امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شہادت معصومۂ قم، زینب امام رضا، بی بی فاطمہ معصومہ (س)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

شہادت معصومۂ قم، زینب امام رضا، بی بی فاطمہ معصومہ (س)
دل جس کے شہر میں مدینے کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔ گویا مکہ میں صفا و مروہ کے درمیان دیدار یار کے لیے حاضر ہے ، عطر بہشت ہر زائر کے دل و جان کو شاداب و با نشاط کر دیتا ہے ۔ جس کے حرم میں ہمیشہ بہار ہے ۔ بہار قرآن و دعا ، بہار ذکر و صلوات ، شب قدر کی یادگار بہاریں ۔ دعا و آرزو کے گلدستے کی بہار جو تشنہ روحوں کو سیراب کر دیتی ہے ، ہر خستہ حال مسافر زیارت کے بعد تھکن سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔ ہر آنے والا شخص اس حرم میں قدم رکھنے کے بعد خود کو پردیسی اور بیگانہ محسوس نہیں کرتا۔

وہ ہستی کون ہے ؟ وہ کون ہے کہ جو مدینہ میں گمشدہ اپنی ماں زہرا (س) کی قبر کو ظاہر کیے بیٹھی ہے ؟ وہ کون ہے، جو زائرین کے لیے ماں کی طرح آغوش پھیلائے بیٹھی ہے ؟ وہ کون ہے کہ جسکا در زائرین کی گواہی کے مطابق، مشہد سے بھی زیادہ مانوس اور آشنا ہے ؟

اسے سب پہچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حرم ، حرم اہل بیت ہے ۔مدفن یادگار رسول ، نور چشم موسی بن جعفر (ع)، آئینہ نمائش عفت و پاکی، حضرت فاطمہ ثانی ہے۔

تاریخ دوسری فاطمہ کا انتظارکر رہی ہے . انتظار کی گھڑی گذر جاتی ہے اور خانہ خورشید بھینی بھینی خوشبو سے بھر جاتا ہے. فاطمہ کے حضور جدید کی ٹھنڈک مدینہ کی فضاؤں پر چھا جاتی ہے اور کوثر سیدہ، وہی چشمہ کوثر پھوٹنے لگتا ہے. میں آپ کی حرم کی باغوں میں پناہ لیتا ہوں اور قدری اس ملکوتی سائے میں سستا لیتا ہوں. نہر استجابت کی کنارے بیٹھ جاتا ہوں اور خود ایک قطرہ بن جاتا ہوں اور آپ کے زائرین کی اشکوں کے دریا کے شفاف پانیوں میں آپ کے ضریح مقدس کو عقیدت کے پھولوں کی مالا پہنا دیتا ہوں اور اس ضریح میں سے آپ کی قبر مطہر کا نظارہ کرتا ہوں. یقین نہیں آتا! کیا میں اتنی آسانی سے آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہؤا ہوں! جبکہ آپ کی زیارت کوثر مدینہ کی گمشدہ کی زیارت کے ہم رتبہ ہے.....

کریمۂ اہل بیت حضرت معصومہ (س) فرزندِ رسول حضرت امام موسی کاظم (ع) کی دختر گرامی اور حضرت امام رضا (ع) کی ہمشیرہ ہیں۔ آپ کا اصلی نام فاطمہ ہے۔ آپ اور امام رضا ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے ہيں، آپ کے مشہور نام خیزران، ام البنین اور نجمہ ہیں ۔ روایات کے مطابق حضرت فاطمۂ معصومہ یکم ذی العقدہ 173ھ ق کو مدینۂ منوّرہ میں پیدا ہوئيں، اور10ربیع الثانی 201 ہجری کو وفات پا گئیں ہے۔

حضرت فاطمۂ معصومہ (س) اہل بیت رسول کی اُن ہستیوں میں سے ہیں جو مقام عصمت کی حامل نہ ہوتے ہوئے بھی عظیم شخصیت کی مالک تھیں جیسے حضرت زینب کبری (س) اور حضرت ابو الفضل العبّاس (ع) تھے۔ آپ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہيں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نےآپ کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل ہی آپ کے مدفن کی پیشنگوئی کرتے ہوئے آپ کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی تھی۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے اپنے ایک صحابی سے حضرت امام موسی بن جعفر (ع) کی طرف بچپن میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

یہ میرا بیٹا موسی ہے، خداوندِ عالم اس سے مجھے ایک بیٹی عطا کرے گا جس کا نام فاطمہ ہو گا ۔ وہ قم کی سرزمین میں دفن ہو گی اور جس نے قم میں اس کی زیارت کی، اس پر بہشت واجب ہو گی ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

بہت جلد قم میں میری اولاد ميں سے ایک خاتون دفن ہو گی جس کا نام فاطمہ ہے اور جو اس کی قبر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہو گی۔ اس طرح کی احادیث و روایات حضرت معصومہ کے عظیم مقام و مرتبے کا بہترین ثبوت ہيں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبان سے زائر حضرت معصومہ کے لیے جنت کی بشارت اور وہ بھی وجوب کی حد تک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

حضرت امام رضا (ع) کو چھوڑ کر، حضرت امام موسی کاظم (ع) کی اولاد ميں حضرت معصومہ ہی وہ ہستی ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں آئمہ معصومین (ع) کی روایات ملتی ہيں ۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ آئمہ معصومین میں سب سے زيادہ اولاد حضرت امام موسی کاظم ہی کی تھیں۔ آپ کے برادر گرامی حضرت امام رضا (ع) سے روایت ہے :

جس نے ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔

حضرت معصومہ (س) اسلامی علوم پر دسترس رکھتی تھیں، آپ عالمہ فاضلہ ہونے کے ساتھ محدثہ بھی تھيں۔ آپ سے متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں، ان میں سے ایک مشہور حدیث، واقعۂ غدیر سے متعلق ہے۔ حضرت معصومہ(ع) کی معروف و غیر مشہور زیارتوں میں آپ کو حجّت، امین، حمیدہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، طاہرہ اور برّہ کے القاب سے یاد کیا گيا ہے۔

غرض یہ کہ حضرت معصومہ (س) معصومین (ع) کی طرح معصوم عن الخطا تو نہيں تھیں لیکن آپ گناہوں سے پاکیزگی کے مقام پر فائز ہیں یعنی آپ کی عصمت اکتسابی ہے۔ آپ کو شفاعت کا مقام بھی حاصل ہے۔ حضرت امام جعفرصادق(ع) سے روایت کی گئی ہے کہ:

اُس (حضرت معصومہ) کی شفاعت سے ہمارے تمام چاہنے والے بہشت میں داخل ہوں گے۔ آخرت میں شفاعت کے علاوہ دنیا میں بھی حضرت معصومہ (س) کی ذات اقدس کرامات کا سرچشمہ ہے آپ کے روضۂ اقدس پر لاچار اور مضطر لوگوں کی حاجات روا ہوتی ہیں، بیماروں کو شفا ملتی ہے اور دلوں ميں نور ہدایت بھر جاتا ہے۔ قم کی عظیم دینی درسگاہ بھی آپ ہی کی مرہون منت ہے۔ ابتدا سے لے کر آج تک علماء، محدثین، مفسرین، فقہا اور دانشور آپ کے روضے کے نزدیک علم و دانش کی اشاعت میں مصروف رہے ہيں ۔

حضرت معصومۂ فاطمہ (س) نے زندگی کا بیشتر حصہ اپنے عزیز برادر حضرت امام رضا (ع) کے سایۂ عطوفت ميں گزارا اور آپ کے علم و اخلاق حسنہ سے استفادہ کرتیں رئیں، کیونکہ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم (ع) زیادہ تر عباسی خلیفہ ہارون کے زير عتاب اور پابند سلاسل رہے ۔ حضرت معصومہ کمسن تھیں جب آپ کے والد کو زندان میں ڈالا گیا۔ اسی لیے جب خلیفہ مامون عباسی نے حضرت امام رضا (ع) کو ایک سازش کے تحت مدینۂ منورہ سے خراسان بلایا، تو آپ بھائی کی جدائی برداشت نہ کر سکیں اور ایک سال بعد خود بھی ایران کی طرف روانہ ہوئیں، لیکن ساوہ پہنچ کر آپ بیمار ہو گئيں۔

 بعض روایات کے مطابق ساوہ میں آپ کے قافلے پر دشمنانِ اہل بیت نے حملہ کیا اور آپ کے 23 حقیقی اور چچا زاد بھائیوں کو شہید کیا گیا ۔ آپ سے یہ منظر دیکھا نہ گيا اور بیمار ہو گيئں اور حضرت زینب کبری (س) کی طرح اعزہ و اقارب کی لاشوں کو چھوڑ کر قم روانہ ہوئيں۔

مؤرخین کے مطابق ساوہ میں بیماری کے بعد آپ نے قافلہ والوں سے قم لے جانے کو کہا۔ ایک اور روایت ہے کہ حضرت معصومہ(ع) کو ساوہ کی ایک عورت نے زہر دیا تھا، جس کے اثر سے آپ علیل ہوئیں۔ جب قم کے باشندوں کو معلوم ہوا آپ ساوہ پہنچی ہيں تو شہر کے عمائدین نے آپ کو قم تشریف لانے کی دعوت دی ۔ بہرحال حضرت معصومہ قم پہنچنے کے 17 دن بعد رحلت کر گئيں۔ اس مدت میں آپ خداوند عالم سے راز و نیاز میں مصروف رہيں ۔ آپ کا محراب عبادت آج بھی قم کے مدرسہ ستیّہ میں موجود ہے جسے بیت النور بھی کہا جاتا ہے۔ قم کے معززین میں حضرت معصومہ (س) کو دفن کرنے کے مسئلے پر اختلاف ہوا، بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ قادر نامی بزرگ آپ کے جسد مبارک کو قبر میں اتاریں گے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کی طرف سے دو نقاب پوش نمودار ہوئے جنہوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھ کر آپ کو سپرد خاک کیا۔ وفات کے وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر صرف 28 سال تھی۔

آپ شہر مقدس قم میں مدفون شخصیات اور امام زادوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں آپ کی زیارت کرنا خاص اہمیت کا حامل ہے یہاں تک کہ آئمہ سے منقول احادیث میں آپ کی زیارت کرنے والوں کا اجر بہشت قرار دیا گیا ہے۔

معصومہ:

آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔ یہ نام امام علی بن موسی الرضا (ع) کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے جہاں آپ فرماتے ہیں:

جو کوئی قم میں معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی. اسی طرح خود آپ نے اپنا تعارف معصومہ اور امام رضا(ع) کی بہن کے نام سے بھی کروایا ہے۔

حضرت معصومہ (س)، آج کل بطور خاص ایرانی معاشرے میں کریمہ اہل بیت کے لقب سے بھی مشہور ہے۔ ظاہرا یہ لقب ایک خواب سے منسوب ہے جسے سید محمود مرعشی نجفی جو کہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی کے والد تھے، نے دیکھا اور اس میں کسی معصوم نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیت کے نام سے پکارا اور آیت اللہ مرعشی کو آپ کی زیارت کی تاکید فرمائی۔ حکایت کچھ یوں ہے آیت اللہ مرعشی کے والد گرامی بہت اشتیاق رکھتے تھے کہ جس طریقے سے ممکن ہو حضرت زہرا (س) کی قبر مطہر سے آگاہ ہو سکیں، اس مقصد کے لیے آپ نے ایک مجرب ختم شروع کیا، اور چالیس رات تک اس مخصوص ذکر کا ورد کیا۔ اس امید پر کہ شاید خداوند کسی طریقے سے ان کو حضرت زہرا کی قبر مبارک سے آگاہ فرمائے، چالیسویں رات جب آپ ذکر اور توسل سے فارغ ہو کر آرام کر رہے تھے تو عالم خواب میں امام باقر (ع) یا امام صادق (ع) کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

امام (ع) نے ان سے فرمایا:"علیک بکریمة اھل البیت" کریمہ اہل بیت کے حضور میں جاؤ۔ آپ نے سوچا کہ کریمہ اہل بیت سے مراد حضرت زہرا (س) ہیں، اس لیے کہا: میں نے یہ ختم اسی لیےکیا ہے کہ آپ کی قبر مبارک کا نشان مل سکے تا کہ میں آپکی زیارت سے مشرف ہو سکوں. امام (ع) نے فرمایا: میری مراد حضرت معصومہ(س) کی قبر مبارک ہے جو قم میں ہے۔ جب نیند سے بیدار ہوئے تو سفر کی تیاری کا ارادہ کیا اور حضرت معصومہ(س) کی زیارت کے لئے قم کی طرف روانہ ہوئے۔

کریمہ اہل بیت نامی کتاب کے مولف لکھتے ہیں کہ: آیۃ اللہ مرعشی (رہ) نے اس واقعے کو کئی بار مؤلف کے لئے بیان فرمایا ہے۔

شیخ عباس قمی کہتے ہیں: امام موسی کاظم(ع) کی بیٹیوں میں سب سے افضل، سیدہ، جلیلہ اورمعظمہ فاطمہ ہیں جو معصومہ کے نام سے مشہور ہیں۔

منتہی الآمال، ج2، ص378

وفات:

پرانے منابع میں آپکی وفات کی کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن جدید کتب کے مطابق آپ کی وفات 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری قمری، 28 سال کی عمر میں ہوئی۔

انجم فروزان، ص58

گنجینہ آثار قم، ج1، ص386

کچھ نے 12 ربیع الثانی کو نقل کیا.

مستدرک سفینہ البحار، ص257

اہل تشیع نے آپ کا تشیع جنازہ کیا اور آپکو بابلان نامی جگہ پر جو کہ موسی بن خزرج ملکیت تھی، میں دفن کیا۔

تاریخ قم، ص166، بحارالانوار، ج48، ص290

نقل ہوا ہے کہ جب قبر تیار کی گئی اور مشورہ ہو رہا تھا کہ کون قبر میں اترے اور سب نے ایک بوڑھے شخص جس کا نام قادر تھا اس کو انتخاب کیا اور کسی کو اس کی طرف بھیجا ایسے میں اچانک دو نقاب پوش آئے جنہوں نے آ کر آپکو دفن کیا اور دفن کرنے کے بعد کسی سے بات کیے بغیر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.

بحارالانوار، ج48، ص290

علماء نے کہا ہے کہ احتمال ہے کہ وہ در نقاب پوش امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) تھے۔

اس وقت موسی بن خزرج نے آپکی قبر مبارک پر نشان بنایا اور سنہ 256 میں امام جواد(ع) کی بیٹی اپنی پھوپھی کی زیارت کرنے کے لیے قم آئی تو انہوں نے آپ کی قبر پر مزار بنوایا.

منتہی الآمال، ج2، ص379.

زیارت کی فضیلت:

قم میں حضرت معصومہ (س) کا روضہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں ہر خاص و عام حاضری دیتا ہے ۔آپ کے روضے کے نزدیک عالم اسلام کی عظیم ترین دینی درسگاہ قائم ہے ایسی درسگاہ جو علمی اور دینی اہداف کے علاوہ استقامت ، پائیداری اوراسلامی قیام کے مرکز کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔

دلائل الامامہ ص309

وسیلہ المعصومہ بنقل نزھة الابرار

مستدرک سفینة البحار ج8  ص257

اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہی سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں والدین اور بہن اور بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔ عبادت و زہد، پارسائی اور تقوی، صداقت اور حلم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ سب برگزیدہ اور بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی و ناخدا تھے۔

سر چشمہ علم و دانش :

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقوی اور اخلاقی فضایل کا سرچشمہ تھا۔ جب آپ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد حضرت موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ (ع) کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلی علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہو گئے۔

ابن صباغ ملکی کہتے ہیں: ابو الحسن موسی المعروف (کاظم)۔ کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزندوں میں حضرت رضا علیہ السلام کے بعد علمی اور اخلاقی حوالے سے حضرت سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی اور اخلاقی مقام سب سے اونچا ہے۔ یہ والا مقام حضرت سیدہ معصومہ کے ناموں اور القاب اور ان کے بارے میں آئمہ کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی تعاریف و توصیفات سے آشکار ہے۔ اور اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ بھی ثانی زہرا حضرت زینب کی مانند (عالمہ غیر مُعَلَّمہ)، ہیں۔ ( عالمہ ہیں مگر ان کا استاد نہیں ہے)

فضائل کا مظہر:

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا فضائل و مراتب و مقامات عالیہ کا مظہر ہیں۔ معصومین کی روایات آپ سلام اللہ علیہا کے لئے نہایت اونچے مقامات و مراتب کی دلیل ہیں۔

روى القاضى نور اللّه عن الصادق عليه السلام قال:

ان للّه حرماً و هو مكة ألا انَّ لرسول اللّه حرماً و هو المدينة ألا و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة باجمعهم۔

قاضی نور الله رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جان لو کہ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے؛ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے؛ اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔ میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون، جن کا نام فاطمہ ہے ۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے۔

قم کی قداست اور طہارت کا راز :

متعدد احادیث میں قم کے تقدس پر تاکید ہوئی ہے۔ امام صادق(ع) نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے:۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم۔

آگاہ رہو کہ میرا اور میرے بعد آنے والے پیشواؤں کا حرم شہر قم ہے۔

بحارالانوار ج 60 صفحہ 216۔

امام صادق علیہ السلام ہی اپنی مشہور حدیث میں اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفة الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم۔

اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔

امام علیہ السلام قم کے تقدس کی سلسلے میں اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

... تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى (س) و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة با جمعهم۔

میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون ۔ جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہے۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہماری تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے۔

راوی کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بھی پہلے امام صادق علیہ السلام سے سنی تھی۔ یہ حدیث قم کی قداست کا پتہ دیتی ہے اور قم کی شرافت و تقدس کے راز سے پردہ اٹھاتی ہیں؛ اور یہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف ۔ جو روایات سے ثابت ہے ـ ریحانۃ الرسول (ص)، کریمۂ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے جنہوں نے اس سر زمین میں شہادت پا کر اس کی خاک کو حور و ملائک کی آنکھوں کا سرمہ بنا دیا ہے۔

سیده  (س) نے بهی شہر مقدس قم کا انتخاب کیا:

امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو کی طرے سفر کرنے کے ایک سال بعد سن 201ہج  میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے مقصد سے عازم سفر ہوئیں راستے میں ساوہ پہنچیںلیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہل بیت کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نے حکومتی کارندوں کے ساتھ مل کر قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجے میں قافلے میں سے بہت سارے افراد شہید ہو گئے۔

 زندگانی حضرت معصومہ  آغا منصوری: ص 14، نقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی

سیدہ غم و الم کی شدت سے مریض ہو گئیں اور ایک روایت کے مطابق ساوه میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کر دیا۔

وسیلة المعصومیہ: میرزا ابو طالب بیوک ص 68

الحیاة السیاسبة للامام الرضا (ع): جعفر مرتضیٰ عاملی ص 428

 قیام سادات علوی: علی اکبر تشید ص  168

 جس کی وجہ سے آپ (س) بیمار پڑ گئیں اور محسوس کیا کہ اب خراسان نہ جا سکیں گی اور زیاده دیر تک زنده بهی نہیں رہیں گی چنانچہ فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔

دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص12، نقل از ودیعہ آل محمد (ص) آغا انصاری

اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہو گئیں۔

دشمنان اہل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ہونا اور بعض حضرات کا جام شہادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات، ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وہاں سے سفر کرنا، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نہیں ہے کہ سیدہ معصومہ(س) بهی عباسی جلادوں کے حکم پر مسموم کی گئی تھیں۔

بزرگان قم جب اس پر مسرت خبر سے مطلع ہوئے تو سیدہ کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، موسی بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ(س) اہل قم کے عشق اہل بیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں۔ موسی بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا۔

تاریخ قدیم قم ص213۔

غروب غم و حسرت آمیز:

سیدہ مکرمہ نے 17 دن اس شہر امامت و ولایت میں گذارے، مسلسل مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام بھی خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ آخر کار وہ ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے اور دختر فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت سے اہل قم کو میسر ہوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طہارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں لقاء الله کے لیے بے قرار روح قفس خاکی سے سوئے افلاک پرواز کر گئی۔ سیده دعوت حق کو لبیک کہہ کر عاشقان امامت و ولایت کو سوگوار کر گئیں۔ یہ سن 201 ہجری کا واقعہ ہے۔

ہاں سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقیقی پیشواؤں کی حقانیت کے سلسلے میں امامت کی سند پیش کردی اور مأمون کے چہرے سے مکر و فریب کا نقاب نوچ لیا۔ قہرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت از بام کر دیا۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا۔ اسی اثناء میں تقدیر الٰہی اس پر قائم ہوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے انصافی کے خلاف قیام کا بہترین نمونہ اور ہر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الہام الٰہی قرار پائے۔ آپ (س) جیسوں کی موت شہادت نہ ہو تو کیا ہو؟

آپ (س) نے خاندان پیغمبر صل اللہ علیہ و آلہ کے چند افراد اور محبان اہلبیت کے ہمراہ مدینے سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ہر زمانے میں حقیقی اور خالص محمدی اسلام کے تربیت یافتہ جیالوں نے مادی و طاغوتی طاقتوں کے سامنے حق کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت زینب (س) نے یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا: انی استصغرک ،

میں تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل و رسوا سمجھتی ہوں۔

تدفین کی رسومات:

شفیعہ روز جزا کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا۔ کفن پہنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی۔ لیکن دفن کے وقت مَحرم نہ ہونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے۔ آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ اس عظیم کام کو انجام دیں، لیکن وہ بزرگ اور دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اہل بیت(س) کے جنازے کو ہر کوئی سپرد خاک نہیں کرسکتا تھا۔ لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگاہ لوگوں نے دو سواروں کو آتے ہوئے دیکھا وہ ریگزاروں کی طرف سے آرہے تھے۔ جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پھنچے تو نیچے اترے اور کچھ کہے سنے بغیر نماز جنازہ پڑھی اور اس ریحانہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسد اطہر کو داخل سرداب دفن کردیا۔ اور کسی سے گفتگو کیے بغیر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پہچانا۔

تاریخ قدیم قم ص 214

آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی(رہ) فرماتے ہیں کہ بہ امر بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رہے ہوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دہی کے لیے قم تشریف لائے اور چلے گئے۔

سیدہ معصومہ(س) کو دفن کرنے کے بعد موسی بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطہر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رہا۔ مگر حضرت زینب بنت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام قم تشریف لائیں تو انھوں نے مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا۔

سفینة البحار ج2، ص 376

زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا روایات کی روشنی میں:

دعا اور زیارت گوشہ تنہائی سے پر کھول کر لقاء اللہ تک عروج کرنے کا نام ہے۔ خالص معنویت کے شفاف چشمے کے آب خوشگوار سے بھرا ہوا شفاف جام ہے، اور حضرت معصومہ کے حرم کی زیارت زمانے کی غبار آلود فضا میں امید کی کرن ہے، غفلت اور بے خبری کے بھنور میں غوطہ کھانے والی روح کی فریاد ہے اور بہشت کے بوستانوں سے اٹھی ہوئی فرح بخش نسیم ہے۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مرقد منور کی زیارت انسان کو خود اعتمادی کا درس دیتی ہے، ناامیدی کی گرداب میں ڈوبنے سے بچا دیتی ہے اور اس کو مزید ہمت و محنت کی دعوت دیتی ہے۔ کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت موجب بنتی ہے کہ زائر خود کو خداوند صمد کے سامنے نیازمند اور محتاج پائے، خدا کے سامنے خضوع و خشوع اختیار کرے، غرور و تکبر کی سواری کہ جو تمام بدبختیوں اور شقاوتوں کا موجب ہے ۔ سے نیچے اتر آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے۔ اسی وجہ سے آپ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلے میں آئمہ معصومین سے متعدد احادیث و روایت نقل ہوئی ہیں۔

1- قم کے نامور محدث (سعد ابن سعد)۔ کہتے ہیں کہ: "میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو امام ہشتم علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "اے سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے۔ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کر رہے ہیں؟

فرمایا: من زارها فله الجنّة۔

جو شخص ان کی زیارت کرے، اس کے لیے بہشت ہے۔

ثواب الأعمال

عيون اخبار الرضا(ع)

عوالم العلوم، ج 21، ص 353 نقل از اسنى المطالب ص 49 تا ص 51

2- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

من زارها عارفاً بحقّها فله الجنة۔

جو کوئی ان کی زیارت کرے اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے"۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ: ان کی زیارت بہشت کے ہم پلہ ہے۔

بحار ج 48 صفحه 308

3 ۔ نیز فرمایا: انّ زيارتها تعدل الجنّة۔

بتحقیق ان کی زیارت جنت کے برابر ہے۔

4 ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

من زار المعصومة عارفاً بحقّها فله الجنّة۔

جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے۔

عیون اخبارالرضا (ع)

 5 ۔ نیز فرمایا:

من زار المعصومة بقم کمن زارنی۔

جو شخص قم میں حضرت معصومہ(س) کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔

6- ابن الرضا امام محمد تقی الجواد (ع) نے فرمایا:

من زار قبر عمّتی بقم فله الجنة۔

جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے۔

كامل الزيارة

 7۔ ایک مؤمن امام رضا (ع) کی زیارت کے لیے مشہد گیا اور وہاں سے کربلا روانہ ہؤا اور ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا۔ سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے گذرتے اور میری ہمشیرہ کی زیارت کرتے؟

8۔ مولی حیدر خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آ سکے رے میں میرے بهائی (حمزه) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا۔

زبدة التصانيف، ج6، ص 159، بحوالہ كريمہ اہل بيت، ص 3

احادیث کی مختصر شرح و تفصیل:

گو کہ یہ ساری احادیث حضرت معصومہ (س) کی عظمت کی دلیل ہیں مگر ان روایات میں بعض نکات قابل تشریح ہیں؛ جیسے:

جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، بہشت کا مالک ہو جانا، اور ان کی زیارت کا حضرت رضا (ع) کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا علیہ السلام کا اس شیعہ بهائی سے باز خواست کرنا، جس نے حضرت معصومہ (س) کی زیارت نہیں کی تهی۔

حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی سفارش صرف ایک امام نے نہیں فرمائی ہے بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام صادق، امام رضا و امام جواد علیہم السلام۔ اور دلچسپ امر یہ کہ امام صادق علیہ السلام نے حضرت معصومه کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے بلکہ آپ (س) کے والد امام کاظم (ع) کی ولادت سے بهی پہلے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے۔

دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت میں ہے جس میں حضرت معصومہ کی زیارت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔

زید شحّام نے امام صادق (ع) سے سوال کیا: "یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی:

 کمن زار رسول الله (ص)

وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ کی زیارت کی ہو۔

چنانچہ جس نے سیده معصومہ(س) کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا (ص) کی زیارت کی ہے۔ اور پهر حضرت رضا علیہ السلام، جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:

الا فمن زارنی و هو علی غسل، خرج من ذنوبه کيوم ولدته امّه۔

آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کر کے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها۔

ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیده معصومہ (س) کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی ہے بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے۔

دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا علیہما السلام نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ (س) کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے۔ اور ہم آپ (س) کی زیارت میں پڑهتے ہیں کہ:

 يا فاطِمَة اشْفَعی لی فِی الْجَنَّةِ، فَانَّ لَكَ عِنْدَ اللّْه ِشَأْناً مِنَ الشَّأْن۔

اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے۔

امام صادق علیہ السلام کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعیان اہل بیت (ع) حضرت سیده معصومہ سلام الله علیہا کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے اور زیارتنامے میں ہے کہ آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیوں کہ آپ کے لئے بارگاہ خداوندی میں ایک خاص شأن و منزلت ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو سیده(س) کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے۔

زیارت اور اس کا فلسفہ:

عقیدہ شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ،کلمہٴ زیارت ہے اسلام میں جن آداب کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت علیہم السلام اور ان کی اولاد اطہار کی قبور مبارک کی زیارت کے لیے سفر کرنا ہے۔

احادیث میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس امر کی بڑی تاکید ہے۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا:

من زارنی او زار احدا من ذريتی زرته يوم القيامة فانقذته من اهوائها۔

جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا۔

کامل الزیارات ص11

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

من اتی قبر الحسين عارفا بحقه کان کمن حج مأة حجة مع رسول الله۔

جو معرفت حقہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا تو گویا اس نے 100 حج رسول اللہ کے ساتھ انجام دیئے۔

بحار الانوار ج 101، ص 42

ایک دوسری روایت مین امام صادق (ع) نے فرمایا:

امام حسین (ع) کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے۔

بحار الانوار ج 101، ص 43۔

امام رضا (ع) نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا:

جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔

بحار الانوار ج 102، ص33

امام علی نقی (ع) نے فرمایا:

جس نے عبد العظیم(ع) کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔

بحار الانوار ج 102، ص265

امام جواد (ع) نے بھی امام رضا علیہ السلام کے لیے فرمایا:

اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے بابا کی زیارت کرے۔

حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل و جزا کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہو گا ؟

در حقیقت زیارت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھائے۔ زیارت معصومین (ع) کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ہو تو تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جا سکے گی۔

یہ بزرگ ہستیاں، عالم بشریت کے لئے نمونہ اور مثال ہیں، ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنی ہے کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔

حضرت معصومہ (س) کا مأثور زیارتنامہ:

ہر بارگاہ میں زیارت کا ایک خاص دستور ہوتا ہے۔ حضرت معصومہ (س) کی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایتوں سے زیارت نامہ منقول ہے تا کہ مشتاقان زیارت ان نورانی جملوں کی تلاوت فرما کر رشد و کمال کی راہ میں حضرت سے الہام حاصل کر سکیں اور رحمت حق کی بھی ساحل سمندر سے اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی اٹها سکیں۔

حضرت معصومہ (س) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لیے آئمہ معصومین سے مأثور و منقول زیارت نامہ نقل و ذکر ہوا ہے۔ سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بعد آپ (س) پہلی بی بی ہیں جن کے لیے آئمہ اطہار (ع) کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہوا ہے۔

تاریخ اسلام میں رسول اللہ (ص) کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب، حضرت امیر المؤمنین (ع) کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سیدہ (س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابو الفضل (ع) کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین، شریکۃ الحسین ثانی زہرا حضرت زینب، حضرت امام علی النقی (ع) کی ہمشیرہ حضرت حکیمہ خاتون اور حضرت امام مہدی (عج) کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہن اجمعین) جیسی عظیم عالی مرتبت خواتین ہو گزری ہیں جن کے مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارتنامہ وارد نہیں ہوا ہے جبکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لیے زیارتنامہ وارد ہوا ہے اور یہ حضرت معصومہ(س) کی عظمت کی نشانی ہے، تا کہ شیعیان و پیروان اہل بیت عصمت و طہارت بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت و حیاء اور تقوی و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کہ صرف اسی صورت میں ہے آپ سلام اللہ علیہا کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور ہماری شفاعت فرمائیں گی۔

حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور لقب (معصومہ و عالمہ غیر معلمہ):

مشہور لقب معصومہ کی عطا:

 کتاب ناسخ التواریخ کے مطابق لقب:‘‘ معصومہ ’’ حضرت امام رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا اور واضح ہے کہ کوئی بھی معصوم کسی غیر معصوم کو معصومہ خطاب نہیں فرماتےلہذا یہ عالمہ غیر معلمہ بی بی درجۂ عصمت پر فائز ہیں۔

 معصومہ کے علاوہ دوسرا مشہور لقب"عالمہ غیر معلمہ" ہے،

یہ لقب کس نے دیا تھا ؟

تین معصومین حضرت امام زین العابدین (ع)،حضرت امام موسی کاظم (ع) اور حضرت امام علی رضا (ع) نے یہ القاب بی بی کی ولادت با سعادت سے پہلے عطا فرمائے۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا جنتی خاتون، عبادت اور خدا کی ساتھ راز و نیاز میں ڈوبی ہوئی، بدیوں سے پاک اور عالم خلقت کا شبنم ہیں۔ شاید اس بی بی کو لقب (معصومہ)، اسی لیے ملا ہے کہ ماں زہرا (س) کی عصمت آپ (س) کے وجود میں جلوہ گر ہو گئی تھی۔ بعض روایات کے مطابق یہ لقب حضرت رضا (ع) نے اپنی ہمشیرہ مطہرہ کو عطا فرمایا تھا۔ جیسا کہ بلند اندیش شیعہ محدث علامہ محمد باقر مجلسی (رہ) روایت کرتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى۔

جو شخص قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے، گویا کہ اس نے میری زیارت کی ہے۔

ناسخ التواريخ، ج 3، ص 68،

كريمہ اہل بيت"، ص 32۔

کریمہ اہل بیت علیہم السلام:

یہ لقب امام معصوم کی جانب سے سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو عطا ہوا ہے جو آپ (س) کی مرتبت کی بلندی پر دلالت کرتا ہے۔

انسان عبادت و بندگی خداوند عالم کے نتیجے میں مظہر ارادہ حق اور واسطہ فیض الٰہی قرار پا سکتا ہے، یہ ذات اقدس الہی کی عبودیت کا ثمرہ ہے چنانچہ خداوند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے:

انا اقول للشيء کن فيکون اطعنی فيما امرتک اجعلک تقول للشيء کن فيکون۔

اے فرزند آدم میں کسی چیز کے لئے کہتا ہوں کہ ہوجا! پس وہ وجود میں آ جاتی ہے، تو بھی میرے بتائے ہوئے راستوں پر چل؛ میں تجھ کو ایسا بنادوں گا کہ کہے گا ہو جا ! وہ شیء موجود ہو جائے گی۔

مستدرک الوسائل ج 2، ص298

امام صادق (ع) نے بھی فرمایا:

العبودية جوھرية کنهها الريوبية۔

یعنی خدا کی بندگی ایک گوہر ہے جس کی نہایت اور اس کا باطن موجودات پر فرمانروائی ہے۔

مصباح الشریعة باب 100

اولیائے خدا جنہوں نے بندگی و اطاعت کی راہ میں دوسروں سے سبقت حاصل فرمائی اور اس راہ کو خلوص کے ساتھ طے کیا وہ اپنی اس با برکت عارضی زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی کرامات و عنایات کا منشأ ہیں۔ اور یہ سب ان کی پاکیزہ زندگی کا نتیجہ ہے۔

آستان قدس فاطمی قدیم الایام سے ہی ہزاروں کرامات و عنایات ربانی کا مرکز و معدن رہا ہے، کتنے نا امید قلوب خدا کے فضل و کرم سے پر امید ہوئے، کتنے تہی داماں، رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر چکے،اور کتنے ٹهکرائے ہوئے اس در پر آ کر کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوئے اور خوشحال و شادماں ہو کر لوٹے ہیں اور اولیائے حق کی ولایت کے سائے میں ایمان محکم کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی بنیاد رکهی ہے۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا کی روح کی عظمت اور خداوند متعال کے فیض و کرم کے منبع بے کراں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ سیده معصومہ(س) کریمہ اہل بیت (ع) ہیں۔

اسی بنا پر شیعہ فقہاء، دانشور اور علماء کی زبان میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا (کریمہ اہل بیت)، کے لقب سے مشہور ہیں۔

شفاعت حضرت معصومہ (س):

بے شک شفاعت کا والا ترین اور بالا ترین مقام رسول اللہ (ص) کا مقام ہے اور آپ (ص) کا مقام قرآن مجید میں مقام محمود قرار دیا گیا:

و َمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا۔

 اور رات کے ایک حصے میں بیدار ہوں اور قرآن (اور نماز) پڑہیں۔ یہ آپ کے لیے ایک اضافی فریضہ ہے، امید رکهیں کہ خدا آپ کو مقام محمود (قابل ستائش و تعریف مقام) عطا فرما کر محشور و مبعوث کرے گا۔

سوره اسراء آیت 79

اسی طرح خاندان احمد مختار (ص) میں دو خواتین کے لئے وسیع شفاعت مقرر ہے، جو بہت ہی وسیع اور عالمگیر ہے اور پورے اہل محشر بھی ان دو عالی مرتبت خواتین کی شفاعت کے دائرے میں داخل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ شفاعت کے لائق ہوں۔

یہ دو عالیقدر خواتین صدیقہ طاہرہ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور شفیعہ روز جزا، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ حضرت ام الحسنین (ع) کا مقام شفاعت جاننے کے لیے یہی جاننا کافی ہے کہ شفاعت آپ (س) کا حق مہر ہے اور جب بحکم الہی آپ (ع) کا نکاح قطب عالم امکان حضرت علی ابن ابیطالب (ع) سے ہو رہا تھا، قاصد وحی نے خدا کا بھیجا ہوا شادی کا پیغام رسول اللہ (ص) کے حوالے کیا۔ وہ تحفہ ایک ریشمی کپڑا تھا جس پر تحریر تھا:

امت محمد(ص) کے گنہگاروں کی شفاعت خداوند عالم نے فاطمہ زہراء (س) کا حق مہر قرار دیا ہے۔

یہ حدیث اہل سنت کے منابع میں بھی نقل ہوئی ہے۔

سیدہ زہراء (س) کے بعد کسی بھی خاتون کو شفیعہ روز محشر حضرت معصومہ (س) کا مقام شفاعت حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:

جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں، میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون جن کا نام فاطمہ ہے ۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہوں گے۔

حضرت امام رضا(ع) سے حضرت معصومہ(س) کی محبت:

عرصہ 25 برس تک حضرت رضا علیہ السلام حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا کے اکلوتے فرزند تھے۔ اور 25 سال بعد نجمہ خاتون (س) کے دامن مبارک سے ایک ستارہ طلوع ہوا جس کا نام فاطمہ رکھا گیا۔ امام علیہ السلام نے اپنے والا ترین احساساتِ نورانی اپنی کمسن ہمشیرہ کے دل کی اتہاہ میں ودیعت رکھ لیں۔ یہ دو بھائی بہن حیرت انگیز حد تک ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا فراق ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ زبان ان دو کے درمیان محبت کی گہرائیاں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ امام موسی کاظم (ع) کے ایک معجزے  کے دوران جس میں سیدہ معصومہ(س) کا بھی کردار ہے ۔ جب نصرانی اس کم سن امامزادی سے پوچھتا ہے:

آپ کون ہیں؟

تو آپ (س) جواب دیتی ہیں:

میں معصومہ ہوں امام رضا(ع) کی ہمشیرہ ہوں۔

سیدہ (س) کے اس بیان سے دو چیزوں کا اظہار ہوتا ہے: ایک یہ کہ آپ (س) اپنے بھائی سے حد درجہ محبت کرتی تھیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ (س) امام رضا (ع) کو اپنی شناخت کی علامت سمجھتی تھیں اور امام (ع) کی بہن ہونے کو اپنے لئے اعزاز اور باعث فخر سمجھتی تھیں۔

خواتین کی سرور و سردار:

فاطمہ معصومہ (س) انفرادی اور ذاتی شخصیت و روحانی کمالات کے لحاظ سے امام موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں علی بن موسی الرضا (ع) کے بعد دوسرے درجے پر فائز تھیں۔ بالفاظ دیگر اپنے بھائی بہنوں میں آپ (س) کا درجہ امام رضا (ع) کے بعد دوسرا تھا۔

علم رجال کے منابع کے حوالے سے امام موسی بن جعفر (ع) کی 18 بیٹیاں تھیں اور حضرت معصومہ سب کی سرور تھیں یہی نہیں بلکہ بھائیوں میں بھی امام رضا کے بعد کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔

محدث بزرگوار شیخ عباس قمی (رہ) امام کاظم(ع) کی بیٹیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان سب سے افضل و برتر سیدہ جلیلہ حضرت فاطمہ بنت امام موسی بن جعفر(ع) ہیں جو معصومہ کے لقب سے مشہور ہوئی ہیں۔

بے مثال فضیلت:

شیخ محمد تقی تُستری، اپنی کتاب قاموس الرجال میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا ایک مثالی خاتون (اور خواتین کے لیے اسوہ کاملہ) کے عنوان سے تعارف کراتے ہیں جو امام رضا(ع) کے بعد اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بے مثال تھیں۔ وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی اولاد کی کثرت کے باوجود امام رضا علیہ السلام کو چھوڑ کر کوئی بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ نہیں ہے۔

بے شک فاطمہ دختر موسی بن جعفر (ع) کے بارے میں اس طرح کے اظہارات ان روایات و احادیث پر استوار ہیں جو آئمہ معصومین علیہم السلام سے آپ (ع) کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ یہ روایات سیدہ معصومہ (س) کے لئے ایسے مراتب و مدارج بیان کرتی ہیں جو آپ (س) کے دیگر بھائیوں اور بہنوں کے لیے بیان نہیں ہوئے ہیں۔ اور اس طرح فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام دنیا کی برتر خواتین کے زمرے میں قرار پایا ہے۔

بوئے وصال:

بے شک اہل بیت رسول (ص) نے نہایت روشن چہرے عالم بشریت کے حوالے کیے ہیں جن کے نام درخشان ستاروں کی مانند فضیلتوں کے آسمان پر چمک رہے ہیں۔ ولایت کے ساتویں منظومے کی بزرگ خواتین کے درمیان فاطمہ بنت موسی بن جعفر(ع) درخشان ترین ستارہ ہیں۔ ایسی خاتون جن کی حرم مطہر و نورانی سے علم و معرفت کے پیاسے ایمان کا آب حیات نوش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ عرفا آپ کی زندگی کا تجزیہ کر کے، آپ کے ان لمحوں کا سراغ لگاتے ہیں جب آپ (س) آسمانی وجود میں تبدیل ہوئی تھیں اور اس طرح وہ اپنے لیے عروج عارفانہ کی راہیں ڈھونڈتے ہیں اور کائنات کی وسعتوں میں شمیم وصال پھیلا دیتے ہیں۔

پیغام کے دو نکتے:

1 ۔ اتنا بڑا مقام کیوں ؟

پوچھتے ہیں اتنا اونچا مقام کیوں؟ جبکہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی کئی بہنیں تھیں یہ سیدہ ان سے برتر و افضل کیوں تھیں؟

جواب: یہ سوال حضرت زہرا سلام علیہا کے بارے میں بھی پوچھا جاتا ہے اور جواب یہ ہے کہ: یہ دو خواتین ذاتی اور خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ، ایمان اور عمل کے میدان میں بھی ممتاز تھیں اور اس سلسلے میں انھوں نے اپنے انتخاب سے اعلی انسانی اقدار کے اعلی مدارج و مراتب طے کیے تھے اور اپنے عرفان و عمل کی بنا پر اس مقام و منزلت تک عروج کر چکی تھیں۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عمل، عرفان، ایمان، سیاست، اور مقام امامت کی حمایت کے سلسلے میں ممتاز تھیں اور آخر کار اسی راستے میں مرتبہ شہادت حاصل کر گئیں۔

سیدہ معصومہ نے قم میں اپنی سترہ دن عبادت اور خداوند قدوس کے ساتھ راز و نیاز میں گزار دیئے، یہاں تک کہ آپ کی قیامگاہ کو (بیت النور)۔ کا نام دیا گیا ہے اور یہ عبادتگاہ اس وقت قم کے میدان میر کے محلے اور مدرسہ ستّیہ میں واقع ہے اور آج بھی یہ مقام آپ (س) کی نورانیت اور اپنے خالق یکتا کے ساتھ آپ(س) کی قربت کے خلوص کی گواہی دے رہا ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی اٹھائیس سالہ پر برکت زندگی کی ثمر بخشی کے اثبات کے لیے یہی جاننا کافی ہے کہ قم میں آپ (س) کے سترہ روزہ قیام نے قم کے حوزہ علمیہ کو بقائے جاودانہ بخشی اور قم نے آپ ہی کی برکت سے دسیوں ہزار محقق، عالم، دانشور، مراجع اور مجتہدین عالم تشیع کے حوالے کر دیئے۔ اکابر علماء منجملہ امام رضا (ع) کے صحابی زکریّا بن آدم اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل حسن بن اسحاق، سے لے کر علمائے مفکر اور مراجع تقلید ۔ منجملہ میرزائے قمی، آیت اللہ شیخ ابو القاسم قمی، آیۃ اللہ حائری، آیۃ اللہ صدر، آیۃ اللہ سید محمد تقی خوانساری، آیۃ اللہ حجّت، آیۃ اللہ بروجردی، آیۃ اللہ سید احمد خوانساری، آیۃ اللہ گلپایگانی، آیۃ اللہ مرعشی نجفی، آیۃ اللہ اراکی، علامہ طباطبائی، استاد شہید مرتضی مطہری و حضرت امام خمینی (اعلی اللہ مقامہم الشّریف) تک، سب کے سب عالم عالمۂ آل عبا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود کی برکت سے اس سر زمین پر نشو و نما پا چکے ہیں اور بی بی ہی کے وجود نے حوزہ علمیہ کو مرکزیت و محوریت عطا فرمائی ہے اور قم نے آپ ہی کی برکت سے مدینہ فاضلہ کی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ اس علم و معرفت کے چراغ کو بجھانے کی بہت کوششیں  گئیں، لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا:

خداوند کا فرمان ہے کہ:

یُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔

وہ اپنی منہ سی خدا کا نور بجھانا چاہتی ہین لیکن خداوند متعال اپنا نور مکمل کرنی کی سوا کچھ نہین چاہتا خواہ کفار اکمال و اتمام نور کی ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔

سوره توبہ آیت 32

سورہ صف آیت 8

خداوند عالم، انبیاء عظام، ائمہ طاہرین، اولیائے الہی، حقیقی مجاہدین اور سُکّان ارض و سماء کا سلام و درود ہو اس سیدہ کریمہ اہل بیت(ع) پر اس بزرگ خاتون پر، جس کا چشمہ فیض دائما جاری ہے اور جس کا سر چشمہ نور ہر وقت دنیا کی تاریکیوں میں امید ہدایت کے روشن نقاط اجاگر کرتا ہے۔ درود و سلام ہو اس کوثرِ ولایت پر۔

مختصر یہ کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان اور عمل انسان کو مقامات عالیہ اور مراتب و مدارج رفیعہ کے معراج تک پہنچاتا ہے امام(ع) فرماتے ہیں:

فو الله ماشيعتنا الاّ من اتّقی الله و اطاعه۔

خدا کی قسم وہ شخص ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے جو متقی و پرہیزگار نہ ہو اور جو خدا کی اطاعت نہ کرتا ہو۔

نیز امام پنجم (ع) نے فرمایا:

لا تنال ولايتنا الا بالعمل و الورع۔

ہماری دوستی اور ولایت تک پہنچنا نیک عملی اور پرہیزگاری کے سوا ممکن نہیں ہے۔

حضرت معصومہ (ع) سے منقول روایات:

1ـ عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسَى بْن جَعْفَر (ع) عن فاطمة بنت جعفر الصادق (ع) عن فاطمة بنت محمد الباقر (ع) عن فاطمة بنت علی زین العابدين (ع) عن فاطمة بنت الحسين (ع) عن زينب بنت اميرالمؤمنين (ع) عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عليه ِوَ آله وِ سَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهِ عليه ِوَ آله ِوَ سَلَّمَ: ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِيداً۔

حضرت فاطمہ معصومہ (ع) فاطمہ بنت امام جعفر صادق (ع) سے وہ فاطمہ بنت امام باقر (ع) سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد (ع) سے وہ فاطمہ بنت امام حسین (ع) سے وہ زینب بنت امیر الموٴمنین (ع) وہ فاطمہ الزہراء (س) سے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ (ع) نے فرمایا: آگاہ ہو جاوٴ کہ جو آل محمد کی محبت پر مرے وہ شہید کی موت مرا ہے۔

آثار الحجة محمد رازی ص  9 ، نقل از اللولؤ الثمینہ ص 217

2- حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت:

فاطمہ معصومہ (ع) (اسی مذکورہ سند سے ) فاطمہ زہرا (س) سے نقل فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا: جب شب معراج، میں بہشت میں داخل ہوا تو ایک قصر دیکھا جس کا ایک دروازہ یاقوت اور موتیوں سے آراستہ تھا اس کے دروازے پر ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا:

لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی القوم۔

خدا کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں محمد اللہ کے رسول اور علی لوگوں کے رہبر ہیں۔

اور اس کے پردے پر لکھا تھا:

 بخٍ بخٍ من مثل شيعة علی:

 خوشا بحال خوشا بحال، شیعیان علی علیہ السلام کی مانند کون ہے؟

 میں اس قصر میں داخل ہوا وہاں ایک عمارت دیکھی جو عقیق سرخ سے بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ چاندی کا تھا جو زبرجد سے مرصع تھا اس در پر بھی ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا:

محمد رسول الله علی وصی المصطفی۔

محمد خدا کے رسول اور علی مصطفی کے وصی ہیں۔

اس کے پردے پر مرقوم تھا:

بشِّر بشيعة علی بطيب المولد،

علی شیعوں کو حلال زادہ ہونے کی مبارک باد دیدو۔

میں داخل ہوا تو وہاں زبرجد سے بنا ہوا ایک محل دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا تھا اس محل کا دروازہ سرخ یاقوت کا تھا جو موتیوں سے مزین تھا اس پر ایک پردہ لٹکا تھا میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا دیکھا کہ:

شيعة علی هم الفائزون۔

علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔

میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ محل کس کا ہے جبرئیل نے کہا آپ کے چچا زاد بھائی، وصی و جانشین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ہے، قیامت کے دن سب بجز علی کے شیعوں کے ننگے پاوٴں وارد ہونگے۔

بحار ج 68 ، ص 76

3- حضرت معصومہ (س) روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

من اصعد الی الله خالص عبادته اهبط الله عز و جل اليه افضل مصلحته۔

جو شخص اپنی خالص عبادت اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھیجے گا خدا اپنی بہترین مصلحتیں اس کی جانب نازل کرے گا۔

بحار الانوار، ج 70، ص 249

 عدّة الدّاعی ص 218

 بحارالانوار ج 67 ، ص 249

 میزان الحکمة ج 2 ، ص 882

 تفسیر الامام العسکری ص 327

حدیث غدیر اور حدیث منزلت:

4ـ عن فاطمة بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی فاطمة و زينب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر عليه السلام قلن حدثتنا فاطمة بنت جعفر بن محمد الصادق ، حدثتنی فاطمة بنت محمد بن علی ، حدثتنی فاطمة بنت علی بن الحسين ، حدثتنی فاطمة و سکينة ابنتا الحسين بن علی عن ام کلثوم بنت فاطمة بنت النبی صلی الله عليه و اله و سلم عن فاطمة بنت رسول الله صلی الله عليه و آله قالت: {انسيتم قول رسول الله صلی الله عليه و آله و سلم يوم غدير خم: من کنت مولاه فعلی مولاه و قوله صلی الله عليه و آله و سلم: انت منی بمنزلة ہارون من موسی۔

فاطمہ بنت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام،امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں فاطمہ زینب اور ام کلثوم (سلام اللہ علیہن) سے نقل فرماتی ہیں کہ انھوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق(ع) سے اور انھوں نے فاطمہ بنت محمد بن علی (ع) سے، انھوں نے فاطمہ بنت علی بن الحسین (ع)، فاطمہ بنت زین العابدین (ع) نے فاطمہ اور سکینہ بنت الحسین(ع) سے انھوں نے ام کلثوم دختر فاطمہ بنت رسول الله (ص) سے نقل فرمایا ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں سے دریافت کیا: کیا تم غدیر خم کے دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کا ارشاد ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ (جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں،) اور آپ (ص) کا قول انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی (اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی ) بهول گئے  ہو ؟

الغدیر ج  1 ، ص 196

آپ کی قبر منور شہر قم میں مشہور و معروف ہے ۔ اس میں بلند قبے، ضریح، متعدد صحن اور بہت سے خدام اور بہت سے اوقاف ہیں ۔ اہل علم کی آنکھوں کی روشنی اور عام انسانوں کے لیے پناہ گاہ ہے ۔ ہر سال بے شمار لوگ دور دور کے ملکوں اور شہروں سے سفر کرتے ہیں اور زحمت برداشت کر کے ان معظمہ کی زیارت سے فیض و برکت حاصل کرتے ہیں ۔ ان معظمہ کی فضیلت و جلالت بکثرت حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے جیسا کہ شیخ صدوق (رہ) نے حسن سند کے ساتھ جو مثل صحیح کے ہے سعد بن سعد سے روایت کی ہے کہ امام رضا (ع) سے سوال کیا حضرت فاطمہ (ع) بنت موسی (ع) بنت جعفر (ع) کے بارے میں تو فرمایا جو ان کی زیارت کرے اس کے لیے بہشت ہے، اور معتبر سند کے ساتھ آپ کے فرزند امام محمد تقی (ع) سے منقول ہے کہ جو شخص میری پھوپھی کی زیارت قم میں کرے اس کے لیے بہشت ہے۔

قم میں حضرت معصومہ (ع) کا روضہ مشہد ميں حضرت امام رضا (ع) کے روضۂ اقدس کے بعد ایران کا دوسرا با رونق مزار ہے جہاں روزانہ ہزاروں زائرین آپ (ع) کی زیارت کرتے ہيں۔

تاریخِ قم میں کہا گیا ہے کہ قم کو محبّان اہل بیت (ع) کے ایک گروہ نے آباد کیا جو اموی دور میں حکام کے مظالم سے بچنے کے لیے فرار ہو کر آئے تھے، اس سے پہلے یہاں خانہ بدوش لوگ پانی اور چارے کے ذخائر کی وجہ سے یہاں آتے جاتے رہتے تھے، قم آنے والے افراد میں علماء محدثین بھی شامل تھے۔ عباسی دور میں سادات کی بڑي تعداد عرب ممالک سے ہجرت کر کے قم آئے ۔ ان میں حضرت امام تقی (ع) کے فرزندِ ارجمند حضرت موسی مبرقع (ع) قابل ذکر ہیں جن کا مزار بھی قم ميں ہے۔ قم کی دینی درسگاہ مختلف تاریخی ادوار ميں آباد رہی لیکن اس درسگاہ کو اُس وقت خاص اہمیت مل گئی جب 1340 ہجری میں آیت اللہ العظمی حائری یزدی (رح) اراک شہر سے ہجرت کر کے قم آئے، آپ کے ساتھ شاگرد ارجمند حضرت امام خمینی (رح) بھی قم آئے۔ آیت اللہ حائری یزدی (رح) کی وفات کے بعد آیت اللہ بروجردی (رح) نے اس درسگاہ کو فروغ دیا ۔  اُن کی رحلت کے بعد امام خمینی (رح) سمیت دیگر مراجع دین نے علم و دانش کے فروع ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1962ہج بارگاہ حضرت معصومہ(ع) سے ہی حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت ميں ایران کے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوا۔ اسی لیے قم کو شہرِ علم و قیام (انقلاب) اور شہر علم و شہادت بھی کہتے ہیں، اس شہر کے باشندوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں اور یہ سب حضرت معصومہ(ع) کے وجود اقدس کے طفیل ہے۔

فاطمہ نام کی محبوبیت اور اپنائیت:

حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنی کئی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے: فاطمہ، فاطمہ صغری (بی بی ہیبت،تدفین:آذربائیجان باکو)، فاطمہ وُسطی، فاطمہ اُخری (عُرف خواہر امام، تدفین: شہر رشت ایران) فاطمہ کبری یہی بی بی ہیں جو قم مقدسہ کی معنویت و مرکزیت کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

مثالی بہن بھائی:

تاریخ نے مثالی بہن بھائی پہلے بھی دیکھے تھے،یہ بہن بھائی بھی ایک دوسرے سے بہت بے مثال اور لا زوال محبت کرنے والے تھے۔

ایک حساب کے مطابق حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا دونوں کی والدہ ماجدہ ایک تھیں یعنی حضرت نجمہ خاتون۔ امام رضا (ع) کی ولادت باسعادت 11 ذیقعدہ148 ھ۔ق میں ہوئی جبکہ حضرت فاطمہ کبری یکم ذیقعدہ173ھ۔ق میں دنیا میں تشریف لائیں؛اس طرح سے 25 سال کا عرصہ امام ایسی بہن سے محروم رہے تھے اور خداداد فضائل جو حضرت معصومہ علیہا السلام کو عطا کیے گئے تھے اور عصمت و علم و سخاوت و کرامت کہ کرئمۂ اہلبیت کہلائیں ان سب کی وجہ سے یہ بہن ،بھائی کی نگاہ میں ایک خاص منزلت و مقام رکھتی تھیں۔

کاشانۂ اہلبیت  (ع):

قم مقدسہ میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم مطہر کی عظمت و رفعت کا اندازہ اسی حدیث سے ہو سکتا ہے کہ:

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: آگاہ رہو خداوند متعال کے لیے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے،حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے،حضرت علی علیہ السلام کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور میری اولاد کا حرم قم میں ہے ۔قم چھوٹا کوفہ ہے جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی طرف کھلتے ہیں۔میری اولاد میں سے ایک فاطمہ بنت موسی کاظم نامی خاتون قم میں سفرِ آخرت کریں گی،ان کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔

مقام شفاعت:

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمۂ اہلبیت بی بی مقام شفاعت پر فائز ہیں جیسا کہ اُن کے القاب میں سے ایک لقب شافعۂ روزِ جزا ہے اورحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

فاطمہ کبری کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔

اب بھی قم مقدسہ میں ہر زائر کے دل کی امید کے پس منظر میں اُس کی زبان پر یہ جملہ وظیفہ بن کر مکرر ہوتا رہتا ہے:

: یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ :

 بی بی کریمہ اہل بیت (س) کے کرم کے چند نمونے:

چونکہ حضرت فاطمہ معصومہ (س) اس خاندان کی چشم و چراغ ہیں کہ جس کے لیے زیارت جامعہ میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جملہ ملتا ہے کہ:

 عادتکم الاحسان و سجیتکم الکرم۔

 احسان آپ کی عادت اور کرم آپ کی فطرت ہے ۔

بحارج 102 ، ص 132

 لہٰذا بہت سی کرامتیں حرم مطہر و مقدس سے ظاہر ہوئیں جس سے بزرگوں میں ملا صدرا آیۃ اللہ بروجردی جیسے افراد سے لے کر دور و دراز ملکوں سے آنے والے عاشقان ولایت جو زیارت کی غرض سے آئے سب کے سب آپ کی کریمانہ فطرت ، لطف و احسان سے فیضیاب ہوئے اور انشاء اللہ قیامت تک ہوتے رئیں گے، لیکن افسوس کہ یہ ان تمام کرامتوں ایک کتاب کی شکل میں محفوظ نہیں گیا، لیکن پھر بھی ہم بعنوان نمونہ چند کرامتوں کو ذکر کرتے ہیں:

حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا اپنے زائرین پر لطف و کرم:

جناب آقای عبد اللہ موسیانی، حضرت آیت اللہ مرعشی سے نقل فرماتے ہیں کہ میں سردی کے موسم میں ایک شب بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہو گیا سوچا کہ حرم چلا جاوٴں لیکن بے وقت اور بے موقع سمجھ کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگا اور سر کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ لیا تا کہ اگر نیند بھی آنے لگے تو سو نہ سکوں۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک بی بی کمرے میں داخل ہوئیں ہیں، اور فرماتی ہیں کہ سید شہاب اٹھو اور حرم میں جاؤ کہ بعض زائرین شدید سردی سے جان بحق ہونے والے ہیں ۔ انھیں بچاوٴ آپ فرماتے ہیں کہ میں بلا تامل حرم کی طرف روانہ ہو گیااور وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ حرم کے دروازے پر بعض پاکستانی یا ہندوستانی زائرین ٹھنڈک کی شدت کی وجہ سے دروازے سے پشت لگائے ہوئے تھرتھرا رہے ہیں۔ میں نے دق الباب کیا حاج آقای حبیب نامی خادم نے میرے اصرار پر دروازہ کھول دیا ہمارے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی حرم کے اندر داخل ہو گئے اور ضریح کے کنارے زیارت اور عرض ادب میں مصروف ہو گئے میں نے بھی انہیں خادموں سے پانی مانگا اور نماز شب کے لئے وضو کرنے لگا ۔

منبع فیض الٰہی:

محدث قمی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض اساتذہ سے خود سنا ہے کہ ملا صدر شیرازی نے اپنی بعض مشکلات کی بنیاد پر شیراز سے قم کی ہجرت کر لی اور کہک نامی دیہات میں سکوت پذیر ہو گئے ۔ اس حکیم فرزانہ کے لئے جب بھی کسی علمی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کو آتے تھے اور حضرت سے متوسل ہونے کی وجہ سے ان کی علمی مشکلات حل ہوجاتی تھی اور اس منبع فیض الٰہی کے مورد عنایت قرار پاتے تھے۔

فوائد الرضویہ ص379

مفلوج کو شفا دینا:

حجۃ الاسلام آقای شیخ محمود علمی اراکی نے نقل فرمایا ہے :

میں نے خود بارہا ایک شخص کو دیکھا ہے کہ جو پیر سے عاجز تھا وہ اپنے پیروں کو جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ وہ اپنے بدن کے نچلے حصہ کو زمین پر خط دیتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے چلتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے اس کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ روس کے ایک شہر قفقاز کا باشندہ ہے ۔ وہ بتانے لگا کہ میرے پیر کی رگیں خشک ہو چکی ہیں لہٰذا میں چلنے سے معذور ہوں۔ میں مشہد امام رضا (ع) سے شفا لینے گیا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اب یہاں قم آیا ہوں اگر خدا نے چاہا تو شفا مل جائے گی۔

ماہ رمضان المبارک کی ایک رات کو یکایک حرم کے نقار خانے سے نقارہ بجنے کی آواز آئی ۔ لوگ آپس میں کہہ رہے تھے بی بی نے مفلوج کو شفا دیدی ! اس واقعے کے چند دنوں بعد میں چند افراد کے ساتھ گاڑی میں اراک کی طرف جا رہا تھا ۔ راستے میں اراک سے چھ فرسخ کے فاصلے پر اسی مفلوج شخص کو دیکھا کے اپنے صحیح و سالم پیر سے کربلا کی طرف عازم ہے ہم نے اپنا یکہ روکا اور اس کو اپنی سواری پر سوار کر لیا ۔ پھر معلوم ہوا کہ اس دن جسے شفا ملی تھی وہ یہی مفلوج ہے ۔ وہ شخص اراک تک ہم لوگوں کے ساتھ تھا۔

زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص 47

عزاداری اہلبیت کا صلہ اور پاؤں کی درد سے شفا ملنا:

حضرت آیۃ اللہ شیخ مرتضی حائری نے فرمایا :

آقا جمال نامی شخص جو ” ہژبر “ کی عرفیت سے مشہور تھا ، اس کے پیر میں درد کی شکایت ہو گئی اور وہ اس حد تک بڑھی کہ مجلسوں میں ایک آدمی انھیں اٹھا کر لے جایا کرتا تھا اور ان کی کمک کرتا تھا ۔

نویں محرم کو آقای ہژبر مدرسہ فیضیہ میں اس مجلس میں شرکت کی غرض سے آئے جسے آیۃ اللہ مرتضی حائری نے برپا کیا تھا ، آقا سید علی سیف ( آیۃ اللہ حاری مرحوم کے خادم ) کی نگاہجیسے ہی آقائے ہژبر پر پڑی ان کو برا بھلا کہنے لگے ، کہنے لگے : یہ کون سا کھیل رچا رکھا ہے ، لوگوں کو زحمت میں مبتلا کرتے ہو ۔ اگر تم واقعاً سید ہو تو جاوٴ جا کر بی بی سے شفا حاصل کرلو ۔ یہ جملہ سن کر آقائے ہژبر کافی متاٴثر ہوئے ۔ جب مجلس ختم ہو گئی تو اپنے ہمراہی و مدد گار سے کہا : مجھ کو حرم مطہر لے چلو ! حرم پہنچ کر زیارت و عرض ادب کے بعد شکستہ حالی میں توسل کیا، اسی حالت میں سید کو نیند آ گئی ۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے: اٹھو ! میں نے کہا : میں اٹھ نہیں سکتا ۔ کہا گیا : تم اٹھ سکتے ہو ، اٹھ جاوٴ ! اس کے بعد ان کو ایک عمارت دکھائی گئی اور کہنے والے نے کہا : یہ عمارت سید حسین آقا کی ہے جو میرے لیے مصائب پڑھتے ہیں اور یہ نامہ بھی ان کو دیدینا ۔ ناگہاں آقائے ہژبر کی آنکھ کھل گئی تو انھوں نے خود کو اس حال میں کھڑے ہوئے پایا کہ ان کے ہاتھ میں ایک خط تھا ۔ انھوں نے وہ نامہ مذکورہ شخص تک پہنچا دیا ۔ وہ کہتے تھے : میں ڈر گیا کہ اگر اس خط کو نہیں پہنچا یا تو دوبارہ اس درد میں مبتلا ہو جاوٴں گا ۔ اس خط میں کیا تھا کسی کو معلوم نہ ہو سکا حتی آیۃ اللہ حائری نے فرمایا : اس واقعہ کے بعد آقائے ہژبر بالکل بدل گئے، گویا ایک دوسری دنیا کے باشندے ہیں اکثر و بیشتر خاموش ، یا ذکر خدا میں مشغول رہتے تھے۔

زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص 47

گمشدہ کو نجات اور زائرین پر عنایات:

حرم کے خادم اور کلید دار جو آقائے روحانی مرحوم ( علمائے قم میں سے ایک عالم دین جو مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام میں امام جماعت تھے ) کی نمازوں میں تکبیر بھی کہا کرتے تھے ۔ خود نقل کرتے ہیں : موسم سرما کی ایک رات تھی ، میں حرم مطہر میں تھا عالم خواب میں حضرت معصومہ علیہا السلام کو دیکھا کہ آپ فرما رہی ہیں : اٹھو اور مناروں کے چراغ جلاؤ، میں خواب سے بیدار ہوا اور کوئی توجہ نہ دی ، دوسری مرتبہ بھی یہی خواب دیکھا لیکن اس مرتبہ بھی توجہ نہ دی ، تیسری مرتبہ حضرت نے فرمایا : مگر تم سے نہیں کہہ رہی ہوں کہ اٹھو اور مناروں کے چراغ روشن جلاؤ ؟ میں خواب سے بیدار ہوا اور کسی علت کو معلوم کئے بغیر منارے پر گیا اور چراغ روشن کر کے پھر سو گیا ۔ صبح کو اٹھ کر حرم کے دروازوں کو کھولا اور  آفتاب طلوع ہونے کے بعد حرم سے باہر آیا ۔ اپنے رفقاء کے ساتھ سردی کی دھوپ میں گفتگو کر رہا تھا کہ یکایک چند زائرین کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوا ۔ وہ کہہ رہے تھے : بی بی کی کرامت اور معجزے کو دیکھو ! اگر کل رات اس سرد ہوا اور شدید برف باری میں حرم کے منارے کا چراغ روشن نہ ہوتا تو ہم لوگ ہرگز راستہ تلاش نہیں کر پاتے اور اس سردی میں ہلاک ہو جاتے۔

خادم کہتا ہے :

میں اپنے آپ میں بی بی کی کرامت کی طرف متوجہ ہوا نیز یہ کہ آپ کو اپنے زائروں سے کس قدر محبت و الفت ہے۔

ودیعہ آل محمد : محمد صادق انصاری ص 14

مرض دیوانگی:

آقائے میر سید علی برقعی نے فرمایا :

ایک شخص نے بیان کیا کہ میں جب عراق میں ایران کا سفیر تھا تو میری بیوی دیوانگی کی مرض میں مبتلا ہو گئی ، نوبت یہاں تک آ گئی کہ ان کے پیر میں زنجیر ڈالنی پڑی ایک دن جب سفارت خانے سے لوٹا تو ان کا بہت برا حال دیکھا ۔ یہ حال دیکھنے کے بعد اپنے مخصوص کمرے میں داخل ہوا اور وہیں سے امیر الموٴمنین علیہ السلام سے متوسل ہوا عرض کیا :

یا علی چند سال سے آپ کی خدمت میں ہوں اور پردیسی ہوں ، اپنی بیوی کی شفا یابی آپ سے چاہتا ہوں ۔اسی طرح متحیر و پریشان تھا کہ خدا یا کیا کروں کہ ناگہاں گھر کی خادمہ دوڑتی ہوئی آئی اور بولی آقا ! جلدی آئیے ۔ میں نے پوچھا : میری بیوی مر گئی ؟ کہنے لگی : نہیں ! اچھی ہو گئی ہیں ۔ میں جلدی سے اپنی بیوی کے پاس آیا تو دیکھا کہ طبیعی حالت میں بیٹھی ہیں ۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے پوچھنے لگیں : میرے پیر میں زنجیر کیوں باندھی ہے ؟

میں نے سارا واقعہ سنا دیا ۔ اس کے بعد میں نے پوچھا تم یکایک ٹھیک کیسے ہو گئی ؟ انھوں نے جواب دیا : ابھی ابھی ایک با جلالت خاتون میرے کمرے میں داخل ہوئیں تھیں ، میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : میں معصومہ امام موسیٰ جعفر علیہ السلام کی دختر ہوں ، میرے جد امیر الموٴمنین علیہ السلام نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو شفا دوں اور میں نے تم کو شفا یاب کر دیا ۔

بشارۃ المومنین: شیخ قوام اسلامی جاسبی ص 43

گونگی لڑکی کو شفا                             ملنا:

حجۃ الاسلام جناب آقائے حسن امامی نے لکھا ہے کہ :

10 رجب 1385 ء ھ جمعرات کے دن ” آب روشن آستارہ “ کی رہنے والی ایک 13 سالہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ہمراہ قم آئی ۔ وہ لڑکی ایک مرض کی وجہ سے گونگی ہو گئی تھی اور بولنے کی صلاحیت اس سے سلب ہو گئی تھی ۔ ڈاکٹروں کو دکھانے کے با وجود بھی اس کا معالجہ نہ ہو سکا ۔ جب ڈاکٹر مایوس ہو گئے تو وہ لوگ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم میں پناہ گزیں ہوئے ۔ دو رات وہ لڑکی ضریح کے پاس بیٹھی رہی ۔ کبھی روتی تو کبھی زبان بے زبانی سے مشغول راز و نیاز تھی کہ یک دم حرم کے سارے چراغ بجھ گئے ۔ اسی وقت وہ لڑکی حضرت کی بے کراں عنایتوں کے سائے میں آ گئی اور ایک عجیب انداز میں چیخ اٹھی جسے وہاں کے خدام اور زائرین نے اچھی طرح سنا چیخ سنتے ہی مجمع ٹوٹ پڑتا تا کہ اس کے کپڑے کے کچھ حصے بعنوان تبرک لے لیں ۔ لیکن فوراً خادمین حضرات لڑکی کو حفاظت کے لیے ایک حجرے میں لے گئے۔ یہاں تک کہ مجمع کم ہویا ۔ لڑکی نے کہا : جس وقت چراغ بجھا تو اسی وقت ایک ایسی روشنی اور نور دیکھا کہ اپنی پوری زندگی میں ویسا نور نہیں دیکھا تھا پھر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ فرما رہی ہیں : تم ٹھیک ہو گئی ہو اب بول سکتی ہو میں چیخنے لگی تو دیکھا کہ میں بول سکتی ہوں ۔

بشارۃ المومنین ص 49

قرض کی ادائیگی اور رزق میں برکت:

حرم مقدسہ کے خادم جناب آقائے کمالی فرماتے ہیں : 1302 ء شمسی کی بات ہے میں حضرت معظمہ کی بارگاہ میں پناہ گزیں تھا اور وہیں صحن نو میں ایک حجرے میں مقیم تھا ۔ زندگی بہت سختی سے گذر رہی تھی اور بے حد فقیر و نادار ہو گیا تھا زندگی حرم کے اطراف کے تاجروں سے قرض پر گذر رہی تھی ۔ یہاں تک کہ ایک دن نماز صبح کی ادائیگی کے بعد بی بی کی بارگاہ میں مشرف ہوا ۔ اور اپنی ساری حالت بی بی کو سنا دی ۔ اسی حالت میں پیسوں کی تھیلی میرے دامن میں گری ۔ کچھ دیر تک تو میں نے انتظار کیا کہ شاید یہ کسی زائر کا پیسہ ہو تو یہ اسے دیدوں ، لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ بی بی کا خاص لطف ہے ۔ تھیلی لے کر اپنے حجرے کی طرف پلٹ گیا ۔ جب اسے کھولا تو اس میں چار ہزار تومان تھے پہلے تو میں نے سارے کے سارے قرض ادا کئے پھر چودہ مہینوں تک اس کو خرچ کرتا رہا لیکن اس میں کافی برکت تھی ، ختم ہی نہیں ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک دن حجۃ الاسلام حسین حرم پناہی تشریف لائے اور ہماری زندگی کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے موضوع کو یوں بیان کر دیا ۔ انہی دنوں وہ عطیہ ختم ہو گیا ۔

بشارۃ المومنین ص 52

جاؤقم جاوٴ :

آقائے حیدری کاشانی فرماتے ہیں کہ : مسجد گوہر شاد میں عشرہ مجالس تمام ہونے کے بعد ایک خاتون میرے پاس آئی اور کہا : میرا جوان بچہ مریض تھا ایک رات حضرت رضا علیہ السلام کو خواب میں دیکھا ۔ حضرت نے فرمایا : تمہارے دو جوان مریضوں میں سے ایک کو میں نے شفا یاب کردیا دوسرے کو میری بہن کے پاس قم لے جاوٴ ( کیونکہ قم میں میری بہن اسے شفا دیں گی ) اب آپ چونکہ قم روانہ ہو رہے ہیں تو یہ ساٹھ تومان وہاں ضریح میں ڈال دیجئے گا میں چند دن کے بعد حاضر ہوں گی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ مشہد آتے وقت تم قم نہیں  گئی تھی ؟ اس نے کہا ” نہ “ میں نے کہا : حضرت کی فرمائش تم سے شکوہ تھا کہ کیوں اس سفر میں ان کی بہن کی زیارت کو نہیں گئیں ۔

شفا بخش شربت :

14 شعبان بدھ کا دن تھا ۔ حرم مقدسہ میں نیمہ شعبان کی بزرگ عید کے موقع پر کریمہ اہل بیت علیہم السلام کی ملکوتی بارگاہ میں دور سے آئے ہوئے مہمونوں کی ضیافت ہو رہی ہے ۔ وہ بھائی کا ہمسایہ ہے جو بہن کے بلانے پر شفا کی امید میں اس در پر حاضر ہوا ہے ۔ وہ امیر محمد کوہی ساکن مشہد ہیں اور وہاں کے امور اقتصادی کے سابق ملازم ہیں ۔ آپ اپنی داستان اس طرح بیان فرماتے ہیں :

تین سال سے میں فلج کے مرض میں مبتلا تھا اور حرکت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ویلچیر ( Wheel Chair) کے سہارے چلتا تھا ۔ مشہد اور تہران کے متخصص ڈاکٹروں کے پاس گیا ، علاج کے مختلف مراحل گزارے بارہا ہسپتال میں  ، دعائے توسل اور ان مجالس میں بغرض شفا شرکت کی جو امام رضا علیہ السلام کے حرم میں برپا ہوتی تھیں لیکن کوئی عنایت نہ ہوئی۔ انہی دنوں بہت زیادہ غم و غصہ کی وجہ سے میں اپنے خانوادہ کے ساتھ حرم مشرف ہوا اور بہت دکھے دلوں سے عرض کیا: مولا !آپ تو غیر مسلموں کو محروم نہیں کرتے ہیں پھر مجھ جیسے شیعہ پر کیوں توجہ نہیں دیتے ہیں ۔ مولا: یا تو میرا جواب دیجئے یا میں قم جا کر آپ کی بہن سے شکایت کروں گا اور ان کو وسیلہ قرار دوںگا اس وقت حضرت معصومہ علیہا السلام کو مخاطب کرکے عرض کیا : میں آپ کے بھائی کا ہمسایہ ہوں اور ایک ایسا انسان ہوں جو عیال مند ہے اپنی پوری زندگی میں کوئی خیانت نہیں کی ہے اور اپنی آخری کوشش تک کامیاب رہا ہوں پھر وہ مجھے شفا کیوں نہیں دیتے ہیں؟ اس توسل اور شکوے کے بعد ایک خاتون کو عالم خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہی ہیں ۔تم قم آؤ تاکہ میں تم کو شفا دوں ۔ میں نے عرض کیا آپ ہمارے گھر تشریف لائی ہیں اور ہماری مہمان ہیں مجھے یہیں شفا دے دیجئے میرے پاس پیسہ نہیں ہے کہ قم آؤں فرمایا: تم کو قم آنا پڑے گا ۔ میں نے اپنے خواب کو اپنے بال بچوں سے نقل کر دیا چند دنوں کے بعد میرے فرزند نے مجھے سے کہا: بابا ! ہم نے اپنی ساری دولت آپ کے معالجے میں صرف کر دی ۔ لیکن چند پیٹی نوشابہ بیچنے کی وجہ سے کچھ پیسے ہاتھ میں آئے ہیں اسی کو مسافرت میں خرچ کیجئے اور قم چلے جایئے مجھے امید ہے کہ آپ کوشفا ملے گی۔

میں قم کی طرف رواں ہو گیا ۔ قم پہنچنے کے بعد وضو کیا اور حرم میں داخل ہو گیا ۔ دو آدمیوں سے گزارش کی کہ مجھے سہارا دے کر ضریح کے پاس لے جائیں ۔ وہ لوگ مجھے ضریح کے پاس لے گئے ۔ ( میں بہت تھکا ہوا تھا ) زیارت اور التجا کے بعد وہیں ضریح کے پاس کمبل اوڑھ لیا ، مجھے نیند آ گئی ۔ عالم خواب میں ایک خاتون کو کالی چادر اور سبز مقنعہ میں دیکھا انہوں نے مجھ سے فرمایا : میرے لال آنا مبارک ہو ۔ اب میں نے تم کو شفا دیدی ۔ اٹھ جاوٴ ! اب تم کو کوئی بیماری نہیں ہے ۔ میں نے عرض کیا : میں بیمار اور مفلوج ہوں ۔ انہوں نے ایک مٹی کا پیالہ جس میں چائے رکھی تھی میرے ہاتھ میں دی اور فرمایا : پیئو میں نے چائے پی ۔ ناگہاں خواب سے بیدار ہوا ۔ دیکھا کہ میں اپنے پیر پر کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتا ہوں اپنی جگہ سے اٹھا اور خود کو ضریح تک پہنچایا اور آخر کار آج کے دن بی بی سے اپنی عیدی لے لی ۔

یہ بی بی مقدسہ کے بے شمار الطاف ، عنایت اور بہت سی کرامات کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا ۔ آپ ہی کے پاک و پاکیزہ وجود کے وسیلے سے قم عاشقان و سالکان طریق ہدایت کا ماوی اور قبلہ امید عارفان حقیقت ہو گیا ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ یہی مختصر تذکرہ دلسوختہ عاشقوں کے پیاسے حلقوم کے لئے شربت اور چراغ راہ ہدایت ہوتا کہ خواب غفلت سے بیدار ہوں سکیں ۔ اس امید کے ساتھ حضرت سب کو اپنے لطف و عنایت کے سایہ میں قرار دیں گی اور سب کو راہ ہدایت پر گامزن فرمائیں گی  انشاء اللہ ۔

خداوند متعال اس بی بی کی کرامت کے طفیل ہمیں بھی ان کی مقبول زیارت اور شفاعت سے بہرہ مند فرمائے.....

السلام علیک یا بنت رسول اللہ السلام علیک یا بنت فاطمۃ و خدیجۃ السلام علیک یا بنت امیر المو منین السلام علیک یا بنت الحسن و الحسین السلام علیک یا بنت ولی اللہ السلام علیک یا اخت ولی اللہ السلام علیک یا عمۃ ولی اللہ السلام علیک یا بنت موسی بن جعفر و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ فان لک عنداللہ شا نا من الشان اللھم انی اسئلک ان تختم لی با لسعادۃ فلا تسلب منی ما انا فیہ و لا حول و لا قوۃ الا با للہ العلی العظیم.....

سلام آپ پر اے دختر رسول خدا (ص) سلام آپ پر اے دختر فاطمہ (ع) و خدیجہ (ع) ۔ سلام آپ پر اے دختر امیر المومنین (ع) سلام آپ پر اے دختر حسن و حسین (ع) سلام آپ پر اے ولی خدا ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی بہن ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی پھوپھی ۔ سلام آپ پر اے دختر موسی بن جعفر (ع) اللہ کی رحمت و برکت ہو ۔

اے فاطمہ (ص) آپ میر ی شفاعت کیجۓ جنت کے لۓ کہ آپ کی خدا کے نزدیک شان ہے ۔ خدا یا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا خاتمہ سعادت پر ہو پس تو سلب نہ کر مجھ سے وہ جس میں ہوں اور کوئی قوت و طاقت نہیں ہے مگر بلند و عظیم خدا کے ‎لیے۔

سلام ہو اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون پر روز طلوع سے لے کر لمحہ غروب تک۔

سلام و درود معصومہ سلام اللہ علیہا کی روح تابناک پر جن کے حرم منور نے قم کی ریگستانی سر زمین کو نورانیت بخشی۔

التماس دعا.....

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک