امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام محمد تقی علیہ السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام محمد تقی علیہ السلام

محمد بن علی بن موسی (195-220ھ)، امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔ آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمری میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہؑ میں آپ سب سے کم عمر میں شہادت پر فائز ہوئے ہیں۔
بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب آپ کی امامت میں تردید کرتے ہوئے عبدالله بن موسی کی امامت کے قائل ہوئے اور بعض دیگر افراد واقفیہ سے ملحق ہوگئے۔ البتہ اکثریت نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔
امام محمد تقیؑ کا وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے لوگوں سے رابطہ رہتا تھا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرقے بہت سرگرم تھے اسی وجہ سے آپ اپنے ماننے والوں کو ان مذاہب کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔
دوسرے مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کا ہاتھ کاٹنا اور احکام حج کے بارے میں مناظرے قابل ذکر ہیں۔
نسب، کنیت اور القاب
محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضاؑ شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔[1] آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں جن کا نام سبیکہ نوبیہ تھا۔[2]
آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔[3] منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے۔[4] تا کہ ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے اشتباہ نہ ہو۔[5]
آپؑ کے مشہور القاب، جواد و ابن الرضا[6] ہیں، جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل،[7] مرتضی اور منتجَب جیسے القاب بھی نقل ہوئے ہیں۔[8]
سوانح حیات

مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 195 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔[17] لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔[18] زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔[19] بعض نے 15 رمضان[20] و بعض نے 19 رمضان[21] نقل کی ہے۔[22] شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔[23]
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ کہتے تھے کہ علی بن موسی کس طرح سے امام ہو سکتے ہیں جبکہ ان کے بعد ان کی نسل منقطع ہو جائے گی۔[24] یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی امام رضاؑ نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔[25] ان کی ولادت کے باجود بھی بعض واقفیہ نے امام رضاؑ سے ان کے انتساب کا انکار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ امام محمد تقیؑ شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے والد امام رضاؑ سے شباہت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ قیافہ شناس افراد کو بلایا گیا اور انہوں نے تائید کی کہ آپ امام رضاؑ کے فرزند ہیں۔[26] حالانکہ شریعت میں قیافہ شناسوں کا قول معتبر دلیل کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن چونکہ وہ لوگ ان کی بات کو مانتے تھے لہذا ان کی بات سے انہیں اطمینان حاصل ہوگیا۔
آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہیں۔ اس کا سبب عباسی حکومت کی طرف سے سیاسی محدودیت، تقیہ اور آپ کی مختصر حیات بیان ہوا ہے۔[27] آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا[28] اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔
ازواج
امام محمد تقی کی شادی مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے سنہ 202 ھ[29] یا سنہ 205 ھ[30] میں ہوئی۔ بعض مآخذ کے مطابق احتمالا امام رضاؑ کے سکونتِ خراسان کے دوران ایک بار آپؑ نے ان سے ملنے کی غرض سے خراسان کا سفر کیا تھا۔[31] اسی وقت مامون نے اپنی بیٹی کا نکاح آپؑ سے کیا۔[32] اہل سنت مورخ ابن کثیر کے مطابق امام محمد تقی کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح 8 سال سے بھی کم عمر میں حضرت امام رضاؑ کی حیات میں پڑھا گیا تھا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 215 ہجری میں تکریت میں ہوئی۔[33]
یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی۔[34] مامون کا مقصد یہ تھا کہ ان سے پیدا ہونے والا بچہ پیغمبر اکرم (ص) و امام علی (ع) کی نسل سے ہو۔[35] کتاب الاشاد میں شیخ مفید کے نقل کے مطابق، مامون نے امام محمد تقی کی علمی شخصیت و اپنے شوق کی وجہ سے اپنی بیٹی کا عقد امام سے کیا۔ [36] البتہ بعض محققین کا ماننا ہے کہ اس شادی کا مقصد سیاسی تھا، منجملہ ایک مقصد یہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے ذریعہ امام (ع) اور شیعوں سے ان کے رابطے کو کنٹرول کرے۔[37] یا خود کو علویوں کا چاہنے والا پیش کرے اور انہیں اپنے خلاف قیام سے روک سکے۔[38] مامون کے قریبی بعض عباسیوں نے اس شادی کے خلاف اعتراض کیا انہیں ایسا لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو حکومت عباسیوں کے ہاتھ سے نکل کر علویوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔[39] امامؑ نے اس کے لئے حضرت زہراءؑ کا مہر یعنی 500 درہم قرار دے کر اس رشتے کو منظور کیا۔[40] اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[41]
آپؑ کی دوسری زوجہ سمانہ مغربیہ تھیں۔[42] وہ ایک کینز تھیں جنہیں خود امام کے حکم سے خریدا گیا تھا۔[43] امام کی تمام اولاد کی والدہ یہی زوجہ ہیں۔[44]
اولاد

شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔[45] البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے۔[46] بعض متاخر مصادر میں ام محمد و زینب کو بھی آپ کی بیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے۔[47]
شہادت

باسی حکومت نے آپ کو دو بار بغداد احضار کیا۔ پہلا سفر مامون کے زمانہ میں زیادہ طولانی نہیں تھا۔[48] دوسری بار 28 محرم سنہ 220 ھ میں معتصم کے طلب کرنے پر بغداد میں وارد ہوئے اور اسی سال ذی القعدہ[49] یا ذی الحجہ[50] میں شہید ہوئے۔ زیادہ تر منابع میں آپ کی شہادت کا دن آخر ذی القعدہ ذکر ہوا ہے۔[51] البتہ بعض منابع امام کی شہادت کی تاریخ 5 ذی الحجہ[52] یا 6 ذی الحجہ[53] ذکر ہوئی ہے۔ آپ کے جسد کو مقبرہ قریش کاظمین میں آپ کے جد امام موسی کاظم (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا۔[54] شہادت کے وقت آپ کی عمر 25 برس نقل ہوئی ہے۔[55] اس اعتبار سے آپ شہادت کے وقت جوان ترین شیعہ امام تھے۔
آپؑ کی شہادت کے اسباب کے حوالے سے مروی ہے کہ بغداد کے قاضی ابن ابی داؤد نے معتصم عباسی کے پاس چغل خوری کی اور اس سخن چینی کا اصل سبب یہ تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کی رائے پر عمل ہوا تھا اور یہ بات ابن ابی داؤد اور دیگر درباری فقہاء کی شرمندگی کا باعث ہوئی تھی۔[56]
آپ کو کس طرح شہید کیا گیا اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ معتصم نے اپنی اس نیت کو اپنے ایک وزیر کے مسشی کے توسط سے عملی جامہ پہنایا جس نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔[57] البتہ بعض دوسروں کی رائے ہے کہ امامؑ کو ام الفضل بنت مامون نے زہر دیا تھا۔[58] مسعودی (متوفی 346 ہجری) کا کہنا ہے: معتصم عباسی اور ام الفضل کا بھائی جعفر بن مامون مسلسل امامؑ کو زہر دینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چونکہ ام الفضل کی کوئی اولاد نہیں تھی اور امام علی نقی امام محمد تقی کی دوسری زوجہ سے تھے۔ جعفر نے اپنی بہن کو اکسایا کہ آپؑ کو زہر دے کر قتل کرے۔ چنانچہ اس نے زہر انگور کے ذریعے امامؑ کو کھلا دیا۔ مسعودی کے بقول ام الفضل امام کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی اور رو رہی تھی۔ اسی حال میں امامؑ نے اس کو بد دعا دی اور آپؑ کی شہادت کے بعد ام الفضل بہت شدید مرض میں مبتلا ہوئی۔[59] ام الفضل کے ذریعہ آپ کی شہادت کی کیفیت کے سلسلہ میں دوسری گزارشات بھی نقل ہوئی ہیں۔[60]
ایک دوسری روایت کے مطابق، جب لوگوں نے معتصم کے ہاتھوں پر بیعت کر لی تو اس نے والی مدینہ عبد الملک زیات کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ وہ امام (ع) کو ام الفضل کے ہمراہ بغداد روانہ کرے۔ جب امام بغداد میں وارد ہوئے تو اس نے ظاہری طور پر امام کا احترام کیا اور امام و ام الفضل کے لئے تحائف بھیجے۔ اس روایت کے مطابق معتصم نے پرتقال کا شربت اپنے غلام کے ذریعہ جس کا نام اسناش تھا، امام کے پاس بھیجا۔ اس نے امام سے کہا کہ خلیفہ نے یہ شربت بعض بزرگان منجملہ احمد بن ابی ‌داود و سعید بن خضیب کو پلایا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ بھی یہ شربت پی لیں۔ امام نے فرمایا: میں اسے شب میں نوش کروں گا۔ لیکن اس نے اصرار کیا کہ یہ ابھی ٹھنڈا ہے بعد میں یہ گرم ہو جائے گا تو امام نے اسے نوش کر لیا اور اسی کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔[61]
شیخ مفید زہر سے آپ کی شہادت کے سلسلہ میں تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ چیز میرے لئے ثابت نہیں ہے تا کہ میں اس کی شہادت دے سکوں۔[62] بعض نے شیخ کی اس عبارت سے جو انہوں نے بعض دوسرے ائمہ کے لئے بھی استعمال کی ہیں، یہ اخذ کیا ہے کہ وہ امام تقی (ع) کی شہادت کے قائل نہیں تھے اور ان کے لحاظ کے امام کی موت طبیعی طور پر واقع ہوئی ہے۔ البتہ بعض شیعہ محققین نے اس روایت «ما مِنّا إلّا مقتولٌ شهیدٌ»[63] سے استناد کرتے ہوئے اور اسی طرح سے ان شواہد کو ذکر کرتے ہوئے جو امام کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، شیخ مفید کی اس بات کی توجیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ وہ بغداد میں قیام پذیر تھے اور اس بات کے پیش نظر کہ عباسی حکومت میں مکتب اہل بیت (ع) اور شیعوں کے خلاف جو فضا حاکم تھی، اس میں شیخ صراحت کے ساتھ شیعہ عقاید اور امام محمد تقی (ع) کی شہادت کے بارے میں اظہار نظر نہیں کر سکتے تھے لہذا انہوں نے اس مورد میں تقیہ کیا ہے۔ یہ احتمال بھی ذکر ہوا ہے کہ زیادہ منابع ان کی دسترس میں نہ ہونے اور منابع اصلی تک رسائی حاصل کرنے میں سختی کی وجہ سے یہ مطالب ان تک نہیں پہچ سکے ہیں۔[64]
مدت امامت

امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دور امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے شروع ہوتا ہے۔[65] آپؑ کی امامت کا زمانہ دو عباسی خلفاء کے معاصر ہے تقریبا 15 سال مامون (193۔218 ھ) کی حکومت کے دور میں اور دو سال معتصم (218۔227 ھ) کی حکومت کے دور میں گزرے۔[66] آپ کی مدت امامت 17 سال ہے۔ [67] سنہ 220 ھ میں ان کی شہادت کے بعد منصب امامت ان کے فرزند امام علی نقی (ع) کی طرف منتقل ہوگیا۔[68]
نصوص امامت
شیعوں عقیدہ کے مطابق امام فقط سابق امام کی نص سے تعیین ہوتا ہے۔[69] یعنی ہر امام کو چاہئے کہ وہ واضح الفاط میں اپنے بعد کے امام کو معین کرے۔ امام رضا (ع) نے متعدد موارد میں امام محمد تقی (ع) کی امامت کا اعلان اپنے اصحاب کے سامنے فرمایا تھا۔ کتاب الکافی،[70] کتاب الارشاد،[71] اعلام الوری[72] و بحار الانوار[73] میں سے تمام کتب میں امام محمد تقی (ع) کی امامت کے سلسلہ میں مستقل باب موجود ہے۔ ان میں بالترتیب 14، 11، 9، 26 روایات اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں۔ منجملہ ان روایات میں ایک روایت میں ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام تقی] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے۔[74] یا ایک روایت میں آپ نے فرمایا: یہ ابو جعفر ہیں جنہیں میں نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور میں نے عہدہ امامت ان کے سپرد کیا ہے۔[75]
بچپن میں امامت اور شیعوں کی آشفتگی
امام محمد تقی (ع) تقریبا آٹھ سال کی عمر میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔[76] آپ عمر کم ہونے کی وجہ سے امام رضا (ع) کے بعد آپ کی امامت میں اختلاف پیدا ہوگیا؛ بعض امام رضا کے بھائی عبد اللہ بن موسی کی طرف چلے گئے لیکن کچھ ہی مدت کے بعد انہیں احساس ہوگیا کہ ان میں امامت کی لیاقت نہیں ہے لہذا ان سے پلٹ آئے۔[77] بعض امام رضا کے دوسرے بھائی احمد بن موسی کی طرف مائل ہوگئے اور بعض واقفیہ سے ملحق ہوگئے۔[78] بہرحال امام رضا (ع) کے زیادہ تر اصحاب امام محمد تقی (ع) کی امامت کے معتقد رہے۔[79] منابع نے اس اختلاف کا سبب امام کی کم عمری ذکر کیا ہے۔ نوبختی کے بقول اس اختلاف کی علت یہ تھی کہ وہ لوگ امام کے لئے بالغ ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔[80] البتہ یہ مسئلہ امام رضا کی زندگی میں پیش آ چکا تھا۔ امام رضا نے اس کے جواب میں حضرت عیسی کو بچپن میں نبوت ملنے سے استناد کیا اور فرمایا: جب عیسی کو نبوت عطا ہوئی تو ان کی عمر میرے فرزند سے بھی کم تھی۔[81]
اسی طرح سے ان لوگوں کے جواب میں جو امام کے بچپن پر اعتراض ذکر کرتے تھے، قرآن کریم کی ان آیات سے جن میں حضرت یحیی کو بچپن میں نبوت ملنے[82] اور اسی طرح سے حضرت عیسی کے گہوارے میں گفتگو کرنے سے[83] استناد کیا گیا ہے۔[84] خود امام محمد تقی (ع) نے اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراض کے جواب میں حضرت داود کے جانشین حضرت سلیمان کی طرف اشارہ کیا ہے جنہیں بچپن میں نبوت عطا ہوئی اور فرمایا: انہیں اس وقت نبوت عطا ہوئی جب وہ بچے تھے اور گوسفند چرایا کرتے تھے حضرت داود نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا حالانکہ علمائے بنی اسرائیل اس بات سے انکار کرتے تھے۔[85]
شیعوں کے سوال و امام کے جواب
امام رضا (ع) متعدد مواقع پر امام محمد تقی (ع) کی امامت کی تصریح فرما چکے تھے۔[86] اس کے باوجود بعض شیعہ مزید اطمینان کی غرض سے آپ سے سوال فرماتے تھے۔[87] یہ آزمایش دوسرے ائمہ کے لئے بھی ہو چکی تھی۔[88] البتہ امام جواد کی عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کے سلسلہ میں اس ضرورت کا زیادہ احساس کیا گیا۔[89] مورخ معاصر رسول جعفریان کے بقول، شیعوں کی طرف سے ایسا ہونے کی دلیل یہ تھی کہ کبھی بعض دلائل کی وجہ سے جیسے تقیہ و حفظ جان امام کے کئی افراد سے اس کی وصیت کی جاتی تھی۔[90]
منابع روایی میں مختلف گزارشات ذکر ہوئی ہیں جن کے مطابق شیعوں نے امام محمد تقی (ع) سے سوالات کئے اور امام کے جوابات ان کی منزلت بڑھانے اور ان کی امامت کے قبول کرنے کا سبب بنے۔[91] البتہ یہ سوال پوچھنے کی روش امام تقی سے مخصوص نہیں تھی۔ وہ اسی طریقے سے دوسروں کے امتحان بھی لے چکے تھے۔[92] روایات میں ذکر ہوا ہے کہ شیعوں کے مختلف گروہ جو بغداد اور مختلف شہروں سے حج کے لئے آئے تھے وہ امام جواد الائمہ کے دیدار کے لئے مدینہ گئے۔ انہوں نے مدینہ میں عبد بن موسی سے ملاقات کی اور ان سے سوالات پوچھے لیکن انہوں نے ان سوالوں کے غلظ جوابات دیئے۔ وہ لوگ حیران ہوگئے۔ اسی مجلس میں امام تقی (ع) وارد ہوئے تو انہوں نے ان ہی سوالات کو ان دریافت کیا اور امام (ع) کے جواب سے قانع ہوگئے۔[93]
شیعوں سے ارتباط
امام جوادؑ نے دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں وکیلوں کے توسط سے شیعیان اہل بیتؑ سے رابطے میں تھے۔ بغداد، کوفہ، اہواز، بصرہ، ہمدان، قم، رے، سیستان اور بُست میں آپ کے نمائندے موجود تھے۔[94] آپ کے وکلاء کی تعداد 13 نقل ہوئی ہے۔[95] وہ شیعوں سے موصول ہونے والی رقوم شرعیہ کو امام تک پہچاتے تھے۔[96] ہمدان میں ابراہیم بن محمد ہمدانی[97] اور ابو حذاء بصرہ کے اطراف میں[98] آپ کے وکیل تھے۔ صالح بن محمد بن سہل قم میں امام کے موقوفات کی رسیدگی کرتے تھے۔[99] اسی طرح سے زکریا بن آدم قمی،[100] عبد العزیز بن مهتدی اشعری قمی،[101] صفوان بن یحیی،[102] علی بن مهزیار[103] و یحیی بن ابی‌ عمران[104] آپ کے وکلاء میں سے تھے۔ بعض اہل قلم نے بعض شواہد سے استناد کرتے ہوئے محمد بن فرج رخجی و ابو ہاشم جعفری کو بھی آپ کے وکلاء میں شمار کیا ہے۔[105] البتہ احمد بن محمد سیاری بھی وکالت کا دعوی کرتا تھا لیکن امام نے اس کے دعوی کو رد کرتے ہوئے انہیں رقوم شرعیہ نہ دینے کا حکم دیا۔[106]
نقل ہوا ہے کہ امام دو دلیل کی وجہ سے مستقیم رابطے کے بجائے وکیلوں کے ذریعے سے ارتباط برقرار رکھتے تھے:
•    آپ حکومت وقت کے زیر نگرانی تھے۔
•    آپؑ لوگوں کو غیبت امام زمانہ (عج) کے لئے تیار کر رہے تھے۔[107]
امامؑ حج کے ایام میں بھی شیعوں سے ملاقات اور گفتگو کرتے تھے۔ بعض محققین کا ماننا ہے کہ امام رضا (ع) کا سفر خراسان سبب بنا کہ شیعوں سے ائمہ کے ساتھ ارتباط میں وسعت پیدا ہو۔[108] اسی بناء پر شیعہ خراسان، ری، بست و سجستان سے ایام حج میں امام سے ملاقات کے لئے آتے تھے۔
آپ وکلا کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ شیعہ اپنے سوالات خط و کتابت کے ذریعے بھجواتے تھے اور آپؑ ان کا جواب دیتے تھے جن میں سے اکثر کا تعلق فقہی مسائل سے ہوتا تھا۔[109] موسوعۃ ‌الامام ‌الجواد [110] میں امامؑ کے والد اور فرزند کے علاوہ 63 افراد کے نام حدیث و رجال کے مآخذ سے اکٹھے کئے گئے ہیں جن کا خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ البتہ امامؑ نے بعض خطوط اپنے پیروکاروں کے گروہوں کے نام تحریر فرمائے ہیں۔[111]
دوسرے گروہوں سے مقابلہ
شیعہ منابع میں نقل ہونے والے شیعوں کے سوالات اور امام محمد تقی (ع) کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دور امامت میں اہل حدیث، واقفیہ، زیدیہ و غلات جیسے فرقے فعال تھے۔ روایات کے مطابق امام کے زمانہ میں محدثین کے درمیان جو بحثیں ہوتی تھیں ان کے اعتبار سے بعض شیعہ خدا کے جسم ہونے کے بارے میں شک میں مبتلا ہو گئے تھے۔ امام نے خدا سے جسم و جسمانیت کی نسبت کو رد کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا جو خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ ایسے لوگوں کو زکات دینے سے بھی منع فرمایا۔ امام نے ابو ہاشم جعفری کے اس آیت کریمہ لا تُدْرِکهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ یدْرِک الْأَبْصار[112] کی تفسیر میں کئے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: خداوند عالم کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھنا (عقیدہ مجسمہ) ممکن نہیں ہے۔ دل کی آنکھوں سے دیکھنا ان آنکھوں سے زیادہ دقیق تر ہے۔ انسان نے جن چیزوں کو نہیں دیکھا ہے وہ ان کا تصور کر سکتا ہے لیکن انہیں دیکھ نہیں سکتا ہے۔ جب اوہام قلوب خدا کو درک نہیں کر سکتے ہیں تو آنکھیں جس طرح سے اسے درک کر پائیں گی؟[113]
امام (ع) سے واقفیہ کی مذمت میں روایات نقل ہوئی ہیں۔[114] آپ نے واقفیہ و زیدیہ کو نواصب کی فہرست میں قرار دیا ہے۔[115] آپ فرماتے تھے: آیہ کریمہ: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ۔ ترجمہ: اس دن کچھ چہرے تذلل کا منظر پیش کرنے والے ہوں گے (2) بہت کام کیے ہوئے بڑی محنت و مشقت اٹھائے ہوئے ہیں (مگر بے سود)۔[116] ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[117] اسی طرح سے نے آپ نے اپنے اصحاب سے واقفیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[118]
امام جواد (ع) غالیوں، ابو الخطاب اور اس کے ماننے والوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے آپ ان لوگوں پر بھی لعنت کرتے تھے جو ان پر لعنت میں شک و تردید کرتے تھے۔[119] آپ ابو الغمر، جعفر بن واقد و ہاشم بن ابی‌ ہاشم جیسے افراد کو ابو الخطاب کا پیرو شمار کرتے تھے اور فرماتے تھے یہ لوگ ہم (اہل بیت) کے نام سے لوگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔[120] اس روایت کے مطابق جو رجال کشی میں ذکر ہوئی ہے، آپ نے غلات میں سے لوگ افراد ابو المهری و ابن ابی‌ زرقاء کے قتل کو جائز قرار دیا تھا اور اس کی دلیل آپ نے شیعوں کو گمراہ کرنے میں ان کے کردار کو قرار دیا تھا۔[121] اسی طرح سے آپ نے اس دور کے غالیوں کے عقاید سے مقابلہ بھی کیا اور کوشش کی کہ ان کے عقاید کی تبیین سے شیعوں کو ان کی پیروی سے دور کریں۔[122] اسی طرح سے آپ نے محمد بن سنان کو خطاب کرتے ہوئے مفوضہ کے اس دعوی کو کہ اللہ نے تخلیق و تدبیر سب کچھ محمد و آل محمد کے حوالے کر دیا، رد کیا۔ البتہ احکام کو تفویض کرنے کے عقیدہ کو صحیح عقیدہ کے طور پر پیش کیا اور اسے مشیت االہی سے منسوب کیا اور فرمایا: یہ وہ عقیدہ ہے کہ جو بھی اس سے آگے بڑھے گا وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، جو اس کو قبول نہیں کرے گا وہ (اس کا دین) نابود ہو جائے گا اور جو اسے قبول کرے گا وہ حق سے ملحق ہو جائے گا۔[123]
سیرت
بعض منابع آپ کو جواد کے لقب سے ملقب ہونے کا سبب آپ کے جود و سخاوت کو قرار دیتے ہیں۔[124] اس نامہ کے مطابق جو امام رضا (ع) نے آپ کو خراسان سے ارسال فرمایا، آپ زندگی کے ابتدائی برسوں سے سخاوت و احسان میں زبان رد و معروف ہو چکے تھے۔ جس وقت آپ کے والد خراسان میں تھے، اصحاب آپ کو ذیلی دروازہ سے خارج کرتے تھے تا کہ آپ کا سامنا در پر جمع محتاج افراد سے کمتر ہو۔ اس روایت کے مطابق، امام رضا نے آپ کو خط تحریر کیا اور فرمایا کہ ان لوگوں کی بات پر عمل نہ کرنا جو اصلی دروازے کے بجائے ذیلی دروازہ سے خارج ہونے کا مشورہ دیتے ہیں اور جب بھی گھر سے باہر نکلنا چاہیں اپنے ہمراہ کچھ دینار و درہم رکھیں اور جو بھی آپ سے سوال کرے اسے کچھ ضرور عطا کریں۔ اسی طرح سے امام رضا (ع) نے ان سے اپنے قریبی رشتہ داروں کے سلسلہ میں بھی سفارش کی۔[125]
باقر شریف قرشی نے جواد الائمہ کو اپنے زمانہ کا عابد ترین و خالص ترین شخص شمار کیا ہے اور کثرت سے نافلہ نماز پڑھنے والا قرار دیا ہے۔ ان کے بقول امام جواد اپنی نافلہ نماز میں ہر رکعت میں حمد کے بعد ستر مرتبہ توحید کی تلاوت فرماتے تھے۔[126] اس روایت کے مطابق جسے سید بن طاووس نے نقل کیا ہے جب بھی قمری مہینہ شروع ہوتا تھا، آپ دو رکعت نماز پڑھتے تھے جس کی پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد تیس مرتبہ سورہ توحید اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد تیس بار سورہ قدر کی تلاوت کرتے تھے اور اس کے بعد صدقہ دیتے تھے۔[127]
امام محمد تقی (ع) انسان کی برتری کو علم کے ذریعہ سے قرار دیتے تھے نہ کہ حسب و نسب سے۔ آپ سے نقل ہوا ہے: الشریف کلُّ الشریف مَن شرّفَه علمُه،[128] شرفاء میں شریف ترین فرد وہ ہے جس کا شرف علم کے ذریعہ ہو۔ آپ معاشرہ کے نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والوں منجملہ غلاموں پر توجہ دیتے تھے اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کرتے تھے۔ بعض محققین نے تقریبا دس غلاموں کو آپ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔[129]
آپ کی انگشتری کا نقش حَسْبِی اللَّهُ حَافِظِی تھا۔[130]
مناظرات و احادیث
امام محمد تقی (ع) سے تقریبا دو سو پچاس احادیث نقل ہوئی ہیں۔[131] یہ روایات فقہی، تفسیری و عقیدتی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ دوسرے ائمہ (ع) کی بنسبت آپ سے کم احادیث نقل ہونے کا سبب، آپ کا تحت نظارت ہونا اور شہادت کے وقت آپ کی عمر کم ہونا ذکر ہوا ہے۔ سید بن طاووس نے اپنی کتاب مہج الدعوات میں آپ سے ایک حرز مامون عباسی کی حٖفاظت کے لئے نقل کیا ہے۔[132] اسی طرح سے یہ حرز: يَا نُورُ يَا بُرْهَانُ يَا مُبِينُ يَا مُنِيرُ يَا رَبِّ اكْفِنِي الشُّرُورَ وَ آفَاتِ الدُّهُورِ وَ أَسْأَلُكَ النَّجَاةَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، آپ سے منسوب ہے۔[133] حرز امام جواد اپنے ہمراہ رکھنا شیعوں کے درمیان متداول ہو چکا ہے۔[134]
امام (ع) نے اپنے دور امامت میں متعدد مرتبہ مامون عباسی کے بعض درباری فقہاء کے ساتھ مناظرے کئے ہیں۔ تاریخی گزارشات کے مطابق ان میں سے بعض مناظرے مامون و معتصم کے درباریوں کی درخواست پر اور امام (ع) کو آزمانے کی غرض سے ہوتے ہیں اور اس کے نتائج حاضرین کے استعجاب و تحسین کا باعث بنتے تھے۔[135] مصادر میں امام جواد کے ۹ مناظروں و گفتگو کا تذکرہ ہوا ہے۔ جن میں چار بار یحیی بن اکثم کے ساتھ اور ایک بار قاضی القضاۃ بغداد احمد بن ابی داود کے ساتھ ہونے والا مناظرہ شامل ہے۔ اسی طرح سے عبد الله بن موسی، ابو ہاشم جعفری، عبد العظیم حسنی و معتصم کے ساتھ ہونے والی آپ کی گفتگو بھی نقل ہوئی ہے۔ ان بحثوں کا موضوع فقہی مباحث میں حج، طلاق، چوری کی سزا و دیگر مباحث میں امام زمانہ (ع) کے اصحاب کی خصوصیات، شیخین کے جعلی فضائل اور اسماء و صفات خداوند شامل ہیں۔[136]
مامون کے دربار میں مناظرہ
جب مامون نے امام محمد تقیؑ سے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی کا فیصلہ کیا تو بنی عباس کے بزرگوں نے اس فیصلے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں مامون نے کہا تم ان (امام جواد) کا امتحان لے لو۔ انہوں نے قبول کیا اور دربار کے سب سے بڑے عالم اور فقیہ یحیی بن اکثم کو امام جوادؑ کے ساتھ مناظرے کے لئے انتخاب کیا۔
مناظرے کا دن آن پہنچا۔ یحیی بن اکثم نے مناظرے کا آغاز کرتے ہوئے امام سے سوال کیا: اگر کوئی مُحرِم (وه شخص جو حج کے احرام کی حالت میں ہو) کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟[137] امامؑ نے اس مسئلے کی مختلف صورتیں بیان کیں اور ابن اکثم سے کہا: تم کون سی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟ یحیی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد امامؑ نے محرم کے شکار کی مختلف صورتوں کے احکام الگ الگ بیان کئے تو تمام اہل دربار اور عباسی علما نے آپؑ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون ـ جس پر اپنے انتخاب کے حوالے سے نشاط و سرور کی کیفیت طاری تھی ـ نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔[138]
خلفاء کے بارے میں مناظرہ
امام جوادؑ نے مامون عباسی کی موجودگی میں بعض فقہاء اور درباریوں کے ساتھ مناظرہ کیا اور ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرائیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ(ص) سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امامؑ نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ(ص) سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ (ص) نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بے شک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: "وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِسورہ ق آیت 16۔ترجمہ: اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔[139]
بعد از اں یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ "أنّ مثل أبي بكر و عمر في الاَرض كمثل جبرئيل و ميكائيل في السماءترجمہ: بے شک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔[140] امامؑ نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرائیل و میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر و عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔[141]
چور کے ہاتھ کاٹنا
امام جوادؑ کے قیام بغداد کے دوران بعض واقعات پیش آئے جو لوگوں کے درمیان امامت کی منزلت سے آگہی کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کے فتوے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلاف اس بات پر رونما ہوا کہ کیا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا چاہئے یا پھر کہنی سے!!! بعض فقہاء نے کلائی سے ہاتھ کاٹنے پر رائے دی اور بعض نے کہنی سے کاٹنے کے حکم کو اختیار کیا۔ عباسی خلیفہ معتصم نے اس سلسلے میں امام جوادؑ کی رائے پوچھی۔ امامؑ نے ابتدا میں معذرت کی لیکن معتصم نے اصرار کیا تو آپؑ نے فرمایا: "چور کے ہاتھ کی چار انگلیاں کاٹی جاتی ہیں۔ آپؑ نے اس فتوی کی دلیل بیان کرتے ہوئے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہوا ہے: "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً۔[142] ترجمہ: اور یہ کہ سجدے کے مقامات اللہ کے لئے مخصوص ہیں لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو خدا نہ کہو۔ معتصم کو امامؑ کا جواب پسند آیا اور چور کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔[143]
احادیث امام جوادؑ
امام جوادؑ پچیس سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرگئے اور پھر آپؑ کو اسی مختصر زندگی میں بھی حکمرانوں کی کڑی نگرانی اور دباؤ کا سامنا رہا لہذا آپؑ کو شیعہ احکام اور عقائد کی ترویج کے لئے مناسب مواقع نہ ملے؛ لیکن آپؑ نے دباؤ اور گھٹن کے سخت حالات میں بھی آپؑ نے شاگردوں کی تربیت، فقہ، عقائد، تفسیر، دعا اور مناجات جیسے موضوعات کے بارے میں احادیث کے بیان کا سلسلہ جاری رکھا۔ جو کچھ اس دور سے ہم تک پہنچا ہے مختلف اسلامی موضوعات میں 250 حدیثوں کا مجموعہ ہے۔[144]
امام جواد علیہ السلام سے مروی 14 حدیثیں:
عنوان    حدیث

دوستوں کا دیدار    مُلاقاةُ الإخوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَ إنْ كانَ نَزْرا قَليلا۔[145]۔[146]ترجمہ:دوستوں اور بھائیوں کی ملاقات دل کی طراوت اور نورانیت کا باعث اور عقل و درایت کے اضافے کا سبب بنتی ہے خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو.
امام عصر (عج) کی غیبت    يَخْفى عَلَى النّاسِ وِلادَتُهُ، وَ يَغيبُ عَنْهُمْ شَخْصُهُ، وَ تَحْرُمُ عَلَيْهِمْ تَسْمِيَتُهُ، وَ هُوَ سَمّيُ رَسُول اللّهِ صلى الله عليه و آله وَ كَنّيُّهِ ترجمہ:امام عصر(عج) کی ولادت آپ(عج) کے زمانے کے لوگوں سے مخفی ہوگی اور آنجناب(عج) کی شخصیت لوگوں سے خفیہ ہوگی اور حرام ہے کہ کوئی آپ (عج) کا نام زبان پر لائے اور آپ رسول اللہ(ص) کے ہمنام اور ہم کنیت ہیں.۔[147]

مائل (اور فین) ہونے کا نتیجہ    مَنْ أصْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَاللّهَ، وَ إنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ۔[148]ترجمہ:اگر کوئی شخص کسی مقرر کی طرف مائل ہو اور اس کا پرستار ہو وہ اس کا بندہ ہے پس اگر وہ مقرر خدا کے لئے اور خدا کے معارف اور احکام کے بارے میں بولتا ہو تو اس شخص (پرستار) نے اللہ کی بندگی کی ہے اور اگر مقرر شیطان کی زبان سے اور ہوٰی و ہوس اور مادیات کی بات کرے تو وہ (پرستار) ابلیس کا بندہ ہے.
رشتہ مت ٹھکراؤ    مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبيرْ۔[149] ترجمہ: جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا.
علیؑ کا علم
عَلَّمَ رَسُولُ اللّهِ صلّى اللّه عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ عَلّيا عَلَيْهِ السَّلامُ ألْفَ كَلِمَةٍ، كُلُّ كَلِمَةٍ يَفْتَحُ ألْفُ كَلِمَةٍ ترجمہ:رسول اللہ(ص) نے امیرالمؤمنینؑ کو ایک ہزار کلمات سکھائے؛ ہر کلمے سے ہزار ابوابِ علم کھلتے ہیں۔[150]

رکوع کامل کا فائدہ    مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ترجمہ:جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا۔[151]

امر و نہی کی مدد    الأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما أعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَ جَلَّترجمہ:امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں پس جو ان دو کی مدد کرتا ہے خداوند متعال انہیں عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتا ہے خداوند متعال ان کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔[152]

خدا کا بہترین انتخاب    إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ترجمہ:بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے۔[153]

قلیل عار اور طویل سزا    قالَ رجل للإمام علیہ السلام: أوصِنى بَوَصِيَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ؟ فَقالَ عليه السلام: صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَ نار الْآجِلَةِترجمہ :ایک شخص نے امام جوادؑ کی خدمت میں عرض کیا: مجھے نصیحت و موعظہ فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے آپ کو [اور اپنے ظاہری اور باطنی اعضاء و جوارح کو] قلیل المدت عار و ننگ اور شرم و ذلت اور طویل المدت عذاب دوزخ سے محفوظ رکھو۔۔[154] (مفہوم یہ کہ دنیا کے گناہ اور ان کی لذت قلیل المدت اور ان کی سزا طویل المدت ہے جس سے بچ کے رہنا چاہئے)۔
تین چیزیں باعث محبت    ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الإنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الإنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍترجمہ: تین خصلتیں محبت کو کھینچ لیتی ہیں (اور لوگ ان خصلتوں کے مالک افراد سے محبت کرتے ہیں): لوگوں کے ساتھ معاشرت میں انصاف کی راہ پر گامزن رہنا، ان کے مسائل و مشکلات میں ان سے ہمدردی کرنا اور قلب سلیم کی جانب رجوع کرکے معنویات اور نیک اعمال کی طرف توجہ دینا۔[155]

ابرار کی خصلتیں    ثَلاثٌ مِنْ عَمَلِ الأبْرارِ: إقامَةُالْفَرائِض، وَاجْتِنابُ الْمَحارِم، واحْتِراسٌ مِنَ الْغَفْلَةِ فِى الدّينترجمہ:تین چیزیں نیک لوگوں کے اعمال میں سے ہیں: واجبات الہی کی ادائیگی، گناہ ترک کرنا اور گناہوں سے دوری کرنا اور دین میں غفلت سے اجتناب کے حوالے سے ہوشیار رہنا۔[156]

دو پہاڑوں کے درمیان جنت    إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّارترجمہ: بے شک شہر طوس [مشہد مقدس] کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ٹکڑا ہے جو جنت سے لیا گیا ہے جو بھی زمین کے اس ٹکڑے میں داخل ہوگا [اور معرفت کے ساتھ وہاں مدفون امام کی زیارت کرے گا] قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔[157]

قبور مؤمنین کی زیارت    مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَقَرَءَ: ((إنّاأنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِالْقَدْرِ)) سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الأكْبَرِ ترجمہ: جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھے اور سات مرتبہ سورہ قدر (انا انزلنہ...) کی تلاوت کرے وہ قیامت کے عظیم خوف و ہراس اور سختیوں سے محفوظ رہے گا۔[158]

رضوان الہی کے اسباب    ثَلاثٌ يَبْلُغْنَ بِالْعَبْدِ رِضْوانَ اللّهِ: كَثْرَةُ الإسْتِغْفارِ، وَ خَفْضِ الْجْانِبِ، وَ كَثْرَةِ الصَّدَقَةَترجمہ: تین چیزیں بندے کو رضوان الہی اور اللہ کی رضا کی منزل پر پہنچاتی ہیں: 1۔ گناہوں اور خطاؤں سے زیادہ اسغفار کرنا 2۔ تواضع اور منکسرالمزاجی، 3۔ بہت صدقہ دینا 3۔ بہت زیادہ کار خیر کرنا۔[159]

فضائل و مناقب
منابع میں آپ کے لئے متعدد مناقب و فضائل ذکر ہوئے ہیں۔ بچپن میں علماء کے ساتھ مناظرے اور علمی گفتگو میں برتری حاصل کرنا ان میں شامل ہے۔ بعض کرامات بھی آپ سے نقل ہوئی ہیں۔ ذیل میں انہیں پیش کیا جا رہا ہے:
قطب راوندی محمد بن میمون نے نقل کرتے ہیں: اس وقت کی بات ہے جب امام رضا (ع) خراسان نہیں گئے تھے۔ آپ ایک سفر میں مکہ گئے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ جب میری واپسی کا وقت ہوا تو میں نے حضرت سے عرض کیا: میں مدینہ جانا چاہتا ہوں۔ آپ ابو جعفر محمد تقی کے لئے نامہ لکھ دیں تا کہ میں انہیں دو دوں۔ حضرت مسکرائے اور آپ نے ایک خط لکھا۔ میں اسے لیکر مدینہ آیا۔ اس وقت میں نابینا ہو چکا تھا۔ حضرت کے خادم موفق امام جواد کو لیکر آئے جبکہ وہ ابھی گہوارے میں تھے، میں نے انہیں نامہ دیا۔ آپ نے موفق سے کہا کہ نامہ پر مہر ہٹا کر اسے کھولو۔ پھر فرمایا: اے محمد تمہاری آنکھ کیسی ہے؟ میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول میری آنکھیں بیمار ہیں اور ان میں بینائی ختم ہو چکی ہے۔ آپ نے میری آنکھوں پر ہاتھ پھیرا۔ آپ کے ہاتھوں کی برکت سے میری آنکھوں کو شفا مل گئی۔ اس کے بعد میں نے امام کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور آپ کے پاس سے باہر آ گیا جبکہ میں دیکھ سکتا تھا۔[160]
بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادؑ کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امامؑ نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امامؑ نے پانی منگوایا اور درخت کے پاس بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالائے اور بعد از اں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔[161]
اصحاب
تفصیلی مضمون: فہرست اصحاب امام محمد تقی (ع)
شیخ طوسی نے آپ کے تقریبا 116 اصحاب کے نام ذکر کئے ہیں۔[162] قرشی نے اپنی کتاب حیاۃ الامام محمد الجواد (ع) میں 132،[163] عبد الحسین شبستری نے کتاب سُبُلُ الرَّشاد إلی اَصحاب الاِمام الجَواد میں 193 [164] افراد کو اصحاب کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ عطاردی نے مسند الامام الجواد میں آپ سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعداد 121 ذکر کی ہے۔[165] آپ کے بعض اصحاب، امام رضا (ع)[166] و امام علی نقی (ع) کے ساتھ بھی مصاحبت رکھتے تھے اور انہوں نے ان دونوں اماموں سے بھی روایت نقل کی ہے۔[167] آپ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں دیگر فرقے منجملہ اہل سنت بھی موجود ہیں۔[168] آپ سے نقل کرنے والے غیر امامی راویوں کی تعداد 10 ذکر ہوئی ہے۔[169]
عبد العظیم حسنی، احمد بن ابی نصر بزنطی، حسن بن سعید اہوازی، احمد بن محمد برقی و ابراہیم بن ہاشم آپ کے مشہور اصحاب میں سے ہیں۔
اہل سنت مشاہیر کے اقوال
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں مددگار و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپؑ کی علمی شخصیت کو ممتاز شمار کیا ہے۔ نمونے کے طور پر یہاں چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال پیش کئے گئے ہیں:
•    سبط ابن جوزی: امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔[170]
•    ابن حجر ہیتمی: مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔[171]
•    فتال نیشابوری: مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔[172]
•    جاحظ عثمان معتزلی: جاحظ کی وجہ شہرت خاندان علیؑ ساتھ اس کی مخالفت کی وجہ سے تھی لیکن اس کے باوجود اس نے امام جوادؑ کو دس ممتاز طالبیوں کے زمرے میں قرار دیا ہے اور لکھا ہے: "وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں"۔[173]
امام (ع) سے توسل

بعض شیعہ وسعت رزق اور مادی امور کی آسانی کے لئے بعض شیعہ علماء کی سفارشات کے مطابق امام محمد علیہ السلام سے توسل کرتے ہیں اور انہیں باب الحوائج مانتے ہیں۔ ان سفارشات کا ایک نمونہ علامہ مجلسی نے ابو الوفاء شیرازی سے نقل کیا ہے۔ جس میں انہوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خواب میں انہیں مادی امور میں امام محمد تقی (ع) سے توسل کی سفارش کی ہے۔[174]
اس روایت کے مطابق جسے داوود صیرفی نے امام علی نقی علیہ السلام سے نقل کیا ہے، جواد الائمہ کے روضہ کی زیارت کا بہت اجر و ثواب ہے۔[175] اسی طرح سے ابراہیم بن عقبہ نے ایک نامہ میں امام علی نقی (ع) سے امام حسین علیہ السلام امام جواد و امام موسی کاظم (ع) کی زیارت کے بارے میں سوال کیا۔ امام علی نقی نے امام حسین کی زیارت کو مقدم و برتر شمار کرتے ہوئے فرمایا: تینوں زیارتیں کامل تر ہیں اور ان کا بہت ثواب ہے۔[176] امام محمد تقی و امام موسی کاظم کا روضہ بغداد میں مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔ وہ حرم کاظمین میں آپ کے مرقد کی زیارت کرتے ہیں۔ آپ سے توسل کرتے ہیں اور آپ کا زیارت نامہ پڑھتے ہیں۔
شیعہ ہر سال آپ کی شہادت کے ایام میں عزاداری، مجالس اور سینہ زنی کرتے ہیں اور اس طرح سے آپ سے توسل کرتے ہیں:
يا اَبا جَعْفَرٍ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِي اَيُّهَا التَّقِىُّ الْجَوادُ يَا بْنَ رَسُولِ اللهِ يا حُجَّةَ اللهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا اِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللهِ۔[177]
ترجمہ: اے ابا جعفر، محمد بن علی، اے تقی جواد، اے فرزند رسول خدا (ص)، اے مخلوقات پر خدا کی حجت، اے ہمارے آقا و مولا، ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو واسطہ قرار دیا ہے اور اللہ کی بارگار میں آپ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور ہم نے آپ کو اپنی حاجات کے سامنے پیش کیا ہے، اے خدا کے نزدیک آبرومند، اللہ کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں۔

حوالہ جات
1.    ↑ طبری، دلائل الامامہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۹۶.
2.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۲؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۲۶ق، ص۲۱۶.
3.    ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۷۹.
4.    ↑ کلینی، اصول کافی، ج1، ص315و492۔ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص1۔
5.    ↑ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۸۵۷.
6.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۱.
7.    ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۷۹؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۱۲، ۱۳.
8.    ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص379۔ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص 12-13۔
9.    ↑ طوسی، مصباح المتہجد، المکتبۃ الاسلامیۃ، ص805.
10.    ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص41.
11.    ↑ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297.
12.    ↑ بحرانی، عوالم العلوم و المعارف، قم، ج23، ص553.
13.    ↑ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1426ق، ص223.
14.    ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج8، ص646.
15.    ↑ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص295.
16.    ↑ اشعری، المقالات و الفرق، 1361ش، ص99؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص106.
17.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۹۱.
18.    ↑ نگاه کریں:‌ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۹۱؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۷۹.
19.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۹۱.
20.    ↑ برای نمونہ نگاه کریں: اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۱ش، ص۹۹.
21.    ↑ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۸۶۷؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۲۶ق، ص۲۱۶؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۷۹.
22.    ↑ ابن فتال، روضة الواعظین، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۲۴۳.
23.    ↑ طوسی، مصباح المتهجد، المکتبة الاسلامیة، ص۸۰۵.
24.    ↑ نگاه کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۲۰.
25.    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۲۰،۲۳،۳۵.
26.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۲۳.
27.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۷۶-۴۷۷.
28.    ↑ بیهقی، تاریخ بیهق، ۱۳۶۱ش، ص۴۶.
29.    ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۵۶۶.
30.    ↑ مسعودی، اثبات الوصیة، ۱۴۲۶ق، ص۲۲۳.
31.    ↑ ابن فندق، تاریخ بیہق، ص46۔
32.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۷۸.
33.    ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج10، ص295۔
34.    ↑ برای نمونہ نگاه کریں: مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۱.
35.    ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۴۵۵.
36.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۲۸۱-۲۸۲.
37.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۷۸.
38.    ↑ پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۷۹ش، ص۵۵۸.
39.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۱؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۸۰-۳۸۱.
40.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۵.
41.    ↑ ابن شہر آشوب، وہی ماخذ، ج4، ص 380۔
42.    ↑ قمی، منتہی الامال، ج2، ص235۔
43.    ↑ حسّون، أعلام النساء المؤمنات، ۱۴۲۱ق، ص۵۱۷.
44.    ↑ قمی، منتهی الامال، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۴۹۷.
45.    ↑ مفید، الارشاد، ج2، ص284۔
46.    ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج 4،ص 380۔
47.    ↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۱۶؛ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ج۲، ص۴۳۲.
48.    ↑ رک: ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۸۰.
49.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۵.
50.    ↑ ابن ابی‌ الثلج، تاریخ الائمة، ۱۴۰۶ق، ص۱۳.
51.    ↑ اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۱ش، ص۹۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۰۶.
52.    ↑ ابن ابی‌ الثلج، تاریخ الائمة، ۱۴۰۶ق، ص۱۳.
53.    ↑ ابن فتال، روضة الواعظین، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۲۴۳.
54.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۵.
55.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳، ۲۹۵.
56.    ↑ نگاه کریں: عیاشی، تفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۲۰.
57.    ↑ عیاشی، تفسیر، ج1، ص320۔
58.    ↑ عاملی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص153۔
59.    ↑ المسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص192۔
60.    ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۹۱.
61.    ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۸۴؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۸.
62.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۵.
63.    ↑ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۵.
64.    ↑ نگاه کریں: عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳۳، ص۱۸۱-۱۹۳؛ صدر، تاریخ الغیبه، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۲۹-۲۳۷؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۸۱-۴۸۲.
65.    ↑ طبری، دلائل الامامہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۹۴.
66.    ↑ پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۷۹ش، ص۵۳۰.
67.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳.
68.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۵.
69.    ↑ نگاه کریں: جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۷۶.
70.    ↑ کلینی، الکافی، ج۱، ۱۴۰۷ق، ص۳۲۰-۳۲۳.
71.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۴-۲۸۰.
72.    ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۹۲-۹۶.
73.    ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۱۸-۳۷.
74.    ↑ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص265۔
75.    ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۶۶.
76.    ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۸۸.
77.    ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۸۳.
78.    ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۷۷-۷۸.
79.    ↑ جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ۱۳۸۶ش، ص۷۸.
80.    ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۸۸.
81.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۲۲.
82.    ↑ سوره مریم، آیہ ۱۲.
83.    ↑ سوره مریم، آیات ۳۰-۳۲.
84.    ↑ نوبختی،‌ فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۰؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۲.
85.    ↑ نگاه کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۸۳.
86.    ↑ برای نمونہ نگاه کریں: کلینی، الکافی، ج۱، ۱۴۰۷ق، ص۳۲۰-۳۲۳.
87.    ↑ پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۷۹ش، ص۵۳۹.
88.    ↑ برای نمونہ نگاه کریں: کشّی، رجال، ص۲۸۲-۲۸۳.
89.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۷۶.
90.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۷۶.
91.    ↑ جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ۱۳۸۶ش، ص۷۸.
92.    ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب، نشر علامہ، ج۴، ص۳۸۳.
93.    ↑ طبری، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۳۹۰-۳۸۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۹۹-۱۰۰.
94.    ↑ جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص79۔
95.    ↑ جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۲۷.
96.    ↑ جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۲۸۲.
97.    ↑ جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۱۲۳.
98.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۱۶.
99.    ↑ نگاه کریں: طوسی، الغیبہ، ۱۴۲۵ق، ص۳۵۱.
100.    ↑ طوسی، الغیبہ، ۱۴۲۵ق، ص۳۴۸.
101.    ↑ طوسی، الغیبہ، ۱۴۲۵ق، ص۳۴۹.
102.    ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۹۷.
103.    ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳؛ نگاه کریں: طوسی، الغیبہ، ۱۴۲۵ق، ص۳۴۹.
104.    ↑ راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۱۷.
105.    ↑ جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۵۳۲.
106.    ↑ کشی، رجال الکشی، ص۱۴۰۹ُ، ص۶۰۶.
107.    ↑ دشتی، نقش سیاسی سازمان وکالت در عصر حضور ائمہ، ص۱۰۳.
108.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۹۴.
109.    ↑ رجوع کریں: كلینی‌، ج‌3، ص‌399، ج‌4، ص‌275، 524، ج‌5، ص‌347۔ كشّی‌، الرجال، ص610- 611۔
110.    ↑ ج‌2، ص‌416ـ 508۔
111.    ↑ نمونے کے طور پر رجوع کریں: كلینی‌، الکافی، ج‌3، ص331، 398، ج‌5، ص394‌، ج‌7، ص163‌۔ كشّی‌، رجال، ص‌606، 611۔
112.    ↑ سوره انعام، آیہ ۱۰۳.
113.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۹۹.
114.    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۸ ص۲۶۷؛ عطاردی، مسند الامام الجواد، ۱۴۱۰ق، ص۱۵۰.
115.    ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۴۶۰.
116.    ↑ سوره غاشیہ، آیات ۲ و۳.
117.    ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۲۹، ۴۶۰.
118.    ↑ صدوق، من لا یحضر، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۷۹؛ طوسی، تهذیب، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۲۸.
119.    ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۵۲۹-۵۲۸.
120.    ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۵۲۹-۵۲۸.
121.    ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۵۲۹-۵۲۸.
122.    ↑ نگاه کریں: حاجی ‌زاده، «غالیان در دوره امام جواد(ع) و نوع برخورد حضرت با آنان»، ص۲۲۶.
123.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۴۱.
124.    ↑ قرشی، حیاة‌ الامام محمد الجواد، ۱۴۱۸ق، ص۷۰-۷۱.
125.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۴۳.
126.    ↑ قرشی، حیاة‌ الامام محمد الجواد، ۱۴۱۸ق، ص۶۷-۶۸.
127.    ↑ سید ابن طاووس، ۱۴۱۵ق، الدروع الواقیه، ص۴۴.
128.    ↑ اربلی، کشف الغمہ، ج۲، ص۳۵۰.
129.    ↑ رفتار شناسی امام جواد(ع) با موالی و بردگان، ص۳۶۳.
130.    ↑ طبرسی، مکارم الاخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۹۱.
131.    ↑ عطاردی، مسند الامام الجواد، ۱۴۱۰ق، ص۲۴۹.
132.    ↑ سید ابن طاووس، منهج الدعوات، ۱۴۱۱ق، ص۳۹-۴۲.
133.    ↑ سید ابن طاووس، منهج الدعوات، ۱۴۱۱ق، ص۴۲.
134.    ↑ نگاه کریں: دهخدا، لغت ‌نامہ، ذیل «حرز جواد»
135.    ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ص۴۴۳.
136.    ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ص۴۴۱-۴۴۹؛ میانجی، مکاتیب الائمہ (ع)، ج۵ ص۳۸۱٬۴۲۷ و...
137.    ↑ تفصیل کے لئے رجوع کریں: | یحیی بن اکثم سے امام جواد (علیہ السلام) کا مناظرہ۔
138.    ↑ طبرسی، احتجاج، ص443و444۔ مسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، صص 189-191۔
139.    ↑ طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
140.    ↑ سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304 اصبہانی یا اصفہانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غیر مانوس اور غريب ہے اور اس کا واحد راوی رباح ہے جس نے اسے ابن عجلان سے نقل کیا ہے۔
141.    ↑ طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔ مناظرے کی تفصیل کے لئے رجوع کریں:| امام محمد تقی (علیہ السلام) اور جعلی احادیث کا مقابلہ۔
142.    ↑ سوره جن، آیت 18۔
143.    ↑ عیاشی، کتاب التفسیر، ج1،صص 319و320۔ مجلسی، بحار الانوار،ج50، ص5و6۔
144.    ↑ عطاردی، مسند الامام الجواد، ص249۔
145.    ↑ شيخ مفيد، الامالى ص328، ح13۔
146.    ↑ محدث نوری، مستدرك الوسائل ج8، ص324، ح9562۔
147.    ↑ وسائل الشّيعہ ج16، ص242، ح21466۔
148.    ↑ محدث نوری، مستدرك الوسائل، ج17، ص308، ح5۔
149.    ↑ طوسی، تہذيب الاحكام، ج7، ص396، ح9۔
150.    ↑ صدوق، الخصال، ج2، ص650، ح46۔
151.    ↑ کلینی، الكافى ج3، ص321، ح7۔
152.    ↑ صدوق، خصال، ص42، ح32۔
153.    ↑ کلینی، الکافی، ج3، ص218، ح3۔
154.    ↑ شوشتری، احقاق الحقّ ج12، ص439، س11۔
155.    ↑ اربلی، كشف الغمّه، ج2، ص349، س 13۔
156.    ↑ اربلی، كشف الغمّة، ج2، ص349، س3۔
157.    ↑ صدوق، عيون اخبارالرّضا، ج2، ص256، ح6۔
158.    ↑ طوسی، اختيارمعرفۃ الرّجال، ص564، ح1066۔
159.    ↑ اربلی، كشف الغمّة، ج2، ص349، س7۔
160.    ↑ قمی، منتهی الآمال، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۴۶۹-۴۷۰.
161.    ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔ فتال نیشابوری، ص241و242۔
162.    ↑ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۷۳-۳۸۳.
163.    ↑ قرشی، حیاة الامام محمد الجواد، ۱۴۱۸ق، ص۱۲۸-۱۷۸.
164.    ↑ شبستری، سبل الرشاد، ۱۴۲۱ق، ص۱۹-۲۸۹.
165.    ↑ عطاردی، مسند الامام الجواد، ۱۴۱۰ق، ص۲۴۹.
166.    ↑ برقی، ص۵۷.
167.    ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۴۹۱.
168.    ↑ عطاردی، مسند الامام الجواد، ۱۴۱۰ق، ص۳۱۴، ۳۱۵، ۲۶۲، ۲۸۳، ۳۱۹، ۲۷۱.
169.    ↑ واردی، گونہ‌ شناسی راویان امام جواد، ص۳۰-۳۱.
170.    ↑ سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، ص359۔
171.    ↑ ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
172.    ↑ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
173.    ↑ عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106. ۔
174.    ↑ راوندی، دعوات الراوندی، ۱۴۰۷ق، ص۱۹۱، ح۵۳۰؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۱، ص۳۵.
175.    ↑ مفید، المزار، ۱۴۱۳ق، ص۲۰۷.
176.    ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۸۳-۵۸۴.
177.    ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۹، ص۲۴۸.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک