امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے- قسط -۷

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے- قسط -۷

صحیح بخاری  کی روایت صریحا  کہتی ہے کہ نبی کریمﷺ  نے مشورے  کی نشست میں بلال کو حکم دیا  کہ وہ بلند آواز سے نماز کا اعلان  کرے ۔

 جب نبی یہ حکم دے رہے تھے تو حضرت عمر وہاں حاضر تھے  ۔

چنانچہ  بخاری ابن عمر سے نقل کرتےہیں  : جب مسلمان  مدینہ آئے تو وہ جمع ہوکر نماز کے وقت کا انتظار کرتے تھے اور نماز کے لئے آواز دینے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا  ۔ایک دن انہوں نے اس بارے میں  گفت وشنید کی ۔ پس ان میں سے بعض نے کہا : آپ بھی نصاریٰ کے ناقوس کی طرح  ناقوس سے استفادہ کریں ۔ادھر بعض نے کہا : نہیں بلکہ یہودیوں  کی طرح بگل بجانا چاہیے ۔تب عمر نے کہا : کیا آپ لوگ کسی آدمی کو نہیں  بھیج سکتے جو پکار کر نماز کا اعلان کرے ؟ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے بلال !  اُٹھو  اور نماز  کا اعلان  کرو  ۔(۱)

جن احادیث میں  خواب کا ذکر ہے وہ صریحا ً بتاتی ہیں  کہ مشورے کے (کم از کم ) ایک دن بعد  جب عبد اللہ بن زید  نے رسول اللہﷺ کو اذان کے بارے میں اپنے خواب کی خبر دی تھی تو رسول اللہﷺ نے فجر  کے وقت بلال کو اذان دینے کا حکم  دیا تھا ۔اس وقت حضرت عمر حاضر  نہیں تھے  بلکہ انہوں نے اپنے گھر میں اذان  کی آواز سنی تھی اور وہ اپنی  چادر گھیسٹتے ہوئے نکلے تھے ۔اس وقت وہ کہہ رہے تھے : اے اللہ کے رسول ! قسم ہے اس کی جس  نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے  بہ تحقیق میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے ۔

یہاں ہمارے لئے  اس بات کی گنجائش  نہیں  کہ ہم بخاری کی روایت کو  ’’الصلاۃ جامعۃ ً ‘‘ کے اعلان پر حمل کریں  اور خواب  والی روایات کو اذان کے اعلان پر حمل کریں  کیونکہ ایک تو یہ جمع بلا دلیل ہے ، ثانیاً  اگر نبی نے بلال کو بلند آواز سے ’’الصلاۃ جامعۃ ً‘‘  کہنے کا حکم  دیا ہو تو اس سے گتھی سلجھ سکتی ہے اور شک دور ہوسکتا ہے خاص کر اس صورت  میں  کہ الصلاۃ جامعۃ کا تکرار کیا  گیا ہو ۔ اس صورت میں  شک و تردّد کا موضوع ہی ختم ہوجاتا ہے ۔یہ اس بات کی  دلیل ہے کہ رسول اللہ   ﷺنے بلال کو بلند آواز سے شرعی اذان دینے کا حکم دیا تھا ۔(۲)

مذکورہ بالا چار جہات  میں  ہم نے ان احادیث کے متن اور مضمون کا تحقیقی جائزہ لیا ہے  ۔اس جائزے سے بطور کافی یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث قابل وثوق  اور معتبر نہیں  ہیں ۔

اس کے بعد اب ہم  یہاں ان احادیث کی اسناد  کا یکے بعد دیگرے جائزہ لیں گے  ۔

یہ احادیث یا تو ’’موقوف ‘‘ ہیں  جن کی سند رسول  اکرمﷺ   تک متصل نہیں   یا مسند ہیں  جن کے راوی مجہول ،مجروح  ،ضعیف اور متروک ہیں ۔

یہاں  ہم سابقہ ترتیب کے مطابق وضاحت پیش کریں  گے ۔

پہلی روایت کا جائزہ

یہ ابو داؤد  کی روایت ہے جو ضعیف ہے کیونکہ :

۱۔ یہ روایت ایک مجہول راوی  یا کئی مجہول  راویوں  پر منتہی ہوتی ہے  کیونکہ سلسلہ سند  میں  کہا گیا ہے : اس کے انصاری چچوں سے .....

۲۔اسے ابو عمیر بن انس نے اپنے چچوں  سے نقل کیا ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے : اس  نے روئت ہلال اور اذان کے بارے میں  اپنے  انصاری چچوں  سے جو رسول کے اصحاب تھے  روایت کی ہے ۔

ابن سعد  اس کے بارے میں  کہتے ہیں  : وہ ثقہ  تھا لیکن  اس کی احادیث  کی مقدار کم ہے ۔

ابن عبد  البرّ کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور اس (کی روایت) سے استدلال  نہیں کیا جاسکتا ۔(۳)

مزی  رقمطراز ہیں  : اس نے دو چیزوں  یعنی رویت ہلال اور اذان کے بارے میں یہی کچھ نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے کوئی چیز منقول نہیں ہے۔(۴)

دوسری روایت  کا جائزہ

  اس حدیث کی سند میں ایسے  راوی موجود ہیں  جن  کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا مثلاً   :

۱۔ابو عبد اللہ محمد بن  ابراہیم  بن حارث بن خالد  تیمی  جس کی وفات ۱۲۰ ھ کے آس پاس  واقع  ہوئی ۔

ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد  بن حنبل  سے نقل کیا ہے : میں نے اپنے  والد ( احمدبن حنبل ) کو (محمد بن ابراہیم تیمی مدنی کا ذکر کرنے کے بعد ) یہ  کہتے سنا : اس کی روایت میں  گڑ بڑ ہے ۔ وہ منکراحادیث نقل  کرتا ہے ۔(۵)

۲۔محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار ۔اہل سنت اس  کی روایات سے استدلال نہیں کرتے اگرچہ سیرت ابن ہشام کا دار و مدار اسی ( ابن  اسحاق  ) پر ہے ۔

احمدبن ابی خیثمہ کہتے ہیں : جب یحیی بن معین  سے ابن اسحاق کے بارے میں  پوچھا گیا تو یحیی نے کہا : وہ میری نظر میں  ضعیف  اور سقیم  ہے ۔وہ قوی راوی نہیں ہے ۔ابو الحسن  میمونی  کا  بیان ہے : میں نے یحیی بن معین کو یہ کہتے سنا : محمد  بن اسحاق ضعیف ہے ۔ نسائی نے کہا ہے : وہ قوی نہیں  ہے ۔(۶)

۳۔ عبد اللہ بن زید۔   اس کے بارے میں   یہی کافی ہے کہ وہ بہت کم روایت کرتا ہے ۔ ترمذی کہتے ہیں : ہمیں  معلوم نہیں  ہے کہ حدیثِ  اذان کے علاوہ اس نے رسول اللہ سے کوئی صحیح حدیث نقل کی ہو ۔ حاکم کہتے ہیں : درست یہ ہے کہ وہ اُحد میں  قتل ہوئے ۔

عبد اللہ کی ساری روایات منقطع (وہ روایات جن کا سلسلۂ سند نبی  یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔

ابن عدی  کہتے ہیں  : حدیث اذان  کے علاوہ  ہمیں  اس کی کسی روایت کا علم نہیں جو اس نے رسول اللہﷺ  سے نقل کی ہو ۔ (۷)

زندی  نے بخاری سے روایت کی ہے : ہمیں  حدیث اذان کے علاوہ اس کی کسی حدیث کا علم نہیں ۔(۸)

حاکم کہتے ہیں : عبد اللہ  بن زید وہی ہے جس نے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا اور  مسلمان فقہاء  نے اسے قبول کیا ۔ صحیحین نے  اس روایت کو نقل نہیں  کیا ہے  کیونکہ نقل کرنے والوں  نے اس کی اسانید میں  اختلاف کیا ہے ۔(۹)

تیسری روایت کا جائزہ

  اس کی سند  محمد بن اسحاق  یسار  اور محمد بن ابراہیم تیمی   پر مشتمل  ہے ۔ ان دونوں  کے بارے میں  آپ جان  چکے ہیں  ۔آپ یہ بھی جان چکے ہیں  کہ عبد اللہ بن زید  نے بہت کم روایت کی ہے  اور اس کی ساری روایات منقطعہ (جن کا سلسلہ نبی یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔

چوتھی روایت  کا جائزہ

۱۔ اس روایت  کا ایک راوی عبد الرحمن بن اسحاق بن عبد اللہ  مدنی ہے ۔

یحیی بن سعید قطان کہتے ہیں  :  میں  نے مدینہ  میں  اس کے بارے میں  پوچھا اور دیکھا کہ  وہاں  کے لوگ اس کی تعریف نہیں کرتے ۔ علی بن  مدینی  بھی کہتے ہیں : علی کا  بیان ہے : جب سفیان سے عبد الرحمن  کے بارے میں  پوچھا گیا  تو میں نے سفیان سے سنا : وہ( عبد الرحمن ) قدری تھا ۔(اس  کا تعلق مذہب قدریہ سے تھا ) چنانچہ مدینہ والوں  نے اسے شہر بدر کردیا  ۔ پس  وہ ہمارے پاس یہاں  (شام )  آگیا   جو ولید کی قتل گاہ ہے ۔لیکن  ہم اس کے ساتھ نہیں رہتے۔

ابو طالب  کہتے ہیں  : میں نے احمد بن  حنبل  سے اس کے بارے میں  پوچھا  تو انہوں نے فرمایا : اس  نے ابو زناد  سے منکر احادیث نقل  کی ہیں ۔

احمد بن عبد اللہ عجلی کہتے ہیں  : اس کی روایت  لکھی تو جاتی ہے لیکن  قوی نہیں ہے ۔

ابو حاتم  کہتے ہیں : اس کی حدیث لکھی تو جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔

بخاری کہتے ہیں :  اس کے حافظے پر اعتماد  نہیں کیا جاسکتا  ۔مدینہ  میں اس کے کسی شاگرد کا سراغ نہیں  ملتا سوائے موسی زمعی کے ۔ موسی نے اس سے کچھ چیزیں  نقل کی ہیں  جن میں سے بعض  میں  اضطراب پایا جاتا ہے ۔ ( اضطراب یہ ہے کہ راوی کو متن  یا  راویوں  کی ترتیب  یاد نہ ہو۔   مترجم)

دار قطنی  کا بیان  ہے : وہ ضعیف  ہے ۔ اس پر قدری ہونے کا الزام ہے ۔ احمد بن  عدی کہتے ہیں  : اس کی روایت  ناقابل  قبول  چیزوں  پر مشتمل ہے اور اس کی متابعت نہیں کی جاسکتی ۔ (۱۰)

۲۔ محمد بن  عبد اللہ واسطی ۔ اس کا تعارف جمال الدین مزی یوں پیش کرتے ہیں :  ابن معین کاکہنا ہے :  اس کی کوئی حیثیت  نہیں  ہے ۔ابن معین اس کی ان روایات کو ردّ کرتا ہے جو اس نے اپنے باپ سے نقل کی ہیں ۔

ابو حاتم کہتے ہیں  : میں نے  یحیی  بن معین  سے پوچھا تو اس نے کہا : وہ ایک برا اور جھوٹا آدمی ہے ۔اس نے منکرات  کو نقل کیا ہے ۔ابو عثمان سعید بن عمر بردعی نے کہا ہے :  میں نے اس (ابو زرعہ)  سے محمد بن خالد کے بارے  میں پوچھا تو اس نے کہا : وہ برا آدمی ہے ۔ ابن حبان نے اپنی کتاب  الثقات میں اس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے : وہ خطا اور اشتباہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ (۱۱)

شوکانی  اس روایت  کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس کی سند سخت ضعیف  ہے ۔  (۱۲)

----

[1] ۔ دیکھئے صحیح بخاری ،ج۱،ص ۳۰۶ ، باب بدء الاذان ،مطبوعہ دارالقلم ،لبنان ۔

۲۔ دیکھئے علامہ سید عبد الحسین شرف الدین عاملی کی النص والاجتہاد ،ص ۲۰۰، مطبوعہ اسوہ ۔

۳۔دیکھئے ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۱۲،ص ۱۸۸، نمبر ۸۶۷ ۔

۴۔دیکھئے  جمال الدین  مزّی  کی تہذیب الکمال ،ج۳۴،ص  ۱۴۲ ،نمبر۷۵۴۵ ۔

۵۔ دیکھئے تہذیب الکمال ،ج۲۴،ص ۳۰۴ ۔

۶ ۔ایضا ،ج۲۴،ص ۴۲۳، نیز دیکھئے تاریخ بغداد ،ج۱،ص ۲۲۱ ۔۲۲۴ ۔

۷۔ دیکھئے سنن ترمذی ،ج۱،ص ۳۶۱  نیز ابن حجر کی  تہذیب التہذیب  ،ج۵،ص ۲۲۴ ۔

۸۔ دیکھئے جمال الدین مزّی کی تہذیب الکمال ،ج۱۴،ص ۵۴۱ ، مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ۔

۹۔ دیکھئےمستدرک حاکم ،ج۳،ص ۳۳۶ ۔

۱۰۔دیکھئے  جمال الدین مزی کی تہذیب  الکمال ،ج۱۶،ص ۵۱۵ ،حدیث نمبر  ۳۷۵۵۔

۱۱ ۔ایضا ،ج۲۵،ص ۱۳۸ ،حدیث نمبر ۵۱۷۷۔

۱۱ ۔دیکھئے شوکانی کی  نیل الاوطار ،ج۲،ص ۴۲۔

۱۲ ۔دیکھئے شوکانی کی  نیل الاوطار ،ج۲،ص ۴۲۔

---

ماخوذ از کتاب: اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت

اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت  (۱۹)

موضوع : فقہ

مولف : شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی  ۔مترجم : شیخ محمد علی توحیدی

نظرثانی:شیخ سجاد حسین- کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری

اشاعت :اول  ۲۰۱۸ -ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک