صدیق اکبر کا لقب

صدیق اکبر کا لقب
"صدیق" یعنی بہت سچ بونے والا، جس کے منہ سے صرف سچائی ہی نکلے اور جھوٹ کبھی سرزد نہ ہو۔ قرآن میں بعض انبیاء کو اس لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ صدیق اکبر کا لقب حضرت علیؑ کے لئے مخصوص ہے۔ رسول خداؐ نے آپؑ کو صدیق اکبر اور فاروق کا لقب دیا ہے۔ صدیقہ اور صدیقہ کبریٰ حضرت زہراء(س) کا لقب ہے۔

لغت اور قرآن میں
رسول خدا(ص):
صدیقین تین افراد ہیں: حبیب بن مری دجار (مومن آل یاسین)، اور حزقیل (مومن آل فرعون) اور علی بن ابی طالب کہ ان میں سے تیسرا سب سے برتر ہے

ابن حنبل، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ، صص238، 278۔
امیرالمؤمنین:
"انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدّیق الاکبر لا یقولہا بعدی الا کاذب مفتر"۔
(ترجمہ: میں خدا کا بندہ، رسول خدا کا بھائی اور صدیق اکبر ہوں، میرے بعد کوئی بھی ایسا سخن نہیں کہے گا، مگر یہ کہ وہ جھوٹا ہو۔

سائی، سنن، ج۵، ص۱۰۷؛ کنزالعمال، ج۱۳، ص۱۲۲؛ حاکم نیشابوری، ج۳، ص۱۱۲۔
صدیق کا جمع صدیقون اور صدیقین ہے۔ صدیق مبالغہ کا صیفہ ہے۔ جس شخص کے ساتھ سچائی لازم و ملزوم کی طرح ہو یا جس کی رفتار اس کے کردار کی تصدیق کرے اسے صدیق کہا جاتا ہے۔ یا ایک قول کے مطابق صدیق اس شخص کو کہا جاتا ہے جس سے کبھی جھوٹ سرزد ہی نہ ہو۔ [1] صدیق قرآن میں مفرد کی صورت میں چار بار اور جمع کی صورت میں دو بار استعمال ہوا ہے۔ [2][3] قرآن میں حضرت ابراہیم [4] اور حضرت ادریس [5] کو صدیق اور حضرت مریم کو صدیقہ[6] کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ روایات میں حضرت علیؑ کو صدیق [7] اور حضرت فاطمہ زہراء(س) کو صدیقہ یا صدیقہ کبریٰ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ [8]

صدیقین کا مقام
راغب کے بقول فضیلت میں پیغمبروں کے بعد صدیقین کا مقام ہے۔ [9] اہل تشیع حدیثی کتابوں میں موجود بعض احادیث کے مطابق صدیقہ کو صدیق کے علاوہ کوئی غسل نہیں دے سکتا۔ اسی بنا پر حضرت علیؑ نے حضرت فاطمہ(س) کو اور حضرت عیسیٰ نے حضرت مریم کو غسل دیا۔ [10]

صدیق اکبر
شیعہ اور اہل سنت سے مروی احادیث میں حضرت علیؑ کو صدیق اکبر کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور یہ لقب آپؑ کو رسول خداؐ نے دیا ہے۔ [11] ایک روایت میں رسول اکرمؐ نے علی ابن ابی طالبؑ، مومن آل فرعون اور حبیب نجار کو صدیقین کا نام دیا اور حضرت علیؑ کو ان سب سے بہتر قرار دیا۔ [12]

اہل سنت کے منابع کے مطابق حدیث معراج میں یہ لقب ابوبکر کو بھی دیا گیا ہے۔[13]بعض نے کہا ہے کہ وہ جاہلیت کے زمانے میں اس لقب سے مشہور تھے۔[14] البتہ اہل سنت کے بعض علماء اس حدیث کو مردود قرار دیتے ہیں۔ [15] ابن جوزی نے اس حدیث کو اپنی کتاب الموضوعات میں ذکر کیا ہے۔ [16]

شیعہ علماء نہ صرف اس بات کو مسترد کرتے ہیں بلکہ اہل سنت کے منابع[17] سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ صدیق اور فاروق دونوں حضرت علیؑ کے القابات میں سے ہیں۔ خود حضرت علیؑ نے بھی اپنی خلافت کے دوران بصرہ کے منبر پر اس لقب کو اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ [18]

حوالہ جات
 ۱-لسان العرب، ج۱۰، ص۱۹۳-۱۹۴
 ۲-المعجم المفہرس، ص۴۰۶
 ۳-نساء، آیہ۶۹
 ۴-سورہ مریم، آیہ ۴۱: وَ اذْکُرْ فِی الْکِتابِ إِبْراہیمَ إِنَّہُ کانَ صِدِّیقاً نَبِیا
 ۵-مریم، آیہ۵۶: وَ اذْکُرْ فِی الْکِتابِ إِدْریسَ إِنَّہُ کانَ صِدِّیقاً نَبِیا۔
 ۶-مائدہ، آیہ ۷۵: مَا الْمَسیحُ ابْنُ مَرْیمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَ أُمُّہُ صِدِّیقَۃٌ
 ۷-کاشانی، ص۳۴۲؛ صدوق، الامالی، ص۲۷۴؛ صدوق، مسندالرضا، ج۲، ص9
 ۸-ابن شہرآشوب، ج۳، ص۱۳۳؛ امالی، شیخ صدوق، ص۶۶۸
 ۹-المفردات، ص۲۲۷؛ ریاض السالکین، ج۵، ص۳۳۳
۱۰-و افی، ج۳، ص۱۵۹؛ شیخ طوسی، تہذیب، ج۱، ص۴۴۰؛ وسائل الشیعہ، ج۲، ص۵۳۰
 ۱۱-کاشانی، ص۳۴۲؛ صدوق، الامالی، ص۲۷۴؛ صدوق، مسندالرضا، ج۲، ص۹، کنزالعمال، ج۱۱، ص۶۱۶؛ کشف الغمہ، ج۲، ص۱۲؛ المناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۸۶؛ ابن کثیر، ج۱، ص۴۳۱؛ ابن ابی شیبہ، ج۷، ص۴۹۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۰۰؛ طبرانی، ج۶، ص۲۶۹
 ۱۲- ابن مغازلی، ص۲۰۰؛ کنزالعمال، ج۱۱، ص۶۰۱
 ۱۳-ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۶؛ ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰
 ۱۴-دروزہ، ص۲۶
 ۱۵-متقی ہندی، کنزالعمال، ج۱۳، ص۲۳۶؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱، ص۵۴۰؛ ابن حبان، المجروحین، ج۲، ص۱۱۶
۱۶- ابن جوزی، ج۱، ص۳۲۷
 ۱۷-بلاذری، انساب، ج۲، ص۱۴۶؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۴؛ نسائی، ص۲۱-۲۲؛ جوینی، ج۱، ص۱۴۰، ۲۴۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۲۸؛ ابن کثیر، ج۳، ص۲۶؛ سیوطی، الجامع، ج۲، ص۵۰
۱۸- عاملی، ج۲، ص۲۶۳-۲۷۰؛ امینی، ج۲، ص۳۱۲-۳۱۴