حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:

تم خدا کے بندے ،امرونھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار ہو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو ، تم ہی لوگوںکے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پہونچ رہا ہے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ہے کہ تم ان صفات کے حقدارہو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد وپیمان ہے؟ حالانکہ ہم بقیة اللہاور قرآن ناطق ہیںوہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا ہوا نور ہے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاھر ہےں، اس کے پیرو کارسعادت مندھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوںکوسننا وسیلہ نجات ہے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتی ہیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل ہو سکتے ہیں۔

خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا، نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کووسعت رزق اورتزکیہ نفس کے لئے، روزہ کواخلاص کے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کونظم زندگی اور دلوںکے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ہے۔

 

اورہم اری اطاعت کو نظم ملت اور ہماری امامت کوتفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،اور صبر کو ثواب کے لئے مددگارمقرر کیا،امر بالمعروف و نھی عن المنکرعمومی مصلحت کے لئے اور والدین کےساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کاذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موت کاوسیلہ قراردیا ،قصاص اس لئے رکھاتاکہ کسی کوناحق قتل نہ کرونیزنذر کوپوراکرنے کوگناھگاروںکی بخشش کاسبب قرار دیااورپلیدی اورپست حرکتوںسے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کوحرام کیا،زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا ،چوری نہ کرنے کوعزت وعفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کوحرام قرار دیا تاکہ اس کی ربو بیت کے بارے میں اخلاص باقی رہے۔

”اے لوگو! تقویٰ وپرہیز گاری کواپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر ہو“

اوراسلام کی حفاظت کروخدا کے اوامرونواہی کی اطاعت کرو۔

”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ہیں ۔“

اس کے بعد جناب فاطمہ زھرا نے فرمایا:

اے لوگو! جان لو میں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پھلی اور آخری بات یھی ہے ،جو میں کہہ رھی ہوں وہ غلط نہیں ہے اور جو میں انجام دیتی ہوں بے ہودہ نہیں ہے۔

 

”خدانے تم ہی میںسے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انہیں تکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے۔“

وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ،میرے شوھر کے چچازاد بھائی تھے نہ کہ تمھارے مردوںکے بھائی،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب ہونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ہے۔

انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کوعذاب الٰھی سے ڈرایا، اورشرک پھیلانے والوں کا سد باب کیاان کی گردنوںپرشمشیرعدالت رکھی اورحق دبانے والوںکا گلادبادیاتاکہ شرک سے پرہیز کریں ا ور توحید وعدالت کوقبول کریں۔

اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی،بتوں کو توڑااور ان کے سروں کوکچل دیا،کفارنے شکست کھائی اورمنھ پھیر کر بھاگے ،کفر کی تاریکیاں دور ہوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح ہوگیا،دین کے رھبر کی زبان گویاہوئی اورشیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے ، نفاق کے پیروکار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔

(اور تم اہلبیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو ہوگئے ،درحالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میںکھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھاجو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاہتا ہے۔

 

تم قبائل کے نحس پنجوںکی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانوںکو کھال سمیت کہا لیتے تھے،اور دوسروں کے نزدیک ذلیل وخوارتھے اوراردگردکے قبائل سے ہم یشہ ہراساںتھے۔

یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انہیں درپیش تھی ،تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نماافراد اوراہل کتاب کے سرکشوںسے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تھے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھا تا یا مشرکوں میںسے کوئی بھی زبان کھولتاتھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی (ع)اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابود کردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ ہوتے تھے۔

(وہ علی (ع)) جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوںکاتحمل کرتے رہے اورخدا کی راہ میں جھاد کرتے رہے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ہم یشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میںآرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتے تھے،(اور ہمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظررھتے تھے اوردشمن کے مقابلہ سے پرہیز کرتے تھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرارہوجایا کرتے تھے ۔

 

جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروںکی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر ہوگیا،لباس دین کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوںنے سر اٹھالیا، باطل کااونٹ بولنے لگااور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھرنکالااورتمھیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اورتم حرکت میںآگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک ہوگئے وہ اونٹ جو تم میںسے نہیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نہیں گزراتھا اور ہمارے زخم دل نہیں بھرے تھے ، زخموں کے شگاف بھرے نہیں تھے ،ابھی پیغمبر (ص)کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا ”لیکن خبرداررہو کہ تم فتنہ میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروںکا احاطہ کرلیا ہے “۔

افسوس تمھیں کیا ہوگیا ہے اور تم نے کونسی ڈگراختیارکرلی ہے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ہے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرونھی ظاھرھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاہتے ہو؟یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاہتے ہو؟

”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ہے“

 

” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نہیں کیا جائیگا اورآخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں ہوگا ۔“

تم خلافت کے مسئلہ میںاتنا بھی صبرنہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش ہوجائے اوراسکی قیادت آسان ہوجائے(تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو) اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص) کوخاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ،تم ظاھر کچھ کرتے ہو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا ہوا ہے۔

میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی ہوں جس طرح کسی پرچھری اورنیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ہے، اور وہ اس پر صبر کرتا ہے ۔

تم لوگ گمان کر تے ہو کہ ہمارے لئے ارث نہیںھے، ؟! ” کیا تم سنت جاہلیت کو نہیں اپنا رہے ہو ؟!!

” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاہلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ہیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون ہوگا۔“

کیا تم نہیں جا نتے کہ صاحب ارث ہم ہیں، چنانچہ تم پرروزروشن کی طرح واضح ہے کہ میںرسول کی بیٹی ہوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ہے کہ میں اپنے ارث سے محروم رہو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔)

 

اے ابن ابی قحافہ ! کیایہ کتاب خدا میں ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ا ورہم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ہے، اور علم وفہم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا ، اس کو پس پشت ڈالدیا؟

کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے <وورث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے ارث لیا“، اورجناب یحی بن زکریاکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ انہوں نے دعا کی:

”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث ہو“، نیز ارشاد ہوتا ہے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باہم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ہیں۔“ اسی طرح حکم ہوتا ہے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے “ ۔

نیز خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

”تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے۔“

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے اور مجھے ان سے میراث نہیں ملے گی ؟

کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ہی لوگوںسے مخصوص کردیا ہے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ہے ؟یا تم کھتے ہو کہ میرا اورمیرے باپ کا دوالگ الگ ملتوں سے تعلق ہے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے۔

آیاتم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدارسے زیادہ قرآن کے معنیٰ ومفاھیم ،عموم وخصوص اورمحکم ومتشابھات کوجانتے ہو ؟

تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ہے اور اس کو آمادہ کرلیاھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رہے گا اور روز قیامت ملاقات کریگا ۔

اس روز خدا بھترین حاکم ہوگا اور محمد بھترین زعیم ، ہمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ہے وہاں پر تمھارا نقصان اور گھاٹاآشکارہوجائےگا اورپشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پہونچائے گی،” ہر چیزکے لئے ایک دن معین ہے“ ۔ ” عنقریب ہی تم جان لوگے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ہے ؟اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نہیں“۔

عربی ،تن:

ثم التفتت فاطمة الیٰ اهل المجلس وقالت :

انتم عباداللّٰه نصب امره ونهیه، وحملة دینه ووحیه، وامناء اللّٰه علی انفسکم ،وبلغاء ٴه الی الاُمم زعیم حقّ له فیکم ،وعهد قدّمه الیکم،ونحن بقیةاستخلفها علیکم کتاب اللّٰه الناطق ،والقرآن الصاد ق ، والنور الساطع،والضیاء اللامع ،بیّنة بصائره ،منکشفة سرائره ، منجلیة ظواهره ،مغتبطة به اشیاعه،قائداً الی الرضوان اتباعه، مودٍّالیٰ النجاةاستماعه،به تنال حجج اللّٰه المنوّ رة،و عزائمه المفسرة، و محارمه المحذّرة و بیّناته الجالیة وبراهینه الکافیة، و فضائله المندوبة ورخصه الموهوبه و شرائعه المکتوبة

فجعل اللّٰه الایمان تطهیراًلکم من الشرک، والصلاة تنزیهاً لکم من الکبر،والزکاةتزکیةللنفس،ونماءً فی الرزق،والصیام تثبیتا للاخلاص، والحج تشییدا للدین، والعدل تنسیقا للقلوب، وطاعتنا نظاماً للملّة،واِمَامتنا اٴماناًمن الفرقة،والجهاد عزًاللاسلام

وذلاً لاهل الکفر والنفاق والصبر معونة علی استیجاب الاجر ،والامر بالمعروف والنهی عن المنکر مصلحة للعامّة،وبرّ الوالدین وقایةًمن السخط ،وصلةالارحام منساٴة فی العمر ومنماة للعدد والقصاص حقناً للدماء والوفاء بالنذر تعریضا للمغفرة،وتوفیةالمکاییل والموازین تغیراً للبخس ،والنهی عن شرب الخمرتنزیهاًعن الرجس، واجتناب القذف حجاباعن اللعنة وترک السرقةایجاباًللعفةوحرم اللّٰه الشرک اخلاصا له بالربوبیة

( فاتقوا اللّٰه حق تقاته ولاتمو تن الاّ وانْتم مسلمون ) 

( سورہ آل عمران آیت ۱۰۲)

واطیعوااللّٰه فیما امرکم به ونها کم عنه

( انمایخشی اللّٰه من عباده العلماء ) 

( سورہ فاطر-آیت ۲۸ )

ثم قالت : ایهاالناس اعلموا انّی فاطمة ،وابی محمد (صلی الله علیه وآله وسلم ) اقول عوداً وبدواً اٴولا اقول مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا ۔

( لقدجائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتم حر یص علیکم بالمومنین روف رحیم )

( سورہ توبہ آیت ۱۲۸ )

فانْ تَعزُوهُ وتعرفوه تَجدوه ابی دون نسائکم،واخاابن عمّی دون رجالکم ولنعم المعزیُِّ الیه صلی الله علیه و آله وسلم

فبلّغ الرّسالةصادعاَبالنَّذارةِ، مائلاَعن مدرجة المشرکین ضارباثبجهم، آخذاًباٴ کظامهمْ داعیاًالی سَبیلِ ربّه بالحکمة والموعظة الحسنة یجفّ الاصنام وینکث الهام حتیٰ انهزم الجمع وولّواالدّبر حتی تفرّی اللیل عن صبحه واَسفر الحقّ عن محضه و نطق زعیم الدین وخرست شقاشق الشّیاطین وطاح وشیظ النّفاق وانحلّت عقد الکفر والشّقاق وفهتم بکلمة الاخلاص و فی نفر من البیض الخماص

وکنتم علی شفا حفرة من النّار مذقة الشارب و نُهزة الطّامعٍ وقبسةالعجلان و موطیٴ الاقدام تَشربون الطَّرق وتقتاتون القدّ اَذلّةًخاسیٴن تخافون ان یتخطّفکم النّاس من حولکم فانقذکم اللّٰه تبارک وتعالیٰ بابی محمد(صلی الله علیه آله وسلم) بعد اللتیا والتی،و بعد ان مُنی ببُهم الرجال وذوبان العرب ومردة اهل الکتاب (کلما اوقدوانارا للحرب اطفاٴها اللّٰه)

( سورہ مائدہ آیت ۶۴)

او نجم قرن الشیطان ،او فغرت فاغرة من المشرکین قذف اخاه علیاًفی لهواتها،فلا ینکفیء حتی یطاٴجناحها باخمصه ،ویخمد لهبها بسیفه مکدودا فی ذات اللّٰه، مجتهدَا فی امر اللّٰه قریباً من رسول اللّٰه ،سیدا فی اولیاء اللّٰه، مشمّرا ناصحاً ،مجداً کادحاً لاتاخذه فی الله لومة لائم وانتم فی رفا هیة من العیش وادعون فاکهون ، آمنون تتربصون بنا الدوائر، وتتوکفون الاخبار ،وتنکصون عند النّزال،وتفرون من القتال

فلما اختار اللّٰه لنبیّه دار انبیائه وماوی اصفیائه، ظهرت فیکم حسیکةُ النفاق،وسمل جلباب الدین ،ونطق کاظم الغاوین ،ونبغ خامل الاقلین ،وهدر فنیق المبطلین، فخطر فی عرصاتکم ، واطلع الشیطان راسه من مغرزه هاتفا بکم،فالفاکم لدعوته مستجیبین ، وللعزة فیه ملاحظین ،ثم استنهضکم فوجدکم خفافا واحمشکم فالفاکم غضابا ، فوسمتم غیر ابلکم ،واوردتم غیر مشربکم، هذا والعهد قریب، والکلم رحیب، والجرح لما یندمل، والرسول لما یقبر،ابتداراً زعمتم خوف الفتنة

( اٴلا فی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین ۔ (سورہ توبہ ۴۹)

فهیهات منکم وکیف بکم وانی توٴفکون ، و هذا کتاب اللّٰه بین اظهرکم، اٴموره ظاهرة، واحکامه زاهرة، واعلامه باهرة وزواجرهُ لائحة واوامره واضحة قد خلفتموه وراء ظهورکم ارغبة عنه تریدون؟ ام بغیره تحکمون ؟ (بئس للظالمین بدلا )

( سورہ کہف آیت ۵۰)

( ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منه وهو فی الآخرة من الخاسرین ) 

( سورہ آل عمران آیت ۸۵ )

ثمّ لم تلبثو ا الا ریث ان تسکن نفرتها ،ویسلس قیادها ،ثمّ اخذتم تورون وقدتها وتهیجون جمرتها، وتستجیبون لهتاف الشیطان الغویّ واطفاء انوار الدین الجلی وإهمال سنن النبی الصفی، تشربون حسواً فی ارتغاء وتمشون لاهله وولد ه فی الخمرة والضراء ،ویصیر منکم علیٰ مثل حزّالمدیٰ،وَوُخْزالسنان فی الحشاء

وانتم الان تزعمون ان لا ارث لی من ابی( افحکم الجاهلیة تبغون ومن احسن من اللّٰه حکماً لقوم یوقنون )

 ( سورہ مائدہ آیت ۵۰ )

افلا تعلمون،! بلیٰ قد تجلی لکم کا الشمس الضاحیة انی ابنته

اٴیَّها المسلمون ! اٴ اُغلب علی ارثی؟

یا ابن ابی قحافة اٴفی کتاب اللّٰه ترث اباک ولا ارث ابی ؟( لقد جئت شیئا فریا )

افعلیٰ عمدٍ ترکتم کتاب اللّٰه ونبذ تموه وراء ظهور کم اذیقول:( وورث سلیمانُ داودَ ) 

( سورہ نمل ،آیت۱۶ )

وقال فیمااقتص من خبریحییٰ بن زکریا علیه السلام اذ قال:( ربِّ هب لی من لدنک ولیاًیرثنی ویرث من آل یعقوب ) 

( سورہ مریم ،آیت ۴ و۶ )

وقال :( واولوالارحام بعضهم اولیٰ ببعض فی کتاب اللّٰه )

( سورہ انفال،آیت ۷۵ )

وقال :( یو صیکم اللّٰه فی اولا دکم للذکرمثل حظ الانثیین ) 

( آیه 11 سوره نساء )

وقال :( ان تر ک خیرا الوصیة للوالدین والا قربین با لمعروف حقاعلی المتقین )

( سورہ بقرہ،آیت ۱۸۰)

وزعمتم ان لا حَظْوَة لی ولا ارث من ابی ، ولا رحم بیننا، اٴفخصّکم اللّٰه بآیةاخرج ابی منها ؟ ام هل تقولون ان اهل ملتین لا یتوارثان؟اولست انا وابی من اهل ملة واحدة؟ ام انتم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من ابی وابن عمی ؟

فدونکها مخطو مة مر حو لة ، تکون معک فی قبرک، تلقاک یوم حشرک ،فنعم الحکم اللّٰه، و نعم الزعیم محمد(صلی الله علیه آله وسلم) والموعد القیامةوعندالساعة یخسر المبطلون ولا ینفعکم اذ تندمون( ولکل نبامستقر ) (سورہ انعام، آیت ۶۷)

( وسوف تعلمون من یاتیه عذاب یخزیه ویحلّ علیه عذاب مقیم ) 

( سورہ ہود آیت۳۹ )