امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اور مناقب

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اور مناقب
مولود کعبہ
علامہ امینی کے نقل کے مطابق، 16 منابع اہل سنت، 50 منابع شیعہ اور 41 شعراء نے دوسرے صدی ہجری کے بعد خانہ کعبہ میں امام علی کی ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[255] اسی طرح سے علامہ مجلسی نے 18 شیعہ منابع میں خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت ہونے کا ذکر کیا ہے۔[256] ان روایات کی بناء پر امام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کنار کعبہ دعا کی اور اللہ سے چاہا کہ ان کے فرزند کی ولادت ان پر آسان ہو۔[257] دعا کے دیوار کعبہ شگافتہ ہوئی، آپ اس کے اندر وارد ہوئیں، تین دن کعبہ میں رہنے بعد چوتھے دن کعبہ سے باہر آئیں جبکہ ان کے فرزند علی ان کی آغوش میں تھے۔[258]

مسلمِ اول


شیعہ عقائد اور بعض علمائے اہل سنت کے مطابق حضرت علی آنحضرت پر ایمان لانے والے پہلے مرد ہیں۔[259] بعض شیعہ روایات کے مطابق، پیغمبر اکرم ؐ نے امام علی کا تعارف پہلے مسلمان، پہلے مومن[260] اور آپ کی تصدیق کرکے والے انسان کے عنوان سے کرایا ہے۔[261] شیخ طوسی نے امام رضا سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں آپ نے امام علی کا تعارف آنحضرت پر سب سے ایمان لانے والے کے طور پر کیا ہے۔[262] علامہ مجلسی ایمان لانے والے افراد کا ذکر اس ترتیب سے کرتے ہیں: سب سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد حضرت خدیجہ، اس کے بعد جعفر بن ابی طالب ایمان لائے۔[263]

بعض محققین کے مطابق اس بات پر شیعوں میں اجماع ہے کہ امام علی پہلے مسلمان مرد ہیں۔[264] جبکہ طبری[265]، ذہبی[266] وغیرہ[267] جیسے بعض اہل سنت مورخین نے بھی بعض روایات کی ہیں جن کی بنیاد پر حضرت علی پہلے مسلمان ہیں۔ مشہور کی بناء پر اس وقت حضرت علی کی عمر دس سال تھی۔ حالانکہ بعض منابع میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر بارہ سال ذکر ہوئی ہے، اس لئے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال ذکر ہوئی ہے۔[268]

حدیث یوم الدار


رسول خدا ؐ نے مکہ میں تین سال تک مخفیانہ طور پر اسلام کی دعوت دی۔ اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ علنی طور رپر دعوت دیں۔ تاریخ اسلام و تفاسیر قرآن کے مصادر کے مطابق جب سنہ 3 بعثت میں آیہ انذار نازل ہوئی تو آنحضرت نے امام کو حکم دیا کہ وہ غذا کا انتظام کریں اور فرزندان عبد المطلب کو بلائیں تا کہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ تقریبا چالیس افراد جن میں ابو طالب، حمزہ و ابو لہب شامل تھے، دعوت میں آئے۔ آنحضرت نے کھانے کے بعد فرمایا: اے اولاد عبد المطلب، خدا کی قسم، عربوں کے درمیان میں کسی ایسے جوان کو نہیں جانتا جو تمہارے لئے اس چیز سے بہتر لایا ہو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے خیر دنیا و آخرت لایا ہوں۔ پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی دعوت دوں، تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و جانشین بنے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ امام علی جو سب سے چھوٹے تھے اور ان کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی، نے کہا: اے رسول خدا میں آپ کی نصرت کروں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے درمیان میر بھائی، وصی و جانشین ہے، اس کے بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔[269]

شب ہجرت (لیلۃ المبیت)


قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرؐ نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔[270] دار الندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خدا کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپؐ کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں۔ پیغمبرؐ نے علیؑ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آپ کی خوابگاہ میں آپ کے بستر پر آرام کریں۔[271]

آیت اور اس کا شان نزول: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہ ُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ ِ وَاللّہ ُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اور اللہ بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔[272]
مفسرین کے مطابق یہ آیت لیلۃ المبیت سے تعلق رکھتی ہے اور علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[273]

رسول خداؐ کے ساتھ مؤاخات

رسول خداؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علیؑ سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علیؑ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔ [274]

ردّ الشمس


یہ سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے جب رسول خداؐ اور علیؑ نے نماز ظہر ادا کی اور رسول خداؐ نے علیؑ کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علیؑ نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علیؑ واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبرؐ نے اپنا سر علیؑ کی گود میں رکھا اور سوگئے یہاں تک سورج غروب ہوگیا۔ جب رسول خداؐ جاگ اٹھے بارگاہ الہی میں دعا کی: "خدایا! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے رسولؐ کے لئے وقف کیا، سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے"۔ پس علیؑ اٹھے، وضو تازہ کیا اور نماز عصر ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہوگیا۔[275]

ابلاغ سورہ برائت ( توبہ)

سورہ توبہ کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور توحید کا عقیدہ قبول کریں جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہئے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔ یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ پیغمبرؐ حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ چنانچہ اللہ کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو رسول اللہؐ خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے جو آپؐ سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا" [276]، ـ حضرت محمدؐ نے علیؑ کو بلوایا اور حکم دیا کہ مکہ۔ تشریف لے جائے اور عید الاضحیٰ کے دن مِنیٰ کے مقام پر سورہ برائت کو مشرکین تک پہنچا دیں۔[277]

حدیث حق

پیغمبرؐ نے فرمایا: عَلىٌّ مَعَ الحقِّ والحقُّ مَعَ عَلىٍّ۔ (ترجمہ: على ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ ہے)"۔ [278]

حدیث سد الابواب


صدر اسلام میں مسجد النبی کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو رسول خدا نے فرمایا:
"مجھے علی کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔[279]

جمع آوری قرآن

 مصحف امام علی
علمائے شیعہ و اہل سنت کا ماننا ہے کہ آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد حضرت علی نے آپ کے حکم کے مطابق قرآن کریم کی جمع آوری و تدوین کا کام شروع کیا۔ یہی سبب ہے کہ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن کی جمع آوری نہیں کر لیتا، عبا دوش پر نہیں ڈالوں گا۔ اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ امام علی نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد ۶ ماہ کی مدت میں قرآن مجید کو جمع کیا۔ سب سے پہلے قرآن کی تدوین کرنے والے حضرت علیؑ ہیں۔

مبداء تاریخ اسلام

امام علی کے مشورہ پر حضرت عمر نے آنحضرت ؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کی تاریخ کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔

قرآن میں امام علی کے فضائل
حضرت علیؑ کے فضائل و مناقب میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ 300 سے زیادہ آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔[280] یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے:

آیت مباہلہ


سنہ 10 ہجری میں روز مباہلہ طے یہ پایا تھا کہ مسلمان اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں، تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خداؐ علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں، تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی۔ آیہ مباہلہ میں حضرت علی کو نفس پیغمبر کہا گیا ہے۔[281]

آیت تطہیر


شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ زوجۂ رسولؐ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہؐ کے علاوہ، علیؑ، فاطمہؑ اور حسنینؑ بھی موجود تھے۔ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خداؐ نے چادر کساء کو جس پر آپ بیٹھے تھے، اٹھا کر اصحاب کساء یعنی اپنے آپ، علی، فاطمہ اور حسنین کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کیا: خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ۔[282]

آیت مودت


اس آیہ کریمہ میں مودت و محبت القربی کو اجر رسالت کے عنوان سے مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: علی، فاطمہ، حسن اور حسین اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔[283]

دیگر فضائل


سرچشمہ علوم

مسلمان علماء کے مطابق، امام علیؑ بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔[284] اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔[285] اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ علم کلام، فقہ، تفسیر[286] و قرائت، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت[287] جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔[288] ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیرؑ ہیں اور محمد بن حنفیہ کے واسطہ سے تمام معتزلہ ان کے شاگرد ہیں اور اشاعرہ، امامیہ و زیدیہ کا معاملہ بھی ہے۔[289] فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔[290] قرائت میں بھی ان کے شاگرد ابو عبد الرحمن سلمی کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔[291] اور انہیں علم نحو کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد ابو الاسود دوئلی نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔[292]

سلسلہ صوفیان

تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنینؑ سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ شیخ احمد غزالی (متوفی 520 ھ) تصوف کے سلسلوں کے وجود میں آنے میں موثر تھے اور بہت سے سلسلوں نے اہنی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ ان سلسلہ سازوں (چونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک شجرہ نسب تلاش کریں اور اپنے سلسلہ کو صحابہ و آنحضرت ؐ تک پہچا دیں۔[293] دانش نامہ جہان اسلام میں شہرام پازوکی کے بقول، تمام صوفی سلسلہ اپنے مشایخ کے تمام اجازت ناموں (بشمول اجازہ ارشاد و تربیت) کے سلسلہ کو پیغمبر اکرم ؐ سے متصل کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو زیادہ تر حضرت علی کے ذریعہ سے آنحضرت تک پہچاتے ہیں۔[294] ابن ابی الحدید کے مطابق، خرقہ جو صوفیہ شعار ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔[295]

امامت و ولایت
 امامت اور امامت ائمہ اثنا عشر
دانش نامہ امام علی میں سید کاظم نژاد طباطبائی کے بقول، امام علی کی ولایت پر تصریح اور نص اس قدر زیادہ اور روشن ہے کہ اس میں کسی تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اس سلسلہ میں اقوال پیغمبر کی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آنحضرت ؐ کی سب سے بڑی فکر اپنے بعد امامت و رہبری کا مسئلہ تھا۔[296] اس سلسلہ میں آپ کے اقدامات کی ابتداء دعوت ذوالعشیرہ سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت نے امام کو اپنے بعد[297] اپنے جانشین و خلیفہ کے طور پر متعارف کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے آخری سفر حج سے واپسی میں 18 ذی الحجہ میں غدیر خم کے مقام پر[298] اور اسی طرح سے اپنی عمر کے آخری لمحات میں جب آپ نے قلم و کاغذ طلب کیا تا کہ وہ وصیت لکھ دیں اور ان کے بعد مسلمان گمراہ نہ ہوں،[299] تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔

دلائل امامت حضرت علیؑ کبھی صراحت کے ساتھ آنحضرت کے بعد آپ کی امامت و ولایت کی حکایت کرتے ہیں اور کبھی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کے بغیر آپ کے فضائل کو آشکار کرتے ہیں۔ نوع اول کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

آیہ ولایت: مفسرین اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام علی کے انگوٹھی دینے کے واقعہ کو ذکر کرتے ہیں۔ جس میں آپ نے رکوع کی حالت میں اہنی انگوٹھی ایک سائل کو بخش دی۔[300] آیہ تبلیغ و آیہ اکمال جو واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کے بعد آنحضرت نے لوگوں کے لئے حدیث غدیر بیان کی۔ حدیث غدیر؛ امامت امیر المومنین کے مہم ترین دلائل میں سے ہے۔ واقعہ غدیر پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری سال میں پیش آیا اور لوگوں نے امام علی کو ان کے خلیفہ بنائے جانے پر مبارک باد پیش کی۔

بعض آیات و روایات جنہیں امام علی کی امامت و ولایت کے لئے دلیل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان میں صراحت کے ساتھ آپ کی امامت کی طرف نہیں کیا گیا ہے اور آپ کے فضائل میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: آیہ تطہیر، آیہ مباہلہ، آیہ صادقین، آیہ خیر البریہ، آیہ اہل ذکر، آیہ شراء، آیہ نجوا، آیہ صالح المؤمنین، حدیث ثقلین، حدیث مدینۃ العلم، حدیث رایت، حدیث کسا، حدیث وصایت، حدیث یوم الدار، حدیث طیر، حدیث مؤاخاة۔[301] حدیث منزلت، حدیث ولایت، حدیث سفینہ، حدیث سد الابواب۔

---

حوالہ جات:
 مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ ج۳۵، ص۲۳۔
 کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۰۱۔
 امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج ۶، ص۲۲۔
 النسائی، السنن الکبری، ج۵، ص۱۰۷؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۱۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۵، پاورقی شماره ۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۳۰۔
 ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۶۔
 صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۸۴۔
 طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۴۳۔
 مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۶، ص۱۰۲
 حسینی، «نخستین مومن و آگاهانه‌ترین ایمان»، ص۴۸۔
 طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱۰۔
 ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۲۸۔
 ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰۔
 رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶، ص۴۴۔
 طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۱؛ حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۶۳-۶۰؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۴-۵۰؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۱۵۳-۱۵۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۶؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۱۸۹-۱۸۶؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ق، ص۳۰۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳-۵۴۲؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج۱، ص۲۶۲۔
 ابن ہشام، ج 1، ص 480۔
 ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72؛ مجلسی، ج 19، 59۔
 سورہ بقرہ (2) آیت 207، ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی۔
 فخر رازی، ج 5، 223؛ حاکم حسکانی، ج 1، 96؛ علی بن ابراہیم، ص 61؛ طباطبائی، ج 2، ص 150۔
 ابن عبدالبر، الاستیعاب، بحوالہ محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1418ق۔/1998م۔، ج 2، ص 27۔
 امینی، ج 3، ص 140؛ شوشتری، احقاق الحق،ج 5،ص 522۔
 ابن ہشام، ج‏4، ص 545۔
 طبری، ج 6، جزء 10؛ ابن ہشام ، ج 4، ص 188ـ190۔
 بحرانی، باب 360۔
 متقی ہندی، ج 6، ص 155۔
 تاریخ بغداد، ج۶، ص۲۲۱؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۴۸۶۔
 سیوطی، الدر المنثور، ذیل آیہ 61؛ زمخشری، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طباطبایی، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران۔
 ابن بابویہ، ج2، ص403؛ سید قطب، ج6، ص586؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ج 8، ص 559۔
 مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۷۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۶-۱۷۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۹۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۴۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۷-۱۸۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۷۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۸۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۸-۲۷۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۰۔
 پور جوادی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷:‎ ۳۸۱-۳۸۷۔
 پازوکی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷:‎ ۳۸۷-۳۹۸۔
 ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۹۔
 طباطبایی‌ نژاد، دانشنامہ امام علیؑ، ۳:‎ ۱۹۳-۱۹۴۔
 طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹۔
 خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۲۸۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۷۔
 بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹؛ شیخ مفید، الإرشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴۔
 قرطبی، ج۶، ص۲۰۸؛ طباطبایی، المیزان، ج۶، ص۲۵؛ فخر رازی، ج۱۲، ص۳۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ج۳، ص۹۸۔
 پیامبر ؐ نے جب تمام اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو امام علی سے فرمایا: أنت أخی فی الدنیا و الآخرة (تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو) (سنن ترمذی، ج۵، ص۳۰۰؛ طبرانی، المعجم الکبیر ج۵، ص۲۲۱)۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک