امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع)کاتاریخ ساز خطبہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع)کاتاریخ ساز خطبہ

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پہونچتا ہے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار او رجد اعلیٰ سے نقل کیا ہے ، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفی نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے ،نیز زید بن علی نے زینب بنت علی علیہ السلام سے ،اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے ، یہ سب کھتے ہیں :

 

جس وقت جناب ابوبکرنے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اورباغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ(س) کوخبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹاکراپنے کارندے معین کردئیے ہیں تو آپ نے چادر اٹھائی اورباپردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میںمسجد النبی(ص)کی طرف اس طرح چلی کہ نبی(ص) جیسی چال تھی اور چادرزمین پر خط دیتی جارھی تھی۔

جب آپ مسجد میں وارد ہوئیں تواس وقت جناب ابو بکر،مھا جرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے،آپ پردے کے پیچھے جلوہ افروز ہوئیں اور رونے لگیں،دختر رسول کوروتا دیکھ کرتمام لوگوں پر گریہ طاری ہوگیا،تسلی و تشفی دینے کے بعدمجمع کو خاموش کیاگیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیںجس نے مجھے اپنی بے شمار اوربے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی ہوں اس کی ان توفیقات پرجواس نے مجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی ہوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھا نہیں، اورنہ ہی ان کاکوئی بدلاہوسکتاھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ہے، خدا چاہتا ہے کہ ہم اسکی نعمتوںکی قدر کریں تاکہ وہ ہم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ہم یں شکر کی دعوت دی ہے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ہی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔

میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی ہوں،وہ وحدہ لا شریک ہے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے ہو تا ہے اوراس کے حقیقی معنی پر غور وفکر کرنے سے دل ودماغ روشن ہوتے ہیں۔

 

وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھانہیںجاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نہیں کی جاسکتی ، جو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا۔

وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت ہو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پہونچتا ہو۔

بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اہم یت جتاسکے؟

اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ہے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔

میں گواھی دیتی ہوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد،اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ہر شی کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضا وقدر سے مطلع ہے۔

 

خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہ تکمیل تک پہونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔

(جب آپ مبعوث ہوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے ہوئے تھے، کفر و الحاد کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررہے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاںچھٹ گئیںجھالت ونادانیاںدلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں، میرے باپ نے لوگوںکی ھدایت کی اور ان کوگمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔

اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہے اوراس وقت فرشتوںاور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزار رہا ہے ،خدا کی طرف سے میرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت ہو۔

 

خطبة الزهرا (س) فی مسجد النبی (ص)

رویٰ خطبة الزهرا سلام اللّٰه علیها فی المسجد النبی جمع من اعلام الشیعة والعامة بطرق متعددة تنتهی بالاسناد عن زید بن علی ، عن ابیه، عن جده علیه السلام وعن الامام جعفر بن محمد الصادق علیه السلام عن ابیه الباقر علیه السلام وعن جابر الجعفی عن ابی جعفر الباقر علیه السلام وعن عبد اللّٰه بن الحسن، عن ابیه وعن زید بن علی، عن زینب بنت علی علیه السلام وعن رجال من بنی هاشم، عن زینب بنت علی علیه السلام وعن عروة بن الزبیر، عن عائشة، قالوا لما بلغ فاطمة علیها السلام اجماع ابی بکر علی منعها فدک، وانصرف عاملها منها لاثت خمارها علی راسها واشتملت بجلبابها، واقبلت فی لُمةٍ من حفدتها، ونساء قومها ، تطاٴذیولها، ما تخرم مشیتها مشیة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم

حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المهاجرین والانصار وغیرهم، فنیطت دونها ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجهش القوم لها بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امهلت هنیهة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وهدات فورتهم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:

” الحمدُ للّٰه علیٰ ما انعم وله الشکر علی ما الهم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴها،وسبوغ آلاء اٴسداها وتمام منَن اٴولاها،جمّ عن الاحصاء عددها، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُها،وتفاوت عن الادراک اْبدها وندبهم لاِسْتِزادتها باالشکرلاتّصالها واستحمد الی الخلائق باجزالها،وثنّی بالندب الی امثالها

واشهدان لا اله الّا اللّٰه وحد ه لاشریک له،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلها وضمن القلوب موصولها ،وانار فی التّفکّر معقولها،الممتنع من الا بصار روٴیته، ومن الاٴلسن صفته، ومن الا وها م کیفیّته ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلها ،وانشاها بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلها،کوّ نها بقدرته، وذراٴهابمشیته من غیرحا جةمنه الی تکو ینها ،ولا فا ئدة له فی تصویر ها، الا تثبیتا لحکمته ،وتنبیهاً علی طاعته، واظهاراً لقدرته،تعبّداً لبر یته و اعزازالدعوته ثم جعل الثواب علی طاعته ووضع العقاب علی معصیته ،زیادةلعباده من نقمته وحیاشة لهم الی جنته

واشهد ان ابی محمدا عبده و رسوله، اختاره قبل ان ارسله، (وسمّاه قبل ان اجتباه) واصطفاه قبل ان ابتعثه، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاهاویل مصونة،وبنهایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰه تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثه اللّٰه اتما ماً لامره وعزیمةعلی امضاء حکمه وانفاذ اً لمقادیررحمته فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانها،عُکفَّاًعلی نیرانها وعابدةً لاٴوثانها، منکرةللّٰه مع عر فا نها

فاناراللّٰه باٴبی محمد( صلی الله علیه وآله وسلم)ظلمها، وکشف عن القلوب بُهَمها وجلی عن الابصار غُمَمها وقام فی الناس بالهدایة،وفا نقذ هم من الغوایة وبصّرهم من العمایة وهداهم الی الدّ ین القویم، ودعا هم الی الطریق المستقیم

ثم قبضه اللّٰه الیه قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد(صلی الله علیه وآله وسلم)من تعب هذه الدارفی راحة

قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار

صلی اللّٰه علی اٴبی نبیّه وامینه، وخیرته من الخلق وصفیه والسلام علیه ورحمةاللّٰه وبرکاته

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک