امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

بداء کیا ہے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بداء کیا ہے؟

بداء | مجمع جهانی شیعه شناسی | مجمع جهانی شیعه شناسی
جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں:( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) (۱)
”اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے“۔
مذکورہ بالا آیت کے ذیل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خداوندعالم کے سلسلہ میں ”بداء“ سے کیا مراد ہے؟
”بداء“ کا مسئلہ شیعہ و سنی علماکے درمیان ہونے والی معرکة الآراء بحثوں میں ایک اہم بحث ہے، چنانچہ علامہ فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں محل بحث آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: ”شیعہ ؛خداوندعالم کے لئے ”بداء“ کو جائز مانتے ہیں، اور ان کے نزدیک بداء کی حقیقت یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی چیز کا معتقد ہوجائے لیکن اس کے بعد معلوم ہو کہ وہ چیزاس کے عقیدہ کے برخلاف ہے اور پھر اس سے پھر جائے، اور شیعہ لوگ اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے آیہ مبارکہ( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) سے استدلال کرتے ہیں، اس کے بعد فخر رازی مزید کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ باطل اور بے بنیاد ہے، کیونکہ خداوندعالم کا علم ذاتی ہے جس میں تغیر و تبدیلی محال ہے“۔
افسوس کی بات ہے کہ ”بداء“ کے سلسلہ میں شیعوں کے عقیدہ سے مطلع نہ ہونا اس بات کا سبب بنا کہ بہت سے برادران اہل سنت، شیعہ حضرات پر اس طرح کی ناروا تہمتیں لگائیں!
وضاحت: لغت میں ”بداء“ کے معنی واضح یا آشکار ہونے کے ہیں، البتہ پشیمان ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے، کیونکہ جو شخص پشیمان ہوتا ہے اس کے لئے کوئی نئی بات سامنے آتی ہے (تب ہی وہ گزشتہ بات پر پشیمان ہوتا ہے)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان معنی میں ”بداء“ خداوندعالم کے بارے میں صحیح نہیں ہے، اور کوئی بھی عاقل انسان خدا کے بارے میں یہ احتمال نہیں دے سکتا کہ اس سے کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ ہو، اور ایک مدت گزرنے کے بعد خدا کے لئے وہ چیز واضح ہوجائے، اصولاً یہ چیز کھلا ہوا کفر اور خدا کے بارے میں بہت بُری بات ہے، کیونکہ اس سے خداوندعالم کی ذات پاک کی طرف جہل و نادانی کی نسبت دینا اور اس کی ذات اقدس کو محل تغیر و حوادث ماننا لازم آتاہے، لہٰذا ہر گزایسا نہیں ہے کہ شیعہ اثنا عشری خداوندعالم کی ذات مقدس کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہوں۔
”بداء“ کے سلسلہ میں شیعوں کا جو عقیدہ ہے اور جس بات پر وہ زور دیتے ہیں وہ یہ ہے جیسا کہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں بیان ہوا ہے :”مَاعَرفَ اللهُ حَقّ معرفتِہ مَنْ لَمْ یعرفہُ بِالبداءِ“ (جو شخص خدا کو ”بداء“ کے ذریعہ سے نہ پہچانے اس نے خدا کو صحیح طریقہ سے نہیں پہچانا) چنانچہ ”بداء“ کے سلسلہ میں اس حدیث کے مطابق شیعوں کا یہی عقیدہ ہے:
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری اسباب و علل کے پیش نظر ہم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ پیش آنے والا ہے، یا خداوندعالم نے کسی واقعہ کے بارے میں اپنے نبی یا رسول کے ذریعہ آگاہ فرمایا دیا تھا لیکن بعد میں وہ واقعہ پیش نہیں آیاتو، ایسے موقع پر ہم کہتے ہیں کہ ”بداء“ حاصل ہوا، یعنی جیسا کہ ظاہری اسباب و علل کے لحاظ سے کسی واقعہ کے بارے میں احساس کررہے تھے اور اس واقعہ کے وقوع کو لازمی اور ضروری سمجھ رہے تھے ایسا نہ ہو بلکہ اس کے خلاف ظاہر ہو۔
اس کی اصلی علت یہ ہے کہ کبھی کبھی ہمیں صرف علت ناقصہ کا علم ہوتا ہے، اور ہم اس کے شرائط و موانع کو نہیں دیکھ پاتے، اسی لحاظ سے فیصلہ کربیٹھتے ہیں، بعد میں اس کی شرط حاصل نہ ہو یا کوئی مانع اور رکاوٹ پیش آجائے اور ہمارے فیصلہ کے برخلاف مسئلہ پیش آئے تو اس طرح کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح بعض اوقات پیغمبر یا امام ”لوح محو و اثبات“ سے مطلع ہوتے ہیں جوطبیعی طور پر قابل تغیر و تبدل ہے ، اور کبھی بعض موانع کی بناپریا شرط کے نہ ہونے سے وہ واقعہ پیش نہیں آتا۔
اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہم ”نسخ“ اور ”بداء“ کے درمیان ایک موازنہ کرتے ہیں: ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ ”نسخِ احکام “ تمام مسلمانوں کی نظر میں جائز ہے، یعنی یہ بات ممکن ہے کہ کوئی حکم گزشتہ شریعت میں نازل ہوا ہو اور لوگوں کو بھی اس بات کا یقین ہو کہ یہ حکم ہمیشہ باقی رہے گا لیکن ایک مدت کے بعد پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعہ وہ حکم منسوخ ہوجائے ، اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم آجائے، (جیسا کہ تفسیر، فقہ اور تاریخی کتابوں میں ”تحویل وتبدیل قبلہ“ کا واقعہ موجود ہے)۔
در اصل یہ (نسخ) بھی ایک قسم کا ”بداء“ ہے، لیکن تشریعی امورمیں، قوانین اورا حکام میں ”نسخ“ کہا جاتا ہے، جبکہ تکوینی امورمیں اسی کو ”بداء“ کہا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے بعض اوقات کہا جاتا ہے: ”احکام میں نسخ ایک قسم کا ”بداء“ ہے، اور تکوینی امورمیں”بداء“ ایک قسم کا نسخ ہے“۔
کیا کوئی اس منطقی بات کا انکار کرسکتا ہے؟ صرف وہی اس بات کا انکار کرسکتا ہے جو علت تامہ اور علت ناقصہ کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے، یا شیعہ مخالف گروپ کے غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہو ، اور اس کا تعصب اس حد تک بڑھ چکا ہو کہ شیعہ عقائد کے سلسلہ میں شیعہ کتابوں کا مطالعہ نہ کرسکے، تعجب کی بات یہ ہے کہ فخر رازی نے( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) کے ذیل میں بداء کے مسئلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس بات پر ذرا بھی توجہ نہیں وی کہ بداء ”محو و اثبات“ کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اپنے مخصوص تعصب کی بنا پر شیعوں کونشانہ بنایا ہے کہ شیعہ کیوں ”بداء“ کے قائل ہیں؟
(قارئین کرام!) آپ حضرات کی اجازت سے ہم چند ایسے نمونہ بیان کرتے ہیں جن کوسبھی نے قبول کیا ہے۔
۱ ۔ ہم جناب یونس علیہ السلام کے واقعہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ کی قوم کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب الٰہی طے ہوگیا، اور جناب یونس علیہ السلام جو اپنی قوم کو قابل ہدایت نہیں جانتے تھے اور ان کو مستحق عذاب جانتے تھے لہٰذا وہ بھی ان کو چھوڑ کر چلے گئے، لیکن اچانک (بداء واقع ہوا) اس قوم کی ایک بزرگ شخصیت نے عذاب الٰہی کے آثار دیکھے تو اپنی قوم کو جمع کیا اور ان کو توبہ کی دعوت دی، سب لوگوں نے توبہ کرلی، ادھر عذاب الٰہی کے جو آثار ظاہر ہوچکے تھے ختم ہوگئے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
( فَلَوْلاَکَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِیمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَی حِینٍ ) (۲)
”پس کوئی بستی ایسی کیوں نہیںہے جو ایمان لے آئے اور اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے ،علاوہ قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو ہم نے ان سے زندگانی دنیا میں رسوائی کا عذاب دفع کردیا اور انھیں ایک مدت تک سکون سے رہنے دیا“۔
۲ ۔ اسلامی تواریخ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک دلہن کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ شبِ وصال ہی مرجائے گی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کے برخلاف وہ دلہن زندہ رہی! جس وقت اس سے تفصیل معلوم کی اور سوال کیا: کیا تو نے راہ خدا میں صدقہ دیا ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں، میں نے صدقہ دیا تھا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: صدقہ، یقینی بلاؤں کو بھی دور کردیتا ہے!(۳)
در اصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوح محفوظ سے باخبر تھے جس کی بنا پر انھوں نے اس واقعہ کی خبر دی تھی، جبکہ یہ واقعہ اس شرط پر موقوف تھا (کہ اس راہ میں کوئی مانع پیش نہ آئے مثال کے طور پر”صدقہ“) لیکن جیسے ہی اس راہ میں مانع پیش آگیا تو فوراً نتیجہ بھی بدل گیا۔
۳ ۔ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام بت شکن بہادر کے واقعہ کو قرآن میں پڑھتے ہیں کہ انھیں اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، لہٰذا وہ اس حکم کی تعمیل کے لئے اپنے فرزند ارجمند کو قربانگاہ میں لے گئے، لیکن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکمل تیاری واضح ہوگئی تو ”بداء“ ہوگیا، اور یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ایک امتحانی حکم تھا، تاکہ جناب ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فزرند ارجمند کی اطاعت و تسلیم کی حد کو آزمایا جاسکے۔
۴ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی بیان ہوا ہے کہ پہلے انھیں حکم دیا گیا کہ تیس دن تک کے لئے اپنی قوم کوچھوڑ دیں اور احکام توریت حاصل کرنے کے لئے الٰہی وعدہ گاہ پر جائیں، لیکن بعد میں اس مدت میں دس دن کا اور اضافہ کیا (تاکہ بنی اسرائیل کی آزمائش ہوسکے)
(قارئین کرام!) یہاں پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ”بداء“ کا فائدہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب گزشتہ مطالب کے پیش نظر کوئی مشکل کام نہیں ہے، کیونکہ کبھی کبھی اہم مسائل جیسے کسی شخص یا قوم و ملت کا امتحان، یا توبہ و استغفار کی تاثیر(جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں بیان ہوا ہے) یا صدقہ ، غریبوں کی مدد کرنا یا نیک کام انجام دینا یہ سب خطرناک واقعات کو برطرف کرنے میں موثر ہوتے ہیں ، یہ امور باعث بنتے ہیں کہ آئندہ کے وہ حادثات جو
پہلے دوسرے طریقہ سے طے ہوتے ہیں لیکن بعد میں خاص شرائط کے تحت ان کو بدل دیا جاتا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی زندگی کے حالات ان کے ہاتھوں میں ہے، اور اپنے چال چلن اور راہ و روش کو تبدیل کرکے اپنی زندگی کے حالات بدل سکتے ہیں، اور یہی ”بداء“ کا سب سے بڑا فائدہ ہے (غور کیجئے )
جیسا کہ ہم نے گزشتہ حدیث میں پڑھا ہے کہ ”جو شخص خدا کو ”بداء“ کے ذریعہ سے نہ پہچانے اس نے خدا کو صحیح طریقہ سے نہیں پہچانا“ اس حدیث میں انھیں حقائق کی طرف اشارہ ہے۔
لہٰذا حضرت امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
”مَا بَعَثَ اللهعزَّ وَجَلَّ نَبِیًّا حَتّٰی یاٴخذ ُعلَیهِ ثلاثُ خِصَالٍ، الإقرار بالعبودیة، وَخلع الاٴنداد ،وإنَّ الله یقدِّم مَا یَشاءُ وَیوخِّرُ مَا یشاءُ “(۴)
”خداوندعالم نے کسی نبی یا پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان سے تین چیزوں کے بارے میں عہد و پیمان لیا: خداوندعالم کی بندگی کا اقرار، ہر طرح کے شرک کی نفی، اور یہ کہ خداوندعالم جس چیز کو چاہے مقدم و موخر کرے“۔
در اصل سب سے پہلا عہد و پیمان خداوندعالم کی اطاعت اور اس کے سامنے تسلیم رہنے سے متعلق ہے، اور دوسرا عہد و پیمان شرک سے مقابلہ ہے اور تیسرا عہد و پیمان ”بداء“ سے متعلق ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی سرگزشت خود اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے یعنی اگرانسان اپنی زندگی کے حالات اور شرائط کو بدل دے تو اس پر یا رحمت خدا نازل ہوتی ہے یا وہ عذاب الٰہی سے دوچار ہوتا ہے۔
(قارئین کرام!) آخر کلام میں عرض کیا جائے، گزشتہ وجوہات کی بنا پر علمائے شیعہ کہتے ہیں کہ جس ”بداء“کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی جاتی ہے تو اس کے معنی ”ابداء“ کے ہیں یعنی کسی
چیز کو واضح اور ظاہر کرنا جو کہ پہلے ظاہر نہیں تھی اور اس کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی گئی تھی۔
لیکن شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خدا کبھی کبھی اپنے کاموں پر پشیمان اور شرمندہ ہوجاتا ہے یا بعد میں ایسی چیز سے باخبر ہوتا ہے جو پہلے معلوم نہ ہو، تو یہ سب سے بڑا ظلم و خیانت ہے اور ایک ایسی تہمت ہے جس کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔
اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوا ہے:
”مَنْ زَعَمَ اٴَنَّ اللهَ عزَّ وَجَلَّ یبدو لَهُ فِی شَیءٍ لَمْ یعلمُهُ اٴمس فابرؤا منه “(۵)(۶)
”جو شخص گمان کرے کہ خداوندعالم کے لئے آج وہ چیز واضح و آشکار ہوگئی ہے جو کل واضح نہیں تھی تو ایسے شخص سے نفرت اور بیزاری اختیار کرو“۔
____________________
(۱) سورہ رعد ، آیت ۳۹
(۲) سورہ یونس ، آیت ۹۸.
(۳) بحار الانوار ،، جلد ۲ ، صفحہ ۱۳۱، ۔چاپ قدیم ،از امالی شیخ صدوق.
(۴) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۱۱۴، سفینة البحار ، جلد اول، صفحہ ۶۱.
(۵) سفینة البحار ، جلداول، صفحہ ۶۱.
(۶) تفسیر نمونہ ، جلد۱۰، صفحہ ۲۴۵

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک