امام علی ع کے والی، اصحاب کی فہرست اور ناکثین،قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ
امام علی علیہ السلام کے والی و کارگزار، اصحاب کی فہرست اور ناکثین،قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ
امام علیؑ نے اپنی حکومت کے دوران اپنے والی و گورنر مختلف اسلامی شہروں میں تعینات کئے جیسے: عثمان بن حنیف کو بصرہ، عمارہ بن شہاب کو کوفہ، عبید اللہ بن عباس کو یمن، قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر، سہل بن حنیف کو شام کا والی بنا کر بھیجا۔ شام جاتے ہوئے سہل بن حنیف جب تبوک پہچے تو وہاں ان کو اور گروہ کے درمیان بحث ہوگئی اور ان لوگوں نے انہیں واپس بھیج دیا۔ عبید اللہ بن عباس جب یمن پہنچے تو یعلی بن منیہ جو عثمان کی طرف سے یمن میں والی تھا، اس نے بیت المال میں جو کچھ تھا اسے لیکر مکہ بھاگ گیا۔ عمارہ بن شہاب جب مدینہ و کوفہ کے درمیان زبالہ کے مقام پر پہنچے تو طلیحہ بن خویلد جو عثمان کی خون خواہی کے نکلا تھا جب اس نے انہیں دیکھا اور اسے پتہ چلا کہ یہ کوفہ کی حکومت کے لئے جا رہے ہیں تو ان سے کہا: واپس لوٹ جاو اہل کوفہ اپنے والی کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کریں گے اور اگر تم واپس نہیں جاتے تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ لہذا وہ واپس لوٹ آئے اور کچھ عرصہ کے بعد آپ نے مالک اشتر کی سفارش پر ابو موسی اشعری کو وہاں کی حکومت پر باقی رکھا۔
جنگیں
جنگ جمل (ناکثین)
جنگ جمل امام علیؑ کی پہلی جنگ تھی جو آپ اور ناکثین کے درمیان واقع ہوئی۔ نکث بمعنی نقض اور توڑنا، اور چونکہ طلحہ و زبیر اور اور ان کے پیروکاروں نے ابتدا میں امام علیؑ کی بیعت کی تھی جو بالآخر انہوں نے توڑ دی چنانچہ انہیں ناکثین اور عہد شکنوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[219] یہ جنگ جمادی الثانی سنہ 36 ہجری میں لڑی گئی۔[220] طلحہ اور زبیر جو قتل عثمان کے بعد ابتدا میں خلافت پر نظریں جمائے ہوئے تھے [221] جب ناکام ہوئے اور خلافت امام علیؑ کو ملی تو انہیں توقع تھی کہ علیؑ کے ساتھ خلافت میں شریک ہو جائیں گے۔ ان دونوں نے آکر آپ سے بصرہ اور کوفہ کی ولایت مانگی، لیکن علیؑ نے انہیں اس کام کے لئے اہل قرار نہیں دیا۔[222] جبکہ وہ دونوں قتل عثمان کے اصل ملزم تھے اور عوام کے درمیان کوئی بھی طلحہ جتنا قتل عثمان کا خواہاں نہ تھا،[223] وہ دونوں اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے عائشہ سے جا ملے؛ حالانکہ عائشہ نے عثمان کے محاصرے کے وقت نہ صرف ان کی مدد نہیں کی تھی بلکہ موقف اختیار کیا تھا کہ عثمان کو گھیرنے والے حق طلب ہیں۔ لیکن جب انہیں خبر ملی کہ لوگوں نے علیؑ کی بیعت کی ہے تو کہنے لگیں کہ "عثمان کو ظلم کرکے قتل کیا گیا ہے اور اس کے بعد انہوں نے عثمان کے قتل کے سلسلے میں انصاف مانگنا شروع کیا!۔[224] عائشہ اس سے پیشتر علیؑ کے لئے عداوت یا عدواتیں دل میں رکھے ہوئی تھیں اسی وجہ سے انہوں نے طلحہ اور زبیر کا ساتھ دیا۔[225] چنانچہ ان تین افراد نے تین ہزار افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔[226] اس جنگ میں عائشہ عسکر نامی اونٹ (جمل) پر سوار ہوئی تھیں اسی وجہ سے اس جنگ کو جنگ جمل کا نام دیا گیا۔[227]
امام علیؑ نے بصرہ پہنچ کر سب سے پہلے عہد شکن باغیوں کو نصیحت کی اور یوں جنگ کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن باغیوں نے امامؑ کے ایک ساتھی کو قتل کرکے جنگ کا آغاز کیا[228] تاہم زبیر نے جنگ شروع ہونے سے قبل ہی لشکر سے کنارہ کشی اختیار کی جس کا سبب یہ تھا کہ علیؑ نے اسے وہ حدیث یاد دلائی کہ جب رسول اللہؐ نے زبیر سے کہا تھا کہ ایک دن تم علیؑ کے خلاف بغاوت کرو گے۔ زبیر جنگ سے دستبردار ہونے کے بعد بصرہ کے باہر ایک تمیمی مرد عمرو بن جرموز کے ہاتھوں قتل ہوا۔[229] اصحاب جمل نے چند گھنٹوں کی مختصر جنگ میں بڑا جانی نقصان اٹھا کر شکست کھائی[230] اس جنگ میں طلحہ (اپنے لشکر میں شامل مروان) کے ہاتھوں مارا گیا اور عائشہ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ لوٹا دیا گیا۔[231]
جنگ صفین (قاسطین)
جنگ صفین امام علیؑ اور قاسطین (معاویہ اور اس کی سپاہ)[232] کے درمیان صفر المظفر سنہ 37 ہجری کو شام میں دریائے فرات کے قریب صفین نامی مقام پر لڑی گئی اور اس کا اختتام اُس حَکَمیت پر ہوا جو رمضان سنہ 38 ہجری میں انجام پائی۔[233] عثمان کو مسلمانوں نے گھیرے میں لیا تو معاویہ ان کی مدد کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ انہیں دمشق منتقل کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ وہاں امور مملکت کی باگ ڈور خود سنبھال لے۔ اس نے قتل عثمان کے بعد شامیوں کے درمیان علیؑ کو ان کے قاتل کے طور پر پہجان کرانے کی کوشش کی۔ امامؑ نے اپنی حکومت کے آغاز پر معاویہ کو خط لکھا اور اس کو بیعت کرنے کا کہا لیکن اس نے حیلوں بہانوں سے کام لیا اور کہا کہ "پہلے عثمان کے ان قاتلوں کو میرے حوالے کریں جو آپ کے پاس موجود ہیں تا کہ میں ان سے قصاص لوں اور اگر آپ نے ایسا کیا تو میں بیعت کروں گا۔ امامؑ نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی اور اپنا نمائندہ بھیجا اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ معاویہ جنگ چاہتا ہے تو آپ نے اپنا لشکر لے کر شام کی جانب رخ کیا۔ ادھر معاویہ بھی اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا اور دونوں لشکروں کا سامنا صفین کے مقام پر ہوا۔ امام علیؑ کی کوشش تھی کہ جہاں تک ممکن ہو یہ مسئلہ جنگ پر ختم نہ ہو۔ لہذا آپ نے پھر بھی خطوط روانہ کئے جن سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا اور آخر کار سنہ 36 ہجری میں جنگ کا آغاز ہوا۔[234]
سپاہ علیؑ کا آخری حملہ شروع ہوا اور اگر جاری رہتا تو علوی سپاہ کی کامیابی یقینی تھی لیکن معاویہ نے عمرو بن عاص کے ساتھ مشورہ کرکے ایک مکارانہ چال چلی اور حکم دیا کہ لشکر کے پاس قرآن کے جتنے بھی نسخے ہیں انہيں نیزوں پر اٹھائیں اور سپاہ علیؑ کے سامنے جائيں اور انہيں قرآن کے فیصلے کی طرف بلائیں۔ یہ بہانہ کار گر ہوا اور سپاہ علیؑ میں قاریوں کی جماعت علیؑ کے پاس آئی اور اور کہا: ہمیں کوئی حق نہيں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ لڑیں چنانچہ وہ جو کہتے ہیں وہی ہمیں قبول کرنا پڑے گا۔علیؑ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک چال ہے جس کے ذریعے وہ ہاری ہوئی جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن بے سود۔[235]
امامؑ نے مجبور ہوکر معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں لکھا: ہم جانتے ہیں کہ تمہارا قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے تاہم ہم قرآن کی حکمیت (یا قرآنی فیصلہ) قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔[236] طے یہ پایا کہ ایک فرد سپاہ شام کی طرف سے آ جائے اور ایک فرد سپاہ عراق کی طرف سے اور وہ دونوں بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اس موضوع میں قرآن کا حکم کیا ہے۔ شامیوں نے عمرو بن عاص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا اور اشعث اور بعد میں خوارج کے مسلک میں شامل ہونے والے کئی دیگر افراد نے ابو موسی اشعری کا نام تجویز کیا۔ امام علیؑ نے عبداللہ بن عباس یا مالک اشتر کے نام تجویز کئے لیکن اشعث اور اس کے گروہ نے کہا کہ چونکہ مالک اشتر جنگ جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور عبداللہ بن عباس کو ہونا ہی نہیں چاہئے اور چونکہ عمرو بن عاص مصر سے ہے اسی لئے دوسرے فریق کا نمائندہ یمنى ہونا چاہئے!۔[237] آخر کار عمرو بن عاص نے ابو موسی اشعری کو دھوکہ دیا اور بظاہر قرآنی حَکَمِیت کو معاویہ کے مفاد میں ختم کردیا۔[238]
جنگ نہروان (مارقین)
جنگ صفین میں حَکَمِیت کے نتیجے میں امامؑ کے بعض ساتھیوں نے احتجاج کیا اور آپ سے کہنے لگے: آپ نے خدا کے کام میں کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ حالانکہ امام علیؑ شروع سے ہی حَکَمِیت کی مخالفت کر رہے تھے اور ان ہی لوگوں نے امامؑ کو اس کام پر مجبور کیا تھا لیکن بہر صورت انہوں نے امامؑ کو کافر قرار دیا اور آپ پر لعن کرنے لگے۔[239]
یہ لوگ خوارج یا مارقین کہلائے جنہوں نے آخر کار لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انہوں نے صحابی رسول خداؐ کے فرزند عبداللہ بن خباب کو قتل کیا اور اس کی بیوی کا پیٹ چیر کر اس میں موجود بچے کو بھی قتل کیا۔[240]] چنانچہ امامؑ نے مجبورا جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ نے ابتدا میں عبداللہ بن عباس کو بات چیت کی غرض سے ان کے پاس بھیجا اور بات چیت ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت سے تو اپنی رائے سے دستبردار ہوئے لیکن بہت سے رہ گئے۔ آخر کا نہروان کے مقام پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امامؑ کے لشکر سے 7 یا 9 افراد شہید ہوئے اور خوارج میں سے 9 افراد زندہ بچ گئے۔ [241]
-
حوالہ جات:
۔
زبیدی، ج3، ص 273۔
طبری، ج4، ص534۔
طبری، ج4، ص453۔
طبری، ج4، ص453۔
نہجالبلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، خطبہ 174، ص 180۔
طبری، ج 6، ص 3096؛ بحوالہ نقل شہیدی، علی از زبان علی، ص 84-85۔
طبری، ج4، ص 451، 544 و ج 5، ص 150؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 82-83 و 108۔ ۔
طبری، ج4، ص 454۔
طبری، ج4، ص 507۔
طبری، ج4، ص511؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 104۔
شہیدی، علی از زبان علی، ص 104۔
یعقوبی، ج2، ص183۔
طبری، ج4، ص 510؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 108۔
جوہری، ج3، ص 1152۔
یعقوبى، ج 2، ص 188؛ خلیفہ، ص 191۔
تلخیص از: شہیدی، علی از زبان علی، ص 113-121۔
المعیار و الموازنہ، ص 162؛ بہ نقل شہیدی، علی از زبان علی، ص 122۔
ابن مزاحم، ص 490۔
ابن اعثم، ج 3، ص 163۔
شہیدی، علی از زبان علی، ص 129۔
شہرستانی، الملل و النحل، تخریج: محمد بن فتح اللہ بدران، قاہرہ، الطبعہ الثانیہ، القسم الاول، ص 106-107۔
شہیدی، علی از زبان علی، ص 132۔
شہیدی، علی از زبان علی، ص 133-134۔