معصومین کی ولادت ہوتی ہے یا ظہور ؟

معصومین کی ولادت ہوتی ہے نہ کہ ظہور، قرآن، حدیث و علماء کی نظر میں
ھم ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جس میں بدقسمتی سے دین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اور نئے سے نیا مسئلہ پیدا کیا جا رہا ہے۔
چنانچہ ایسے ہی آج کل ایک فتنہ چلا ہوا ہے کہ معصومینؑ کی *ولادت* نہیں ہوتی بلکہ انکا *ظہور* یا پھر *نزول* ہوتا ہے۔
ہم اپنے اس آرٹیکل میں اس موضوع پر قرآن، حدیث اور علماءکی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اصل میں کونسا عقیدہ درست ہے ؟
سب سے پہلے آپ کو غالیوں کی تحریر پڑھاتے ہیں۔
ایک غالی لکھتا ہے:
*"مقصرین معصومین کی بطور ولادت کے قائل ہیں۔ اسی لئے مقصرین ملاں مجالس میں ولادت کا لفظ بولتے ہیں کبھی ظہور کا ذکر نہیں کریں گے۔"*
ایک او بدزبان غالی لکھتا ہے:
*"اصولی مجتہدین معصومین کی بطور بشر ولادت کے قائل ہیں۔ اسی لئے اصولی علما مجالس میں ولادت کا لفظ بولتے ہیں کبھی ظہور کا ذکر نہیں کریں گے۔ شیعان مولا علی کا ایمان ہے کہ معصومین اپنی والدہ کے پہلو میں ظہو ر فرماتے ہیں۔ ان پر کسی بشری پہلو یا صفت (صلب،بطن، حمل،ولادت) کا اطلاق نہیں ہوتا۔"*
ہم نے ان کتب کے نام اس لئے نہیں لکھے تا کہ فتنہ نہ پھیل سکے اور یہ گمراہ کتب عوام کالانعام کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ عزیزان اس نام نہاد عقیدے پر ان مصنفین نے کوئی فرمان نہیں ہمیں دکھایا۔ بلکہ *سورہ الطلاق آیت 10۔11، سورہ الاعراف آیت 157* لکھ کر اپنی مرضی سے اس کی غلط تفسیر کی ہے۔ ہم انشااللہ اپنے اس آرٹیکل کے اختتام پر ان آیات کے متعلق عرغ کریں گے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ان لوگوں کا یہ عقیدہ صحیح ہے ؟
سب سے پہلے ایک اہم وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ان لوگوں نے ہم پر جھوٹ باندھا ہے اور تحمت لگائی ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ کی ولادت ہماری طرح ہوتی ہے۔جبکہ ہم آئمہ کی پاک و پاکیزہ، طاہر و مطہر ولادت کے قائل ہیں اور اس آرٹیکل میں اس موضوع پر فرامین بھی پیش کئے جائیں گے۔ دوسری بات یہ کہ ان غالیوں نے ان علماء کی ایک فہرست دی ہے جن پر انہیں اعتبار ہے۔ وہ علماء یہ ہیں:
*"محمد بن حسن الحرعاملی، علامہ مجلسی، علامہ بحرانی، ملا محسن فیض کاشانی۔* آپ یہ نام یاد کر لیا۔ ہم اپنے اس آرٹیکل میں انہی علماء کے حوالہ جات کثرت سے دیں گے تا کہ یہ لوگ پھر بھاگ نہ سکیں۔"
سب سے پہلے قرآن پر ایک نظر:
*1*. حضرت زکریا (ع) فرماتے ہیں:
*و انی خفت الموالی من وراء ی وکانت امراتی عاقرا فھب لی من لدنک ولیا۔*
"اور میں (اپنے مرنے کے بعد) اپنے وارثوں سے سہما جاتا ہوں (کہ مبادا دین کو برباد نہ کریں) اور میری بیوی (ام کلثوم بنت عمران)بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما۔" *(سورہ مریم آیت 5)*
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ا ن لوگوں کاظہور ہوتا ہے تو پھر اس میں کیا مسئلہ تھا کہ ان کی بیوی بانجھ تھیں ؟
*2. فحملتہ فانتبذت بہ مکانا قصیا۔ فا اجاء ھا المخاض الی جذع النخلتہ۔۔ ۔ ۔(سورہ مریم آیت 22۔23)*
"غرض لڑکے کے ساتھ وہ آپ ہی حاملہ ہو گئیں۔ پھر اس کی وجہ سے لوگوں سے الگ دور کے مکان میں چلی گئیں (پھر جب جننے کا وقت قریب آیا) تو درد زہ انہیں ایک کھجور کی جڑمیں لے آیا۔"
یہ واقعہ حضرت مریم (ع) کا ہے۔ آپ لوگ دیکھیں کہ یہاں پر اللہ نے *حمل* کا لفظ استعمال کیا ہے اور درد زہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اب اگر حضرت عیسی کی ولادت نہ ہوتی بلکہ ظہور ہوتا آسمانوں سے تو پھر یہ حمل اور درد زہ کے الفاظ کے کیا معنی ہیں ؟
*3. حملتہ امہ کرحا و وضعتہ کرھا۔ (سورہ الاحقاف آیت 15)*
"اس کی ماں نے رنج کی ہی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا۔"
یہ آیت حضرت امام حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے با فرمان امام صادق (ع)۔
ملاحظہ کریں:
*1. الکافی، شیخ کلینی، جلد 1، صفحہ 464 طبع بیروت،*
*2۔ تفسیر صافی، شیخ محسن کاشانی، جلد 3، صفحہ 317 طبع بیروت،*
*3۔ تفسیر نورالثقلین، شیخ عبد العلی جمعہ، جلد 7، صفحہ 419 طبع لاہور، **
*4۔ جلاء العیون، علامہ مجلسی، صفحہ 479 طبع تہران۔*
اس آیت میں اللہ نے *"حمل"* کا بھی لفظ استعمال کیا ہے اور ساتھ میں *"ماں کے پیٹ"* کے الفاظ بھی ہیں۔ یعنی کہ اگر آپ عقیدہ ظہور رکھتے ہیں تو پھر امام حسین (ع) کی شان سے یہ آیت گئی افسوس !
حدیث کا فیصلہ
سب سے پہلے ہم یہاں پر وہ احادیث نقل کریں گے جن میں آئمہ نے فرمایا ہے کہ ہم اپنی ماؤں کے صلب میں ہوتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) کے ایک انتہائی قابل قدر صحابی امام موسی کاظم (ع) کی ولادت کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
*1۔ذکرت انہ سقط من بطنھا حین سقط و اضعا یدیہ علی الارض۔*
"جب وہ بطن سے جدا ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور سر آسمان کی طرف اٹھایا۔"
*(الکافی، شیخ کلینی، جلد 1، صفحہ 385 طبع بیروت)*
یہ ایک طویل واقعہ ہے اور اس میں یہ اتنے بڑے صحابی امام بار بار ولادت کا لفظ بھی استعمال کر رہے ہیں اس کے علاوہ امام نے حمل کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔
*2۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) ہی فرماتے ہیں:
*فیمکث فی الرحم اربعین یوما لا یسمع الکلام ثم یسمع الکلام بعد ذلک۔*
"امام چالیس دن رات اس طرح شکم مادر میں رہتا ہے وہ کسی کی آواز نہیں سنتا اور اس کے بعد وہ آواذ سننے لگتا ہے۔"
*(الکافی، شیخ کلینی، جلد 1, صفحہ 387، طبع بیروت)*
*3*۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*الاوصیاء اذا حملت بھم امہاتھم اصابھا فترۃ شبہ الغشیہ*
"جب اماموں کی مائیں حاملہ ہوتی ہیں تو ان کو ایک قسم کی غشی سی ملتی جلتی لاحق ہوتی ہے۔"
*(الکافی، شیخ کلینی، جلد 1, صفحہ 387 طبع بیروت)*
*4۔* حضرت امام علی رضا (ع) امام کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کی جملہ صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ :
*واذا وقع علی الارض من (بطن) امہ وقع علی راحتیہ رافعا صوت بالشہادۃ*
"شکم مادر سے جب زمین پر آئے گا تو اپنی ہتھیلیوں کے سہارے بیٹھے گا اور شہادتین کے لئے اپنی آواز بلند کرے گا۔"
*(خصال، شیخ صدوق، صفحہ 528 طبع قم، احتجاج, شیخ طبرسی، صفحہ 509 طبع قم، معانی الاخبار، شیخ صدوق، صفحہ 102 طبع قم)*
یہ چیز امام کی صفت ہے اور اگر آپ اس صفت کا انکار کر رہے ہیں تو پھر امامت کیا رہ جائے گی ؟
*5۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*فا ان الامام یسمع الکلام فی بطن امہ*
"امام شکم مادر میں آواز سنتا ہے۔"
*(بصائر الدرجات، شیخ صفار، صفحہ 543 طبع قم،بحار، علامہ مجلسی، جلد 25 صفحہ 431 طبع قم)*
*6۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*لا تتکلمو ا فی الامام فان الامام یسمع الکلام وھو جنین فی بطن امہ*
"امام کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو نہ کریں کیونکہ امام وہ ہوتے ہیں جو شکم مادر میں بھی سنتے ہیں۔"
*(بصائر الدرجات، شیخ صفار، صفحہ 564 طبع قم، تفسیر الصافی, شیخ محسن کاشانی، جلد 1 ص 497 طبع بیروت)*
بصائر الدرجات میں امام کے اسی قسم کے *11* فرامین ہیں اس باب میں جب کہ ہم نے صرف دو کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
*7۔* کتاب *علل الشرائع* میں ایک پورا باب ہے جس کا نام ہے :
*"العلۃ التی من اجلھا لم یتکلم النبی بالحکمہ حین خرج من بطنہ امہکما تکلم عیسی"*
"وہ سبب جس کی بنا پر رسول اللہ (ص) نے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی کلام کیوں نہیں کیا جیسا کہ عیسی نے کیا۔" *(باب 70, صفحہ 79 طبع قم)*
اس باب میں بھی پوچھنے والے نے رسول اللہ کے لئے شکم مادر کے الفاظ ہی استعمال کئے ہیں جب کہ رسول اللہ نے اسے روکا نہیں۔
*8۔* حضرت امام علی ابن ابی طالب (ع) کی ولادت کے وقت ان کی والدہ جناب فاطمہ بنت اسد نے جو دعا فرمائی وہ اس طرح تھی:
*ربی انی مومنہ بک و بما جاء من عندک من رسل و کتب مصدقہ بکلام جدی ابراہیم فبحق الذی بنی ھذا البیت و بحق المولود الذی فی بطن لما یسرت وعلی ولادتی*
"خدا وندا میں ایمان لائی ہوں تجھ اور ان چیزوں پر جو تیرے رسول لائے اور ان کتابوں پر جو مصدقہ ہیں میرے جد ابراہیم کی پس واسطہ اس کے حق کا جس نے اس گھر کو بنایا اور اس مولود کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں ہے میرے اوپر ولادت کی سختی کو آسان کر۔"
*(مناقب ابن شہر آشوب، جلد 2، صفحہ 173 طبع بیروت، امالی صدوق صفحہ 195 طبع قم، الدمعتہ الساکبہ، شیخ بہائی، جلد 1, صفحہ 180 طبع لاہور)*
*9۔* آئمہ سے مروی زیارت وارثہ میں آئمہ (ع) کو اس طرح یاد کیا گیا ہے:
*اشھد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخۃ والارحام المطھرۃ*
"میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ وہ نور ہیں جو بلند مرتبہ صلبوں اور پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا آیا۔"
*(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 794 طبع تہران)*
قارئین ہم نے آپکی خدمت میں آیات اور فرامیں حاضر کئے ہیں جن میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آئمہ نے بارہا یہی فرمایا ہے کہ وہ اصلاب میں منتقل ہوتے ہیں ہمارے پاس اس موضوع پر اور بھی بہت سے فرامین ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ہم انہیں یہاں پر نقل نہیں کر رہے۔
اب ہم آپ کی خدمت میں چند ایسے فرامین پیش کریں گے جن میں مولود کا لفظ آئمہ نے اپنے لئے استعمال فرمایا ہے نہ کہ ظہور کا۔ جو فرامین ہم نے اوپر پیش کئے ہیں ان میں بھی آئمہ نے اپنے لئے مولود کا لفظ ہی استعمال کیا ہے لیکن ان کے علاوہ ہم یہاں پر صرف اسی پر ہی فرمان پیش کریں گے۔
*10*۔ امام زمان (عج) کے نائب خاص علی بن محمد سے روایت ہے کہ:
*ولد الصاحب علیہ السلام للنصف من شعبان*
"امام زمان (عج) کی ولادت نصف شعبان میں ہوئی۔"
*(اکمال الدین، شیخ صدوق، صفحہ 430 طبع قم)*
*11۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) کے معتبر صحابی ابو بصیر کہتے ہیں:
*کنت مع ابی عبدللہ فذکر شیئنا من امر الامام اذا یولد قال۔ ۔ ۔ ۔*
"ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں امام ابوعبدللہ کے ساتھ تھا تو امام کی ولادت کے بارے میں کسی چیز کا ذکر ہوا تو فرمایا۔ ۔ ۔"
*(بصائر الدرجات، شیخ صفار، صفحہ 603 طبع قم)*
*12*۔ حضرت امام حسین (ع) کی ولادت کے موقعے پر ایک فرشتہ فطرس کو شفا ملنا ۔ رسول اللہ نے فطرس کو فرمایا کہ شفا حاصل کرنے کے لئے یہ عمل انجام دو:
*فمسح بھذا المولود*
"اس مولود کے جسم سے اپنے پر کو مس کرو۔"
*(الخرائیج، شیخ راوندی، جلد 1، صفحہ 252 طبع قم، امالی صدوق، 201، جلاء العیون، علامہ مجلسی، صفحہ 477 طبع تہران، اثبات الھداۃ, شیخ حر عاملی، جلد 4, صفحہ 45 طبع بیروت)*
*13۔* حضرت امیر المومنین امام علی (ع) کی زیارت میں ہے:
*اسلام علیک یا من ولد فی الکعبہ (مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 700 طبع تہران)*
*14۔ الھم انی اسالک بالمولود دین فی رجب محمد بن علی ثانی ۔ ۔ ۔*
*(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 268 طبع تہران و بحار الانوار وغیرہا)*
*15*۔ امام حسین (ع) کی ولادت کے دن دعا جو تعلیم ہوئی:
*الھم انی اسالک بحق المولود فی ھذا الیوم الموعود۔ ۔ ۔*
*(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 319 طبع تہران)*
*16.* حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*"ایک مرتبہ بشار امام جعفر صادق (ع) کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہاں سے نکل جا. تو ملعون ہے. میں تیرے ساته ایک چهت کے نیچے جمع نہیں ہو سکتا. وہ اٹه کر چلا گیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا اسے غارت کرے. اس نے خدا کی بهی توہین کی ہے. یہ شیطان ابن شیطان ہے. میرے شیعوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے. میں اللہ کا بندہ یوں. اصلاب و ارحام کی منزلوں سے گزرا ہوں. مجهے بهی ایک دن مرنا ہے اور میدان حشر میں جواب دینا ہے."*
*(حضرت امام جعفر صادق و مذاہب اربعہ، استاد اسد حیدر نجفی، صفحہ 247)*
امام (ع) یہاں پر خود فرما رہے ہیں کہ میں ارحام کی منزلوں سے گزرا ہوں۔ اور بشار پر لعنت فرما رہے ہیں۔ تھوڑا سوچئے کہ آٗئمہ (ع) کتنے حساس تھے ایسے موضوعات پر اور آج ہم ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں پر ہم فرامین کا اختتام کر رہے ہیں کیونکہ پوسٹ ذیادہ طویل ہو گئی ہے جبکہ اسی موضوع پر ہمارے پاس بیسیوں فرامین اور بھی ہیں۔
اب ہم چند علماء جن کی یہ ملنگ لوگ بہت عزت کرتے ہیں (عوام کو پاگل بنانے کے کئے) ان کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں آئمہ کے متعلق کیا ظہور کا باب باندھا یا پھر ولادت کا ؟
*1*۔ سب سے پہلے شیخ کلینی جن کی وفات امام زمان (عج) کی غیبت صغری میں ہوئی اور جن کی حدیث کی کتاب اب مذہب شیعہ کی پہچان بن چکی ہوئی ہے۔ آپ اپنی کتاب الکافی میں آئمہ کی ولادت کاباب اس طرح باندھتے ہیں:
*"باب موالید الائمہ" صفحہ 385 طبع بیروت۔*
اسی طرح آپ ہر امام کی ولادت کا باب اس طرح باندھتے ہیں:
*"باب مولد امیرالمومنین" صفحہ 452، باب "مولد الزھراء فاطمہ" صفحہ 458 وغیرہا)*
*2*۔ نہج البلاغہ جیسی مشہور و معروف کتاب کے مصنف *سید رضی خصائص امیرالمومنین صفحہ 39 طبع بیروت* میں لکھتے ہیں:
*ولد علیہ السلام بمکہ فی البیت الحرام ۔۔ ۔ ۔ ۔ولدہ ہاشمی مرتین ولا نعلم مولود ولد فی الکعبہ وغیرہ*
"امیر المونین خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ ۔ ۔آپ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ہیں ۔ آپ پہلے ہاشمی ہیں جو سلسلہ نسب میں نجیب الطرفین ہیں، آپ کے علاوہ کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔"
*3۔* علامہ مجلسی نے بھی اپنی کتب میں یہی باب باندھے ہیں جیسے:
*"در بیان تاریخ ولادت و شھادت امیر المومنین" جلاء العیون صفحہ 288 طبع تہران۔*
اس کے علاوہ بحار الانوار میں بھی آپ نے یہی باب باندھے ہیں نہ کہ ظہور یا نزول کے باب۔ اس کے علاوہ علامہ مجلسی نے *حق الیقین جلد 1 صفحہ 54* پر آئمہ کے ارحام و اصلاب ہی لکھا ہے۔ اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ جن علماء کا یہ لوگ نام لیتے ہیں وہ علماء بھی انکے ہم خیال نہیں ہیں۔ یہ لوگ عوام کو پاگل بنانے کے لئے صرف علماء کا نام لیتے ہیں۔
ظہور کے لئے جن آیات کا یہ لوگ حوالہ دیتے ہیں ان میں آئمہ کی ولادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی امام نے ان آیات کی تفسیر میں کوئی ایسی بات فرمائی ہے۔ جب کے ہم نے آپ کی خدمت میں متعدد فرامین پیش کئے ہیں جن میں ولادت کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں کی تفسیر بالرائے ہے جسے آئمہ (ع) نے سختی سے روکا ہے۔اگر اسی طرح آیات کی من مانی تفسیر کرنا شروع ہو گئے تو پھر آئمہ کا کیا فائدہ ؟ آپ حضرات خود ان آیات کی تفسیر پڑھیں اور پھر دیکھیں کہ کیا ان آیات کا کوئی ربط ہے ان نظریات سے جن کا یہ لوگ پرچار کر رہے ہیں اور ان آیات کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور پھر ایک طرف اللہ قرآن میں ہی معصومین کے لئے حمل اور درد ذہ کے الفاظ استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف ظہور کے لفظ استعمال کر رہا ہے یہ کیسا تضاد ہے قرآن میں ؟ اور پھر آئمہ (ع) اتنے کثیر فرامین میں ظہور کا نہیں بلکہ ولادت کا ہی ذکر کر رہے ہیں۔ آپ لوگ سوچیں کہ آپ لوگوں کی ان باتوں سے امامت پر کیسی آنچ آرہی ہے۔
قارئین ہم نے آپ کی خدمت میں قرآن ، احادیث اور علماء (جن میں غالیوں کے پسندیدہ بھی شامل ہیں)کے بیانات سے ثابت کر دیا ہے کہ آئمہ کی ولادت ہوتی ہے ان کا ظہور نہیں ہوتا اور اگر یہ لفظ غلط ہوتا تو پھر آئمہ اور ان کے اصحاب اور علماء یہ لفظ کیوں استعمال کرتے ؟ آپ سب نے دیکھ لیا کہ ولادت کو لفظ استعمال کرنے پر کسی کو مقصر کہنا یا پھر گالی دینے کا مطلب یہ کہ آپ نعوذباللہ آئمہ اور ان کے اصحاب کو غلط کہہ رہے ہیں اور ان کی توہین کر رہے ہیں۔ کیا آج کل کے لوگ 1400 سال بعد دین کو ان ہستیوں سے ذیادہ جانتے ہیں ؟ اور پھر اگر ہم ان کے ظہور کا عقیدہ مان لیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ پھر ہمیں شہادت حضرت محسن (ع) جن کا ذکر ہم 1400 سال سے کر رہے ہیں ان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا کیونکہ جب یہ ہستیاں اپنی والدہ کے شکم میں ہی نہیں ہوتیں تو پھر کسی کے دروازہ گرانے سے حضرت محسن کیسے شہید ہو گئے ؟ اگر ہم نے اپنے ذہن سے ہی دیکھنا ہے تو پھر آئمہ کو اسی خاک میں دفن کرنا جہاں پر سب کو دفن کیا جاتا ہے یہ بھی آئمہ کی توہین ہوئی۔ آئمہ کو تو دفنانا ہی نہیں چاہئے تھا بلکہ انہیں تو ہیرے و جواہرات کے صندوقوں میں رکھنا چاہئے تھا اور پھر ظہور کا لفظ امام زمان (عج) کے لئے خاص ہے اگر ہم اس لفظ کو ہر امام کے لئے استعمال کرنے لگ گئے تو پھر امام زمان (عج) کی خصوصیت ہی ختم ہو جائے گی۔
آج کل کچھ وہابی نما بریلووں نے رسالے لکھنے شروع کئے ہیں کہ امام علی (ع) مولود کعبہ نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں بریلوی علماء نے ہی شاندار تحقیقات کر کے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے جیسا کہ پیر عظمت علی شاہ صاحب کی کتاب اس موضوع پر اس کے علاوہ مولود کعبہ نمبر وغیرہا۔ دوسری طرف ہم جو صدیوں سے یہ عقیدہ رکھتے آرہے ہیں آج تبدیل کر کے ظہور کعبہ کہہ رہے ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم نے آل محمد کو اپنے ذہن کے مطابق سمجھ لیا ہے اور جب لوگوں کو روکا جائے تو کوئی کہتا ہے کہ ایک لفظ تبدیل کرنے سے کیا ہو جاتا ہے۔ انہی لوگوں سے سوال ہے کہ آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ ایک لفظ تبدیل کرنے سے کتنے فضائل سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، آئمہ کی صفات سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ آپ مانتے حسین (ع) کو ہیں لیکن دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایک لفظ سے کیا فرق پڑھ جاتا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک آئمہ کی یہی حیثیت ہے کہ آپ ان کے فرامین کو اس طرح چھوڑیں ؟ کیا ایک لفظ کو تبدیل کرنا آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ؟ بعض لوگ ڈر کے مارے ظہور کہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر انہوں نے ولادت کہا تو لوگ لعن کریں گے۔ افسوس ہے کہ آپ اس حسین (ع) کے چاہنے والے ہیں جس نے اپنا سب کچھ اس راہ میں لٹا دیا اور ایک آپ ہیں آج جو حق کو صرف اس لئے چھوڑ رہے ہیں کہ آپ کو لوگوں کی مخالفت کا ڈر ہے !!
آخر میں آپ سب کے لئے ایک انتہائی سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ پیش کر رہا ہوں۔
*"امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں ایک شخص حلال طریقے سے دنیا کمانا چاہتا تھا لیکن اس پر قادر نہ ہوااور حرام طریقے سے دنیا کمانے لگ گیا۔ لیکن اس پر بھی قادر نہ ہوا اس کے پاس شیطان نے آ کر کہا اے شخص تم نے دنیا کو حلال طریقے سے کمانا چاہا مگر کامیاب نہ ہو سکے اور جب حرام سے کمانا چاہا تب بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی کیا میں تجھے ایسا طریقہ نہ بتاوں جس سے تیرا مال ودنیا ذیادہ ہو جائےاور تیرے چاہنے والوں کی بھی کثرت ہو کہنے لگا کیوں نہیں غرور بتاو۔ شیطان نے کہا ایک نیا دین ایجاد کر لو اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دو اس شخص نے ایسا ہی کیا ۔ لوگ جوق در جوق اس کے پاس آنے لگے اور س کی اطاعت کرنے لگے اور اس کی دنیا بھی آباد ہو گئی۔ پھر جب اس نے غور و فکر کیا تو خود سے کہنے لگا میں نے بہت برا کیا ہے۔ ایک نیا دین بھی گھڑا ہے اور لوگوں کو اس دین کی دعوت بھی دی ہے اور اب توبہ کا ایک ہی راستہ ہے کہ جب لوگ میرے پاس آئیں تو انہیں واپس بھیج دوں۔
بارحال جونہی اس دعوت پر لبیک کہنے والے اس کے پاس آتے تو وہ کہتا جس چیز کی طرف میں نے تمھیں دعوت دی ہے وہ میں نے خود گھڑا ہے۔
وہ کہتے تم جھوٹ بول رہے ہوتمھارا دین حق ہے صرف اتنا ہوا کہ تم اس دین میں شک کر بیٹھے اور اب واپس لوٹنا چاہتے ہو ۔ اس وقت اس نے زمین میں میخ ٹھونک کر اس کے ساتھ زنجیر باندھ لی اور اپنی گردن میں ڈال دی اور کہا کہ جب تک مجھے خدا معاف نہیں کرے گا میں اسے اپنی گردن سے نہ نکالوں گا۔ خدا نے اپنے انبیا میں سے ایک نبی کی طرف وحی کی کہ اس کے پاس جا کر کہو کہ خدا کہتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم اگر تم مجھے اتنا پکارو کہ تمھارے بدن کے جوڑ الیحدہ ہو جائیں میں تب بھی تمہیں معاف نہ کروں گا البتہ جنہوں نے تمھارا دین اختیار کیاتھا اور اب مر چکے ہیں انہیں زندہ کر کے اس دین سے واپس لوٹا سکتے ہو تو تب میں تمہیں معاف کروں (یعنی تمہاری معافی نا ممکن ہے)"*
*(ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، شیخ صدوق، صفحہ 555ِ طبع قم)*
آپ سب اس فرمان پر غور کریں کہ دین میں کوئی نئی چیز ڈالنا یا تحریف کرنا کتنا بڑا نا قابل معافی جرم ہے