امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

علم کی ترویج اور قوموں کی ترقی میں لائبریری کی اہمیت

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

Roznama Dunya: اسپیشل فیچرز :- لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت

علم کی ترویج اور قوموں کی ترقی میں لائبریری کی اہمیت

ایک مشہور فلاسفر نے کہا تھا کہ ” جب میں عبادت کرتا ہوں تو خدا سے باتیں کرتا ہوں اور جب میں کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے ”
مجھے کتاب بینی کی عادت تو بڑی چھوٹی عمر میں اپنے والد صاحب کو دیکھ کر ہی پرچکی تھی پھر میرے دوست محمد افتخار اظہر اور سعید چشتی کے ہمراہ اردو کے پروفیسر اعظم صاحب کی صحبت نے اس کی تشنگی میں بے حد اضافہ کردیا۔
آج سے ساٹھ سال پہلے بچپن میں ہمارے چھوٹے سے قصبے میں ایک میونسپل لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں چند ایک کتابیں تو موجود تھیں لیکن وہ سب میں بار بار پڑھ چکا تھا۔لیکن وہاں روزآنہ تمام قومی اور علاقائی اخبار روز آتے تھے لوگ پہلے سے وہاں کھڑے ان اخبارات کے منتظر رہتے تھے، ہمیں چھوٹا بچہ ہونے اور پڑھنے والوں کے رش کی باعث ان تمام اخبارات کو پڑھنا مشکل ہوتا تھا ۔لیکن کتاب کا شوق مجھے شاید ورثے میں ملا تھا جب ڈاکٹر محمد ؐ حسین بدر مرحوم کی ذاتی لائبریری تک ان کے فرزند اور میرے دوست حکیم اٖفتخار حسین اظہر صاحب کے بدولت رسائی ملی تو گویا دل کی مراد پوری ہوئی مگر طلب ابھی بھی رسد سے کم تھی۔
شوق مجھے جناح ہال احمدپور شرقیہ کی لائبریری تک لے گیا وہاں بھی اس وقت پڑھنے والوں کا بڑا رش ہوتا تھا، وہاں کتابوں کو خوب پڑھا مگر مطالعہ کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی، بہت سے صاحب ذوق لوگوں کے کتابوں کے ذخیرے بھی دیکھنے کا موقع ملا۔
 
بہاول پور کے نوابی دور کی تاریخی لائبریری
اس عرصے میں پتہ چلا کہ “صادق گڑھ پیلس ” میں نواب امیر آف بہاولپور کی ذاتی لائبریری موجود ہے مگر وہاں تک رسائی بہت دشوار تھی ۔اس سلسلے میں محل کے ملازم سید شوکت حسین شمسی مرحوم سے رابط کیا وہ اردو ڈائجسٹ کے شوقین تھے ان کے پاس سب سے پہلے شائع ہونے والے اردو ڈائجسٹ سے لیکر تب تک کے رسائل موجود تھے ۔مگر ان کے پاس بیٹھ کر پڑھنے کی ہی اجازت تھی ۔ میرا شوق دیکھتے ہوے انہوں نے مجھے صادق ریڈنگ لائبریری بہاولپور جس کو اب سینٹرل لائبریری کہا جاتا ہے سے رابطے کا مشورہ دیا۔

ہم کچھ دوست جب پہلی مرتبہ یہاں پہنچے ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، دنیا کے ہر موضوع پر کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا اور پڑھنے والوں کا اتنا رش کبھی دیکھا بھی نہ تھا ،اس کے ہال اور کیبن ہر وقت لوگوں سے بھرے رہتے تھے ،کتابوں کے پرستاروں کا ایک میلہ سا لگا رہتا تھا ۔کتابوں کی ایک پوری دنیا اس لائبریری میں سمائی تھی اور پھر ہم اس لائبریری کے ہی ہو کر رہ گئے،سر توڑ کوشش کے باوجود اس لائبریری کا تیسرا حصہ بھی مکمل نہ پڑھ سکے۔

لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ ،1947 سے اب تک کے تمام بڑے اخبارات کا ریکارڈ موجود
جن ریاستوں نے عوامی فلاح و بہبودکو اولیت دی ان میں ریاست بہاولپور سر فہرست ہے، نواب آف بہاولپور نے اپنے عوام کو لائبریری کا یہ ایک انمول اور تاریخی تحفہ دیا ہے جو ان کی علم دوستی اور اپنے عوام سے محبت کی ایک مثال ہے جہاں لاکھوں کتب کا ذخیرہ موجود ہےاور 1947 سے لیکر اب تک کےتمام بڑے اخبارات کا اعزازی ریکارڈ بھی محفوظ ہے ۔

یہ لائبریری بصارت سے محروم اور دیگر معذور افراد کو بھی مطالعے کی سہولت مہیا کرتی ہے جو کسی علمی خزانے سے کم نہیں ہے ان مین بے شمار ایسی کتب ہیں جن کی زیارت بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔بہاولپور کےعباسی نواب قوموں کے عروج و زوال میں کتابوں اور لائبریریوں کے کردار سے کیسے خوب واقف تھے اور انسانی زندگی میں کتاب ،مکتب اور مکتبہ تینوں کی اہمیت سے خوب آشنا تھے اس لیے ان تینوں شعبوں پر بھرپور توجہ دی ۔تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست میں لائبریری پر بھی بھر پور توجہ دی۔


اٹھاسی کنال رقبے پر محیط لائبریری کی بنیاد 1927 میں رکھی گئی
سن 1927 میں اٹھاسی کنال رقبے پر اطالوی طرز تعمیر پر بننے والی دو منزلہ سینٹرل لائبریری تقریبا” چھ سال مین مکمل ہوئی ۔اس کی عمارت بھی بہاولپور کی دس قابل دید عمارات میں شامل ہے جہاں تقریبا” ڈیرھ ہزار پنکھے ، مطالعے کے لیے ہزاروں کرسیاں اور میز ،امتحانات اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے بےشمار خاموش اور پرسکوں کیبن اور ان گنت برقی سے مزین اور جگمگاتی یہ لائبریری آج بھی ریاست بہاولپوراور اس کے حکمرانوں کی عظمت اور شان بیان کرتی نظر آتی ہے ۔
یہ پنجاب بھر کی دوسری بڑی لائبریری شمار ہوتی ہے جو گذشتہ سو برس سے یہاں کے لوگوں کی علمی وادبی پیاس بجھا رہی ہے ۔یہاں کی نایاب کتب کسی نودرات سے کم نہیں ہیں ۔خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی انتظامات موجود ہیں ۔بچوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے وسیع لان بناے گئے ہیں ۔لائبریری میں تمام شعبہ جات الگ الگ ہیں ۔

مخطوطات ، نایاب کتب ، اخبارات و رسائل وغیرہ کے لئے الگ الگ شعبے بنائے گئے ہیں
شعبہ اخبارات و رسائل ،شعبہ مخطوطات ،شعبہ نایاب کتب ،شعبہ کمپیوٹر و انٹرنیٹ بڑی خوبصورتی سے ترتیب دئیے گئے ہیں۔ترتیب کتب کا معیار ڈی ڈی سی سسٹم کے تحت ہے ۔ لائبریری کیٹلاگ مضمون ،عنوان ،مصنف کی ترتیب سے موجود ہے لیکن ابھی تک کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوسکے ۔شعبہ جلد سازی اور فوٹو سٹیٹ سروس مہیا کی جاتی ہے جو اسے جدید ترین لائبریری کہلانے کا حقدار بناتی ہے ۔
لائبریری دراصل ایسا عظیم مقام ہوتا ہے جہاں ہزاروں سالوں کا فکری و علمی اثاثہ اور دانشوروں کی ذہنی اور قلمی کاوشوں کا ثمر جمع ہوتا ہے آج بھی یہ لائبریری اپنی اسی شاندار عمارت میں موجود ہے ۔ روزمرہ معمول کے مطابق کھلتی اور بند ہوتی ہے ، کتب کی تعدا د میں ہر دن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ، اسٹاف کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے ۔

معاشرے میں کتب بینی کا دم توڑتا رجحان اور اس کے اثرات
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتاب بینی کا رجحان میں دن بدن کمی ہوتا چلا جارہا ہے،بدلتے حالات اور ڈیجیٹل ترقی نے ہمارا ذوق مظالعہ اور لائبریری کی اہمیت کا احساس چھین لیا ہے ،اب کتابوں کے قاری بہت کم رہ گئے ہیں۔لائبریری کے خالی اور خاموش کیبن بے رونق سے نظر آتے ہیں ،مقالہ نویسی اور پی ایچ ڈی کا معیار گر چکا ہے ، تحقیقی مزاج ناپید ہوتا جارہا ہے ،مقابلے کے امتحان کی تیاری شاید بغیر کتابوں کے ہی ہو جاتی ہے۔
انٹر نیٹ اور ڈیجیٹل مصروفیات کی وجہ سے ہماری لائبریریوں کی رونق ماند سی پڑ گئی ہے ، بہاولپور لائبریری کے نہایت سینیر اور قابل چیف لائبریرین رانا جاوید صاحب نے اس علمی منبع کی ترقی اور بہتری کے لیے بڑی جد جہد کی ہے اور آج بھی ان کی خدمات قابل ستائش ہیں وہ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب لوگوں کے رویے بدل رہے ہیں ، لوگ کتاب سے زیادہ اسکرین اور انٹر نیٹ میں دلچسپی لے رہے ہیں اس کے باوجود بہاولپور کے سولہ ہزار ممبران آج بھی اس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

نوابی دور کی سینکڑوں سال پرانی اور نایاب کتابیں قدر دانوں کی منتظر
گو یہاں موجود سینکڑوں سالہ پرانی اور نایاب کتب اپنے چاہنے والوں اور قدردانوں کی منتظر ہیں لیکن اب انہیں پڑھنے والے تو دور کی بات ہے چھونے اور ایک نظر دیکھنے والے بھی بہت کم کم نظر آتے ہیں اور کچھ لوگ اب بھی باقی ہیں جو کتاب سے محبت کرتے ہیں ۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ جدید ٹیکنالوجی کے عروج کے باوجود لائبریری کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اسکرین کی بجاے کتاب پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ جاپانی قوم ہے جو کتاب بینی کی شوقین ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی میں بھی سب سے آگے آگے ہے ۔کہتے ہیں پڑھنے سے دو طرح کی تھکن ہوجاتی ہے ۔ ایک نفسیاتی حوالے سے تھکاوٹ اور دوسرا جسمانی تھکن کا احساس ہوتا ہے لیکن ماہرین کا دعویٰ ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرنے سے انسان نفسیاتی طور پر کم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے ۔
لائبریری کا فائدہ یہ ہے کہ ہر کتاب ہر آدمی خرید تو نہیں سکتا مگر لائبریری سے لیکر پڑھ سکتا ہے اور اس کے علم سے استفادہ کر لیتا ہے ۔مطالعہ اور کتب بینی کے فروغ کے لیے لائبریریوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کےلئے حکومتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔جہاں کتاب کے ساتھ ساتھ اسکرین پر پڑھنے کے مواقع میسر ہوں۔

کتب بینی کے فروغ اور لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کیا کرنا ہوگا ؟
دوسری جانب کتابوں اور لائبریریوں کی اہمیت ،ضرورت اجاگر کرنےاور نوجوانوں کو لائبریری تک لانے اور ان میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کے سلسلے ہمارے والدین ،اساتذہ ،میڈیا اور مذہبی سکالرز کا کردار بہت اہم ہے ۔میری راےُ میں آج یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ یہاں ایک خصوصی شعبہ نئے لکھنے والوں کی کتب اور تحریروں کی پبلشنگ اور چھپائی کا بھی ہونا چاہیے جو کتابوں کی اشاعت میں رہنمائی اور سہولٹ فراہم کر سکے یہ یقینا” کتاب دوست دانشوروں اور لکھاریوں کو یکجاکرنے کا سبب بن سکتا ہے جہاں کمپوزنگ ،پروف ریڈنگ اور اشاعت کے تمام مراحل ایک ہی چھت تلےمکمل ہوں اور ان کتابوں کی مارکیٹنگ اور رونمائی بھی ممکن ہو سکے ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک