امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

انبیاء کی تعداد، معجزات، مقام اور شریعت؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

سوره انبیا

یہ مقالہ انبیاء کی تعداد، معجزات، مقام اور شریعت کے بارے میں ہے

انبیا کو خدا اپنی طرف لوگوں کو دعوت دینے کیلئے انتخاب کرتا ہے اور خدا وحی کے ذریعے ان کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے۔ معصوم ہونا، غیب کا علم رکھنا، معجزہ اور خدا سے وحی کو حاصل کرنا انکی خصوصیات میں سے ہے۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم کیلئے آگ کے سرد ہونے، عصائے موسی کے اژدہا میں تبدیل ہونے اور حضرت عیسی کے ہاتھوں مردوں کے زندہ ہونے اور قرآن پاک جیسے معجزات کو انبیا کے معجزات کے طور پر ذکر کیا ہے۔

فضیلت کے لحاظ سے انبیا کے مراتب مختلف ہیں۔بعض انبیا مقام نبوت کے ساتھ رسالت اور بعض اس کے ساتھ ساتھ امامت کے عہدے پر فائز تھے۔ روایات کی روشنی میں اولی العزم انبیا (نوح، ابراہیم، موسی، عیسی و محمد علیہم السلام) دیگر پیغمبروں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح انبیا میں سے حضرت شیث، حضرت ادریس، حضرت موسی، حضرت داؤد، حضرت عیسی اور آخری نبی حضرت محمد صاحب شریعت ہیں۔ مشہور قول کی بنا پر انبیا کی کل تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار(124,000) ہے اور ان میں سے 25,انبیا کے اسما قرآن مجید میں مذکور ہوئے ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام پہلے اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آخری نبی ہیں۔ شیعہ علما نے انبیا کی تاریخ اپنی کتب میں ذکر کی اور ان کے متعلق جداگانہ کتابیں بھی لکھی ہیں۔ النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، تالیف سید نعمت اللہ جزائری، قصص الانبیاء، مؤلف راوندی، تنزیہ الانبیاء اثر سید مرتضی اور حیات القلوب تالیف علامہ مجلسی ان کتب میں سے ہیں۔
پیغمبر

پیامبر یا نبی کسی واسطے کے بغیر خدا سے خبر دیتا ہے[1] اور وہ خدا اور اسکی مخلوق کے درمیان واسطہ ہوتا ہے نیز وہ مخلوق خدا کو خدا کی طرف بلاتا ہے۔[2]

وحی حاصل کرنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا، علم غیب رکھنا،[3] اور معصوم ہونا[4] پیغمبروں کی خصوصیات ہیں۔ اکثر متکلمین معتقد ہیں کہ انبیا زندگی کے تمام مراحل میں گناہ و خطا سے معصوم‌ ہیں؛[5] اسی لئے قرآن میں جہاں انبیا کے استغفار اور خدا کی طرف سے ان کی بخشش کا ذکر ہوا ہے ،[6] جیسے مصری شخص کا حضرت موسی کے ہاتھوں قتل،[7] حضرت یونس کا رسالت کو چھوڑنا[8] حضرت آدم کا ممنوعہ پھل کھانا[9] وغیرہ کو ترک اولی سےتفسیر کی ہے۔ ان کے مقابلے میں کچھ متکلمین انبیا کو صرف نبوت سے مربوط امور میں معصوم سمجھتے ہیں۔اور زندگی کے دیگر امور میں وہ سہو النبی کے قائل ہیں۔[10]
انبیا کے نام اور تعداد

انبیا کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔علامہ طباطبایی کے مطابق انبیا کی تعداد کے متعلق مشہور روایت ایک لاکھ چوبیس ہزار کی ہے۔[11] اس روایت کے مطابق ۳۱۳ رسول، ۶۰۰ بنی اسرائیل کے انبیا اور چار انبیاء (ہود، صالح، شعیب و محمدؐ ) عرب ہیں۔[12] دیگر بعض روایات میں انبیا کی تعداد ۸ہزار،[13] 3 لاکھ 20 ہزار، [14] اور 1 لاکھ 44 ہزار [15] نیز مذکور ہوئی ہے۔ علامہ مجلسی نے احتمال دیا ہے کہ ۸ ہزار کا عدد بزرگ پیغمبروں سے مربوط ہے۔[16] پہلے پیغمبر حضرت آدم[17] اور آخری پیغمبر حضرت محمدؐ ہیں۔[18]

قرآن نے چند پیغمبروں کے نام لئے ہیں۔[19] آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، الیسع، ذوالكفل، الیاس، یونس، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسی، ہارون، داوود، سلیمان، ایوب، زكریا، یحیی، عیسی اور محمد ان اسما میں سے ہیں جو قرآن میں مذکور ہوئے ہیں۔[20] بعض مفسرین معتقد ہیں کہ اسماعیل بن حزقیل[نوٹ 1] نیز در قرآن آمدہ است.[21]

کہا گیا ہے کہ قرآن نے بعض انبیا کے ناموں کی بجائے ان کے اوصاف جیسے عزیر، ارمیا اور شموئیل ذکر کئے ہیں۔[22] قرآن کریم کے ایک سورے کا نام انبیاء ہے نیز بعض سوروں کے نام انبیا کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جیسے یونس، ہود، یوسف، ابراہیم، محمد و نوح۔

روایات میں شیث،[23] حزقیل،[24] حبقوق،[25]دانیال،[26] جرجیس،[27]عزیر،[28]حنظلہ[29] و ارمیا [30] انبیا کے نام سے ذکر ہوئے ہیں۔ حضرت خضر،[31] خالد بن سنان[32] اور ذی القرنین[33] کے نبی ہونے میں اختلاف ہے۔

قرآنی آیات کی بنا پر ایک زمانے میں ایک سے زیادہ نبی بھی رہے ہیں مثلا موسی ہارون[34] کے زمانے اور ابراہیم لوط[35] ایک ہی زمانے میں رہے۔

قرآن میں انبیاء کا تذکرہ
نام تکرار عہدین میں نام نبی رسول امام کتاب قوم مدفن شریعت
آدم 17 Adam           نجف  
ادریس 2 Enoch نبی[36]         آسمان پر[37]  
نوح 43 Noah نبی[38] رسول[39]       نجف ہاں[40]
ہود 7 Eber   رسول[41]     عاد[42] نجف  
صالح 9     رسول[43]     ثمود[44] نجف  
ابراہیم 69 Abraham نبی[45] رسول[46] امام[47] صُحُف[48]   الخلیل (فلسطین) ہاں[40]
لوط 27 Lot نبی[38] رسول[49]       فلسطین  
اسماعیل 11 Ishmael نبی[50]         مسجدالحرام  
اسماعیل (صادق الوعد) 1   نبی[51]            
اسحاق 17 Isaac نبی[52]   امام[53]     الخلیل (فلسطین)  
یعقوب 16 Jacob نبی[52]   امام[53]     جامع الخلیل (فلسطین)  
یوسف 27 Joseph نبی[38]       بنی‌اسرائیل جامع الخلیل (فلسطین)  
ایوب 4 Job نبی[38]         حوران  
شعیب 11 Jethro, Reuel, Hobab   رسول[54]     مدین[55] بیت المقدس  
موسی 136 Moses نبی[56] رسول[56]   تورات[57] فرعونیان[58] و بنی اسرائیل[59] اطراف بیت المقدس ہاں[40]
ہارون 19 Aaron نبی[60] رسول[61]     فرعونیان[62] و بنی اسرائیل[63] اطراف طور سینا  
ذوالکفل 2 Ezekiel           کوفہ اور حلہ کے درمیان  
داود 16 David نبی[38]     زبور[64]   بیت المقدس  
سلیمان 17 Solomon نبی[38]         بیت المقدس  
الیاس 2 Elijah (Elias) نبی[38] رسول[65]       آسمان پر  
الیسع 2 Elisha نبی[38]         دمشق  
یونس 4 Jonah نبی[38] رسول[66]       کوفہ  
زکریا 7 Zechariah نبی[38]         بیت المقدس  
یحیی 5 John the Baptist نبی[67]         مسجد اموی، دمشق  
عیسی 25 Jesus نبی[68] رسول[69]   انجیل[70] بنی اسرائیل[71] عروج بہ آسمان ہاں[40]
حضرت محمدؐ 4   نبی[72] رسول[73]   قرآن[74] تمام لوگ[75] مدینہ ہاں[40]

 

درجات اور مراتب

سورہ اسراء کی 55ویں آیت [نوٹ 2] کے پیش نظر انبیا مقام و منزلت میں یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض پر فضیلت اور برتری رکھتے ہیں۔ احادیث میں مقام پیغمبر اکرمؐ دیگر تمام انبیا سے برتر ہے۔[76] یہودیوں کی نگاہ میں بنی‌ اسرائیل کے انبیا دوسرے انبیا پر فضیلت رکھتے ہیں اور ان میں سے حضرت موسی دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔[77]
اولوالعزم

علامہ طباطبایی کے نزدیک احقاف کی ۳۵ ویں آیت میں شریعت مراد ہے اور اولوالعزم سے صاحب شریعت پیغمبر مراد ہیں۔ ان کی نظر میں پانچ پیغمبر (نوح، ابراہیم، موسی، عیسی و محمد) اولوالعزم نبی ہیں۔[78] بعض قائل ہیں کہ اولوالعزم صاحبان شریعت انبیا میں منحصر نہیں ہیں۔[79] روایت کی بنا پر اولوالعزم پیغمبر دوسرے انبیا پر فضیلت رکھتے ہیں۔[80]
مقام رسالت

مشہور قول کی بنا پر نبی کا مفہوم رسول سے زیادہ وسیع ہے اس بنا پر ہر رسول نبی ہے لیکن بعض انبیا رسول نہیں ہیں۔[81] ایک حدیث کی بنا پر انبیا میں سے ۳۱۳ رسول تھے۔[82]

رسول اور نبی کے درمیان فرق:

    رسول بیداری اور خواب میں وحی حاصل کرتا ہے لیکن نبی صرف خواب میں وحی دریافت کرتا ہے۔[83]
    رسول پر وحی جبرئیل کے ذریعے ابلاغ ہوتی ہے جبکہ نبی دوسرے فرشتوں کے ذریعے یا قلبی الہام یا سچے خواب کی صورت میں قبول کرتا ہے۔[84]
    رسول مقام نبوت کے ساتھ ساتھ اتمام حجت کا بھی حامل ہوتا ہے۔[85]
    رسول صاحب شرعیت ہوتا ہے اور احکام وضع کرتا ہے لیکن نبی صرف محافظ شریعت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ طبرسی نے اس قول کو حاحظ سے منسوب کیا ہے[86] البتہ طبرسی جیسے بعض مفسرین نبی اور رسول کے مترادف سمجھتے ہیں۔[87]

مقام امامت

آیت ابتلائے ابراہیم کی بنا پر بعض انبیا مقام امامت کے عہدے پر بھی فائز تھے۔[88] بعض روایات میں مقام امامت کو مقام نبوت پر فوقیت دی گئی ہے کیونکہ یہ مقام حضرت ابراہیم کو نبوت عطا کرنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں عطا کیا گیا۔[89] سورہ انبیاء میں حضرت ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور لوط کو امام کہا گیا ہے۔[90] امام صادق(ع) سے مروی ایک حدیث کے مطابق تمام اولوالعزم انبیا مقام امامت پر بھی فائز تھے۔[91]
فرشتوں پر برتری

شیخ مفید، امامیہ اور اہل سنت میں سے اہل حدیث انبیا کے مقام کو فرشتوں سے برتر سمجھتے ہیں لیکن اکثر معتزلہ فرشتوں کو انبیا سے افضل سمجھتے ہیں۔[92] بعض احادیث پیامبر ختمی مرتبت اور ائمہ اثنا عشر کو فرشتوں پر فضیلت دیتی ہیں۔[93]
کتاب اور شریعت

انبیا میں سے بعض صاحبان شریعت تھے۔ آیات قرآنی کے مطابق زبور کتاب حضرت داوود[94]، تورات کتاب حضرت موسی[نوٹ 3]، انجیل کتاب حضرت عیسی[95] اور قرآن کتاب حضرت محمد(ص)[96] ہے۔ قرآن نے حضرت ابراہیم کیلئے کتاب کا نام نہیں لیا لیکن «صُحُف» کے ان کیلئے استعمال کیا ہے۔[97] اسی طرح ایک حدیث کی بنا پر خداوند نے ۵۰ صحیفے حضرت شیث، ۳۰ صحیفے حضرت ادریس اور ۲۰ صحیفے حضرت ابراہیم کیلئے بھیجے۔[98]

مفسروں نے سورہ شوری، آیہ۱۳[نوٹ 4] کے پیش نظر حضرت نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد کو صاحبان شریعت انبیا کہا ہے۔[99] بعض روایات میں انبیا کے اولوالعزم ہونے کی علت صاحب شریعت بیان ہوئی ہے۔[100]

علامہ طباطبایی نے کہا ہے کہ اولوالعزم انبیا میں سے ہر ایک صاحب شریعت نبی تھا۔[101] نیز وہ معتقد ہیں کہ حضرت داوود،[102] شیث اور حضرت ادریس،[103] جیسے غیر اولوالعزم انبیا کا صاحب کتاب ہونا اولالعزم انبیا کے صاحب شریعت ہونے کے ساتھ کسی قسم کا منافات نہیں رکھتا ہے کیونکہ غیر اولوالعزم انبیا پر نازل ہونے والی کتابیں احکام اور شریعت پر مشتمل نہیں تھیں۔[104]
معجزات

معجزہ کے ذریعے نبوت کے سچے دعویداروں کو نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے جدا کیا جاتا ہے۔ معجزہ وہ غیر معمولی کام ہے جو خدا کی جانب سے پیغمبر کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور وہ ادعائے نبوت اور تحدی کے ساتھ ہوتا ہے۔[105] قرآن نے پیغمبروں کے بعض معجزات ذکر کئے ہیں جیسے ناقہ صالح،[106] حضرت ابراہیم کیلئے ٓگ کا ٹھنڈا ہونا،[107] حضرت ابراہیم کے ہاتھوں چار پرندوں کا زندہ ہونا،[108] حضرت موسی کے نو معجزے جن میں عصا کا اژدہا میں تبدیل ہونا،[109] فرزندان بنی‌اسرائیل کیلئے بارہ چشموں کا جاری ہونا،[110] بنی‌اسرائیل کی نجات کیلئے دریا کا شگافتہ ہوتا،[111] ید بیضا،[112] حضرت عیسی کے معجزات حضرت عیسی جیسے بیماروں کو شفا دینا، مردوں کو زندہ کرنا، گیلی مٹی کا پرندہ میں تبدیل ہونا،[113] اور معجزات پیغمبر اکرم جیسے قرآن کریم[114] اور شق القمر[115] انبیا کے مشہور معجزات میں سے ہیں کہ جن کی طرف قرٓن نے اشارہ کیا ہے۔ ابن جوزی کے مطابق اسلامی مصادر نے رسول اکرم کے ۱۰۰۰ معجزے ذکر کئے ہیں۔[116]

مختلف زمانے میں لوگوں کی احتیاج اور ان کی معلومات کے متفاوت ہونے کی وجہ سے معجزوں میں بھی تفاوت پایا جاتا ہے۔ حکمت الہی نبی کے مخاطبین کی ضرورت اور اس کے مناسب معجزے کا اقتضا کرتی ہے۔ نمونے کے طور پر حضرت موسی کے زمانے میں جادو و سحر رواج رکھتا تھا لہذا خداوند نے موسی کا معجزہ عصا کو قرار دیا تا کہ جادوگر اس جیسا پیش کرنے سے قاصر ہوں اور دوسروں پر خدا کی حجت تمام ہو۔[117]
ارہاصات

متکلمین کی اصطلاح میں بعثت انبیا سے پہلے رونما ہونے والے غیر معمولی واقعات کو ارہاصات کہا جاتا ہے۔ ان کے ظاہر ہونے کا ہدف یہ ہے کہ بعثت انبیا کے بعد لوگ ان جیسے واقعات رونما ہونے کی صورت میں قبول کرنے میں کسی قسم کی پس و پیش سے کام نہ لیں گویا ارہاصات لوگوں کو غیر معمولی افعال قبول کرنے کی تیاری اور آمادہ کرنے کی غرض سے انجام پاتے ہیں۔ [118] دریائے نیل سے حضرت موسی کا نجات پانا،حضرت عیسی کا گہوارے میں بات کرنا،[119] ایران کی سر زمین پر دریاچہ ساوہ کا خشک ہونا، محلات کسری کا لرزنا، آتشکدہ فارس کا خاموش ہونا اور رسول اللہ کی ولادت کے موقعہ پر رونما ہونے والے واقعات[120] کو پیغمبروں کے ارہاصات میں سے گنا جاتا ہے۔
کتاب‌شناسی

مسلمان محدثین، مفسرین اور متکلمین نے اپنے آثار میں انبیا کے متعلق مطالب ذکر کئے ہیں۔علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار کی چار جلدیں انبیا سے متعلق روایات[121] اور بحار الانوار کی نو(۹) جلدیں پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ سے مخصوص کی ہیں۔[122] اسی طرح انبیا کے متعلق جداگانہ کتابیں بھی تالیف کی گئی ہیں کہ جن میں سے اکثر قصص انبیا کے عنوان کے تحت طبع ہوئیں۔ ان میں اکثر انبیا کے حالات زندگی اور گاہے ان سے مربوط عقائدی ابحاث بیان ہوئی ہیں۔ان میں سے چند کے اسما درج ذیل ذکر کئے جاتے ہیں:

    النّورُ المُبین فی قِصَص الاَنْبیاءِ وَ المُرْسَلین: یہ کتاب سید نعمت اللہ جزائری (۱۰۵۰-۱۱۱۲ق) کی تالیف ہے۔ یہ شیعہ روایات میں مذکور ہونے والے انبیا کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔مصنف نے کتاب کے مقدمے میں تعداد انبیاء، ان میں مشترک پائی جانے والی اشیا، اولوالعزم انبیا اور نبی اور امام کے درمیان فرق جیسی ابحاث ذکر کی ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی اور فارسی زبان میں «داستان پیامبران یا قصہ‏‌ہای قرآن از آدم تا خاتم» کے نام سے ترجمہ ہو کر طبع ہوئی۔
    قصص الانبیا راوندی؛ یہ کتاب قطب الدین راوندی کی تالیف ہے۔مصنف نے اس کتاب میں ترتیب زمانی کے لحاظ سے انبیا کے حالات ذکر کئے ہیں۔
    تنزیہ الانبیاء و الائمۃ: سید مرتضی(۳۵۵ـ۴۳۶ق.) نے اسے انبیا کی عصمت کے اثبات کیلئے عربی زبان میں تالیف کیا۔ مصنف اس کتاب میں انبیا کو ہر قسم کی خطا، گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے معصوم سمجھتا ہے۔[123]
    وقایع السنین و الاعوام: سید عبدالحسین خاتون‌آبادی(متوفا ۱۱۰۵ق) کی تالیف ہے۔ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ انبیا کی تاریخ سے متعلق ہے۔اس حصے میں مصنف نے انبیا کے اسما، طول عمر اور بعض انبیا کے احوال ذکر کئے جبکہ دیگر دو حصوں میں رسول اللہ کے زمانے میں رونما ہونے والے واقعات بیان کئے ہیں۔ وقائع السنین کے نام سے فارسی زبان میں ترجمہ ہوئی ہے۔
    لطائف قصص الأنبياء علیہم‌السلام: سہل بن عبداللہ تستری (متوفا ۲۳۸ق) کا اثر ہے۔اس کتاب میں آیات و روایات کی روشنی میں پیغمبروں کی زندگی کے متعلق نکات بیان ہوئے ہیں۔
    حیات القلوب: علامہ مجلسی(متوفا۱۱۱۰ق) کی تالیف ہے ۔اس میں انبیا اور ان کے جانشینوں کے حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔ مجلسی نے اس کتاب میں نبوت عامہ، خلافت امام علی(ع)، وجوب وجود امام، امام کے منصوب ہونے اور عصمت کی ابحاث بھی ذکر کی ہیں۔

اسی طرح اہل سنت علما میں سے قصص الأنبياء المسمی عرائس المجالس، تالیف احمد بن محمد ثعلبی؛ قصص الانبیاء،ابن کثیر اور قصص الانبیاء اثر ابواسحاق نیشابوری بھی قابل ذکر ہیں۔
حوالہ جات

    ↑ طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۳۷۵.
    ↑ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۳۶۸ش، ج۱۲، ص۵۵.
    ↑ طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج۲، ص۴۵۹.
    ↑ مفید، عدم سہو النبی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹و۳۰؛ سید مرتضی، تنزیہ الأنبیاء، ۱۳۸۷ش، ص۳۴.
    ↑ مفید، عدم سہو النبی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹و۳۰؛ سید مرتضی، تنزیہ الأنبیاء، ۱۳۸۷ش، ص۳۴.
    ↑ دیکھیں: سورہ قصص، آیہ ۱۶؛ سورہ انبیاء، آیہ۸۷؛ سورہ طہ، آیہ۱۲۱.
    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۴۲، ۴۳.
    ↑ طباطبایی، المیزان،۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۳۱۵.
    ↑ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲، ج۷، ص۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۳، ص۳۲۳.
    ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۶۰.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۴.
    ↑ دیکھیں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۴؛ صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۳۳۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۱، ص۳۲، ج۷۴، ص۷۱.
    ↑ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۹۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۱، ص۳۱.
    ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۱، ص۶۰.
    ↑ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۲۶۳؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۶، ص۳۵۲.
    ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۱، ۳۱.
    ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۱، ص۳۲.
    ↑ سورہ احزاب، آیہ۴۰.
    ↑ سورہ نساء، آیہ۱۶۴.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۱.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۶۳.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۳۱۳.
    ↑ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۴.
    ↑ قطب راوندی، قصص الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۲۵۴۱-۲۴۲.
    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۱۶۳.
    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۴۸.
    ↑ قطب راوندی، قصص النبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۲۳۸.
    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۴۸.
    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۱۵۶.
    ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۳۷۳؛ قطب راوندی، قصص الانبیاء،۱۴۰۹ق، ص۲۲۴.
    ↑ دیکھیں: طوسی، التبیان، دار احیا التراث العربی، ج۷، ص۸۲.
    ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۴۸-۴۵۱.
    ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۴۹۵.
    ↑ سورہ مریم، آیہ۵۳.
    ↑ سورہ ہود، آیہ۷۴.
    ↑ (وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِدْرِیسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّیقًا نَّبِیا.) مریم/56
    ↑ روایات ذیل آیہ وَ رَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا (مریم/57)
    ↑ اس تک اوپر جائیں:38.0 38.1 38.2 38.3 38.4 38.5 38.6 38.7 38.8 38.9 (أُولَـٰئِكَ الَّذِینَ آتَینَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ). انعام/۸۹
    ↑ (إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ.) شعراء/107
    ↑ اس تک اوپر جائیں:40.0 40.1 40.2 40.3 40.4 (شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَینَا إِلَیكَ وَمَا وَصَّینَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَیٰ وَعِیسَیٰ.) شوری/13
    ↑ (إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ.) شعراء/125
    ↑ (وَإِلَیٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا.) اعراف/65
    ↑ (إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ.) شعراء/143
    ↑ قرآن 7:73
    ↑ (وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِبْرَاهِیمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّیقًا نَّبِیا.) مریم/41
    ↑ (أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَینَاتِ.) توبہ/70
    ↑ (وَإِذِ ابْتَلَیٰ إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّیتِی ۖ قَالَ لاینَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ.) بقره/124
    ↑ (صُحُفِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَیٰ.) اعلی/1۹
    ↑ (إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ.) شعراء/162
    ↑ (أُولَـٰئِكَ الَّذِینَ آتَینَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ.) انعام/۸۹
    ↑ (وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِسْمَاعِیلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِیا.) مریم/54
    ↑ اس تک اوپر جائیں:52.0 52.1 (فَلَمَّا اعْتزََلهَُمْ وَ مَا یعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَ یعْقُوبَ وَ كلاًُّ جَعَلْنَا نَبِیا.) مریم/4۹
    ↑ اس تک اوپر جائیں:53.0 53.1 (وَ جَعَلْنَاهُمْ أَئمَّةً یهْدُونَ بِأَمْرِنَا.) انبیاء/73
    ↑ (إِنی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِین.) شعراء/17۸
    ↑ (وَ إِلی مَدْینَ أَخَاهُمْ شُعَیبًا.) اعراف/۸5
    ↑ اس تک اوپر جائیں:56.0 56.1 (وَ اذْكُرْ فی الْكِتَابِ مُوسی إِنَّهُ كاَنَ مخُْلَصًا وَ كاَنَ رَسُولًا نَّبِیا.) مریم/51
    ↑ (إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فیها هُدی وَ نُورٌ.) مائده/44
    ↑ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَیٰ وَهَارُونَ إِلَیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآیاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِینَ.) یونس/75
    ↑ (وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا مُوسی بِآیاتِنا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَی النُّورِ وَ ذَكِّرْهُمْ بِأَیامِ اللَّه.) ابراهیم/5
    ↑ (وَ وَهَبْنا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنا أَخاهُ هارُونَ نَبِيًّا .) مریم/53
    ↑ ثُمَّ أَرْسَلْنا مُوسی وَ أَخاهُ هارُونَ بِآیاتِنا وَ سُلْطانٍ مُبین.) مؤمنون/45
    ↑ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَیٰ وَهَارُونَ إِلَیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآیاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِینَ.) یونس/75
    ↑ وَ لَقَدْ قالَ لَهُمْ هارُونُ مِنْ قَبْلُ یا قَوْمِ إِنَّما فُتِنْتُمْ بِهِ وَ إِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمنُ فَاتَّبِعُونی وَ أَطیعُوا أَمْری.)طہ/۹0
    ↑ (وَ ءَاتَینَا دَاوُدَ زَبُورًا.) اسراء/55
    ↑ (وَ إِنَّ إِلْیاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِین.) صافات/123
    ↑ (وَ إِنَّ یونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِین.) صافات/13۹
    ↑ (فَنَادَتْهُ الْمَلَئكَةُ وَ هُوَ قَائمٌ یصَلی فی الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ یبَشِّرُكَ بِیحْیی مُصَدِّقَا بِكلَِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَ سَیدًا وَ حَصُورًا وَ نَبِیا مِّنَ الصَّلِحِین.) آل عمران/3۹
    ↑ (قَالَ إِنی عَبْدُ اللَّهِ ءَاتَئنی الْكِتَابَ وَ جَعَلَنی نَبِیا.) مریم/30
    ↑ (إِنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسی ابْنُ مَرْیمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُهُ أَلْقَئهَا إِلی مَرْیم.) نساء/171
    ↑ (وَ قَفَّینَا بِعِیسی ابْنِ مَرْیمَ وَ ءَاتَینَهُ الْانجِیلَ.) حدید/27
    ↑ (وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیمَ یا بَنِی إِسْرَائِیلَ إِنِّی رَسُولُ اللَّـهِ إِلَیكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَینَ یدَی مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یأْتِی مِن بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ.) صف/6
    ↑ (ما كاَنَ محُمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِینَ.) احزاب/44
    ↑ (ما كاَنَ محَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِینَ.) احزاب/40
    ↑ (وَ كَذَالِكَ أَوْحَینَا إِلَیكَ قُرْءَانًا عَرَبِیا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَ مَنْ حَوْلهَا.) شوری/7
    ↑ (وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً.) سبأ/2۸
    ↑ صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۵۴.
    ↑ طاہری آکردی، یہودیت، ۱۳۹۰ش، ص۱۷۳.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۱.
    ↑ مصباح یزدی، راہ و راہنماشناسی، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۴.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۵.
    ↑ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۵.
    ↑ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۷ق، ج۱۱، ص۳۲، ج۷۴، ص۷۱.
    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۷۶-۱۷۷.
    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۷۶-۱۷۷.
    ↑ مصباح یزدی، راہ و راہنماشناسی، ۱۳۹۳ش، ص۵۵.
    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۱۴۴.
    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۱۴۴-۱۴۵.
    ↑ سورہ بقرہ، آیہ۱۲۴.
    ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۲۳.
    ↑ سورہ انبیاء، آیات ۶۹ تا ۷۳.
    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۷۵.
    ↑ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۹-۵۰.
    ↑ صدوق، کمال الدین، ج۱، ص۲۵۴.
    ↑ سورہ اسراء، آیہ۵۵.
    ↑ سورہ حدید، آیہ۲۷.
    ↑ سورہ شوری، آیہ۷.
    ↑ سورہ اعلی، آیہ۱۹.
    ↑ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۴.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۱.
    ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۸۰.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۱.
    ↑ سورہ نساء، آیہ۱۶۳.
    ↑ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۴.
    ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۱.
    ↑ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۵.
    ↑ سورہ اعراف، آیہ۷۳.
    ↑ سورہ انبیاء، آیہ۶۹.
    ↑ سورہ بقرہ، آیہ۲۶۰.
    ↑ سورہ شعراء، آیہ۳۲.
    ↑ سورہ بقرہ آیہ۶۰.
    ↑ سورہ شعراء، آیہ۶۳.
    ↑ سورہ اعراف: آیہ۱۰۸؛ سورہ طہ، آیہ۲۲؛ سورہ شعراء، آیہ۳۳؛ سورہ نمل، آیہ۱۲؛ سورہ قصص، آیہ۳۲.
    ↑ سورہ آل عمران، آیہ۴۹؛ سورہ مائدہ، آیہ۱۱۰.
    ↑ سورہ طور، آیہ ۳۴.
    ↑ سورہ قمر، آیہ۱.
    ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۱۲۹.
    ↑ طیب، اطیب البیان، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۴۲.
    ↑ تہانوی، موسوعۃ کشاف اصطلاحات، مکتبہ لبنان، ج۱، ص۱۴۱.
    ↑ جعفری، تفسیر کوثر، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۳۰۰.
    ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۶۸؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۸.
    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۱-۱۵.
    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۵-۲۴.
    ↑ سید مرتضی، تنزیہ الأنبیاء، ۱۳۸۷ش، ص۳۴.


    ↑ اسماعیل بن حزقیل بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ علامہ طباطبایی معتقد ہے کہ منظور قرآن از اسماعیل در آیہ «واذكُر فِى الكِتبِ اِسمعيلَ اِنَّہُ كانَ صادِقَ الوَعدِ و كانَ رَسولاً نَبيـّا» (سورہ مریم، آیہ۵۴)، کی آیت میں اسماعیل بن حزقیل مراد ہیں۔(طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۶۳).
    ↑ ہم نے بعض انبیا کو بعض پر فضیلت دی ہے
    ↑ اگرچہ قرآن نے تورات کے حضرت موسی پر نازل ہونے کی تصریح نہیں کی ہے لیکن تورات کے نزول کو خدا کی طرف سے نازل کردہ کہا ہے۔ (سورہ مائدہ، آیہ۴۴) نیز حضرت موسی پر نزول الواح کی تائید کی ہے۔(سورہ اعراف، آیہ۱۵۴) بعض مفسری ن کے مطابق الواح ہی تورات ہے۔ (طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۲۵۰).
    ↑ اس نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح(ع) کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے بذریعۂ وحی آپ(ص) کی طرف بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم(ع)، موسیٰ(ع) اور عیسیٰ(ع) کو حکم دیا تھا...

مآخذ

    ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
    بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق.
    تہانوی، محمدعلی بن علی، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، تحقیق: علی فرید دحروج، بیروت، مکتبۃ لبنان ناشرون، بی‌تا.
    جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، ہجرت، ۱۳۷۷ش.
    سید مرتضی علم الہدی، تنزیہ الأنبیاء و الأئمہ، تحقیق: فارس حسون کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۰ش/۱۴۲۲ق.
    صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
    صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش.
    صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ‌السلام، تصحیح: مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، ۱۳۷۸ق.
    صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۳ق.
    صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ق.
    طاہری آکردی، محمدحسین، یہودیت، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)، ۱۳۹۰ش/۱۴۳۲ق.
    طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق.
    طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش.
    طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، تصحیح: احمد حسینی اشکوری، تہران، مرتضوی، ۱۳۷۵ش.
    طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تصحیح: مؤسسۃ البعثہ، قم، دار الثقافہ، ۱۴۱۴ق.
    طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیا التراث العربی، بی‌تا.
    طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلام، ۱۳۷۸ش.
    فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
    قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الانبیاء، تصحیح: غلامرضا عرفانیان یزدی، مشہد، مرکز پژوہش‌ہای اسلامی، ۱۴۰۹ق.‏
    کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق.
    مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
    مصباح یزدی، محمدتقی، راہ و راہنماشناسی، بازنگری: مصطفی کریمی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، ۱۳۹۳ش.
    مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۸ش.
    مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمود محزمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
    مفید، محمد بن محمد، النکت الاعتقادیہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
    مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
    مفید، محمد بن محمد، عدم سہو النبی، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
    مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۴ش.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک