الاستبصار فی ما اختلف من الاخبار

الاستبصار فی ما اختلف من الاخبار کتب اربعہ میں سے چوتھی کتاب ہے ۔ یہ کتاب شیخ طوسی (د۴۶۰ق /۱۰۶۸م) کی تالیف ہے جو شیخ الطائفہ کے نام سے بھی معروف ہیں ۔
مضامین
یہ کتاب فقہی احادیث پر مشتمل ہے اور تہذیب الاحکام کی بنسبت مختصر ہے۔اس کتاب کے ابواب کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلا اور دوسرا حصہ عبادات سے متعلق ہے اور آخری یا تیسرا حصہ فقہ کے دوسرے ابواب سے ابواب جیسے عقود، ایقاعات، احکام تا حدود و دیات وغیرہ سے مخصوص ہے۔
خود مؤلف نے اس کتاب میں موجود احادیث کی تعداد ۵۵۱۱ ذکر کیا ہے۔[1] لیکن اس کتاب کا جو تحقیقی نسخہ منتشر ہوا ہے اس میں احادیث کی تعداد ۵۵۵۸ حدیث تک پہنچتی ہیں۔ اور یہ اختلاف ممکن ہے بعض احادیث کی گنتی کی نوعیت کی وجہ سے پیش آجائے۔[2]
شیخ طوسی نے پہلے دو حصوں میں احادیث کو انکی سندوں کے ساتھ مرقوم فرمایا ہے لیکن آخری حصے میں سندوں کو نہایت ہی اختصار سے ذکر کیا ہے اور زیادہ تر کتاب تہذیب الاحکام اور کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کی روش سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔[3]
تألیف کا مقصد
شیخ طوسی کے بعض شاگرد اور دیگر علما نے شیخ صاحب سے کسی ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کی جس میں متعارض اور مخالف احادیث اکھٹے کرکے انکے بارے میں تحقیق و بررسی کے ذریعے صحیح احادیث کو غیر صحیح احادیث سے جدا کیا جائے۔ شیخ طوسی نے اسی مقصد کی خاطر اس کتاب میں پہلے صحیح اور معتبر احادیث کو ذکر کیا ہے پھر مخالف روایات کو ذکر کرکے ان کی جانچ پڑتال کی ہے اس حوالے سے کوشش کرکے تمام احادیث کو حد الامکان جمع کیا ہے اور کسی حدیث کو نہیں چھوڑا ہے۔
شیوہ تألیف
شیخ طوسی نے اس کتاب میں جہاں ہر باب میں اس موضوع سے متعلق احادیث کو جمع کیا ہے وہاں انکی سند اور مضامین کے حوالے سے جانچ پڑتال کرکے ان احادیث کی ظاہری ناہمخوانی اور ٹکراؤ کو ختم کرنے یا بعض کو بعض پر ترجیح دینے کی تجویز دی ہے۔ احادیث کے ظاہری ٹکراؤ کو ختم کرنے کے حوالے سے فقہ میں شیخ طوسی کا طریقہ کار ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور اس کتاب میں یہ چیز بوضوع روشن اور آشکار ہے۔
اس بنا پر اس کتاب کو صرف احادیث کا مجموعہ شمار کرکے اس کی فقہی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اس کتاب میں بھی دیگر کتب اربعہ کی طرح فقہ کے ابواب کو فقہ میں رائج طبقہ بندی کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔
اگرچہ شیخ طوسی نے اس کتاب کی تألیف میں کسی حد تک اپنی پہلی تألیف - تہذیب الاحکام - پر بھروسہ کیا ہے لیکن یہ کتاب اپنی تالیفی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے ابواب کی ترتیب اور احادیث کی ترتیب دونوں حوالوں سے ایک خاص مقام کا حامل ہے اور ایک مستقل کتاب کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
یہ استقلال خود مؤلف نے اس کتاب کی جو فہرست دی ہے، میں بھی اور ۔[4] انکے ہم عصر عالم دین نجاشی[5] کے کلام میں بھی سے بوضوح آشکار ہے۔
اس کتاب کی خصوصیات
یہ کتاب پہلی کتاب ہے جس میں مخالف احادیث کو جمع کرنے کی خاطر لکہی گئی ہے۔
کتاب استبصار، نہایت معتبر اور متند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت جامع کتاب بھی ہے یہاں تک کہ سید ابن طاوؤس فرماتے ہیں: اگر کسی مورد میں کوئی مخالف حدیث موجود ہو تو وہ کتاب استبصار میں ضرور اس کی طرف اشارہ کی گئی ہوگی۔
ہر باب کے آغاز میں پہلے معتبر یا حد اقل مورد قبول احادیث کو ذکر کیا ہے اس کے بعد دوسری احادیث کو ذکر کیا ہے۔
یہ کتاب فقہ کے تمام ابواب پر مشتمل نہیں ہے بلکہ صرف ان ابواب کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں مخالف احادیث موجود ہوں لیکن اس میں موجود ابواب کی ترتیب فقہ میں رائج ترتیب کے مطابق طہارت سے شروع ہو کر دیات پر ختم ہوتی ہے۔
اس کتاب کی قدر و منزلت
کتاب شیعہ حدیثی کتابوں میں معتبرترین کتاب شمار کیا جاتا ہے اور ہر فقیہ اور مجتہد کیلئے احکام شرعی کی استنباط میں اس کی طرف مراجمعہ کرنا ایک لازمی امر سمجھا جاتا ہے۔
اس کتاب کی اہمیت اور قدر و منزلت کی بنا پر اس کا نام ہمیشہ شیعہ علماء اور فقہاء کی کتابوں میں اس کتاب کی احادیث ضرور مذکور نظر آتی ہیں۔
کتب حدیث سے موازنہ
اہم حدیثی کتب    مصنف    متوفی    تعداد احادیث    توضیحات
المحاسن
احمد بن محمد برقی
274 ھ    تقریباً 2604    مختف عناوین کا مجموعۂ احادیث
کافی
محمد بن یعقوب کلینی
329 ھ    تقریباً 16000    اعتقادی، اخلاقی آداب اور فقہی احادیث
من لا یحضر الفقیہ
شیخ صدوق
381 ھ    تقریباً 6000    فقہی
تہذیب الاحکام
شیخ طوسی
460 ھ    تقریباً 13600    فقہی احادیث
الاستبصار فیما اختلف من الاخبار
شیخ طوسی    460 ھ    تقریباً 5500    احادیث فقہی
الوافی
فیض کاشانی
1091 ھ    تقریباً 50000    حذف مکررات کے ساتھ کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ اور بعض احادیث کی شرح
وسائل الشیعہ
شیخ حر عاملی
1104 ھ    35850    کتب اربعہ اور اس کے علاوہ ستر دیگر حدیثی کتب سے احادیث جمع کی گئی ہیں
بحار الانوار
علامہ مجلسی
1110 ھ    تقریباً 85000    مختلف موضوعات سے متعلق اکثر معصومین کی روایات
مستدرک الوسائل
مرزا حسین نوری
1320 ھ    23514    وسائل الشیعہ کی فقہی احادیث کی تکمیل

سفینہ البحار
شیخ عباس قمی
1359ھ    10 جلد    بحار الانوار کی احادیث کی الف ب کے مطابق موضوعی اعتبار سے احادیث مذکور ہیں
مستدرک سفینہ البحار
شیخ علی نمازی
1405 ھ    10 جلد    سفینۃ البحار کی تکمیل

جامع احادیث الشیعہ
آیت اللہ بروجردی
1380 ھ    48342    شیعہ فقہ کی تمام روایات

میزان الحکمت
محمدی ری شہری
معاصر    23030    غیر فقہی 564 عناوین
الحیات
محمد رضا حکیمی
معاصر    12 جلد    فکری اور عملی موضوعات کی 40 فصل
نشر و اشاعت
یہ کتاب انتشارات دارالکتب الاسلامیہ کے توسط سے تہران میں ۴ جلدوں میں قطع وزیری میں سنہ ۱۳۹۰ق کو منتشر ہوئی ہے۔
الاستبصار ایک دفعہ ۱۳۰۷ق میں ۳ جلدوں میں ہندوستان کے شہر لکھنو میں جبکہ سنہ ۱۳۱۵-۱۳۱۷ق کو تہران میں دوبارہ منتشر ہوئی ہے۔
اس کتاب کا تحقیقی نسخہ حسن موسوی کی کوششوں سے مشہد میں اور محمد آخوندی کے زیر نگرانی نجف اشرف میں (۱۳۷۵-۱۳۷۶ق ۴ جلدوں (جزء سوم ۲ مجلد میں) منتشر ہوئی ہے اور کئی بار تجدید چاپ ہوئی ہے۔
قدیمی نسخے
کتاب الاستبصار کے قدیمی نسخے کے حوالے سے سب سے پہلے ایک ناقص نسخے کا تذکرہ کرنا پڑیگا آقابزرگ تہرانی[6] کے بقول سیدہادی کاشف الغطاء نجف اشرف میس جعفر بن علی مشہدی کے قلم سے یہ نسخہ موجود ہے۔ انکے بقول یہ نسخہ شیخ طوسی کے دستخط سے مقایسہ کیا گیا ہے اور اس کی تاریخ کو۵۷۳ق ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد آیت اللہ مرعشی کی لائبریری میں محفوظ نسخے کی نوبت آتی ہے جو آٹھویں صدی قمری میں تدوین ہوئی ہے[7]
شروحات و تعلیقات
کتاب استبصار پر شرح یا تعلیق کے عنوان سے دسویں صدی ہجری قمری کے اواخر سے کتابیں منظر عام پر آنی شروع ہوئی جن میں سے اہم ترین کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
محمدبن علی بن حسین عاملی، صاحب مدارک الاحکام نے ( ۱۰۰۹ق) میں اس کتاب پر ایک حاشیہ لکھا ہے جو کتاب کے متن کے ساتھ محفوظ ہے۔[8]
حسن بن زین الدین عاملی، صاحب معالم الدین نے ( ۱۰۱۱ق) میں اس کتاب پر ایک حاشیہ لکھا ہے جسے افندی نے ریاض العلماء میں ذکر کیا ہے۔[9]
محمد بن علی بن ابراہیم استرآبادی صاحب منہج المقال نے ( ۱۰۲۸ق) میں اس کتاب پر ایک حاشیہ لکھا ہے جو نجف اور مشہد دیکھا گیا ہے۔ [10]
استقصاء الاعتبار، کو محمد بن حسن بن زین الدین عاملی نے (د ۱۰۳۰ق) میں اس کتاب پر حاشیہ کے عنوان سے لکھا ہے جسے آقابزرگ تہرانی نے اس کے کئی نسخوں کو معرفی کیا ہے۔[11]
مناہج الاخبار، کو کمال الدین (یا نظام الدین) احمد بن زین العابدین عاملی نے اس کتاب پر شرح کے عنوان سے لکھی ہے۔[12]
ملا محمدامین استرآبادی نے ( ۱۰۳۶ق) میں اس کتاب پر ایک حاشیہ لکھا ہے۔ [13]
میرمحمدباقر استرآبادی، معروف بہ میرداماد نے ( ۱۰۴۰ یا ۱۰۴۱ق) میں اس کتاب پر ایک تعلیقہ لکھا ہے جسے کبھی کبھار شرح سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اس کے کئی نسخے کتابخانہ سپہ سالار تہران اور کتابخانہ تربیتی میں موجود ہیں۔[14]
جامع الأخبار فی ایضاح الاستبصار، جسے شیخ عبداللطیف بن علی بن احمد بن ابی جامع حارثی (۱۰۵۰ق) شاگرد شیخ بہایی نے اس کتاب پر حاشیہ کے عونان سے لکھی ہے .[15]
کشف الاسرار فی شرح الاستبصار، جسے سید نعمت اللہ جزایری نے ( ۱۱۱۲ق) میں اس کتاب پر حاشیہ کے عنوان سے لکھی ہے جسکے متعدد خطی نسخوں کو آقابزرگ تہرانی معرفی کیا ہے۔[16]
نکت الارشاد در شرح استبصار، شہید اول محمد بن مکی کی تالیف ہے۔
شرح استبصار، سید میرزا حسن بن عبدالرسول حسینی زنوزی کی تالیف ہے۔
شرح استبصار، امیر محمد بن امیر عبدالواسع خاتون آبادی، داماد علامہ مجلسی کی تالیف ہے۔[17]


حوالہ جات
1.    ↑ طوسی، الاستبصار، ج۴، ص۳۴۲
2.    ↑ بجنوردی، ج۸، ص۳۲۹۶، ذیل مدخل
3.    ↑ حلی ج۱، ص۲۷۶؛ دانش پژوه، ج۳، ص۱۰۸۶-۱۰۸۷
4.    ↑ طوسی، الفہرست، ج۱، ص۲۴۰
5.    ↑ نجاشی، ج۱، ص۴۰۳
6.    ↑ آقابزرگ تہرانی، ج۲، ص۱۴ - ۱۵
7.    ↑ کتابخانہ مرعشی، نسخ خطی، ج۴، ص۳۸۶-۳۸۷
8.    ↑ آقابزرگ تہرانی، ج۲، ص۱۶
9.    ↑ افندی، ج۱، ص۲۳۲
10.    ↑ فاضل محمود، ج۱، ص۲۱۹-۲۲۰
11.    ↑ آقابزرگ تہرانی، ج۲، ص۳۰-۳۱
12.    ↑ کتابخانہ آستان قدس، فہرست، ج۵، ص۱۸۲
13.    ↑ آقابزرگ تہرانی، ج۱۳، ص۸۳
14.    ↑ ابن یوسف شیرازی، ج۱، ص۲۴۴؛ آقابزرگ تہرانی، ج۱۳، ص۸۳
15.    ↑ آقابزرگ تہرانی، ج۵، ص۳۷- ۳۸
16.    ↑ آقابزرگ تہرانی، ج۱۸، ص۱۷
17.    ↑ دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل واژہ الاستبصار
مآخذ
آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ
ابن یوسف شیرازی، فہرست کتابخانہ مدرسہ عالی سپہسالار، تہران
افندی عبداللہ، ریاض العلماء، بہ کوشش احمد حسینی، قم
دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی
دانش پژوہ، نشریہ کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران
طوسی، الاستبصار، بہ کوشش حسن موسوی خرسان، نجف
طوسی، الفہرست، بہ کوشش محمدصادق بحرالعلوم، نجف
حلی، رجال، نجف.
فاضل محمود، فہرست نسخہ ہای خطی کتابخانہ جامع گوہرشاد، مشہد
کتابخانہ آستان قدس، فہرست
کتابخانہ آصفیہ، خطی
کتابخانہ مرعشی، نسخ خطی
نجاشی، الرجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم