کتاب:خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور
شبہای پیشاور در دفاع از حریم تشیع شیعہ عالم سلطان الواعظین شیرازی (1314۔1391 ھ) کے اہل سنت علماء کے ساتھ مناظروں پر مشتمل کتاب ہے۔ یہ مناظرہ پاکستان کے شہر پشاور میں منعقد ہوا اور وہاں کے مقامی اخباروں میں شایع بھی ہوا۔ بعد میں اسے کتاب کی شکل میں شایع کیا گیا۔
سلطان الواعظین نے ان مناظروں میں اہل سنت کی معتبر کتابوں جیسے صحاح ستہ اور مسند احمد بن حنبل وغیرہ سے استفادہ کیا ہے۔
مؤلف
سلطان الواعظین شیرازی (1314-1391 ھ) وعظ و نصیحت، تقریر اور مناظرے میں بہت زیادہ مہارت رکھتے تھے۔
آپ 7 ذی القعدہ 1314 ھ کو تہران میں پیدا ہوئے اور دینی تعلیم کے حصول کیلئے عتبات عالیات چلے گئے۔ آپ ایران سے باہر مختلف ممالک کا سفر کر چکے ہیں جن میں مصر، شام، لبنان، اردن، فلسطین اور ہندوستان وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سفر پاکستان کے شہر پیشاور کا بھی ہے اس سفر میں آپ نے اہل سنت علماء کے ساتھ ایک تاریخی مناظرہ انجام دیا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت میں چار چاند لگ گئے۔
ان مسافرتوں میں آپ وعظ و نصیحت اور تبلیغی مجالس کے علاوہ مختلف فرق و مذاہب کے علماء کے ساتھ بحث و گتفتگو بھی کرتے تھے۔ ہندوستان کے علماء کے ساتھ بھی گاندھی کی موجودگی میں مناظرہ کیا۔ آخر کار انہوں نے سنہ 1391 ھ میں 75 سال کی عمر میں تہران میں وفات پائی اور انہیں قم میں مقبرہ ابو حسین میں سپرد خاک کیا گیا۔
خود مولف کے بقول بہت سارے علماء من جملہ آیت اللہ بروجردی نے اس کتاب کی تالیف پر مؤلف کی تعریفیں کی ہیں۔[1]
مقصد تالیف
مؤلف ان مناظرات کو کتاب کی شکل میں شائع کرنے کا مقصد کسروی جیسے روشن فکروں کے حملات کے مقابلے میں تشیع کا دفاع قرار دیتے ہیں۔[2]
مولف بار بار اس بات کی تأکید کرتے ہیں کہ یہ کتاب امامت کی ترویج اور اس سلسلے میں اٹھائے گئے اعتراضات جو صدیوں سے دشمن کی جانب سے اہل سنت کے اذہان میں ڈالے جا رہے ہیں، کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کو کسی قسم کے مادی منافع کو مد نظر رکھے بغیر شائع کیا گیا ہے۔[3]
مضامین
یہ کتاب مناظرے کی 10 نشستوں پر مشتمل ہے جسے سلطان الواعظین نے اہل سنت علماء کے ساتھ انجام دیا۔ یہ مناظرہ پیشاور میں میرزا یعقوب علی خان قزلباش جو اس وقت کی اہم شخصیات میں سے تھے، کے گھر پر 10 راتوں میں انجام پایا۔
سلطان الواعظین کے بقول اس مناظرے کے اختتام پر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اہل سنت کی 6 شخصیات نے شیعہ مذہب اختیار کیا۔[4]
پہلی نشست میں انسان کے نسب کی تعیین، حضرت فاطمہؑ کی اولاد کے اولادِ پیغمبر اکرمؐ ہونے پر دلائل، بنی امیہ کے مظالم، حضرت علیؑ کی قبر مبارک کا ظہور اور تہران میں موجود شیرازی سادات وغیرہ پر سیر حاصل بحث ہوئی۔
دوسری نشست میں مؤلف نے لفظ شیعہ کے معنی اور تشیع کی حقیقت بیان کرتے ہوئے خلفاء راشدین، دیالمہ، غازان خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانے میں ایرانیوں کے مذہب شیعہ اختیار کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تیسری نشست زیدیہ، کیسانیہ اور امامیہ جیسے شیعہ فرقوں کے عقائد پر مشتمل ہے اور اسی نشست میں "رویت خدا" کے سلسلے میں اہل سنت منابع میں موجود احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس مناظرے کی چوتھی نشست میں امامت کی شناخت، مذاہب اربعہ کی حقیقت، مذاہب اربعہ کی پیروی کرنے پر دلائل نہ ہونا، انبیاء کے مراتب میں موجود تفاوت وغیره پر بحث کی گئی ہے۔
پانچویں نشست میں امیرالمومنین حضرت علیؑ اور حضرت موسیؑ کے بھائی، ہارون میں موجود مطابقت، حضرت علی ؑ کی خلافت پر موجود صریح ااحادیث، اہل سنت علماء کی طرف سے شیعوں پر لگائے جانے والی جھوٹی تہمتیں، ابو ہریرہ کا بسر بن ارطاط کے ساتھ مسلمانوں کی قتل و غارت میں شریک ہونا، ابن تیمیہ کی تہمتیں وغیرہ پر بحث ہوئی ہے۔
چھٹی نشست میں حضرت علیؑ کی فضیلت پر بحث کرتے ہوئے حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہونے والی آیات، پیغمبر اکرمؐ کے ہاتھوں آپ کی تربیت، اسلام لانے میں پہل کرنا، حضرت علیؑ کا بچپن میں ایمان لانے کے اعتراض کا جواب، حضرت عمر کا حضرت علیؑ کی برتری اور فضیلت پر اعتراف اور امام علیؑ کا خلفاء راشدین کی نجات کا باعث بنے والے موارد جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حضرت علیؑ کا پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھنے پر آیت مباہلہ کے ذریعے استدلال، حدیث منزلت کے بارے میں گنجی شافعی کا بیان، عمر کے اس قول کا رد جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نبوت اور سلطنت ایک جگہ پر جمع نہیں ہو سکتے، زمخشری کا اہل سنت پر تنقید، مظلومیت امام حسینؑ اور زیارت قبور ائمہ کے آثار وغیره ساتویں نشست کے موضوعات میں سے ہیں۔
اسلام اور ایمان میں فرق، ایمان کے مراتب، امام جعفر صادقؑ کا مقام، طبری کی وفات، حضرت علیؑ کے حق میں نازیبا الفاظ کا استعمال گویا خود پیغمیر اکرمؐ کے حق میں ایسا کرنے کے مترادف ہے۔ ان امور پر آٹھویں نشست میں بحث کی گئی ہے۔
نویں نشست میں شیعوں کی طرف سے عایشہ کو گالی دینے کا الزام، حضرت لوط اور نوح کی بیویوں کا جہنمی ہونا، فرعون کی بیوی کا بہشتی ہونا، عایشہ کے ہاتھوں پیغمبر اکرمؐ کو پہنچنے والی اذیت و آزار، عایشہ کا امام حسنؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے جوار میں دفنانے سے ممانعت کرنا، حضرت علیؑ کی شہادت پر عایشہ کا سجدہ شکر بجا لانا اور خوشی کا اظہار کرنا وغیره پر بحث کی گئی ہے۔
عمر کے علمی مقام و منزلت کے بارے میں سوال و جواب، عمر کا پیغمبر اکرمؐ کی رحلت سے انکار، پانچ زنا کار اشخاص کو سزا دینے میں عمر کی غلطی، عمر کی طرف سے حاملہ زنا کار عورت کو سنگسار کرنے کا حکم اور حضرت علیؑ کی جانب سے عمر کو اس کے غلطی کی طرف متوجہ کرنا، عمر کی طرف سے ایک پاگل عورت کو سنگسار کرنا اور حضرت علی کا مانع بننا، حضرت علیؑ کا تمام علوم کا سرچشمہ ہونا، معاویہ کا حضرت علیؑ کے مقام و منزلت کا اعتراف جیسے مباحث پر اس مناظرے کی آخری نشست میں بحث ہوئی ہے۔[5]
روش
مؤلف نے اس کتاب کو اخبارات میں منتشر ہونے والی رپورٹوں سے لے کر مرتب اور شائع کیا۔[6] اس کتاب میں مناظروں کے نشستوں کو بالترتیب ذکر کیا گیا ہے اور اس کتاب میں مؤلف خود کو "داعی" کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔[7]
مؤلف کے بقول ان مناظروں میں مورد بحث قرار پانے والے مطالب کو آیات، احادیث معتبرہ، اسلامی محققین اور دانشوروں کے اقوال اور غیبی امداد کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔[8]
مآخذ کتاب
مؤلف نے اس کتاب میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔[9] ان کا دعوی ہے کہ اس کتاب میں مذکور تمام دلائل اہل سنت کی معبر کتابوں سے لیا گیا ہے اس حوالے سے وہ فرماتے ہیں:
اس کتاب کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ابتداء سے آخر تک سوائے چند احادیث- جو اہل سنت کے یہاں بھی مورد قبول ہے- کے جو شیعہ علماء سے نقل کیا گیا ہے باقی مطالب کو قرارداد(چنانچہ کتاب کے ابتدائی صفحات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں) کے مطابق اصلا شیعہ کتب سے نہیں لیا گیا ہے اور خود اہل سنت علماء کے زبانی انہیں جواب دیا گیا ہے۔[10]
اس کتاب میں استعال ہونے والے بعض منابع یہ ہیں:
صحاح ستہ
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید
خصائص امیرالمؤمنین
مناقب الامام علی بن ابی طالب
مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول
کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابیطالب
مروج الذہب
الاصابہ
فضایل الصحابہ ابونعیم اصفہانی
الاستیعاب ابن عبدالبر
طبقات ابن سعد
مستدرک حاکم نیشابوری
کنزالعمال متقی ہند
ینابیع المودۃ لذوی القربی
مسند احمد حنبل
مودۃ القربی
فتح الباری
شرح مقاصد[11]
طباعت
سلطان الواعظین کا اہل سنت علماء کے ساتھ ہونے والے مناظرات کو پہلی دفعہ مفصل طور پر سن 1375 ھ میں آیت اللہ بروجردی کے زیر نظر شائع کیا گیا اور اس کے بعد اب تک مختلف ناشروں نے اس کتاب کو شائع کیا ہے۔ اخیراً موسسہ جہانی سبطین نے اس کتاب کو نئی حروف چینی کے ساتھ جدید منتشر کیا ہے۔ اس کتاب کا خلاصہ "شہابی در شب" کے عنوان سے ہوا ہے۔[12]
شبہای پیشاور سیریز کتاب "شہابی درشب" سے اقتباس ہے جسے ریڈیو ڈائلاگ کی صورت میں پیش کیا گیا۔[13][14] کتاب شبہای پیشاور کی پینتیسویں طباعت 1372 ھ، جسے دارالکتب الاسلامیہ نے شائع کیا، مؤلف کے چار مقدمات کے ساتھ 1059 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے ابتدائی 92 صفحات مؤلف کے مقدمات پر اور صفحہ نمبر 93 سے صفحہ نمبر 1016 تک کتاب کے اصلی مضامین پر مشتمل ہے اور آخری 45 صفحات ان اجازت ناموں پر مشتمل ہے جسے سلطان الواعظین نے شیعہ علماء سے لیا ہے۔
ترجمہ
اس کتاب کا اردو ترجمہ "خورشید خاور" کے عنوان سے سید محمد باقر نقوی نے کیا اور ادارہ اصلاح کھجوا نے بڑے اہتمام سے دو جلدوں میں شائع کیا۔
اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ "لیالی بیشاور، مناظرات و حوار" کے عنوان سے حسین موسوی کے توسط سے سنہ 1419 ھ میں شائع ہوا۔ جس میں مترجم نے سیالکوٹ اور پیشاور کے سفر کی رویداد، بحث کا موضوع اور وعظ و نصیحت کے برکات میں سے ہر ایک موضوع کو علیحدہ مقدمات کے ذریعے بیان کیا ہے جس کے بعد سلطان الواعظین کے 10 نشستوں پر مشتمل مناظرات کا ترجمہ کیا ہے۔
حوالہ جات
شبہای پیشاور، مقدمہ چاپ دوم، ص۵
شبہای پیشاور،ص۴۴
شبہای پیشاور، مقدمہ چاپ دوم، ص۵، مقدمہ چاپ چہارم، ص۲
شبہای پیشاور، سرآغاز، ص۹۴
شبہای پیشاور، فہرست مطالب، ص۱۰۳۷-۱۰۵۹
شبہای پیشاور، سرآغاز، ص۱۰
شبہای پیشاور، سرآغاز، ص۹۴
شبہای پیشاور، سرآغاز، ص۹۴
شبہای پیشاور، سرآغاز، ص۴۵
شبہای پیشاور، سرآغاز، ص۴۵
شبہای پیشاور، ص۳۰۲؛ تمام کتاب
شہابی در شب
مجموعہ صوتی شبہای پیشاور
سایت شہید آوینی
مآخذ
سلطان الواعظین شیرازی، شبہای پیشاور، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ: سی و پنجم، تہران، ۱۳۷۲ش.
روابط
شبہائے پشاور کا اردو ترجمہ خورشید خاور کو ادارہ" شبکہ امامین الحسنین(ع)" نے پی ڈی ایف اور ورڈ فارمیٹس میں ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے اس لنک پر ملاحظہ کیجئے
جلد وال کی لنک
http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=375
جلد دوم کی لنک
http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379