امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

غُلُوّ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

غلو و زیاده روی در مقامات ائمه - سایت رسمی احمد میرزائی

غُلُوّ
غُلُوّ دینی امور میں حد اعتدال سے تجاوز کرنے اور پیغمبران الہی اور ائمہؑ کے فضائل و مناقب میں افراط کرنے کو کہتے ہیں۔

علم ادیان و مذاہب میں غلو کو ایک انحرافی تفکر سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ کسی نبی یا امام کو الوہیت کا مقام دینا، کسی کو خدا کا بیٹا ماننا، امام علیؑ یا دیگر شیعہ ائمہؑ کو مقام نبوت پر فائز سمجھنا اور مہدی موعود کے علاوہ کسی اور کو امام مہدی قراردینا غلو کے چند نمونے ہیں۔ سیاسی اہداف و محرکات، فکری پسماندگی، محبت و مودت میں افراط، اندھے تعصبات اور مسلمانوں کے درمیان فکری انحراف پیدا کرنے کے لیے اغیار کی دخل اندازی وغیرہ غلو کی پیدائش کے اسباب و عوامل میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ شیعہ ائمہؑ نے ہمیشہ غالیوں کے باطل نظریات کو دلائل کے ذریعے رد کرتے ہوئے غلو کے اسباب اور ان کے برے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے اور شیعوں کو غالیوں کی سازشوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔

احادیث میں غالیوں کو کافر اور مشرک کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور انہیں خدا کے بدترین مخلوق کہا گیا ہے۔ اس قسم کی روایات پر عمل کرتے ہوئے شیعہ علماء نے ہمیشہ غالیوں اور ان کے غلو آمیز نظریات و عقائد کے خلاف مبارزہ کیا ہے۔ مختلف علوم مثلا علم کلام (علم الٰہیات)، علم رجال اور علم ادیان و مذاہب میں غلو کی بابت بحث و تمحیص ہوتی ہے۔ نیز فقہاء نے غلو اور غلو آمیز افکار کے حامل افراد کے بارے میں احکام بیان کیے ہیں۔ فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق کوئی بھی غلو آمیز عقیدہ جو دین کی ضروریات میں سے کسی ایک کے انکار پر منتج ہو وہ کفر کے حکم میں ہے اور اس کے ماننے والے کافر ہیں اور ان پر کفار کے احکام نافذ ہونگے۔

مفہوم‌ شناسی اور مقام
دینی اصطلاح میں غلو سے مراد یہ ہے کہ دین کو ماننے والا شخص دینی تعلیمات کو دین کی طرف سے متعین کردہ حدود سے بڑھ کر مان لے۔[1] نیز غلو کے مفہوم سے متعلق کہتے ہیں کہ غلو حد اعتدال سے تجاوز کرنے اور پیغمبران الہی اور ائمہؑ کے حق میں افراطی عقیدہ رکھنے کو غلو کہتے ہیں۔ [2] لفظ «غلو» لغت میں زیادہ روی اور حد سے گزرنے کو کہتے ہیں۔[3]

قرآن میں دو مقامات پر غلو سے متعلق آیات موجود ہیں۔[4] شیعہ اور سنی منابع روائی میں بھی ٘مختلف احادیث میں غلو آمیز عقائد کی طرف اشارہ اور ان سے مسلمانوں کو دور رہنے کی تقلین کی گئی ہے۔[5] غلو سے متعلق متکلمین نے مختلف پہلو سے بحث کی ہے؛ اس کی ماہیت اور مصادیق بیان کیے ہیں۔[6]

چونکہ غلو کا ایک حصہ ائمہ معصومینؑ کی صفات و فضائل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ ان کی ذات سے متعلق ہے اور غالی انہیں خدائی درجے پر لے جاتے ہیں، اس لیے علم کلام کا فرض ہے کہ وہ مستحکم ادلہ کے ذریعے ان کی خصوصیات کے دائرہ کار کی وضاحت کرے تاکہ اس سے آگے اور حد اعتدال سے گزرنے کو غلو اور ان پر عیقدہ رکھنے والوں کو غالی کے طور پر متعارف کیا جائے۔[7] علم رجال بھی ایسے علوم میں سے ہے جو غلو کے تفکر سے متاثر رہا ہے لہذا علمائے رجال نے اس پر بحث کی ہے۔[8] کہا جاتا ہے کہ چونکہ احادیث کے سلسلہ سند میں موجود راویوں کی حالات زندگی کا جائزہ لینا علم رجال کے مقاصد میں سے ہے، اس لیے علمائے رجال کے فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ وہ احادیث کے سلسلہ راویوں میں قرار پانے جانے والے راویوں فکری و عقیدتی حالات کو تشخیص دریں اور غلو آمیز عقائد کے حامل راویوں کی شناخت کریں۔[9] علم ادیان و مذاہب میں بھی غالیوں اور افکار غلو کے حامل فرقوں پر بحث کرتے ہوئے غالیوں کے مصادیق کو بیان کیا گیا ہے۔[10] فقہاء نے بھی غلو اور کفر کے ساتھ اس کے تعلق اور غالیوں کے احکام پر بحث کی ہے۔[11]

غلو کے مصادیق
مسلمان دانشمندوں نے آیات قرآنی، روایات اور تاریخی رو سے پیغمبران الہی اور ائمہؑ کی بنسبت غلو کے مصادیق بیان کیے ہیں۔[12] بعض مصادیق مندرجہ ذیل ہیں:

الوہیت میں غلو
مندرجہ ذیل موارد الوہیت میں غلو کے مصادیق ہیں:

کسی انسان کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھنا:[13] سورہ مائدہ کی آیت 17 اور72 کے مطابق حضرت عیسیٰ کو خدائی درجہ دینا ایک غلو آمیز دعوا ہے جسے قرآن نے کفر سے تعبیر کی ہے۔[14] نیز فرقہ سبائیہ اور عبد اللہ بن سبا کے پیروکاروں کا امام علیؑ کو خدا ماننا،[15] اور فرقہ خطابیہ کا امام جعفر صادقؑ کو خدا ماننا[16] غلو آمیز عقائد کے چند نمونے ہیں اور ان عقائد کو کفر آمیز عقائد کہا گیا ہے۔ فرقہ «اثنینیہ» بھی غلو آمیز عقیدہ کا حامل فرقہ ہے۔[17] ان کے عقیدے کے مطابق حضرت محمدؐ اور امام علیؑ دونوں خدا ہیں۔ جو گروہ پیغمبر خداؐ کی خدائی کو مقدم سمجھتا ہے اسے «میمیہ» کہا جاتا ہے جبکہ امام علیؑ کی خدائی کو مقدم جاننے والے «عینیہ» کے نام سے معروف ہیں۔[18]
کسی شخص کو خدا کی الوہیت میں شریک ٹھہرانا:[19] عقیدہ تفویض کو اس طرح کے غلو آمیز عقائد میں سے گنا گیا ہے۔[20] تفویض کے ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر خداؐ اور حضرت امام علیؑ کو خلق کیا پھر سارے امور الہی یعنی دیگر مخلوقات کی تخلیھ، بندوں کو موت و حیات دینا اور انہیں رزق و روزی دینے جیسے امور کو ان کے سپرد کیا ہے۔[21]
کسی انسان میں خدا کے حلول[نوٹ 1] یا اس کے ساتھ ایک ہوجانے کا عقیدہ رکھنا:[22] فرقہ "بیانیہ" کے ماننے والے ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔[23] یہ فرقہ کیسانیوں کا ایک گروہ تھا جو یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ روح خدا پیغمبران، امام علیؑ اور محمد بن حنفیہ میں حلول کر جاتی ہے۔[24] اس فرقے کا بانی "بَیان بن سَمْعان تَمیمی ہے۔[25] اس کا عقیدہ یہ تھا کہ روح خدا امام علیؑ میں حلول کر گئی ہے اور امام کے وجود میں ایک ایسی طاقت تجلی کر گئی ہے کہ جس کے ذریعے سے امام علیؑ نے خبیر کا دروازہ اکھاڑ پھینک دیا، امام علیؑ نے ایسا جسمانی طاقت سے نہیں بلکہ رحمانی اور ملکوتی طاقت سے کیا، نور الہی کے ذریعے اللہ کی طاقت امام علیؑ میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔[26] نیز اس کا عقیدہ یہ تھا کہ روح خدا کا ایک حصہ امام علیؑ میں حلول کرگیا ہے؛ یہ جز بعینہ حضرت آدم میں حلول کر گیا تھا، اسی لیے جناب آدم مسجود ملائکہ ٹھہرے ہیں۔[27]
کسی کے بارے میں اللہ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھنا:[28] کہا جاتا ہے کہ تین گروہ ایسے عقیدے کے حامل ہیں: 1. قرآن مجید کے سورہ توبہ کی آیت30 کے مطابق عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں؛[29] 2. اسی آیت کے مطابق یہودی حضرت عُزَیر کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں؛ [30] 3. قرآن کے سورہ نحل آیت 57 اور سورہ صافات کی آیت149 کے مطابق مشرکین ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں مانتے ہیں۔[31]
نبوت و امامت میں غلو
نبوت اور امامت کے بارے میں غلو آمیز عقیدے کچھ اس طرح سے ہیں:

شیعہ اماموں کی نبوت کا عقیدہ:[32] بعض منابع کی فرقہ شناسی سے متعلق موضوع میں کہا گیا ہے: «غُرابیہ»، «ذبابیہ» اور «مُخطئہ» جیسے فِرَق غالی فرقے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق امام علیؑ نبوت کے حقدار تھے، اسی عقیدے کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ پغمبر خداؐ اور امام علیؑ شکل کے لحاظ سے آپس میں ایک جیسے تھے؛ جب جبرائیل وحی الہی لے کر آئے تو ان سے خطا ہوکر وحی کو پیغمبر اکرمؐ پر نازل کیا اور پیغمبر خداؐ نے امام علیؑ کو راضی کرنے کے لیے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کردی۔[33]
پیغمبرؐ کی نبوت میں بعض لوگوں کی مشارکت کا عقیدہ:[34] مصری مورخ مقریزی (1364-1422ھ) اپنی کتاب «المواعظ و الاعتبار» میں لکھتے ہیں کہ «شریکیہ»، «شاعیہ» اور «خلویہ» نامی فرقے شیعہ غالی فرقے شمار ہوتے ہیں؛ ان کے مطابق امام علیؑ پیغمبر خداؐ کے ساتھ نبوت میں شریک تھے۔[35] البتہ بعض مورخین نے ان ناموں کے شیعہ غالی فرقوں کے وجود کو رد کیا ہے۔[36]
کوئی غیر نبی یا غیر امام اپنے آپ کو نبی یا امام متعارف کرائے:[37] اس سلسلے میں ادیان و فرق کے ماہرین لکھتے ہیں کہ «ابومنصور عِجلی» نامی ایک شخص نے امام محمد باقرؑ کی شہادت کے بعد اس بات کا دعوا کیا کہ امام زین العابدینؑ نے اسے اپنا وصی مقرر کیا ہے اور ان کے بعد وہ امام ہے۔[38] اس نے مزید دعوا کیا کہ امام علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ اور امام محمد باقرؑ پیغمبرخدا اور رسول خدا تھے ان چھے افراد نے اپنے بعد میں آنے والوں کو نبی اللہ کے طور پر متعارف کیا ہے۔[39]
مہدی موعود(عج) کے علاوہ کسی اور کو امام مہدی ماننا: جن لوگوں نے ایسا عقیدہ رکھا ان میں سے ایک محمد بن حنفیہ‌ تھے۔[40] علم فرق و مذاہب کے ماہرین کے مطابق کیسانیہ کے ایک گروہ "کَربیہ" کا عقیدہ یہ تھا کہ محمد حنفیہ مہدی موعود ہیں جس کی غیبت کا دورانیہ چل رہا ہے اور ایک دن ظہور کرے گا اور دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح ظلم و تعدی سے بھری ہوگی۔[41] اسی طرح ایک اور شخص جس کے بارے میں مہدویت کا ادعا کیا گیا ہے وہ محمد بن عبداللہ بن حسن ہے جو کہ نفس زکیہ کے نام سے معروف ہے۔[42] فرق و مذاہب کے مصنفین کے مطابق فرقہ «مُغیریہ» (مغیرۃ بن سعید بجلی کے پیروکار) کا عقیدہ یہ تھا کہ نفس زکیہ وہی مہدی موعود ہے؛ جب وہ مارا گیا تو کہنے لگے کہ وہ نہیں مرا ہے، بلکہ زندہ ہے اور مکہ میں «عَلَمیہ» نامی ایک پہاڑی میں بقید حیات ہے یہاں تک کہ ایک دن اس کے ظہور کا وقت آئے گا۔[43]
اوصاف و فضایل میں غلو
اوصاف و فضایل میں غلو کا ارتکاب کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کی طرف کسی صفت، فضیلت یا فعل کو نسبت دینے میں اس کی حد سے زیادہ بڑھ جائے۔[44] اس نوعیت کے غلو کو پیشوایان دین، پیغمبران اور معصومینؑ میں کچھ اس طرح سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے:

سہو النبی کی نفی کا عقیدہ:[45] محققین کے مطابق ائمہؑ کی طرف نسبت دی جانے والی صفات اور فضائل بالاخص سہو النبی کے امکان یا اس کے عدم امکان کے بارے میں قم کے مکتب کلامی اور بغداد کے مکتب کلامی کے درمیان تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں بنیادی تنازعہ رہا ہے۔[46] شیخ صدوق اپنے استاد ابن ولید قمی سے نقل کرتے ہیں کہ غلو کا پہلا درجہ یہ ہے کہ سہو النبی کا انکار کرے۔ جو شخص سہو النبی کو قبول نہیں کرتا وہ غالیوں میں سے ہے۔[47] اس قول کے مقابلے میں مکتب کلامی بغداد کے متکلم شیخ مفید[48] کا قول ہے۔ شیخ مفید کا عقیدہ ہے کہ نبی مکرم اسلامؐ سہو و اشتباہ کا مرتکب نہیں ہوتے۔ لہذا سہو النبی کا عقیدہ رکھنے والا دین میں تفریط کا شکار ہوا ہے اور سہو النبی کا عقیدہ رکھنے والا شان ائمہؑ کو گھٹانے والا شمار کیا جائے گا۔[49] شیخ مفید صرف ائمہؑ کو مرتبہ الوہیت پر پہنچانے اور ان کے قدیم ہونے کے عقیدے کو غلو آمیز عقیدہ سمجھتے ہیں۔[50]
مطلق طور پر حامل علم غیب ہونے کا عقیدہ:[51] بعض شیعہ متکلمین اس بات کے قائل ہیں کہ ائمہ معصومینؑ اسلام کے کلی احکام کی آگاہی رکھنے کے ساتھ ساتھ کائنات میں واقع ہونے والے سابقہ اور موجودہ واقعات کے بارے میں بھی جزئی طور پر علم رکھتے ہیں۔[52] شیخ مفید نے ائمہؑ کی طرف علم غیب کی نسبت دینے کو غلو آمیز تفکر سے تعبیر کیا ہے اور اس کے قائل کو غالی کہا ہے کیونکہ عالم بالغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔[53] البتہ بعض متکلمین کے مطابق ائمہؑ کے سلسلے میں تعلیم الہی کے بغیر اور مستقل طور پر علم غیب کے حامل ہونے کا ادعا کیا جائے تو یہ غلو آمیز عقیدہ ہے کیونکہ اس صفت کا علم غیب صرف اللہ کے پاس ہے؛ جتنے علوم و معارف انبیاء اور ائمہؑ کے پاس ہیں سب کے سب اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور اسی کے اذن سے انہیں ملے ہیں۔[54]
پیشوایان دین کے ہمیشہ زندہ رہنے کا عقیدہ:[55] نوبختی نے اپنی کتاب "فِرَق الشّیعہ" میں فرقہ بشریہ کے عنوان سے ایک ایسے فرقے کا نام ذکر کیا ہے جس کے پیروکاروں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام موسی کاظمؑ نے اب تک وفات نہیں پائی ہے اور امام وہی مہدی موعود ہیں جو دوران غیبت میں زندگی کررہے ہیں۔ ان کے اعتقاد کے مطابق امامؑ نے محمد بن بشیر (اس فرقے کا بانی) کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کر رکھا ہے؛ امامؑ نے اپنی انگوٹھی اسے دی ہے، نیز وہ سارے دینی و دنیوی علوم جن کی طرف لوگ محتاج ہونگے، محمد بن بشیر کو تعلیم دی ہے۔[56] اسی طرح کیسانیہ کا ایک گروہ بھی اس بات کا معتقد ہے کہ محمد بن حنفیہ ابھی تک زندہ ہے۔ وہ اس وقت مکہ اور مدینہ کے مابین «رِضویٰ» نام کی ایک پہاڑی میں قیام پذیر ہے۔[57]
دیگر غلو آمیز دعوے
پیغمبران الہی اور ائمہ معصومینؑ کے علاوہ دیگر اشخاص کے بارے میں بھی غلو آمیز دعوے کیے گئے ہیں، چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

خلفائے ثلاثہ سے متعلق غلو
اہل سنت منابع میں خلفائے ثلاثہ کے فضائل پر مبنی کچھ احادیث یا دعوے ایسے بیان ہوئے ہیں جن کے بارے میں علما کا کہنا ہے کہ یہ غلو آمیز ہیں۔[58] بطور نمونہ؛ کتاب تاریخ بغداد میں پیغمبر خداؐ سے منسوب ایک روایت نقل ہوئی ہے جس کے مطابق حضرت رسول خداؐ نے شب معراج کو عرش الہی پر مشاہدہ کیا کہ لا الہَ الاّ اللہ اور مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّہ کے بعد ابوبکر، عمر بن خطاب اور عثمان کے نام تحریر ہیں۔[59] نعمت‌ اللہ صالحی نجف‌آبادی نے اس حدیث کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے اس کے مضمون کو غلو آمیز قرار دیا ہے۔[60]

علم عمر بن خطاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر تمام دنیا کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور عُمَر کے علم کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو عمر کے علم کا پلڑا بھاری ہوگا۔[61] نیز کہا جاتا ہے کہ سنہ 20 ہجری یعنی دوران خلافت عمر بن خطاب مدینہ میں زلزلہ آیا؛ عمر نے اپنا تازیانہ زمین پر مارا اور کہا: «اللہ کے اذن سے آرام ہوجا» تب زلزلہ ختم ہوا، کہتے ہیں کہ اس کے بعد مدینہ میں دوبارہ زلزلہ نہیں آیا۔[62] اس طرح کے مضامین پر مشتمل دعؤوں کو بعض محققین نے غلو آمیز قرار دیا ہے۔[63] دیگر اصحاب پیغمبرؑ اور خلفاء کے بارےمیں بھی غلو آمیز دعوے ملتے ہیں۔[64] عبدالحسین امینی نے الغدیر میں اس طرح کے کچھ مطالب کو منابع اہل سنت سے نقل کیا ہے اور انہیں غلو آمیز قرار دیا ہے۔[65]

قرآن کی غلو آمیز تأویلات
کہا جاتا ہے کہ بعض غلو آمیز اور ناروا تاویلات میں سے ایک تناسخ کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات کا استعمال ہے۔[66] دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مورخ بلاذری اپنی کتاب «انساب الاشراف» میں لکھتے ہیں کہ تناسخ کے قائل غالیوں نے سورہ انفطار کی آیت8 کے ایک حصے: «فِي أَيِّ صُورَۃٍ ما شاءَ رَكَّبَكَ؛ جس شکل میں چاہا تجھے جوڑ دیا»،[67] سے تناسخ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[68] نیز فخر رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جو افراد تناسخ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے اس تفکر کے اثبات کے لیے سورہ انعام کی آیت 38 سے استدلال کیا ہے۔[69] انہوں نے اس استدلال کو ناروا اور باطل قرار دیا ہے۔[70]

کبھی کبھار بعض لوگوں نے کچھ حضرات کے غلو آمیز فضائل و مناقب کو بیان کرنے کے لیے قرآنی آیات کی غیر پسندیدہ اور غیر رائج تاویلیں کی ہیں۔[71] مذہب مالکیہ کے گیارہویں صدی ہجری کے فقیہ ابراہیم بن عامر عُبَیدی کی کتاب "عمدۃ التَّحقیق" سے عبدالحسین امینی نے نقل کیا ہے کہ سورہ بقرہ کی پہلی آیت "الم" حروف مقطعہ کی یوں تفسیر کی گئی ہے: «الف» سے مراد ابوبکر ہے، «لام» سے مراد اللہ اور «میم» سے مراد محمد(ص) ہے۔[72] امینی نے اس دعوے کو غلو آمیز کہا ہے۔[73]

حنفی مذہب کے مفسر اسماعیل حقی بُرسَوی (متوفیٰ: 1137ھ) نے اپنی تفسیر «روح البیان» میں سورہ الحاقہ کی آیت17: وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَہُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَۃٌ؛ اور اس دن آٹھ فرشتے آپ کے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہونگے»[74] کے ذیل میں پیغمبر خداؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق رسول خداؐ نے فرمایا: آج دنیا میں وہ لوگ چار افراد ہیں اور روز قیامت دیگر چار افراد ان کی تائید کریں گے۔[75] انہوں نے بعض دیگر افراد سے نقل کیا ہے کہ وہ چار افراد ابوحنیفہ، مالک بن انس، محمد بن‌ ادریس شافعی اور احمد بن حنبل ہیں جو حاملان دین و شریعت میں سے ہیں۔[76] محققین نے اس طرح کی تاویلات کو غلو آمیز قرار دیا ہے۔[77]

قرآن سے ائمہؑ کے فضائل حذف ہونے کا عقیدہ
مورخ اور تہران یونیورسٹی کے پروفیسر محمد جواد مشکور (متوفیٰ: (1416ھ) نے اپنی کتاب "تاریخ شیعہ و فرقہ ہای اسلامی" میں لکھتے ہیں: بعض شیعہ غالی حضرات تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ وہ لوگ موجودہ قرآن کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ عصر عثمان میں جمعِ قرآن انجام پائی، لیکن حضرت علیؑ و آل علیؑ کے فضائل و مناقب سے مربوط کثیر تعداد میں آیات کی تحریف یا ان کو حذف کیا گیا ہے۔[78] محمد جواد مشکور کا کہنا ہے یہ غلو آمیز نظریہ ہے۔[79]

علوم حدیث و قرآن کے محقق محمدحسن احمدی نے «غالیان و اندیشہ تحریف قرآن» کے عنوان پر تحریر کردہ مقالے میں تحریف قرآن سے متعلق شیعہ منابع حدیثی میں مروی روایتوں کے سلسلہ راویوں کا غلو یا عدم غلو کے لحاظ سے تحقیقی جائزہ لیا ہے، انہوں نے 13 ایسے راویوں کا نام لیا ہے جن میں تفکر غلو کے آثار نمایاں ہیں۔[80] ان کے مطابق تحریف قرآن سے متعلق تمام احادیث میں سے اکثر روایتوں (تقریبا دو تہائی) کو غالیوں نے نقل کیا ہے۔[81]

کتابوں سے متعلق غلو آمیز دعوے
صحیح بخاری اہل سنت کی معتبر حدیثی مجموعوں میں سے ایک ہے، اس کے بارے میں غلو آمیز دعوے ملتے ہیں۔[82] اس کتاب کی توصیف میں کہتے ہیں کہ یہ قرآن کا ہم پلہ ہے اور طاعون کی بیماری کے ایام میں اسے جس گھر میں پڑھی جائے تو اس گھر والے اس بیماری سے محفوظ رہیں گے، نیز جو ایک دفعہ اس کا ایک دورہ مطالعہ کرے اس کی ساری حاجتیں پوری ہوجائیں گی۔[83] اسی طرح نقل کیا گیا ہے کہ جس گھر میں یہ کتاب موجود ہو اس گھر پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور باعث برکت ہے۔ یہ کتاب روئے زمین پر قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب ہے۔[84] اس طرح کی غلو آمیز باتیں مالک بن انس کی تصنیف کتاب مؤطأ کے بارے میں بھی کہی گئیں ہیں، نیز اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ روئے زمین پر قرآن کے بعد اس سے صحیح‌تر کوئی اور کتاب نہیں۔[85]

اسی طرح شیعوں کے معتبر حدیثی مجموعہ الکافی کے بارے میں دعوا کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں موجود ساری احادیث معتبر ہیں، اس سلسلے میں بعض شیعہ علما جیسے نعمت‌اللہ صالحی نجف‌آبادی وغیرہ نے اس طرح کی باتوں کو غلو آمیز کہا ہے۔[86] کتاب کافی کے بارے میں یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسے امام مہدی(عج) کے سامنے پیش کیا گیا تو امامؑ نے فرمایا: «الکافی کافٍ لِشیعتُنا؛ کتاب کافی شیعوں کے لیے کافی ہے»[87] صالحی نجف‌آبادی نے علامہ مجلسی[88] اور مرزا حسین نوری[89] کے بیان سے استناد کرتے ہوئے اس واقعے کو غلو آمیز کہا ہے۔[90]

علما کے بارے میں غلو آمیز دعوے
بعض لوگوں کی جانب سے کچھ علما کے بارے میں بھی غلو آمیز دعوے اور کرامات نقل کیے گئے ہیں۔[91] بطور نمونہ، کہتے ہیں کہ حضرت خضر پانچ سال تک ہر دن ابوحنیفہ کے پاس آتے تھے اور ان سے دینی احکام سیکھتے رہے۔[92] اسی طرح کہا گیا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ تمام انبیاء مجھ پر فخر کریں گے اور میں ابو حنیفہ پر فخر کرتا ہوں۔[93] چودہویں صدی ہجری کے مصری مورخ اور فقیہ ابوزہرہ کے مطابق ابو حنیفہ کی بنسبت لوگ اس حد تک تعصب سے کام لیتے تھے کہ انہیں مقام پیغمبری کے حامل انسان سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ تورات میں انہیں خوشخبری دی گئی ہے اور پیغمبر نے ان کا نام لیا ہے اور انہیں امت کے ہادی کے طور پر تعارف کرایا ہے۔[94] اس کی مانند باتیں اہل سنت کے باقی فقہاء، ائمہ اور ان کے علما کے بارے میں بھی کہی گئیں ہیں۔[95] عبدالحسین امینی نے اپنی کتاب "الغدیر" میں اس طرح کی کچھ باتیں نقل کی ہیں[96] اور ان کے غلو آمیز ہونے پر تاکید کی ہے۔[97]

شیعوں کی طرف غلو کی نسبت
بعض علماء کی طرف سے کچھ غلو آمیز عقائد کو شیعوں کی طرف نسبت دی ہے، ان میں سے بعض کی تفصیل یہ ہے:[98]

چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابو عمر بن محمد بن عبد ربِّہ نے اپنی کتاب"عقد الفرید" میں شیعوں کو یہودیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ شیعہ حضرات یہودیوں کے مانند جبرئیل سے دشمنی کرتے ہیں کیونکہ جبرئیل نے غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے وحی الہی کو حضرت علیؑ کے بجائے حضرت محمدؐ پر نازل کیا۔[99] اس تہمت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ علمائے فرق و مذاہب نے اس بات کو «ذبابیہ»، «غرابیہ» اور «مخطئہ» جیسے فرقوں کی طرف نسبت دی ہے۔[100] سید محسن امین نے اس نسبت کو ایک بے دلیل مدعی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان فرقوں میں سے کسی ایک کا نام بھی شیعہ ادیان و مذاہب کی کتابوں میں پایا نہیں جاتا ہے۔[101] سید امین کے مطابق ان خود ساختہ فرقوں کو اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ ان کے ذریعے شیعوں کو بدنام کیا جائے اور ان کے مذہب کو زیر سوال لایا جائے۔[102]
پانچویں صدی ہجری کے حنفی عالم دین ابومحمد عثمان بن عبداللہ عراقی نے اپنی کتاب "الفرق المفترقہ" میں امامیہ اور زیدیہ کو ایک ہی فرقہ سمجھا ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ غالی ہیں اور امام علیؑ کو کبھی الوہیت کے مقام پر فائز سمجھتے ہیں، کبھی نبی مانتے ہیں اور کبھی ان کو امر نبوت میں شریک ٹھہراتے ہیں۔[103] اسی طرح ابن‌ تیمیہ نے شیعہ کو غالی فرقہ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ شیعوں میں بعض حضرت علیؑ کو خدا مانتے ہیں اور بعض ان کو نبی مانتے ہیں۔[104] ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ غالیوں کے بعض گروہ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں، دوسری طرف شیعہ احادیث میں ان کی مذمت اور سرزنش کی گئی ہے اور شیعہ اماموں کی طرف سے غالیوں کی باتوں کو رد کیا گیا ہے۔ لہذا اس چھوٹے سے رد شدہ گروہ کے عقیدہ کو تمام شیعوں بالخصوص امامیہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔[105] امامیہ فقہ کے مطابق بھی امام علیؑ کو خدا یا نبی کہنا انکار خدا اور انکار نبوت محسوب ہوتا ہے جو کہ کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو امامیہ فقہ میں کافر کہا گیا ہے۔[106]
وہابی محقق اور مصنف عبد اللہ علی قمیصی نے اپنی کتاب "الصراع بین الاسلام و الوثنیہ" میں لکھا ہے کہ شیعوں کے ایک روہ کا یہ عقیدہ ہے کہ واجبات اور محرمات اشخاص کے لیے کنایے کے طور پر مستعمل ہیں؛ لہذا واجبات اور محرمات کے ساتھ بھی دوستی یا دشمنی کرنی چاہیے۔ اس عقیدے کہ وجہ سے وہ لوگ محرمات کو حلال سمجھتے ہیں اور واجبات کو ترک کرتے ہیں۔[107] ادیان و مذاہب کے ماہرین نے اس عقیدے کو ایک غالی فرقہ منصوریہ (ابومنصور عِجلی کے پیروکار) کی طرف نسبت دی ہے۔[108] رجال کشی کے نقل کے مطابق ابو منصور کے غلو آمیز تفکر کی وجہ امام صادقؑ کی جانب سے وہ تین مرتبہ مورد لعنت قرار پایا ہے۔[109]
اہل سنت علما کے ایک گروہ نے شیعوں کے کچھ اور عقائد مثلا؛ بِداء، رجعت، عصمت اور پیغمبر خداؐ اور ائمہؑ کے علم غیب کو غلو آمیز عقیدے قرار دیے ہیں۔[110] شیعہ علما کی نظر میں یہ غلو آمیز عقیدے نہیں ہیں اور انہیں قرآن، سنت اور عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔[111]
بعض لوگوں کی نظر میں شیعہ ائمہ کے کچھ اوصاف مثلا عصمت، علم غیب، کائنات میں تصرف اور دیگر مافوق بشری اوصاف کو غلوآمیز قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ائمہؑ صرف بڑے دانشور، پرہیز گار اور دین و شریعت سے آگاہ انسان تھے۔[112] اس نظریے کا مشہور نام "نظریہ علمائے ابرار" ہے۔[113] اس نظریے کا منشاء عبد اللہ بن‌ ابی‌ یعفور کی وہ تعبیر ہے جس میں انہوں نے ائمہؑ[114] کو ان الفاظ سے یاد کیا ہے: «علماءُ اَبرار و اَتقیا اوصیا؛ علمائے ابرار اور پرہیز گار انسان‌»[115] نیز انہوں نے کہا ہے کہ بعض شیعہ علما بالاخص چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں ظہور کردہ مکتب قم کے علما ائمہؑ کو مافوق بشری کسی صفت سے متصف کرنے کے مخالف تھے ان کی نظر میں ائمہ صرف عالم دین و شریعت اور متقی و پرہیزگار تھے۔[116] اس نظریے پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اس پر کوئی تاریخی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے۔[117] اسی طرح بعض دیگر نے کہا ہے کہ بعض اصحاب ائمہؑ کی اصطلاح میں لفظ «عالِم» سے مراد اللہ کی طرف سے الہام شدہ علم کے مالک کو یہ لقب دیا جاتا ہے اور لفظ «ابرار» اور «اتقیا» بھی معنائے عصمت کے مترادف ہیں۔[118]
راویان حدیث کی طرف غلو کی نسبت
غلو اور کچھ منحرفانہ عقیدے ایسے ہیں، علم رجال میں ان کی وجہ سے راوی کی وثاقت ختم اور وہ سلسلہ سند میں ضعیف قرار پاتا ہے جس کی وجہ سے اس حدیث کا سلسلہ سند ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے۔[119] اسلامی علوم کے محقق سید حسین مدرسی طباطبائی کے مطابق معمولاََ ان لوگوں کو جو ائمہؑ کو خدا مانتے ہیں رجالی کتب میں ان کے لیے «فاسد المذہب» یا «فاسد الاعتقاد» جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔ اسی طرح کچھ دیگر غالیوں کے لیے «اہل الارتفاع»، «مرتفع القول» اور «فی حدیثہ ارتفاع» جیسی تعابیر استعمال کی گئی ہیں۔[120]

کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھار کسی راوی کی طرف غلو کی نسبت دینے کے حوالے سے علمائے رجال کے مابین اختلاف ہوتا ہے اور مختلف فیہ راویوں کی حالت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ان روایات پر کسی قسم کا حکم نہیں لگایا جاتا مگر یہ کہ کسی دوسرے طریقے سے اس کی تائید یا رد میں کوئی قطعی دلیل پیش کی جائے۔[121] بعض لوگوں نے علمائے رجال کی جانب سے غلو کے بارے میں پیش کی جانے والی تعریف اور اس کے مفہوم میں اختلاف کو راویوں کی وثاقت یا عدم وثاقت میں اختلاف کا سبب قرار دیا ہے۔[122]

مثال کے طور رجال کشی میں عصر امام علی نقیؑ کے ایک راوی حسین بن عبیداللہ سعدی مُحَرِّر کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ اس کو غلو آمیز عقائد کی وجہ سے قم سے نکال دیا گیا۔[123] نجاشی کہتے ہیں کہ اس پر غلو کا الزام لگایا گیا لیکن اس کی چند معتبر اور صحیح السند کتابیں بھی ہیں۔[124] کچھ علما جیسے ابوعلی حائری اور عبد اللہ مامَقانی نے اس طرح کے الزامات کو رد کیا ہے، ان کے عقیدے کے مطابق چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں مکتب قم کے حامی حضرات کی طرف سے جن راویوں کو غلو آمیز عقائد کے حامل قرار دے کر قم سے نکال دیے جاتے تھے، یہ کوئی قابل اعتماد چیز نہیں اور اس عمل سے راوی کے ضعف کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ بعض عقیدے (جیسے سہو النبی) بعد والے ادوار میں ضروریات مذہب قرار پائے ہیں، حالانکہ انہی علما کے مطابق اسے بھی غلو آمیز عقیدہ قرار دیا گیا ہے۔[125]

سید ابو القاسم خویی نے بھی غلو کے ٘مختلف درجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کم درجہ غلو کے حامل شخص زیادہ درجہ غلو کے حامل کو غالی قرار دیتا ہے اور اس پر لعن و طعن کرتا ہے۔[126]

حوزہ علمیہ قم کے شعبہ تاریخ کے رکن انجمن اور محقق نعمت‌اللہ صفری فروشانی نے سید ابو القاسم خوئی کی علم رجال سے متعلق کتاب مُعجَمُ رِجالِ الحدیث کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کتاب میں 120 ایسے راویوں کے نام موجود ہیں جن کو شیعہ علمائے رجال کی کتب میں غلو آمیز عقائد کے حامل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔[127] صفری فرشانی کا کہنا ہے کہ کسی راوی پر غلو کا صرف الزام لگنا اس بات کو ثابت نہیں کرتا ہے کہ حقیقت میں بھی غالی ہو۔[128]

شیعوں کی طرف سے تفکر غلو کی مخالفت
شیعہ ائمہؑ نے مختلف موقعوں اور ادوار میں تفکر غلو اور ہر قسم کے غالیانہ عقائد کی شدید مخالفت کی ہے۔[129] «بررسی چگونگی تقابل ائمہ با جریان‌ہای غالیانہ» کے عنوان پر تحریر کردہ مقالے کے مطابق شیعہ ائمہ کا تفکر غلو سے نمٹنے کا طریقہ ابتدا میں تبیینی اور وضاحتی انداز تھا۔ ائمہؑ سے منقول روایات سے معلوم ہوتا ہے[130] کہ غلو سے مقابلہ کرنے کا مقصد صرف غلو کی وضاحت کرنا، غالیوں سے بے زاری کا اعلان کرنا اور اپنے پیروکاروں کو غلو آمیز افکار سے دور رہنے کی تلقین کرنا تھا۔[131] پھر امامین صادقینؑ یعنی امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ادوار میں اور اس کے بعد جب غلو کی تحریک نے زور پکڑ لی اور کچھ منظم انداز میں غالی فرقوں میں اضافہ شروع ہونے لگا تو ائمہؑ کا ان سے نمٹنے کا طریقہ بدل گیا؛ اب صرف وضاحتی طریقہ کارآمد نہیں تھا بلکہ ائمہ نے کھل کر غالیوں کو لوگوں برملا کیا اور شیعوں کو حکم دیا کہ غالیوں کو ہر جگہے پر مسترد کیا جائے۔[132]

بطور مثال؛ امام جعفر صادقؑ سے سورہ شعراء کی آیات 222 اور223[نوٹ 2] کے ذیل میں منقول ہے کہ آپؑ نے اپنے زمانے کے سات ایسے غالیوں کو برملا کیا جن پر شیاطین اترتے تھے۔[133] اسی طرح ایک اور روایت میں نقل ہوا کہ آپؑ "فرقہ غالیہ مغیریہ" کے بانی مغیرۃ بن سعید پر اصحاب امام محمد باقرؑ کی کتب میں خود ساختہ روایات داخل کرنے کی وجہ سے لعنت کرتے تھے۔[134] رجال کشی نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق امام علی رضاؑ نے امام محمد باقرؑ، امام جعفر صادقؑ، امام موسی کاظمؑ اور خود امامؑ پر جھوٹ باندھنے والے غالیوں کے نام کو لوگوں میں عام کیا۔ (تاکہ لوگ ان سے دور رہیں)۔[135]

بعض روایات میں غالیوں کو بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے[136] اور کچھ روایات میں ان کو کافر و مشرک کہا گیا ہے۔[137] بعض دیگر روایات میں ان کے ساتھ نشست و برخاست کرنے کو ایمان کے ختم ہونے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ مصاحبت کی ممانعت ہوئی ہے۔[138]

شیعہ علما و فقہاء نے بھی اپنے اماموں اور پیشوایان دین کی متابعت کرتے ہوئے غالی تفکر سے کھل کر مبارزہ کیا اور ان کے عقائد کو رد کرنے کی مقدور بھر کوششیں جاری رکھیں۔[139] اس سلسلے میں محققین، مکتب فکر قم کے دانشوروں اور راویوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تیسری صدی ہجری میں مکتب قم شیعوں کا اہم علمی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں غلو آمیز اور مفوضہ عقیدہ پر مبنی افکار کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نہایت درجہ کوششیں کی گئیں اور غلو کے خلاف ہمیشہ ان کے رد عمل سامنے آتے رہے۔ جو شخص بھی ائمہؑ کو مافوق بشر اوصاف سے یاد کرتے تھے ان کو غالی محسوب کرتے ہوئے شہر بدر کیا جاتا تھا۔[140] مثلا مکتب قم کے ممتاز علما میں سے ایک شیخ صدوق تھے جنہوں نے غالیوں کو مفوضہ اور کافر تک کہا؛ شیخ صدوق کا باور تھا کہ ان کی طرف سے دین کو جو نقصان ہوا کسی غیر مسلم اور یہود و نصارا اور دین میں بدعت ایجاد کرنے والوں سے اتنا نقصان نہیں ہوا ہے۔[141] شیخ صدوق ان پر لعن و طعن کرتے تھے۔[142]

اسی مکتب قم کے بعض علما کی جانب سے غلو کے رد میں کتابیں بھی تحریر کی گئیں ان میں سے ایک کتاب "اَلردُّ عَلَی الْغُلُو" ہے جسے صفار قمی نے تحریر کی ہے اور اسی عنوان پر یونس بن عبدالرحمن قمی، حسین بن سعید اہوازی، محمد بن اورمہ قمی (شیعہ راوی اور امام رضاؑ کے اصحاب میں سے تھے) اور بعض دیگر علما نے کتابیں لکھی ہیں۔[143]

شیعہ فقہاء کا نظریہ
شیعہ فقہاء نے غلو کو ایک مستقل عنوان بنا کر اس پر بحث نہیں کی ہے بلکہ اس ضمنی طور پر اس کے احکام کو کفر اور احکام کافر کے ضمن میں بیان کیا ہے۔[144] ائمہؑ میں سے کسی ایک کو الوہیت کا مقام دینے کا لازمی نتیجہ اللہ تعالیٰ کا انکار ہے،[145] اور اللہ کا انکار شیعہ فقہاء کے اجماع کے مطابق کفر ہے[146] اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کو کافر کہتے ہیں اور کافر کا حکم یہ ہے کہ وہ نجس ہے۔[147]

بعض فقہائے شیعہ جیسے سید محمد باقر صدر اور سید عبد العلی سبزواری کی نظر میں غلو کے یہ معنی کیا جائے کہ امور کو غیر اللہ پر تفویض کیا جائے تو یہ توحید کے عقیدہ سے متصادم ہے اور اس کے یہ معنی لیا جائے کہ خدا کسی انسان میں حلول کرتا ہے اور اس کے ساتھ اتحاد پاتا ہے؛ یہ عقیدہ خدا کے علاوہ کسی اور کی ربوبیت اور خدا کی جسمانیت کے قائل ہونا ہے جو کہ کفر کے مصادیق میں سے ہے۔[148] سید محمد باقر صدر کے مطابق غلو کے یہ معنی کہ نبوت کا حقدار پیغمبراسلام کے علاوہ کوئی اور شخص تھا یا اسے پیغمبر سے برتر افضل سمجھا جائے تو یہ شہادت دوم (اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ)) سے متصادم ہے اور یہ بھی کفر ہے۔[149]

کچھ دیگر فقہاء جیسے شیخ انصاری اور سید محسن حکیم وغیرہ نے غالی کے کفر کا یہ معیار بتایا ہے کہ اگر اس کا غلو ضروریات دین میں سے کسی ایک کی نفی کا سبب بنے تو یہ کفر ہے۔[150] بنابر ایں، حلول کا عقیدہ، پیغمبران اور اماموں کے اوصاف میں افراط وغیرہ اگر ضروریات دین میں سے کسی ایک کی نفی کا سبب بنے تو یہ کفر کے حکم میں ہے۔[151]

پس منظر اور سرچشمہ
بعض محققین کی نظر میں تفکر غلو ایک انحرافی راستے کے طور پر بنی نوع انسان کی طویل تاریخ میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔[152] کہا جاتا ہے کہ قرآن کے مطابق اسلام کی آمد سے پہلے بھی مختلف ادیان میں قدرتی مخلوقات، انبیاء اور فرشتوں کے بارے میں غلو آمیز عقیدے عام تھے۔[153] بعض محققین کے مطابق اسلام میں غلو اور تفکر غلو کا نقطہ آغاز عبد اللہ بن سبأ کا زمانہ ہے۔[154] بعض محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں پہلے تین شیعہ ائمہؑ(امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ) کی زندگی میں تفکر غلو کی بہت کم نشانیاں ملتی ہیں؛ ان محققین کا عقیدہ ہے کہ تیسرے امامؑ کی شہادت، توابین کے قیام، اہل بیتؑ پر ڈھائے گئے مظالم، زیدیوں، کیسانیہ کے قیام، خوارج کی بغاوت کے بعد، نیز ثقافتی اور سماجی حالات کے بدولت غلو کا تفکر رشد پانے لگا جس کے مطابق امام علیؑ کی الوہیت کا عقیدہ یا خدا کے امام علیؑ میں حلول کا عقیدہ پنپنے لگا۔[155]

ابن‌ ابی‌ الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں عراق اور کوفہ کو اسلام میں تفکر غلو کےآغاز کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ سرزمین عراق کی نوعیت حجاز کی سرزمین کے برعکس تھی، عراق میں مفکرین اور ماہرین کی موجودگی کے سبب یہاں مختلف مسائل پر بحث و مباحثے ہوتے تھے، مختلف اور عجیب و غریب مذاہب کے پیروکار جیسے مانی مذہب اور مزدک وغیرہ ور مختلف عقائد نے یہاں رشد پایا جس کی وجہ سے اس سرزمین کے لوگ ان مذاہب اور رسومات سے متاثر ہوئے، جب وہ لوگ امام علیؑ کے معجزات کرامات کو دیکھتے تو ان میں غلو کرتے تھے جبکہ سرزمین حجاز کے لوگ نبی مکرم اسلامؐ کے معجزات کو دیکھنے کے باوجود آپؐ کے بارے میں غلو کے مرتکب نہیں ہوئے۔[156]عراقی مصنف اور بغداد یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر کامل مصطفیٰ شیبی نے بھی اپنی کتاب "اَلصِّلۃُ بینَ التَّصوف و التَّشیع" میں لکھا ہے کہ تفکر غلو اور غلو آمیز عقائد و افکار کا آغاز کوفہ سے ہوا ہے۔[157] ان کا خیال ہے کہ کوفہ کے لوگوں نے امام علیؑ کے ساتھ ہونے والی کوتاہیوں اور ناانصافیوں کی تلافی کے لیے آپؑ سے اپنی محبت و مودت کے اظہار میں حد سے بڑھ کر کام لیا اور غلو کا مرتکب ہوئے، اسی طرح دشمنوں سے دشمنی کرنے میں بھی حد اعتدال سے نکل گئے۔[158]

البتہ معاصر مورخ رسول جعفریان امام علیؑ کے زمانے میں تفکر غلو کی موجودگی کا انکار کرتے ہوئے کہتے کہ جن عقائد کو سنجیدگی سے غالیانہ تفکر اور عقائد تصور کیا جاتا ہے اس کا تعلق پہلی صدی کے نصف اول کے بعد اور زیادہ تر 66 ہجری کے دوران سے ہے۔ یعنی قیام مختار کے بعد سے غلو آمیز عقائد پنپنے لگے ہیں۔[159] بعض محققین نے غلو کے آغاز کو رسول خداؐ کی زندگی سے جوڑتے ہوئے اس بات کے مدعی ہیں کہ جب آپؐ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تو یہاں سے غلو آمیز تفکرات کا آغاز ہوا۔[160] مورخین کے مطابھ، جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو سورج گرہن ہوا، لوگ خیال کرنے لگے کہ ایسا فرزند نبی کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔[161] پیغمبر اسلامؐ نے جب لوگوں کو اس طرح خیال کرتے ہوئے دیکھا تو انہیں اس طرح کے خیال کرنے سے منع کیا۔[162] شیخ مفید کے مطابق غلو آمیز تفکر کا آغاز تب ہوا جب رسول خداؐ کی رحلت ہوئی اور عمر بن خطاب نے اسے انکار کیا۔[163] اس سلسلے میں شیخ مفید نے کچھ روایات کا حوالہ دیا ہے، جن کی بنیاد پر عمر بن خطاب نے رحلت رسول خداؐ کی تردید کی اور کہا کہ پیغمبر خداؐ حضرت موسیٰ کی طرح صرف اپنی قوم سے غائب ہوئے اور چالیس دن کے بعد واپس آئیں گے۔[164]

پیدائش غلو کے اسباب و عوامل
محققین نے تاریخی جائزے اور روایت کے مآخذ کے مطالعہ کے ذریعے دنیائے اسلام اور تشیع میں غلو کی پیدائش کے چند اسباب و عوامل کو شمار کیا ہے[165] ان میں سے بعض عوامل مندرجہ ذیل ہیں:

سیاسی اہداف: غلو کے اہم عوامل میں سے ایک عامل اور خاص طور پر شیعہ ائمہ کے حوالے سے یہ تھا کہ غلو جیسے الزامات کے ذریعے ائمہؑ کو سماج سے الگ تھلگ کیا جائے اور لوگوں میں ان کی حیثیت کو کم کر کے لوگوں کو ان سے دور رکھا جائے۔[166] اس پر مستزاد یہ کہ حکمران بھی تفکر غلو کی بھرپور حمایت کرتے تھے اور کچھ غالیوں کی حمایت اور ان کو سہولیات فراہم کر کے ان کو مسلمانوں کی صفوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور غلو کے فروغ کے لیے میدان فراہم کرتے تھے۔[167]
فکری پسماندگی: بندگی کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہونا، انبیاء اور ائمہؑ کے کرامات کو دیکھ کر حیرت اور تعجب کرنا اور جعلی احادیث گھڑنے والوں کی طرف سے نقل کی گئی احادیث کو جانچنے اور پہچاننے کی صلاحیت کا فقدان جیسی چیزیں بھی غلو کے بنیادی عوامل کے طور بیان کی گئی ہیں۔[168] احمد بن علی طبرسی نے الاحتجاج میں امام رضاؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امامؑ غلو کو جہالت کا نتیجہ سمجھتے تھے۔[169]
حد سے زیادہ محبت: بہت زیادہ محبت غلو آمیز عقائد و افکار اپنانے کے عوامل میں سے ایک ہے۔[170] امام سجادؑ سے ایک روایت منقول ہے جس میں کہا گیا کہ یہودیوں کو عزیر اور عیسائیوں کو حضرت مسیح سے شدید محبت کی وجہ سے ان کو اللہ کے بیٹے قرار دیے گئے ہیں اور یہ روایت ہمارے بارے میں بھی پھیلی ہے اور کچھ لوگوں کو ہمارے بارے میں غلو آمیز رجحانات اور عقائد رکھنے کی طرف لے جایا گیا ہے۔[171]
دنیوی محرکات: حسن بن موسیٰ نوبختی نے اپنی کتاب فِرَق الشیعہ میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق امام صادقؑ کے دور میں محمد بن ابی زینب المعروف ابو الخطاب نامی ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ امام صادقؑ خدا ہیں اور انہوں نے مجھے پیغمبری کا عہدہ دیا ہے، اس نے اپنے اس غلو آمیز عقیدے کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو اپنا حامی بنالیا۔[172] کہا جاتا ہے کہ لوگ بھی ایسے ماحول کی تلاش میں تھے جس میں گناہوں کے ارتکاب کے لیے کوئی شرعی جواز نکل آئے جس کے مطابق واجبات کو ترک کردیں اور محرمات کو انجام دیں تاکہ ان کی عیش و عشرت کو شرعی جواز حاصل ہو۔[173] اس کی ایک اور مثال امام حسن عسکریؑ کی ایک روایت میں بیان کی گئی ہے جس میں آپ نے اپنے عہد کے دو غالی لوگوں محمد بن نصیر فہری اور حسن بن محمد قمی کو حیلہ گر اور مکار کے طور پر متعارف کرایا جو اپنے غلو آمیز عقائد و افکار کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کی جائیدادیں ہتھیاتے تھے۔[174]
آلہ کاری: صالحی نجف آبادی کے مطابق بعض غالیان اپنے منحرف عقائد اور غلو آمیز افکار کو احادیث کی شکل میں پیش کرتے تھے اور انہیں ائمہ معصومینؑ سے منسوب کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کو اپنا آلہ کار بنا کر ان کو ائمہ کے حامی ظاہر کرنے پر مامور کرتے تھے، یہ لوگ اصحاب ائمہؑ کو اعتماد میں لینے کے بعد ان کی حدیثی کتابیں مستعار لیتے اور اپنی جعلی احادیث کو ان میں داخل کرتے تھے۔ اب اس کے بعد اصحاب ائمہؑ کی کتابیں ان کو واپس کرتے اور اپنی جعلی احادیث داخل کی ہوئی کتابیں لوگوں میں منتشر کرتے تھے اس طرح غلو آمیز احادیث عام طور پر رائج ہوتی تھیں۔[175] بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ یہودیت اور عیسائیت کے پیروکاروں کی طرف سے، جو خود غلو آمیز افکار کے حامل تھے، انحراف پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہونا ان عوامل میں سے ایک ہے جو اسلام میں غالیانہ افکار و عقائد کے ظہور کا باعث بنا۔[176]
افسانہ سازی کا احساس: افسانہ سازی اور ہیرو پرستی ان عوامل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے کچھ مذہبی اور قومی ہیروز کے بارے میں غلو آمیز کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔[177] اندھے تعصبات: اس طرح کے تعصبات مختلف معاشروں خصوصاً مسلمانوں میں غلو آمیز افکار کی پیدائش کا ایک اہم سبب رہے ہیں۔[178]

کتابیات
غلو کے بارے میں لکھی گئی کچھ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

غلو؛ درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین، مصنف؛ نعمت‌اللہ صالحی نجف‌آبادی: یہ کتاب ایک مقدمہ اور دو ابواب پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اس کتاب کے پہلے باب میں غلو کی تعریف، دنیائے اسلام میں اس کی پیدائش کے علل و اسباب اور غلو آمیز عقائد و افکار کے چند نمونے پیش کیے ہیں۔[179] اس کتاب کے دوسرے باب میں اہل بیتؑ کے حوالے سے غلو کا مرتکب ہونے والے تین گروہوں؛ اہل بیتؑ کے دشمن، وہ محبان جو افراطی حد تک اہل بیتؑ کو مانتے ہیں اور تیسرا گروہ وہ جو آزادانہ خیال اور عیش و عشرت کے لیے غلو آمیز عقائد اپناتا ہے؛ کی تفصیل بیان کی ہے۔[180]
غلو؛ حقیقت و اقسام آن، مولف، سید کمال حیدر: ماہیت غلو کی بحث، اس کی پیدائش اور تاریخٰ پس منظر، غالیوں کا اہل بیتؑ کے بارے میں نظریہ، اہل بیتؑ کی غالیوں کے بارے میں احادیث اس کتاب کے اہم حصے ہیں جن کے بارے میں مصنف نے تحلیل کی ہے اور ان کاجائزہ لیا۔[181]
غالیان؛ کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا، مصنف، نعمت‌ اللہ صفری فروشانی: اس کتاب کے چار ابواب ہیں۔ پہلے باب میں کلیات اور غلو کی تعریف، تاریخچہ اور اس کی پیدائش کے علل و اسباب پر بحث ہوئی ہے۔ دوسرا باب غالیوں اور مختلف غالی فرقوں کے بارے میں ہے۔ تیسری فصل میں عقیدہ و عمل کے آئینے میں غلو پر بحث کی ہے۔ اور اس کے دوسرے حصے میں غالیوں سے مختص عقائد اور ان کے شیعوں کے ساتھ مشترک عقائد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھے باب کا عنوان "شیعہ تاریخ پر غلو کے اثرات" ہے۔[182]
حوالہ جات
 ابن‌عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج4، ص330.
 شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص109.
 طریحی، مجمع البحرین، ذیل مادہ «غلا».
 سورہ نساء، آیہ 171؛ سورہ مائدہ، آیہ 77.
 احمد بن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج2، ص427؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت 469، ص558؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، 438.
 ملاحظہ کریں: شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص97؛ شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص109؛ ابن‌تیمیہ، منہاج السنۃ، 1406ھ، ج2، ص435.
 صفری فروشانی، «جریان‌شناسی غلو»، ص114.
 رضایی، «تأملی در غلو»، ص106.
 رضایی، «تأملی در غلو»، ص106.
 ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص203 و 220.
 ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص80 و ج30، ص102.
 ملاحظہ کریں: علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346؛ صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346.
 طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج5، صص149 و ج6، ص69.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص286؛ ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ھ، ج2، ص426.
 شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص210.
 ملاحظہ کریں: صفری فروشانی، غالیان (کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص143.
 صفری فروشانی، غالیان (کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص143.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346.
 ملاحظہ کریں: شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص100-101؛ صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306-307.
 شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص100-101.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346؛ صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306.
 غفار، شبہۃ الغلو عند الشیعۃ، 1415ھ، ص129.
 بغدادی، الفرق بین الفرھ، 1977م، ص255.
 اسفراینی، التبصیر فی الدین، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، ص32.
 طعیمۃ، الغلو و الفرق الغالیۃ بین الاسلامیین، 2009ء، ص227؛ غفار، شبہۃ الغلو عند الشیعۃ، 1415ھ، ص129.
 غفار، شبہۃ الغلو عند الشیعۃ، 1415ھ، ص129.
 حیدری، غلو، حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص13.
 طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص453.
 طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص453.
 طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص453؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج12، ص275.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346.
 ملاحظہ کریں: طعیمۃ، الغلو و الفرق الغالیہ بین الاسلامیین، 2009ء، ص241؛ صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص143.
 مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ھ، ج4، ص184.
 مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ھ، ج4، ص184.
 ملاحظہ کریں: امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، ج1، ص23.
 صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص101.
 ملاحظہ کریں: اشعری، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، 1400ھ، ص9؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، 1364ہجری شمسی، ج1، ص209.
 اشعری قمی، المقالات و الفرھ، 1360ہجری شمسی، ص46-47؛ صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص101.
 بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص201؛ مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398ہجری شمسی، ص60.
 نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص29؛ اشعری، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، 1400ھ، ص19.
 نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص62.
 نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص62-63؛ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج7، ص15.
 صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306.
 شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص360.
 صفری فروشانی، «جریان‌شناسی غلو»، ص122.
 شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص360.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص35.
 شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص135.
 شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص136.
 حیدری، غلو، حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص37.
 طباطبایی، «رسالۃ فی علم النبی(ص) و الامام(ع) بالغیب»، ص47؛ صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص35.
 شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص67.
 حیدری، غلو، حقیقت و اقسام، 1391ہجری شمسی، ص37.
 شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص131-134.
 نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص83.
 نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص29.
 ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دارالمعرفۃ، ج3، ص86؛ نیشابوری، صحیح مسلم، دار إحیاء التراث العربی، ج7، ص116؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج10، ص263.
 خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج10، ص263.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص42.
 حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دارالمعرفۃ، ج3، ص86.
 فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج21، ص433؛ سکتواری، محاضرۃ الاوائل، 1398ھ، ص168.
 ملاحظہ کریں: شفیعی شاہرودی، گزیدہ‌ای جامع از الغدیر، 1430ھ، ص733؛ صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص39-40.
 ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص103-195؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج5، ص503؛ نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص52.
 ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص71-101.
 ملاحظہ کریں: بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص201؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج12، ص526.
 سورہ انفطار، آیہ 8.
 بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص201.
 فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج12، ص526.
 فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج12، ص526.
 ملاحظہ کریں: حقی برسوی، تفسیر روح البیان، دار الفکر، ج10، ص139؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج8، ص49.
 امینی، الغدیر، 1416ھ، ج8، ص48-49.
 امینی، الغدیر، 1416ھ، ج8، ص49.
 سورہ الحاقہ، آیہ 17.
 حقی برسوی، تفسیر روح البیان، دار الفکر، ج10، ص139.
 حقی برسوی، تفسیر روح البیان، دار الفکر، ج10، ص139.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص42.
 مشکور، تاریخ شیعہ و فرقہ ہای اسلامی تا قرن چہارم ہجری، 1379ہجری شمسی، ص154.
 مشکور، تاریخ شیعہ و فرقہ ہای اسلامی تا قرن چہارم ہجری، 1379ہجری شمسی، ص154.
 احمدی، ««غالیان و اندیشہ تحریف قرآن»، ص194-195.
 احمدی، ««غالیان و اندیشہ تحریف قرآن»، ص220.
 اسد حیدر، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، 1422ھ، ص80-81.
 قاسمی، قواعد التحدیث، 2006ء، ص250.
 قاسمی، قواعد التحدیث، 2006م، ص241.
 سیوطی، تنویر الحوالک، مکتبۃ المشہد الحسینی، ص7-8؛ صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص31.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص59.
 غفاری، «مقدمہ»، در کتاب الکافی، 1407ھ، ج1، ص25.
 علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1389ہجری شمسی، ج1، ص22.
 نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج3، ص533.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص59-61.
 برای نمونہ نگاہ کنید بہ اسد حیدر، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، 1422ھ، ج1، ص316؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص127 و 137 و 170 و 195.
 اسد حیدر، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، 1422ھ، ج1، ص316.
 امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص128.
 ابوزہرہ، ابوحنیفہ، حیاتہ و عصرہ-آرائہ و فقہہ، دار الفکر العربی، ص7.
 ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص127 و 137 و 170 و 195.
 ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص127 و 137 و 170 و 195.
 امینی، الغدیر، 1416ھ، ج11، ص195.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص317.
 ابن عبد ربہ، عقد الفرید، 1407ھ، ج2، ص250.
 ملاحظہ کریں: مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ھ، ج4، ص184؛ صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص317.
 امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، ج1، ص23.
 امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، ج1، ص23.
 عراقی، الفرق المفترقۃ بین اہل الزیغ و الزندقۃ، 1961م، ص30.
 ابن‌تیمیہ، منہاج السنۃ، 1406ھ، ج6، ص187.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص318.
 طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج6، ص325؛ صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج1، ص382.
 قمیصی، الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ، 1402ھ، ج1، مقدمہ، ص «ح».
 ملاحظہ کریں: اشعری قمی، المقالات و الفرھ، 1360ہجری شمسی، ص47-48.
 شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص304.
 ملاحظہ کریں: جاراللہ، الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ، 1403ھ، ص92-93 و 118؛ قمیصی، الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ، 1402ھ، ج1، مقدمہ «ب» و «و»؛ شیبی، الصلۃ بین التصوف و التشیع، 1982م، ج1، ص121.
 ملاحظہ کریں: امین، نقض الوشیعۃ، 1403ھ، ص375-376 و 406-410.
 ملاحظہ کریں: مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398ہجری شمسی، ص73-75 و 227-228.
 ملاحظہ کریں: کدیور، «قرائت فراموش‌شدہ»، ص576.
 مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398ہجری شمسی، ص73-74.
 شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص247.
 برای نمونہ نگاہ کنید بہ کدیور، «قرائت فراموش‌شدہ»، ص576-578.
 انصاری، «علمای ابرار؛ دیدگاہی کہ ہیچ مستندی تاریخی ندارد»، سایت کاتبان.
 ملاحظہ کریں: رضایی، صفری فروشانی، «تبیین معنایی اصطلاح علمای ابرار با تأکید بر جریانات فکری اصحاب ائمہ»، ص77.
 ملاحظہ کریں: نجاشی، رجال النجاشی، 1407ھ، ص156؛ خویی، معجم رجال الحدیث، 1409ھ، ج20، ص149-150.
 مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398ہجری شمسی، ص63-64.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص339.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص339-340.
 شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص512.
 نجاشی، رجال النجاشی، 1407ھ، ص42.
 حائری، منتہی المقال، 1416ھ، ج3، ص49-53؛ مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج22، ص227.
 خویی، معجم رجال الحدیث، 1409ھ، ج20، ص150.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص345.
 صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص345.
 ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص224؛ شیخ صدوھ، خصال، 1362ہجری شمسی، ج2، ص402.
 ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت 469، ص558؛ شیخ صدوھ، عیون اخبار الرضا، 1404ھ، ج1، ص116؛ احمد بن حنبل، مسند، 1416ھ، ج1، ص 215.
 احمدی کچایی، «بررسی چگونگی تقابل ائمہ با جریان‌ہای غالیانہ از آغاز تا دورہ امام صادق»، ص103.
 احمدی کچایی، «بررسی چگونگی تقابل ائمہ با جریان‌ہای غالیانہ از آغاز تا دورہ امام صادق»، ص103-104.
 شیخ صدوھ، خصال، اور1362ہجری شمسی، ج2، ص402.
 شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص224.
 شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج2، ص302.
 حرعاملی، اثبات الہداۃ، 1425ھ، ج3، ص746.
 حر عاملی، اثبات الہداۃ، 1425ھ، ج3، ص751.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص370؛ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص191-192.
 ملاحظہ کریں: صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص361؛ مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398ہجری شمسی، ص83-84.
 مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398ہجری شمسی، ص83.
 شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص97.
 شیخ صدوھ، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص190.
 جباری، مکتب حدیثی قم، 1384ہجری شمسی، ص393-394.
 رضایی، «تأملی در معنای غلو»، ص104.
 کاشف الغطاء، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، 1420ھ، ج2، ص355 و ج4، ص199.
 حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص386.
 شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ص97؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص80؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج6، ص325.
 صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، ج3، ص306؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج1، ص382.
 صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306.
 شیخ انصاری، کتاب الطہارۃ، 1415ھ، ج5، ص150؛ حکیم، مستمسک فی شرح العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص386.
 حکیم، مستمسک فی شرح العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص386.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص19.
 صفری فروشانی، غالیان (کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص31-33.
 شیبی، الصلۃ بین التصوف و التشیع، 1982م، ص133؛ رضوی، «پژوہشی پیرامون غلو و جریان غالی‌گری در شیعہ»، ص42.
 ولوی، تاریخ کلام و مذاہب اسلامی، 1394ہجری شمسی، ص72-73؛ شیبی، تشیع و تصوف تا آغاز سدہ دوازدہم ہجری، ترجمہ علیرضا ذکاوتی، 1387ہجری شمسی، ص20.
 ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1363ہجری شمسی، ج7، ص50-51.
 شیبی، الصلۃ بین التصوف و التشیع، 1982م، ص132.
 شیبی، الصلۃ بین التصوف و التشیع، 1982م، ص132.
 جعفریان، «بررسی چند روایت تاریخی در باب غالیان عصر خلافت امام علی(ع)»، ص25.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، 64.
 ملاحظہ کریں: بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص452؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج79، ص91.
 بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص452؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج79، ص91.
 شیخ مفید، الفصول المختارہ، 1413ھ، ص240.
 بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص566؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص207.
 ملاحظہ کریں صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص77-78؛ حیدری، غلو، حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص21-25.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص77؛ حیدری، غلو، حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص21.
 اسدحیدر، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، 1422ھ، ج1، ص234.
 حیدری، غلو، حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص24.
 طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص489.
 رضوی، «پژوہشی پیرامون غلو و جریان غالی‌گری در شیعہ»، ص47.
 شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص120.
 نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص44.
 صالحی نجف‌آبادی، غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص102-103.
 علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص317؛ حیدری، غلو، حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص23-24.
 صالحی نجف‌آبادب، غلو؛ درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین، 1384ہجری شمسی، ص11-12.
 «غلات از دیدگاہ شیخ مفید»، سایت پرتال جامع علوم انسانی.
 حاجی‌زادہ و دیگران، «ریشہ‌ہا و علل پیدایش غلو در عصر ائمہ(ع)»، ص114.
 حاجی‌زادہ و دیگران، «ریشہ‌ہا و علل پیدایش غلو در عصر ائمہ(ع)»، ص118.
 ملاحظہ کریں: صالحی نجف‌آبادی، کتاب غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص19-68.
 صالحی نجف‌آبادی، کتاب غلو (درآمدی بر افکار و عقاید غالیان در دین)، 1384ہجری شمسی، ص76-77.
 حیدری، غلو؛ حقیقت و اقسام آن، 1391ہجری شمسی، ص5-6.
 صفری، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص7-16.
 حلول کے معنی ہی ہیں خدا کی روح یا س کا ایک حصہ کسی شخص میں حلول کرنا؛ مثلا کسی نبی یا امام میں اس طرح سے خدا حلول کرجائے کہ وہ دونوں ایک ہوجائیں۔(صفری فروشانی، غالیان؛ کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا، 1378ہجری شمسی، ص183-184).
 «ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلَیٰ مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ تَنَزَّلُ عَلَیٰ کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ؛ کیا میں تمہیں خبر دوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟ ہر جھوٹے بدکار پر اترتے ہیں» (سورہ شعراء، آیات 222-223).
مآخذ

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک