نہج البلاغہ

سلسله جلسات نهج البلاغه خوانی برگزار می‌شود - خبرگزاری مهر | اخبار ایران و  جهان | Mehr News Agency

نہج البلاغہ، امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے منتخب حکیمانہ خطبات، خطوط اور اقوال کا مجموعہ ہے۔ جسے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں سید رضی نے جمع و تدوین کیا ہے۔ ادبی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے بعض علماء نے نہج البلاغہ کو اخ القرآن کا نام دیا ہے۔ ادبائے عرب نے اس کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کتاب خطبات، خطوط اور کلمات قصار کا مجموعہ ہے۔ امام (ع) نے بہت سے خطبوں میں عوام کو انجام احکام الہی اور ترک محرمات کی دعوت دی ہے اور بعض خطوط جو آپ نے اپنے گورنروں کو تحریر کئے ہیں، ان میں انہیں عوام کے حقوق کی رعایت تلقین کی ہے۔

بعض نے حضرت علی (ع) سے اس کتاب کے انتساب میں شک کا اظہار کیا ہے۔ البتہ اس کے مقابلہ میں بہت سے شیعہ علماء اور بعض اہل سنت علماء جیسے ابن ابی الحدید معتزلی نے امیرالمومنین علی (ع) سے اس کی نسبت کو صحیح قرار دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ سید رضی نے فقط اس کی جمع آوری کی ہے۔ بعض شیعہ علماء نے نہج البلاغہ کے اقوال و کلمات کے صحیح ہونے کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ جس میں انہوں نے سند اور ثبوت پیش کئے ہیں۔

نہج البلاغہ کا ترجمہ 18 زبانوں میں ہو چکا ہے اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے کی تعداد 100 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کی متعدد شرحیں اور تکملے بھی لکھی گئی ہیں۔ بعض نے ان کی تعداد 300 سے زیادہ ذکر کی ہیں۔

نہج البلاغہ عصر حاضر میں خاص طور پر انقلاب اسلامی کے بعد مورد توجہ قرار پائی اور اس کے بارے میں متعدد کتابیں، مقالات اور تھیسیز لکھی گئیں۔ بعض نے دعوی کیا ہے کہ دور معاصر میں نہج البلاغہ کا شمار ان کتابوں میں ہے جو شیعوں کے گھروں میں قرآن کریم کے ساتھ ہمیشہ پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح سے گزشتہ برسوں میں نہج البلاغہ کے سلسلہ میں بہت سی کانفرنسیں اور سیمینار، مختلف اداروں و انجمنوں کی طرف سے منعقد کی گئی ہیں۔ ان سب کے علاوہ نہج البلاغہ کے عنوان سے ایک مضمون ایم اے کے نصاب تعلیم کے لئے تدوین کیا گیا ہے اور اس کتاب کے مفاہیم کی ترویج کے لئے بڑی تعداد میں مربی و معلم نہج البلاغہ تربیت کئے گئے ہیں۔
تاریخ، سبب تألیف اور وجہ تسمیہ
•    تاریخ تألیف
آقا بزرگ تہرانی کے مطابق سید رضی نے سنہ 400 ہجری میں اس کی تالیف مکمل کی۔[1]
•    سبب تألیف
سید رضی نہج‌ البلاغہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
میں نے عالم شباب کے دوران ایام طراوت اور شجر حیات کی تازگی کے دنوں میں کتاب خصائص الائمہ کی تالیف کا اہتمام کیا جو ائمہؑ کی اخلاقی خصوصیات اور صفات پر مشتمل اور ان سے منقولہ محاسن اخبار اور جواہر کلام پر مبنی تھی .... کتاب کے آخر میں امیرالمؤمنینؑ کے مواعظ، حکمتوں اور امثال و آداب پر مشتمل مختصر، نہایت عمدہ اور فصیح و بلیغ فصل تھی لیکن یہ ان کے تفصیلی خطبوں اور خطوط پر مشتمل نہیں تھی۔ بعض احباب اور برادران نے اس فصل کے مضامین کو پسند کیا اور انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جبکہ وہ سب اس قدر بدیع الفاظ اور بلند و تابندہ معانی سے حیرت زدہ تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایک کتاب کی تالیف کا آغاز کردوں جو آپؐ کے منتخب کلام کی تمام اقسام خطبات، مکتوبات اور مواعظ حسنہ پر مشتمل ہو۔ لہذا میں نے ان کی اس خواہش کا جواب نہج البلاغہ کی صورت میں دیا۔[2]
•    وجہ تسمیہ
لفظ نَہج (نون پر فتح اور ہا پر سکون) کا معنا "واضح اور آشکار راستہ" ہے۔[3] لہذا نہج البلاغہ بلاغت کے واضح راستے کے معنا میں ہے۔
سید رضی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
میں نے اسے نہج البلاغہ کا نام دیا کیونکہ یہ بلاغت کے دروازے ہر اس شخص پر کھول دیتی ہے جو اس میں نظر کرنا چاہتا ہے اور طالبان بلاغت کو اس کی جانب بلاتی ہے؛ دانشور بھی اس کے محتاج ہیں، طالبان دانش کو بھی اس کی ضرورت ہے، یہ اہل بلاغت کے لئے بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے اور اہل زہد و پارسائی کے نزدیک بھی منظور نظر۔ اس کے ضمن میں توحید، عدل اور مخلوقات سے مشابہت سے باری تعالی کی تنزیہ پر مبنی عمدہ اور حیرت انگیز اقوال ہیں ان عبارات کے زمرے میں، جو تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہیں، بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور ہر شک و شبہہ کو دلوں سے زائل کر دیتے ہیں۔[4]
مصر کے سابق مفتی اور نہج البلاغہ کے اہل سنت شارح شیخ محمد عبدہ اپنی شرح کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
میں کسی بھی ایسے نام سے واقف نہیں ہوں جو اپنے معنی پر دلالت کرنے کے حوالے سے اس سے زیادہ مناسب ہو۔ یہ میرے بس کی بات نہيں ہے کہ اس کتاب کی اس طرح سے توصیف کروں جس طرح کہ یہ نام اس پر دلالت کرتا اور اس کا تعارف کرواتا ہے ... [5]
مضامین
سید رضی نے نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے کلام کو درج ذیل تین حصوں میں مرتب کیا:
•    خطبات و احکامات، وغیرہ
•    مکتوبات و رسائل وغیرہ
•    کلمات قصار (حِکَم و مواعظ)
نہج البلاغہ کے مختلف قلمی نسخوں میں اختلاف کے پیش نظر نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور مواعظ کی ترتیب اور نمبروں میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ کے مطابق خطبات 241، مکاتیب 79 اور کلمات قصار 480 کی تعداد میں ہیں۔[6] اسی طرح کتاب کے مقدمے میں مذکور ہے کہ مختلف فصول کے درمیان عدم یکسانیت کا لحاظ کئے بغیر ترتیب دیا گیا ہے۔ کلام امیر المومنین میں صرف موجود بلاغت اور پسندیدگی کی بنا پر اسے جمع کیا گیا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فصول کے درمیان عدم یکسانیت یا نظم نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض کلمات میں شک و تردید کی وجہ سے انہیں مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔[7]
خطبات
نہج البلاغہ اسلامی ثقافت اور تعلیمات کا ایک ایسا اسلامی دائرۃ المعارف ہے جو خدا شناسی توحید، ملائکہ کی دنیا، خلقت کائنات، انسانی فطرت، امتوں، نیکوکار اور ستمگر حکومتوں پر بحث کرتا ہے تاہم اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تفہیم اور تدریس مقصود نہیں تھا۔[8]
کلام امیر المومنین اس طرح کے موضوعات بیان کرنے میں قرآن کریم کی مانند ہے جس طرح قرآن پاک ان موضوعات کو موعظہ و نصیحت کی زبان میں محسوس یا معقول بیان کے ساتھ روشن اور قابل ادراک نمونوں کی صورت میں پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر قدم بقدم اگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ اس منزل یعنی اللہ کی درگاہ کی جانب آستان پروردگار یکتا کی جانب لے جاتا ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے۔
جہاں آسمان، زمین و آفتاب اور چاند، تاروں اور پہاڑوں کی خلقت کی بات آتی ہے، آپؑ نصیحت کی زبان میں سکھا دیتے ہیں کہ جو کچھ خالق نے مخلوقات کو عطا کیا ہے، خیر ہی خیر ہے لیکن ناشکرا انسان اتنی ساری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور راہ خدا کو چھوڑ کر راہ شیطان کی طرف بھاگتا ہے اور اللہ کی بخشش و عطاء کو شرانگیزیوں و فتنہ انگیزیوں میں صرف کر دیتا ہے اور چونکہ اس میں گذشتہ قوام و امم کی داستانوں کا تذکرہ ہے، چنانچہ آپ ان کے توسط سے حاضرین کو تعلیم دیتے ہیں کہ زمانہ آئینۂ عبرت ہے جس میں ماضی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا کون ہے؟ دیکھو دنیا سے گذرنے والی اور زیر خاک سوجانے والی امتوں کو، کیا دیکھا انھوں نے اور کیا کیا انھوں نے، ان کے نیک کاموں کی تقلید کرو اور ان بھونڈے افعال سے پرہیز کرو جو ان کی نابودی کا سبب ہوئے۔[9]
ان نصائح کے ضمن میں کبھی اپنے اصحاب پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے حال اور کردار کے بارے میں متفکر ہو جاتے ہیں؛ اچانک غم و اندوہ اور افسوس کا بھاری بھرکم پہاڑ آ گرتا ہے اور یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنی حقیقت بین نگاہیں اپنے منبر تلے بیٹھے سامعین پر سے پلٹا کر دور کے افق پر جما لیتے ہیں، عصر محمدیؐ کے افق پر، جہاں آپؐ کے پاک دل اصحاب خدا اور روز قیامت پر یقین کی بنا پر نصرت دین کو اپنے دنیاوی مفادات پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار حاضرین و سامعین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اس دور سے اب تک 30 سال سے زیادہ مدت نہیں گذری ہے، یہ اچانک کیا ہوا کہ اس مختصر سی مدت میں نام کے مسلمان حقیقی مسلمانوں کے مسند پر براجماں ہوئے ہیں؟ وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو بانہیں اپنی جانب پھیلا کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو خدا کو فراموش کرکے اپنے امام کی نافرمانی کر بیٹھے! وہ لوگ ـ جو سر اٹھا کر فخر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ "ہم نے خدا کی راہ میں شہیدوں کی قربانی دی ہے اور ہم بھی شہادت کے آرزومند ہیں"، ـ کہاں چلے گئے؟ یہ میرے گرد جمع ہونے والے تن آسانی اور راحت طلبی کو راہ خدا میں مارے جانے پر ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟ اور وہ یہ دینی فریضہ دوسروں پر عائد کرنے کی کوششیں کیوں کرنے لگے ہیں؟ [یہ دیکھ کر] آپ صدر اول کے مسلمانوں کے ایثار اور مساوات [و مواسات] کے مناظر کی جانب پلٹتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور مال دنیا کی آلودگیوں پاک رہنے کی تدبیروں میں مگن نظر آتے تھے؛ [اور اپنے آپ سے پوچھتے تھے کہ] یہ سب اس قدر مال اندوز اور دنیا پرست کیوں ہوئے ہیں؟ یہ نمونے اور دسوں دوسرے نمونے امیرالمؤمنینؑ کے خطبات کے مضامین و محتویات کو تشکیل دیتے ہیں۔[10]
مکتوبات
مکتوبات یا خطوط و مراسلات کا مجموعہ زیادہ تر حکام کا دستور العمل ہے کہ وہ عوام کے مختلف طبقوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں، قومی خزانے کا کیونکر تحفظ کریں، اخراجات اٹھاتے ہوئے معاشرے کی خیر و صلاح کو کس طرح مد نظر رکھیں؛ تاہم مکتوبات کا مضمون و مواد اس زمانے کی نصف قابل سکونت دنیا کے فرمانروا کا حکم نہیں ہے جو وہ اپنے ماتحت عاملین کو دے رہا ہے بلکہ ایک مہربان، عمر رسیدہ اور زمانے کا تلخ و شیریں چشیدہ باپ کا نوشتہ ہے جو اپنے نورس فرزندوں کو پڑھا رہا ہے کہ وہ زندگی کی جنگ میں مشکلات کا کس انداز سے سامنا کریں۔[11]
کلمات قصار
اس حصے میں امیرالمؤمنینؑ کے منتخب حکمت آمیز اقوال و نصائح، سوالات کے جوابات اور مختصر خطبے نقل ہوئے ہیں۔[12]
حوالہ جات
1.    ↑ تہرانی، الذریعہ، ۱۳۹۸ق، ج۲۴، ص۴۱۳
2.    ↑ نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۱.
3.    ↑ دہخدا، لغت نامہ، ذیل واژہ «نہج»
4.    ↑ نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۴.
5.    ↑ عبدہ، شرح‏ نہج‏ البلاغۃ، ص10
6.    ↑ رجوع کریں: محمدی، سید کاظم اور دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: مطبعہ نشر امام علیؑ، 1369۔
7.    ↑ نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۳.
8.    ↑ شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی د۔
9.    ↑ وہی ماخذ۔
10.    ↑ شہیدی، وہی ماخذ، صص: ی د، ی ہ‍۔
11.    ↑ شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی ہ ‍۔
12.    ↑ شہیدی، نہج البلاغہ، ص361.