امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ٹیلیفون اور موبائل فون کے استعمال کے آداب اور مسائل

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

Sagar Times: موبائل فون کیسے کریں استعمال ؟ Ruling on cell phone

ٹیلیفون اور موبائل فون کے استعمال کے آداب اور مسائل

تحریر: فرحان فاروق

ٹیلی فون خصوصاً موبائل فون آج کے دور میں ہماری روز مرہ زندگی کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے ، شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس کے استعمال کا محتاج نہ ہو، حقیقت میں یہ جدید دور کی ان ایجادات میں سے ہے جن کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ موبائل فون نے انسانوں کے درمیان باہمی رابطہ کاری کو آسان تر بنا دیا ہے ، دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے بات چیت ممکن ہوگئی ہے بلکہ اب تو ایک دوسرے کو دیکھنا بھی ممکن ہوگیا ہے ، اسی فون کی بدولت کاروباری معاملات میں بھی بہت آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ظاہر ہے ہر نئی ایجاد کے مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی ، اس کا اصل دار و مدار استعمال کرنے والے پر ہے۔ جس طرح انسان سماج سے جڑی دیگر چیزوں کے اصول و ضوابط اور اداب ہوتے ہیں اسی طرح ٹیلی فون اور موبائل فون استعمال کرتے ہوئے بھی بعض اصولوں اور آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے تاکہ جو چیز انسانوں کی سہولت کی خاطر بنائی گئی ہے وہ ایک دوسرے کی ایذا رسانی کا سبب نہ بن جائے ۔ ذیل میں ہم ٹیلی فون اور موبائل فون سے متعلق کچھ آداب کا ذکر کرتے ہیں ۔

٭بات شرع کرنے سے پہلے السلام علیکم کہنا ۔

٭ اگر پہلے سے تعارف نہ ہو تو فون کرنے والا پہلے اپنا تعارف کروائیں کہ میں فلاں ہوں، فلاں جگے سے بات کر رہا ہوں ۔

٭جس کو فون کیا ہے اس کے آرام اور مصروفیت کے اوقات کا خیال رکھنا چاہیئے،اسی طرح نماز کے اوقات کا بھی خیال رکھنا چاہیئے ،اور اگر آرام یا مصروفیت کے اوقات معلوم نہ ہوں تو بات کرنے سے پہلے پوچھ لیں۔

٭اس انداز میں بات کرنا کہ سامنے والے کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو،یعنی ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا ،اسی طرح موبائل پر بات کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھنا کہ سگنل کم ہونے کی وجہ سے دوسری طرف والے کو بات سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔


٭اگر لمبی بات کرنی ہو تو اس کی پہلے سے اجازت لے لینا کہ فلاں سلسلہ میں بات کرنی ہے یا اتنی دیر بات کرنی ہے،البتہ اگر پہلے سے بات ہوئی ہو کہ فلاں وقت اس سلسلہ میں رابطہ ہو گا تو یہ اجازت بھی کافی ہے۔

٭ اگر سامنے والا مصروفیت بتائے اور بعد میں بات کرنے کو کہے تو اس کو برا نہیں ماننا چاہیئے اور نہ ہی اس کو متکبر سمجھنا چاہیئے۔

٭فالتو اور غیر ضروری گفت گو سے احتراز کرنا ۔
٭گفتگو میں نرم اور شائستہ لہجہ اختیار کرنا۔،البتہ نامحرم سے گفتگو کے وقت لوچ والا لہجہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔

٭اگر سامنے والا لمبی بات کر رہا ہو تو سننے والے کو وقفہ وقفہ سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہنا چاہیئے،مثلاً جی ہاں! یا ہوں ! وغیرہ الفاظ کے ساتھ ،تاکہ اس کو تشویش نہ ہو کہ کہیں لائن تو نہیں کٹ گئی یا آپ اس کی بات توجہ سے نہیں سن رہے۔

کال ریکارڈ اور اسپیکر آن کرنے سے پہلے اجازت
٭اگر کال ریکارڈکرنی ہو تو سامنے والے کو اس کی اطلاع کردینا،دوسرے کی اجازت کے بغیر کال ریکارڈ کرنا صحیح نہیں۔
٭اسی طرح اگر بات کرتے ہوئے اسپیکر آن کیا تاکہ پاس والا شخص بھی گفتگو سن لے تو ایسی صورت میں دوسری طرف لائن پر موجود شخص کو بتا دینا چاہیئے کہ اسپیکر آن ہے اور فلاں بھی آپ کی بات سن رہا ہے،تا کہ وہ محتاط ہوکر گفتگو کرے اور ایسی بات نہ کرے جو اس تیسرے شخص سے چھپانے والی ہو۔بعض دفعہ دوست آپس میں اس بات کا خیال نہیں رکھتے یا جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں جس کی وجہ سے دو لوگوں کے درمیا ن غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

٭کانفرنس کال میں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے۔
٭مسجد میں موبائل پر دنیا وی باتیں کرنامسجدکے ادب کے خلاف ہے۔
٭اگر کسی محفل یا مجلس میں کال آجائے تو ایک طرف ہوکر یا آہستہ آواز میں با ت کرنی چاہیئے تاکہ دوسروں کی تشویش کا باعث نہ بنے۔


مسجد میں موبائل بند رکھیں
٭ مسجد میں داخل ہوتے ہی موبائل فون آف کردیں ،یا بالکل سائلنٹ کردیں،بہتر یہ ہے کہ’’ بیپ ون‘‘یا ’’ وائبریشن ‘‘پر بھی نہ چھوڑیں کیونکہ نماز کے دوران اس سے دھیان کال کی طرف جائے گا جو کہ نماز کے خشوع کے خلاف ہے۔

نماز میں موبائل بند کرنا بھول گئے تو
٭اگر بند کرنا بھول گئے اور نماز کے دوران موبائل بجنے لگے تو عملِ کثیر سے بچتے ہوئے ایک ہاتھ سے موبائل فون بند کرنے کی اجازت ہے ،عملِ کثیر وہ عمل ہے کہ جس کو نمازی کو کرتے ہوئے دیکھ کر ،دیکھنے والایہ سمجھے کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا،اس سے نمازٹوٹ جاتی ہے ۔یاد رہے کہ موبائل بند کرنے کیلئے نماز توڑنے کی اجازت نہیں ۔

نماز میں دوسرے کا موبائل بجے تو کیا کریں
٭اسی طرح اگر کسی اور کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگے تو اگر دوسرے کیلئے موقع ہو تو وہ اس کے موبائل کو بند کردے۔
٭اگر کوئی شخص غلطی سے موبائل بند نہ کرسکا اور جماعت کے دوران گھنٹی بجنے لگی تو نماز ختم ہونے کے بعد اس کو پیار سے سمجھادینا چاہیئے، لیکن سب نمازیوں کا اس کو گھور گھور کر دیکھنا یا اس کو زور سے سب کے سامنے ڈانٹنا ،اس کی تذلیل کرنا یا حقارت آمیز رویہ اختیا کرنااسلامی تعلیمات کے خلاف ہے،بہتر یہ ہے کہ اما م صاحب ایک عمومی نصیحت فرمادیں تاکہ اورلوگوں کو بھی یاد دھیانی ہوجائے۔

گانا رنگ ٹون پر لگانا
٭موبائل میں گانے والی رنگ ٹون لگانا جائز نہیں ،اور اگر خدانخواستہ مسجد میں گانے والی ٹون بج اٹھی تو اس میں کئی گناہوں کا وبال سر پر آجاتا ہے،خود گانا سننے کا گناہ ،دوسروں کو سنانے کا گناہ،مسجد کی بے حرمتی کا گناہ،دوسروں کی نماز خراب کرنے کا گناہ۔

تلاوت یا نعت رنگ ٹون پر لگانا
٭گھنٹی کے طور پر قرآن کی آیت بھی لگانامنع ہے،کیونکہ اس میں قرآنی آیت کو کال آنے کی اطلاع کے طور پر استعمال کرنا لازم آئیگاجو کہ جائز نہیں ،اور اگر قرآن کی آیت کو لگانے سے مقصودتلاوت سننا یا نصیحت حاصل کرنا ہے تو بھی اس میں بے ادبی کا اندیشہ ہے کیونکہ بعض دفعہ موبائل ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں تلاوت مناسب نہیں ہوتی ،اسی طرح بعض دفعہ آیت درمیان میں سے کٹ جاتی ہے۔
٭اسی طرح نعت کو بھی گھنٹی کے طورپرلگانا مناسب نہیں۔

آیت یا حدیث ایس ایم ایس کرتے ہوئے احتیاط
٭ اگرایس ایم ایس میں قرآنی آیت لکھنی ہوتو صرف عربی میں لکھنی چاہیئے کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیات لکھنا منع ہے ،البتہ باحوالہ ترجمہ انگریزی یا رومن اردو میں لکھ سکتے ہیں ۔


٭ احادیث کے الفاظ بھی عربی رسم الخط کے بغیر نہیں لکھنی چاہئے،کیونکہ اس میں غلط پڑھے جانے کا امکان ہے،بہتر یہ ہے کہ حدیث کا مفہوم لکھدیا جائے۔

مسیج فارورڈ کرتے ہوئے تحقیق
٭ احادیث پر مشتمل ایس یم ایس بغیر تحقیق کے نہیں لکھنا چاہیئے اور نہ ہی ایسے میسج کو آگے فارورڈ کرناچاہیئے بلکہ پہلے تحقیق کرنی چاہیئے کہ یہ واقعۃً حدیث ہے یا نہیں،آجکل بہت سارے من گھڑت احادیث پر مشتمل ایس ایم ایس رائج ہیں۔

آیات اور حدیث کی عبارت ڈیلیٹ کرنا
٭ قرآنی آیا ت یا احادیث پر مشتمل میسج کو پڑھنے کے بعد ڈلیٹ کرنے میں کوئی حرج نہیں،البتہ بلا عذر، بغیر پڑھے ڈلیٹ نہیں کرنا چاہیئے ،اگر کوئی عذر ہو مثلاً ایسے میسجز اتنے زیادہ آتے ہوںکہ سب کو پڑھنا دشوار ہوتوبغیر پڑھے بھی ڈلیٹ کرنے کی اجازت ہے ،اس میں گناہ نہیں ہے۔

موبائل اگر ناپاک ہوجائے
٭ اگر موبائل ناپاک ہوجائے تو اس کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو حصہ ناپاک ہوا ہے وہ دھونے سے خراب نہیں ہوتاتو اس کو تین دفعہ دھوکر پاک کرلیں ،اور اگرخراب ہوتا ہو توگیلے کپڑے سے اس جگہ کو تین دفعہ پونچھ لیں،یا پٹرول ،اسپرٹ سے صاف کرلیں ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک