پانچویں حدیث کا جائزہ۔ اس کے تین راوی درج ذیل ہیں :-قسط-۸

پانچویں حدیث کا جائزہ۔ اس کے تین راوی درج ذیل ہیں :-قسط- ۸
۱۔ محمد بن اسحاق بن یسار
۲۔ محمد بن حارث تیمی
۳۔ عبد اللہ بن زید
ان میں  پہلے دو  راویوں  کا تنقیدی جائزہ آپ  ملاحظہ کرچکے ہیں   اور یہ بھی دیکھ چکے ہیں  کہ یہ دونوں  کسی تیسرے شخص سے جو کچھ نقل کرتے ہیں  اس کی سند منقطع ہوتی ہے ۔ اس بیان کی روشنی میں  چھٹی حدیث کی صورتحال بھی واضح ہوجاتی ہے ۔اس لئے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں  جیساکہ آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں  ۔
یہ وہ احادیث ہیں  جو کتب صحاح میں  سے بعض کے اندر مذکور ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مآخذ میں  جو کچھ مذکور ہے ان میں سے ہم مسند امام احمد ،مسند دارمی ،مسند دار قطنی ،امام مالک کی موطا ،طبقات ابن سعد اور سنن بیہقی کی روایات کا تذکرہ کریں گے ۔
الف۔ مسند امام احمد بن حنبل کی روایات
امام احمد بن حنبل نے اذان کے خواب کو اپنی مسند  میں عبد اللہ بن زید سے تین اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ (۱)
پہلی سند ۔اس سلسلہ کا ایک راوی  زید بن حباب بن ریان تیمی ( متوفی ۲۰۳ھ) ہے ۔
اس کے بارے میں علمائے رجال  وحدیث  نے کہا  ہے کہ وہ کثرت سے غلطی اور خطا کرتا تھا ۔ وہ سفیان ثوری سے ایسی احادیث نقل کرتا  ہے جو سند کے لحاظ سے ’’غریب‘‘ ہیں ۔ابن معین  کہتے ہیں : اس نے ثوری  سے جو احادیث نقل کی  ہیں  وہ مقلوب ہیں ۔ (۲)
(مقلوب وہ حدیث ہے جس کے راوی  نے حدیث کے الفاظ، جملوں  اور راویوں  کو ادھر اُدھر  کردیا ہو ۔مترجم)
اس سلسلہ سند کا  ایک راوی عبد اللہ بن محمد بن زید  بن عبد ربہ ہے ۔ صحاح اور مسانید میں  اس  کی بس  یہی ایک روایت  منقول ہے اور اس  میں اس کے اپنے خاندان کی فضیلت  مذکور ہے ۔ اسی لئے  اس پر اعتماد  میں کمی واقع ہوئی ہے ۔
دوسری سند میں محمد بن اسحاق بن یسار شامل  ہے  جس کا حال آپ جان چکے ہیں ۔
تیسری سند  میں  محمد بن ابراہیم   حارث تیمی اور محمد بن اسحاق شامل ہیں  ۔یہ سند عبد اللہ بن  زید پر منتہی ہوتی ہے جس  کی روایت بہت کم ہے ۔
دوسری روایت میں خواب اور بلال کو اذان سکھانے کے ذکر کے بعد  مذکور ہے : بلال رسول اللہ  کے پاس  آئے  ۔انہوں نے دیکھا کہ آپ سورہے ہیں  ۔بلال نے بلند  آواز سے پکار کر کہا : الصلاۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے۔)  اس کے بعد  یہ جملہ  نماز صبح کی اذان  کا حصہ قرار پایا ۔
ب۔ مسند دارمی کی روایات
دارمی  نے اپنی مسند میں  اذان کے خواب  کو تین اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ تینوں  ضعیف  ہیں ۔
یہاں ہم صرف اسانید کا ذکر کریں گے ۔
۱۔ محمد بن حمید  نے سلمہ سےاور اس نے محمدبن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ  جب رسول اللہﷺ .....الخ
 ۲۔اس سند کی روسےمحمد بن حمید  نے سلمہ سے، اس نے محمد بن اسحاق سے ،اس نے محمد بن ابراہیم حارث تیمی سے ،اس نے محمد بن عبد اللہ بن زید  بن عبد ربہ  سے اور اس نے اپنے باپ سے  اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔
۳۔ اس سند کی روسے محمد بن  یحیی  نے یعقوب بن ابراہیم  بن سعد سے ،اس نے ابن اسحاق  سے اور اس نے ان راویوں  سے نقل کیا ہے  جن کا ذکر دوسری سند میں ہوچکا ہے ۔ (۳)
تبصرہ ۔ پہلی سند منقطع  ہے جبکہ دوسری اور تیسری سند   کا راوی  محمد بن ابراہیم حارث تیمی ہے جس کا حال آپ جان چکے ہیں  ۔اس کے علاوہ ان دونوں کے دوسرے راوی ابن اسحاق  کا ذکر بھی ہوچکا ہے ۔
ج۔ امام مالک کی الموطا میں مذکور روایات
امام مالک نے الموطا میں اذان کے خواب کو  یحیی سے نقل کیا ہے ۔ اس سند کی روسے یحیی نے مالک سے اور اس نے یحیی بن سعید  سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے یہ ارادہ کیا تھا کہ (نماز کا اعلان کرنے کے لئے ) دو لکڑیاں  لی جائیں  اور انہیں ایک دوسرے پر مارا جائے.... (۴)
تبصرہ : اس روایت کی سند منقطع ہے ۔ یحیی بن سعید  سے مراد  یحیی بن سعید بن قیس ہے جو سنہ۷۰ ھ میں پیدا ہوئے  اور ۱۴۳ ھ میں  ہاشمیہ میں وفات پاگئے۔ (۵)
د۔ طبقات ابن سعد کی روایت
محمد بن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں (۶)
اس حدیث کو کئی اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے جو موقوفہ ہیں ۔ (موقوفہ  وہ سند  ہے جو صحابی پر منتہی  ہو ۔مترجم )  ان  سے استدلال درست نہیں ہے ۔ پہلی سند  نافع بن جبیر پر منتہی  ہوتی ہے ۔نافع  نوے کی دہائی میں  اور بقولے ۹۹ ھ میں  وفات پاگیا تھا ۔
دوسری سند عروہ بن زبیر پر ختم ہوتی ہے جو ۲۹ ھ میں  پیدا ہوا اور ۹۳ ھ میں  وفات پاگیا  ۔
تیسری سند زید بن اسلم  پر منتہی ہوتی ہے ۔زید ۱۳۶ ھ میں وفات پاگیا  تھا ۔
چوتھی سند  سعید بن مسیب   (متوفی  ۹۴ ھ ) اور عبد الرحمن بن ابی لیلی  (متوفی ۹۲ ھ یا ۹۳ ھ ) پر ختم  ہوتی ہے ۔
ذہبی  نے عبد اللہ  بن زید کے بارے میں  لکھا ہے : سعید بن مسیب اور عبد الرحمن بن ابی لیلی نے اس  سے نقل کیا ہے جبکہ ان دونوں  کی ملاقات نہیں  ہوئی تھی ۔(6)
ابن سعد نے اس حدیث کو درج ذیل سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے ۔
اس سند کی روسے احمد بن محمد بن ولید  ازرقی نے مسلم بن خالد  سے ، اس نے عبد الرحیم بن عمر  سے ، اس نے ابن شہاب سے ، اس نے سالم بن عبد اللہ  بن عمر  سے اور اس نے عبداللہ بن عمر سے  نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ  نے لوگوں  کو جمع کرنے کے لئے کوئی چیز بنانے کا ارادہ کیا... یہاں تک کہ ایک انصاری  عبد اللہ زید نے خواب دیکھا ۔اسی  رات عمر بن خطاب نے بھی یہی خواب دیکھا … (پھر راوی کہتا ہے : پس بلال نے صبح کی اذان  میں الصلاۃ خیرٌ من النّوم   کا اضافہ کیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی تائید فرمائی ۔
یہ سند درج ذیل راویوں  پر مشتمل ہے ۔
۱۔ مسلم بن خالد بن مرّہ جسے ابن جرحہ کہا جاتا ہے  ۔یحیی بن  معین نے اسے ضعیف قرار دیا  ہے ۔علی ابن مدینی  کہتے ہیں  : اس کی کوئی حیثیث نہیں  ۔ بخاری فرماتے ہیں  : اس کی  روایت منکر ہے ۔ نسائی فرماتے ہیں  : وہ قوی نہیں  ہے ۔ابو حاتم کا بیان ہے : وہ قوی  نہیں ہے ، وہ منکر احادیث نقل کرتا ہے ۔ اس کی حدیث لکھی جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں  کیا جاتا ۔آپ اس کا تعارف کرائیں  لیکن اسے قبول نہ کریں ۔(7)
۲۔ محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب زہری  مدنی (۵۱ ھ۔۱۲۳ ھ) ۔
انس بن عیاض عبید اللہ بن عمر سے نقل کرتے  ہیں کہ اس نے کہا   : میں  دیکھا کرتا تھا کہ زہری  (حدیث کی ) کتاب  دیتا تو  ہے لیکن  نہ اسے پڑھتا ہے اور  نہ  اسے پڑھ کر سنایا جاتا ہے ۔جب اس سے کہا جاتا ہے : کیا ہم اسے آپ کی طرف سے نقل  کریں تو  وہ کہتا ہے : ہاں ۔
ابراہیم  بن ابو سفیان  قیسرانی  نے فریانی سے نقل کیا ہے کہ اس نے سفیان ثوری کو یہ کہتے سنا : میں زہری کے پاس  آیا  تو اس نے خاص توجہ نہیں دی ۔ میں  نے اس سے کہا : اگر آپ ہمارے اساتید کے پاس آتے تو کیا وہ آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ؟ اس نے کہا :اسی طرح بیٹھے رہو ۔
پھر وہ اندر گیا اور میرے لئے ایک کتاب  لے کر باہر نکلا اور کہنے لگا : یہ لے لو اور اسے میری طرف سے نقل کرو ‘‘ لیکن  میں نے اس سے ایک حرف بھی  نقل نہیں کیا ۔(8)
ھ۔ سنن بیہقی  کی روایت
بیہقی  نے اذان  کے خواب  کو مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ان سب میں کمزوری یا کمزوریاں  پائی جاتی ہیں ۔ یہاں ہم  ان اسانید کے کمزور راویوں  کی طرف اشارہ کرتے چلیں  گے ۔
پہلی سند  کا راوی ابو عمیر بن  انس ہے جس نے اپنے انصاری چچوں  سے روایت کی ہے ۔
ابو عمیر ابن انس کے بارے میں آپ جان چکے  ہیں  ۔ اس کے بارے میں  ابن عبد البر رقمطراز ہیں :  وہ مجہول الحال ہے ۔ اس کی روایت سے استدلال درست نہیں  ۔ وہ اپنے چچوں کے نام  سے مجہول الحال راویوں  سے روایت کرتا ہے ۔(10)
اس بات کی کوئی دلیل  نہیں  کہ یہ لوگ صحابہ  ہیں اگرچہ ہم ہرصحابی  کو عادل سمجھیں  ۔اگر یہ فرض  بھی کرلیا جائے کہ اس کے چچے صحابہ تھے  تب بھی کسی صحابی کی موقوف روایات ( وہ روایات جن کا سلسلہ رسول اللہ ﷺ پر منتہی نہ ہوتا ہو ) حجت نہیں  ہیں  کیونکہ  اس  بات کی کوئی ضمانت  نہیں کہ اس  صحابی نے رسول اللہﷺ سے روایت کی ہو ۔
دوسری سند درج ذیل راویوں پر مشتمل ہے  جن کی روایت حجت نہیں ہے :
۱۔ محمد بن اسحاق  بن یسار
۲۔ محمد بن ابراہیم بن حارث  تیمی
۳۔ عبداللہ بن زید
ان سب کے بارے میں آپ  قبل ازیں بخوبی جان چکے ہیں ۔
تیسری سند  کا ایک راوی  علی بن شہاب  زہری ہے  جو سعید بن مسیب  متوفی ۹۴ ھ  سے  اور وہ  عبد اللہ بن زید سے نقل کرتا ہے  جبکہ آپ جان چکے ہیں  کہ اس نے  عبد اللہ بن زید  کو نہیں پا یا تھا ۔ (11)
د۔ دار قطنی  کی روایت
دار قطنی نے اذان کے خواب  کو کئی  اسانید کے ساتھ  نقل کیا ہے جو یہ ہیں :
پہلی سند : ہمیں محمد بن یحیی  بن مرد  اس نے خبر دی کہ  اس نے ابو داؤد  سے ، اس نے عثمان بن ابی شیسہ  سے ، اس نے  حماد بن  خالد  سے ، اس نے محمد بن عمر و سے ، اس نے محمد بن عبد اللہ سے  اور اس نے اپنے چچا عبد اللہ  بن زید سے  نقل کیا ہے کہ ....
 دوسری سند : ہمیں محمد بن یحیی  نے خبر دی کہ  اس نے ابو داؤد  سے ، اس نے عبد اللہ بن عمر سے ، اس نے عبد الرحمن  بن مہدی  سے  اس نے محمد بن  عمرو  سے  اور اس نے  عبد اللہ بن محمد سے  نقل کیا ہے  کہ اس نے کہا : میرے دادا  عبدا للہ بن زید  نے یہ روایت....(12)
ان دونوں سندوں کا ایک راوی  محمد بن عمر وہے ۔ اس سے مراد یا تو محمد بن عمر و  انصاری ہے  جس سے اس روایت  کے سوا  صحاح  و مسانید میں کوئی اور روایت منقول نہیں ہے۔ چنانچہ ذہبی کہتے ہیں : وہ غیر معروف ہے یا ابو سہیل  محمد بن  عمرو انصاری ہے جسے  یحیی بن قطان ،ابن معین اور  ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ (13)
تیسری سند :  ابو محمد بن  ساعد  نے ہمیں خبر دی  کہ اسے حسن بن یونس  نے ، اسے اسود بن  عامر  نے  اور اسے  ابوبکر  بن عیاش نے  خبر دی کہ  اعمش نے عمر و بن مرۃ  سے ، اس نے عبد الرحمن بن  ابی لیلی سے  اور اس  نے معاذ  بن جبل سے  نقل کیا ہے کہ ایک انصاری ( یعنی عبد اللہ بن  زید ) نبی کے پاس آیا  اور کہنے لگا : میں نے خواب دیکھا ....(14)
تبصرہ : یہ سند منقطع ہے کیونکہ حضرت معاذ بن جبل ۱۸ھ یا ۲۰ ھ میں وفات پاگئے تھے جبکہ عبد الرحمن بن ابی لیلی ۱۷ھ  میں پیدا ہوئے تھے ۔ علاوہ ازین دارقطنی نے  عبد الرحمن کو  ضعیف قرار  دیتے ہوئے کہا ہے : اس کی حدیث ضعیف ہے  اور اس کی یا ددا شت  خراب ہے  اور یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ابن ابی  لیلی  نے عبد اللہ بن  زید سے  حدیث سنی ہو ۔ (15)
اذان کےخواب سے مربوط  روایات کی بحث  یہاں مکمل ہوگئی اور  یہ بات واضح ہو گئی  کہ یہ کہنا  درست نہیں  کہ اذان  کو شریعت کا حصہ بنانے  کی وجہ  عبد اللہ بن زید  یا عمر بن خطاب یا کسی اور کا خواب تھا  نیز اس خواب پر مشتمل  احادیث  کے درمیان تعارض پایا جا تا  ہے ، ان کی اسناد درست  نہیں ہیں  اور ان  کے  ذریعے  کوئی چیز ثابت  نہیں ہوسکتی ۔
علاوہ ازیں ہم  اس بحث کے  آغاز میں  کہہ چکے ہیں  کہ یہ بات عقل سے بھی منافات  رکھتی ہے ۔
---
حوالہ جات:
۱- مسند  امام احمدبن حنبل ،ج۴،ص ۶۳۲ ،۶۳۳ ،ح۱۶۰۴۱ ،۱۶۰۴۲ ،۱۶۰۴۳ ۔
۲ ۔دیکھئے ذہبی کی میزان الاعتدال ،ج۲،ص ۱۰۰ ، حدیث نمبر ۲۹۹۷۔
۳ ۔دیکھئے سنن دارمی ،ج۱،ص ۲۸۷، باب بدء الاذان ۔
۴۔دیکھئے  مالک کی الموطا ،ص ۴۴ ،باب ماجاء فی النداء للصلاۃ ،نمبر ۱۔
۵ ۔دیکھئے ذہبی کی سیراعلام النبلاء ،ج۵،ص ۴۶۸،احوال نمبر ۲۱۳۔
۶ ۔ دیکھئے ابن سعد کی الطبقات الکبری ،ج۱،ص ۲۴۶۔۲۴۷ ۔
۷ ۔ دیکھئے ذہبی کی اعلام النبلاء ،ج۲،ص ۳۷۵،نمبر ۷۹ ۔اس کی تفصیل آگے آئے گی ۔
۸۔دیکھئے جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال ،ج۲۷، ۵۰۸ ، نمبر ۵۹۲۵۔
۹ ۔ایضا ،ج۲۶،ص ۴۳۹ ۔ ۴۴۰۔
۱۰۔دیکھئے ابن حجر کی التہذیب ،ج ۱۲،ص ۱۸۸،نمبر ۸۶۷ ۔
۱۱ ۔ دیکھئے سنن بیہقی ،ج۱،ص ۵۷۵ ،نمبر ۱۸۳۷ ۔
۱۲ ۔ دیکھئے سنن دار قطنی ،ج۱،ص ۲۴۵ ، نمبر ۵۷ ۔
۱۳ ۔ دیکھئے ذہبی کی میزان الاعتدال،۳/۶۷۴،ح۸۱۷،۸۱۸ نیز جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال ،ج۲۶،ص ۲۲۰ ، حدیث ۵۵۱۶  نیز ابن حجر کی تہذیب التہذیب  ،ج۹،ص ۳۷۸ ، حدیث ۶۲۰ ، مطبوعہ دار صادر ۔
۱۴۔ دیکھئے سنن دار قطنی ،ج۱،ص ۲۴۲ ، حدیث ۳۱ ۔
۱۵ ۔ دیکھئے سنن دار قطنی ،ج۱،ص ۲۴۲ ، حدیث ۳۱ ۔

--

نام کتاب: اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت
اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت  (۱۹)
موضوع : فقہ
مولف :شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی  ۔مترجم : شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:شیخ سجاد حسین- کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ -ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں