حائر حسینی
حائر حسینى کربلا میں حرم امام حسین کے مخصوص محدودے کو کہا جاتا ہے جہاں مسافر کے لئے چار رکعتی نمازیں کامل پڑھنا جائز یا مستحب ہے۔
پہلی دفعہ اس لفظ کو امام صادقؑ نے ایک حدیث میں حرم امام حسین کے مخصوص محدودے کے لئے استعمال فرمایا ہے۔ حائر حسینی کی کمترین مقدار چاروں طرف 22 میٹر بیان کی گئی ہے۔
امام حسینؑ کی قبر مبارک پر پہلا بقعہ مختار ثقفی نے تعمیر کیا۔ عباسی خلفا میں سے ہارون الرشید ور متوکل نے کئی بار حائر حسینی کو ویران کیا۔ متوکل نے حائر حسینی کی زیارت سے شیعوں کو روکنے اور امام حسینؑ کی قبر کی نشان مٹانے کیلئے اس زمین پر ہل چلانے اور پانی کی بندش کا حکم دیا۔
ائر کے لغوی معنا
حائر کے معنی حیران و سرگردان کے ہیں۔ ایسا مقام جس کا درمیانی حصہ ہموار اور چاروں اطراف سے بلند ہو اور اس میں جمع ہونے والے پانی کے لئے نکاسی راستہ نہ ہوتو اسے بھی "حائر" کہتے ہیں ۔ زمین کربلا کے ناموں میں سے ایک نام "حائر" بھی ہے۔[7] اس مقام سے منسوب افراد حائری کہلاتے ہیں۔[8]
وجۂ تسمیہ
اس مقام کو حائر کہلانے اور اس لفظ کے رائج ہونے کے بارے میں کئی اقوال ہیں من جملہ یہ کہ:
جب متوکل عباسی (حکومت 232ـ247ھ) کے حکم سے حائر حسینی کو منہدم کرنے کے لئے یہاں پانی چھوڑ گیا تو پانی قبر کے قریب چاروں طرف رک گیا اور قبر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا(حارَ الماءُ) تو اسی مناسبت سے اس جگہے کو حائر کہا گیا۔[9] لیکن بعض اس قول کو قبول نہیں کرتے کیونکہ امام صادقؑ نے متوکل عباسی کی پیدائش سے برسوں قبل اس مقام کو حائر کا نام دیا تھا۔[10]
اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں مرقد مطہر کے گرد ایک دیوار تعمیر کی گئی اور ظاہرا یہ دیوار بنو امیہ کے دور حکومت میں بنائی گئی تھی تاکہ زائرین کی تلاشی اور ان کی نگرانی کرنے میں آسانی ہو۔
تیسرا قول یہ ہے کہ یہ لفظ ایک رمز اور کوڈ ورڈ تھا جو بنو امیہ کے دور میں زائرین کی نسبت ان کی حساسیت کو کم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔[11] کیونکہ یہ نام اس زمین کے اصل نام کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔[12]
حائر کا استعمال
پہلی بار یہ لفظ امام صادقؑ کی طرف سے زیارت امام حسین کی فضیلت اور آداب کے سلسلے میں بیان ہونے والی ایک حدیث میں،[13] حرم امام حسین کے مخصوص محدودے کے لئے استعمال ہوا۔[14] اس کے بعد بتدریج یہ لفظ شیعوں کے درمیان رائج ہوا اور مرقد امام حسین اور اس کا مخصوص محدودہ حائر حسین یا حائر حسینی کے نام سے مشہور ہوا۔[15]
مقام و منزلت
حرم حسینی شیعیان اہل بیتؑ کے نزدیک بہت زیادہ حرمت کا حامل ہے۔ ائمۂ شیعہ دشواریوں اور حکام وقت کے شدید دباؤ اور سخت گیریوں کے باوجود کربلا کی فضیلت اور حائر حسینی کی رفیع منزلت بیان کرکے لوگوں کو اس کی زیارت اور تکریم و تعظیم کی رغبت دلاتے تھے۔ متعدد احادیث میں اخروی اجر و ثواب اور حرم امام حسینؑ کی زیارت کے آثار کے علاوہ،حرم میں حاضری کے آداب اور آنجناب کے مزار کی زيارت کی کیفیت بھی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔[16]
احاطہ
امام حسینؑ کی ضریح کی اوپر سے لی ہوئی تصویر
امام صادقؑ سے منقولہ احادیث کے مطابق حرم کی حدود مختلف طریقوں سے معین کی گئی ہیں جن میں فرسخ اور ذراع کو بھی معیار قرار دیا گیا ہے۔[17] ظاہری طور پرمتعارض احادیث کو جمع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان احادیث میں معین کردہ تمام مقامات حرم کے احاطے میں آتے ہیں اور لائق احترام ہیں۔ تاہم فضیلت کے مراتب مختلف ہیں: جو مقام امامؑ کے مدفن کے قریب تر ہے اس کی حرمت و شرافت دوسرے مقامات کی نسبت زیادہ ہے۔[18] حرم کی حدود کے لئے کم از کم فاصلے مدفن امامؑ سے 20 سے 25 ذراع تک ہیں، اس بنا پر حائر کا تقریبی قطر 22 میٹر قرار دیا گیا اور یوں حائر کی حدود ایک طرف سے امام صادقؑ کے زمانے میں مدفن کے ارد گرد کے احاطے سے اور دوسری طرف سے ان اقوال سےمطابقت رکھتی ہیں جن میں مقام شہادت (مشہد)، مسجد اور مرقد کو حرم اور حائر سمجھتے ہیں۔[19]
نماز کا فقہی حکم
نماز مسافر کے احکام میں حائر حسینی کا موضوع جداگانہ بیان ہونے کی وجہ سے حائر حسینی کا دقیق تعین ضروری ہے اور اسی طرح حرم مکہ، حرم نبوی اور مسجد کوفہ کے لئے مخصوص حکم مذکور ہے ۔دس دن سے کم قیام کرنے والے مسافر کے لئے صرف ان مقامات مقدسہ میں پوری نماز پڑھنا صرف جائز نہیں بلکہ مستحب ہے۔ یہ امامیہ کا مشہور فتوا ہے گوکہ قصر نماز پڑھنا بھی ایسے فرد کے لئے جائز ہے۔[20]۔[21]
جن احادیث میں امام حسین کے زائر کیلئے فقہی حکم بیان ہوا ہے کہ وہ اس معین علاقے میں اپنی نماز پوری پڑھ سکتا ہے ان احادیث میں حرم، حائر یا مدفن کے پاس ("عِندَ القَبرِ")جیسے عناوین ذکر ہوئے ہیں۔[22]۔[23] بعض فقہاء[24]۔[25] نے حائر کی حدود کے لئے مرکزی نقطے [قبر امامؑ سے] کئی فرسخ کے فاصلے پر دلالت کرنی والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے پورے شہر کربلا کو حائر ـاور اس حکم کا مصداق قرار دیا ہےلیکن فقہاء کی اکثریت نے اس حکم کو صرف حائر حسینی کے خاص مفہوم ـ یعنی حرم کے اہم ترین نقطے ـ کی حد تک قبول کیا ہے۔[26]۔[27] البتہ حائر کی دقیق اور صحیح حدود کے سلسلے میں ان کی آراء وا راقوال میں فرق ہے، جیسے:
حضرت عباسؑ کے حرم کے علاوہ امام حسینؑ کا مرقد منور اور دوسرے شہداء کے مراقد حائر کی حدود میں شامل ہیں آج کل یہ احاطہ حرم کہلاتا ہے۔[28]۔[29]
صفوی دور کے توسیعی اقدامات سے پہلے حرم اور صحن کا حصہ حائر میں شامل ہے ۔[30]۔[31]
بعض فقہا صرف روضۂ مقدس ہی کو حائرقرار دیتے ہیں اور حتی کہ رواق میں موجود مسجد کو بھی حائر کا حصہ نہیں سمجھتے اورپوری نماز کے اس مخصوص حکم میں روزہ شامل نہیں ہے۔[32]۔[33]
ضریح مطہر کے اطراف۔[34]۔[35]۔[36]
قابل ذکر ہے کہ معاصر علماء میں سے سید ابوالقاسم خوئی، محمد تقی بہجت اور جواد تبریزی حرم کی حدود میں تخییر کے قائل ہیں یعنی ان کا خیال ہے کہ حرم کی حدود میں مکمل اور قصر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ سید علی سیستانی قبر سے 11/5 میٹر کی حدود تک میں نماز کے مکمل یا قصر پڑھنے کے اختیار کے قائل ہیں جبکہ محمد علی اراکی پورے روضۂ مبارکہ میں تخییر کے قائل ہیں جبکہ امام خمینی، امام خامنہ ای اور محمد فاضل لنکرانی حرم کے کے تمام برآمدوں اور ڈیوڑھیوں حتی کہ حرم سے متصل مسجد میں چار رکعتی نمازوں کے مکمل یا قصر پڑھنے میں تخییر کے قائل ہیں۔ چنانچہ کربلا کی زیارات کے لئے جانے والے افراد اس سفر پر نکلنے سے قبل حرم میں پوری یا قصر نماز میں تخییر کی حدود معلوم کرنے کے لئے اپنے مرجع تقلید کے فتاوی سے رجوع کرتے ہیں۔ بےشک حرم مکہ، حرم مدینہ، مسجد کوفہ اور حرم امام حسین میں پوری نماز پڑھنا افضل ہے جبکہ قصر نماز پڑھنا بھی احتیاط کے موافق ہے۔ [37]
تعمیر کی مختصر تاریخ
امام حسینؑ کے مزار اقدس پر عمارت کی تعمیر کا تعلق آپؑ کی شہادت کے فورا بعد کے ایام سے ہے اور روایات میں ہے کہ سنہ 65 ہجری تک قبر مطہر پر صندوق رکھا گیا تھا اور اوپر چھت تعمیر کی گئی تھی؛ تاہم بظاہر حائر حسینی پر سب سے پہلا بقعہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقیفہ (مقتول سنہ 67 ہجری) کے زمانے میں ـ امام حسینؑ کی خونخواہی کے لئے شروع کی جانے والی تحریک میں ان کی کامیابی کے بعد ـ (سنہ 66 ہجری) تعمیر ہوا ہے۔ اینٹوں کی اس عمارت پر ایک گنبد بنا ہوا تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔[38]۔[39] دوسرے شہدائے کربلا کا مقبرہ عمارت کے باہر واقع ہوا تھا[40] مرقد امام حسینؑ کی زيارت کے آباب و فضائل کے سلسلے میں امام صادقؑ سے منقولہ بعض احادیث[41] معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت آپؑ کے دور تک موجود تھی۔[42]
بعد کے ادوار میں افراد یا حکومتوں نے حرم و حائر میں متعدد تعمیراتی کام کئے، نئے صحن اور رواق تعمیر کئے مسجد تعمیر کی اور مدفن کے لئے صندوق اور ضریح کا اتنظام کیا نیز اطراف حرم بنے ہوئے حصار کی تعمیر نو، احاطے میں پتھروں کے بنے ہوئے فرش کی تبدیلی، گنبد کی مرمت اور اسے سونے کا پانی دینا، میناروں، دیواروں اور رواقوں کی سونے، کاشی (ٹائل) اور آئینوں کی ٹکڑیوں سے تزئین اور حرم کے لئے قالینوں کے تحائف دینا اور اس کے لئے پانی کا مخزن تعمیر کرنا، ان کے ان اقدامات میں سے ہیں۔[43]
حکومتوں کی روش
حائر حسینی کی تعمیر یا انہدام کے سلسلے میں حکومتوں کی روشیں یکسان نہ تھیں۔ مثال کے طور پر امویوں کے دور زائرین امام حسینؑ کے خلاف تشدد آمیز رویوں اور سخت گیریوں کے باوجود[44] حائر کو کبھی منہدم نہیں کیا گیا[45] لیکن بعض عباسی خلفاء، منجملہ ہارون الرشید اور متوكل عباسی، نے کئی بار حائر پر تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کیا تاکہ امام حسینؑ کی قبر کے آثار مٹ جائیں اور لوگ وہاں زيارت کے لئے نہ آئیں۔ متوکل نے اس غرض سے حکم دیا ہے حائر کی زمین میں ہل چلایا جائے اور مقبرے پر پانی چھوڑ دیا جائے۔[46]۔[47] ان کے مقابلے میں آل بویہ، جلائریہ، صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار میں حرم حسینی کی توسیع و تزئین کے لئے بنیادی اقدامات عمل میں لائے گئے۔[48] تخریب و انہدام کا تازہ ترین اقدام اس وقت انجام پایا جب وہابیوں نے سنہ 1216 ہجری میں کربلا پر حملہ کیا۔ اس حملے میں شہر کے باشندوں اور زائرین حسینی کا قتل عام کیا گیا، حائر حسینی کو منہدم کیا گیا اور اموال کو لوٹ لیا گیا۔[49] محمد سماوى (متوفٰى 1371 ہجری) اپنی کتاب "مجالى اللُطف بأرض الطَّف"، نے حائر حسینی کی تخریب و تعمیر کے مختلف مراحل کو منظوم کیا ہے۔[50]
شیعیان اہل بیتؑ کا کربلا میں قیام
ائمۂ معصومینؑ کی طرف سے حائر حسینی کی تعظیم و تکریم پر تاکید اور مستنصر عباسى (حکومت: 247 تا 248 ہجری) کے دور میں کسی حد تک زیارت امام حسینؑ کی آزادی، کے باعث علویوں میں سے ایک جماعت نے حائر حسینی کے ارد گرد سکونت اختیار کی جن میں سے پہلے امام کاظمؑ کے پوتے ابراہیم مُجاب، بن محمد عابد تھے۔ ابراہیم مجاب کا مزار حرم کے مغربی رواق میں ہے۔[51]۔[52] ان کے بیٹے محمد حائری کربلا کے خاندان سادات آل فائز کے مورث اعلی ہیں اور اس خاندان کے بعض افراد حرم حسینی کے متولی بھی رہے ہیں۔[53]۔[54]
حوالہ جات
سید ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ص253۔
صدوق، ثواب الاعمال ص117۔
طوسی، تہذيب الاحکام، ج6 ص43۔
حرم عاملی، وسائل الشیعہ، ج14 ص439۔
مجلسی، بحار الانوار، ج101 ص72۔
راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ص244-246.
ابنمنظور؛ طریحى؛ زبیدى، ذیل «حیر»
كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسینؑ، ص26
شهید اول، ذكریالشیعة فى احكام الشریعة ج4، ص291
طهرانى، شفاءالصدور فى شرح زیارة العاشور، ص294
بستان آبادى، شهر حسینؑ، یا، جلوهگاه عشق، ص174ـ175
كلیدار، تاریخ كربلاء و حائر الحسینؑ، ص73
ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۷۸ش، ص۲۵۴ـ۲۵۵، ۳۵۸ـ۳۶۲.
کرباسی، تاریخ المراقد الحسین، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۲۵۹۔
کلیدار، تاریخ کربلاء و حائر الحسین (ع)، ۱۴۱۸ق، ص۷۱ـ۷۲۔
مفید، كتابالمزار، ص44ـ62، 64ـ82
ابنقولویه، كامل الزیارات، ص456ـ458
طوسی،تہذیبالاحكام ج6، ص81ـ82
كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسینؑ، ص51ـ52، 58ـ60۔
شہید ثانى، الروضۃ البہیہ فى شرح اللمعہ الدمشقیہ ج1، ص787ـ788۔
طباطبائى یزدى، العروةالوثقى ج2، ص164۔
بروجردى، مستند العروة الوثقى ج8، ص418ـ419۔۔
حرّ عاملى، وسائل، ج 8، ص524، 527ـ528، 530ـ532
ابنسعید، الجامع للشّرائع، ص93۔
نراقى، مستند الشیعہ فى احكام الشریعہ ج8، ص313، 317
بحرانى، الحدائق النّاضرة فى احكام العترةالطاهرة ج11، ص462۔
نراقى، مستند الشیعہ فى احكام الشریعہ ج8، ص313ـ314
مفید، الارشاد ج2، ص126۔
حلّى، السرائر ج1، ص342
مجلسى، بحار، ج 86، ص89ـ90۔
كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسینؑ، ص53ـ54۔
مجلسى، بحار، ج 86، ص89۔
خمینى، تحریرالوسیلة ج1، ص233۔
طباطبائى یزدى، تحریر الوسیله، ج 2، ص164ـ165۔
بروجردى، مستند العروة الوثقى ج8، ص419ـ420، 425ـ 426۔
نراقى، مستند الشیعہ فى احكام الشریعہ ج8، ص419ـ420، 425ـ 426۔
حائر حسینی کجاست؟! -> نماز تمام یا شکسته؟!
كرباسى، تاریخ المراقد الحسین و اهل بیتہ و انصاره ج1، ص245ـ250۔
طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،ص70ـ73۔
ابن قولویہ، كامل الزیارات،ص420۔
مجلسى، بحار، ج 98، ص177ـ178، 198ـ199، 259ـ260۔
كرباسى، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصاره ج1، ص255ـ259۔
طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، ص87ـ 93۔
ابن قولویہ، كامل الزیارات، ص203ـ206، 242ـ245۔
طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، ص73۔
ابو الفرج اصفہانى، مقاتل الطالبیین، ص395ـ396۔
طوسى، الامالى، ص325ـ329۔
كلیدار، تاریخ كربلاء و حائر الحسینؑ، ص171ـ173۔
Longrigg, Four centuries of modern Iraq,217۔
آقا بزرگ طہرانى، الذریعہ، ج 19، ص373۔
طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، ص147ـ148۔
علوى اصفہانى، مہاجران آلابوطالب، ص202ـ203۔
ابن عنبہ، عمدةالطالب فى انساب آل ابیطالب، ص263ـ266۔
كلیدار، معالم انساب الطالبیین فى شرح كتاب (سرّ الانساب العلویہ) لابى نصر البخارى، ص157ـ167۔
مآخذ
ابن ادریس حلّى، كتاب السرائر الحاوى تحریر الفتاوى، قم 1410ـ1411 ہجری۔
ابن سعید، الجامع للشّرائع، قم 1405 ہجری۔
ابن طباطبا علوى اصفہانى، مہاجران آل ابوطالب، ترجمہ محمد رضا عطائى، مشہد 1372 ہجری شمسی۔
ابن عنبہ، عمدۃ الطالب فى انساب آل ابی طالب، چاپ مہدى رجایى، قم 1383 ہجری شمسی۔
ابن قولویہ، كامل الزیارات، چاپ جواد قیومى، قم 1417 ہجری۔
ابن منظور؛ ابو الفرج اصفہانى، مقاتل الطالبیین، چاپ كاظم مظفر، نجف 1385ہجری/1965عیسوی، چاپ افست قم 1405 ہجری۔
خمینی، امام سید روح اللہ، تحریرالوسیلۃ، بیروت 1407ہجری/1987عیسوی۔
بحرانى، یوسف بن احمد، الحدائق النّاضرۃ فى احكام العترۃ الطاہرۃ، قم 1363ـ1367 ہجری شمسی۔
بروجردى، مرتضى، مستند العروۃ الوثقى: كتاب الصلاۃ، تقریرات درس آیۃاللّہ خوئى، ج 8، [قم] 1367 ہجری شمسی۔
خوانساری، احمد، جامع المدارك فى شرح المختصر النافع، علق علیہ علی اكبر غفارى، ج 1، تہران 1355 ہجری شمسی۔
زبیدى، محمد بن محمد، تاجالعروس من جواہر القاموس، چاپ علی شیرى، بیروت 1414 ہجری/ 1994عیسوی۔
شہید اول، محمد بن مكى، ذكری الشیعۃ فى احكام الشریعۃ، قم 1419ہجری۔
شہید ثانی، زین الدین بن على، الروضۃ البہیۃ فى شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، چاپ محمد كلانتر، نجف 1398 ہجری، چاپ افست قم 1410 ہجری۔
طباطبائى یزدى، محمد كاظم بن عبد العظیم ، العروۃ الوثقى، بیروت 1404ہجری/1984 عیسوی۔
طریحى، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینى، تہران 1362 ہجری شمسی۔
طعمہ، سلمان ہادى، تاریخ مرقد الحسین و العباس ؑ، بیروت 1416 ہجری/1996 عیسوی۔
طوسى، محمد بن حسن، الامالى، قم 1414 ہجری۔
طوسى، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، چاپ علی اكبر غفارى، تہران 1376 ہجری شمسی۔
طہرانى، ابو الفضل بن ابو القاسم، شفاءالصدور فى شرح زیارۃ العاشور، تہران 1376 ہجری شمسی۔
كرباسى، محمد صادق، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، ج 1، لندن 1419ہجری/ 1998 عیسوی۔
كلیدار، عبد الجواد، تاریخ كربلاء و حائر الحسین علیہ السلام، نجف ]بیتا.[، چاپ افست قم 1376 ہجری شمسی۔
كلیدار، عبد الجواد، معالم انساب الطالبیین فى شرح كتاب (سرّ الانساب العلویۃ) لابى نصر البخارى، چاپ سلمان سید ہادى آل طعمہ، قم 1380 ہجری شمسی۔
كلیدار، عبد الحسین، بغیۃ النبلاء فى تاریخ كربلاء، چاپ عادل كلیدار، بغداد 1966 عیسوی۔
گلپایگانى، محمد رضا، ہدایۃ العباد، قم 1413 ہجری۔
مدرس بستان آبادى، محمد باقر ، شہر حسینؑ، یا، جلوہگاہ عشق، ]تہران[ 1414 ہجری۔
مفید، محمد بن محمد، الارشاد فى معرفۃ حججاللّہ علیالعباد، قم: دار المفید، بیتا.
مفید، محمد بن محمد، كتاب المزار، چاپ محمد باقر موحدى ابطحى، قم 1409 ہجری۔
مقدس اردبیلى، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فى شرح ارشاد الاذہان، چاپ مجتبى عراقى، على پناہ اشتہاردى، و حسین یزدى اصفہانى، ج 3، قم 1362 ہجری شمسی۔
نجفى، محمد حسن بن باقر، جواہر الكلام فى شرح شرائع الاسلام، ج 14، چاپ عباس قوچانى، بیروت 1981 عیسوی۔
نراقى، احمد بن محمد مہدى، مستند الشیعۃ فى احكام الشریعۃ، ج 8، قم 1416 ہجری۔