفر کی کوئی خبر آ جائے۔ شاید تاریکی ختم ہونے کو ہے اور روشنی کی کرن نظر آنے والی ہے۔ اتنے میں مزید استقامت اور ثابت قدمی کا حکم زور دار لفظوں میں آتا ہے تو اس حکم کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: شیّبتنی ھود ۔۔۔۔ ( وسائل الشیعۃ ۶: ۱۷۲ ( ) سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔۔۔۔
استقامت اور ثابت قدمی کے مقابلے میں لغزش اور حد سے تجاوز آتا ہے۔ اس لیے حد سے تجاوز نہ کرنے کا حکم دے کر اس کی مزید تاکید کی گئی۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:
فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۔۔۔ (۴۲ شوریٰ: ۱۵)
لہٰذا آپ اس کے لیے دعوت دیں اور جیسے آپ کو حکم ملا ہے ثابت قدم رہیں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔۔۔۔
یہاں استقامت کے مقابلے میں خواہشوں کی اتباع کا ذکر آیا ہے جس کا مطلب حد سے تجاوز ہی ہے۔ لہٰذا استقامت کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی انقلاب کے لیے جن حدود کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعین ہوا ہے ان میں رہ کر قدم بڑھایا جائے۔
حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ رسول اللہؐ پر اس آیت سے زیادہ سخت اور دشوار آیت نازل نہیں ہوئی۔ اس لیے جب اصحاب نے آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ پر بڑھاپا جلدی آ گیا۔ آپؐ نے فرمایا:
شیّبتنی ھود والواقعہ ۔۔۔۔ ( وسائل الشیعۃ ۶: ۱۷۲)
سورہ ہود اور سورہ واقعہ۔۔۔ نے مجھے بوڑھا کر دیا۔
اہم نکات
۱۔ رہبر میں استقامت اور عدم طغیان شرط ہے۔
۲۔ دین کی طرف آنا بھی ایک قسم کی توبہ ہے: وَ مَنۡ تَابَ مَعَکَ ۔۔۔۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 171
آیت ۱۱۳ کا ترجمہ۔ اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پر تکیہ نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہو گا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔
تشریح کلمات
تَرکَنُوۤا:
( ر ک ن ) رکن کے معنی ہیں۔ کسی کی طرف مائل ہو جانا۔ جس سہارے پر کوئی قائم ہو اس سہارے کو رکن کہتے ہیں۔ اسی سے ستون کو رکن کہتے ہیں۔
تفسیر آیات
اسلامی سیاست اور معاشرت کی ایک اہم ترین اساس، ظلم و ناانصافی کی نفی ہے۔ اسلام اپنے معاشرے کو ظلم و تجاوز سے پاک رکھنے کے لیے جامع قوانین وضع فرماتا ہے۔ من جملہ ظالموں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات جن میں ظالم کی بالا دستی ہو ممنوع قرار دیے کیونکہ ظالم پر تکیہ کرنا:
i۔ اپنی کمزوری کا عملی اعتراف ہے۔
ii۔ ظالم کے ظلم کی تائید ہے۔
iii۔ ظالم کی بالادستی کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نفرت نہیں ہے اور یہ خود ظلم کی طرف پہلا قدم ہے۔
iv۔ استحصال کے لیے ظالم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔
v۔ ظلم کو قبول کرنا ہے۔
vi۔ جن مقاصد کے لیے ظالم پر تکیہ کیا ہے وہ حاصل نہیں ہوتے۔ یہ اسلام کا خارجی سیاسی موقف ہے کہ ظالم طاقتوں کے ساتھ معاملہ ہو سکتا ہے لیکن ان پر تکیہ کرنا جائز نہیں ہے۔
vii۔ اس کو مداخلت کا حق دینے کے مترادف ہے۔
viii۔ ظالم کی مداخلت اسلامی ریاست کی خودمختاری اور استقلال کے منافی ہے۔
ظلم کرنے والوں پر تکیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے احیاء کے لیے ظالموں کا سہارا لیا جائے۔ احیائے حق کے لیے حق کو پامال کیا جائے۔
تفسیر قمی میں آیا ہے لَا تَرۡکَنُوۡۤا کا مطلب ہے:
رکون مودۃ و نصیحۃ و طاعۃ ۔۔۔ (تفسیر القمی ۱: ۳۳۷)
محبت، نصیحت اور فرمانبرداری میں تکیہ کرنا۔
اہم نکات
۱۔ ظالم پر تکیہ کرنے والا بے سہارا رہتا ہے: ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ۔۔۔۔
۲۔ اللہ کے علاوہ کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے: وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ۔۔۔۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 172