سورہ انسان یا ہل اتی یا دَہر
سورہ انسان یا ہل اتی یا دَہر، قرآن کی 76ویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے
جو قرآن کے 29ویں پارے میں واقع ہے۔ انسان کی خلقت اور اسکی ہدایت نیز نیکوکاروں کے اوصاف اور خدا کی طرف سے ان کو دی جانے والی نعمات اور ان کے علل و اسباب کے بارے میں اس سورت میں بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح قرآن کی اہمیت اور خداوند متعال کی مشیت کے بارے میں بھی اس سورت میں گفتگو ہوئی ہے۔
شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق اس سورت کی آٹھویں آیت، آیہ اطعام کے نام سے معروف ہے۔ یہ آیت حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ و امام حسینؑ اور اہل بیت کی خادمہ فضہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ شخصیات نے حسنین شریفینؑ کی صحت یابی کے شکرانے میں تین دن روزے رکھے، افطار کے وقت پہلے دن کسی مسکین دوسرے دین کسی یتیم اور تیسرے دن کسی اسیر نے در اہل بیت سے کھانا طلب کیا یوں تینوں دنوں کی افطاری راہ خدا میں دے دئے اور خود بھوکے رہے۔ اس سورت کے پڑھنے کا بہت ثواب ہے منجملہ یہ کہ اس کا پڑھنے والا قیامت کے دن پیغمبر اکرمؑ کا ہمنشین ہوگا۔
تعارف
نام
یہ سورہ، سورہ انسان، سورہ ہل اتی اور سورہ دہر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تینوں نام اس سورت کی پہلی آیت میں آئے ہیں اسی وجہ سے یہ سورہ ان ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اس سورت کو سورہ ابرار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کلمہ اس سورت کی پانچویں آیت میں آیا ہے اور اس سورے کے نصف سے زیارہ مطالب انہی لوگوں(ابرار) کے حالات پر مشتمل ہے۔[1]
محل نزول اور ترتیب نزول
سورہ انسان مدنی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول میں یہ سورت 98ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ موجودہ ترتیب کے مطابق یہ سورہ 76ویں نمبر پر ہے۔[2] یہ سورہ قرآن کے 29ویں پارے میں موجود ہے۔[3]
آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ انسان 31 آیات، 243 الفاظ اور 1089 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے یہ سورت نسبتا چھوٹے سوروں میں سے ہے اس بنا پر اس کا شمار مفصلات میں ہوتا ہے۔[4] سورہ انسان منجملہ ان سورتوں میں سے ہے جسے مکمل طور پر حضرت عباس کے روضہ اقدس پر کندہ کی ہوئی ہے۔[5]
مضامین
تفسیر نمونہ کے مطابق اس سورے کے مضامین کو پانچ نکات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلا نکتہ: انسان کی آفرینش، نطفے سے انسان کی خلقت، انسان کی ہدایت اور اس کا با اختیار ہونا؛
دوسرا نکتہ: ابرار اور نیک لوگوں(اہل بیتؑ) کی جزا؛
تیسرا نکتہ: نیک لوگوں کی خصوصیات جس کے باعث یہ لوگ جزا کے مستحق قرار پاتے ہیں؛
چوتھا نکتہ: قرآن کی اہمیت، اس کے احکام کی اجراء کا طریقہ اور خودسازی کا پرفراز و نشیب راستہ؛
پانچواں نکتہ: خدا کی مشیت اور ارادے کی حاکمیت ۔[6]
سورہ انسان کے مضامین[7]
|
|
|
|
انسانوں کو دین خدا کی پیروی کی ترغیب |
|
|
||||||||||||
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
||||||
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
||||||||
تیسرا نکتہ؛ آیہ 23-31 |
|
دوسرا نکتہ؛ آیہ 4-22 |
|
پہلا نکتہ؛ آیہ 1-3 |
||||||||||||||
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
||||||
|
||||||||||||||||||
پہلا مطلب؛ آیہ 23-26 |
|
پہلا مطلب؛ آیہ 4 |
|
پہلا مطلب؛ آیہ 1-2 |
||||||||||||||
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
||||||
|
||||||||||||||||||
دوسرا مطلب؛ آیہ 27-28 |
|
دوسرا مطلب؛ آیہ 5-6 |
|
دوسرا مطلب؛ آیہ 3 |
||||||||||||||
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|||||||
|
||||||||||||||||||
تیسرا مطلب؛ آیہ 29-31 |
|
تیسرا مطلب؛ آیہ 7-11 |
|
|||||||||||||||
|
||||||||||||||||||
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
||||||||
|
||||||||||||||||||
|
|
|
|
چوتھا مطلب؛ آیہ 12-22 |
|
|||||||||||||
|
نیکوکاروں کی خصوصیات
سورہ انسان میں پانچ خصوصیات کے ساتھ نیکوکاروں(ابرار) کی توصیف کی گئی ہے:
اپنے کئے ہوئے نذر پر عمل کرتے ہیں۔
بہت وسیع عذاب والے دن سے ڈرتے ہیں۔
باوجود اس کے کہ خود بھوکا ہے کھانا بے نواؤوں، یتیموں اور اسیروں میں بانٹ دیتے ہیں۔
اس کام کو صرف خدا کی خشنودی کے لئے انجام دیتے ہیں اور کسی سے جزا اور شکریہ ادا کرنے کی توقع نہیں رکھتے۔
افسردہ اور خوفناک دن (یعنی قیامت کے دن) اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔[8]
مشہور آیات
آیت اطعام
"وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا" (آیت نمبر 8)
ترجمہ: (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اورنہ شکریہ۔
سورہ انسان کی آیت نمبر 8 آیت اطعام کے نام سے معروف ہے۔[9] شیعہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت بعض دوسری آیات کے ساتھ (اس سورت کی 18 آیتیں) امام علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، حسنینؑ اور فضہ کا تین دن روزہ رکھنے کے واقعے میں نازل ہوئی ہیں۔[10] منقول ہے کہ مذکورہ شخصیات نے روزے کی وجہ سے بھوکا ہونے کے باوجود افطاری کے وقت اپنا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو بخش دئے۔[11] اس بات کی تائید میں بہت ساری احادیث موجود ہیں جن میں اس آیت کا شأن نزول اسی واقعے کو قرار دئے ہیں۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ان احادیث کے مشترک الفاظ کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ یہ عبارت اہل سنت میں مشہور بلکہ متواتر ہیں۔[12]
آیات الاحکام
سورہ انسان کی ساتویں آیت کو آیات الاحکام میں شمار کیا جاتا ہے۔[13] یہ آیت جس میں نذر پر عمل کرنے کو نیکوکاروں کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے، [14] نذر پر عمل کرنے کے جواز بلکہ وجوب پر دلالت کرتی ہے۔[15]
فضایل و خواص
احادیث میں سورہ انسان کی تلاوت کا ثواب بہشت، بہشتی حور [16] اور قیامت کے دن پیغمبر اکرمؐ کی ہمنشینی قرار دی گئی ہے۔[17] اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ امام رضاؑ پیر اور جمعرات کے دن صبح کی نمازِ کی پہلی ركعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ انسان اور دوسری ركعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ غاشیہ کی قرائت فرماتے تھے اور اس سلسلے میں فرماتے تھے جو شخص یہ عمل انجام دے خدا اسے ان دو دنوں میں ہر قسم کی آفت سے محفوظ رکھے گا۔[18]
اس سورت کی تلاوت کے بارے میں مزید آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورت کی تلاوت پر مداوت کرے تو اس کی روح طاقتور ہو گی۔[19] اس سورت کی تلاوت اعصاب کی تقویت اور اضطراب سے نجات کیلئے نہایت مفید ہے۔[20]
حوالہ جات
خرمشاہی، انشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۰.
معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۸.
خرمشاہی، انشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۰.
خرمشاہی، انشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۰.
"آج رات کربلا میں "چاند" سورج کو طعنہ دے رہا ہے" سایت خبری فردا، تاریخ بازدید ۲۱ شہریور ۱۳۹۵ش.
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۵، ص۳۲۷.
خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۵، ص۳۵۱ـ۳۵۵.
روحانی نیا، فروغ غدیر، ۱۳۸۶ش، ص۱۴۶؛ انصاری، اہل البیت علیہم السلام، مجمع الفکر، ص۱۷۳. مظاہری، زندگانی چہاردہ معصوم علیہم السلام، ۱۳۷۸ش، ص۵۶؛ دیلمی، ارشاد القلوب، تہران، ج۲، ص۱۳۶؛ بشوی، «جایگاہ اہل بیت(ع) در سورہ دہر از منظر فریقین»، ص۶۸؛ «امام علی(ع) در پرسشہای قرآنی»، ص۱۰۸.
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۵، ص۳۴۵.
زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۶۷۰.
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۵، ص۳۴۵.
ایروانی، دروس تمہیدیہ، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۴۵۱۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۵، ص۳۵۱۔
ایروانی، دروس تمہیدیہ، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۴۵۱۔
طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۲۰۶۔
شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۲۱۔
شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، انتشارات جامعہ مدرسین، ج۱، ص۳۰۷-۳۰۸۔
بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۵۴۳۔
بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۵۴۳۔