امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

علی علیہ السلام کا فاتحِ خیبر اور علمبردارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بَابٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه فَاتِحاً لِخَيْبَرَ وَ صَاحِبَ لِوَاءِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم

علی علیہ السلام کا فاتحِ خیبر اور علمبردارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا

۱۳۱. عَنْ سَلَمَةَ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي خَيْبَرَ، وَکَانَ بِهِ رَمَدٌ، فَقَال : أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَخَرَجَ عَليٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا کَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اﷲُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلاً يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، أَوْ قَالَ : يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، يَفْتَحُ اﷲُ عَلَيهِ. فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ، وَمَا نَرْجُوْهُ، فَقَالُوْا : هَذَا عَلِيٌّ، فَأَعْطَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوب چشم کی تکلیف کے باعث معرکہ خیبر کے لیے (بوقت روانگی) مصطفوی لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیچھے رہ گیا ہوں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نکلے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ جب وہ شب آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔ پھر اچانک ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، حالانکہ ہمیں ان کے آنے کی توقع نہ تھی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ یہ حدیث متفق علیہ۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۱ : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۳ / ۱۳۵۷، الحديث رقم : ۳۴۹۹، و في کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، ۴ / ۱۵۴۲، الحديث رقم : ۳۹۷۲، و في کتاب الجهاد و السير، باب ما قيل في لواء النبي صلي الله عليه وآله وسلم، ۳ / ۱۰۸۶، الحديث رقم : ۲۸۱۲، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ۴ / ۱۸۷۲، الحديث رقم : ۲۴۰۷، و البيهقي في السنن الکبريٰ، ۶ / ۳۶۲، الحديث رقم : ۱۲۸۳۷.

۱۳۲. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اﷲُ عَلٰي يَدَيْهِ. يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ. وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوْکُوْنَ لَيْلَتَهُمْ أَيُهُمْ يُعْطَاهَا. قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. کُلُّهُمْ يَرْجُوْ أَنْ يُعْطَاهَا. فَقَالَ : أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالُوا : هُوَ يَا رَسُولَ اﷲِ! يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ. قَالَ : فَأَرْسِلُوْا إِلَيْهِ. فَأُتِيَ بِه فَبَصَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَيْنَيْهِ. وَ دَعَا لَهُ، فَبَرَأَ. حَتَّي کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ. فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ. فَقَالَ عَلِيٌّ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! أُقَاتِلُهُمْ حَتَّي يَکُوْنُوْا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ : أُنْفُذْ عَلَي رِسْلِکَ. حَتَّي تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ. ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَي الْإِسْلَامِ. وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اﷲِ فِيْهِ. فَوَاﷲِ! لَأَنْ يَهْدِيَ اﷲُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے کہا پھر صحابہ نے اس اضطراب کی کیفیت میں رات گزاری کہ دیکھئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے ان میں سے ہر شخص کو یہ توقع تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو جھنڈا عطا فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو بلاؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے حق میں دعا کی تو ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہو گئیں گویا کبھی تکلیف ہی نہ تھی، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا جب تک وہ ہماری طرح نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نرمی سے روانہ ہونا، جب تم ان کے پاس میدان جنگ میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق واجب ہیں، بخدا اگر تمہاری وجہ سے ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۲ : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، ۴ / ۱۵۴۲، الحديث رقم : ۳۹۷۳، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۳ / ۱۳۵۷، الحديث رقم : ۳۴۹۸، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، ۴ / ۱۸۷۲، الحديث رقم : ۲۴۰۶، وأحمد بن حنبل في المسند، ۵ / ۳۳۳، الحديث رقم : ۲۲۸۷۲، و ابن حبان في الصحيح، ۱۵ / ۳۷۷، الحديث رقم : ۶۹۳۲، و أبو يعلي في المسند، ۱۳ / ۵۳۱، الحديث رقم : ۷۵۳۷.

۱۳۳. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ. يَفْتَحُ اﷲُ عَلَي يَدَيْهِ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ. قَالَ فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَي لَهَا. قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ. فَأَعْطَاهُ إِيَاهَا. وَقَالَ امْشِ. وَلَا تَلْتَفِتْ. حَتَّي يَفْتَحَ اﷲُ عَلَيْکَ. قَالَ فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ. فَصَرَخَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! عَلَي مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ؟ قَالَ قَاتِلْهُمْ حَتَّي يَشْهَدُوْا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوْا مِنْکَ دِمَاءَ هُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ. إِلَّا بِحَقِّهَا. وَ حِسَابُهُمْ عَلَي اﷲِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا : کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی، اس دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس امید سے آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کیلئے بلائیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور فرمایا جاؤ اور ادھر ادھر التفات نہ کرنا، حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ دور گئے پھر ٹھہر گئے اور ادھر ادھر التفات نہیں کیا، پھر انہوں نے زور سے آواز دی یا رسول اللہ! میں لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ وہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دیں اور جب وہ یہ گواہی دے دیں تو پھر انہوں نے تم سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لیا الّا یہ کہ ان پر کسی کا حق ہو اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۳ : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، ۴ / ۱۸۷۱، ۱۸۷۲، الحديث رقم : ۲۴۰۵، وابن حبان في الصحيح، ۱۵ / ۳۷۹، الحديث رقم : ۶۹۳۴، والنسائي في السنن الکبري، ۵ / ۱۷۹، الحديث رقم : ۸۶۰۳، والبيهقي في شعب الإيمان، ۱ / ۸۸، الحديث رقم : ۷۸، و ابن سعد في الطبقات الکبري، ۲ / ۱۱۰.

۱۳۴. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ : ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَي عَلِيٍّ، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ، أَوْ يَحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُولُهُ. قَالَ : فأَتَيْتُ عَلِيًّا، فَجِئْتُ بِهِ أَقُوْدُهُ، وَهُوَ أَرْمَدُ، حَتَّي أَتَيْتُ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَبَصَقَ فِيْ عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ، وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ :

قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ

شَاکِي السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ

إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ

فَقَالَ عَلِيٌّ :

أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ

کَلَيْثِ غَابَاتٍ کَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ

أُو فِيهِمُ بِالصَّاعِ کَيْلَ السَّنْدَرَهْ

قَالَ : فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ کَانَ الفَتْحُ عَلَي يَدَيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلانے کے لئے بھیجا اور ان کو آشوب چشم تھا پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ضرور بالضرور جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آیا اس حال میں کہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔ اور پھر اُنھیں جھنڈا عطا کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں مرحب نکلا اور کہنے لگا۔‘‘

(تحقیق خیبر جانتا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور ایک تجربہ کار جنگجو ہوں اور جب جنگیں ہوتی ہیں تو وہ بھڑک اٹھتا ہے)

پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

(میں وہ شخص ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے اور میں جنگل کے اس شیر کی مانند ہوں جو ایک ہیبت ناک منظر کا حامل ہو یا ان کے درمیان ایک پیمانوں میں ایک بڑا پیمانہ)

راوی بیان کرتے ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اور اس کو قتل کر دیا پھر فتح آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۴ : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد و السير، باب غزوة الأحزاب و هي الخندق، ۳ / ، ۱۴۴۱، الحديث رقم : ۱۸۰۷، و ابن حبان في الصحيح، ۱۵ / ۳۸۲، الحديث رقم : ۶۹۳۵، و أحمد بن حنبل في المسند، ۴ / ۵۱، و ابن أبي شيبة في المصنف، ۷ / ۳۹۳، الحديث رقم : ۳۶۸۷۴، و الطبراني في المعجم الکبير، ۷ / ۱۷، الحديث رقم : ۶۲۴۳.

۱۳۵. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ، : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَمِنْهَا عَنْهُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ اللِّوَاءَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُوْلُهُ. فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ، دَعَا عَلِيًّا، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِيْ عَيْنَيْه وَأَعْطَاهُ اللِّوَاءَ، وَنَهَضَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَقِيَ أَهْلَ خَيْبَرَ، وإِذَا مَرْحَبٌ يَرْتَجِزُ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَ هُوَ يَقُوْلُ :

قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ

شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ

أَطْعَنُ أَحْيَانًا وَحِينًا أَضْرِبُ

إِذَا اللُّيُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ

قَالَ : فَاخْتَلَفَ هُوَ وَ عَلِيٌّ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبَهُ عَليَ هَامَتِهِ حَتَّي عَضَّ السَّيْفُ مِنْهَا بِأَضْرَاسِهِ، وَسَمِعَ أَهْلُ الْعَسْکَرِ صَوْتَ ضَرْبَتِهِ. قَالَ : وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِيٍّ حَتَّي فُتِحَ لَهُ وَلَهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل خبیر کے قلعہ میں اترے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں ضرور بالضرور اس آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں، پس جب اگلا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے معیت میں قتال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ آپ کا سامنا اہل خیبر کے ساتھ ہوا اور اچانک مرحب نے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یہ رجزیہ اشعار کہے :

(تحقیق خیبر نے یہ جان لیا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور میں ایک تجربہ کار جنگجو ہوں۔ میں کبھی نیزے اور کبھی تلوار سے وار کرتا ہوں اور جب یہ شیر آگے بڑھتے ہیں تو بھڑک اٹھتے ہیں)

راوی بیان کرتے ہیں دونوں نے تلواروں کے واروں کا آپس میں تبادلہ کیا پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی کھوپڑی پر وار کیا یہاں تک کہ تلوار اس کی کھوپڑی کو چیرتی ہوئی اس کے دانتوں تک آپہنچی اور تمام اہل لشکر نے اس ضرب کی آواز سنی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ان لوگوں میں سے کسی اور نے آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقابلہ کا ارادہ نہ کیا۔ یہاں تک کہ فتح مسلمانوں کا مقدر ٹھہری۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۵ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۵ / ۳۵۸، الحديث رقم : ۲۳۰۸۱، و النسائي في السنن الکبريٰ، ۵ / ۱۰۹، الحديث رقم : ۸۴۰۳، و الحاکم في المستدرک، ۳ / ۴۹۴، الحديث رقم : ۵۸۴۴، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۶ / ۱۵۰، و الطبري في التاريخ الطبري، ۲ / ۱۳۶.

۱۳۶. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ إِلَيَّ وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَيْنِ، يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنِّيْ أَرْمَدُ الْعَيْنِ، قَالَ : فَتَفَلَ فِي عَيْنِي وَقَالَ : اللَّهُمَّ! أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلاَ بَرْدًا مُنْذُ يَوْمَئِذٍ. وَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ فَتَشَرَّفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِيْهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دوران مجھے بلا بھیجا اور مجھے آشوب چشم تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے آشوب چشم ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور فرمایا : اے اللہ! اس سے گرمی و سردی کو دور کر دے۔ پس اس دن کے بعد میں نے نہ تو گرمی اور نہ ہی سردی محسوس کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : میں ضرور بالضرور یہ جھنڈا اس آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۶ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۹۹، الحديث رقم : ۷۷۸، و في ۱ / ۱۳۳، الحديث رقم : ۱۱۱۷، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، ۲ / ۵۶۴، الحديث رقم : ۹۵۰.

۱۳۷. عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ بِالرَّحَبَةِ، قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فِيْهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمَرٍو وَ أُنَاسٌ مِن رُؤَسَاءِ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ خَرَجَ إِلَيْکَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا وَ إِخْوَانِنَا وَ أَرِقَّائِنَا وَ لَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ، وَ إِنَّمَا خَرَجُوْا فِرَارًا مِن أَمْوَالِنَا وَ ضِيَاعِنَا فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا. فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثُنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَکُمْ بِالسَّيْفِ عَلَي الدِّيْنِ، قَدْ إِمْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ عَلَي الْإِيْمَانِ. قَالُوْا : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُوبَکْرٍ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ وَ قَالَ عُمَرُ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ، وَ کَانَ أَعْطَي عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا. قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کَذِبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رحبہ کے مقام پر فرمایا : صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی مشرکین ہماری طرف آئے جن میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کئی دیگر سردار تھے پس انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری اولاد، بھائیوں اور غلاموں میں سے بہت سے ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے آئے ہیں جنہیں دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ یہ لوگ ہمارے اموال اور جائیدادوں سے فرار ہوئے ہیں۔ لہٰذا آپ یہ لوگ ہمیں واپس کر دیجئے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے قریش! تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین اسلام کی خاطر تلوار کے ساتھ تمہاری گردنیں اڑا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے ایمان کو آزما لیا ہے۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما اور دیگر لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جوتیوں میں پیوند لگانے والا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت اپنی نعلین مبارک مرمت کے لئے دی تھیں۔ حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا۔ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کر لے۔ اس حدیث کوامام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۷ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، ۵ / ۶۳۴، الحديث رقم : ۳۷۱۵، و الطبراني في المعجم الأوسط، ۴ / ۱۵۸، الحديث رقم : ۳۸۶۲، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، ۲ / ۶۴۹، الحديث رقم : ۱۱۰۵.

۱۳۸. عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشَيْنِ وَ أَمَّرَ عَلٰي أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ وَعَلٰي الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ، وَقَالَ : إِذَا کَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ : فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْناً فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَکَتَبَ مَعِيَ خَالِدٌ کِتَاباً إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم يَشِيْ بِهِ، قَالَ : فَقَدِمْتُ عَلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَرَأَ الْکِتَابَ، فَتَغَيَرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ : مَا تَرَي فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُولُهُ؟ قَالَ : قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَ مِنْ غَضَبِ رَسُولِه، وَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلٌ، فَسَکَتَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دولشکر ایک ساتھ روانہ کیے۔ ایک کا امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور فرمایا : جب جنگ ہوگی تو دونوں لشکروں کے امیر علی ہوں گے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور مال غنیمت میں سے ایک باندی لے لی۔ اس پرحضرت خالد رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ ایک خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پڑھا تو چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ فرمایا : تم اس شخص سے کیا چاہتے ہو جو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں تو صرف قاصد ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۸ : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، ۵ / ۶۳۸، الحديث رقم : ۳۷۲۵، و في کتاب الجهاد : باب ما جاء من يستعمل علي الحرب، ۴ / ۲۰۷، الحديث رقم : ۱۷۰۴، و ابن أبي شيبه في المصنف، ۶ / ۳۷۲، الحديث رقم : ۳۲۱۱۹.

۱۳۹. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا قَالَ : وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيْهِ اﷲُ أَبَدًا، يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ قَالَ، فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنِ اسْتَشْرَفَ. قَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ؟ قَالُوْا : هُوَ فِي الرَّحٰي يَطْحَنُ قَالَ وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِيَطْحَنَ؟ قَالَ، فَجَاءَ وَ هُوَ أَرْمَدُ لَا يَکَادُ يُبْصِرُ. قَالَ؟ فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ، ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلاَ ثًا فَأَعْطَاهَا إِيَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ وہ اس آدمی میں جھگڑا کر رہے تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہے وہ اس آدمی میں جھگڑا کر رہے تھے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں (فلاں غزوہ کے لئے) اس آدمی کو بھیجوں گا جس کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ پس (اس جھنڈے) کے حصول کی سعادت کے لئے ہر کسی نے خواہش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیس رہا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو آشوب چشم تھا اور اتنا سخت تھا کہ آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں پھونکا پھر جھنڈے کو تین دفعہ ہلایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطاء کر دیا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۳۹ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۳۳۰، الحديث رقم : ۳۰۶۲، و الحاکم في المستدرک، ۳ / ۱۴۳، الحديث رقم : ۴۶۵۲، و النسائي في السنن الکبريٰ، ۵ / ۱۱۳، الحديث رقم : ۸۴۰۹، و ابن أبي عاصم في السنة، ۲ / ۶۰۳، الحديث رقم : ۱۳۵۱.

۱۴۰. عَنْ هُبَيْرَةَ : خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُهُ بَالرَّايَةِ، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِهِ، لاَ يَنْصَرِفُ حَتَّي يُفْتَحَ لَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأَوْسَطِ.

’’حضرت ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی ر ضی اللہ عنھما نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرائیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۴۰ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، ۱ / ۱۹۹، الحديث رقم : ۱۷۱۹، و الطبراني في المعجم الأوسط، ۲ / ۳۳۶، الحديث رقم : ۲۱۵۵.

۱۴۱. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ الرَّايَةَ فَهَزَّهَا ثُمَّ قَالَ : مَنْ يَأْخُذُهَا بِحَقِّهَا؟ فَجَاءَ فُلاَنٌ فَقَالَ : أَنَا، قَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي کَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لَأُعْطِيَنَّهَا رَجُلاً لاَ يَفِرُّ، هَاکَ يَا عَلِيُّ فَانْطَلَقَ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ وَ فَدَکَ وَجَاءَ بِعَجْوَتِهِمَا وَقَدِيْدِهِمَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا پکڑا اور اس کو لہرایا پھر فرمایا : کون اس جھنڈے کو اس کے حق کے ساتھ لے گا پس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا میں اس جھنڈے کو لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پیچھے ہو جاؤ پھر ایک اور آدمی آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی فرمایا پیچھے ہو جاؤ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے محمد کے چہرے کو عزت و تکریم بخشی میں یہ جھنڈا ضرور بالضرور اس آدمی کو دوں گا جو بھاگے گا نہیں۔ اے علی! یہ جھنڈا اٹھا لو پس وہ چلے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں خیبر اور فدک کی فتح نصیب فرمائی اور آپ ان دونوں (خیبر و فدک) کی کھجوریں اور خشک گوشت لے کر آئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابویعلی نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۴۱ : أخرجه أحمد في المسند، ۳ / ۱۶، الحديث رقم : ۱۱۱۳۸، و أبويعلي في المسند، ۲ / ۴۹۹، الحديث رقم : ۱۳۴۶، و الهيثمي في مجمع الزوائد، ۶ / ۱۵۱، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، ۲ / ۵۸۳، الحديث رقم : ۹۸۷.

۱۴۲. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه مَولَي رَسُوْلِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه حِيْنَ بَعَثَهُ رَسُولُ اﷲِ بِرَأْيَتِهِ، فَلَمَّا دًنَا مِنَ الحِصْنِ، خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فقَاتَلَهُمْ، فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُوْدَ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ، فَتَنَاولَ عَلِيٌّ رضي الله عنه بَابًا کَانَ عِنْدَ الحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ، فَلَمْ يَزِلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدَيْهِ حِيْنَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ، نَجْهَدُ عَلَي أَنْ نَقْلِبَ ذَلِکَ البَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْهَيْثَمِيُّ.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے۔ جب ہم قلعہ خیبر کے پاس پہنچے جو مدینہ منورہ کے قریب ہے تو خیبر والے آپ پر ٹوٹ پڑے۔ آپ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ پر ایک یہودی نے وار کرکے آپ کے ہاتھ سے ڈھال گرا دی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا ایک دروازہ اکھیڑ کر اسے اپنی ڈھال بنالیا اور اسے ڈھال کی حیثیت سے اپنے ہاتھ میں لئے جنگ میں شریک رہے۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہوجانے کے بعد اس ڈھال نما دروازہ کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے، ہم آٹھ کے آٹھ مل کر اس دروازے کو الٹنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ دروازہ (جسے حضرت علی نے تنہا اکھیڑا تھا) نہ الٹایا جا سکا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۴۲ : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند،، ۶ / ۸، الحديث رقم : ۲۳۹۰۹، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۶ / ۱۵۲.

۱۴۳. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه : أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه حَمَلَ البَابَ يَوْمَ خَيْبَرَ حَتَّي صَعِدَ المُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُونَ رَجُلا. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کرلیا اور یہ آزمودہ بات ہے کہ اس دروازے کو چالیس آدمی مل کر اٹھاتے تھے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۴۳ : أخرجه ابن أبي أبي شيبة في المصنف، ۶ / ۳۷۴، الحديث رقم : ۳۲۱۳۹، والعسقلاني في فتح الباري، ۷ / ۴۷۸، والعجلوني في کشف الخفاء، ۱ / ۴۳۸، الحديث رقم : ۱۱۶۸، وَقَالَ العجلونِي : رَواهُ الحَاکِمُ وَالبَيْهَقِيُّ عَنْ جَابِرٍ، والطبراني في تاريخ الأمم والملوک، ۲ / ۱۳۷، وابن هشام في السيرة النبوية، ۴ / ۳۰۶.

۱۴۴. عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ کَانَ صَاحِبَ لِوَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، يَوْمَ بَدْرٍ وَ فِي کُلِّ مَشْهَدٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سمیت ہر معرکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم بردار تھے۔ اسے ابن سعد نے’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم ۱۴۴ : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، ۳ / ۲۳.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک