حضرت علیؑ کے اقوال اور اصحاب

حضرت علیؑ کے اقوال، نہج البلاغہ اور اصحاب
حضرت علیؑ کی حیات سے ہی لوگوں نے آپ کے اقوال، خطبات و بعض اشعار کو حفظ اور انہیں سینہ بہ سینہ نقل کیا۔ جنہیں بعد میں بعض شیعہ و اہل سنت علماء نے جمع کیا اور ان اقوال کے مجموعے کتاب کی شکل میں شائع ہوئے۔

نہج البلاغہ


امام علیؑ کے خطبات، مکتوبات و اقوال پر مشتمل مشہور کتاب ہے۔ اس کے مولف سید رضی چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ نہج البلاغہ قرآن کے بعد شیعوں کا مقدس ترین دینی متن اور عرب دنیا کا نمایاں ترین ادبی شہ پارہ ہے۔ یہ کتاب تین حصوں میں مرتب کی گئی ہے: خطبات، خطوط اور مختصر کلمات یا کلمات قصار جو امیرالمؤمنینؑ نے مختلف مواقع پر بیان یا مختلف افراد کے نام تحریر کئے ہیں:

خطبات میں 239 خطبے شامل ہیں۔
خطوط کے حصے میں آپ کے 79 خطوط و مراسلات شامل ہیں اور تقریبا تمام خطوط دوران خلافت تحریر ہوئے ہیں۔
کلمات قصار یا قصار الحکم یا مختصر کلمات میں 480 اقوال شامل ہیں۔
نہج البلاغہ پر متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں شرح ابن میثم بجرانی، شرح ابن ابی الحدید معتزلی، شرح شیخ محمد عبدہ، شرح علامہ محمد تقی جعفری، حسین علی منتظری کے درس ہایی از نہج البلاغہ، شرح فخر رازي، قطب الدین راوندی کی منہاج البراعہ اور محمد باقر نواب لاہیجانی کی شرح نہج البلاغہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔[302] اس بات کے پیش نظر کہ نہج البلاغہ امام کے اقوال کا منتخب مجموعہ ہے۔ اس میں تمام اقوال شامل نہیں ہیں لہذا بعض محققین نے آپ کے تمام اقوال کو جمع کونے کی کوشش ہے۔ اصطلاحا ان کتابوں کو مستدرکات نهج البلاغہ کہا جاتا ہے۔

غُرَرُ الحِکَم و دُرَرُ الکَلِم

غرر الحکم و درر الکلم کو پانچویں صدی ہجری کے عالم عبدالواحد بن محمد تمیمی نے تالیف کیا ہے۔ غرر الحکم میں تقریباً دس ہزار سات سو ساٹھ (10760) اقوال امام علیؑ سے منقول ہیں جو الف باء کی ترتیب سے اعتقادی، عبادی، سیاسی، معاشی اور سماجی مختلف موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کئے گئے ہیں۔[303]
دستور مَعالمِ الحِکَم و مأثور مکارم الشِیَم

دستور معالم الحکم و ماثور مکارم الشیم، کو محمد بن سلامۃ بن جعفر بن علی بن حکمون مغربی شافعی معروف بہ قاضی القضاعی نے تالیف کیا ہے جو پانچویں صدی ہجری کے شافعی علماء میں سے ہیں۔ وہ اہل حدیث کے ہاں بھی صاحب اعتبار ہیں گو کہ بعض لوگوں نے ان کو شیعہ ذکر کیا ہے۔[304]
کتاب "دستور معالم الحکم" نو ابواب میں مرتب کی گئی ہے: حضرت علیؑ کے مفید اقوال و حکم، دنیا کی مذمت، دنیا کی طرف بے رغبتی، مواعظ، وصیتیں اور نواہی (نہی)، سوالات کے جوابات، کلام غریب، نادر کلام، دعا و مناجات اور ایک منظوم کلام جو امامؑ سے ہم تک پہنچا ہے۔[305]

بعض دیگر تالیفات جن میں کلام امام علیؑ کو اکٹھا کیا گیا ہے:

نثر اللآلی تالیف: ابو علی فضل بن حسن طبرسی۔
مطلوب کل طالب من کلام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام، انتخاب: جاحظ، شرح: رشید وطواط۔
قلائد الحکم و فرائد الکلم تالیف: قاضی ابو یوسف یعقوب بن سلیمان اسفراینی۔
امثال الامام علی بن ابیطالب، یہ نصر بن مزاحم کی کتاب الصفین میں منقولہ امام علیؑ کے خطوط و کلمات کا مجموعہ۔
دیوان اشعار

 دیوان امام علیؑ
امام علی علیہ السلام سے منسوب اشعار میں دیوان میں جمع کئے گئے ہیں۔ جو بارہا مختلف ناشرین کی طرف سے شائع ہو چکا ہے۔[306]

آپ کے مکتوبات
شیعہ منابع و بعض اہل سنت مصادر میں آپ کے مندرجہ ذیل نوشتہ جات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

جَفْر و جامعہ

جفر و جامعہ، دو کتابوں کے نام ہیں جنہیں رسول اکرم ؐ نے املا فرمایا اور امامؑ نے تحریر کیا ہے۔[307] یہ دونوں کتابیں ودایع امامت و علم امام کے منابع میں ہوتی ہیں۔ [308] کتاب جفر میں مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے مطالب ذکر ہوئے ہیں۔[309] امام موسی کاظمؑ کی روایت کے مطابق، نبی و وصی کے سوا کوئی اس کتاب کو پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ اوصیاء کے امتیازات میں شمار ہوتا ہے۔[310] کتاب جامعہ میں بھی ماضی سے مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس میں تمام آیات کی تاویل، تمام انبیاء کے اوصیاء کے اسماء، ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات موجود ہیں۔ کتاب جامعہ کا بعض افراد نے مشاہدہ کیا ہے۔[311]

مصحف امام علیؑ

مصحف علی یا مصحف امامؑ، قرآن کا پہلا جمع شدہ نسخہ ہے جسے رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد امام نے جمع کیا گیا۔[312] یہ مصحف اس وقت دسترسی میں نہیں ہے اور روایات کے مطابق، یہ امام علی کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے جو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے مرتب ہوا ہے۔ بعض روایات کے مطابق، اس کے حاشیے میں آیات کے شان نزول و ناسخ و منسوخ کو ذکر کیا گیا ہے۔[313] شیعہ عقاید کے مطابق یہ مصحف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود تھا اور اب امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔[314]

مصحف فاطمہؑ

مصحف فاطمہ اس کتاب کا نام ہے جس کے مطالب فرشتہ الہی نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے بیان کئے اور حضرت علیؑ نے اسے تحریر کیا ہے۔[315] یہ کتاب جنت میں پیغمبر اکرم ؐ کے مقام اور مستقبل کے واقعات جیسے مطالب پر مشتمل ہے۔[316] یہ کتاب بھی شیعہ ائمہ معصومینؑ کے ہاتھوں میں تھیں اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی ہے اور ان کے علاوہ کسی کی دسترسی نہ اس کتاب تک تھی نہ ہے۔ یہ کتاب اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے۔[317]

اصحاب
سلمان فارسی: رسول اللہؐ اور امام علیؑ کے سب سے برتر اور نمایاں صحابی ہیں۔ معصومین سے ان کے بارے میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں۔[318] من جملہ رسول خداؐ نے فرمایا: سلمان ہم اہل بیت سے ہیں۔[319]
ابوذر غفاری: ابو ذر غفاری معروف بنام ابوذر غفاری رسول اللہؐ پر ایمان لانے والے چوتھے فرد ہیں۔ [320] ابوذر رسول اللہؐ کے وصال کے بعد امامؑ کے حامی تھے اور ان چند افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے امتناع و اجتناب کیا۔[321]
مقداد بن عمرو: مقداد بن اسود کندی کے نام سے مشہور ہیں اور ان سات افراد میں سے ایک ہیں جو رسول اللہؐ کی بعثت کے ابتدائی ایام میں ایمان لائے اور مسلمان ہوئے۔ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد مقداد بھی ابوبکر کی بیعت سے انکار کرنے والوں میں ایک تھے اور امامؑ کی 25 سالہ گوشہ نشینی کے ایام میں ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔[322]
عمار یاسر: عمار یاسر اولین شہدائے اسلام یاسر اور سمیہ کے بیٹے ہیں۔ وہ رسول اللہؐ پر ایمان لانے والے پہلے مسلمانوں میں سے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی پہلی ہجرت یعنی ہجرت حبشہ میں حبشہ نامی افریقی ملک میں ہجرت کرگئے اور رسول اللہؐ کی ہجرت مدینہ کے بعد، مدینہ میں آپ سے آملے۔ وہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد بدستور اہل بیت اور امامؑ کے دفاع میں استوار رہے۔ عمر بن خطاب کی خلافت کے ایام میں کچھ عرصے تک کوفہ کے امیر رہے لیکن چونکہ عادل انسان تھے اور سادہ زندگی گذارنے کے قائل تھے، کچھ لوگوں نے ان کی برطرفی کے اسباب فراہم کئے جس کے بعد وہ مدینہ واپس آگئے اور علیؑ کے ساتھ رہے اور آپ سے فیض حاصل کرتے رہے۔[323]
مالک اشتر نخعی: مالک بن حارث عبد یغوث نخعی معروف بہ مالک اشتر، یمن میں پیدا ہوئے۔ مالک اشتر نے سب سے پہلے امام علیؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ جنگ جمل، جنگ صفین و جنگ نہروان میں امام علیؑ کے سپہ سالار تھے۔ [324]
ابن عباس: عبد اللہ بن عباس پیغمبرؐ اور امام علیؑ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ انہوں نے رسول اللہؐ سے بہت زيادہ حدیثیں نقل کی ہیں۔[325] ابن عباس خلفاء کے دور میں ہمیشہ علیؑ کو لائق خلافت سمجھتے تھے اور امام علیؑ کی خلافت کے دوران جنگ جمل، جنگ صفین و جنگ نہروان میں امامؑ کی مدد کو آئے اور امامؑ کی طرف سے بصرہ کے والی تھے۔ [326]
ابو الہیثم بن تیہان: انصار کے ان افراد میں سے ہیں جو رسول خدا ؐ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔[327] ابو الہیثم ان بارہ افراد میں سے تھے جنہوں نے ابوبکر کے زمانہ میں امام علیؑ کی خلافت کے بر حق ہونے اور اس بات کی کہ آنحضرت نے انہیں اپنا جانشین منتخب کیا تھا، شہادت دی۔[328] وہ جنگ صفین میں عمار یاسر کی شہادت کے بعد شہید ہوئے۔[329] ان کا شمار ان افراد میں سے ہے جن کی شہادت پر آپ نے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا: این عمار؟ این ابو الہیثم؟ ۔۔۔۔[330]
صعصعہ بن صوحان: صعصعہ بن صوحان عبدی امام علیؑ کے اصحاب میں شامل ہیں۔ انہوں نے امام علیؑ کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔ [331]
وہ ان اولین افراد میں شامل ہیں جنہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی۔[332]
کمیل بن زیاد: کمیل بن زیاد نخعی اصحاب رسولؐ کے تابعین میں شامل ہیں اور ان کا شمار امام علیؑ اور امام حسنؑ کے اصحاب خاص میں ہوتا ہے۔[333] وہ ان شیعیان آل رسولؐ میں سے ہیں جنہوں نے حضرت علیؑ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں آپ کی بیعت کی اور امام علیؑ کی جنگوں میں آپ کے دشمنوں کے خلاف لڑے۔[334]
محمد بن ابی بکر: خلیفۂ اول کے فرزند تھے۔ سنہ 10 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ امامؑ کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ سابقہ خلفاء نے امام علیؑ کا حق پامال کیا ہے اور کہتے تھے کہ کوئی بھی خلافت کا منصب سنبھالنے کے سلسلے میں امام علیؑ سے زیادہ اہل نہیں ہے۔[335] محمد نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔ وہ رمضان سنہ 36 ہجری کو مصر کے حاکم مقرر ہوئے اور صفر سنہ 38 ہجری کو معاویہ کی سپاہ کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ [336]
میثم تمار: میثَم تمّار اَسَدی کوفی امام علیؑ اور حسنینؑ کے اصحاب خاص میں شامل ہیں۔ وہ شرطۃ الخمیس کے رکن تھے۔ یہ وہ جماعت تھی جس کے اراکین نے امام علیؑ کے ساتھ عہد کیا تھا کہ زندگی کے آخری لمحے تک آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔[337]
 

حوالہ جات:
 ضمیری، ص 365-367۔
 ضمیری، ص 375۔
 نوری، ج 3، ص 367۔
 قاضی قضاعی، مقدمہ کتاب۔
 رجوع کریں: سایٹ سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمهوری اسلامی ایران
 کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۳۹؛ صفار قمی‌، بصائر الدرجات، ص۱۴۲-۱۴۶۔
 عاملی‌، حقیقة الجفرعند الشیعة، ص‌۱۲۵-۱۳۳۔
 مجلسی‌، بحار الانوار، ج‌۵۱، ص‌۲۲۰۔
 صفار قمی‌، ص‌۱۵۸-۱۵۹۔
 کلینی‌، الکافی، ج‌۱، ص‌۲۳۹۔
 طباطبایی، قرآن در اسلام، ۱۳۷۶ش، ص۱۱۳؛ السجستانی، کتاب المصاحف، ۱۴۰۵ق، ص۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۶۱۔
 ایازی، مصحف امام علیؑ، ص۱۷۷-۱۷۸۔
 عاملی، حقائق هامّة، ص۱۶۰، بہ نقل از: خرمشاهی، قرآن ‎پژوهی، ۱۳۸۹ش، ج۲، ص۴۶۹۔
 صفار قمی، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۱۵۲۔
 صفار قمی، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۱۵۶- ۱۵۷۔
 آقا بزرگ تهرانی، الذریعة، ج۲۱، ص۱۲۶؛ مهدوی راد، مصحف فاطمه، ص۸۳-۸۴۔
 مجلسی، ج22، ص343۔
 صدوق، عیون اخبار الرضا، ج1، ص70۔
 ابن سعد، ج 4، ص 224۔
 دائرہ المعارف تشیع، ج 1، ذیل ابوذر۔
 یعقوبی، ج1، ص524۔
 کمپانی، ص 412۔
 نہج‌البلاغہ،‌ ترجمہ محمد دشتی، ص 565۔
 مفید، امالی، ص 140۔
 مفید، جمل، ص265؛ ابن مزاحم، ص 410؛ ابن ابی الحدید، ج 2، ص 273 و ج 6، ص 293۔
 ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۹۰۔
 شیخ صدوق، خصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۴۶۲۔
 انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۳۱۹۔
 نهج البلاغہ، صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، خطبه ۱۸۲، ص۲۶۴۔
 ابن اثیر، اسد الغابہ ، ج 3، ص 20۔
 یعقوبی، ج 2، ص 179۔
 قطب راوندی، منہ اج البراعہ ، ج 21، ص 219؛ مفید، اختصاص، ص 7۔
 مفید، اختصاص، ص 108۔
 شوشتری، قاموس الرجال، ج۷، ص۴۹۵۔
 ابراہیم بن محمد، ج 1، ص224 و 285؛ زرکلی، ج 6، ص 220۔
 برقی، ص 3۔