موثر تربیت میں علم نافع اور مزاج موزوں کا کردار

موثر تربیت میں علم نافع اور مزاج موزوں کا کردار
یہ دونوں چیزیں والدین، اساتذہ، مبلغین،مصلحین اور ہروہ آدمی جو کسی دوسرے کی تربیہ پر کام کرنا چاہتا ہےاسکےلئےلازمی ہیں ان دونوں کے بغیر تربیہ کا کوئی کام درست طریقے سے انجام نہیں دیاجاسکتا۔پہلی چیز علم نافع اور دوسری چیز مزاج موزوں ہے۔

:علم نافع
تربیت کے حوالے سے علم نافع سے مراد ایسا علم ہے جو اپنے حامل کو درست فہم، صحیح ادراک وشعوراور ساتھ ہی واضح عملی  سمت بھی عطا کردے۔ علم نافع کے لئے زیادہ علم یا معلومات کا ہونابالکل ضروری نہیں۔ بلکہ موقع محل کے مطابق ضروری علم ہونا،  اس علم کا واضح ہونا اور درست سمت کی طرف عملی رہنمائی کرنے والا ہونا ضروری ہے۔ بہت زیادہ علم ہونے کے باوجو غیر واضح، مبہم، شکوک وشبہات سے بھرپور یا درست سمت کی طرف رہنمائی سے قاصر ہووہ علم نافع نہیں کہلاسکتا۔ بہرحال تربیت اولاد کی پہلی شرط والدین کے پاس تربیت کے حوالے سے علم نافع کا ہونا ہے جس کے لئےباقاعدہ کوشش کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے یہ جاننا  بھی ضروری ہے کہ بچے کی تربیت کے لئے کن کن ایریاز پر فوکس کرنا ہے، کب کب کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔

بچوں کی تربیت میں علم نافع اوعر مزاج مزوں
 موثر تربیت میں علم نافع اور مزاج موزوں کا کردار
:مزاج موزوں
تربیت اولاد کے لئے یہ دوسری بنیادی شرط ہے، کہ مربی، والدین اور اساتذہ اپنے مزاج پر کام کرکے اسے بچوں کی تربیت کے لئے مناسب، خوب صورت اور موزوں بنائیں۔جس کے نتیجے میں وہ ہرحال میں خوش رہنے کےگرسیکھیں اور غصہ یا ناراضگی کی کیفیت کو اپنے مزاج اور طبیعت پر حاوی نہ ہونے دیں۔ بچے کوئی بھی حرکت کریں وہ اپنے مزاج کو قابو میں رکھتے ہوئے شعور کی سطح پر کھڑے ہوکر بچوں کی حرکتوں کو ڈیل کرسکیں۔ یہی دین کا حکم ہے رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ا ور تربیت اولاد کا عملی تقاضا بھی ہے۔

مزاج یا طبیعت انسان کا وہ مستقل رویہ ہوتا ہے جسے ظاہر کرنے کے لئے اسے سوچنا اور تکلف نہ کرنا پڑے بلکہ تحت الشعورسے خود بخود آپریٹ ہوکر سامنے آجائے۔اور مستقل طور پر باربار یہی رویہ اپنے آپ ظاہر ہوسکے۔ اس کے مقابلے میں ایک اور لفظ موڈ ہوتا ہے وہ بھی انسان کے ایک خاص رویے کے اظہار کا نام ہے لیکن یہ وقتی اور عارضی رویہ ہوتا ہے مستقل اور بلاتکلف نہیں۔اگر دونوں میں مزید فرق ڈھونڈا جائے تو مزاج انسان کی داخلی کیفیت کا نام ہے یعنی مزاج انسان کے اندر سے ظاہر ہوتا ہے اس کا محرک باہر سے نہیں آتا جبکہ موڈوہ عارضی رویہ ہوتا ہے جس کا محرک باہر سے آتا ہے یہ بہت جلد بدلنے والا بھی ہوتا ہے جسے عام طور پر موڈسوئنگز بھی کہتے ہیں۔

تربیت کے لئے مربی، والدین اور اساتذہ میں موزوں مزاج کا ہونا ضروری ہے اس کے بغیر محض علم نافع بھی موثر تربیت کے لئے کافی نہیں کیونکہ موثر تربیت کے لئے مضبوط تعلق درکار ہوتا ہے اور تعلق اسی انسان کے ساتھ بن سکتا ہے جو مزاج موزوں رکھتا ہو۔مزاج موزوں کی تعریف کرتے ہوئے جناب سلمان آصف صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ ایسا مزاج جس میں انسان اپنے آپ کو اہم سمجھنے کے ساتھ دوسروں کی اہمیت کاپوری طرح احساس وادراک کرے اور اس کیفیت کو ہرجگہ نہ صرف برقراررکھے بلکہ اس کا عملی مظاہر بھی کرے۔

یعنی دوسروں کو پوری طرح اہمیت اور عزت وتکریم دینا اس کے لئے بہت آسان کام ہے۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کامل مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ مزاج موزوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس سے متصف آدمی سے رابطہ کرنا، بات کرنا اوراس سے تعلق قائم کرنا نہایت آسان لگے۔وہ ایسا انسا ن ہو کہ جس کے لئے معاف کرنا اور معافی مانگنا بہت آسان ہوگیا ہو۔ وہ بہت جلد لوگوں سے مانوس ہوجاتا ہواور لوگوں کو اپنے ساتھ مانوس کرسکتاہو، خوش طبع، خوش مزاج اور وضع دار ہو۔غیر ضروری ناراضگی کا اظہار، غصہ، بدمزاجی اور چڑچڑاپن اس کی زندگی سے حرف غلط کی طرح محو ہوگئے ہوں۔

انسان سازی، تعمیرشخصیت اور تربیت اولادکے کام بڑے انسانوں کے ہوتے ہیں جن کا ظرف بہت وسیع ہوتا ہے۔ مزاج موزوں کے بغیر بڑاانسان بننا بہت مشکل کام ہے۔ جناب احمدجاوید صاحب بڑے آدمی کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بڑا انسان وہ ہے جس کی موجودگی میں کوئی دوسرا انسان اپنے آپ کو کمتر محسوس نہ کرے بلکہ عزت اور برابری کااحساس برقراررہے۔ دوسرے الفاظ میں مزاج موزوں ہربڑے انسان او ر ہرمربی کی پہچان ہوتا ہے۔

مزاج موزوں کا تجربہ ہونے کے بعد انسان شکرگزاری کی کیفیت میں چلاجاتا ہے۔اس کے لئے ہرحال میں خوش رہنا مشکل نہیں رہتا بلکہ آسان ہوجاتا ہے یہی خوشی اور خوش مزاجی کی کیفیت اولادکی تربیت کے لئے ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اولاد کی اچھی تربیت کے لئے ان دونوں چیزوں پر خاص توجہ دیں اور اپنے آپ کو بچوں کی اچھی تربیت کے لئے موزوں بنائیں۔