امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام علی علیہ السلام اور واقعۂ غدیر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام علی علیہ السلام اور واقعۂ غدیر
پیغمبرؐ نے سنہ 10 ہجری میں ہجرت کے بعد پہلی بار حج کا فریضہ انجام دینے کا ارادہ کیا۔ جب مسلمانوں کو اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے آپ کی ہمراہی کی غرض سے مکہ کی طرف عزیمت کی۔[191] آنحضرت نے امام علی کو خط لکھا جو یمن میں جہاد میں[192] مصروف تھے اور انہیں حج میں شامل ہونے کی دعوت دی۔[193]

حج کے بعد غدیر خم میں جہاں سے مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے اور اپنے شہر کا رخ کا کرتے تھے۔ خداوند عالم نے رسول اللہؐ کو توقف اور پیغام ابلاغ کرنے کا حکم دیا۔[194]

آنحضرت نے نماز ظہر پڑھانے کے بعد خطبہ پڑھا اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟؛ کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اولویت نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں بے شک، اس کے بعد آپ نے حضرت علی کے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، اللہ اسے دوست رکھے جو انہیں دوست رکھے اور انہیں دشمن رکھے جو انہیں دشمن رکھے۔[195]

اس کے بعد رسول اللہؐ نے آیت تبلیغ کے ضمن میں آنے والے پروردگار کے حکمِ کا ابلاغ فرمایا [196]جو کچھ یوں تھا:

يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ [المائدة: 67] (ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا)۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے مسلمانوں سے فرمایا:

"أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم؟ قالوا بَلىٰ، قال: مَن کُنتُ مَولاه ُ فَهذا عَلٰى مَولاہ ُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاہ ُ وَعادِ مَن عاداہ ُ وَانصُر مَن نَصَرَہ ُ وَاخذُل مَن خَذَلَه۔
کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ آپؐ نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں؛ یا اللہ! تو اس کے دوست کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو خوار و تنہا کردے.[197]
سقیفہ
تفصیلی مضمون: سقیفۂ بنی ساعدہ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق[198] علىؑ اور بنی ہاشم آپؐ کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں مصروف تھے کہ انصار نے بعض دلائل، جیسے اس بات کا خوف کہ قریش ان سے غزوات میں ان کے قتل ہونے والوں کا انتقام نہ لیں اور اس بات کے پیش نظر کہ قریش امام علی کی جانشینی کے سلسلہ میں آنحضرت کے بات پر عمل نہیں کریں گے، کی وجہ سے سقیفہ بنی ساعدہ میں جلسہ تشکیل دیا۔ تا کہ وہ انصار میں سے کسی کا آنحضرت کا جانشین معین کریں۔[199] ابوبکرو عمر کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے ابو عبیدہ جراح، عبدالرحمن بن عوف اور عثمان بن عفان کے ساتھ سقیفۂ بنی ساعدہ پہچ گئے۔ جہاں ان کے درمیان تنازعات و اختلافات اور بحث و جدل کے بعد ابوبکر کو رسول خداؐ کے بعد خلیفہ کے عنوان سے متعارف کرایا گیا اور کچھ ہی عرصہ قبل مقام غدیر پر ہونے والے اعلان خلافت اور علیؑ کے ہاتھ پر ان سب کی بیعت کےاعلان کو بھلا دیا گیا۔[200]

امام علی سے مخالفت کا سابقہ
امام علی کی زندگی کے زمانہ میں حالات پرتلاطم، بیحد حساس اور تمام تاریخ اسلام میں نہایت تاثیر گزار تھے۔ خاص طور پر ان کے خلافت تک پہچنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان بہت اختلافات پیش آئے۔ عبد الرحیم قنوات دانش نامہ امام علی میں تحریر کرتے ہیں کہ آنحضرت و امام علی کے زمانے کے بہت سے اختلافات کی برگشت قریش میں عبد مناف کے بیٹوں کے درمیان آپسی خاندانی و قبائلی چشمک و رقابت کی طرف ہوتی ہے۔ وہ عبد مناف کے بیٹوں و پوتوں کے درمیان مکہ کے مناصب حاصل کرنے و عبد المطلب کے بعد بنی امیہ کے مقابلہ میں بنی ہاشم کی حیثیت کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تصریح کرتے ہیں: امام علی پر بنی امیہ (معاویہ) کی طرف سے فشار کا آغاز آپ کی خلافت کی ابتداء سے ہوتا ہے اور خاندان عبد المطلب و خاندان حرب (معاویہ کے دادا) کے درمیان یہ خاندانی رقابت اپنی انتہا کو پہچ جاتی ہے۔ بنی امیہ اس راہ میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ابو طالب (حضرت علی کے والد) کے ایمان کو ہی زیر سوال لے آتے ہیں۔ فشار کا یہ سلسلہ 100 سال بعد تک عباسیوں کی حکومت کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔ قنوات کے مطابق، عباسی دور میں یہ فشار دوسرے عنوان سے جاری رہے۔ اس لئے کہ عباسیوں کا نسب آنحضرت کے چچا عباس بن عبد المطلب تک پہچتا ہے اور چونکہ وہ ابتداء سے مسلمان نہیں تھے اور حتی کہ جنگ بدر میں پیغمبر ؐ کے ہاتھوں اسیر ہوئے لہذا بنی عباس علویوں کے فضائل و افتخارات کے سامنے حقارت کا احساس کرتے تھے۔

جنگ بدر میں پیش آنے والے واقعات نہایت اہم شمار ہوتے ہیں اور امام علی کی خلافت کے زمانہ کے بعض کلامی و سیاسی منازعات کی بنیاد ہیں۔ امام علی نے جنگ بدر میں مشرکین کے سب سے زیادہ افراد کو قتل کیا ہے۔ واقدی امام علی کے ذریعہ قتل ہوئے افراد کی تعداد 22، ابن ابی الحدید 35 و شیخ مفید نے 36 ذکر کی ہے۔ حسن طارمی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ امام علی کے ہاتھ سے قتل ہونے والوں میں 13 افراد جن میں ابو جہل بھی شامل ہے، بزرگان قریش میں سے تھے۔ یہ شکست اور اس میں قتل ہونے والے قریش کے بزرگان مشرکین کے لئے بڑی رسوائی تھے۔ اس نے ان کے ہیبت و حیثیت کو نقصان پہچایا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، بدر کے دن سے قریشیوں کے دل میں امام کی طرف سے کینہ تھا، مسلمان ہونے کے بعد بھی قریش اپنے اشعار کے ذریعہ امام علی سے مقابلہ کرنے اور انہیں آپ کی بیعت توڑنے کی طرف تشویق کیا کرتے تھے۔ قریش اصحاب پیغمبر میں سے کسی کو بھی اما علی کی طرح اپنا دشمن نہیں مانتے تھے۔ جنگ بدر کے بعد امام کے بعض ساتھیوں کا رشک و حسد امام کے دشمنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو گیا۔ جو بعد میں جانشینی پیغمبر اور مسلمانوں کی سرنوشت کے مسئلے میں موثر شمار کیا گیا ہے۔

سید حسن فاطمی دانش نامہ امام علی میں، امام علی سے آنحضرت ؐ کی محبت کو بھی قریش کے کینہ و حسد کا ایک سبب قرار دیتے ہیں۔ فاطمی کے بقول: سقیفہ اور اس کے بعد کے واقعات، ابوبکر کا جانشینی پیغمبر کے لئے انتخاب جیسے واقعات آپ کی رحلت کے بعد پیش آئے اور امام علی کو کنارے کرنے کے لئے ایک گروہ نے آمادگی کر رکھی تھی۔ ان کے مطابق، ایک طرف منافقین و حاسدین کا ان کے تلوار سے ضربہ کھانا، دوسری طرف انصار کا مہاجرین کو ضربہ لگانا، انصار کا خود میں سے جانشین پیغمبر منتخب کرنے میں جلدی کرنا۔ ابوبکر و دیگر قریش مدینہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جبکہ امیر المومنین آنحضرت کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔

حضرت علی کا موقف
روز سقیفہ امام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور اس کے بعد خود اصل بیعت اور اس طرح سے اس کے وقت کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مصادر کے مطابق، علی نے ابوبکر سے نرم البتہ مفصل مناظرہ کیا اور اس میں انہیں سقیفہ میں خلاف ورزی اور پیغمبر اکرم کے اہل بیت کے حق سے چشم پوشی پر مذمت کی۔ ابوبکر امام کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے منقلب ہو گئے اور امام کے ہاتھ پر جانشین پیغمبر کے عنوان سے بیعت کرنے تک کی حد تک پہچ جاتے ہیں۔ لیکن آخر میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا کرنے منصرف ہو جاتے ہیں۔ امام علی نے مختلف منابسات اور مختلف مواقع پر سقیفہ کے واقعہ کے خلاف اعتراضات کئے اور جانشینی پیغمبر کے مسئلہ میں اپنے حق کو یاد دلایا۔ خطبہ شقشقیہ ان کے معروف ترین خطبوں میں سے ہے جس میں آپ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بعض دیگر منابع کے مطابق، حضرت فاطمہ زہرا کی حیات میں واقعہ سقیفہ کے بعد امام علی شب میں انہیں مرکب پر سوار کرکے انصار کے گھروں و محافل میں لیکر جاتے تھے اور ان سے مدد طلب کرتے تھے اور ان کا جواب سنتے تھے: اے دختر پیغمبر، ہم نے ابوبکر کی بیعت کی یے۔ اگر علی پہلے آئے ہوتے تو ہم ان کی بیعت کرتے، ان سے عدول نہیں کرتے۔ امام علی انہیں جواب دیتے تھے: تو کیا میں آنحضرت کو دفن نہ کرتا اور خلافت کے بارے میں بحث کرتا؟۔

جانشینی پیغمبر کے مسئلہ میں آپ کا اپنے حق سے وفاع کرنے ان ہی موارد میں منحصر نہیں تھا۔ مہم ترین واقعات میں سے ایک جس میں امام علی نے اپنے حق کے وفاع کے لئے تاکید کی، وہ واقعہ ہے جو مناشدہ (اللہ کی قسم دلانا) کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں امام نے صحابہ کو قسم دلائی کہ ان لوگوں جو کچھ آنحضرت سے آپ کے بارے میں سنا ہے، اس کی شہادت دیں۔ جیسا کہ علامہ امینی نے نقل کیا ہے کہ شیعہ و اہل سنت کے متعدد منابع نے رحبہ کے مقام پر کوفہ میں سنہ 35 ہجری میں آپ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں مناشدہ کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے۔ اس واقعہ میں امام نے صحابہ کو قسم دیکر ان سے پوچھا کہ انہوں نے غدیر خم میں رسول خدا ؐ سے جو کچھ بھی آپ کی جانشینی کے مسئلہ میں سنا تھا اس کی شہادت دیں، شیعہ مصادر نے ایک دوسرے مناشدہ کا ذکر، عمر کی بنائی ہوئی 6 افراد پر مشتمل شوری میں بھی کیا ہے اس مناشدہ کی روایات میں امام علی نے ایک طویل فہرست ان واقعات کی ذکر کی ہے جن میں خاص طور پر آنحضرت ؐ نے آپ کی نیابت و جانشنی کے بارے میں تصریح کی ہے کہ کیا انہوں نے ان باتوں کو آنحضرت سے سنا ہے تو انہوں نے ان کے باتوں کی تائید کی۔

---

حوالہ جات:
 کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۴۵۔
 رشید رضا، المنار، ۱۹۹۰م، ج۶، ص۳۸۴۔
 شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۱۔
 اربلی، كشف الغمة فی معرفة الأئمة، ۱۳۸۱ق، ج۱، ص۲۳۷۔
 ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۰، ص۴۳۰؛ با کمی تفاوت: قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۷۴۔
 رجوع کریں: ابن‌ مغازلی، ص 16؛ کلینی، ج1، ص290؛ طبرسی، احتجاج، ج1، ص73؛ علی بن ابراہیم، ج1، ص 173؛ رشیدرضا، ج6، ص464ـ465۔
 احمد بن حنبل،مسند ،1/119۔محمد بن یزید قزوینی،سنن ابن ماجہ،1/43/116۔نسائی،فضائل الصحابہ،14ابو یعلی موصلی،مسند ابی یعلی،1/429۔شیخ صدوق،معانی الاخبار،67/8۔محمد بن سلیمان کوفی، مناقب امیر المومنین،2/368/844قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار،1/100/24۔ ابو الحسن علی بن محمد بن طبیب واسطی المعروف بہ ابن مغازلی شافعی، ابن مغازلی، مناقب علي بن ابي طالب، ص 24۔
 مفید، الارشاد، ج ۱ ص ۱۸۶
 مظفر، السقیفہ ۱۴۱۵، ص۹۵۔۹۷
 ابن ابی الحدید، ج 6، ص 8۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک