امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

بچوں کی کردار سازی

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بچوں کی کردار سازی

بچوں کی کردار سازی

 بچوں کی کردارسازی اور تعمیر شخصیت نہایت اہم معاملہ ہے۔ والدین جب اپنے بچے کی تربیت کررہے ہوں۔ تو تعمیرشخصیت کے اس  اہم ترین ستون پر بھرپور توجہ دینا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ کردار کیا ہے؟ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی میں طرز، طریق، قاعدہ، کام ، شغل، خصلت اورعاد ت وغیرہ شامل ہیں۔

کردار انسان کی سیرت، اخلا، چال چلن اور خصلت کو بھی کہتے ہیں۔ جبکہ اصطلاحی طور پر کردار انسان میں نشوونماپانے والی ان  خصوصیات اور کیفیات کانا م ہے۔ جومختلف حالات میں ردعمل کے وقت اس کے رویے سے ظاہر ہوجاتی ہیں۔

انسان  کی سوچ اور ا س کے مطابق ظاہر ہونے رویوں کو بھی عام طور پر کردارکہاجاتاہے۔ اخلاق اور کردار بھی ملتے جلتے الفاظ ہیں۔ جو بطور متراد ف ایک دوسرے کی جگہ  استعمال ہوتے ہیں۔

انسان قابل تکریم کیوں؟
:قرآن کریم میں اللہ تعالی نے انسان کو تمام مخلوقات میں  زیادہ قابل تکریم قراردیااور فرمایا :

ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا ( بنی اسرائیل)۔ “ہم نے انسان کومحترم بنایا۔ اسے خشکی اور سمندر میں سواریاں عطاکیں ۔ اس کو پاکیزہ چیزوں میں سے رزق عطا کیا ۔ اور ہم نے اسے فضلیت عطا کی تمام مخلوقات پر۔” اس آیت میں رب کریم نے انسانوں کو تمام مخلوقات پر فضلیت دینے کا اعلان کیا ہے۔


ایک اور آیت میں انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ قراردیا ۔ ذرا سا غور تو فرمائیے کہ انسان میں وہ کیا خاص بات ہے جس کی وجہ سے خالق کائنات نے اسے یہ عظیم منصب عطا کیا؟ اور اس کو دنیا جہان میں فضلیت عطا فرمائی؟ تو یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے۔

کہ انسان کی فضیلت کی وجہ بنیادی طور پر دو چیزیں ہیں۔ جو اسے دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہیں۔  پہلی چیز انسانی عقل اور شعور ہے جو اسے دیگرمخلوقات سے ممتاز کردیتی ہے جبکہ دوسری چیزاس کا دنیا سے روارکھنے والا رویہ اورکردار ہے۔

عقل وشعوراوراخلاق وکردار وہ دوبنیادی معیارات ہیں جن سے انسانی عظمت قائم ہے۔ اگرخود جنس انسان کے افراد میں تقابل کرکے دیکھا جائے۔ تو بھی یہ بات سامنے آئے گی کہ جس انسان کے اندر یہ دو چیزیں جتنی زیادہ ہوں۔ وہ اتنا ہی قابل احترام بن جاتاہے۔ او ر جن افراد میں ان کا تناسب جتنا کم ہوتا ہے۔ وہ نسبتا  کم رتبے کے مالک ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم بلند کردار کے کچھ معیارات ذکررہے ہیں جن کو اپنا کرانسان بہترین کردار کا مالک بن سکتا ہے۔

بلند کردار کے مظاہر
ذیل میں ہم وہ معیارات ذکرکریں گے، جنہیں اپنانے سے انسان کا کردار بلند ہوجاتاہے۔ مثلا ایمانداری۔ دیانتداری۔ تقوی۔ شرم وحیا۔ وفاداری۔ جرات وہمت۔ صبروتحمل۔ ایثاروقربانی ۔ ہمدردی۔ رحم دلی۔ خودشناسی۔ خوداحتسابی۔ اپنی ذات پر کنٹرول۔

دوسروں کو عزت واحترام دینا۔ احساس ذمہ داری۔ تواضع  وانکساری۔ شفقت، محبت ومہربانی۔ سچائی وایمان داری۔ عفوودرگزر۔احسان ۔ سخاوت۔ استقامت۔ نرم مزاجی ۔ پرامیدی ۔ دوسروں کا خیال رکھنا۔ حوصلہ مندی وحوصلہ افزائی۔

دوستانہ رویہ رکھنا۔ قناعت۔ خوش مزاجی۔ شکرگزاری۔ ہردم متحرک رہنا۔ مستقل مزاجی۔ اعتدال ۔ خوداعتمادی۔ تخلیقی صلاحیت، عفت وپاکدامنی۔ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرنا۔ بھائی چارہ۔ انسان دوستی وغیرہ


وہ خرابیاں جو کردارسازی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
اخلاق وکردار کوبہتر  بنانے کے لئے ہرانسان کو کچھ چیزیں اپنی زندگی سے نکالنی پڑتی ہیں۔ اور ان کو نکالے بغیر انسان کا کردار بلند نہیں ہو سکتا۔ دین  کی اصطلاح میں ان خراب چیزوں کومنکرات، منہیات یا رزائل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:

مثلا جھوٹ۔ دھوکہ دہی ۔ وعدہ خلافی۔ بزدلی۔ امانت میں خیانت۔ بغض ۔حسد۔ تکبر۔ ریاکاری۔ رشوت ستانی۔ بدکرداری۔ زنا ۔ شراب نوشی۔  جوا۔ چوری۔ ڈاکہ ۔حرام خوری ، بخل،بے حیائی، بے صبری، خود غرضی، لالچ، غیر ذمہ داری، کام چوری۔ بدمزاجی، منافقت، سستی وکاہلی، ناشکراپن، مزاجی اکھڑپن اور ظلم وتشدد وغیرہ وغیرہ

پیشہ ورانہ کرپش بدکرداری کی بدترین شکل کیوں؟
یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنے کا یہ ہے۔ کہ اچھے کردار کا تعلق انسا ن کی صرف انفرادی زندگی سے ہی نہیں۔ بلکہ  اس کا تعلق  اس کی معاشرتی  اور پیشہ ورانہ  زندگی سے بھی ہے۔ یعنی انسان کیلئے ضروری ہے کہ اخلاقی طور پر بہتر ہونے کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر بھی درست کردار کا مالک ہو۔ وہ پیشہ ورانہ طورپر اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئےنہ صرف فٹ ہو۔ بلکہ وہ اپنی پوری کوشش کے ساتھ اسے کام کو کرنے کیلئے آمادہ بھی ہو۔

اگر ایک انسان ذاتی حوالے سے بہت نیک، پارسا اور متقی  ہے لیکن پروفیشنلی وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی جاب کیلئے درست طور پر منتخب نہیں ہوا۔ وہ میرٹ پر بھرتی نہیں ہوا بلکہ سفارش اور دیگر غیرمناسب ذرائع اختیار کرکے اس کام کیلئے منتخب ہوا۔ یا کسی کام کیلئے وہ منتخب تو ہوا لیکن اس کام کو درست طورپر انجام دینے کی اہلیت اس میں نہیں۔ محض لالچ میں آکر اس نے ذمہ داری لے لی۔ ان تمام صورتوں میں وہ ذاتی طور پر کتنا ہی نیک انسان ہو۔ لیکن پروفشنلی وہ بدکردار ہی کہلائے گا۔

بلکہ انفرادی بدعملی یا بدکرداری سے یہ زیادہ خطرناک اور قابل گرفت رویہ ہوسکتا  ہے۔ کیونکہ پیشہ ورانہ بدکرداری اور کرپش  سے پورے معاشرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ انفرادی بدکرداری سے محض اس کی ذات کو نقصان پہنچتا۔

والدین بچوں کی کردار سازی کیسے کریں؟


کہاجاتا ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بچے اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں۔اگر والدین اپنے کردار کو درست بنانے پرکام  کریں۔ اپنے بچوں کو اچھی رول ماڈلنگ پیش کریں تو یقینا بچے  خود بخود بہتر کردار کے حامل ہوجائیں گے۔

بچوں کی کردارسازی نسبتا آسان کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کورے کاغذکی مانند ہوتے ہیں۔ کورے کاغذ پروالدین خوبصورت نقش ونگار اور گل بوٹے بنائیں۔ یا الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کران کو نفسیاتی الجھنوں کاشکارکریں یہ ان کی صوابدید ہے۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ بچے بچپن میں اپنے والدین سے تعلق میں ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بچوں کی کردارسازی والدین کے لئے زیادہ مشکل  کام نہیں ہوتا ۔ جب والدین اپنے کردار پر توجہ دے کر  اسے بہتر بناتے ہیں تو  بچوں کو اچھی رول ماڈلنگ مل جاتی ہے۔

بچوں کی کردار سازی کا ایک موثر طریقہ یہ بھی ہے کہ  کسی صاحب علم ،  مربی اور شیخ سے  ان کا تعلق جوڑاجائے۔ بچے جب کسی استاد اور صاحب علم کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔ تو کردارسازی  کے حوالے سے بہت ہی مثبت اثرات ان پر پڑتے ہیں۔  

 بچوں کی کردار سازی کی بنیاد اللہ پرکامل ایمان
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صاحب کردار ہونا درحقیقیت اللہ پر کامل ایمان اور یقین کی ایک جھلک  ہے۔ جس کا اظہار خارجی طورپر عمدہ  کردار کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اگرانسان  میں خداپرکامل ایمان ہوتا ہے تولازمی نتیجہ کے طور پر وہ صاحب کردار  بھی ہوجاتاہے۔ اس کے برعکس جتنی  ایمانی کمزوری ہوگی تو  کردار بھی اتناہی داغ دار ہوگا۔

یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ابتدائی تیرہ سالوں میں  اپنے صحابہ کرام پر صرف ایمان اور یقین کی محنت کی تھی ۔ جب ایمان کی بنیادیں ان کے دلوں میں راسخ ہوگئیں، توکرداری اوصاف کا ظہور از خود ان میں ہونے لگا ۔۔ چنانچہ وہ دنیا کے لئے امام اورراہ دکھانے والے ستاروں کی مانند مثال قائم کرگئے


اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا۔ کہ جن لوگوں کے کردار پر دنیا میں کسی کو بھروسہ نہیں تھا۔ وہ دنیا میں کردار کے حوالے سے مثال بن گئے۔والدین کے لئے بھی یہی ماڈل  کارآمد ہے کہ ہم اپنے آپ پر اور اپنے بچوں پرپہلے ایمان کی مضبوطی کی محنت کریں۔

کسی عالم سے ، کسی اللہ والے سے، کسی شیخ و مربی سے اورکسی منٹور سے تعلق قائم کریں۔ تاکہ دل میں ایمان کی کیفیت پہلے راسخ ہوجائے۔ تو کردارسازی کا عمل بہت جلد اور بڑی آسانی سے انجام پائے گا انشااللہ۔

کردار کی اہمیت اور کردار سازی کے رہنما اصول
:خلاصہ کلام
خوداعتمادی، تخلیق کاری اور کردارسازی تعمیرشخصیت کے تین اہم بنیادی ستون ہیں۔ جن پر مثبت اورمتوازن شخصیت کی عمارت کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہ تینوں ستون باہم ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم بھی ہیں۔ کہ ایک ستون پر کام کرنے سے دوسرے کو خودبخود سہارا مل جاتا ہے۔

لیکن کسی ایک کو بھی نظرانداز کردیا جائے ۔تو اس کا منفی اثر دوسرے ستونوں پربھی پڑتاہے۔ وہ بھی اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں یا کمزور ہوکرگرسکتے ہیں۔

وہ والدین جو اپنے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے حوالے سے متحرک ہیں۔ اور اللہ کی طرف سے ان کو اس کی توفیق ملی ہوئی ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ ان تینوں ستونوں کی مضبوطی پر کام کریں ۔ انشااللہ حقیقی مومن ،خوداعتماد، تخلیقی صلاحیتوں سے مالا اور باکردار نسل وجود میں آئے گی۔ اللہ تعالی ہماری نسلوں کو ان تمام خصوصیات کا حامل بنادے ۔آمین

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک