آیت مودت، اور اہل بیت رسول ؐ کی فضیلت
آیت مودت، سورہ شوری کی آیت 23 کا حصہ ہے جو اہل بیت رسول ؐ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ رسول خدا ؐ کی رسالت کا مزد و اجر اہل بیت کی مودت ہے۔
آیت مودت کا متن
ذَلِک الَّذِی یبَشِّرُ اللهُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَن یقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِیهَا حُسْنًا إِنَّ اللهَ غَفُورٌ شَکُورٌ[؟–؟]
یہ وہ بات ہے جس کی خوشخبری خدا اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کئے آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے اورجو کوئی نیک کام کرے گا ہم اسکی نیکی میں اضافہ کردیں گے یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا(اور) بڑا قدردان ہے۔
مفسرین "ذوی القربی" کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "ذوی القربی" سے مراد "علی"، "فاطمہ" اور ان کے دو فرزند "حسن" اور "حسین" علیہم السلام ہیں اور رسول خداؐ اس عبارت کو تین مرتبہ دہرایا تاکہ اذہان میں ہمیشہ کے لئے باقی اور زندہ رہے۔
شان نزول
تمام شیعہ مفسرین نے، نیز بعض سنی مفسرین نے سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرمؐ کی ہجرت مدینہ اور اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے بعد، انصار نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلامی نظام کے انتظام مذاکرات کئے اور کہا کہ "اگر اپنے نئے معاشرے کی تشکیل کے لئے اگر آپ کو مالی اور معاشی ضرورت ہے تو ہماری پوری دولت اور ہمارے تمام وسائل آپ کے اختیار میں ہیں؛ جس طرح آپ خرچ کریں اور ہمارے اموال میں جس طرح بھی تصرف کریں، ہمارے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہوگا؛ تو فرشتۂ وحی آیت مودت لے کر نازل ہوا:
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"
ترجمہ: (اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے
رسول اللہؐ نے مسلمانوں کے لئے آیت کی تلاوت فرمائی؛ اور اصحاب ایسے حال میں اٹھ کر چلے گئے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے مطیع و فرمانبردار تھے مگر منافقین نے [ اس حقیقت کا ادراک کرکے کہ یہ مودت اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور خدا نے مسلمانوں کو اہل بیت کی امامت کا پابند بنایا ہے] فوری طور پر مشتہر کیا کہ گویا یہ آیت قرآنی نہیں ہے بلکہ محمدؐ نے خود بیٹھ کر اپنے خاندان کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی غرض سے گھڑ لی ہے۔ منافقین کی اس دروغ پردازی اور افترا سازی کے بعد سورہ شوری کی آیت 24 نازل ہوئی۔
"أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّہِ كَذِباً..."
ترجمہ: کیا [منافقین و مشرکین] کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اللہ پر تہمت لگائی ہے...۔
رسول اللہؐ نے انہیں واپس بلوایا اور یہ آیت انہیں پڑھ کر سنائی تو انصار گریہ و بکاء کرنے لگے اور یہ واقعہ ان کے لئے بہت بھاری پڑا، کیونکہ بعض منافقین نے اتنی بڑی توہین کا ارتکاب کیا تھا۔ بہر حال اسی موقع پر ہی سورہ شوری کی آیت 25 نازل ہوئی: جس میں توبہ کی قبولیت کی بشارت دی گئی:
"وَہُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ"۔
ترجمہ: اور وہ وہ ہے جو اپنے بندوں سے توبہ کو قبول کرتا ہے اور معمولی برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور جانتا ہے اسے جو تم کرتے ہو۔ ۔
رسول اللہؐ نے انہیں دوبارہ بلوایا اور انہیں نوید دی کہ خداوند متعال گنہگاروں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کی دعا کو درجہ اجابت تک پہنچا دیتا ہے۔[1]۔[2]
اصطلاحات کی وضاحت
1۔ مودت:
ابن منظور و دیگر اہل لغت مادہ "ود" کے ذیل میں لکھتے ہیں: مودت کے معنی کسی چیز کی نسبت محبت رکھنے اور کسی چیز کو دوست رکھنے کے ہیں۔[3]۔[4]۔[5]
البتہ راغب اصفہانی نے لفظ مودت کے لئے مذکورہ معانی ذکر کرنے کے بعد ایک معنی یعنی "آرزو رکھنے" کا اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لفظ دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ تمنا، کسی چیز کی آرزو کرنا اور اس کو وصول یا حاصل کرنا ہے جو دوستی کے معنی پر بھی مشتمل ہے اور چاہنے اور اس چیز کے حصول کی شدید خواہش و آرزو کرنے کے معنی پر بھی جس سے محبت کی جاتی ہے۔[6] پس "ود" سے مراد کسی چیز سے محبت کرنا اور اس کی بقاء کی آرزو رکھنا، اور یہ لفظ ان دونوں میں استعمال ہوتا کیونکہ آرزو کا لفظ بذات خود آرزو کے معنی پر بھی مشتمل ہے اور آرزو اس چیز کے حصول کی طرف میل و رجحان ہے جس سے محبت کی جاتی ہے۔
2۔ قربی
اور مادہ "قرب" کے ذیل میں لکھتے ہیں: قربی در اصل مصدر اور مادہ "قرب" سے مشتق ہے اور بعض لغت نویسوں کی رائے کے مطابق قرب لفظ "بُعد" کا متضاد ہے، اسی بنا پر قرب کے معنی نزدیک ہونے اور بعد کے معنی دور ہونے کے ہیں۔ "قرب الشیئ" یعنی کسی چیز کے/سے قریب ہونا اور "القرابۃ" (قرابت) اور "القربی" سے نسب [اور خاندان] میں قربت رکھنا اور نزدیک ہونا، مراد ہے۔ [7] راغب اصفہانی اس معنی کو تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قرب جگہ، وقت، نسب، مرتبت و منزلت اور روحانی قرب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[8]
قربی کے مصادیق
آیت مودت میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ "قربی" کے مصادیق کون لوگ ہیں؟ شیعہ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت کے مصادیق اہل بیت رسول یعنی علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ اور حسینؑ کے بعد 9 ائمہ، جو ان کی اولاد میں سے ہیں۔ شیخ طوسی اور امین الاسلام طبرسی جیسے بزرگ شیعہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت مودت کا مصداق اہل بیت ہیں۔[9]۔[10]
علامہ حلی نے کتاب "نہج الحق" کی شرح میں اس آیت کو "آیۃ المودہ" کا عنوان دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حضرت علیؑ کی امامت پر دلالت کرنے والی چوتھی آیت قرآنی ہے اور اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ "آیت مودت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپ کے وہ قرابتدار جن کی مودت ہم پر واجب ہے، کون لوگ ہیں؟ اور رسول اللہؐ نے فرمایا: علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ، اور یاد رکھو کہ مودت کا وجوب اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔[11]
احادیث و روایات
شیعہ روایات
شیعیان اہل بیتؑ نے اہل بیتؑ سے منقولہ احادیث نیز اہل سنت کے منابع و مصادر سے بےشمار احادیث کے حوالے دے کر ثابت کیا ہے کہ آیت مودت کا مصداق خاندان رسول اللہؐ ہے اور یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان روایات کی تعداد 32 تک پہنچی ہے۔
مکتب اہل بیتؑ کے منابع و مصادر کو مد نظر رکھ کر ان روایات کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
اہل بیت آیت مودت کا مصداق ہیں:
حضرت امام سجاد علیہ السلام سے آیت مودت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
"ہي قرابتنا اہل البيت من محمد صلی اللہ عليہ وآلہ"
ترجمہ: وہ ہم اہل بیتؑ کی قرابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ۔[12]
اصحاہ کساء، مودت کا مصداق ہیں:
امام صادقؑ نے فرمایا: "أنہا نزلت فينا أہل البيت أصحاب الكساء"۔
ترجمہ: یہ آیت ہم اہل بیت اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[13]۔[14]
ائمۂ ہدی، آیت مودت کا مصداق ہیں:
امام صادقؑ نے فرمایا:
"عَنْ أَبِى جَعْفَرٍ عليہ السلام فِى قَوْلِہِ تَعَالَى قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبى قَالَ ہُمُ الْأَئِمَّةُ عليہم السلام"۔
ترجمہ: امام ابو جعفرؑ فرمان خداوندی "(اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے"کی تفسیر میں فرمایا: قربی کا مصداق ائمہ علیہم السلام ہیں۔[15]
واضح رہے کہ یہ سارے اقوال ایک دوسرے سے تضاد و تنافی نہیں رکھتے کیونکہ ان سب میں اہل بیت، اصحاب کساء اور ائمہ کو مصداق کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور یہ سب بہر حال ایک ہی ہیں۔
روایات اہل سنت
اس آیت کریمہ کے سلسلے میں سنی مآخذ و مصادر حدیث میں کثیر روایات و احادیث نقل ہوئی ہیں اور "القربی" کے معنی و مصادیق کو تفسیر و حدیث کی کتب میں بیان کیا گیا ہے جنہیں دیکھ کر ہر قسم کا شبہہ رفع ہوجاتا ہے۔ آیت اللہ نجفی مرعشی نوراللہ بن شريف الدين شوشتری کی کتاب پر اپنے تعلیقے میں اہل سنت کے 46 اکابرین کا نام ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اپنی اسناد سے اس آیت کریمہ کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کو نقل کیا ہے۔
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابوالقاسم حاکم حسکانی نے اس آیت کے ذیل میں 23 احادیث نقل کی ہیں، 16 احادیث اول الذکر معنی سے مطابقت رکھتی کیونکہ اس معنی میں رسول اللہؐ کے قرابتداروں کو مصداق کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور 7 احادیث میں علی، فاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کے اسماء گرامی پر تصریح کی گئی ہے۔[16]
یہاں نمونے کے طور پر اہل سنت اور شیعہ منابع سے چند حدیثیں نقل کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ "قربی" سے مراد اہل بیتؑ اور رسول اللہؐ کے خاص افراد خاندان اور اقارب ہیں:
عبداللہ بن عباس کی روایت:
احمد بن حنبل سند متصل سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:
آیت "قل لاّ اسئلکم..." نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا: آپ کے خاندان میں کن کی مودت ہم پر واجب ہے تو آپ نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند حسن اور حسین؛ اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔[17]
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان جانتے تھے کہ آیت کا مصداق خاندان نبویؐ ہے اور ان کا سوال خاندان کے خاص افراد کا تعین ہوجائے۔ آپؑ نے جواب میں اپنے خاندان کے چار افراد کا نام لیا۔ یعنی اصطلاح میں یہ روایت مقامی اطلاق پر دلالت کرتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں خاندان نبوی کے دیگر افراد اس آیت کے مصادیق میں شامل نہ تھے اور اگر اس زمانے میں خاندان کا کوئی اور فرد بھی شامل ہوتا تو آپؐ اس کا نام بھی ذکر کرتے۔
سیوطی اپنی مشہور تفسیر "درالمنثور" میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد خداوندی "قُل لاّ أسئلکم ..." کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ان تحفظوني في اہل بيتي و تودوہم بي"۔
ترجمہ: [اس آیت کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ] میرے اہل بیت میں میرے حق کا تحفظ کرو اور ان سے میری خاطر محبت کرو۔[18]
ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں ایک سند سے سعید بن جبیر سے دوسری سند سند "عمر بن شعیب" سے آیت مودت سے مراد رسول اللہؐ کے اقرباء ہیں۔[19]
اہل سنت کے مشہور مفسر حاکم حسکانی اپنی کتاب "شواہد التنزیل" میں "ابو امامہ باہلی" سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
"إن اللہ خلق الانبياء من أشجار شتى وخلقت أنا وعلي من شجرة واحدة، فأنا أصلہا وعلي فرعہا، والحسن والحسين ثمارہا، وأشياعنا أوراقہا، فمن تعلق بغصن من أغصانہا نجا، ومن زاغ ہوى ولو أن عبدا عبد اللہ بين الصفا والمروة ألف عام ثم ألف عام ثم ألف عام حتى يصير كالشن البالي ثم لم يدرك محبتنا أكبہ اللہ على منخريہ في النار. ثم تلا (قل لا أسالكم عليہ ..."
ترجمہ: خدا نے انبیاء کو مختلف درختوں سے خلق کیا اور مجھ اور امام علیؑ کو ایک درخت (شجر واحد) سے خلق کیا۔ میں اس کی جڑ ہوں، علیؑ اس کی شاخ ہیں، فاطمہ اس کی بارآوری کا سبب ہیں، اور حسنؑ اور حسینؑ اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں؛ اگر کوئی شخص اس کی شاخوں میں سے کسی شاخ سے وابستہ ہوجائے، وہ نجات یافتہ ہے اور جو ان سے انحراف کرے تو اگرچہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان ایک ہزار سال خدا کی عبادت کرے، اور اس کے بعد ایک ہزار سال عبادت کرے، پھر بھی ایک ہزار سال علیہ حتی کہ فرسودہ ہوکر سوکھی مشک کی مانند ہوجائے، لیکن ہم خاندان سے محبت نہ رکھے خداوند متعال اس کو منہ کے بل دوزخ میں پھین ک دے گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے آیت مودت کی تلاوت فرمائی۔[20]۔[21]
آیت مودت کی تفسیر
سورہ شوری کی آیت 22 میں ارشاد ہوتا ہے کہ نیکوکار مؤمنین کی پاداش بہشتی باغ اور تمام مطلوبہ مقاصد تک پہنچنا ہے جبکہ اس آیت میں اس شخصیت کے معاوضے اور اجر و پاداش کی بات ہورہی ہے جس نے کروڑوں انسانوں کو ان باغات اور اعلی مراتب تک پہنچنے کی اہلیت عطا کی ہے یعنی پیغمبر اسلامؐ۔
اگر کوئی ایک گلدستہ تحفتا کسی کو پیش کرے تو اس کے لئے شکریہ اور جزا و پاداش دینا ضروری ہے تو کروڑوں انسانیت کی نجات کی جزا کیا ہوگی؟ سورہ شعراء کی آیات 109 تا 127 میں حضرت نوح، حضرت صالح، حضرت لوط، اور حضرت شعیب علیہم السلام اور سورہ سبا کی آیت 47 میں حضرت محمدؐ ـ اور دیگر آیات کریمہ میں دیگر انبیاء کا کلام یہ ہے کہ "اور میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ نہیں ہے میرا معاوضہ کسی پر سوا پروردگار عالمیان کے "إن أجري إلاّ على اللہ"۔
البتہ شک نہیں ہے کہ انبیاء کی مراد یہ ہے کہ "ہم تم سے مادی اجرت و معاوضہ نہیں مانگتے لیکن اطاعت الہی اور تمہاری ہدایت کو چاہتے ہیں۔ کیونکہ جہاں انھوں نے سورہ شعراء میں کہا ہے کہ "ہم تم سے اجرت نہیں مانگتے" وہاں لوگوں کو تقوی اور طاعت الہی کی تلقین بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
"فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِيعُونِ"۔
ترجمہ: تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔
یعنی انبیاء اگرچہ مادی اجرت نہیں مانگتے لیکن معنوی اجرت اور لوگوں کی ہدایت کے خواہاں ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے اپنے فائدے میں ہے۔ جس طرح کہ ایک استاد اپنے شاگرد سے کہہ دے کہ "میں تم سے کچھ نہيں مانگتا اور میری اجرت صرف یہ ہے کہ تم اچھی طرح سے پڑھو" کہ یہ پاداشت و اجرت درحقیقت شاگرد کے لئے ہے۔
سوال یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی رسالت کا معاوضہ کیا ہے؟ لیکن کئی مرتبہ لفظ "قل" کے ذریعے خداوند متعال کی طرف سے مامور ہوئے کہ ان سے اجر معنوی کا تقاضا کریں جو ان کے اپنے فائدے میں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
"قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَہُوَ لَكُمْ"۔ ترجمہ: کہئے کہ میں نے تم سے جو اجر طلب کیا ہے، وہ تو تمہارے ہی لئے ہے۔[22]
یہ معنوی معاوضہ بھی دو طریقوں سے آیا ہے: ایک بار فرماتے ہیں: "میں کوئی تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا اس کے، کہ جو چاہے اللہ کے راستے پر گامزن ہوجائے؛ ارشاد ہے:
"قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّہِ سَبِيلاً"۔ ترجمہ: کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو چاہے کہ اپنے پروردگار کی طرف راستہ بنائے۔[23]
اور ایک بار آیت مودت میں فرماتے ہیں:
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"۔
ترجمہ: اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے۔
چنانچہ اجر رسالت دو چیزوں میں ہے: 1۔ راہ خدا پر گامزن ہونا 2۔ مودت قربی۔ دونوں کو لفظ "إلّا" کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؛ یعنی یہ کہ "میری رسالت کی اجرت صرف یہی ہے"؛ گویا راہ خدا اور مودت اہل بیت ایک ہی چیز ہے؛ ورنہ یہ درست نہیں درست ہے کہ انسان ایک بار کہے کہ "میں صرف موسم گرما میں مطالعہ کرتا ہوں" اور دوسری بار بھی یہی جملہ دہرائے کیونکہ محصور (حصر شدہ اور منحصر شدہ) چیز ایک ہی ہونا ضروری ہے۔ خداوند متعال نے رسول خداؐ کو حکم دیا کہ لوگوں سے کہہ دیں: "میرا اجر رسالت صرف یہ ہے کہ تم اللہ کے راستے پر گامزن ہوجاؤ" اور دوسری بار کہہ دیں: "میرا اجر رسالت صرف یہ ہے کہ تم میرے خاندان سے مودت کرو"؛ ان دو آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ راہ خدا منتخب کرنا اور اہل بیت سے محبت کرنا، دونوں ایک ہیں۔
دوسری طرف سے مودت دو چیزوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے: 1۔ شناخت و معرفت؛ کیونکہ جب تک انسان کسی کو نہ پہچانے اس سے محبت نہیں کرسکتا؛ 2۔ اطاعت؛ کیونکہ مودت اطاعت کے بغیر ہو تو ایک قسم کا دکھاوا اور ریا یا چاپلوسی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اہل بیت کے بغیر دوسروں سے اپنی زندگی اور اپنے دین کے احکام اخذ کرتا ہے وہ راہ خدا پر گامزن نہیں ہوا ہے۔ یہ قرآن کی رائے ہے۔
عقل کے حوالے سے بھی پاداش و اجرت کو عمل کے ہم وزن ہونا چاہئے۔ رسالت کا ہم وزن صرف امامت ہے، رسالت کا م معاوضہ صرف یہ ہے کہ ہدایت جاری اور مسلسل ہو۔ ایک معصوم کی زحمتوں کی اجرت صرف یہ ہے کہ ہدایت و راہبری کا کام دوسرے معصوم کے سپرد کیا جائے۔ ایک عادل راہنما کی اجرت یہ ہے کہ اس کی زحمتوں کو دوسرے عادل کے سپرد کیا جائے۔
عقل کہتی ہے: جب تک لطف ہے تشکر بھی ہونا چاہئے اور اگر آج ہم رسول اللہؐ کی راہنمائی کی نعمت سے بہرہ ور ہیں اور ہم اسلام کی طرف ہدایت پاچکے ہیں، ہم پر اجر رسالت ادا کرنا ہم پر لازم ہے، اور اگر اجر رسال "مودت قربی" ہے آج بھی ذوی القربٰی کو موجود ہونا چاہئے جن کی مودت و اطاعت ہم پر لازم ہے۔ یعنی آج اس زمانے کے امام اور آج کے زمانے میں جانشین رسولؐ مام زمانہ(عج) ہیں جن کی مودت اور اطاعت ہم پر لازم ہے۔ یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ "صدر اول کے مسلمان اجر رسالت ادا کرنے اور ذوی القربٰی سے مودت کرنے پر مامور تھے لیکن آج کے مسلمان اس حکم سے مستثنٰی ہیں یا یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ آج ذوی القربٰی موجود نہیں ہیں جن سے مودت کی جائے یا جن کی اطاعت کی جائے؟" البتہ زمانۂ غیبت میں مودت سے مراد یہ ہے کہ ہم امام زمانہ(عج) کے پیغامات پر عمل کریں اور ان لوگوں کے احکامات پر عمل کریں جنہیں آپ(عج) نے ہمیں سپرد کردیا ہے۔ اور وہ لوگ فقہائے عادل ہیں وہ جو ہویٰ و ہوس کے تابع و مطیع نہیں ہیں۔
یہ جو ذوالقربی کی مودت ایسے پیغمبر کے اجر رسالت قرار پائی ہے جس نے ہدایت و سعادت اور اللہ کے فضل عظیم تک پہنچایا ہے؛ عقل انسان سمجھتی ہے کہ ذوی القربٰی کی مودت ـ جن کی محبت اجر رسالت ہے ـ بنی نوع انسانی کے برترین افراد اور معصوم ہیں؛ کیونکہ کبھی بھی ایک معصوم شخصیت کے عمل کی اجرت غیر معصوم افراد کی محبت و مودت نہیں ہوسکتی۔ یہ قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ گنہگار افراد کی محبت ابتدائے تاریخ اسلام سے آخر تک مسلمانوں پر واجب ہے۔ اور (شیعہ کے سوا) کوئی بھی اسلامی فرقہ اپنے امام و پیشوا کو معصوم نہیں سمجھتا، اور کسی بھی فرد یا جماعت نے آج تک ائمۂ معصومین کی طرف کسی گناہ کی نسبت نہیں دی ہے اور نہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ انھوں نے کسی استاد کی شاگردی کی ہے۔
عقل کہتی ہے: بنی نوع انسان کا ہاتھ غیر معصوم کے ہاتھ میں دینا نہ صرف انسانیت پر ظلم ہے، بلکہ پورے عالم وجود پر ظلم ہے۔ کیونکہ عالم ہستی کو انسان کے لئے خلق کیا گیا ہے اور (اور وہ تمام آیات جن میں خَلَقَ لَكُم ترجمہ: [وہ وہ ہے جس نے] تمہارے لیے پیدا کیا[24]۔ مَتَاعاً لَّكُمْ ترجمہ: [تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے] سامان زندگی کے طور پر[25]۔ سَخَّرَ لَكُمُ ترجمہ: اور تمہارے قابو میں دیے [سورج اور چاند ...]۔[26] جیسے الفاظ ذکر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ پورا نظام وجود انسان کے لئے ہے) انسان کا ہدف یہ ہے کہ معنوی اور حقیقی ارتقاء کے مرحلے طے کر اور الہی اور خدائی ہوجائے؛ تو کیا اس موجود کو غیر معصوم انسانوں کے سپرد کرنا اس پر اور نظام وجود پر ظلم کے مترادف نہ ہوگا؟
اگر احادیث میں معصوم پیشوا اور اس کی ولایت دین کی بنیاد و اساس ہے جیسا کہ امام باقرؑ نے فرمایا:
"بني الاسلام على خمس: على الصلاة والزكاة والصوم والحج والولاية"
ترجمہ: اسلام کو پانچ چیزوں پر استوار کیا گیا: نماز پر اور زکٰوۃ، روزے، حج اور ولایت پر۔[27]
اگر امام علیؑ کو قسیم دوزخ و جنت کے مقسم کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں: جیسا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
"إنّك قسيم الجنّة و النّار ..." ترجمہ: اے علی! تم جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والے ہو۔[28] یا ابن عباس کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے فرمایا: "... معاشر الناس ، إن عليا قسيم النار ، لا يدخل النار ولي لہ ، ولا ينجو منہا عدو لہ... "
ترجمہ: لوگو! بے شک علی جہنم کے قسیم ہیں، داخل نہیں ہوگا دوزخ میں ان کا دوست اور نجات نہیں پائے گا اس سے ان کا دشمن۔[29]
اگر نماز بغیر ولایت کے مقبول نہیں ہے جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا: "إن أول ما يسأل عنہ العبد إذا وقف بين يدي اللہ جل جلالہ عن الصلوات المفروضات وعن الزكاة المفروضة وعن الصيام المفروض وعن الحج المفروض وعن ولايتنا أہل البيت، فان أقر بولايتنا ثم مات عليہا قبلت منہ صلاتہ وصومہ وزكاتہ وحجہ، وإن لم يقر بولايتنا بين يدي اللہ جل جلالہ لم يقبل اللہ عزوجل منہ شيئا من أعمالہ"۔
ترجمہ: بے شک بارگاہ الہی میں بندوں سے سب سے پہلے جن چیزوں کے بارے میں سب سے پہلے سوال ہوگا وہ واجب نمازیں، واجب زکٰوۃ، واجب روزے، واجب حج ہے اور ہم اہل بیت کی ولایت کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس اگر اس نے ہماری ولایت کا اقرار کیا اور دنیا سے رخصت ہوا تو خدا اس کی نماز، روزہ، زکٰوۃ اور حج قبول فرمائے گا اور اگر اس نے اللہ جل جلالہ کے حضور ہماری ولایت کا اقرار نہ کیا تو اللہ جل جلالہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا۔[30] یا جس طرح کہ اہل سنت کے بزرگ عالم دین جناب خوارزمی ـ جن کی وثاقت پر دوسرے اکابرین اہل سنت نے تاکید کی ہے ـ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
يا علي! لو أن عبدا عبد اللہ عز وجل مثل ما قام نوح في قومہ وكان لہ مثل أحد ذہبا فأنفقہ في سبيل اللہ ومد في عمرہ حتي حج ألف عام علي قدميہ، ثم قتل بين الصفا و المروة مظلوما، ثم لم يوالك يا علي، لم يشم رائحة الجنة و لم يدخلہا"۔ ترجمہ: اے علی! اگر ایک بندہ عمر حضرت نوحؑ جتنی عبادت کرے اور کوہ احد جتنا سونا خدا کی راہ میں خیرات کرکے دےدے؛ اور اس کی عمر اس قدر طویل ہوجائے کہ ایک ہزار بار پائے پیاد حج بیت اللہ بجا لائے، اور اس کے بعد [[[صفا اور مروہ]] کے درمیان مظلوم ہوکر شہید کیا جائے، لیکن تمہاری ولایت پر یقین نہ رکھتا ہو، اے علی! کبھی بھی جنت کی خوشبو اس تک نہیں پہنچے گی اور کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔[31]۔[32]۔[33]۔[34]۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]۔[40]۔[41] اگر |اہل بیتؑ کی مودت حسنہ ہے جیسا کہ امام حسنؑ نے شہادت امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے بعد مسجد کوفہ میں فرمایا:
"أنا من أہل بيت أذہب اللہ عنہم الرجس وطہرہم تطہيرا أنا من أہل بيت فرض اللہ مودتہم في كتابہ فقال تعالى ترجمہ: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَہُ فِيہَا حُسْناً فالحسنة مودتنا أہل البيت"
ترجمہ: میں اہل بیتؑ سے ہوں، وہی جن سے خداوند متعال نے ہر گناہ کو دور رکھا ہے اور انہیں پاک رکھا ہے جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے اور خداوند متعال نے اپنی کتاب میں ان کی مودت فرض کردی ہے اور فرمایا ہے: کہئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے اور جو کوئی "حسنہ" (نیک کام) انجام دے گا، ہم اسے اس میں بھلائی اور زیادہ عطا کریں گے۔[42] پس حسنہ ہم اہل بیت کی مودت ہے۔[43]۔[44]
متعلقہ مضامین
اہل البیت علیہم السلام
مودت اہل بیت
حوالہ جات
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج9، ص29۔
لسان المیزان ابن حجر عسقلانی، ج 4، ص 434
ابن منظور، لسان العرب۔
فراہيدي، خليل، العين، ذيل مادہ "ود"۔
طريحي، مجمع البحرين، ذيل مادہ «ود"۔
راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، مترجم: دکتر خسروی، ذيل مادہ"ود"۔
ابن منظور، لسان العرب، ذيل مادہ«قرب۔
راغب اصفہانی، وہی ماخذ، ذيل مادہ "قرب"۔
طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، ج9، ص158۔
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج9، ص48۔
علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، ص175۔
فرات الکوفی، تفسیر فرات، ص392۔
حاکم حسکانی، عبداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، ج2، ص213۔
المفيد، الارشاد ص 188۔
کلینی، اصول کافی، ج1، ص413۔
حاکم حسکانی، عبداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، ج2، ص189-196۔
قرطبی، محمد بن احمد انصاری، احقاق الحق، ج3، ص2۔
سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن ، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، ج6، ص7۔
طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل القرآن، ج25، ص16و17۔
طبرسی، مجمع البيان، ج 9، ص28۔
حسكاني، حاكم، شواہدالتنزيل، ج2، ص203۔
سورہ سبأ آیت 47۔
سورہ فرقان آیت 57۔
سورہ بقرہ آیت 29۔
سورہ نازعات آیت 33۔
سورہ ابراہیم آیت 32 و 33۔
کلینی، الکافی، ج2 ص18۔
ابن مغازلى، المناقب، ص 67۔
امالي شيخ صدوق ص 83 ، بہ سند ديگر خصال ، شيخ صدوق ، ص 496۔
مجلسی، بحار، ج27، ص167۔
المناقب للموفق الخوارزمي، ص 68۔
ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 2، ص 293۔
شواہد التنزيل للحاكم الحسكاني، ج 2، ص 203۔
فرائد السمطين للجويني، ج 1، ص 289۔
ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 1، ص 338۔
الرياض النضرة، ج 3، ص 116۔
المعجم الأوسط للطبراني، ج 2، ص 360ـ
مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہيثمي، ج 9، ص 172۔
ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 2، ص 272ـ
إحياء الميت سيوطي شافعي بہ نقل از الإتحاف بحب الأشراف، ص 111۔
الصواعق المحرقة لإبن حجر الہيثمي، ص 138۔
سورہ شوری، آیت 23۔
بحار، ج43، ص362۔
محسن قرائتی، تفسیر نور۔
مآخذ
قرآن کریم.
آلوسي، سيد محمود، روح المعاني، بيروت، دارالكتب العلمية، 1415.
راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، مترجم: دکتر خسروی.
ابن منظور، لسان العرب، جامع التفاسير.
سلمي، محمد بن حسين، حقائق التفسير، تہران، مركز نشر دانشگاہي، 1369..
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، دارالمعرفہ، بیتا.
طريحي، فخر الدين، مجمع البحرين، جامع التفاسير.
شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالاحیاء التراث العربي، بیتا.
طباطبائی، محمد حسین، المیزان، انتشارات جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، 1417.
علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، قم، موسسہ دارالہجرة.
ميبدی، ابو الفضل رشید الدین، کشف الاسرار، تہران، انتشارات امير كبير، 1371.
فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، جامع التفاسير.
زمخشری، محمود، الکشاف، دارالکتب العربی، بیروت.
علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403ق.
فرات الکوفی، ابی القاسم فرت بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق: محمد کاظم، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1410ق.
حاکم حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، تحقیق: شیخ محمد باقر محمودی، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411ق.
کلینی، محمد یعقوب، اصول کافی، قم، دارالکتب الاسلامیہ، 1365ق.
برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، دارالکتب الاسلامیہ، بیتا.
قرطبي، محمد بن احمد، الجامع لاحكام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1364.
مراغي، احمد بن مصطفي، بيروت، دارالاحیاء التراث العربي.
قرطبی، صمد بن احمد انصاری، احقاق الحق،
سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور،، بیروت، دار الفكر ، 1414ق.
طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل القرآن، بيروت، دار المعرفة، 1412.
مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374.
عابدی، خدا حسین، تفسیر تطبیقی آیہ مودت، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1384.
فخر الدین رازی، محمد، مفاتیح الغیب، دارالفکر، بیروت، 1405ق.
تفسیر نور۔