امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا انصار سے خطاب

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا انصار سے خطاب

اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ ہوئیں اورفرمایا:

اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابت کرنے میںکیوںسستی برتتے ہو اور مجھ پر جو ظلم وستم ہو رہاھے اس سے کیوںغفلت سے کام لے رہے ہو ؟! کیا میرے باپ نے نہیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی ہوتا ہے؟)

تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ہے اور کتنی جلدی ہوا وہوس کے شکار ہوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔

یہ کیا کہہ رہے ہو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام ہوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبت ہے جس کا شگاف ہر روز بڑھتا جا رہاھے اورخلاء واقع ہو رہا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک ہوگئی اور شمس وقمر بے رونق ہوگئے، ستارے مدہم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلزلہ آگیااوروہ پاش پاش ہوگئے ہیں ،حرمتوں کا پاس نہیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی۔

خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔

یہ اللہ کی کتاب ہے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند ہورھی ہے اور انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ہے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ہیں(جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے) :

”اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ہیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاھے“ ۔

اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں جبکہ تم یہ دیکھ رہے ہواور سن رہے ہو اوریھاں حاضربھی ہو اور میری آوازتم تک پہونچ بھی رھی ہے اور تم واقعہ سے با خبر بھی ہو، تمھاری تعداد زیادہ ہے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ہے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی ہوں، لیکن تم اس پر لبیک نہیں کھتے، میری فریادکو سن رہے ہو مگر فریاد رسی نہیں کرتے ہو، تم بھادری میںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ ہو ، تم ہی ہم اہلبیت (ع) کے لئے منتخب ہوئے ،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوں سے زورآزمائی کی ، جب ہم

قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ہم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔

یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ ہوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم ہوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش ہوگئے ، شورش اور شوروغل ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا۔

اے گروہ انصار: متحیرہوکر کھاںجارہے ہو ؟ ! حقائق کے معلوم ہونے کے بعد انہیں کیوںچھپاتے ہو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رہے ہو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں ہو رہے ہو ؟

” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ہے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاہتے ہیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ہی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“

میں دیکھ رھی ہوں کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول ہو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے ہو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رہو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرہوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نہیں ہے ۔“

اے لوگو! جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا، چونکہ میںجانتی ہوںکہ تم میری مددنہیںکروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے ہو مجھ سے پوشیدہ نہیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام ہوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ہیں اور اس”فعل “کی رسوائیاںاورذلتیںہم یشہ تمھارے دامن گیر رھیںگی۔

خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم ہوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ہے بھت جلد ستمگاراپنے کئے ہوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“

اے لوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی ہوںجس نے تمھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے ہو کرو، ہم اس کا ضرور انتقام لیںگے تم بھی منتظر ہو ، ہم بھی منتظرھیں۔

( احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱ )

 

عربی متن:

خطاب للانصار

ثمّ رمت بطرفها نحو الانصار فقالت :یا معشر (النقیبة)واعضاد الملة وحضنة الاسلام ،ما هذه الغمیزة فی حقی،والسنّة عن ظلامتی ؟

اماکان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه واله ابی یقول: ”المرء یحفظ فی ولده“سرعان ما احدثتم و عجلان ذا اهالة ، ولکم طاقة بما احاول وقوّة علی ما اطلب واٴزاول

اٴتقولون : مات محمد (ص)، فخطب جلیل، استوسع وهنه،واستنهر فتقه، و انفتق رتقه ،واظلمت الارض لغیبته وکسفت الشمس والقمر، وانتثرت النجوم لمصیبته، واکدت الآمال، وخشعت الجبال ،واُضیع الحریم ،وازیلت الحرمة عند مماته

فتلک واللّٰه النازلة الکبریٰ والمصیبة العظمیٰ ، لامثلها نازلة، ولا بائقة عاجلة، اعلن بها کتاب اللّٰه جلّ ثنا وٴه فی افنیتکم وفی ممساکم ومصبحکم یهتف فی افیتکم هتافا وصراخا وتلاوة والحانا،ولقبله ما حلّ بانبیاء اللّٰه ورسله حکم فصل وقضاء حتم

( وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرّسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضراللّٰه شیئا وسیجزی اللّٰه الشاکرین ) 

( سورہ آل عمران آیت۱۴۴۔ )

اٴیْهاً بنی قیله ! اٴ اٴهضم تراث ابی؟ و انتم بمرای منّی ومسمع، ومنتدی ومجمع تلبسکم الدعوة وتشملکم الخُبرة وانتم ذوو العدد والعدة والاداة والقوة،وعندکم السلاح والجُنة تو ا فیکم الدعوة فلا تجیبون ، وتاتیکم الصرخة فلا تغیثون وانتم موصوفون بالکفاح ،معروفون بالخیر والصلاح ،والنخبة التي انتخبت والخیرة التی اختیرت لنا اهل البیت

قاتلتم العرب ،وتحملتم الکدّ والتعب،وناطحتم الامم وکافحتم البُهم،لا نبرح ولا تبرحون ،نامرکم فتاتمرون ، حتی اذا دارت بنا رحی الاسلام ودرّ حلب الایام ،وخضعت نعرة الشرک، وسکنت فورة الافک وخمدت نیران الکفر،وهداٴت دعوة الهرج،و استوسق نظام الدین

 

فانّٰی حُرتم بعد البیان واسررتم بعد الاعلان ونکصتم بعد الاقدام واشرکتم بعدالایمان بوساً لقوم نکثوا؟

الا تقاتلون قوما نکثواایمانهم وهموا باخراج الرسول وهم بداٴوکم اول مرة اتخشونهم فاللّٰه احق ان تخشوه ان کنتم موٴمنین

( سورہ توبہ، آیت ۱۲ )

اٴلا و قد اری ان قد اخلدتم الی الخفض ،وابعدتم من هو احقّ بالبسط والقبض، ورکنتم الی الدعة، ونجوتم من الضیق بالسعة فمججتم ما وعیتم ،ودسعتم الذی تسوغتم

( فان تکفروا اٴنتم ومن فی الارض جمیعا فان اللّٰه لغنی حمید )

( سورہ ابراھیم ،آیت ۸)

 

اٴلا و قد قلتُ ما قلت علی معرفة منی بالخذلة التی خامرتکم والغدرة التی استشعرتها قلوبکم ، و لکنها فیضة النفس ، ونفثة الغیض (الغیظ)و خور القنا وبثّة الصدرِوتقدمة الحجة

فدونکموها فاحتقبوها دبرة الظهرنقبة الخف ،باقیة العار، موسومة بغضب اللّٰه وشنار الابد ،موصولة بناراللّٰه الموقدة التی تطّلع علی الافئدة فبعین اللّٰه ماتفعلون وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون

( سورہ شعراء آیت ۲۲۷ )

وانا ابنة نذیر لکم بین یدی عذاب شدید، فاعلمواانّاعاملون وانتظروا انّا منتظرون-

(سورہ ہود، آیت ۱۲۱و۱۲۲-احتجاج شیخ طبرسی،ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک